اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر 1:
نماز میں concentration خشوع یا توجہ نہیں رہ پاتی، کافی عرصے سے regular نمازی ہیں، لیکن دورانِ نماز سارے دن کے بہت سارے خیالات، یا باقی معاملاتِ زندگی کے جس کی وجہ سے ذہن ہر وقت منتشر رہتا ہے، بار بار کوشش کرنے سے بھی نماز میں توجہ نہیں بن پاتی، اکثر رکعات بھول گئیں یا باقی چیزیں بندہ بھول جاتا ہے۔ تو نماز میں توجہ کے لیے کیا کیا جائے، کیسے کوشش کی جائے؟
جواب:
یہ بہت اہم سوال ہے اور اکثر پوچھا جاتا ہے، واقعی اس کی فکر کرنی چاہیے کیونکہ خشوع نماز کا بہت اہم حصہ ہے۔ اور یہ فرمایا بھی گیا ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ پوری مسجد کے اندر کوئی ایک شخص بھی نہیں ملے گا جو خشوع والی نماز پڑھے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں اور ان کا علاج بھی ہے۔ وجوہات بے شمار ہیں، مثلاً ہمارا ذہن نماز سے باہر جس طرح مختلف چیزوں میں لگا رہے گا تو جس وقت ہم لوگ نماز میں آئیں گے تو نماز میں یکسوئی ہو جاتی ہے۔ جیسے کوئی چیز نیچے ہو، گڑھا پیدا ہو جائے تو پانی سارا اس کی طرف ہی آنا شروع ہوجاتا ہے۔ اس طرح جیسے ہی ہم لوگ اس طرف متوجہ ہوتے ہیں تو مختلف چیزیں، خیالات ہماری طرف آجاتے ہیں۔ وہ خیالات دو قسم کے ہو سکتے ہیں یعنی شیطان کی طرف سے وساوس ہوتے ہیں یا جو اپنے نفس کی طرف سے ہم کرتے ہیں وہ حدیثِ نفس کہلاتی ہے۔ اب دونوں کا علاج بھی ہے۔ اگرچہ ختم تو جس وقت ہوں گے تبھی ہوں گے، وہ تو میں نے آپ سے عرض کیا کہ ہمارا ذہن مختلف چیزوں میں پھنسا ہوا ہے۔ لہٰذا وہ چیزیں تو آئیں گی، لیکن اگر ہم لوگ اس سے بچنا چاہتے ہیں تو بچنے میں یہ ہے کہ ایک تو جو خیالات آرہے ہیں ان کی طرف ہم توجہ نہ کریں، ان کے ساتھ لڑیں نہیں، کہ کیوں آرہے ہیں؟ کیونکہ کیوں آرہے ہیں، یہ بھی آپ کی سوچ ہے اور یہ نماز کے علاوہ ہے۔ تو آپ نے ایک چیز پھر شروع کر لی، لہٰذا اس کا طریقہ یہ ہے کہ بس آپ اپنی نماز کی طرف ہی متوجہ رہیں۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے آپ راستے پہ جا رہے ہوں تو بہت سارے لوگ اور بھی جا رہے ہوتے ہیں، لیکن آپ ان کو روک نہیں سکتے، بس آپ اپنے لئے راستہ بناتے ہیں، آپ اس راستے کی طرف دیکھتے ہیں اور جارہے ہوتے ہیں، آپ ان سے بچ بچا کے نکل رہے ہوتے ہیں، آپ ان کو روک نہیں سکتے۔ اس طریقے سے مختلف آوازیں آرہی ہوتی ہیں ان آوازوں کو ہم noise کہتے ہیں۔ اس noise کے اندر ہم اپنی study بھی کرتے ہیں، اپنے کام بھی کرتے ہیں۔ تو ہم لوگ اپنے کام کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، ہم اس شور کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ تو یہ طریقہ ہم نماز کے اندر بھی سیکھیں کہ ہم شور کی طرف متوجہ نہ ہوں، ارد گرد سے جو ہمارے نفس کے اندر چیزیں آرہی ہیں یا شیطان کی طرف سے آرہی ہیں، ہم بالکل ان کی پروا نہ کریں، بس اللّٰہ کی طرف متوجہ ہوں، سب سے اچھا خیال جو ہمیں نماز کی طرف لا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ ہم یہ تصور کر لیں کہ ہم اللّٰہ پاک کے سامنے کھڑے ہیں۔ اس سے بہتر اور کوئی خیال نہیں ہے۔ لیکن اگر یہ خیال کسی کا نہیں جمتا، اس کی Proper practice نہیں ہوئی ہے، اور practice مراقبات کے ذریعے سے ہوتی ہے، یا اس کے لیے ہم جو ذکر واذکار کرتے ہیں، کیونکہ ذکر ایک قسم کی مشق ہے، اور نماز میں کئی مشقیں ہیں۔ لہٰذا جس نے یکسوئی کی مشق ذکر میں حاصل کی ہوگی اس کو وہ نماز میں استعمال کر سکتا ہے، لیکن اگر مشق نہ کی ہو تو وہ اس طرح فوراً حاصل تو نہیں ہوسکے گا۔ ایسی صورت میں پھر آپ یہ تصور کر لیں کہ میں خانہ کعبہ کے سامنے کھڑا ہوں، کیونکہ خانہ کعبہ ایک دیکھی ہوئی چیز ہوسکتی ہے۔ یعنی اگر کوئی خانہ کعبہ کو دیکھ چکا ہے تو اس کے ذہن میں اس کا نقشہ موجود ہوگا۔ لہٰذا وہ تصور کر لے کہ میں خانہ کعبہ کے سامنے کھڑا ہوں۔ ویسے بھی ہمارے پاکستان کا رخ خانہ کعبہ کے دروازے کی طرف ہے، گویا اگر درمیان سے پردے ہٹ جائیں تو ہمیں خانہ کعبہ کا دروازہ نظر آنا چاہیے۔ تو آپ یہ تصور کر لیں کہ میں خانہ کعبہ کے دروازے کے سامنے کھڑا ہوں۔ اگر آپ یہ بھی نہیں کر سکتے یا دیکھا نہ ہو تو پھر یہ کریں کہ کچے حافظ کی طرح قراءت کریں، یعنی سوچ سوچ کر قراءت کریں۔ اگر یہ بھی آپ نہیں کر سکتے تو پھر آپ باقاعدہ دل میں ہر عمل کی نیت کر لیں، زبان پر نہیں، مثلاً اب میں رکوع میں جا رہا ہوں، اب میں سجدے میں جا رہا ہوں، اب میں اٹھ رہا ہوں، یعنی ذہن میں ہر چیز کی علیحدہ نیت کریں۔ اور آخری بات یہ ہے کہ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے تھے کہ جو مستحباتِ نماز ہیں، ان کو کرنے سے لازمی خشوع حاصل ہو جاتا ہے۔ تو مستحباتِ نماز کیا ہیں؟ مثلاً میں قیام کی حالت میں کھڑا ہوں تو میں سجدے کی جگہ کو دیکھوں، زیادہ ہلوں جلوں نہیں۔ ظاہری طور پر کوئی حرکت نہ کروں، اور اگر میں بیٹھ جاؤں تو جھولی کی طرف دیکھوں، سجدے میں ہوں تو اپنے ناک کی سیدھ میں دیکھوں، اپنی انگلیوں کو بالکل قبلہ کی طرف سیدھا کر لوں، اور میرے پیروں کی انگلیاں بھی قبلہ رخ ہوں، جس کو مقدور بھر کہتے ہیں وہ بھی قبلہ ہو جائیں۔ اب میں جب ان میں مشغول ہوں گا تو یقیناً ان سے خشوع حاصل ہو جائے گا۔ لہٰذا سب سے کم درجہ یہ ہے کہ آدمی مستحباتِ نماز کی طرف توجہ رکھے، اِنْ شَاءَ اللّٰہ ان سے لازمی خشوع حاصل ہو جائے گا۔ باقی اگر آپ اس کی طرف لگے رہیں گے تو اِنْ شَاءَ اللّٰہ اس کے اندر رسوخ آتا جائے گا، اور ایک وقت اِنْ شَاءَ اللّٰہ ایسا بھی آئے گا کہ واقعی خشوع والی نماز مل جائے گی۔
سوال نمبر 2:
حضرت ابھی آپ نے یہ ارشاد فرمایا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے قوانین بنائے ہوئے ہیں اور sometimes اللّٰہ تعالیٰ انہیں کسی مصلحت کی وجہ سے خود ہی توڑ بھی دیتے ہیں، جیسے کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کے اوپر اللّٰہ تعالیٰ نے آگ کو امن والا کر دیا، آپ نے اس کے لیے ایک substitution use کیا تھا سنت کے ساتھ کوئی لفظ بولا تھا؟
جواب:
سنتِ عادی، یہ عادت سے ہے۔ جیسے ہم کہتے ہیں عادت، تو اللّٰہ تعالیٰ کی یہ عادت ہے۔ یعنی اللّٰہ تعالیٰ ایسا کرتا ہے۔
سوال نمبر 3:
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ! میرا سوال یہ ہے کہ تصوف کی کیا حقیقت ہے اور قرآن وحدیث، صحابہ کرام کی زندگی یا تابعین کی زندگی سے اس کی کوئی دلیل ملتی ہے؟
جواب:
بہت اچھا سوال ہے۔ اصل میں تصوف کے نام پر ہم نہ جائیں، تصوف کے کام پر جائیں تو قرآن پاک اور حدیث میں سب کچھ موجود ہے۔ کیونکہ نام secondary چیز ہے، یہ تو صرف پہچان کے لئے ہے۔ مثلاً اس کو راولپنڈی کہتے ہیں، تو اس کی آپ کیا دلیل دیں گے کہ راولپنڈی کیوں ہے؟ بس اس کا نام پڑ گیا۔ اسی طرح اسلام آباد کو اسلام آباد کہتے ہیں۔ بلکہ بعض دفعہ ایسے نام بھی رکھے جاتے ہیں کہ انسان دل سے نہیں چاہتا اس طرح کا نام ہو۔ جیسے صوبہ سرحد میں ایک جگہ کا نام ڈنگر زئی تھا یعنی جانوروں کی اولاد۔ اب وہ بیچارے بہت پریشان تھے کیا کرتے اس کے ساتھ، تو ناموں پر ہم نہ جائیں بلکہ کام پر جائیں تو پھر قرآن سے بھی سن لیں اور حدیث شریف سے بھی سن لیں۔ قرآن پاک میں سورۂ شمس میں اللّٰہ پاک فرماتے ہیں:
﴿وَالشَّمْسِ وَضُحٰىهَاۙ وَالْقَمَرِ اِذَا تَلٰىهَاۙ وَالنَّهَارِ اِذَا جَلّٰىهَاۙ وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰىهَاۙ وَالسَّمَآءِ وَمَا بَنٰىهَاۙ وَالْاَرْضِ وَمَا طَحٰىهَاۙ وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰىهَاۙ فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوٰىهَاۙ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَاۙ وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَاؕ﴾ (الشمس: 10-1)
ترجمہ: ’’قسم ہے سورج کی اور اس کی پھیلی ہوئی دھوپ کی۔ اور چاند کی جب وہ سورج کے پیچھے پیچھے آئے۔ اور دن کی جب وہ سورج کا جلوہ دکھا دے۔ اور رات کی جب وہ اس پر چھا کر اسے چھپا لے۔ اور قسم ہے آسمان کی، اور اس کی جس نے اسے بنایا۔ اور زمین کی اور اس کی جس نے اسے بچھایا۔ اور انسانی جان کی، اور اس کی جس نے اسے سنوارا۔ پھر اس کے دل میں وہ بات بھی ڈل دی جو اس کے لیے بدکاری کی ہے، اور وہ بھی جو اس کے لیے پرہیزگاری کی ہے۔ فلاح اسے ملے گی جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے۔ اور نامراد وہ ہوگا جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے‘‘۔
اللّٰہ پاک نے سات بڑی بڑی قسمیں کھائیں، جس کے جواب کے طور پر اللّٰہ پاک نے نفس کی دو صلاحیتیں بتا دیں، ایک یہ کہ نفس کے اندر میں نے دو چیزیں رکھی ہیں۔ ایک اس کے اندر فجور ہے یعنی جو نافرمانی کے جذبات ہیں۔ اور دوسرا اس کے اندر تقوٰی ہے، یعنی نافرمانی کے جذبات کو دبایا جائے تو اس کو تقوٰی کہتے ہیں۔ اب ہمارے اوپر یہ بات چھوڑ دی گئی کہ آیا ہم تقوٰی لینا چاہتے ہیں یا فجور۔ اگر کوئی فجور لینا چاہتا ہے تو اس کا بھی اثر ہوگا، اور اگر تقوٰی لینا چاہتا ہے تو اس کا بھی اثر ہوگا۔ پھر اللّٰہ پاک نے اس کے دو نتیجے بیان فرمائے ہیں: ﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَاۙ﴾ (الشمس: 9) جس نے تقوٰی حاصل کیا یعنی فجور سے اپنے دل کو پاک کر لیا، اپنے نفس کو پاک کر لیا، پھر کیا ہوگا؟ اللّٰہ پاک نے اعلان فرما دیا: یقیناً کامیاب ہوگیا۔ حیرت کی بات ہے کہ یہاں پر شیطان کا ذکر ہی نہیں ہے، یعنی جس شخص نے اپنا نفس شیطان سے پاک کر لیا اس شیطان کا ذکر بھی اس میں نہیں ہے۔ اس سے پتا چلا کہ جب نفس پاک ہو جاتا ہے تو شیطان کے ہاتھ پیر کٹ جاتے ہیں، پھر شیطان کچھ نہیں کر سکتا۔ تو اس کا مطلب ہے اصلاحِ نفس مکمل کی مکمل چیز ہے اور یہ فرمایا: ﴿وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَاۙ﴾ (الشمس: 10) اصل میں ڈرنے والی چیز یہ دوسری آیت ہے۔ فرمایا: یقیناً تباہ وبرباد ہوگیا وہ شخص جس نے اپنے نفس کو اپنے حال پر چھوڑ دیا۔ اس سے علماء کرام نے یہ نکتہ نکالا ہے کہ اگر نفس پر اصلاح کی محنت نہ ہو تو جو اس کے فجور ہیں وہ سامنے آئیں گے، جس کو نفسِ امّارہ کہتے ہیں۔ نفسِ امّارہ کے بارے میں قرآن بتاتا ہے کہ یہ تو برائی کی طرف ہی مائل کرتا ہے۔ لہٰذا جس نے بھی اپنے نفس کی اصلاح نہیں کی اور وہ نفسِ امّارہ رہا، تو وہ بالکل تباہ وبرباد ہوگیا۔ اس وجہ سے نفس پر محنت نہ ہونا یہ تباہی ہے، اگر نفس پر اچھائی کی محنت کی جائے گی تو یقیناً فائدہ ہے۔ اب ہم لوگ نفس کے رذائل دبانے کی محنت کو تصوف کہتے ہیں۔ ہم کیوں اس کو تصوف کہتے ہیں؟ تو یہ ایسے ہی ہے جیسے کہا جائے کہ راولپنڈی کو راولپنڈی کیوں کہتے ہیں؟ ظاہر ہے نام اس طرح رکھا گیا ہے۔ تصوف پر بڑوں کی جتنی بھی کتابیں دیکھیں گے، مثلاً حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی، خواجہ شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی، امام غزالی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی کیمیائے سعادت ہے یا احیاء العلوم ہے، امام مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے مکتوبات شریف ہیں، یا شاہ ولی اللّٰہ رحمۃ اللّٰہ علیہ کی کتابیں ہیں۔ جن بزرگوں نے بھی تصوف پر کتابیں لکھی ہیں ان سب میں یہی بات لکھی ہوئی ہے کہ اصل تصوف یہی ہے۔ باقی اس کے لیے طریقہ کار کیا ہے، اس میں تفصیلات ہیں۔ اس لیے اس کو طریقت بھی کہتے ہیں، کیونکہ اس میں طریقے ہیں اور یہ تفصیلات ہیں کہ آپ دل کی صفائی کیسے کریں گے، نفس کو کیسے پاک کریں گے۔ یہ تفصیلات کتابوں میں اگر آپ دیکھنا چاہتے ہیں تو ہماری website ہے tazkia.org اس میں اَلْحَمْدُ لِلّٰہ 3 sections ہیں۔ عقائد، فقہ اور تصوف۔ تصوف کو آپ کلک کریں گے تو اِنْ شَاءَ اللّٰہ بالکل ابتدا ہی سے یہ بات آجائے گی، پھر اس کے بعد اِنْ شَاءَ اللّٰہ آگے بڑھتے جائیں گے تو باقی تفصیلات بھی آجائیں گی۔ تو تصوف کے متعلق قرآن سے یہ بتا دیا ہے۔ باقی حدیث شریف میں ہے کہ آپ ﷺ سے تین سوال پوچھے گئے تھے، پہلا سوال ایمان کیا ہے؟ دوسرا سوال اسلام کیا ہے؟ اور تیسرا سوال احسان کیا ہے؟ ایمان کے جواب میں آپ ﷺ نے ایمان کے شعبے بتا دیے، اسلام کے جواب میں اسلام کے ارکان بتا دیے، اور احسان کے جواب میں فرمایا:
’’أَنْ تَعْبُدَ اللّٰهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ فَإِنْ لَّمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهٗ يَرَاكَ‘‘ (صحیح مسلم: 97)
ترجمہ: ’’تو ایسے عبادت کر جیسے تو خدا کو دیکھ رہا ہے اور اگر تو خدا کو نہیں دیکھ پا رہا (یعنی آپ کو اتنی صلاحیت حاصل نہیں ہے) تو یہ یقین کر لو کہ بے شک خدا تجھے دیکھ رہا ہے‘‘۔
حدیث شریف میں اسی کو کیفیتِ احسان کہا گیا ہے اور کیفیتِ احسان کو حاصل کرنے کا نام تصوف ہے۔ مقصد یہ ہے کہ حدیث شریف میں اس کو احسان کہا گیا ہے، قرآن میں اس کو تزکیہ کہا گیا ہے اور عوام نے اس کو تصوف کہہ دیا۔ چیز ایک ہے نام اس کے کئی ہو سکتے ہیں۔
سوال نمبر 4:
ذکر کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے مثلاً یہاں پہ ہی ایک مجلس میں ایک حضرت تھے مجھے نام نہیں یاد، انہوں نے کہا کہ آپ درود شریف کا ذکر جتنا مرضی کثرت سے کر سکتے ہیں اس میں کوئی limits نہیں ہیں، لیکن جب آپ اللہ کا ذکر کریں گے یا لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا ذکر کریں تو 200 دفعہ یا اتنی دفعہ counted کرنے کی اجازت دیتا ہوں، اس سے زیادہ آپ Under some teacher یا کسی کے کنٹرول میں کریں۔ تو وہ restrictions کیوں ہیں، اللّٰہ کا ذکر آپ بے حساب کیوں نہیں کرسکتے؟
جواب:
سُبْحَانَ اللّٰہ بہت اچھا سوال ہے، اس لحاظ سے کہ عملی سوال ہے۔ دیکھیں restriction اس پر بھی نہیں ہیں۔ کیونکہ قرآن کریم میں ہے:
﴿اُذْكُرُوا اللّٰهَ ذِكْرًا كَثِیْرًا وَّسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّاَصِیْلًا﴾ (الأحزاب: 41۔42)
ترجمہ: ’’اللہ کو خوب کثرت سے یاد کیا کرو۔ اور صبح و شام اس کی تسبیح کرو‘‘۔
اب قرآن پاک میں نہ تو ہم کچھ کہ سکتے ہیں، نہ کوئی اور کچھ کہ سکے گا، اور نہ ہی وہ صاحب کچھ کہہ سکیں گے۔ لہٰذا ذکر کے بارے میں اللّٰہ پاک نے فرمایا کہ کثرت کے ساتھ اللّٰہ کا ذکر کرو۔ تفصیلات تو پھر علمائے کرام بتاتے ہیں۔ ذکر کی دو قسمیں ہیں: ایک ذکرِ ثوابی ہے یعنی اجر والا، وہ کثرت سے کرنا ہے اور ایک علاجی ذکر ہے۔ آپ حضرات کو شاید علم ہوگا کہ مفتی منیب الرحمان صاحب اور کچھ اور علماء کسی کے گھر گئے تھے اور بتا رہے تھے کہ وہاں انہوں نے حلوہ کھایا تھا اور سب ہسپتال پہنچ گئے۔ دراصل وہ حلوہ نہیں کشتہ تھا۔ بعد میں پتا چلا وہ کشتہ کسی نے ان مولانا کو بھیجا تھا، انہوں نے پہلی دفعہ کھولا تو ان کو پتا نہیں چلا، انہوں نے کشتہ سب کو کھلایا۔ اب کشتہ تو کشتے کی مقدار میں کھانا ہوتا ہے، وہ تو آپ بہت زیادہ نہیں کھا سکتے۔ تو سب نے حلوہ سمجھ کے کھا لیا، نتیجتاً ہسپتال پہنچ گئے۔ تو جو ذکرِ علاجی ہے وہ کشتے کی طرح ہے۔ جتنی مقدار میں حکیم یا ڈاکٹر نے بتایا ہوتا ہے اتنا کھانا ہوتا ہے، اتنا استعمال کرنا ہوتا ہے، اس سے زیادہ کیا تو مسئلہ ہے۔ تو حضرت نے غالباً یہی بات کی ہوگی، آپ کو سمجھ نہیں آئی ہوگی یا انہوں نے شاید تفصیلات نہیں بتائی ہوں گی۔ لیکن بہرحال جو ممنوع ہے وہ ذکرِ علاجی ہے۔ ذکرِ علاجی کی ایک خاص مقدار ہوتی ہے۔ مثلاً یہاں پر ہمارے ساتھی ہیں جن کو میں ذکر بتاتا ہوں، جیسے یہ ہیں اور مولانا صاحب، اور دوسرے حضرات بھی ہیں، ان کو میں آہستہ آہستہ بڑھا رہا ہوں یعنی پہلے تسبیحات دیں، پھر اس کے بعد 100 ,100 دفعہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘، ’’اِلَّا اللّٰہ‘‘، ’’اَللّٰهُ اَللّٰه‘‘ اور ’’اَللّٰہ‘‘ پھر اس کے بعد 200, 200 ,200 اور 100 پھر اس کے بعد ,200 ,300 ,300 ,100 اس طرح آہستہ آہستہ بڑھا رہے تھے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر پہلے دن میں زیادہ کر دوں تو بس پھر معاملہ خراب ہو سکتا ہے۔ اس وجہ سے علاجی ذکر ڈاکٹر کے زیرِ نگرانی ہے یعنی جو اس کے ڈاکٹر وحکیم ہیں ان کے زیرِ نگرانی ہوں گے۔ اتنی مقدار میں کریں جتنا بتایا جاتا ہے، اس سے آگے پیچھے کرنے کی ذمہ داری اس شخص کی اپنی ہے۔ ہمارے ایک ساتھی ہیں انہوں نے اپنے سسر کو ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ کا ذکر ستر ہزار مرتبہ کرنے کا بتایا، خیر ستر ہزار مرتبہ اگر وہ آرام سے ذکر کرتے تو اس سے کچھ نہ ہوتا، لیکن بوڑھے آدمی تھے ان کو جوش آگیا، اور جوش میں جس طرح ہم کرتے ہیں ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ زور سے اس طرح کرنے لگے تو ان کے ساتھ بھی مسئلے ہو گئے۔ مقصد یہ ہے کہ جو طریقہ بتایا جائے اور جتنی مقدار اور جتنی دیر کا بتایا جائے، اس سے آگے پیچھے نہیں کرنا، ورنہ پھر مسائل ہو سکتے ہیں۔
سوال نمبر 5:
پھر ثوابی اور علاجی میں کیسے difference کیا جائے؟
جواب:
ثوابی میں کوئی خاص طریقہ نہیں ہوتا آپ صرف زبان سے کر رہے ہوتے ہیں، جیسے ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللّٰه‘‘، درود شریف پڑھتے ہیں، قرآنِ پاک پڑھتے ہیں۔ لیکن جو علاجی ہوتا ہے وہ خاص طریقے سے کرنا ہوتا ہے، جیسے ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ یہ علاجی ہے۔ یہ اگر میں اتنا کروں جو میری مقدار سے زیادہ ہو گا تو اس سے مسائل ہوں گے۔ حضرت نے میری غالباً سولہ سال تک چار تسبیحات سے نہیں بڑھائی تھیں، میں جب بھی عرض کرتا تو حضرت فرماتے: آپ کے پاس time ہے؟ تو میں چپ ہوجاتا، فرمایا بس ٹھیک ہے تمہارے لیے یہی کافی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ حضرت کو اندازہ تھا کہ اگر میں نے اس سے زیادہ بڑھا دیا تو یہ مجذوب بن جائے گا۔ مجذوب کا عمل ختم ہوجاتا ہے، وہ جس مقام پر ہوتا ہے، وہ اس مقام پر رک جاتا ہے۔ لہٰذا بلاوجہ مجذوب نہیں بنانا۔ جو آپ کو بتایا گیا اس کی وجہ ہے۔ اگر آپ کسی شیخ کے ساتھ رابطہ رکھ لیں جو بھی آپ کے شیخ ہوں ان سے پوچھتے رہیں۔ وہ آپ کو طریقہ بتائیں گے اس طریقہ کے مطابق کرتے رہیں، تو درمیان میں علاجی، ثوابی کا آپ کو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہوگا، ِانْ شَاءَ اللّٰہ۔
سوال نمبر 6:
مختلف بزرگ مختلف قسم کے اذکار بتاتے ہیں، اس میں کیا مصلحت ہے؟
جواب:
دیکھیں مختلف تو یقیناً ہے، لیکن مختلف کی جو ranges ہیں وہ میں عرض کرتا ہوں۔ ایک Broad classification ہے، اور دوسری By detail classification ہوتی ہے۔ تو Broad classification میں حکیم، ایلوپیتھی، ہومیوپیتھی، acupuncture ان سب کے اصول مختلف ہیں۔ اور اتنے مختلف ہیں کہ آدمی حیران ہوجاتا ہے کہ بھئی یہ کیا ہے۔ ہومیوپیتھی کا اصول بالکل نرالا ہے، acupuncture کا تو اس سے بھی نرالا ہے، لیکن وہ سب علاج کے طریقے ہیں۔ اور سب لوگ اس سے ٹھیک بھی ہوتے ہیں، کرتے بھی ہیں، اس پہ بڑے بڑے پیسے دیتے ہیں۔ اسی طریقے سے چشتیہ، قادریہ، سہروردیہ، نقشبندیہ ایک Broader classification ہیں۔ چشتیہ کا اپنا اصول ہے، نقشبندیہ کا اپنا اصول ہے، قادریہ کا اپنا اصول ہے، سہروردیہ کا اپنا اصول ہے۔ اور سب ٹھیک ہیں، سب کو فائدہ ہوتا ہے۔ یعنی چشتی طریقے سے بھی فائدہ ہوتا ہے، نقشبندی طریقے سے بھی ہوتا ہے، قادری طریقے سے بھی ہوتا ہے، اور ہر طریقے میں بڑے بڑے اولیاء اللّٰہ ہیں۔ ظاہر ہے ہم کسی طریقے کو نہ غلط کر سکتے ہیں، نہ undergrad کر سکتے ہیں۔ البتہ یہ ہے کہ مجھے جس طریقے سے فائدہ ہوا میرے لیے وہی اچھا ہے۔ مجھے کسی اور پہ comment نہیں کرنا چاہیے۔ مجھے جس چیز سے فائدہ ہوا جیسے اگر مجھے ہومیوپیتھی سے فائدہ ہوا تو میں ایلوپیتھی کے خلاف کیوں باتیں کروں! ممکن ہے کسی کو ایلوپیتھی سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔ تو بس یہی بات ہے۔ اور بزرگوں میں بھی تفصیل ہوتی ہے جیسے ڈاکٹروں میں تفصیل ہوتی ہے۔ مثال کے طور اب دو ڈاکٹر ایک ہی مرض کے ہیں۔ آپ ایک specialist کے پاس جائیں وہ آپ کو کچھ دوائی دے گا، دوسرے specialist کے پاس جائیں گے تو آپ کو کچھ دوائی دے گا۔ لیکن طریقہ یہ ہے کہ آپ کسی ایک ڈاکٹر پہ stay کریں، کسی ایک کو follow کریں پھر کبھی مسئلہ نہیں ہوگا۔
سوال نمبر 7:
قومی بچت سکیم کی جو آمدن ہے، کیا وہ جائز ہے؟
جواب:
یہ ہماری domain کا سوال تو نہیں ہے کیونکہ ہمارا یہ شعبہ نہیں ہے، اس سلسلے میں میرے خیال میں ایک بڑے عالم ادھر موجود ہیں، اس پر ان کی research ہے، ان سے سے استفادہ کرتے ہیں، ہمیں بھی فائدہ ہوجائے گا۔ یہ دارالعلوم کراچی کے استاد ہیں، چونکہ وہاں پر سب سے زیادہ کام ہوا ہے، اس لئے میرے خیال میں یہ سوال ان سے کریں۔
’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم‘‘ آپ کے حکم کی وجہ سے حاضر ہوگیا ہوں۔ ورنہ قومی بچت سکیم وغیرہ کے بارے میں، میں زیادہ detail سے تو نہیں بتا سکوں گا لیکن اتنا ہے کہ مختلف ناموں سے سود کی کچھ شکلیں ہوتی ہیں، نام مختلف ہوتے ہیں۔ تو سود کی ہر شکل سے بچنا چاہیے اور کسی بھی شکل میں سود کو قبول نہیں کرنا چاہیے، اسلامی بینکاری میں مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے بہت زیادہ محنت کی ہے اور ان کے بعض بینکوں کے ساتھ اس قسم کے agreements ہیں، یا وہ ان کے شرعی advisor ہیں، یا ان کے شاگرد جو بڑے مفتی ہیں وہ advisors ہیں۔ تو ان کے تحت اگر کوئی ایسی سکیم ہو اور اس میں آپ investment کریں تو وہاں پہ نام بدلنے کا کوئی ایسا سلسلہ نہیں ہوتا، بلکہ شرعی اصولوں کی بنیاد پر آپ کی investment ہوتی ہے اور آپ کو profit دیا جاتا ہے۔ باقی جیسے آپ نے عام لفظ قومی بچت استعمال کیا تو یہ عام بینکوں کا ہے۔ علماء اس کو recommend نہیں کرتے اور وہ تسلی بخش نہیں ہے۔ وہ سود ہی کی اقسام ہیں اس سے بچنا چاہیے۔
سوال نمبر 8:
کاروباری معاملات میں ایک سوال ہے! اگر آپ کوئی لین دین کا بزنس کر رہے ہیں، اس میں آپ as an agent کام کر رہے ہیں، تو اگر ایک بندہ کوئی چیز بیچنے کے لیے آپ کے پاس آتا ہے کہ مجھے کوئی customer ڈھونڈ دیں، اور وہ اپنی demand بتاتا ہے۔ آپ اس کی اس demand پہ ایک customer ڈھونڈتے ہیں، 50 کی چیز کو 60 کا ایک customer ڈھونڈ کے کہتے ہیں: بھئی تمہاری چیز 50 کی بک گئی ہے۔ اس سے ساٹھ لیتے ہیں اور commission علیحدہ لیتے ہیں، customer بھی خوش ہے کہ میں 60 پہ agree کر رہا ہوں، اور بیچنے والا بھی 50 پہ بیچنے کو تیار ہے، دونوں کو آپ معاملہ نہیں بتاتے کہ میں نے 50 سے 60 پہ بیچی ہے۔ آپ as an agent کام کر رہے ہیں تو آپ اپنا commission separate رکھ رہے ہیں، جو درمیان میں سے آپ پرافٹ رکھ رہے ہیں، اس کی کیا رائے ہے؟
جواب:
چونکہ ہم نے پہلے اعلان کیا تھا کہ سوال وجواب ہمارے تصوف کے متعلق ہوں گے۔ تو اپنے mandate سے باہر جانا خطرناک ہوتا ہے۔ اِنْ شَاءَ اللّٰہ معاملات کا جو chapter آئے گا وہ مولانا صاحب پڑھائیں گے۔
اس میں سود کے مختلف اقسام بھی آئیں گی اور اس کے بارے میں تفصیلات بھی آئیں گی، کرایہ والی باتیں بھی آئیں گی، وکالت کی باتیں بھی آئیں گی، یہ ساری باتیں اس میں آئیں گی۔ جب تک آپ کو prerequisite کا علم نہیں ہوگا تو ابھی میں آپ کو بتا بھی دوں گا تو سمجھ میں نہیں آئے گا۔ مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ سے کسی نے اس قسم کا سوال کیا تو حضرت نے فرمایا: یہ آپ کا سوال نہیں ہے، کسی طالب علم سے کہہ دیں وہ کر لے تو اس کو بتا دوں گا، وہ سمجھ بھی جائے گا، آپ کو سمجھ نہیں آئے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی prerequisite ہوتی ہیں، یعنی اس میں کچھ بنیادی باتیں ہوتی ہیں جو پہلے سے انسان کو معلوم ہوتی ہیں، جیسے اصطلاحات ہوتی ہیں۔ اصطلاحات اگر آپ کو معلوم نہیں ہیں تو آپ چل نہیں سکتے، آپ کو وہ سمجھ میں نہیں آئے گا۔ تو اس وجہ سے درجہ بدرجہ کسی چیز کو سیکھیں۔ ہمارے courses میں بھی اس طرح ہوتا ہے، انجینئرنگ میں اور میڈیکل میں کہ فلاں subject کا فلاں prerequisites ہے۔ جب تک وہ کسی نے نہ پڑھا ہو تو اگلا subject اس کو نہیں پڑھایا جاتا۔ یہ ضروری ہے کہ جو اس کے بنیادی اصول ہیں آپ کو پہلے وہ تمام باتیں مولانا صاحب سمجھا دیں گے، اس کے بعد اِنْ شَاءَ اللّٰہ آپ اول تو خود سمجھ جائیں گے اور اگر آپ خود نہ سمجھ سکے تو مولانا صاحب سے پوچھ لیں، مولانا صاحب بتا دیں گے اور مولانا صاحب کے لیے بھی بعض دفعہ کوئی معرکۃ الآراء ہوتا ہے۔ تو جو ان کے بڑے ہیں ان سے پوچھ کر آپ کو بتا دیں گے اور یہ ایک بہت بڑا اچھا platform بن جائے گا، اِنْ شَاءَ اللّٰہُ الْعَزِیْز اس کے ذریعے سے یہ ساری چیزیں حل ہوں گی۔ تو میں نے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر یہ باتیں اس لیے کیں کہ آج اس کا افتتاح ہوا ہے، اور یہ ساری چیزیں اِنْ شَاءَ اللّٰہ اس میں ہوں گی۔ ویسے ابھی ہمارا کام تو اس وقت تصوف کے بارے میں سوالوں کا جواب دینا ہے۔
سوال نمبر 9:
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔ حضور آپ نے فرمایا کہ احسان والی نماز پڑھی جائے۔ اس کی کچھ بنیادی باتیں ہمیں سمجھا دیں کہ اس میں کیا ہونا چاہیے؟
جواب:
دیکھیں! یہی بات میں نے تھوڑی دیر پہلے بھی عرض کی ہے کہ ہر سیڑھی دوسری سیڑھی کے لیے ایک بنیاد بنتی ہے۔ مثال کے طور پر آپ بالکل ابتداء میں ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ میں پندرہویں سیڑھی پہ قدم رکھوں، تو ظاہر ہے پندرہویں سیڑھی کے لیے آپ کو چودہ سیڑھیاں عبور کرنی پڑیں گی، ان کے اوپر چڑھنا پڑے گا، اس کے بعد آپ کو وہ چیز حاصل ہوگی۔ تو کیفیتِ احسان تو اس کی انتہا ہے، اور انتہا کی بات کو ابتدا میں کیسے سمجھایا جا سکتا ہے۔ حضرت مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ سے ایک عالم نے جو ان سے خوش گمانی اتنی نہیں رکھتے تھے، لیکن ان کو معلوم تھا کہ حضرت کو بڑے بڑے علماء اپنا بڑا سمجھتے ہیں اور ان کے محبوب بھی ہیں۔ لہٰذا شاہ عبدالقادر رائے پوری رحمۃ اللّٰہ علیہ کو پتا تھا کہ جو لوگ حضرت مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کا سلام ان کو بھیج دیں، تو وہ ان کو اپنے بہت قریب رکھ لیتے ہیں، اور ان کے ساتھ کافی محبت کا معاملہ کرتے ہیں۔ تو چونکہ شاہ عبد القادر رائے پوری رحمۃ اللّٰہ علیہ کا مرید تھا تو اس لئے مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے پاس آتا تھا کہ ان کا سلام لے کے حضرت کو پہنچا دے، چونکہ پہلے سے ان کے ساتھ تو وہ مناسبت نہیں تھی، تو ایک دفعہ ذرا ایسے انداز میں سوال پوچھا، مولانا: 3 دن کے بعد آؤں گا، آپ اپنا جواب تیار رکھیں، پھر مجھے آپ اس وقت بتائیں گے کہ اس کا جواب کیا ہے، یہ تصوف کیا بلا ہے؟ وہ جب جانے لگا تو حضرت نے کہا بھئی! 3 دن کی ضرورت نہیں ہے، ابھی سے جواب لے کے جاؤ، 3 دن کیا انتظار کرو گے۔ اور فرمایا کہ اس کی ابتداء تصحیحِ نیت ہے اور انتہا کیفیتِ احسان ہے۔ کہتے ہیں میں پھر سوچتا رہا لیکن اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کر سکا، وہ چیز اتنی ہی تھی۔ تو جس چیز کی انتہا کیفیتِ احسان ہو تو ابتداء میں کیسے بتایا جا سکتا ہے، اس کے اوپر کچھ محنت ضروری ہے۔ تو یہ آپ نے جس راستے کو پکڑا ہوا ہے اس کو جاری رکھیں اِنْ شَاءَ اللّٰہ اسی پہ پہنچیں گے، اور اِنْ شَاءَ اللّٰہ جب وقت آئے گا تو یہ ساری چیزیں سمجھ میں آجائیں گی۔
سوال نمبر 10:
I completed my ذکر 200 400 600 and 10 minutes on January 24 2014 and informed حضرت مدظلہ accordingly. I was directed for a new ذکر 200 400 600 and 15 minutes. However, I was not able to start new ذکر due to serious illness, throat and chest infection, fever and cough and flu. I was unable to sit but somehow managed to do the ذکر 100 100 100 and 100 for 2 days January 25 and 26 then I continued the new ذکر onwards from January 27th till date. Now I like to ask حضرت مدظلہ about the 2 days off ذکر. Is it possible to pay back those 2 days or should I continue with the new ذکر as I am doing? Please guide me.
ایک اور سوال بھی انہی کا ہے۔
Is it necessary to have وضو for recitation of the Holy Quran from a computer?
جواب:
As far as علاجی ذکر is concerned, I should say it cannot be repeated the next day because it will be double and it will exceed the limit. Therefore it's not allowed. However we can say that there is no harm in this because if someone is معذور so there is some compensation for عذر in all عبادات and also in all the other religious activities. So similar is the case with this. Because of some reason if he could not do the ذکر completely and he did somewhat تو OK اِنْ شَاءَ اللّٰہ. It will be enough because with the weakness less amount is also enough.
دوسرا جواب یہ ہے:
About the computer. I think I shall ask because it is beyond the mandate.I think I shall give the mike to,
’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم‘‘
Because computer is not مصحف, it is not قرآن but a source of reading Quran. So وضو is not necessary for a recitation of the Quran from a computer.
حضرت نے مَاشَاءَ اللّٰہ جواب دے دیا ہے، اس کی تفصیل تھوڑی سی میں عرض کر دوں کہ اگر قرآن پاک کو touch نہ کیا جائے تو ظاہر ہے پھر تو قرآن پڑھا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اصل میں تو touch کرنا منع ہے، تو اصل میں قرآن کو touch کرنے والی بات ہے۔ حتٰی کہ یہاں تک فرماتے ہیں کہ کوئی تفسیر جس میں کچھ اردو بھی ہو، اگر اس کی مقدار قرآن کے الفاظ سے زیادہ ہو تو پھر اس حصے کو touch کیا جا سکتا ہے، جہاں پر قرآن کی عربی نہ لکھی ہو۔ اگر اس موضوع پر ہم بات کریں تو پھر جو کمپیوٹر ہے چونکہ وہ تو قرآن ہے ہی نہیں، لہٰذا اس کو touch کرنے کی ممانعت نہیں ہے۔ البتہ علماء کرام یہی فرماتے ہیں کہ وضو کے ساتھ پڑھنے سے اجر بڑھتا ہے، اور وضو مومن کا اسلحہ ہے۔ لہٰذا اگر کوئی وضو کے ساتھ پڑھے تو اس کا اجر بھی زیادہ ہوتا ہے، اس کا effect بھی زیادہ ہوتا ہے۔ اس وجہ سے بلاوجہ تو بغیر وضو کے یہ نہیں کرنا چاہیے، لیکن اگر رہ رہا ہو اور کسی وجہ سے وضو کا موقع نہ ہو، یا کوئی مسئلہ ہو تو پھر ٹھیک ہے۔ حکم یہی ہے کہ بغیر وضو کے مصحف کو touch کیے بغیر اگر کوئی قرآن پاک کی تلاوت کر سکتا ہے یا وہ زبانی پڑھتا ہو تو اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
سوال نمبر 11:
بعض اوقات انسان کسی گناہ سے بچنے کی کوشش کرتا ہے اور کافی حد تک اس میں کامیاب بھی ہو جاتا ہے، پھر شاید اس کو غلط فہمی ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ اس پر مزید محنت چھوڑ دیتا ہے۔ کچھ عرصے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ اب میں پھر اسی گناہ میں دوبارہ مبتلا ہو رہا ہوں، اس وقت اس گناہ سے بچنے کے لیے ہمت کرنا پہلی بار سے زیادہ مشکل معلوم ہوتا ہے۔ کیا نفس پر کسی خاص حد تک محنت کر کے چھوڑ دینی ہوتی ہے یا اس محنت کو کبھی بھی نہیں روکنا ہوتا، دوسرا اگر کوئی دوبارہ گناہ میں مبتلا ہو رہا ہو تو پھر وہ کیا کرے؟
جواب:
واقعی مشکل سوال ہے اس لحاظ سے کہ اس میں کئی شکوک ہیں، جن کو سمجھانا ضروری ہے۔ ایک تو یہ کہ جو گناہ انسان کے اندر تھا اس نے مشق کی اور وہ چھوٹ گیا، تو اگر وہ اپنے نفس سے بے غم اور بے فکر ہوگیا ہے تو اس کی مثال حضرت تھانوی صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ دیتے ہیں کہ یہ ایسے ہے جیسے کہ کوئی اژدھا ہو اور وہ سرد موسم کی وجہ سے بے حس ہو جائے اور آدمی سمجھے کہ یہ تو بے جان ہے، بعد میں پھر موسم گرم ہونے کی وجہ سے وہ دوبارہ جاگ جائے اور پھر اپنی حرکات کرنا شروع کر دے۔ تو اسی طریقے سے نفس مرتا کبھی نہیں ہے، مضمحل ہوجاتا ہے۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ فلاں کا نفس مر گیا ہے، تو ساتھ یہ بھی مر جائے گا۔ نفس مرتا نہیں ہے، البتہ مضمحل ہو جاتا ہے۔ اس کی برائی کی جو صلاحیت ہے وہ دب جاتی ہے، اور جو خیر کی صلاحیت ہے وہ ابھر آتی ہے۔ لہٰذا اس وجہ سے عمل کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر بد پرہیزی کی جائے، بد پرہیزی کس کو کہتے ہیں؟ مثال کے طور پر کسی کو بد نظری کا مسئلہ ہے، اب اس کی بدنظری کنٹرول ہوگئی وہ اب اَلْحَمْدُ لِلّٰہ اس سے اپنے آپ کو محفوظ سمجھنے لگا۔ اور پھر ذرا اس کو جرأت ہوئی اور ایسی جگہوں پہ جانے لگا جہاں بد نظری کے مواقع زیادہ ہوں، یا internet پر بے احتیاطی شروع کی، تو ایسی صورت میں پھر دوبارہ وہ مرض عود کر آسکتا ہے۔ جیسے ہمارے تبلیغی جماعت والے حضرات کہتے ہیں کہ اگر کوئی تبلیغی ہو کر چھوڑ دے تو اس کو کہتے ہیں مٹوکر ہو گیا، مٹوکر ہونے کا نقصان تو پھر ہوتا ہے۔ ان کو ٹالنے کا طریقہ آتا ہے، جب ان کو پرانے تبلیغی ملتے ہیں جو ان کے پیچھے پڑے ہوتے ہیں تو وہ ان کو اس طرح خوبصورتی سے ٹال دیتا ہے لیکن وہ ان کے ہاتھ نہیں آتا۔ اسی طریقے سے جیسے کوئی شخص اگر یہ بد پرہیزیاں کرتا رہے تو اس سے بعض دفعہ انسان چکنا گڑھا بن سکتا ہے، جس کی وجہ سے زیادہ نقصان ہوتا ہے۔ لیکن اگر وہ اپنی اصلاح میں مخلص ہے، اور اپنے شیخ کے ساتھ اس کا تعلق قوی ہے، اور صحبت کو وہ نہیں چھوڑتا، اپنے معمولات کا بھی پابند ہے تو ٹھیک ہے۔ اگر خدانخواستہ کسی وجہ سے وہ اس کی طرف عود کے آبھی گیا، لیکن چونکہ وہ رابطہ قائم رکھے ہوئے ہے اور اصلاح میں مخلص ہے تو تھوڑی کوشش سے دوبارہ ٹھیک ہو جائے گا پھر کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ لہٰذا اب حضرات فرماتے ہیں کہ تصوف میں دو باتیں بہت اہم ہیں۔ اپنے شیخ سے رابطہ اور اپنے معمولات پر استقامت، یہ دو چیزیں اگر ہوں تو اِنْ شَاءَ اللّٰہُ الْعَزِیْز شیطان اور نفس کو خراب کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔ تو ان دو چیزوں کے پر زور دینا چاہیے، باقی اِنْ شَاءَ اللّٰہ الْعَزِیْز محنت سے سب کچھ حاصل ہو جائے گا۔
سوال نمبر 12:
میرا قرآن مجید پڑھنے کے حوالے سے جو سوال تھا، اس میں عورتوں کے بارے میں پوچھنا چاہ رہا تھا کہ جب وہ ناپاک ہوں تو وہ زبانی کوئی ذکر یا قرآن کی کوئی آیت پڑھ سکتی ہیں؟
جواب:
چونکہ یہ مسئلہ بہت زیادہ عام ہے اس وجہ سے میں عرض کر رہا ہوں۔ ورنہ جیسے میں نے عرض کیا ہماری domain نہیں ہے۔ یہ تو منع ہے ان ایام کے اندر قرآن کی کوئی آیت touch کیے بغیر بھی نہیں پڑھ سکتیں۔ ذکر کر سکتی ہیں، دعائیں کر سکتی ہیں اس پہ پابندی نہیں ہے۔ نماز نہیں پڑھ سکتیں، درود شریف بھی پڑھ سکتی ہیں، اور روزے نہیں رکھ سکتیں، ان چیزوں پہ پابندی ہے۔ بعض پڑھنے پڑھانے والی عورتیں ہوتی ہیں وہ آیات توڑ توڑ کے پڑھاتی ہیں، لیکن وہ تو ان کی مجبوری ہوتی ہے۔ عام عورتوں کو اس وقت ذکر ہی کرنا چاہیے، ویسے مستحسن یہ ہوتا ہے، علماء کرام لکھتے ہیں کہ جو نماز کے اوقات ہیں اس وقت بیٹھ کے تھوڑی دیر کے لیے ذکر کر لیا کریں، تاکہ عادت خراب نہ ہو، ورنہ پھر انسان کی عادت خراب ہو جاتی ہے۔ (سائل کا سوال) پھر اس پر نماز اور روزوں کی قضا تو نہیں ہوگی؟ (حضرت کا جواب) جب نماز کی اس کے اوپر پابندی ہے تو پھر اس پر نماز فرض ہی نہیں ہے۔ روزوں کی قضا کرنی پڑتی ہے۔ جیسے امام ابو حنیفہ صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے مشہور سوال کا جواب ہے، ان سے کسی نے پوچھا کہ آپ قیاس کرتے ہیں؟ تو فرمایا کہ اگر میں قیاس کرتا تو حائضہ کو میں روزوں کا معاف کرتا اور نماز کا کہتا کہ پڑھ لیں۔ چونکہ اللّٰہ پاک نے ایسا کیا ہے تو میں اس کو بدل نہیں سکتا۔
سوال نمبر 13:
ہم نماز پڑھتے ہیں تو کیا criteria ہے کہ ہماری نماز قبول ہو رہی ہے؟
جواب:
اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کی نمازوں کو قبول فرمائیں۔ دیکھیں میں آپ سے عرض کروں کہ ایک انسان کی اپنی کوشش اسباب اختیار کرنا اور دوسرا اللہ پاک کا فضل ہے، اور بچت تو فضل پر ہی ہوگی۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا عمل پر کوئی بھی جنت میں نہیں جائے گا اللّٰہ تعالیٰ کے فضل سے جائے گا (صحیح مسلم: 7113) لہٰذا بچت تو فضل سے ہی ہو گی۔ اس وجہ سے نماز کے جو مسائل اللّٰہ پاک نے بتائے ہیں ان مسائل کے مطابق نماز پڑھے۔ کیونکہ مسائل کے مطابق جان بوجھ کر نماز نہ پڑھنا یہ دیدہ دلیری ہے، جرات ہے، بغاوت ہے۔ اس وجہ سے اس سے تو اپنے آپ کو بچائیں۔ کیونکہ یہ تو گویا نعوذ باللّٰہ من ذالک اپنی بغاوت کو ظاہر کرنا ہے۔ البتہ مجھے جتنا معلوم ہے کم ازکم میں اس پر عمل کروں اور دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کروں، انکے علم میں اضافہ کروں تاکہ مجھے علم حاصل ہو جائے۔ جیسے آج اس کا اعلان ہوگیا ہے اور ساتھ ساتھ یہ ہے کہ اللّٰہ پاک سے مانگتا رہوں کہ اے اللّٰہ اس کو قبول فرما لے۔ آخر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جو دعائیں ہیں وہ یہی تھیں، یعنی کام کر کے وہ دعا فرما لیتے تھے کہ اے اللّٰہ اس کو قبول فرما۔
﴿رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ؕ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْم﴾ (البقرہ: 127)
ترجمہ: ’’اے ہمارے پروردگار! ہم سے (یہ خدمت) قبول فرما لے۔ بیشک تو اور صرف تو ہی، ہر ایک کی سننے والا، ہر ایک کو جاننے والا ہے‘‘۔
یہ جو دعائیں ہیں یہ ساری کی ساری اس لیے ہوتی ہیں کہ جو اللّٰہ تعالیٰ کا فضل والا section ہے وہ متوجہ ہو جائے۔ تو ہم اللّٰہ پاک سے مانگیں گے، البتہ جو اس کے مسائل ہیں ان مسائل کو سیکھنا بھی چاہیے اور ان پر عمل بھی کرنا چاہیے۔
سوال نمبر 14:
تصوف میں شیخ سے تعلق یا شیخ کی تربیت ہے، تو شیخ کی تلاش کیسے ہو، بہت سارے اساتذہ ہیں کس سے آپ تعلق جوڑیں؟
جواب:
اللّٰہ تعالیٰ آپ کو اجر دے آپ نے بہت اچھا سوال کیا۔ میں عرض کرتا ہوں کہ واقعتاً یہ سوال بنتا بھی ہے۔ دیکھیں آپ hygiene پر ہزار لوگوں کا lecture سن لیں اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہے، جتنے مرضی آپ medical articles پڑھ لیں لیکن جب آپ علاج کریں گے تو ایک ڈاکٹر سے کرنا ہے، ظاہر ہے اس میں پھر ایک ڈاکٹر کا ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ آپ اس میں اپنے علم کو big stop کرتے ہیں کہ میرا علم کچھ نہیں ہے، اور جو ڈاکٹر مجھے بتائے گا میں اس پر عمل کروں گا۔ یہی بات ہے شیخ کی تربیت میں بھی اپنا علم stop کرنا ہوتا ہے، یعنی میرا علم کچھ نہیں ہے اب جو شیخ مجھے بتائیں گے میں اس پر عمل کروں گا۔ تو اس آدمی کی بہت ذمہ داری ہو جاتی ہے کہ ایسے شیخ کے پاس جائے جو واقعی شیخ ہو، کسی گڑبڑ کے پاس نہ چلا جائے اور اس کو اس سے فائدہ بھی ہو۔ تو اس کے لیے ویسے بہت ساری نشانیاں کتابوں میں لکھی گئی ہیں، لیکن ان سب کا لبِ لباب آٹھ نشانیوں میں آگیا ہے۔ اگر وہ 8 نشانیاں آپ جانتے ہیں تو امید ہے اِنْ شَاءَ اللّٰہُ الْعَزِیْز طلب سے آپ صحیح جگہ پہ پہنچ جائیں گے۔ پہلی یہ ہے کہ اس کا عقیدہ صحیح ہو، عقیدہ اس لیے صحیح ہو کہ اگر خدانخواستہ کسی کا عقیدہ خراب ہے تو پھر تو بات ختم ہو جاتی ہے پھر تو ادھر جانے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اب عقیدہ کس کا صحیح ہے؟ یہ تو بہت بڑا سوال ہے۔ اس پے تو لوگ لڑتے ہیں، تو قرآن پاک نے اس کا جواب دیا ہے۔صحابہ کرام سے اللّٰہ پاک نے فرمایا:
﴿فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَاۤ اٰمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اهْتَدَوْا ۚ وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا هُمْ فِیْ شِقَاقٍ ۚ فَسَیَكْفِیْكَهُمُ اللّٰهُ ۚ وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ﴾ (البقرہ: 137)
ترجمہ: ’’اس کے بعد اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جیسے تم ایمان لائے ہو تو یہ راہ راست پر آجائیں گے۔ اور اگر یہ منہ موڑ لیں تو درحقیقت وہ دشمنی میں پڑگئے ہیں۔ اب اللہ تمہاری حمایت میں عنقریب ان سے نمٹ لے گا، اور وہ ہر بات سننے والا، ہر بات جاننے والا ہے‘‘۔
پتا چلا کہ صحابہ کے عقائد صحیح تھے، صحابہ کے عقیدے recommended ہیں، اس وجہ سے ہمیں دیکھنا چاہیے کہ صحابہ کے عقیدے کیا تھے۔ جو ان کا عقیدہ ہے وہ میرا بھی ہونا چاہیے، میرے پیر صاحب کا بھی ہونا چاہیے۔ دوسری بات یہ ہے کہ 24 گھنٹے شریعت پر عمل کرنے کے لیے جتنے علم کی ضرورت ہے جو فرضِ عین ہے، جس کا آج اعلان ہوا، کم از کم اتنا علم اس کے پاس ہو۔ تیسری بات یہ کہ اس علم پر 24 گھنٹے عمل بھی ہو۔ چوتھی بات یہ ہے کہ ان کی صحبت کا سلسلہ آپ ﷺ تک پہنچتا ہو، یہ بہت اہم ہے۔ کیونکہ صحابہ کی جو صحابیت ہے اس کے مقابلے میں کسی کا کوئی علم اور کوئی بزرگی سامنے نہیں آسکتی۔ ہر شخص سے ادنیٰ سے ادنیٰ صحابی بھی اوپر ہے۔ چنانچہ صحبت بہت بڑی چیز ہے، تو صحبت کے بعد صحبت، پھر اس کے بعد صحبت، پھر اس کے بعد صحبت، تو وہ چیز اس طرح آرہی ہے۔ لہٰذا ان کی صحبت کا سلسلہ آپ ﷺ تک پہنچا ہوا ہونا چاہیے۔ پانچویں بات یہ ہے کہ ادھر سے پھر اجازت بھی ہو، کیونکہ یہ degree کی طرح ہے۔ چھٹی بات یہ ہے کہ ان کا فیص جاری ہو، اس کے لیے ضروری ہے کہ جیسے ہم ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ اس کی reputation کیسی ہے، تو اس کا فیض جاری ہو۔ جو بھی لوگ ان کے پاس جائیں تو ان کو فائدہ ہوتا نظر آتا ہو۔ ساتویں بات یہ ہے کہ وہ مروت نہ کرتا ہو اصلاح کرتا ہو، آج کل اس میں بڑا المیہ ہے کہ ڈاکٹر سے کوئی بھی مروت نہیں مانگتا، علاج مانگتا ہے۔ اور پیروں سے مروت مانگتا ہے، یہ شیطان نے الٹی چال چلائی ہوئی ہے۔ وہ جی بڑا سخت ہے جی، یہ تو اس طرح کرتا ہے، اس طرح کرتا ہے، بھئی! سختی ہی تمہاری اصلاح کر سکے گی۔ اگر نرم نرم کپڑوں کو آپ اس طرح اس طرح کریں گے تو اس سے پاک ہو جائیں گے؟ آٹھویں بات یہ ہے کہ جن کو دیکھ کر اللّٰہ یاد آتا ہو، اور جن کے پاس بیٹھ کر اللّٰہ پاک کی محبت بڑھتی ہو اور دنیا کی محبت کم ہوتی ہو۔ یہ آٹھ نشانیاں اگر آپ کسی میں دیکھ لیں تو آپ ان کے پاس جا سکتے ہیں، لیکن جائیں ان کے پاس جن کے ساتھ آپ کی سب سے زیادہ مناسبت ہو۔ اور مناسبت یہ ہے کہ ان کی بات آپ کو جلدی سمجھ میں آتی ہو، اس پر عمل کی توفیق جلدی ہوتی ہو، بس یہ مناسبت ہے۔ اگر یہ آپ کو کسی کے ساتھ مل جائے تو بس پھر دیر نہ کریں۔ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللّٰہ علیہ صاحب آج کل نہیں آئیں گے۔
سوال نمبر 15:
ایک آج کل ہم لوگ جو Internet user ہیں، پڑھے لکھے لوگ ہیں، کتابیں دیکھتے ہیں، جو ایک trend ہے ہمارے culture میں کہ ہم شیخ کے بغیر خود ہی اور شاید اس میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم کسی ایک کے follower بھی نہیں ہوتے یا کسی ایک فرقے کے بھی follower نہیں ہیں۔ اگر ہم فرقوں میں بھی کبھی ان کی باتیں بھی سنتے ہیں یہ بھی ٹھیک لگتی ہیں ان کی بھی اور ان کے ساتھ رہ رہ کے اپنی زندگی اسی طرح گزار رہے ہیں اور ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ جو ہمیں سمجھ آرہا ہے وہ اچھا ہے، ہم بھی پڑھے لکھے لوگ ہیں پڑھ لیتے ہیں، دینی کتابیں بھی پڑھتے ہیں، مختلف کتابیں پڑھ کے مختلف مسائل کو پڑھتے ہیں، اور ہمیں لگتا ہے کہ ہمیں ٹھیک سمجھ آرہا ہے۔ اس میں کچھ کسی فرقے سے متعلق ہوتی ہیں، کچھ کسی فرقے سے متعلق ہوتی ہیں اور ہم ان کو پڑھتے رہتے ہیں اور سمجھتے رہتے ہیں۔ شیخ کی کبھی طلب یا ضرورت محسوس نہیں کرتے اور اس کی کوشش میں بھی نہیں پڑتے، تو کیا ہم ٹھیک کر رہے ہیں؟
جواب:
یہ بات تو آپ میرے خیال میں اپنے آپ سے پوچھیں، جس کو ہم self- study کہتے ہیں، self-medication، یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ دیکھیں جو چیزیں آپ کی روح کو touch کر رہی ہوں وہ simple چیزیں نہیں ہوتیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ آج کل بڑی بڑی باتیں کی جاتی ہیں اور قرآن وحدیث کو پیچھے چھوڑ دیا جاتا ہے، اس کی طرف نہیں دیکھتے، حالانکہ اس میں صاف فرماتے ہیں کہ اگر کبھی تمہیں کوئی مسئلہ ہو تو قرآن وسنت کی طرف رجوع کرو۔ جیسے فرقہ واریت کے بارے میں بڑی باتیں ہیں، چونکہ آفس میں ہمارے پاس ہر قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ تو کہتے ہیں بھئی فرقہ واریت کی باتیں نہ کرو، یہ نہ کرو، وہ نہ کرو۔ لیکن مجھے خود کیا کرنا چاہیے، کس کے پیچھے جانا چاہیے؟ اس کا تو اللّٰہ پوچھیں گے۔ اس کا تو فرقہ واریت کے ساتھ تعلق نہیں ہے۔ یہ عالم بیٹھے ہوئے ہیں، آپ ان سے پوچھیں، مشہور حدیث شریف ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا:
’’ِافْتَرَقَتِ الْيَهُوْدُ عَلٰى إِحْدَىٰ أَوِ ثْنَتَيْنِ وَسَبْعِيْنَ فِرْقَةً، وَتَفَرَّقَتِ النَّصَارىٰ عَلٰى إِحْدَىٰ أَوِ ثْنَتَيْْنِ وَسَبْعِيْنَ فِرْقَةً، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِيْ عَلٰى ثَلَاثٍ وَّسَبْعِيْنَ فِرْقَةً‘‘ (ابو داؤد: 4596)
ترجمہ: ’’یہود اکہتر یا بہتر فرقوں میں بٹ گئے، نصاریٰ اکہتر یا بہتر فرقوں میں بٹ گئے اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی‘‘۔
صرف ایک نجات پائے گا ڈرنے والی بات تھی۔ صحابہ کرام نے فوراً پوچھا یا رسول اللّٰہ ﷺ پھر ہم کیسے جانیں گے کہ کون سا صحیح ہے؟ فرمایا: ’’مَآ اَنَا عَلیْهِ وَاَصْحَابِیْ‘‘ جس پر میرے صحابہ چلیں۔ اب مجھے بتائیں صحیح کی ضرورت پڑ گئی نا! اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں چننا چاہیے، دیکھنا چاہیے، کہ کس کے عقائد صحیح ہیں، یہ نہ ہو کہ میں نے internet پہ پڑھا تھا۔ یہ جواب وہاں کام نہیں آئے گا، کام یہ چیز آئے گی کہ آپ ﷺ کی سنت اور صحابہ کا طریقہ کیا تھا، اس کو دیکھنا پڑے گا۔ تو اس کے لیے اگر آپ کو ان 8 نشانیوں پر کوئی صحیح رہنما مل جائے، حضرت امام شاہ ولی اللّٰہ رحمۃ اللّٰہ علیہ صاحب نے فرمایا کہ اس سے بڑی بات آپ کے لیے کوئی نہیں ہے، پھر ان کے ساتھ لگ جاؤ۔ مقصد یہ ہے کہ ہمیں وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے، موت سے پہلے پہلے اپنے لیے کچھ سبب بنانا چاہیے، اور پھر اس کے ساتھ ہونا چاہیے۔ اتنی بے شک اپنی تسلی کر لیں، لیکن اس کے بعد جب تسلی ہو جائے تو جیسے ایک دفعہ بس میں بیٹھ جائیں تو پھر driver کے ساتھ نہیں لڑتے کہ آپ تیز چلاؤ، آہستہ چلاؤ، بس اب اس کے مطابق ہی چلنا ہوتا ہے۔ تو اسی طریقے سے آپ ایک دفعہ خوب تلاش کر لیں جب اطمینان ہو جائے پھر ان کے ساتھ چل پڑیں، پھر اِنْ شَاءَ اللّٰہ مسئلہ نہیں ہوگا۔
سوال نمبر 16:
بیعت کی کیا حقیقت ہے، اس کے کیا معنی ہیں؟
جواب:
بیعت اصل میں شیخ اور مرید کے درمیان میں ایک معاہدہ ہوتا ہے، مرید یہ سمجھتا ہے کہ اب یہی ایک جگہ میری تربیت کے لیے اور اسی قسم کی چیزوں کے پوچھنے کی ہے۔ اور شیخ بھی کہتا ہے اب یہ میرا ہے، میں ان کی خدمت کروں گا۔ الفاظ اس کے جو بھی ہوں، الفاظ مختلف ہو سکتے ہیں۔ اس میں شیخ مرید پر اور مرید شیخ پر اطمینان کر لیتا ہے، اور شیخ مرید کو اپنا سمجھنے لگتا ہے۔ اس کے لیے ہاتھ ملا کر بھی بیعت کی جاتی ہے، آواز کے ساتھ بھی کی جاتی ہے، ہاتھ اٹھا کر بھی کی جات ہے، مختلف صورتیں موجود ہیں، لیکن اس کی حقیقت اتنی ہے۔ باقی اس کا حکم شرعی یہ ہے کہ یہ بیعت سنتِ مستحبہ ہے۔ لیکن یہ فرائض کو قائم کرنے والی چیز ہے، یعنی انسان کے فرائض اس کے ذریعے سے زندہ ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا اگر کوئی بغیر بیعت کے بھی تربیت کروا سکتا ہو تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن آج کل کے حالات میں جب تک انسان بیعت نہیں ہوتا تو ادھر ادھر دیکھتا رہتا ہے، جیسے آپ نے فرمایا: کبھی کہاں سے لی، کبھی کہاں سے لیا، تو نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے۔ لہٰذا کسی کے ساتھ اگر بیعت جیسا ہی رابطہ ہو تو پھر کوئی مسئلہ نہیں، پھر تو ٹھیک ہے۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو پھر کسی کو اپنے لیے ڈھونڈنا چاہیے، اس کے ساتھ باقاعدہ بیعت کرنا چاہیے۔
’’اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْن‘‘ اے اللّٰہ اپنے فضل وکرم سے ہمیں اپنا بنا لے، یا اِلٰہ العالمین! ہمیں اپنا بنا لیجیئے، یا الٰہ العالمین اپنے در کا گدا بنا دے، اپنے در سے لینے والا بنا دے، یا اللّٰہ! اپنے علاوہ کسی اور کا محتاج نہ فرما، اپنے نبی پاک ﷺ کے قدموں میں دونوں جہانوں میں جگہ عطا فرما، یا الٰہ العالمین! اپنی رضا کی عظیم دولت نصیب فرما دے، یا الٰہ العالمین! جتنے بھی ہمارے خیالات اور افکار ہیں ان سب کو اپنے حبیبِ پاک ﷺ کی سنت کے مطابق کر دے اور یا اللّٰہ! ہمیں پورے دین پر چلنے کی توفیق عطا فرما، یا الٰہ العالمین! ہمارا نفس ہمارے درمیان حائل نہ ہو، ہمارے قلب کو قلبِ سلیم بنا دے، ہمارے نفس کو نفسِ مطمئنہ بنا، الٰہ العالمین! ہم سب کو اپنا خاص تعلق نصیب فرما دے، یا اللّٰہ! ہم سب کو صحیح سمجھ بھی عطا فرما، فقاہت بھی نصیب فرما دے، عمل بھی نصیب فرما۔ یا الٰہ العالمین! افراط وتفریط سے ہمیں بچا لے، جو حق راستہ ہے وہ حق دکھا دے اور اس پر چلنے کی توفیق عطا، اور جو باطل راستہ ہے وہ باطل دکھا دے اور اس سے بچنے کی توفیق عطا فرما۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ