مولانا روم ؒ کا جلالِ عشق اور پیغامِ عشق
درس نمبر 11، مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ اور تصوف(مقالہ حصہ اول)
اس بیان میں حضرت مولانا رومیؒ کی تعلیمات اور فکر پر بات فرمائی گئی ہے، جہاں عشقِ حقیقی کو انسان کی روحانی ترقی کا مرکز و محور قرار دیا گیا ہے۔ بیان میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ مولانا رومیؒ کے نزدیک علم اگر محبت اور روحانیت سے خالی ہو، تو وہ انسان کو حقیقت کے قریب نہیں لے جا سکتا۔ مولانا رومیؒ کی اپنی زندگی میں شمس تبریزؒ کی صحبت نے ان کے "قال" کو "حال" میں بدل دیا، اور یہی تبدیلی ان کی تعلیمات کی بنیاد بنی۔ اس بات کو مثنوی شریف کے اشعار کے ذریعے واضح کیا گیا کہ عشقِ حقیقی انسان کو دنیاوی خواہشات اور مادی محبت کی زنجیروں سے آزاد کر کے خدا کے ساتھ ایک گہرا تعلق قائم کرنے کا ذریعہ ہے۔
بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ مولانا رومیؒ کے نزدیک عشق وہ طاقت ہے جو انسان کو روحانی بیماریوں جیسے حسد، تکبر، اور حرص سے پاک کرتی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ عشق عقل سے بلند ہے، کیونکہ عقل مادی اسباب میں الجھتی ہے، جب کہ عشق براہ راست مسبب الاسباب تک رسائی دیتا ہے۔ مولانا رومیؒ نے اپنی تعلیمات میں اس بات پر زور دیا کہ دنیا کی محبت، جو تمام روحانی بیماریوں کی جڑ ہے، اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتی جب تک انسان عشقِ حقیقی کی لذت حاصل نہ کرے۔ وہ بار بار انسان کو خدا کی محبت اور حسنِ ازل کے ساتھ وابستگی کی دعوت دیتے ہیں، اور دنیاوی محبت کو فانی اور ناپائیدار قرار دیتے ہیں۔
اس بیان میں مولانا رومیؒ کے ان اشعار کا بھی ذکر کیا گیا ہے جن میں حسن ازل کی غیرت کا ذکر ہے، اور بتایا گیا کہ ایک سچا عاشق اپنی توجہ دنیا کے بجائے خدا کی طرف مرکوز رکھتا ہے۔ مولانا رومیؒ نے انسان کو شیطان اور نفس کے مکر و فریب سے بچنے اور اپنی نظر صرف خدا پر رکھنے کی نصیحت کی۔ بیان کے اختتام پر یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ مولانا رومیؒ کی فکر کا خلاصہ یہی ہے کہ عشقِ حقیقی ہی انسان کی روحانی بلندی اور کامیابی کا راز ہے، اور اسی کے ذریعے انسان اشرف المخلوقات کے بلند مقام کو حاصل کر سکتا ہے۔