اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
معزز خواتین و حضرات آج پیر کا دن ہے اور پیر کے دن ہمارے ہاں جو تصوف سے متعلق سوال و جواب ہوتے ہیں، وہ ہوتے ہیں اور یہ ہے کہ اگر کسی کے اپنے احوال ہوں ذاتی، تو وہ اس میں پیش کئے جاتے ہیں، اور پھر اس کے بعد بات ہوتی ہے۔
سوال نمبر 1:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! آپ کو دو چیزوں کی اطلاع دینی ہے، اَلْحَمْدُ للہ! آج 07 اکتوبر کو ایک ماہ کا ذکر دو سو، چار سو، چھ سو، پانچ سو اور اللہ کا لطیفۂ قلب، روح، سر، خفی اور اخفیٰ پہ پانچ منٹ کا تصور کیا اور مراقبہ تجلیات افعالیہ پندرہ منٹ کیا ہے۔ اَلْحَمْدُ للہ! مراقبہ سے یہ ایمان بڑھا ہے کہ ہر کام اللہ تعالیٰ ہی کرتے ہیں۔ میں اب آپ کی اجازت سے برکت کی وجہ سے مولانا اشرف سلیمانی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت فقیر محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی قبر مبارک پر گیا تھا، آپ کا سلام بھی دیا ہے اور اگر یہ غلطی میں شمار ہوتا ہے تو اصلاح کی درخواست ہے۔
جواب:
ماشاء اللہ! بڑا اچھا کیا ہے۔ اب آپ دو سو، چار سو، چھ سو اور پانچ سو جاری رکھیں اور مراقبہ تجلیات افعالیہ کی جگہ اب مراقبہ صفاتِ ثبوتیہ شروع کرلیں۔ صفات ثبوتیہ کا مطلب یہ ہے کہ جو خاص صفات ہیں اللہ تعالیٰ کی آٹھ، یعنی اللہ پاک کا سننا، اللہ پاک کا دیکھنا، اللہ پاک کا کلام، اللہ پاک کی قدرت اور اس طرح حیات وغیرہ جو ہیں یہ سب خاص آٹھ صفات ہیں، ان کا جو فیض ہے (یعنی ہم گویا کہ اپنی ان صفات کے ذریعہ سے اللہ پاک کی صفات کو پہچانتے ہیں، تو اس کا جو فیض ہے) وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی شان کے مطابق آپ ﷺ کے قلب اطہر پر، آپ ﷺ کے قلب اطہر سے شیخ کے دل میں اور شیخ کے دل سے آپ کے لطیفۂ روح پر آرہا ہے۔ یہ اب آپ نے اس کو ایک مہینہ کرنا ہے ان شاء اللہ۔
سوال نمبر 2:
السلام علیکم۔ حضرت جی! برونائی سے فلاں بات کررہا ہوں۔ حضرت جی! گزشتہ ماہ آپ کو فجر کے بعد مراقبہ کے دوران نیند کے غلبہ کی اطلاع کی تھی، جس پر آپ نے جہری ذکر دو سو، چار سو، چھ سو ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ ’’حَقْ‘‘ صبح اور ہزار مرتبہ ’’اَللّٰہ‘‘ کے بعد پندرہ منٹ کا مراقبہ fresh وقت کرنے کا فرمایا تھا، جو میں نے مغرب سے پہلے کی کوشش کی ہے۔ حضرت جی! اب بھی بمشکل آدھا وقت ہی یا اس سے کم دھیان رہتا ہے اور بار بار دنیاوی معاملات میں الجھ جاتا ہے۔
جواب:
جو وسوسے خود آتے ہیں، ان کی پروا نہ کریں، بس آپ اپنے مراقبہ کی طرف دھیان رکھیں۔ اگر درمیان میں disconnect ہوجائے، تو پھر اس کو connect کرلیں، لیکن اس طریقہ سے یہ معاملہ آگے بڑھے گا، اس کو آپ چلائے رکھیں۔
سوال نمبر 3:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اللہ پاک آپ کو سلامت رکھے۔ حضرت جی! آج صبح میں نے خواب دیکھا کہ آپ مجلس میں فرما رہے ہوتے ہیں کہ تصویر نہیں ہونی چاہئے، تو میں بولتا ہوں کہ حضرت جی! میرے گھر میں میری تصاویر ہیں پرانی اور میں نے گھر میں ریزہ ریزہ کرنے کو کہا ہے، لیکن انہوں نے نہیں کیں، آپ یہ سن کر غصہ سے کہتے ہیں کہ خود ان کو کوڑے دان میں ڈال دو، اس کے بعد میری آنکھ کھل جاتی ہے۔
جواب:
آپ پہلے یہ بتائیں کہ آپ واقعی تصویر رکھتے ہیں یا نہیں رکھتے؟ اس کے بعد ان شاء اللہ! اس کی تعبیر بتائیں گے۔
سوال نمبر 4:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ جناب عالی خیریت سے ہوں گے۔ حضرت شاہ صاحب! مہینے کے لئے جو ذکر کرنے کے لئے دیا تھا یعنی ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ ’’حَقْ‘‘ اور دس منٹ کے لئے آنکھیں بند کرکے ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کا ذکر، تو یہ اَلْحَمْدُ للہ! 06 اکتوبر کو سب خواتین نے پورا کرلیا ہے۔ آگے جو آپ کا حکم ہو۔
جواب:
میرے خیال میں کچھ آپ نے mix کرلیا ہے کہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ ’’حَقْ‘‘ یہ میں نے آپ کو دیا تھا، یہ ان کے لئے نہیں تھا، لیکن بہرحال انہوں نے کرلیا تو ٹھیک ہے، ہوگیا، لیکن اب آئندہ کے لئے یوں کریں کہ ان کو بتا دیں کہ تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار سو سو دفعہ یہ تو عمر بھر کے لئے کرتی رہیں گی اور نماز کے بعد جو ذکر ہے، وہ بھی عمر بھر کے لئے کرتی رہیں گی ان شاء اللہ! اس کے علاوہ دس منٹ کے لئے نہیں، بلکہ پندرہ منٹ کے لئے آنکھیں بند کرکے تصور کریں کہ ہمارا دل ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کررہا ہے۔ یہ وہ پندرہ منٹ روزانہ کرلیا کریں، ان شاء اللہ! ایک مہینے کے لئے یہ ہے، ایک مہینے کے بعد پھر مجھے بتایئے گا۔
سوال نمبر 5:
Reminder for next ذکر:
حضرت! السلام علیکم
I have been reciting Allah Allah five thousands times followed by ‘‘یَا اللّٰهُ یَا سُبْحَانُ یَا عَظِیْمُ یَا رَحْمٰنُ یَا رَحِیْمُ یَا وَہَّابُ یَا وَدُوْدُ یَا کَرِیْمُ یَا شَافِیْ یَا سَلَامُ’’ hundred times, followed by ‘‘یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ’’ ten times. Kindly advise next.
جواب:
ماشاء اللہ! Now you should do five thousands and five hundred Allah and the rest will be the same ان شاء اللہ.
سوال نمبر 6:
میں بہت پریشان ہوں اور آپ جواب کیوں نہیں دیتے؟
جواب:
اصل میں جواب ہم پیر کے دن دیا کرتے ہیں یعنی اس میں آپ جو سوال بھیجیں گی یا بات کوئی کریں گی تو اس کا جواب پیر کے دن ہی دیا جاتا ہے اور آج پیر کا دن ہے تو میں جواب دے رہا ہوں، اس سے پہلے آپ کو صبر کرنا چاہئے۔ باقی جو آپ پریشانی کی بات کرتی ہیں تو دنیا میں کون ہے جو پریشان نہیں ہے؟ پریشان ہر ایک ہے، لیکن پریشانی کو کس طرح handle کیا جاتا ہے، یہ ہر ایک کا اپنا اپنا کام ہے۔ لہٰذا سب سے پہلے آپ یہ کام کرلیں کہ جتنی دیر آپ پریشان ہیں اور اتنی دیر جب آپ کو اپنی پریشانی یاد آجائے تو اس وقت ’’اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ پڑھ لیا کریں۔ ’’اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ کا مطلب کیا ہے؟ کہ بے شک ہم اللہ کے لئے اور اللہ کے پاس جانے والے ہیں۔ یعنی ہمارا اپنا کوئی اختیار نہیں ہے، ہم تو صرف اللہ پاک کے بندے ہیں۔ اور جب اللہ پاک کے بندے ہیں تو اللہ تعالیٰ جو حالت بھی بھیجے، وہ ہمارے لئے بہتر ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے والد صاحب جب حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فوت ہوئے تو بہترین تعزیت جو کی تھی، وہ ایک بدو نے کی تھی، جنہوں نے مجھ سے پوچھا کہ عباس کے لئے اللہ پاک کے ساتھ ہونا زیادہ محبوب تھا یا آپ لوگوں کے ساتھ ہونا؟ میں نے کہا کہ اللہ کے ساتھ اچھا ہے، انہوں نے کہا کہ آپ کو اللہ چاہئے یا عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ چاہئے؟ میں نے کہا ہمیں تو اللہ چاہئے۔ تو انہوں نے کہا کہ دیکھو! صبر پر اللہ ملتے ہیں، اللہ فرماتے ہیں:
﴿اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ﴾ (البقرہ: 153)
ترجمہ1: ’’بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔
اور عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اللہ محبوب تھے تو اپنے محبوب کے پاس چلے گئے۔ تو اب بتاؤ نقصان کس کا ہوا۔ اب یہ ایسی بات تھی کہ اس پر عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو مفسر قرآن ہیں صحابہ کرام میں تو انہوں نے فرمایا کہ بہترین نصیحت انہوں نے کی تھی۔ تو میں بھی یہی نصیحت آپ سے کرتا ہوں کہ آپ اللہ پاک کو پائیں، فانی چیزوں کے ساتھ دل نہ لگائیں، فانی چیزیں آنی جانی ہوتی ہیں، کوئی بھی یہاں رہنے کے لئے نہیں آیا، ہر ایک یہاں سے جانے کے لئے آیا ہے۔ لہٰذا آپ اس بات کو سمجھیں اور اس کے بدلے میں اگر کوئی بھی آپ کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں کرتا یا کوئی بھی آپ کا پوچھتا نہیں تو سمجھو کہ یہ میرا اللہ کے ساتھ ملنے کا وقت ہے یعنی گویا کہ اللہ پاک کو پانے کا وقت ہے، آپ اس وقت ’’اَللہ اَللہ‘‘ شروع کرلیں اور ’’اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ اس کا بہترین طریقہ ہے۔ تو اس وقت جب بھی آپ کو یاد آئے تو ’’اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ پڑھ لیا کریں اور آج کل تو درود شریف کے دن ہیں، اس لئے درود شریف زیادہ سے زیادہ کثرت کے ساتھ پڑھ لیا کریں، ان شاء اللہ! آپ کو دونوں فائدے حاصل ہوں گے، اللہ پاک کا تعلق بھی اور آپ ﷺ کے ساتھ محبت بھی۔
سوال نمبر 7:
السلام علیکم۔ محترم شیخ صاحب! امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ محترم! مجھے پانچ پانچ منٹ کا دل، روح، سر کا مراقبہ دیا گیا تھا اور پندرہ منٹ لطیفۂ خفی کا اور اس کے ساتھ چار ہزار مرتبہ لسانی ’’اَللہ‘‘ کا ذکر بھی تھا۔ تقریباً دو ماہ ہوگئے اَلْحَمْدُ للہ! سب جگہ ذکر محسوس ہوتا ہے، لیکن لطیفۂ خفی کا کبھی کبھار ہی محسوس ہوتا ہے۔ محترم! کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ صرف لطیفۂ روح ہی محسوس ہوتا ہے، باقی نہیں ہو رہے۔ آگے کے لئے کیا رہنمائی ہے ان شاء اللہ؟
جواب:
اس کے لئے یہ بات ہے کہ جو محسوس ہو رہا ہے اس پہ اللہ پاک کا شکر کریں اور جو محسوس نہیں ہو رہا اس پر آپ اپنا کام جاری رکھیں، محنت جاری رکھیں، اس پہ زیادہ توجہ کریں، ان شاء اللہ العزیز! وہ بھی چل پڑے گا۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے، جیسے کہ یہ چل رہا ہے، اسی طرح باقی بھی چل پڑیں گے۔ تو ابھی فی الحال آپ اسی کو رکھیں، تاکہ یہ پکے ہوجائیں، پھر ان شاء اللہ! آپ کو مزید بتائیں گے، ابھی ایک مہینہ اور یہی کرلیں۔
سوال نمبر 8:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
I want to make a request for dua from you. Kindly make a special dua for me that Allah makes me see حق as حق and removes my flaws, makes me from His دین and gives me !عافیۃ جزاک اللہ خیراً
جواب:
ما شاء اللہ! دعا تو میں سب کے لئے کرتا ہوں، کوئی مانگے یا نہ مانگے، جتنے بھی ساتھی ہیں، سب کے لئے میں دعا کرتا ہوں اَلْحَمْدُ للہ۔ تو اس میں آپ بھی آتے ہیں۔ البتہ یہ ہے کہ جتنا جتنا آپ سلسلہ کے کام میں آگے بڑھیں گے، تو سلسلہ کے بزرگوں کی دعائیں آپ کو خود بخود ملتی رہیں گے، اس وجہ سے آپ اپنے کام پہ زیادہ توجہ دیں اور اس کے بارے میں احوال کے بارے میں مجھے بتا دیا کریں، وہ اصل میں ہمارے تعلق کی سب سے بڑی بات ہے، باقی دعا ہم ان شاء اللہ! ہر حال میں کریں گے۔
سوال نمبر 9:
السلام علیکم۔ شیخ!
I have started reading and trying to understand ذبدۃ التصوف with the help of brother Faisal. After he explained, I got more valuable knowledge about تصوف اَلْحَمْدُ للہ. I really got برکت and some energy from Allah .شیخ please advise me what I should do next?
جزاک اللہ خیراً
جواب:
You should continue this and complete this work. It will be better for you and better for all of your friends in China.
ان شاء اللہ
سوال نمبر 10:
السلام علیکم۔ شیخ!
I have completed doing مراقبہ صفات ثبوتیہ for fifteen minutes for the third month. First, I feel my heart is more open and stronger than before. Secondly, I feel doing ذکر and مراقبہ as very important for me. Thirdly, I feel myself too weak and have very poor knowledge in this world to push me and that I should be learning more with your guidance ان شاء اللہ . Please advise for next. جزاک اللہ خیراً
جواب:
ما شاء اللہ! You should continue. As far as doing مراقبہ صفات ثبوتیہ so now, you should concentrate yourself to make توجہ towards ذات of Allah سبحانہ و تعالیٰ instead of صفات ان شاء اللہ for fifteen minutes and the procedure will that you will be thinking that the فیض of مراقبہ شیونات ذاتیہ is coming from Allah سبحانہ و تعالیٰ to the heart of رسول اللہ ﷺ and from there to the heart of Sheikh and from there to your لطیفہ سر ان شاء اللہ. The remaining will be the same. ان شاء اللہ
سوال نمبر 11:
السلام علیکم۔ شیخ!
I have been doing two رکعۃ for third month but I still don’t have any normal feelings. Sheikh, I am living with my daughter and her husband. Now my daughter’s husband is not Muslim and also they keep one dog in their apartment. Please kindly advise me what I should do next? جزاک اللہ
جواب:
Tell me about your daughter. She is Muslim or not. Then ان شاء اللہ I shall tell you.
سوال نمبر 12:
Sheikh, I also got the feeling that when I pray, I feel that the interior of my body is praying. The body is only doing the action. My heart having some more concentration and sincerity when praying اَلْحَمْدُ للہ.
جواب:
ماشاء اللہ this is further برکۃ of these مراقبات and ان شاء اللہ you should continue your work.
سوال نمبر 13:
Sheikh, I also have this feeling when I have more concentration in prayer but I feel something ‘‘اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ’’ and try to make concentration.
جواب:
Ok this is work of شیطان .شیطان is doing his work and you should do your work and you should think about the help of Allah سبحانہ و تعالیٰ against شیطان.
سوال
سوال نمبر14:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! بعد تسلیم عرض ہے کہ بچہ ما شاء اللہ! اکیس ماہ کی عمر سے ذکر سے مانوس ہے اور اس کو مراقبہ کے بارے میں اشتیاق ہوتا ہے کہ مجھے بھی بتا دیں، میں نے بھی کرنا ہے۔ ابھی اس کی عمر چھ سال ہے۔ اَلْحَمْدُ للہ! گوہر صاحب کے تربیتی پروگرام میں بھی شامل ہوتا ہے اور ماشاء اللہ! First position لیتا ہے۔ حضرت جی! حال ہی میں جمعۃ المبارک صبح کا بیان سنا جو کہ بچوں کے بیعت سے متعلق تھا، تو حضرت جی! اگر آپ اجازت فرمائیں، تو حسین کو بھی اس کے والد صاحب کے ہمراہ بیعت کے لئے ہفتہ وار جوڑ کے لئے بھیج دیا کروں؟
جواب:
ٹھیک ہے، ان شاء اللہ! پھر میں آپ سے بات کرلوں گا۔
سوال نمبر 15:
السلام علیکم۔
فلاں here. One more month of meditation is completed. Meditation was ten minutes لطیفۂ قلب, ten minutes لطیفۂ روح, fifteen minutes لطیفۂ سر in which ذکر of Allah Allah is to be felt. I felt ذکر of Allah Allah for four to five minutes in لطیفۂ قلب and لطیفۂ روح while just two or three minutes in later لطائف. Should I continue this?
جواب:
Yes you should continue it.
سوال نمبر 16:
حضرت! یہ جو تزکیہ نفس کا عمل ہے، یہ ابتدا سے شروع ہوجاتا ہے یا جب انسان جذب سے سلوک کی طرف جاتا ہے، تو پھر ہوتا ہے؟
جواب:
اصل میں تیاری تو ابتدا سے شروع ہوجاتی ہے، کیونکہ نیت تو یہی ہے یعنی نیت تو اصلاح نفس کی ہے۔
﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا﴾ (الشمس: 9-10)
ترجمہ: ’’فلاح اسے ملے گی، جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے، اور نامراد وہ ہو گا، جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے‘‘۔
البتہ procedure اس کا یہ ہے کہ پہلے نفس کو، جو عارضی جذب کا زور ہے، اس سے اس کو پکڑتے ہیں اور پھر اس کو سلوک طے کرنے کے ذریعہ سے قابو کرتے ہیں۔ تو ابتدا میں تو جذب کے ذریعہ سے ہی آتا ہے، جیسے اگر کوئی تیار نہ ہو اصلاح کے لئے، تو کوئی طریقہ تو اس کا ہوگا تو دو چیزیں ہیں، سب سے پہلے عقل ہے یعنی عقل کے ذریعہ سے convince ہونا پڑتا ہے کہ مجھے اپنی اصلاح کرنی چاہئے۔ اب اگر کسی کی عقل اتنی کامل ہو کہ اسے جذب کی ضرورت نہ ہو، تو وہ اس کے ذریعہ سے شیخ کے پاس جائے اور اپنی اصلاح شروع کرلے، سلوک شروع کرائیں تو گزشتہ سلسلوں میں یہی بات تھی۔ لیکن وہ طریقہ وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ مشکل ہوتا گیا، تو نتیجتاً اس کے لئے پھر جذب کی ضرورت ہوئی۔ تو جذب کے لئے پھر ہمارے نقشبندی سلسلہ میں کچھ special طریقے انہوں نے develop کرلئے، جس کے ذریعہ سے یہ کام آسان ہوگیا۔ تو اب جذب لایا جاتا ہے اور پھر جب جذب آجائے تو پھر اس کے بعد سلوک طے کرایا جاتا ہے اور سلوک طے کرانے کے ساتھ ہی گویا کہ مقامات سلوک طے ہونا شروع ہوجاتے ہیں، جو کہ ظاہر ہے نفس کی تربیت کا سارا procedure ہے۔ تو یہ طریقہ بہت ہی زیادہ فعال طریقہ تھا، لیکن شیطان آخر فارغ تو نہیں تھا، وہ بھی تو کچھ کرتا ہے، تو اس نے دیکھا کہ یہ تو میرے خلاف پوری پلاننگ ہوگئی ہے، تو اس نے یہ کیا کہ چلو جذب ہی میں رکھو، آگے سلوک پہ لے جاؤ ہی نہیں، تو پھر کچھ لوگوں کو سلوک کی طرف جانے ہی نہیں دیا، بس وہ جذب ہی میں خوش ہیں تو بس لگے رہتے ہیں۔
سوال نمبر 17:
حضرت! یہ جو سلوک کی ضرورت ہے، یہ ہر ایک کو پڑتی ہے یا کچھ مستثنیٰ بھی ہوتے ہیں؟
جواب:
اصل میں جو محبوبین ہیں، ان کی بات الگ ہے، ان کے لئے اللہ تعالیٰ کا نظام ہے، اللہ پاک ان کے لئے جو بھی special طریقہ بنا دیں، وہ بنا دیے، ان کے لئے ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ ہاں! حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ان کو بھی مروجہ طریقہ سے فائدہ ہوتا ہے، نقصان نہیں ہوتا مروجہ طریقہ سے، مثال کے طور پر کوئی محبوب ہے اور وہ مروجہ طریقہ سے اپنا سلوک طے کرائے، تو ٹھیک ہے ان کا بھی ہوجائے گا اس میں کوئی مسئلہ نہیں، لیکن ان کا مزید addition جو ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنا جو نظام ہوتا ہے، وہ چیزیں چلتی ہیں، لیکن جو عام لوگ ہیں، جن کو محبین کہتے ہیں، ان کے لئے تو یہی طریقہ ہے procedure ہے ۔
سوال نمبر 18:
یہ جو مقامات سلوک ہیں، اس میں آپ نے فرمایا تھا کہ توبہ اور انابت یہ تو ابتدا میں ہی حاصل ہوجاتے ہیں، تو باقی جو ہیں، ان کی کوئی انتہا ہے اسباق کی تکمیل کے بعد یا کب فورا شروع ہوتے ہیں؟
جواب:
نہیں، اسباق جب طے ہوجاتے ہیں، تو اس کے بعد پھر یہ ہوتا ہے کہ condition کو دیکھا جاتا ہے یعنی مسئلہ یہ ہے کہ یہاں پر کوئی syllabus کی طرح چیز نہیں ہے، اس میں بس مقصد حاصل ہونا چاہئے کہ وہ مقصد کیا ہے، اب کسی کا مقصد ممکن ہے ایک ہی دن میں حاصل ہوجائے، عین ممکن ہے کسی کا سال میں طے ہوجائے، کسی کا دس سال میں طے ہوجائے۔ یہ ہمارے حضرت گیسو دراز رحمۃ اللہ علیہ پنتیس سال انہوں نے چلے کاٹے، تب ان کو یہ ملا ہے۔ لہٰذا ہر ایک کا اپنا اپنا مقام ہے یعنی یہ نہیں کہ ان کا مقام کم تھا، بلکہ عین ممکن ہے کہ اس نے اس میں بہت زیادہ اونچا مقام حاصل کیا ہو پھر، کیونکہ ظاہر ہے اپنے نفس کو اتنا زیادہ کریدا تھا، تو اس کے حساب سے ان کو زیادہ فائدہ ہوچکا ہوگا، لیکن یہ والی بات ضرور ہے کہ بعض لوگوں کو جلدی فائدہ ہوجاتا ہے اور بعض لوگوں کو دیر ہوتی ہے۔ اور اس کی وجوہات مختلف ہیں، وہ Subject to condition ہیں۔
سوال نمبر 19:
حضرت! دوستوں کو ’’منزل جدید‘‘ کے حوالے سے کچھ نسخے دیئے ہیں ان کو، اَلْحَمْدُ للہ! انہوں نے کہا کہ کافی افاقہ ہوا ہے۔ اب بات یہ ہے کہ وہ ’’منزل جدید‘‘ جو پڑھتے رہے ہیں، اس کے لئے ان کے کچھ دوستوں نے یہ بھی کہا ہے کہ انہیں ما شاء اللہ! اچھے اچھے خواب بھی آئے ہیں، میں نے آپ کی طرف ان کو refer کیا ہے، میں نے کہا بھئی! وہ تو آپ حضرت شاہ صاحب کی خدمت میں بتائیں گے، تو وہ آپ کو زیادہ بتا سکتے ہیں کہ کیا صورت ہے، لیکن یہ ہے کہ ’’منزل جدید‘‘ مختلف احوال کے جو مسائل ہیں، باوجودیکہ وہ بیعت نہ ہوں، پھر بھی وہ جاری رکھیں۔
جواب:
دیکھیں! میں آپ کو ایک بات بتاؤں، بیعت ایک اور چیز ہے، وہ تو اپنی اصلاح کے لئے ہے، یہ سب مسلمانوں کے لئے ہے، ما شاء اللہ! اس میں کوئی پابندی ہم پر نہیں لگائی گئی کہ ہم صرف بیعت والوں کو دے دیں، بے شک کوئی کسی بھی سلسلہ میں بیعت نہ ہو، بس مسلمان ہو۔ فرق صرف یہ ہے کہ بیعت والوں کو جلدی فائدہ ہوجاتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ بیعت والوں کو ان چیزوں پر اعتقاد زیادہ ہوتا ہے، مطلب اعتقاد کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ تو جس کو قرآن پر زیادہ اعتقاد ہو، جس کو احادیث شریف اور سنت پر زیادہ اعتقاد ہو، تو ان کو ان چیزوں سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔ دوسرے لوگ عاملین کی طرف زیادہ متوجہ ہوتے ہیں اور ان کے رابطے ان کے ساتھ زیادہ ہوتے ہیں۔ میں آپ کو کیا بتاؤں، اس وقت صورتحال یہ ہے کہ لوگ ان چیزوں کی طرف آتے نہیں ہیں، ان کے خیال میں شاید یہ کوئی سرسری قسم کی چیز ہے، حالانکہ سرسری چیز نہیں، قرآن ہے قرآن، مطلب پھر اس پہ relevant قرآن ہے، جو ان چیزوں کے لئے ہے، مطلب اس کی برکات احادیث شریفہ سے معلوم ہیں۔ میں اس دن دیکھ رہا تھا، میں نے پھر ساتھیوں سے کہا اس کا ترجمہ بھی ساتھ دے دو، پھر پتا چل جائے، وہ وبائی امراض کے لئے جو ہمارا معمول ہے، اس میں دعائے انس ہے، اس کا ترجمہ آپ پڑھیں، تو پتا چل جائے گا کہ یہ کیوں اس طرح ہے؟ کیوں اس سے یہ چیز ہوتی ہے؟ اس میں سارے کا سارا بِسْمِ اللّٰهِ کے ذریعہ سے آپ تمام چیزیں حوالے کرتے ہیں اللہ پاک پر۔ تو بِسْمِ اللّٰهِ میں بڑی طاقت ہے اللہ کے نام کے ساتھ، مطلب اس میں یہ چیزیں ہیں۔ اس طرح پھر جو آیت شفاء ہے، اس طرح جو اس کے اندر حادثات سے بچنے کی دعا ہے۔ اب یہ چیزیں اگر آپ ترجمہ کے ساتھ پڑھیں تو آپ کو پتا چل جائے کہ یہ تو واقعی اس سے یہ چیزیں ہوتی ہیں، چونکہ لوگوں نے صرف اس کو ایک وہ سمجھا ہوتا ہے کہ بھئی! یہ تو بس دعائیں ہیں، تو دعائیں تو ہم کرتے رہتے ہیں، دعا سے کیا فائدہ ہوتا ہے؟ حالانکہ یہی سب سے بڑی غلطی ہے، تو اسی لئے ہم نے دیکھا ہے، ہم نے کہا کہ جو لوگ بیچارے دین کا کام کررہے ہیں اور ان کے خلاف لوگ ہیں، وہ ان کے خلاف اس قسم کی سازشیں تو کرتے ہیں، تو کم از کم ان کی protection تو ہونی چاہئے، تو دین والوں کو تو کم از کم اس پہ اعتقاد تو ہوگا، تو وہ جب اس کو پڑھیں گے اس اعتقاد کے ساتھ، ان شاء اللہ! ان کو فائدہ ہوگا، یہ بات ہے۔ باقی یہ بات ہے کہ ہم لوگ ان چیزوں کے لئے نہیں بیٹھے ہوئے، یہ تو extra اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے فضل کرم سے شاید اس کام کی برکت سے دیا ہے کہ یہ کام ہم کررہے ہیں، ورنہ چونکہ ہم تو عملیات سے بہت دور بھاگنے والے لوگ ہیں، مطلب اس میں نہیں آتے، تو اللہ پاک نے ہمیں ایک طرف سے مدد فرمائی اور یہ چیز ہمیں عطا فرمائی، اس میں ہمارا کوئی کمال نہیں ہے۔ یہ تو اللہ کا شکر ہے اَلْحَمْدُ للہ! عراق میں ساتھی ہیں، ان کو بہت سخت لوگوں نے جادو میں پکڑ لیا تھا، بہت زیادہ ایسا کہ اس کو نماز بھی نہیں پڑھنے دیتے تھے، نماز بھی نہیں پڑھنے دیتے تھے کوئی دین کا کام نہیں کرنے دیتے تھے اس کو، ظاہر ہے وہاں پر ہیں ناں مختلف قسم کے لوگ، تو ان کو زیارت ہوئی، آپ ﷺ کی طرف سے حکم ہوا کہ اس کو کمرے میں سن لو، مطلب ریکارڈ اس کا سن لو، تو ریکارڈ چونکہ پہلے سے ہمارا ہوچکا تھا، تو اس کو اس نے سن لیا، اس سے اَلْحَمْدُ للہ! افاقہ ہوگیا اور یہی چیز مجھے کراچی سے بزرگ نے بھی اطلاع کی کہ بعض لوگ پڑھ نہیں سکتے تھے، تو ان کو ہم نے کہا کہ سن لو، تو سننے سے ان کو فائدہ ہوا۔ بہرحال یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، اس میں ہمارا کوئی کمال نہیں ہے۔
سوال نمبر 20:
تقویٰ کے حصول کے لئے کچھ بتائیے گا۔ جس ماحول میں ہم رہتے ہیں، تقویٰ کی اہمیت اور سارا کچھ ہمیں پتا ہے، عبادات میں ساری عبادات کا مقصد یہ تقویٰ ہے، لیکن ماحول اس قسم کا ہے ٹی وی بھی دیکھنا پڑتا ہے اور بہت سی چیزیں ایسی ہیں، تو کیسے اس سے بچا جائے؟
جواب:
اگر آپ کا سوال یہ ہے کہ میں نے زہر بھی کھانا ہے اور دوائی بھی کھانی ہے، تو میں تو اس کی اجازت نہیں دوں گا، یہ تو ظلم ہے آپ کے اوپر۔ مطلب یہ تو نہیں ہوسکتا، البتہ اگر آپ کہتے ہیں تقویٰ کیسے حاصل ہوتا ہے؟ تو میں قرآن پاک سے اس کی دلیل دوں گا، ان شاء اللہ! قرآن پاک میں ہے:
﴿فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوٰىهَا﴾ (الشمس: 8)
ترجمہ: ’’پھر اس کے دل میں وہ بات بھی ڈال دی جو اس کے لئے بدکاری کی ہے، اور وہ بھی جو اس کے لئے پرہیزگاری کی ہے۔
یہ ’’ھا‘‘ کس طرف ہے، مطلب اس کی ضمیر کس طرف ہے، قریب ترین کی طرف ہوگی، تو قریب ترین ﴿وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰىهَا﴾ ہے، تو اس کی طرف ہوگی۔ اس کا مطلب ہے کہ کیونکہ نفس کے اندر یہ دونوں چیزیں رکھی ہیں اللہ تعالیٰ نے، built-in ہیں، مطلب آپ کہہ سکتے ہیں ﴿فَاَلْهَمَهَا﴾ کا مطلب یہی ہے built-in اس میں رکھی گئی ہیں۔ اب اس میں بات یہ ہے کہ کچھ choice دے دی گئی ہے، آپ کون سا طریقہ اختیار کرنا چاہتے ہیں، فجور والا طریقہ اختیار کرنا چاہتے ہیں یا تقویٰ والا طریقہ اختیار کرنا چاہتے ہیں؟ فرق صرف یہ ہے کہ فجور والا طریقہ By default ہے اور اس کا ثبوت بھی قرآن میں موجود ہے اور وہ اگلی آیت ہے،
﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا﴾ (الشمس: 9-10)
ترجمہ: ’’فلاح اسے ملے گی، جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے، اور نامراد وہ ہو گا، جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے‘‘۔
مطلب ﴿زَكّٰىهَا﴾ کے ساتھ ﴿قَدْ اَفْلَحَ﴾ آیا ہے، ﴿زَكّٰىهَا﴾ میں فاعلیت ہے، مطلب آپ کچھ کرتے ہیں یعنی تزکیہ کرتے ہیں اور ﴿دَسّٰىهَا﴾ میں گویا کہ اسی حالت پہ چھوڑنا ہے۔ تو اب اس میں بات یہ ہے کہ اگر آپ اپنے نفس کی اصلاح نہ کریں، تو تباہی ہے اور اگر نفس کی اصلاح کریں، تو تقویٰ ہے، کیونکہ فجور سے بچنا تقویٰ ہے یعنی دو ہی چیزیں ہیں، تیسری چیز تو اس میں ہے نہیں کہ یا فجور ہے یا تقویٰ ہے، تو اگر آپ فجور کی طرف نہیں جارہے، نفس کی اصلاح کررہے ہیں، اس کا تزکیہ کررہے ہیں، تو تقویٰ کی طرف جارہے ہیں، تو اس کا مطلب ہے کہ نفس کی اصلاح جو ہے، وہ تقویٰ ہے۔ تو جو نفس کی اصلاح کرلیتا ہے، اس کو تقویٰ نصیب ہوجاتا ہے۔ بس تقویٰ جو ہے، وہ حاصل کرنے کے لئے نفس کی اصلاح کی ترتیب ہے۔ اب یہ الگ بات ہے کہ ایک آدمی کے حالات مشکل ہوں، تو وہ اگر اس میں کرتا ہے، تو اس کو یقیناً اللہ تعالیٰ کی مدد اس وقت ہوگی، لیکن اگر وہ معذور ہے تو، اگر معذور نہیں ہے، صرف نفس سے مجبور ہے، تو پھر تو معاملہ الگ ہے، مجبور تو سارے ہیں۔ بعض دفعہ لوگ معذور ہوتے ہیں، تو معذور کا تو اللہ تعالیٰ کو پتا ہے یعنی یہ معاملہ علیم و خبیر کے ساتھ ہے۔
﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوْا اللّٰهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍۚ وَاتَّقُوْا اللّٰهَؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ﴾ (الحشر: 18)
ترجمہ: ’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو، اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لئے کیا آگے بھیجا ہے۔ اور اللہ سے ڈرو۔ یقین رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے‘‘۔
تو اللہ تعالیٰ تو خبیر ہے تمام چیزوں سے۔ اب اس وقت یہ بھی ہے کہ بے شک لاکھ کوئی بہانے کرلے، لیکن اللہ پاک کو تو ساری چیزوں کا علم ہے۔
﴿بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰى نَفْسِهٖ بَصِیْرَةٌ وَّلَوْ اَلْقٰى مَعَاذِیْرَهٗ﴾ (القیامۃ: 14-15)
ترجمہ: ’’بلکہ انسان خود اپنے آپ سے اچھی طرح واقف ہوگا۔ چاہے وہ کتنے بہانے بنائے‘‘۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارا معاملہ چونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ ہے، جو علیم و خبیر ہے، لہٰذا جو ہم کرسکتے ہیں، وہ بھی اللہ کو پتا ہے اور جو نہیں کرسکتے، وہ بھی اللہ کو پتا ہے۔ اب یہ والی بات ہے کہ بہت سارے لوگ اپنے آپ کو معذور سمجھتے ہیں، لیکن ان کے سامنے اللہ پاک ان سے زیادہ معذوروں کو اٹھا دیں گے قیامت کے دن کہ یہ پھر کیا ہے، انہوں نے کیسے کیا؟ پھر کیا جواب دیں گے ہم؟ ظاہر ہے، اس میں پکڑے جائیں گے۔ یعنی بیمار آدمی کے لئے بیمار موجود ہیں، قیدیوں کے لئے قیدی موجود ہیں، غلاموں کے لئے غلام موجود ہیں، اسی طرح بادشاہوں کے لئے بادشاہ موجود ہیں، وزیروں کے لئے وزیر موجود ہیں اور بڑے بڑے افسروں کے لئے بڑے بڑے افسر موجود ہیں، جو ان حالات میں بھی اپنے آپ کو بچاتے ہیں اور ما شاء اللہ! سارا کچھ کرتے ہیں، تو اس کا مطلب ہے کہ اگر کوئی اپنے نفس کی اصلاح کرلے، تو ہر حالت میں، ہر حالت میں، جس حالت میں بھی ہو، اس کو اللہ تعالیٰ راستہ دیتے ہیں۔
﴿وَ مَنْ یَّتَّقِ اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا﴾ (الطلاق: 2)
ترجمہ: ’’اور جو کوئی اللہ سے ڈرے گا اللہ اس کے لیے مشکل سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کردے گا‘‘۔
اب صرف یہی بات ہے کہ ہم نے اپنے آپ کی کوشش کرنی ہے اور کوشش کرنے کے لئے جو بھی راستہ اللہ پاک نے اس کو دیا ہے، اس سے فائدہ اٹھائیں۔ میں آپ کو کیا بتاؤں، اس وقت بہت سارے لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں وہ ساری برکات مل جائیں جو بزرگوں کو ملی ہیں، لیکن وہ محنت ہم نہ کریں، جو بزرگ کرتے تھے یا کرتے ہیں، مطلب جو انہوں نے کیا ہے۔ یہ دیکھو! یہ بالکل دل کا چور ہے۔ یہ میں کوئی ایسے ہی بات نہیں کررہا ہوں، بالکل یہی حقیقت ہے کہ لوگ چاہتے وہی ہیں جو بزرگوں کو ملا ہے، لیکن کرتے وہ نہیں ہیں۔ اب میں آپ کو بتاؤں کہ جتنے بھی بزرگوں کے نام آپ کو یاد ہوں، آپ مجھے بتائیں، میں آپ کو بتاتا ہوں کہ انہوں نے کیا کیا تھا، کس طریقہ سے ان کو یہ چیز حاصل ہوئی تھی، procedure سارا معلوم ہے، ان کے سوانح موجود ہیں، ان کے تمام کام موجود ہیں۔ تو راستہ تو یہی ہے، وہی نفس کی اصلاح والا طریقہ ہے۔ دیکھو! پورا شجرہ موجود ہے، آپ ان میں سے دیکھیں ہر ایک روشن ستارہ ہے، لیکن انہوں نے کام تو یہی کیا ہے، اس طریقہ سے یہ جو بڑے بڑے لوگ ہیں، انہوں نے سارے یہی کیے ہوئے ہیں۔ تو ظاہر ہمیں کون سے سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں۔ اس وقت بھی موجود ہیں اَلْحَمْدُ للہ! اس وقت بھی موجود ہیں، بڑے بڑے افسر ہیں، لیکن جب ان کے اندر کا حال دیکھیں تو ما شاء اللہ! ان کے تقویٰ کو دیکھ کر آدمی حیران ہوجاتا ہے کہ کیسے یہ کررہے ہیں۔ اور جو لوگ بہت بدنام ہیں، میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں، عجیب مثال میں نے دیکھی، میں ترکی سے آرہا تھا جہاز میں، رمضان شریف کا مہینہ تھا، اول تو اَلْحَمْدُ للہ! انہوں نے مجھے نماز پہ تنگ نہیں کیا، مطلب میں نے باقاعدہ بیس رکعت تراویح جہاز میں پڑھیں، پھر اس کے بعد جب سحری کا وقت قریب ہوا، تو میں نے قریب Air hostess کو بلایا، میں نے کہا کچھ کھانے کا ہو تو میں سحری کرنا چاہتا ہوں، وہ جلدی لے آئی، میں نے وہ سحری کرلی۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ خود آئی کہ اب کتنا ٹائم باقی ہے؟ میں نے Round about twenty minutes، کہتی ہے کہ اب میں بھی کچھ کھا لوں گی، میں نے کہا دیکھو یہ بھی روزہ رکھ رہی ہے، ان کے بارے میں کسی کو خیال ہوسکتا تھا کہ اس حالت میں بھی (روزہ رکھیں گی) حالانکہ شریعت اس کو اجازت دیتی ہے، لیکن اس حالت میں وہ روزہ رکھ رہی تھی، تو یہ چھپے لوگ ہوتے ہیں، آدمی حیران ہوجاتا ہے کہ کیسے کیسے لوگ ہیں وہ کر رہے ہیں۔ ہمارے director تھے، گریڈ 20 آفیسر تھے، بعد میں 21 ہوگئے، جرمنی آئے تھے ہمارے پاس، ان دنوں تھے بھی گرمی کے دن، مطلب روزے گرمی کے تھے اور West کی طرف جب آپ سفر کرتے ہیں، تو روزہ بڑھ جاتا ہے، تو ان کا روزہ تقریباً چوبیس گھنٹے کا ہوگیا تھا، تو ہم نے ان سے پوچھا جب ایئر پورٹ سے وصول کیا، ہم نے کہا کہ آپ کا روزہ ہے؟ اس نے کہا جی روزہ ہے، میں حیران ہوگیا، میں نے کہا دیکھو! اس کے بارے میں لوگ کیا خیال کرسکتے ہیں کہ یہ اس حالت میں بھی روزہ رکھتے ہوں گے۔ تو یہ میں اس لئے عرض کرتا ہوں کہ یہ چھپے لوگ ہیں، مطلب ہم لوگ ان کو نہیں جانتے، لیکن لوگ ہیں۔ تو اس وجہ سے ہمیں خیال رکھنا چاہئے کہ جو راستے اللہ نے بنائے ہیں، ظاہر ہے اس میں ہمارا کوئی کام نہیں ہے، جن راستوں کے ذریعہ سے لوگوں کو فائدہ ہے، ان راستوں کے ذریعہ اپنا فائدہ حاصل کرنا چاہئے۔
سوال نمبر 21:
حضرت! یہ جو ’’منزل جدید‘‘ ہے، اس کو ہم ثواب کی نیت سے پڑھ سکتے ہیں یا علاج کی نیت سے؟
جواب:
اصل میں دیکھیں! ’’منزل جدید‘‘ یہ تو وظیفہ ہے اور اس میں جو مقاصد ہیں، اس کے لئے آپ اس کو پڑھ رہے ہیں، تو مقاصد اس کے ذریعہ سے حاصل ہوجائیں گے ان شاء اللہ! تو اس کے مقاصد تو لکھے ہوئے ہیں ابتدائی صفحوں میں۔
آپ کے اُس سوال پہ کچھ تشریح کی بات میرے ذہن میں آئی کہ انسان کو ارادہ تو یہی کرنا چاہئے کہ پورا procedure follow کرنا چاہئے، البتہ جن کے پاس انسان جاتا ہے، ان کو بھی اللہ پاک نے آنکھیں دی ہوتی ہیں، وہ اس کو جانتا ہے کہ اس کو کیا دینا ہے اور کون کتنا برداشت کرسکتا ہے۔ اس وجہ سے اس میں تدریج ہوتی ہے یعنی ساری چیزیں ایک دم نہیں دی جاتیں، کوئی لینا بھی چاہے تو نہیں دی جاتیں۔ مطلب ظاہر ہے کہ اس کے لئے ایک procedure ہوتا ہے، جیسے ابھی حضرت نے پوچھا کہ سلوک طے کب کیا جائے؟ تو میں نے عرض کہ پہلے جذب کا انتظار کیا جاتا ہے کہ جذب ہو تو پھر اس کے بعد سلوک ہوتا ہے، کیونکہ سلوک میں مشقت ہوتی ہے، جذب میں تو مزہ ہوتا ہے، مطلب یہ ہے کہ جذب کے ذریعہ سے پھر مشقت کے لئے انسان تیار ہوجاتا ہے۔ تو اس وجہ سے جو مشائخ ہوتے ہیں، وہ ہر ایک کے ساتھ ایک جیسا معاملہ نہیں کرتے، وہ بعض لوگوں کے ساتھ کافی رعایت کا معاملہ کرتے ہیں، لیکن رعایت پہ خوش نہیں ہونا چاہئے، رعایت پہ بلکہ ڈرنا چاہئے کہ شیخ مجھے شاید اس قابل نہیں سمجھ رہا کہ مجھے اس طرف لے آئے، لیکن بہرحال بصیرت اس کی اپنی ہوتی ہے، اس کے لحاظ سے پھر وہ چلتا ہے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)
نوٹ! تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔