مکتوبات میں تزکیہ اور روحانی ترقی کا راستہ

درس نمبر 107، دفتر اول، مکتوب 244 تا 246

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
مکہ مکرمہ - مکہ مکرمہ

دفتر اول مکتوب 244

 ملا محمد صالح کے احوال کی خرابی کے جواب میں انہیں اپنی کمزوریوں کو تسلیم کرنے کی ترغیب دی گئی، جہاں خرابیِ احوال کو معرفت سمجھا گیا۔ انہیں دوستوں کے فائدے کے لیے قیام کی تجویز دی گئی، جبکہ دہلی سفر کا ارادہ اور فرزند ارشد خواجہ محمد صادق کو ولایت کی ذمہ داری سونپنے کا ذکر ہے۔ دشمنوں کے فریب سے بچنے اور خود احتسابی کی اہمیت پر زور دیا گیا۔

دفتر اول مکتوب 245

 سید انبیا کے سوالات کے جواب میں ذکرِ نفی و اثبات کی مداومت کی کمی اور غیبت کی وجہ سے نتیجہ نہ ہونے کی نشاندہی کی گئی، جس کا حل مشافہ معلوم کرنا ہے۔ حضرت صدیقؓ کے قول "زبان کا ذکر بکواس" وغیرہ کو فنا سے پہلے کے مراحل سمجھایا گیا، جبکہ بو علی سینا کے کفرِ حقیقی کے دعوے کو غلط قرار دیا گیا، کیونکہ اس نے اسلامِ حقیقی کی رہنمائی نہ کی۔

دفتر اول مکتوب 246

 میر محمد نعمان کے مکتوب پر ان کی توجہ سے کمال کا حصول ہوا، جہاں قبض کی زیادتی کو بے توفیقی کا سبب قرار دیا گیا، لیکن عمل جاری رکھنے کی ہدایت دی گئی۔ علومِ بلند اور معارف کے مسودات کا ذکر ہے، جو توحید اور وحدت الوجود کے نزاع کو حل کرتے ہیں۔ شیخ سے رابطے اور احوال پیش کرنے کی اہمیت پر زور دیا گیا۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہ رَبِّ الْعَلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

آج کل ہماری خانقاہ کے معمولات میں سے ہے کہ حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کے مکتوبات شریف کا درس ہوتا ہے۔ چونکہ ہماری ترتیب یہ ہے کہ جہاں پر بھی ہوں وہیں سے الحمد للہ ہم اپنی ترتیب چلاتے ہیں۔ اس وجہ سے آج الحمد للہ حرم شریف سے یہ مجلس شروع ہے اور مکتوب نمبر 244 سے اس کی ابتداء کی جائے گی، انشاءاللہ۔

مکتوب نمبر 244

متن:

ملا محمد صالح کولابی1 کی طرف صادر فرمایا۔ ان کے خط کے جواب میں جس میں انہوں نے اپنے احوال کی خرابی بیان کی تھی۔

میرے سعادت مند بھائی خواجہ محمد صالح کا گرامی نامہ موصول ہوا جس میں انہوں نے اپنی خرابئ احوال کے بارے میں لکھا تھا، امید ہے کہ اس سے بھی زیادہ خراب ہوں گے، اور اس خرابی کی نہایت اس مکتوب میں جو انہی ایام میں (فقیرنے اپنے) فرزندِ ارشد کے نام لکھا ہے، درج ہو چکی ہے وہاں سے معلوم کر لیں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کا وہاں چند روز قیام کرنا دوستوں کی جمعیت (اطمینان) کا باعث ہے تو بہتر ہے کہ وہاں چند روز اور قیام کریں، یہ فقیر بھی دہلی کے سفر کا ارادہ رکھتا ہے، اکثر استخارے اور توجہات اس سفر کا باعث ہیں۔ اس مقام کو میرے فرزند ارشد (خواجہ محمد صادق) کو عنایت فرما دیا ہے اور ان کی ولایت میں داخل کر دیا گیا ہے۔ فقیر اس جگہ مسافروں کی طرح اُن کی ولایت میں بیٹھا ہوا ہے۔ جو دوست طریقۂ عالیہ میں داخل ہوگئے ہیں بالخصوص میر سید مرتضےٰ، مولانا شکر اللہ اور میر سید نظام بہت دعاؤں کے ساتھ مخصوص ہیں۔ فرزندی خواجہ محمد صادق اور سب بھائی آپ کو اور سب دوستوں کو سلام و دعا کہتے ہیں۔

تشریح:

خرابیٔ احوال۔ خرابیٔ احوال سے مراد یہ ہے کہ انسان کو اپنے اندر کی ساری گندگیاں اور نقصانات ہیں، وہ نظر آنے لگیں۔ جہالت سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو عالم نہ سمجھے۔ یہ مطلب نہیں کہ واقعتا وہ خرابی ہوتی ہے لیکن خرابی نظر آتی ہے۔ بہت سے لوگ جو اچھے ٹاپ کرنے والے Students ہوتے ہیں، وہ اپنی Study پر بڑے بدگمان ہوتے ہیں اور جب کوئی پوچھتا ہے تو کہتے ہیں میری تو تیاری نہیں ہے، ایسا ہے، ایسا ہے، پھر بعد میں ٹاپ کر جاتے ہیں۔ فرسٹ ائیر Engineering میں میرا ایک Viva خراب ہوگیا تھا، اگرچہ خراب تو نہیں ہوا تھا، لیکن مجھے خراب نظر آ رہا تھا، تو میں نے کافی افسوس کا اظہار کیا، تو میرے ایک Fourth year کے سینئر Student تھے، وہ مجھے کہنے لگے "آپ اتنے نمبر لے لیں گے"۔ انہوں نے کافی زیادہ نمبر بتائے۔ میں نے کہا "یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں کہنے لگے "میں نے اس طرح جتنے لوگوں کو بھی روتے ہوئے دیکھا ان کے نمبر اتنے آئے ہیں" مطلب یہ کہ جو لوگ اپنی پوزیشن کا خیال رکھتے ہیں کہ وہ کم نہ ہو تو روتے رہتے ہیں، اور جن کو پروا نہیں ہوتی، وہ ہنستے رہتے ہیں۔ ہماری پشتو میں کہتے ہیں "دوست به دې وژاړي، دښمن به دې وخندوي"۔ مقصد یہ ہے کہ جو تیرا دوست ہے وہ تیری خرابی تجھے بتائے گا تو پریشان ہوجائے گا، تو کہے گا یہ کیا۔ اور جو تیرا دشمن ہوگا وہ اس پر خوش ہوگا کہ تیرے ساتھ اس طرح ہو ہے اور آپ کو طفل تسلی دے گا کہ یہ تو کچھ بھی نہیں ہے، باقی لوگ اس سے بھی خراب ہیں، آپ تو بہت اچھے ہیں۔ Engineering میں ہمارا ایک کلاس فیلو Class Fellow تھا وہ بھی اچھا سٹوڈنٹ Student تھا، یعنی اچھے نمبر لینے والا، اپنے گروپ میں میرے نمبر بھی اچھے ہوتے تھے، اس نے مجھے ناولوں پر لگانا چاہا کہ میں ناولوں میں لگ جاؤں اور پیچھے رہ جاؤں، مجھے اس کی نیت کا پتا چل گیا، تو میں نے اس کو ہمت دلائی کہ یہ کام تو آپ اچھا کر رہے ہیں میرے لئے۔ مقصود یہ تھا کہ اس کو اتنی زد پہنچائی جائے کہ یہ آئندہ کسی کو اس طرح نقصان نہ پہنچائے۔ میں نے کہا زبردست! اگر آپ بتا رہے ہیں تو پھر تو واقعی یہ ناول دیکھنے چاہئیں۔

وہ شخص جس نے کہا تھا کہ میں آپ کے لئے دو ناول لاتا ہوں، جاسوسی ناول جو ہوتے تھے وہ ان دنوں لائبریری سے ایک آنہ کرائے پر ملتے تھے، ایک آنہ روزانہ اس پر لگتا تھا۔ اس نے وہاں سے دو ناول لے لئے اور مجھے دے دئیے، میں نے الماری میں رکھ دیے کیونکہ میں نے تو دیکھنے ہی نہیں تھے۔ اب وہ روز مجھ سے پوچھتا کہ آپ نے پڑھ لیے میں کہتا ابھی پڑھتا ہوں ابھی پڑھتا ہوں۔ اسی طرح تقریباََ ہفتہ گزار دیا تو ہفتے میں چودہ آنے اس پر آگئے۔ ان دنوں تو کتاب کی قیمت اتنی ہوتی تھی۔ آخر وہ تنگ ہوگیا اور کہنے لگا کہ اگر آپ نہیں پڑھنا چاہتے تو مجھے دے دیں، میں نے کہا لے لو اور الماری سے نکال کر اس کو دے دیے۔ پھر میں نے اس کے حوصلے کو کم کرنے کے لئے کہا "بھئ مجھے تو ناول وغیرہ کا اتنا تجربہ ہے کہ میں اگر اس کا پہلا پیج پڑھوں تو اس کا آخری پیج بتا سکتا ہوں کہ اس میں کیا ہوا ہے، یہ میرے لئے نئی چیز نہیں ہے، لیکن میں نے سوچا کہ چلو آپ ہمت کر لیں، اگر مجھے اس طرف لا سکتے ہیں تو لائیں۔ مطلب یہ ہے کہ اس طرح کے جو لوگ ہوتے ہیں وہ ایسا بھی کرتے ہیں، یہ تو ایک competition کی وجہ سے کر رہا تھا، لیکن واقعتاً جو آپ کے دشمن ہوں پتا نہیں آپ کے لئے کتنے گڑھے کھودیں گے، پتا نہیں آپ کو کتنے طریقوں سے خراب کریں گے۔ جیسے ہمارے نام نہاد دوست امریکہ اور برطانیہ ہیں یہ سب ہمارے ساتھ کس لئے دوستی کرتے ہیں، ہمیں فضول چیزوں پر لگاتے ہیں، سائنس کی کانفرنس ایسی چیز کی کروائیں گے جس کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں ہوگی۔ صرف اس لیے کہ ہمارے اپنے تیار کیے ہوئے، ہمارے پیسوں سے تیار کیے ہوئے Engineer اور Scientist ان کے لئے استعمال ہوجائیں۔ یہ لوگ صرف اس کی کانفرنس کا خرچہ یا اس کے آنے جانے کا خرچہ arange کریں گے اور پھر اس کو اپنا کام دے دیں گے، اور وہ پاکستان میں بیٹھ کر ان کا کام کرے گا، یہ بھی خوش کہ ان کا پیپر پبلش ہوگا اور وہ بھی خوش کہ ان کا کام ہو رہا ہے۔ پاکستان کا اس میں کوئی فائدہ نہیں ہوگا، پاکستان کو جن چیزوں کی ضرورت ہوگی ان کی طرف وہ نہیں آئیں گے، کیونکہ ہر ملک کی اپنی requirements ہوتی ہیں اور اپنی priorities ہیں، وہ اس کے حساب سے چلتے ہیں۔ وہ لوگ ہمیں فنڈز دیتے ہیں اور ایسی چیزوں کے لئے فنڈز دیتے ہیں جس میں ان کا اپنا فائدہ ہو۔ پھر اس میں اپنے Experts بھیجتے ہیں اور فنڈز دوسرے ہاتھ سے اپنی طرف drain کر لیتے ہیں یعنی آپ کو خوش رکھتے ہیں۔ تو اگر اپنی خرابی خود نظر آجائے تو یہ بہت بڑی بات ہے، خود احتسابی بہت بڑی بات ہے اگر ہم لوگ اپنی خرابی کو خود جان لیں۔ تو جس کو خود خرابی نظر آجائے اس کی reading بالکل چینج ہوتی ہے وہ اپنے آپ کو اچھا نہیں کہتے۔ حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ کا جو مقام ہے، میرے خیال میں آج کل جو بھی دیندار لوگ ہیں ان پر کھلا ہوا ہے کہ ان کا کیا مقام ہے۔ حتیٰ کہ ان کے دشمن بھی اس کا انکار نہیں کر سکتے، لیکن وہ اپنے بارے میں کیا لکھتے ہیں: ناکارہ، گناہگار، خطا کار، سیاہ کار اور بہت کچھ۔ ظاہر ہے اس بزرگی کے مقام پر ہم ان سے جھوٹ کی توقع رکھ سکتے ہیں؟ کہ جھوٹ بول رہے ہیں؟ جھوٹ تو نہیں بول رہے بالکل سچ بول رہے ہیں، وہ اپنے آپ کو ایسا ہی سمجھ رہے ہیں۔ صرف اتنی ہے کہ ہمیں سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ اپنے آپ کو ایسا کیوں سمجھ رہے ہیں، کیونکہ ہمارا معیار بہت تھوڑا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی کا معیار دو فٹ چڑھنا ہے تو جب وہ تین فٹ چڑھ جائے گا تو خوشی سے پھولے نہیں سمائے گا کہ واہ جی واہ کیا بات ہے۔ اور جس کا معیار تین کلو میٹر اوپر چڑھنا ہوگا تو وہ آدھے کلو میٹر پر بھی کہے گا ابھی تو میں بہت دور ہوں۔ تو یہ اصل میں معیار معیار کی بات ہے۔ جس کا معیار بلند ہوجاتا ہے، اس کو اپنے اندر خرابی نظر آتی ہے۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے طریقے میں یا ذوق میں یہ بات تھی کہ کبھی رکنا نہیں، کبھی اپنے آپ کو کامل نہیں سمجھنا اور مسلسل ترقی میں رہنا۔ اس لئے ہمتیں جوان رکھتے تھے کہ ہمت توڑو نہیں۔ اور جو اِن کو یہ فرمایا گیا کہ "امید ہے کہ اس سے بھی زیادہ خراب ہوں گے" اپنے دوست کے بارے میں بھی کوئی ایسے لکھتا ہے؟ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی بڑی مثال دی ہے، فرمایا: "یہاں پر اس زندگی میں ہمیں کوئی چیز Direct مل ہی نہیں سکتی، یہاں تو عکس ہی ملے گا یعنی Reflection۔ جب Reflection ملتی ہے تو وہ ایسے ہے کہ جیسے دریا کے کنارے کوئی درخت ہو اس پر کوئی چڑھے گا تو دریا میں نیچے اترتا ہوا نظر آئے گا اور کوئی نیچے اترے گا تو اوپر چڑھتا ہوا نظر آئے گا۔ بالکل اسی طرح یہاں جو اپنے آپ کو اچھا سمجھتا ہو، اصل میں وہ خراب ہے، خرابی کی طرف جا رہا ہے اور جو اپنے آپ کو اچھا نہیں سمجھ رہا تو وہ اچھائی کی طرف جا رہا ہے۔ حضرت نے اس کو ایک اور عنوان سے بھی بتایا ہے کہ جیسے صبح صادق اور صبح کاذب۔ صبح کاذب اسے کہتے ہیں کہ جب انسان پر عروج کی کیفیت ہوتی ہے اور عروج کی حالت میں وہ کرامات، اچھے اچھے خواب اور اس طرح کی چیزوں میں ہوتا ہے، بڑے مزے میں ہوتا ہے۔ تو آدمی سمجھتا ہے میں تو بڑا بزرگ بن گیا ہوں۔ پھر جس وقت وہ نزول پر آتا ہے تو کہتا ہے یہ بھی گیا، یہ بھی گیا، کیونکہ وہ اس بزرگی کا عادی ہوچکا ہے تو اب وہ اپنے آپ کو اس بزرگی کے ساتھ Compare کرتا ہے، حالانکہ اب یہ صحیح ہوگیا۔ میں پہلے نماز پڑھتا تھا تو بہت Alert رہتا تھا کہ کوئی خیال میرا آگے پیچھے نہ ہو۔ اس خیال کے ساتھ کرنا یہ بہت مشکل کام ہے تو میں جب نماز پڑھ لیتا تو بڑا تھکا ہوتا، کافی پریشان ہوتا، اس وقت میں حضرت کو بتاتا رہتا تھا اور پوچھتا تھا کہ حضرت مجھے تھکاوٹ دور کرنے کا طریقہ بتائیں۔ ایک دن میں نے حضرت کو لکھا کہ حضرت اب میں Relax ہوگیا ہوں، میں نے اپنے آپ کو Relax چھوڑ دیا ہے۔ بس اتنا تصور کرتا ہوں کہ میں اللہ کی طرف سیدھا کھڑا ہوں اور اس پر زیادہ نہیں سوچتا، بس اتنا ہی کر سکتا ہوں۔ حضرت خوش ہوئے اور فرمایا: الحمد للہ اب صحیح ہوگیا۔ تو جو انسان اپنے آپ کوغلط معیار پر لے جا رہا ہوگا تو اس کے لئے پھر تھکاوٹ بھی ہوگی اور اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اس کے ذہن میں بزرگی کا ایک معیار ہوگا، جب اس کو وہ معیار نہیں ملے گا تو بد ظنی ہوگی، پہلے بد ظنی شیخ پر ہوگی کہ یہ مجھے توجہ نہیں دے رہا، میں خط لکھ رہا ہوں، میں خواب سنا رہا ہوں، میں اس کو یہ کہہ رہا ہوں اور یہ پروا ہی نہیں کر رہا۔ حالانکہ شیخ کی نظر میں ہوتا ہے کہ اس کو ذرا سی بھی توجہ اور دی تو یہ زیادہ بگڑ جائے گا، چونکہ یہ اس وقت بزرگی کی لائن پر ہے تو شیخ اس کو ignore کرتا جاتا ہے۔ تو پہلی بد ظنی ان کی شیخ پر ہوتی ہے کہ دیکھو میں کیا رہا ہوں اور یہ کیا کررہا ہے۔ پھر بعد میں یہ بات اللہ بچائے، اللہ بچائے، خدا تک پہنچ سکتی ہے، آدمی یہ سمجھتا ہے کہ گویا میں جتنا کر رہا ہوں اس کا مجھے اتنا صلہ نہیں مل رہا۔ یہ کتنی گندی سوچ ہے اور اس کے مقابلے میں یہ سوچ کہ آپ بے شک جتنا کر سکتے ہیں کر لیں لیکن یہ سمجھیں کہ میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا اور جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مل رہا ہے، اس پر آپ بڑے خوش ہوں کہ اللہ کا شکر ہے اللہ پاک نے یہ بھی دیا، یہ بھی دیا۔ یہ کیسی اچھی سوچ ہے۔ اب اپنے آپ کو اس سوچ پر transfer کرنا یہ اصل کام ہے۔ اس کے لئے خرابی ہونا لازمی ہے۔ حضرت نے فرمایا "امید ہے کہ حالات اور زیادہ خراب ہونگے" اب حالات تو خراب تھے لیکن دیکھیے حضرت نے کیا فرمایا ان کے اوپر کتنا اعتماد ہے۔ فرمایا کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کا وہاں چند روز کا قیام اور دوستوں کی جمیعت اطمینان کا باعث ہے تو بہتر ہے کہ وہاں چند روز قیام کر لیں۔ گویا کہ اپنے لوگوں کو ان کی طرف بھیج رہے ہیں تا کہ ان کو فائدہ ہوجائے، ان کو فائدے کے قابل سمجھ رہے ہیں۔ تو جو لوگ اپنے آپ کو کچھ سمجھتے ہیں یہ ہرے بھرے باغ کی طرح ہوتے ہیں اور جن کو کچھ بھی نہیں سمجھا جاتا، یہ پکی فصل کی طرح ہوتے ہیں۔ تو جو ہرا بھرا باغ ہوتا ہے وہ تو ظاہر ہے کسی بھی کام کا نہیں ہوتا، اس کو کاٹ دیں تو جانور کے چارے کے کام آئے گا، اور تو کچھ نہیں ہوسکتا اس کے ساتھ۔ اور جو خشک نظر آتا ہے جس کے اندر بظاہر کوئی پسندیدگی نہیں ہوتی، صرف ایک معنوی پسندیدگی ہوتی ہے کہ اس میں گندم ہے اور اس میں یہ ہے اور اس میں یہ ہے، تو اس میں وہی چیز ہوتی ہے، ورنہ انسان سمجھتا ہے کہ یہ تو کچھ بھی نہیں ہے۔ جیسے بچے سے اگر پوچھا جائے یہ باغ اچھا ہے یا یہ اچھا ہے؟ تو بچہ کیا کہے گا؟ وہ جو سبز لہلہاتا ہوا باغ ہوگا اسی کو ہی اچھا کہے گا کہ یہ بہت زبردست ہے۔ تو اسی طریقے سے جو طفلِ طریقت ہوتے ہیں وہ اپنے آپ کو اس حالت میں زیادہ اچھا سمجھتے ہیں، حالانکہ وہ کسی قابل نہیں ہوتے اور جو بلوغ کو پہنچ چکے ہوتے ہیں وہ اس کو کچھ بھی نہیں سمجھتے، اس کو اپنے لئے حجاب سمجھتے ہیں، جتنے حجابات ان کے سامنے آ رہے ہیں پریشان ہوتے ہیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے، کیا کروں، ان سے کیسے بچوں۔ تو اپنے حالات کو خراب سمجھتے ہیں۔ ”یہ فقیر بھی دہلی کے سفر کا ارادہ رکھتا ہے، اکثر استخارات و توجہات سفر کا باعث ہے اور اس مقام کو میرے فرزند ارشد خواجہ محمد صادق کو عنایت فرمایا گیا ہے ان کی ولایت میں داخل کردیا گیا ہے‘‘۔ یہ اصل میں بزرگوں کے ہاں پہلے ہوا کرتا تھا کہ کچھ علاقے تقسیم ہوتے تھے کہ یہ علاقہ ان کا ہے یعنی وہ اس علاقے کا قطب ہے، تو اب جن لوگوں کو بھی فائدہ دینا ہوتا تھا تو ان کے پاس جاتے تھے۔ حضرت خواجہ شمس الدین ترک پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ حضرت پیر صابر کلیر رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ تھے۔ خواجہ شمس الدین کے شیخ نے انہیں پانی پت بھیج دیا جہاں پر شیخ شرف الدین بو علی قلندر رحمۃ اللہ علیہ تب پہلے سے موجود تھے۔ جب ان کو بھی وہاں بھیج دیا گیا جہاں بو علی شاہ قلندر رحمۃ اللہ علیہ تھے تو جب یہ وہاں پہنچ گئے تو بو شاہ قلندر رحمۃ اللہ علیہ نے ایک بھرا ہوا پانی کا جام یعنی کٹورا اپنے خادم کے ذریعے سے بھجوایا تو حضرت نے ایک پھول کاٹ کر اس کے اوپر احتیاط کے ساتھ رکھ دیا اور کہا یہ لے جاؤ۔ تو لوگ حیران ہوگئے کہ یہ کیا بات ہے مطلب یہ کیا Communication ہے، اس نے جام بھجوایا اور اس نے اوپر پھول رکھ دیا۔ جب پوچھا گیا کہ یہ کیا ہے تو فرمایا: اس نے مجھے کہا کہ یہ تو میری ولایت سے لبا لب بھرا ہوا ہے تو آپ اس میں کیا کرنے آگئے ہیں، کسی اور جگہ چلے جائیں۔ تو حضرت نے ان کو بتا دیا کہ میں پھول کی طرح یہاں رہوں گا آپ کی ولایت کے اندر میرا کوئی عمل دخل نہیں ہوگا اور آپ کو بالکل disturb نہیں کروں گا۔ گویا کہ یہ Communication ہوگیا۔

مکتوب نمبر 245

متن:

سید انبیا2 کی طرف ان کے سوالات کے جواب میں تحریر فرمایا۔ (سید انبیا کوئی نام ہوگا۔)

حمد و صلوٰۃ اور تبلیغِ دعوات کے بعد واضح ہو کہ مکتوب شریف جو قاصد کے ہمراہ ارسال کیا تھا موصول ہو کر خوشی کا باعث ہوا۔ آپ نے لکھا تھا کہ ذکرِ نفی و اثبات اکیس عدد تک پہنچایا ہے لیکن اس پر مداومت نہیں رہتی، اور کبھی کبھی غیبت (ناغہ) بھی ہوجاتی ہے۔ اے محبت کے نشان والے! ذکر کرنے میں ظاہرًا شرائط میں سے کوئی نہ کوئی شرط مفقود ہے جس کی وجہ سے اس عدد پر کوئی نتیجہ مرتب نہیں ہوا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ بالمشافہ معلوم کر لیں گے۔

دوسرے آپ نے اس قول کے معنی دریافت کئے تھے اور لکھا تھا کہ حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے کام کو تکمیل کر کے فرمایا: "ذِکْرُ الِّلسَانِ لَقْلَقَۃٌ وَّ ذِکْرُ القَلبِ وَسْوَسَۃٌ وَّ ذِکْرُ الرُّوْحِ شِرْکٌ وَّ ذِکْرُ السِرِّ کُفْرٌ" ترجمہ: ”زبان کا ذکر بکواس ہے اور قلب کا ذکر وسوسہ، روح کا ذکر شرک اور سر کا ذکر کفر ہے“۔

جواب:

آپ سمجھ لیں کہ جب ’’ذکر‘‘ ذاکر و مذکور کی خبر دینے والا ہے، خواہ کوئی ذکر ہو اور اس کا اصل مقصود ذاکر اور ذکر کا مذکور میں فنا ہونا ہے اس لئے نتیجے کے طور پر ذکر کو لقلقہ، وسوسہ، شرک اور کفر فرمایا ہے۔

تشریح:

اصل میں منتہیوں کی Terminology اور ہوتی ہے او ر مبتدیوں کی Terminology اور ہوتی ہے۔ مبتدی ہوں گے تو بتائیں گے کہ بھئی ذکر کرو۔ ان کو پہلے لسانی ذکر کا بتایا جائے گا اس کے بعد ان کو دل کا ذکر بتایا جائے گا پھر روح کا ذکر بتایا جائے گا۔ اس کو طریقہ بتائیں گے کیونکہ یہ اس کا راستہ ہے، اس کے بغیر وہ چل نہیں سکتا۔ لیکن منتہی کو آپ اس پر لے آئیں گے تو اس کا تو ہم نے راستہ روک دیا، کیونکہ ابھی وہ اصل مقصود تک تو پہنچا ہی نہیں کیونکہ ابھی ذرائع میں ہے۔ کیا خیال ہے آپ کو کتنی ہی خوبصورت گاڑیوں میں راولپنڈی سے لاہور کے درمیان گھمایا جائے اور آپ لاہور نہ پہنچیں تو کیا خیال ہے مزہ آئے گا؟ اگرچہ بڑی اچھی گاڑیاں ہوں مرسیڈیز بھی ہوں، لیکن آپ لاہور نہیں پہنچ پا رہے تو کیا خیال ہے کتنا مزہ آئے گا؟ تھوڑا عرصہ لگے گا پھر آپ کہیں گے کیا مصیبت ہے لاہور آ ہی نہیں رہا۔ تو اب گاڑی طلب تو ہے، گاڑی ذریعہ ہے، لیکن گاڑی مقصود نہیں ہے، تو اب اگر کسی نے اس کو مقصود بنا لیا تو اسے رکنے کا کہیں گے۔ اسی طریقے سے ذکر تو گاڑی ہے وہ آپ کو پہنچا رہی ہے لیکن اگر آپ اپنی منزل مقصود تک نہیں پہنچے، اسی میں گم ہوگئے تو پھر کیا ہوگا؟ تو اس کے لئے اس قسم کے خطرناک الفاظ بتائے جاتے ہیں جیسے محدثین راویوں کے بارے میں بتاتے تھے کہ یہ کذاب ہے، دجال ہے وغیرہ وغیرہ، تو وہ مجبور تھے کیونکہ ظاہر ہے انہوں نے راستہ دینا تھا، سمجھانا تھا۔ اسی طرح ان حضرات نے بھی سمجھانا ہوتا ہے اور یہ کرنا ہوتا ہے۔

متن:

بہرچہ از دوست دامانی کفرآں حرف و چہ ایماں

بہرچہ از راہ دور افتی چہ زشت آں حرف و چہ زیبا

ترجمہ:

جُدا جو حق سے کر دے ایسا ایمان کفر بن جائے

تجھے گمراہ جو کر دے وہ خوبی عیب کہلائے

لیکن فنا و بقا کے حاصل ہونے سے پہلے ذکر کے لئے ان ناموں کے عارض ہونے کو جاننا ضروری ہے، کیونکہ بقا کے حاصل ہونے کے بعد ذاکر کا وجود اور ذکر کا ثبوت اس سے مذموم نہیں ہے۔ اگر اس کے معنی سمجھنے میں کچھ اخفا رہ گیا ہو تو بالمشافہ دریافت کرنے پر معلوم ہوجائے گا کیونکہ تحریر کا حوصلہ (گنجائش) کم ہے۔

تشریح:

یعنی پہلے فنا ہے، استہلاک ہے، فنائیت ہے، آپ اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھیں گے پھر بعد میں آپ کو دوبارہ واپس لوٹا دیا جائے گا، پھر آپ اپنے آپ کو سمجھیں گے، لیکن اللہ کا بندہ سمجھیں گے، پہلے آپ کی اپنے اوپر نظر ہوگی اللہ سے غفلت کی وجہ سے، اور اب آپ کی اپنے اوپر نظر ہوگی اللہ تعالیٰ کے لئے۔ یہ فرق ہے۔ تو بقا کے بعد پھر یہی چیزیں دوبارہ واپس آجاتی ہیں، پھر مسئلہ نہیں ہوتا، کیونکہ پھر وہ رکاوٹ نہیں رہتی، پھر تو مقصود مل جاتا ہے جیسے آپ کو کام دے دیا گیا ہے بس ٹھیک ہے جی گاڑی لے کر لوگوں کو لاؤ، تو آپ روزانہ اُدھر سے آیا کریں گے اور جایا کریں گے، کیونکہ آپ کی ڈیوٹی ہوگی۔ ظاہر ہے اس میں تو حرج نہیں ہے۔ لیکن اگر آپ خود ہی نہ پہنچیں تو پھر؟ تو اس لحاظ سے گویا کہ جو کاملین ہیں ان کے لئے ان چیزوں کا وجود نقصان کی بات نہیں ہے، بلکہ اس میں کام کی بات ہے، یعنی اس سے کام لیا جاتا ہے۔

متن:

لہٰذا اس قول کو حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف نسبت دینا خصوصًا کام پورا ہونے کے بعد مستحسن نہیں ہے۔

دوسرا سوال یہ تھا کہ آپ نے لکھا تھا کہ شیخ ابو سعید ابو الخیر3 نے بو علی سینا4 سے مقصود (حق جل و علا) پر دلیل طلب کی تھی اور اس نے جواب میں لکھا تھا کہ ’’کفرِ حقیقی میں آ جا اور اسلامِ مجازی سے نکل جا‘‘۔ اور شیخ ابو سعید نے عین القضاۃ5 کو لکھا کہ ’’اگر ایک لاکھ سال تک عبادت کرتا تو مجھے وہ فائدہ حاصل نہ ہوتا جو بو علی سینا کے اس کلمہ سے حاصل ہوا‘‘۔ عین القضاۃ نے جواب میں لکھا کہ ’’اگر آپ سمجھ لیتے تو اس بے چارے کی طرح مطعون اور ملامت زدہ ہوجاتے‘‘۔

جواب:

جاننا چاہیے کہ کفرِ حقیقی سے مراد دوئی کا دور کرنا ہے،

تشریح:

مطلب یہ ہے کہ اللہ جل شانہ ہی انسان کے سامنے رہیں اور کوئی چیز نہ ہو۔

متن:

اور کثرت کا کلی طور پر چُھپ جانا ہے جو کہ فنا کا مقام ہے اور اس کفرِ حقیقی کے اوپر اسلامِ حقیقی کا مقام ہے جو بقا کا محل ہے۔ کفرِ حقیقی کو اسلامِ حقیقی سے نسبت دینا سرا سر نقص و عیب ہے۔ یہ ابنِ سینا کی کوتاہِ نظری ہے کہ اس نے اسلامِ حقیقی کی طرف رہنمائی نہیں کی اور حقیقت میں اس کو کفرِ حقیقی سے بھی کچھ نصیب نہیں ہوا، لہٰذا اس نے صرف علم و تقلید کی وجہ سے کہہ دیا اور لکھ دیا بلکہ اس کو تو اسلامِ مجازی سے بھی پورا حصہ حاصل نہیں ہوا اور وہ فلسفے کی مو شگافیوں میں الجھ کر رہ گیا۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ؂5 اس کی تکفیر کرتے ہیں اور حق یہ ہے کہ اس کے فلسفی اصول اسلام کے اصول کے مخالف ہیں۔ دوسرے یہ کہ شیخ ابو سعید، عین القضاۃ کے زمانے سے بہت پہلے ہوئے ہیں اور ان کو کیسے لکھتے۔ (یعنی وہ بہت پہلے گزرے ہیں، یعنی یہ واقعہ ہی صحیح نہیں ہوا۔) اگر کوئی شبہ باقی رہ گیا ہو تو بوقتِ ملاقات دریافت فرما لیں۔ و السلام۔

تشریح:

واقعتاََ بعض چیزیں مشہور ہوجاتی ہیں ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ حضرت کو بڑے مشکل کام کرنے پڑے۔ مشکل کام اس لئے کرنے پڑے کہ اس وقت تک knowledge اتنی Confucius ہوگئی تھی، لوگوں نے اس کو اتنا گڑبڑ کر دیا تھا کہ اس میں بڑے بڑے نام آ جاتے تھے کہ وہ یہ کہتا ہے، وہ یہ کہتا ہے اور وہ یہ کہتا ہے۔ حضرت بالکل تلوار کی طرح کاٹتے تھے کہ یہ بھی ٹھیک نہیں ہے، یہ بھی ٹھیک نہیں ہے، جیسے محدثین کرتے ہیں، اس طریقے سے کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر وہ اس طرح نہ کرتے تو مسئلہ حل نہیں ہوتا تھا، لوگوں کے ذہنوں سے چیزیں نہیں نکلتی تھیں، اس لیے انہوں نے بہت سختی کے ساتھ ان چیزوں کا رد فرمایا۔ ورنہ اکبر نے جتنا نقصان پہنچایا تھا کبھی اس کی تلافی نہیں ہوسکتی تھی۔ اس نے بہت گند مچایا ہوا تھا، ان کے دربار میں اس قسم کے فلسفی اور غلط لوگ آتے تھے اور ٹاپ کے ذہین ہوتے تھے ابو الفضل اور فیضی کی طرح۔ ان لوگوں نے اسلام کی بہت ساری چیزوں کو بگاڑ کے پیش کیا تھا اکبر کے سامنے، اور پھر غلط صوفیوں کا اس وقت بڑا رواج تھا۔ ان کے جو بڑے سجادے تھے وہ اس پر بیٹھے ہوتے تھے، لوگ ان کی قدر کرتے تھے، ان کے بارے میں کوئی بات سنتا بھی نہیں تھا۔ تو ایسی صورت میں کسی کے بارے میں اس قسم کی بات کرنا کوئی آسان بات نہیں تھی۔ لیکن حضرت کو یہ کرنا پڑا کیونکہ مجبوری تھی۔ تو بعد میں جس وقت حالات بہتر ہوگئے تو پھر حضرت نے کافی چیزوں کو سمیٹ لیا۔ جس وقت ہم نے مکتوبات شریف پر کام کیا تو ہمیں کسی کے ذریعے سے معلوم ہوا کہ اس کو شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت ہوئی، فرما دیا گیا کہ آپ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوبات کا درس کرنے سے پہلے ان کے حالات زندگی پڑھیں تاکہ آپ کو معلوم ہوجائے کہ کیسے حالات زندگی تھے۔ پھر میں نے کتاب نیٹ سے download کرلی تھی، ابوالحسن ندوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’تاریخ دعوت و عزیمت‘‘ جلد چہارم جو حضرت کے بارے میں ہے، وہ download کر کے میں نے اس کو پڑھا۔ اس سے سارے حالات میرے سامنے آگئے پھر مجھے پتا چلا کہ حضرت نے اتنی سخت باتیں کیوں کیں، ورنہ صحیح بات ہے مجھے بھی بڑی حیرت ہوتی تھی کہ حضرت یہ کیا باتیں عرض کر رہے ہیں، بڑے بڑے نام ہیں درمیان میں، جیسے بوعلی سینا بڑا نام ہے، چھوٹا نام تو نہیں ہے، اسی طرح اور لوگ ہیں۔

مکتوب نمبر 246

متن:

میر محمد نعمان6 کی طرف صدر فرمایا۔ اس مقام کے حاصل ہونے کے بارے میں جو کمال و تکمیل کے مراتب میں متوقع اور مترصد (امید وار) اور اس بے توفیقی کی وجہ کے بیان میں جو بعض اوقات طاری ہوجاتی ہے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ وَ اٰلِہٖ وَ أَصْحَابِہِ الطَّاھِرِیْنَ وَ عَلَیْھِمْ أَجْمَعِیْنَ (شروع اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے، اور تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لئے ہیں اور حضرت المرسلین اور آپ کی پاک اولاد اور اصحاب پر صلوۃ و سلام ہو)

آپ کے مکتوبات گرامی پے در پے صادر ہوئے اور بہت زیادہ خوشی حاصل ہوئی۔ کوئی قاصد اُن اطراف کی طرف جانے والا نہ ملا اس لئے ہر ایک کا جواب نہ لکھ سکا امید ہے کہ معذور سمجھیں گے۔ آپ نے میر داد کے ہمراہ جو مکتوب ارسال کیا تھا اس کے پہنچنے کے بعد ایک روز صبح کی نماز کے بعد دوستوں کے حلقہ میں بیٹھا ہوا تھا کہ ارادۃً یا بے ارادہ آپ کی جانب سے توجہ پیدا ہوگئی اور بقایا آثار جو آپ میں نظر آتے تھے اُن کو دُور کرنے کے در پے ہوا، اور وہ ظلمتیں اور کدورتیں جو محسوس ہو رہی تھیں ان کے دفع کرنے میں کوشش کرنے لگا، یہاں تک کہ آپ کے کمال کا ہلال بدرِ کامل بن گیا اور جو کچھ آفتابِ ہدایت میں امانت رکھا تھا وہ سب کا سب اس بدر میں منعکس ہوا، یہاں تک کہ کمال کی جانب میں کچھ باقی نہ رہا کہ جس کی توقع یا انتظار کیا جائے۔ إِلَّا أَنْ یَتَّسِعُ الظَرْفُ بَعْدَ ذَالِکَ وَ یَاخُذُ بِقَدْرِ وُسْعَتِہٖ شَیْئًا فَشَیْئًا (سوائے اس کے کہ ظرف وسیع ہوجائے اور اس کے بعد اپنی وسعت کے موافق تھوڑا تھوڑا کر کے حاصل کر لے) اور بہت دیر تک اس معنیٰ کی مثالی صورت نظر میں رہی یہاں تک کہ وہ یقین جو صدق کا مصداق ہے حاصل ہوا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ سُبْحَانَہٗ عَلٰی ذَالِکَ (اس پر اللہ سبحانہ کا شکرہے)

اس دولت کا حصول اس واقعے کی تاویل ہے جو آپ نے دیکھا تھا اور جس کے حاصل ہونے کے لئے آپ بڑے مبالغے اور تاکید کے ساتھ سوال کرتے تھے۔ لِلّٰہِ الحَمْدُ سُبْحَانَہٗ وَ الْمِنَّۃُ (اللہ سبحانہ کی حمد اور احسان ہے) کہ آپ کا قرض پورا پورا ادا ہوگیا، وعدہ وفا اور ایفائے عہد ہوا۔ امید ہے کہ اس کمال کے اندازے کے مطابق تکمیل حاصل ہوگی، اور اُس علاقہ کے دشت و صحرا آپ کے وجود شریف سے منور ہوں گے۔

آپ نے اپنی بے توفیقی کے متعلق تحریر کیا تھا اس کا ظاہری سبب قبض کی زیادتی ہے اور چونکہ آپ کا قبض عرصے تک رہتا ہے لہٰذا اس کا اثر اور نتیجہ بھی اس کی طوالت کی وجہ سے زیادہ ہوتا ہے (لہٰذا اس کا خیال نہ کریں) اور اپنے آپ کو تکلف کے ساتھ اعمال و عبادت کے ادا کرنے میں مشغول رکھیں اور اسی طرح عمل پیرا رہیں۔

دوسرے اس سال بہت علومِ بلند اور معارفِ ارجمند ظہور میں آئے ہیں، ان میں سے دو مسودے اخوند مولانا محمد امین7 اپنے ہمراہ لے گئے ہیں ان میں سے ایک مسودہ ہمارے حضرت خواجہ (باقی باللہ) قدس سرہٗ کی بعض رباعیات کی شرح کے حل میں ہے جو فیروز آباد کے دوستوں کی قرأت کے وقت تحریر ہوئی تھیں۔ اس رسالے میں توحید آمیز علوم ان رباعیات کی تقریب کے سلسلے میں درج ہوئے ہیں، اور علماء اور اُن صوفیہ کے درمیان جو کہ وحدت الوجود کے قائل ہیں مطابقت پیدا کی ہے، اور وہ اس طرز پر تحریر ہوئے ہیں کہ فریقین کا نزاع لفظی رہ جاتا ہے۔ دوسرا مسودہ وہ مکتوب ہے جو فرزندی8 و ارشدی کے نام بہت بسط و تفصیل کے ساتھ تحریر کیا گیا ہے۔ اس کے مطالعے کے وقت آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ یہ علوم کس درجہ بلند ہیں۔ اگر ان میں کوئی بات شبہ والی ہو تو دریافت کر لیں۔

تشریح:

ظاہر ہے جو انسان لگا رہتا ہے، کوشش کرتا رہتا ہے، اللہ بھی اس کے لئے اسباب پیدا فرما دیتے ہیں، اصل میں تو اسباب اللہ پاک ہی پیدا فرماتے ہیں۔ تو مشائخ کچھ چیزیں اختیاری اور ارادتاََ کرتے ہیں اور کچھ چیزیں ان سے اضطراراََ ظاہر ہوتی ہیں۔ اس وجہ سے اپنے آپ کو ہر وقت اپنے مشائخ کے سامنے پیش رکھنا، اسی میں فائدہ ہے۔ جیسے کہ یہ بار بار لکھتے رہے، بار بار لکھتے رہے، بار بار لکھتے رہے، تو جو چیز اللہ پاک نے دینی تھی اتنی دور سے دلوا دی کہ ان کے شیخ ان کی طرف متوجہ ہوئے، کیونکہ دینا تو اللہ نے تھا، لہٰذا اللہ نے ان کی طرف متوجہ کر لیا اور پھر ان کے ذریعے سے وہ چیزیں دے دیں۔ بس یہی فرق ہے۔ عموماََ لوگ کام نہیں کرتے اور کہتے ہیں توجہ فرمائیں، بنیادی مسئلہ یہی ہوتا ہے۔ جو کام کرتے ہیں ان کو توجہ مل ہی جاتی ہے، وہ تو اللہ کا کام ہے، کیونکہ اللہ پاک نے صاف فرما دیا ہے کہ جو میری طرف ایک بالشت بڑھتا ہے میری رحمت اس کی طرف دو بالشت جاتی ہے، اور جو میری طرف ایک ہاتھ آتا ہے تو میری رحمت اس کی طرف دو ہاتھ جاتی ہے، جو میری طرف چل کر آتا ہے میری رحمت اس کی طرف دوڑ کر جاتی ہے۔ تو وہ تو ہے۔ تو اللہ جل شانہٗ کا نظام تو اپنی جگہ پر موجود ہے، تو آپ اپنے کام میں لگے رہیں۔ ان باتوں کی طرف نہیں آنا چاہیے کہ مجھے توجہ دے دیں، مجھے یہ کردیں، مجھے یہ کردیں۔ انہوں نے توجہ مانگی تھی؟ توجہ تو نہیں مانگی، اپنے احوال پیش کئے تھے، لیکن دیکھو! اللہ پاک نے جب کرنا تھا تو بیٹھے بیٹھے ہوگیا۔ بیٹھے ان لوگوں کے ساتھ ہیں جو وہاں ہیں اور توجہ کن پر کر رہے ہیں؟ جو وہاں نہیں ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نظام ایسا بن گیا۔ تو یہ ہوتا ہے۔ ایک صاحب تھا وہ مجھے معمولات کا چارٹ باقاعدگی کے ساتھ بھیجتا رہتا تھا، فجر کی نماز مسلسل قضا اور ذکر بھی نہیں، البتہ باقی نمازیں پڑھتا ہے، اس دفعہ بھی اس کا آیا تھا میں نے اس کے جواب میں لکھا "مجھے آپ کی ایک عادت بہت پسند ہے کہ آپ ہر حال میں چارٹ بھیج دیتے ہیں اور آپ کی دو عادتیں بہت زیادہ ناپسند ہیں ایک یہ کہ آپ کی فجر کی نماز مسلسل قضا رہتی ہے اور دوسرا آپ ذکر نہیں کرتے" تو اس کا جواب آیا کہ شاہ صاحب میں تو بہت کوشش کرتا ہوں، کئی الارم لگاتا ہوں لیکن پھر بھی میں نہیں جاگ سکتا، کیا کروں بڑا پریشان ہوں، میں تو چاہتا ہوں کہ سب کچھ چھوڑ کر آپ کے پاس آ جاؤں (وہ دبئی میں ہے) لیکن میں کیا کروں اپنے والدین سے علیحدہ جا نہیں سکتا، مجبوری ہے۔ اس کا آپ مجھے حل بتائیں۔ میں نے کہا چلو جی فجر کی نماز کا تو آپ نے عذر بتا دیا اس کا تو بعد میں دیکھیں گے لیکن ذکر نہ کرنے کا آپ کے پاس کیا عذر ہے؟ اس وقت تو آپ جاگے ہوئے ہوتے ہیں، یہ آپ کیوں نہیں کرتے؟ یہ تو آپ کر سکتے ہیں ناں؟ اگر آپ یہ جاری رکھیں تو اس کی برکت سے ممکن ہے کہ دوسرا مسئلہ بھی حل ہوجائےم اللہ تعالیٰ آپ کی مدد فرمائے اور راستہ مل جائے۔ یہ بات اس کو سمجھ آگئی۔ کہنے لگا ان شاء اللہ میں کل سے شروع کروں گا۔ اب اس کو جو فائدہ ہوا وہ کس چیز سے ہوا؟ اطلاع دینے سے، چھپا کے نہیں رکھا۔ ہمارے بہت سے لوگوں نے یہ بات چھپا کر رکھی تھی، نمازوں پہ نمازیں قضا ہو رہی تھیں، بتایا نہیں، کہتے ہیں جب میں ٹھیک ہوجاؤں گا تو پھر بتاؤں گا۔ دیکھو! جب نمازیں بھی ٹھیک ہوگئیں، ساری چیزیں ٹھیک ہوگئیں، پھر کس لئے بتانا ہے؟ مبارکباد لینے کے لئے؟ شاباش لینے کے لئے؟ کیا خیال ہے ڈاکٹر کے پاس اس لئے جاتے ہیں کہ شاباش ملے؟ وہ آپ کو مبارکباد دیں کہ واہ کیا زبردست کام کیا ہے آپ نے، جو میں نہیں کر سکتا تھا آپ نے وہ کر دکھایا۔ تو اس سے کیا فائدہ ہوگا؟ یہ شیطان کی جھوٹی تدبیریں ہوتی ہیں جن کی وجہ سے انسان خراب ہوتا ہے۔ بھئی جیسے بھی ہو اپنے شیخ کے ساتھ رہو، ان سے کوئی چیز نہ چھپاؤ کیونکہ آپ چھپائیں گے تو یہ ایسے ہے جیسے ڈاکٹر سے کوئی اپنی بیماری چھپاتا ہے تو پھر اگر بیماری کا علاج نہ ہو تو کون ذمہ دار ہے؟ اپنے شیخ سے کوئی چیز نہ چھپاؤ ورنہ خسارے میں جاؤ گے۔ ایک تو نیت کا بہت بڑا فتور ہے جس کی وجہ سے بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے۔ عمل تو پیچھے ہے۔ یعنی میں شیخ کو اس لئے نہ بتاؤں کہ وہ مجھے کہے گا یہ آپ کیا کر رہے ہیں، ڈانٹے گا۔ کیا خیال ہے شیخ کے پاس کس لئے لوگ جاتے ہیں؟ بھئی! وہ تو استاد کے بارے میں بھی ایسا ہی ہے حالانکہ شیخ کا مرتبہ تو استاد سے بھی اونچا ہے تربیت کے لحاظ سے۔ اس کے بارے میں ہے کہ: ’’جورِ اُستاد بہ ز مہرِ پدر‘‘ استاد کی سختی والد کی محبت سے زیادہ بہتر ہوتی ہے۔ کیونکہ استاد کی سختی آپ کو سنوار رہی ہے اور والد کی نرمی آپ کو بگاڑ رہی ہے۔ تو جو آپ کے لئے مفید چیز ہے آپ اس کو چھوڑ رہے ہیں اور جو آپ کے لئے مفید چیز نہیں ہے آپ اس کو لے رہے ہیں۔ تو یہ اصل میں بنیادی بات ہے کہ اپنے احوال بتانے چاہئیں، راستہ خراب نہیں کرنا چاہیے۔ ایک صاحب تھے وہ میرے سامنے بیٹھے ہوئے تھے کسی مجلس میں، اور وہی بات کہ اللہ تعالیٰ کی تشکیل ہوتی ہے اس میں انسان کا بس نہیں چلتا، پتا نہیں مجھے کیا ہوا، میں نے فوراََ اس کو جھٹکا دیا اور کہا کیا کر رہےہو؟ حالانکہ آرام سے بیٹھا ہوا تھا میرے سامنے۔ بعد میں اس نے کہا شاہ صاحب آپ نے تو مجھے ہلا دیا، میں تو بہت دور پہنچ گیا تھا۔ (پتا نہیں کس سوچ میں گیا ہوگا۔) پتا نہیں آپ مجھے کیسے واپس لائے۔ ظاہر ہے مجھے تو پتا بھی نہیں تھا کہ وہ کدھر پہنچ گیا تھا، میرا ہاتھ اضطراری طور پر اس کے کندھے پر گیا اور اس پورے process کے دوران بھی مجھے پتا نہیں تھا کہ میں کیوں کر رہا ہوں، سال گزر گیا مجھے معلوم نہیں ہوا اور شاید ابھی تک معلوم نہیں کہ کیا ہوا کہ کیوں ہوا، لیکن ہوا، بس جب ہوا تو ہوا۔ میں کہتا ہوں وہ بڑا خوش نصیب ہے جو شیخ کی ڈانٹ کھائے گا بہت ہی خوش نصیب ہے۔ وجہ کیا ہے کہ وہی ڈانٹ ہی اس کو بنا رہی ہے، جیسے آپ کے کپڑے میلے ہیں تو کیسے دھوئیں گے؟ صابن ڈالیں گے، سرف ڈالیں گے، پھر کافی Rotate کریں گے مشین میں، پھر نچوڑیں گے۔ سارا کچھ کرنا ہوگا پھر اس کے بعد ہی صاف ہوں گے۔ آرام آرام سے کرنے سے تو صاف نہیں ہوں گے اس طرح تو گند پھیل جائے گا۔ تو لوگ چاہتے ہیں کہ بس آرام آرام سے سارا کچھ ہوجائے، ہمیں کچھ نہ کہا جائے اور بیٹھے بیٹھے ہم قطب کے مقام پر پہنچ چکے ہوں، یہ تو نا ممکن ہے، یہ تو اللہ تعالیٰ کا نظام ہے اس میں تو انسان کچھ نہیں کر سکتا۔ تو اس وجہ سے کہتے ہیں: ”پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ“ مطلب یہ کہ جو شجر ہے اس کے ساتھ پیوستہ رہیں، تو امید کرتے ہیں کہ ان شاء اللہ اللہ جل شانہ آپ کی طرف رحمت کی نظر فرمائیں گے اور جو کچھ ملنا ہوگا وہ مل جائے گا۔ اللہ پاک کے ہاں یقین جانیے کہ کبھی بھی بے انصافی نہیں ہوتی، یہ نہیں ہوسکتا۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

اس کے الطاف شہیدی تو ہیں مائل سب پر

تجھ سے کیا بیر تھا گر تو کسی قابل ہوتا

تو جن پر بھی کرم کیا ہے تو کیا ان کا حق تھا؟ حق تو ان کا بھی نہیں تھا، لیکن کر دیا۔ صرف یہ بات ہے کہ وہ جو اُدھر سے تجلی ہوتی ہے آپ اُس کے سامنے الٹے گھڑے نہ بن جائیں۔ اس وقت الٹے گھڑے کو کچھ نہیں ملے گا۔ بے شک تیز موسلادھار بارش ہو لیکن اس گھڑے میں کتنا پانی آئے گا جو الٹا پڑا ہو؟ اس میں کچھ بھی نہیں آئے گا، ہاں سیدھا ہو تو بوندا باندی بھی ہوگی تو تھوڑا تھوڑا پانی اِدھر اُدھر اِدھر اُدھر سے اس کے اندر جمع ہونا شروع ہوجائے گا۔ تو اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ رکھو اور ذرائع کو استعمال کرلو۔ ذرائع میں ذریعہ اول شیخ ہے۔ یا تو آپ کا گمان یہ ہو کہ شیخ کامل نہیں ہے تو وہ علیحدہ بات ہوگی، پھر تو معاملہ یہ ہوگا کہ اس کے لئے کوئی اور طریقہ اختیار کرلیں۔ معلوم کرلیں کہ بھئی اپنے آپ کو کسی کامل شیخ کے ساتھ Attach کرنے کے بجائے ایسے وقت خراب کرنا، یہ غلط ہے، یہ اپنا وقت ضائع کرنا ہے۔ تو اگر سمجھتے ہو تو پھر اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ رکھو جیسا شیخ کے ساتھ رکھا جاتا ہے۔ کوئی چیز اس سے چھپاؤ نہیں، Shortcut کا تو کبھی سوچو بھی نہیں کہ مجھے Shortcut مل جائے گا۔ Shortcut کا سوچنا ہی اصل میں اپنے آپ کو خراب کرنا ہے۔ بے شک Shortcut مل جائے لیکن اس کا سوچنا بہت نقصان دہ ہے۔ Shortcut کا تو کبھی سوچنا ہی نہیں ہے کہ مجھے بس بیٹھے بیٹھے سارا کچھ مل جائے یہ نا ممکن بات ہے۔ جس کو بیٹھے بیٹھے ملتا ہے اس سے پہلے وہ بہت کچھ کر چکا ہوتا ہے، اس طریقے سے کرچکا ہوتا ہے کہ پھر ان کو ملتا ہے تو لوگوں کو صرف وہ نظر آتا ہے کہ بیٹھے بیٹھے مل رہا ہے، وہ بیٹھے بیٹھے نہیں ہوتا بلکہ اس نے بہت کچھ کیا ہوتا ہے، اس کی Justification ہوچکی ہوتی ہے۔ تو اس وجہ سے کبھی بھی اس طرح نہیں کرنا چاہیے۔ خوش قسمت لوگ ہیں جو اپنے وسائل اور ذرائع سے فائدہ اٹھائیں اور اپنے آپ کو ضائع نہ کریں۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔

چونکہ اس بیان میں کچھ چیزیں ایسی آئی ہیں جو یوں کہہ سکتے ہیں کہ خرابی کو جیسے صحت بتایا گیا تو اس طریقے سے جو جہالت ہے وہ علم کی انتہا ہے، یعنی معرفت ہے، کیونکہ انسان کو پتا چلتا ہے کہ میں بے علم ہوں اس کے لئے بھی علم کی ضرورت ہے تو چونکہ اس مضمون کی غزل یہاں پر ہوچکی ہے تو اس کو بھی ساتھ پیش کیا جا رہا ہے:

ہم فکر آگہی سے جہالت کو پا گئے

نظروں سے اپنی گر کے ہی عزت کو پا گئے

پھنسے ہوئے تھے جال میں اپنی شان کے ہر دم

اس کا بھرم کھلا اس کی عظمت کو پا گئے

ہم فکر آگہی سے جہالت کو پا گئے

نظروں سے اپنی گر کے ہی عزت کو پا گئے

خوش فہمیوں کے جال سے نکلے تو اس کے بعد

دیکھا جو اس کو شان عبدیت کو پا گئے

ہم فکر آگہی سے جہالت کو پا گئے

قرآن ایک کتاب تھی رکھی تھی جو پڑھی

دل سے تو اس پیغام محبت کو پاگئے

ہم فکر آگہی سے جہالت کو پا گئے

حج گو کہ چند کاموں کے کرنے کا تھا اک نام

دیکھا تو اس شاہراہِ محبت کو پا گئے

ہم فکر آگہی سے جہالت کو پا گئے

ٹوٹے ہوئے الفاظ میں شاعری جو کی شبیرؔ

اُس کے فضل سے خوب اُس کی نصرت کو پا گئے

ہم فکر آگہی سے جہالت کو پا گئے

نظروں سے اپنی گر کے ہی عزت کو پا گئے

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ



  1. ۔ آپ کے نام دس مکتوبات ہیں اور آپ کا تذکرہ دفتر اول مکتوب 161 پر گزر چکا ہے۔

  2. ۔ آپ کے نام دو مکتوبات ہیں دفتر اول مکتوب 245-288 باقی حالات معلوم نہ ہوسکے البتہ فارسی نسخے کے حاشیے پر بطور نسخہ ملا محمد صالح لکھا ہوا ہے اور اردو تراجم میں ملا محمد صالح درج ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ مکتوب دونوں بزرگوں کے نام ہو۔

  3. . شیخ ابو سعید ابو الخیر کا تذکرہ دفتر اول مکتوب 11 کے حاشیے پر ملاحظہ ہو۔

  4. ۔ شیخ الرئیس بو علی سینا مسلم مفکرین اور حکما میں سے ہیں۔ سنہ 370ھ بمطابق 980ء میں بخارا کے قریب افشنا کے مقام پر پیدا ہوئے اور سنہ 428ھ بمطابق 1038ء میں ہمدان میں وفات پائی۔ مختلف علوم و فنون کے ماہر تھے۔ تصانیف کی تعداد کافی ہے، ان میں "شفا" فلسفہ کا انسائیکلو پیڈیا اور "قانون" خاص طور پر مشہور ہیں۔

  5. ۔ حجۃ الاسلام امام محمد بن محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ طوس کے رہنے والے اور جامع شریعت و طریقت تھے۔ تصوف میں شیخ ابوعلی فارمدی سے نسبت حاصل تھی۔ مذہبًا شافعی تھے۔ کثیر التصانیف ہیں، آپ کی تفسیر قرآن "یاقوت التاویل" چالیس جلدوں میں ہے۔ علاوہ ازیں "احیاء العلوم" اور "کیمیائے سعادت" نہایت بلند پایہ تصانیف ہیں۔ ولادت سنہ 450ھ اور وفات 14 جمادی الاخریٰ سنہ 505ھ کو بغداد میں ہوئی۔

  6. ۔ آپ کے نام 33 مکتوبات ہیں اور آپ کا تذکرہ دفتر اول مکتوب 119 پر گزر چکا ہے۔

  7. ۔ مولانا محمد امین کے نام دو مکتوب ہیں اور تذکرہ دفتر اول مکتوب 166 پر درج ہے۔

  8. ۔ غالبًا مخدوم زادہ کلاں خواجہ محمد صادق مراد ہیں اور مکتوب 234 دفتر اول ہے۔

مکتوبات میں تزکیہ اور روحانی ترقی کا راستہ - درسِ مکتوباتِ امام ربانیؒ