ما شاء اللہ! قربانی کے لئے ہم جائیں گے، ان شاء اللہ۔ قربانی بہت اونچا عمل ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اصل میں ہم لوگوں کی نظر پیسوں پر ہوتی ہے۔ ابراہیم علیہ السلام کو بیٹے کی قربانی کا کہا گیا تھا، اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ اس کے لئے ہم لوگ compare کرلیں پیسوں کے لحاظ سے، بلکہ اگر ہم پوری دنیا کو بھی خرچ کر کے قربانی کرلیں، تو یہ بھی اس کے برابر نہیں ہوسکتا، برابری ناممکن ہے، البتہ اللہ جل شانہٗ اپنے فضل و کرم سے اس کے برابر قبول فرما لیتے ہیں، یہ اس کا فضل و کرم ہے، اس پر اللہ تعالیٰ کا بڑا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اللہ جل شانہٗ نے ہم پر اتنا احسان کیا کہ اس عمل کے ذریعہ سے ہمیں اس عمل کے برابر اجر عطا فرما دیتے ہیں۔ یہ بہت بڑی بات ہے، لہٰذا اس کا ہمیں خیال رکھنا چاہئے۔
پھر دوسری بات یہ ہے کہ یہ چونکہ عید ہے، عید خوشی کا دن ہے، یقیناً اس میں کوئی شک نہیں کہ خوشی کا دن ہے، لیکن مسلمان کی خوشی میں اور غیر مسلم کی خوشی میں فرق ہے، مسلمان کی خوشی اصل میں دل کی خوشی ہوتی ہے اور یہ اس کیفیت کی خوشی ہوتی ہے جو کہ اللہ جل شانہٗ کی طرف سے ایسے موقع پر عطا کی جاتی ہے۔ وہ خوشی ہوتی ہے، جس کو روحانی خوشی کہتے ہیں۔ یہ جو دوسرے لوگ ہیں، ان کو نفسانی خوشی ہوتی ہے، نفسانی خوشی وقتی ہوتی ہے، بس فوراً خوشی ہوتی ہے، پھر اس کے بعد ختم ہوجاتی ہے، لیکن جو روحانی خوشی ہوتی ہے، وہ قائم رہتی ہے، بلکہ اس کے اثرات اعمال پہ چلے جاتے ہیں، یعنی باقی اعمال اس کے مطابق ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ پس یہ بات ہے کہ الحمد للہ! اللہ کا شکر ہے، اللہ پاک نے ہمیں عید الاضحیٰ نصیب فرمائی ہے، قربانی کے ذریعہ سے ہم اللہ جل شانہٗ کو خوش کریں گے۔ ہر چیز کا اپنا اپنا موقع ہے۔ دیکھیں! رحم کا اپنا موقع ہے، لیکن یہاں ذبح کا موقع ہے، یہاں رحم یہی ہے کہ چھری تیز ہو، اس کو تکلیف نہ ہو اور اللہ کی محبت کے لئے ہم اس کو قربان کرلیں۔ اور ہمارے لئے وہ جانور زیادہ محبوب ہو، اس کو قربان کرنے کو جی نہ چاہے، لیکن پھر بھی ہم قربان کریں۔ یہ اصل میں بنیادی بات ہے۔ لہٰذا اگر ہم لوگ اس نیت کے ساتھ کریں گے، تو ان شاء اللہ العزیز ہماری قربانی اور زیادہ اچھی ہوجائے گی۔ قربانی کے اندر اهراق الدم ہے، یعنی خون بہانا ہے، باقی یہ ساری چیزیں قربانی کا حصہ نہیں ہیں، یہ اچھی طرح مان لینا چاہئے۔ مثال کے طور پر وہ جو گوشت کے تین حصے کرتے ہیں، یہ قربانی کا حصہ نہیں ہے، یہ صرف اور صرف ایک مستحسن طریقہ ہے، چونکہ قرآن پاک میں ہے کہ غریب مسکین کو بھی دے دیں، جو فوری مانگنے والا ہے۔ اس کو بھی دینے کا چونکہ حکم ہے، اسی طرح اپنے رشتہ داروں کا حق بھی ہے یعنی غرباء کا حق بھی ہے، رشتہ داروں کا بھی اور اپنا حق بھی ہے۔ حدیث میں ہے: ’’وَلِنَفْسِکَ عَلَیْکَ حَقًّا‘‘۔ (صحیح بخاری: 1968)
ترجمہ: ’’اور تیری جان کا تیرے اوپر حق ہے‘‘۔
پس اگر تینوں کو آپ برابر برابر weightage دیں، تو یہ ایک مستحسن طریقہ ہے۔
البتہ قربانی میں یہ ضرور ہے کہ جو حصوں والی قربانی ہوتی ہے، اس میں اٹکل سے تقسیم نہ ہو۔ اس میں باقاعدہ تول کر اچھی طرح حساب لگا کر تقسیم ہو، تاکہ اس میں کسی کے ساتھ کوئی زیادتی وغیرہ نہ ہو۔ اس طریقہ سے اگر ہم اس کو تقسیم کریں گے، تو پھر ٹھیک ہے، ورنہ پھر سود ہونے کا اندیشہ ہے۔ اس وجہ سے اس مسئلہ میں بہت زیادہ محتاط رہنا چاہئے۔
اور باقی یہ ہے کہ جو کھال ہے، تو کھال انسان خود اگر استعمال کرلے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ مثلاً: وہ جائے نماز بنا لے، یا کوئی اور چیز بنا لے، تو اس کے بارے میں کوئی گناہ نہیں، لیکن اگر آپ نے اس کے پیسے لے لئے یعنی اس کو آپ نے بیچ دیا، تو پھر اس کو خیرات کرنا ہے، لہٰذا بہتر تو یہ ہوتا ہے کہ آج کل مدارس بہت زیادہ مشکل میں ہیں، (اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرمائیں) لہٰذا ایسے لوگوں کو دینی چاہئے۔ کیوں کہ ظاہر ہے کہ تمام طرف سے راستے بند کیے جارہے ہیں۔ یہ طریقہ کہ حکومت کے نیچے لگ جائیں، تو پھر یہ کچھ بھی نہیں کرسکیں گے، اور اگر یہ حکومت کے نیچے نہیں لگتے، تو ان کے لئے پریشانیاں ہی ہیں، لہٰذا ہم لوگوں کے تعاون کے ساتھ ان کے لئے آسانی ہوسکتی ہے۔ لہٰذا ایسے لوگوں کو خود ہی پہنچا کے دیں ادب کے ساتھ، یہ نہیں کہ ہم سمجھیں کہ ہم ان کے اوپر احسان کررہے ہیں، بلکہ وہ ہمارے اوپر احسان کررہے ہیں کہ وہ ہماری اس چیز کو قبول فرما رہے ہیں، لہٰذا ہم ان کو ادب کے ساتھ پہنچا دیں۔
اور ساتھ یہ ہے کہ ہم لوگ جو عید کی خوشی ہے، اس کو روحانی خوشی میں تبدیل کرلیں۔ مثلاً: اچھے کپڑے پہننا سنت ہے، خوشبو لگانا سنت ہے، اس دن بہترین کپڑے آپ پہن لیں، غسل کرلیں، عیدگاہ ایک طرف سے آئیں اور دوسری طرف سے جائیں، یہ سب روحانی خوشی کے ذرائع ہیں، کیونکہ زمین آپ کے اوپر گواہ بن رہی ہے، یعنی جتنی زمین کو آپ cover کررہے ہیں، وہ آپ کے اوپر گواہ بن رہی ہے، لہٰذا ما شاء اللہ! اس طریقہ سے اگر ہم کریں گے، تو ہمارا عمل ان شاء اللہ! زیادہ قبول ہوگا۔
اور یہ میں عرض کررہا تھا، آج میں نے صبح یہ بات کی ہے کہ اصل ہے: Diamond cuts diamond یعنی لوہا لوہے کو کاٹتا ہے، مقصد یہ ہے کہ چونکہ نفس کی خوشی میں لوگ پاگل ہوجاتے ہیں، لہٰذا وہ شریعت کو چھوڑ دیتے ہیں، اس لئے اس کو آپ ﷺ کی محبت کے ساتھ شریعت کے مطابق کرلو۔ آپ ﷺ کی محبت ایسی محبت ہے، جو فاسق سے فاسق شخص کے دل میں بھی ہوتی ہے، اس کو بس ابھارنے کی ضرورت ہے۔ اگر اس کو ابھاریں اور آپ کہیں کہ بھائی! یہ تو ہمارے حبیب پاک ﷺ کی سنت ہے، اگر اس طریقہ سے ہم کرلیں، تو اللہ تعالیٰ بہت زیادہ خوش ہوجائیں گے اور آپ ﷺ بھی، تو سبحان اللہ! سارا کچھ ہوجائے گا۔ اللہ جل شانہٗ ہم سب کو زیادہ سے زیادہ سنت طریقہ کے مطابق اپنی عید کی خوشی کو کرنے کی توفیق عطا فرما دے۔
وَمَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلَاغُ