سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 570

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر 1:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! میں فلاں سعودی عرب سے مخاطب ہوں۔ حضرت والا! میں امید کرتا ہوں کہ آپ ان شاء اللہ خیر و عافیت کے ساتھ ہوں گے۔ حضرت والا آپ نے فرمایا تھا کہ مجھے message میں لکھ کر بات بتا دینا۔ حضرت ہم نو بہن بھائی ہیں، دو بہنیں، چار بھائی اور امی ابو ایک گھر میں رہ رہے ہیں۔ گھر کے کل چار کمرے اور ایک بیٹھک ہے۔ ہم تین بھائی سعودیہ میں ہوتے ہیں۔ میری گھر والی بھابھی کے کمرے میں رہتی جس کی وجہ سے معمولات نہیں ہو پاتے۔ میں نے ابو کو کئی مرتبہ کہا ہے کہ گھر کا بندوبست کریں، لیکن ابھی تک بندوبست نہیں ہوسکا۔ والسلام

جواب:

ما شاء اللہ، ٹھیک ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ آپ کے گھر کا بندوبست ہوجائے۔ بہرحال معمولات کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہئے کیونکہ خواتین کے معمولات خاموشی کے ساتھ ہوتے ہیں ان میں آواز بھی نہیں ہوتی۔ اگر مثال کے طور پر گھر والے مراقبہ کا وقت نہیں دیتے تو اس صورت میں لیٹے لیٹے بھی مراقبہ ہوسکتا ہے۔ ایک بار انڈیا میں ایک ہندو خاندان مسلمان ہوا۔ اس گھرانے کا ایک لڑکا اسلام قبول کر چکا تھا، لیکن اس کے والد ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ اس لڑکے نے مجھے لکھا کہ میں فجر کی نماز کے لیے اٹھا اور وضو کر لیا۔ اتنے میں میرے والد جاگ گئے۔ انہوں نے مجھے ڈانٹ کے پوچھا کہ اتنی صبح کیوں جاگے ہو؟ جلدی سو جاؤ۔ چونکہ میں وضو کرچکا تھا، اس لیے میں نے لحاف اوڑھ لیا اور اسی کے اندر چھپ کر نماز پڑھ لی۔ بعض لوگوں کو واقعی ایسے حالات کا سامنا ہوتا ہے کہ ان کے لیے نماز پڑھنا بھی آسان نہیں ہوتا۔ لیکن آپ کے لیے الحمد للہ ایسی کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ تو مراقبہ کرنا کوئی مشکل بات نہیں۔ اگر بیٹھ کر کرنے میں دشواری ہو، یا کوئی آس پاس بیٹھا ہو اور خلوت میسر نہ ہو، تو لیٹ کر بھی کیا جاسکتا ہے۔

ذکر میں بھی تیسرا کلمہ، درود شریف، اور استغفار، یہ سب لیٹے لیٹے ممکن ہیں۔ لہٰذا میرے خیال میں اس سلسلے میں کوئی عذر مناسب نہیں ہے۔ آپ اپنے معمولات دوبارہ شروع کردیں، اور ان میں تسلسل پیدا کریں۔ میں دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے لیے آسانیاں پیدا فرمائے اور آپ کو اس راستے پر استقامت عطا کرے۔

سوال نمبر 2:

السلام علیکم! آپ نے مجھ سے صفات ثبوتیہ کے اثر کے بارے میں پوچھا ہے، مجھے اثر کا زیادہ نہیں پتا چلتا۔ براہ مہربانی تھوڑا guide کردیں کہ یہ اثر کیسے نوٹ کیا کریں۔ اس پر میں نے ان کو اثر کے بارے میں بتایا تو انہوں نے کہا کہ اَلْحَمْدُ للہ صفات ثبوتیہ تھوڑے تھوڑے مستحضر ہورہے ہیں۔

جواب:

اصل میں صفاتِ ثبوتیہ کا مستحضر ہونا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات صرف علمی طور پر معلوم نہ ہوں، بلکہ انسان ہر وقت ان کو یاد رکھے۔ مثلاً یہ جاننا کہ اللہ دیکھ رہا ہے، سب کو معلوم ہے، لیکن یہ شعور ہر وقت دل میں زندہ ہو کہ اللہ ہمیں دیکھ رہے ہیں، تبھی انسان گناہ سے بچ سکتا ہے۔ اسی طرح اگر یہ یقین ہو کہ اللہ سن رہے ہیں، تو جب ہم دعا کرتے ہیں یا اللہ کو پکارتے ہیں، دل میں یہ اعتماد ہوتا ہے کہ وہ ہماری سن رہے ہیں۔ غرض یہ کہ اللہ کی صفات کا استحضار ایسا ہو جو ہماری زندگی پر اثر ڈالے اور تبدیلی لائے۔ میں نے یہی پوچھا تھا کہ جب آپ کو ان صفات کا ایسا استحضار نصیب ہوا تو آپ کی زندگی میں کیا تبدیلی آئی؟ اب براہِ کرم وہ بتا دیجیے۔

سوال نمبر 3:

آپ بیعت کا پوچھ رہے ہیں تو اسے تقریباً ایک سال ایک ماہ ہوچکا ہے۔ جب سے میں نے یہ چٹ بھیجی تھی، مجھے محسوس ہوا کہ آپ مجھ سے ناراض ہوگئے ہیں، مگر یہ سمجھ نہیں آسکا کہ کیوں۔ میں اس بات پر سوچتی رہی اور تلافی کی کوشش کرتی رہی، لیکن کامیاب نہ ہوسکی۔ please مجھے بتائیں، آپ کس بات پر ناراض ہیں اور کس قدر؟

تجدید بیعت کی خواہش اس لیے ہے کہ آپ نے لطائف کے ساتھ تصور کرنے کے لیے کہا تھا۔ ایک دن تصور کے دوران اللہ پاک کی ذات کے بارے میں عجیب سا خیال آیا، جس نے مجھے بہت پریشان کردیا۔ آپ پہلے ہی بتا چکے تھے کہ وساوس شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں اور ان پر توجہ نہیں دینی چاہیے، لیکن میں اس میں ناکام رہی۔ یہ خیال دل میں قوی ہوگیا کہ آپ مجھ سے میری کسی بات کی وجہ سے ناراض ہیں، جس کی وجہ سے سب کچھ ختم ہوگیا۔ یہاں تک کہ میں اپنے ایمان پر بھی شک میں پڑ گئی۔ بار بار کلمہ، استغفار اور صلوٰۃ التوبہ پڑھتی رہی، لیکن دل کو یقین نہ آیا کہ اللہ نے قبول کیا ہو۔ میں ’’رَبَّنَا اٰتِنَا‘‘ والی دعائیں اور جو کچھ یاد تھا دعائیں پڑھتی رہی، سب کچھ مانگتی رہی، لیکن دل کہتا رہا کہ اب صرف آپ سے معافی مانگ کر ہی کچھ بنے گا۔ اب کلمہ بھی وہی قبول ہوگا جو آپ پڑھائیں گے، اور بیعت کی تجدید ہوگی تو ہی خاتمہ بالخیر کی امید باقی رہے گی، ورنہ نہیں۔

یوں لگتا ہے جیسے میرے اندر خاموشی چھا چکی ہو، جیسے سب ختم ہوگیا ہو۔ نماز وغیرہ الحمدللہ آپ کی برکت سے جاری ہے، مگر ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جان ختم ہوچکی ہے۔ روتی اور تڑپتی رہتی ہوں۔ اگرچہ پہلے کی نسبت کچھ بہتری محسوس ہوتی ہے اور اس پر اللہ کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے، لیکن اندر چبھن باقی ہے کہ شاید آپ ناراض ہیں۔ اگر کچھ اور نہ ہو تو please اللہ کے لیے مجھے معاف کردیں، آپ مجھ سے کیسے راضی ہوں گے؟ کچھ تو بتائیں، بہت مشکور ہوں گی اگر آپ مجھے معاف کردیں گے تو۔ آپ اس وجہ سے ناراض ہیں کہ میرے اندر تکبر ہے، ٹھیک ہے آئندہ ایسا نہیں ہوگا، جو آپ کہیں گے وہی کروں گی۔ please میری بات کا یقین کریں میں بالکل بھی نہیں جانتی تھی کہ میرے اندر تکبر ہے لیکن آپ نے تکبر پر بیان کیا تھا جس سے مجھے لگا کہ آپ نے مجھے ہی کہا کہ تمھارے اندر تکبر ہے۔ اگرچہ مجھے آپ کے الفاظ یاد نہیں ہیں لیکن پہلی مرتبہ یہ سن کر مجھے بہت برا لگا کہ میں تکبر کی وجہ سے گھر والوں سے لڑ پڑتی ہوں اور ان سے چڑ ہوگئی۔ گھر والوں کی اس طرح کی باتیں مجھے ایک آنکھ نہیں بھاتیں۔ شروع میں میں نے یہ بات ماننے انکار بھی کیا، مگر بعد میں سوچتی رہی کہ میرے اندر آخر وہ کونسی خرابی ہے جس کی وجہ سے اچانک مجھ سے غلطی ہوجاتی ہے تو دل میں یہ بات پختہ ہوگئی کہ یہ تکبر ہی ہے اور اگر آپ نے یہ کہا ہے تو سچ ہوگا، میرے ماننے یا نہ ماننے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اس کے بعد بار بار خیال آنے لگا کہ واقعی میرے اندر تکبر ہے۔ مجھے اپنی سوچوں پر غصہ آیا اور جی چاہا کہ آپ کو بتاؤں، مگر اس وقت تک جو کچھ میں کرچکی تھی تو ہمت نہ ہوئی کہ آپ کو بتاؤں اور آپ کا وقت اپنے اوپر ضائع کروں۔

آپ کی نصیحت یاد آئی کہ رذائل پر وقتی طور پر قابو پایا جاسکتا ہے، لیکن سلوک کی تکمیل کے وقت یہ چیزیں ختم ہوجاتی ہیں۔ اسی خیال سے میں نے گھر میں مہمانوں کے برتنوں میں خود کھانا پینا شروع کیا۔ امی حیران ہوتیں، کبھی کچھ کہتیں، لیکن میں ڈھٹائی سے وہی کرتی رہی۔ جب امی گھر پر نہ ہوتیں اور کوئی مہمان آتا تو ان کے لیے انہی برتنوں میں اکرام کا اہتمام کرتی۔ انہی دنوں آپ نے جو دعا بتائی تھی: ’’اَللَّهُمَّ اجْعَلْنِيْ فِيْ عَيْنِيْ صَغِيْرًا وَّفِيْ أَعْيُنِ النَّاسِ كَبِيْرًا‘‘، وہ بھی مانگنا شروع کردی تھی۔

میری صرف اتنی گزارش ہے کہ آپ مجھ سے ناراض نہ رہیں۔ اگر کچھ کہا یا کیا جو آپ کو برا لگا تو دل سے معافی چاہتی ہوں۔ میں نہیں جانتی تھی کہ میرے اندر تکبر ہے، اگر واقعی ہے تو میں اسے ختم کرنا چاہتی ہوں۔ آپ کی رضا میرے لیے بہت اہم ہے، براہِ کرم اللہ کے لیے مجھے معاف کردیں، اور اگر ممکن ہو تو بتائیں کہ میں اپنی اصلاح کیسے کروں۔

جواب:

ماشاء اللہ! آپ کے احوال اچھے ہیں۔ مجھے حیرت ہوئی کہ آپ نے کچھ زیادہ محسوس کیا ہے، حالانکہ نہ میں آپ سے ناراض ہوں، نہ مجھے ناراض ہونے کا کوئی حق ہے۔ ایک بات سمجھنے کی ہے کہ اگر کوئی مریض ڈاکٹر سے کہے کہ مجھے سر میں درد ہے، تو کیا ڈاکٹر اس سے ناراض ہوگا یا اس کا علاج کرے گا؟ ظاہر ہے، ڈاکٹر ناراض نہیں ہوتا بلکہ اس کی مدد کرتا ہے۔ تو اسی طرح اگر آپ نے کوئی بات کہی جو آپ کو تکلیف دے رہی تھی، تو وہ میرے لیے ناراض ہونے کی وجہ نہیں ہوسکتی۔ اس لیے یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ آپ کے دل میں ایسی بات کیسے آگئی۔ خیر، یہ سب محبت کی وجہ سے ہے کہ چونکہ آپ کو اپنے شیخ سے ویسی ہی محبت ہے جیسے ایک اولاد کو والد سے ہوتی ہے، اور آپ ان کو ناراض نہیں کرنا چاہتیں، جو کہ ایک اچھی بات ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ آپ کے اندر یہ اچھی صفت ہے، اسی لیے میں نے کہا کہ آپ کے حالات اچھے ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ آپ تھوڑا زیادہ حساس ہیں، اور حساس ہونا کوئی عیب نہیں ہے، لیکن اس کا علاج بھی ہوتا ہے۔ علاج یہی ہے جیسا کہ میں نے عرض کیا تھا کہ آپ ایسی باتوں کی پروا نہ کریں۔ اگر کسی بات سے دل میں کچھ محسوس ہو بھی رہا ہو، تو پروا نہ کرنا ہی بہتر ہے۔ جب کوئی بات دل کو محسوس ہو تو یہ دیکھیں کہ آیا وہ آپ کی اپنی وجہ سے ہے یا کسی اور وجہ سے ہے۔ مثلاً اگر شیطان دل میں وسوسہ ڈالتا ہے، تو یہ اس کا عمل ہے، آپ کا نہیں ہے۔ ایسے میں اپنے آپ پر غصہ آنے کے بجائے، شیطان پر غصہ آنا چاہئے۔

شیطان کے وسوسوں کا حل یہی ہے کہ آپ ’’اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمْ‘‘ پڑھیں اور اس کے بعد ان وسوسوں کی پروا نہ کریں۔ اگر بار بار وسوسے آئیں تو پھر ’’اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمْ‘‘ پڑھنے کی بھی ضرورت نہیں، ایک مرتبہ پڑھ لینا کافی ہے۔ اصل چیز یہی ہے کہ آپ اس کی طرف دھیان نہ دیں، اور اپنے دل کو پریشان نہ کریں۔ بہرحال، ایسی کوئی بات نہیں ہے جس سے میں ناراض ہوا ہوں۔

باقی تجدید بیعت کی جو بات آپ نے کی ہے، تو تجدید بیعت کرانے میرے لیے کوئی مشکل نہیں ہے، لیکن اگر ہر بار کوئی بات پیش آئے اور آپ تجدید بیعت کی بات کریں تو یہ ایک معمول سا بن جائے گا، اور ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ بیعت کوئی کھیل نہیں ہے، ویسے بھی ما شاء اللہ آپ خود کلمہ پڑھ سکتی ہیں، دل سے پڑھیں اور یقین رکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے سن بھی لیا اور دیکھ بھی لیا۔ اس لیے ضروری نہیں کہ آپ میرے سامنے یا کسی خاص شخص کے سامنے ہی کلمہ پڑھیں۔ دل سے دو رکعت صلوٰۃ التوبہ پڑھ لیں، یہ میں صرف آپ کی تسلی کے لیے کہہ رہا ہوں۔ اس کے بعد ان باتوں کو بھول جائیں اور بس اپنے اعمال شروع کردیں۔

سوال نمبر 4:

میرا نام فلاں ہے، اسلام آباد سے بات کر رہی ہوں۔ شاید آپ مجھے نہ جانتے ہوں، میرا رابطہ بہت کم ہوتا ہے۔ میں عالمہ ہوں اور تفسیر و فقہ پڑھاتی ہوں۔ آپ سے رابطہ فلاں صاحب کے توسط سے ہوا تھا، ان کی اہلیہ مجھ سے پڑھتی ہیں۔

حضرت جی، آپ کی دعا سے میرا مراقبہ اچھا ہوگیا ہے، الحمد للہ۔ لیکن مجھے غیبت کا مرض لاحق ہے، جو کہ ایک خطرناک مرض ہے۔ میں اس سے بچنے کی کوشش کرتی ہوں، احتیاط بھی کرتی ہوں، لیکن پھر بھی کبھی کبھی لغزش ہوجاتی ہے۔ رہنمائی فرمائیں۔

جب آپ سے آخری بار رابطہ ہوا تھا، تو غالباً میں نے عرض کیا تھا کہ شوال میں میں نے رمضان کا درود شریف دو لاکھ ساٹھ ہزار مرتبہ پڑھا تھا۔ رمضان میں آپ کے فرمان کے مطابق درود شریف چالیس ہزار بار پڑھا، اور قرآن مجید کی تلاوت بھی کی، لیکن صرف پندرہ قرآن مکمل کر پائی۔ جبکہ پہلے میں نے ایک بار پچاس، اور ایک بار چالیس ختم بھی کیے۔ بہرحال، میں اپنے رب کا لاکھوں بار شکر ادا کرتی ہوں کہ جو کچھ بھی ہوا، الحمد للہ اسی کے فضل سے ہوا۔

جواب:

یہ بات جو آپ نے فرمائی ہے، اس پر الحمد للہ، اللہ پاک کا بہت شکر ادا کریں۔ ما شاء اللہ آپ کا تفسیر اور فقہ کی تعلیم دینا اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل ہے، اللہ تعالیٰ اس فضل کو مزید بڑھائے۔

رہی بات رابطے کی، تو جیسے ابھی آپ نے کیا، ویسے ہی وقتاً فوقتاً رابطہ کر لیا کریں۔ اس میں آپ ہی کا فائدہ ہے، کیونکہ سلوک کے سفر میں دو چیزیں بنیادی ہیں: ایک شیخ سے تعلق و رابطہ، اور دوسرا معمولات کی پابندی۔ اس لیے رابطہ ضرور رکھیں تاکہ آپ کے احوال سے باخبر رہوں، کوئی اچھی بات ہو تو عرض کر سکوں، اور اگر کہیں کوئی کمی یا کوتاہی ہو، تو اس کی طرف توجہ دلا سکوں۔

غیبت کے مرض کا جو آپ نے بتایا، غیبت واقعی ایک خطرناک مرض ہے، لیکن یہ لاعلاج نہیں ہے۔ آپ خود اس کا علاج کر سکتی ہیں، کیونکہ یہ عمل ارادے کے ساتھ ہوتا ہے، اور جب ارادے سے ہوتا ہے تو ارادے سے روکا بھی جاسکتا ہے۔ اس کے علاج کے لیے ہمارے اکابر کے تین مختلف طریقے رہے ہیں، اور تینوں طرح کے علاج ہی صحیح ہیں۔ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے اگر کوئی غیبت کرتا تو وہ فوراً بات کا رخ بدل دیتے، اور کسی اور موضوع میں مشغول ہوجاتے۔ حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ خاموش ہوجاتے، گویا انہوں نے سنا ہی نہیں۔ اور حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ بات مکمل سن کر نرم انداز میں فرماتے، "نہیں بھائی، وہ ایسا نہیں ہے"۔ بس اس طرح بات ختم ہوجاتی۔ ان تینوں طریقوں میں سے جو آپ کو پسند ہو، اس پر عمل کریں۔ ان شاء اللہ، یہ مرض ختم ہوجائے گا۔

اور باقی یہ کہ الحمد للہ آپ نے درود شریف جتنا بھی پڑھا ہے، اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ ضرور قبول ہوتا ہے، کیونکہ درود شریف تو ویسے ہی مقبول عمل ہے۔ البتہ اس سے اصل مقصود یہ ہے کہ اس کے ذریعے حضور ﷺ کی محبت دل میں پیدا ہو، اور اتباعِ سنت کی توفیق نصیب ہو، یہی بڑی نعمت ہے۔ اس کے لیے دل سے باقاعدہ دعا بھی کرنی چاہیے۔ میں بھی آپ کے لیے دعا کرتا ہوں، آپ بھی میرے لیے دعا کریں۔

سوال نمبر 5:

السلام علیکم میرے محترم حضرت مرشد دامت برکاتہم! امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے، ان شاء اللہ۔ حضرت جی! کافی عرصہ پہلے میں نے آپ سے عرض کیا تھا کہ میرے اندر حسد کا مرض ہے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب میں نے آپ سے نئی نئی بیعت کی تھی۔ اب اگرچہ یہ مرض کچھ کم ہوا ہے، لیکن پھر بھی باقی ہے، اور اس کی وجہ سے مجھے شدید تکلیف اور رنج محسوس ہوتا ہے، جیسے میرے دل پر کوئی بھاری بوجھ یا پہاڑ رکھا ہو۔ حضرت جی، اس کے علاج کے لیے رہنمائی فرما دیں۔

جواب:

کسی بھی برائی سے متنفر ہونا، اس سے نفرت کرنا، خود ایک علاج بن جاتا ہے۔ ما شاء اللہ، آپ کے دل میں حسد کے مرض سے نفرت موجود ہے، تو ان شاء اللہ یہ چیز اس کے علاج کو آسان بنا دے گی۔ اس مرض کا سب سے مؤثر علاج یہ ہے کہ جس شخص سے حسد ہو، اس کی تعریف کرنا شروع کردیں۔ اس سے دو فائدے ہوں گے: ایک تو یہ کہ آپ کے نفس پر اس سے آرے چلیں گے۔ لیکن جب آپ ارادے سے تعریف کریں گے تو یہ مجاہدہ شمار ہوگا، اور مجاہدے سے نفس کا علاج ہوتا ہے۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ جب محسود (جس سے حسد ہے) کو آپ کی تعریفیں معلوم ہوں گی، تو وہ آپ کے لیے محبت اور شفقت کے جذبات رکھنے لگے گا، جس کے نتیجے میں آپ کے دل سے بھی حسد آہستہ آہستہ ختم ہونا شروع ہوجائے گا۔ لہٰذا یہ ایک مؤثر علاج ہے، آپ اسی پر عمل جاری رکھیں، ان شاء اللہ بہتری ضرور آئے گی۔

سوال نمبر 6:

السلام علیکم حضرت جی! آج کل کے دروس میں جب آپ محمدی مشرب کی تعلیمات سامنے آرہی ہیں، سچ بات ہے کہ دل گواہی دیتا ہے کہ آپ خود اس مشرب سے خاص نسبت رکھتے ہیں، کیونکہ جو خود اس سے وابستہ نہ ہو، وہ اتنی گہرائی اور سادگی کے ساتھ یہ مفاہیم کیسے سمجھا سکتا ہے۔ آپ جب اس پر روشنی ڈالتے ہیں تو لکھنے والا بھی اس کے ساتھ مناسبت محسوس کرتا ہے اور گمان ہونے لگتا ہے کہ وہ بھی محمدی مشرب کے ساتھ مناسبت رکھتا ہے۔ ظاہر ہے، یہ آپ کی برکت ہے۔

حضرت، حقیقت یہ ہے کہ آپ نے ایک بہت مشکل حقیقت کو بہت آسانی سے سمجھایا، ورنہ ہمیں تو معلوم ہی نہ تھا کہ محمدی مشرب کا مفہوم کیا ہے۔ ہم تو بس آپ کی باتیں سن کر وقتی جوش میں آجاتے ہیں، اور خود کو کچھ سمجھنے لگتے ہیں۔ شاید یہ ایک بدترین انسان کی صفت ہے۔

ایک طرف یہ حال ہے، اور دوسری طرف اتنی قوتِ ارادی بھی نہیں کہ موبائل کے فتنے سے خود کو بچا سکیں۔ پچھلے دنوں میں کافی بے احتیاطی ہوئی، لیکن نفس ابھی بھی بہانے بناتا ہے۔ اگر آپ کو یہ message نہ لکھتا تو شاید یہی بہانے میرے لیے دلیل بن جاتے۔ حقیقت یہ ہے کہ سمجھ ہی نہیں آرہا کہ اس نفس کو کہاں سے پکڑیں، فی الحال تو بس اپنی حالتِ ہی بیان کرسکتا ہوں۔

جواب:

ما شاء اللہ، آپ نے جو محمدی مشرب کے حوالے سے بات فرمائی، اور یہ جو گمان آپ کو ہوتا ہے کہ آپ کا شیخ بھی محمدی مشرب سے ہے، تو یہ آپ کے لیے بہت باعثِ برکت ہے۔ یہ میں نہیں کہہ رہا، بلکہ بزرگ فرماتے ہیں۔ بزرگوں نے فرمایا ہے کہ جو بندہ اپنے شیخ کے بارے میں جیسا گمان رکھتا ہے، اُسی درجے کا فیض اُسے نصیب ہوتا ہے۔ اگر کوئی اپنے شیخ کو ابدال یا قطب سمجھتا ہے، تو اسے ویسا ہی فیض حاصل ہوتا ہے۔ اس لیے یہ گمان محض خیال نہیں، بلکہ حقیقت میں فائدہ کا ذریعہ ہے، لہٰذا اس میں آپ کا ہی فائدہ ہے، نقصان تو نہیں ہے۔

البتہ اپنے آپ کو محمدی مشرب سمجھنے کے بارے میں میں کئی بار عرض کر چکا ہوں کہ اگر کوئی حقیقتاً ہے، تو پھر سمجھنے کی ضرورت ہی نہیں، اللہ تعالیٰ خود ہی اس کے ساتھ معاملہ فرما دیتے ہیں۔ اور اگر نہیں ہے تو خود سے یہ گمان رکھنا نقصان دہ ہے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ اس طرف سوچنے کی ضرورت ہی نہیں۔ کیونکہ اللہ نے جیسے بھی پیدا کیا ہے، اصل میں عمل تو سب کو کرنا ہے چاہے کوئی محمدی مشرب والا ہو یا نہ ہو، عمل تو سب نے شریعت ہی پر کرنا ہے۔ لہٰذا آپ شریعت پر استقامت کے ساتھ عمل کرتے رہیں، باقی یہ معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیں کہ اُس نے ہمیں کس مزاج پر پیدا فرمایا ہے، ہمیں اس میں کچھ جاننے یا سننے کی ضرورت نہیں۔ برائی کو برائی سمجھنا بھی ایک اچھائی ہے۔

باقی جو آپ نے mobile کے بارے میں ذکر کیا، تو اس کا تدارک موجود ہے۔ اور وہ یہ کہ آپ سادہ موبائل رکھیں، اور smartphone کو ترک کردیں۔ بلکہ بہتر یہ ہے کہ اپنا smartphone ہمارے پاس جمع کرا دیں۔

سوال نمبر 7:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ حضرت میرا موجودہ ذکر دو سو چار سو چھ سو اور ساڑھے سات ہزار ہے۔ اس کو کرتے ہوئے ایک مہینہ پورا ہوگیا ہے، آگے کے لئے نیا ذکر عنایت فرما دیں۔

جواب:

اب آپ ان شاء اللہ دو سو، چار سو، چھ سو اور آٹھ ہزار کرلیں۔

سوال نمبر 8:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! میں اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑا ہوں۔ میرے دل میں کبھی کبھار خونی رشتوں کے بارے میں الٹے خیالات آتے ہیں، اور خاص طور پر نماز میں یہودیوں اور قادیانیوں جیسے خیالات بھی آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کردیں کہ وہ خاتمہ بالایمان عطا فرمائے، ان خیالات سے نجات دے، اور دنیا و آخرت میں کامیابی نصیب فرمائے۔

جواب:

سورۃ الناس میں فرمایا گیا ہے:

﴿قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ ۝ مَلِكِ النَّاسِ ۝ اِلٰهِ النَّاسِ ۝ مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ ۝ الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُوْرِ النَّاسِ ۝ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ﴾ (الناس: 1-6)

ترجمہ:1 "کہو کہ: میں پناہ مانگتا ہوں سب لوگوں کے پروردگار کی۔ سب لوگوں کے بادشاہ کی۔ سب لوگوں کے معبود کی۔ اس وسوسہ ڈالنے والے کے شر سے جو پیچھے کو چھپ جاتا ہے۔ جو لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے۔ چاہے وہ جنات میں سے ہو یا انسانوں میں سے"۔

ظاہر ہے کہ شیطان انسان کو وسوسے ہی ڈالتا ہے۔ لہٰذا جب کسی بھی چیز یا شخص کے بارے میں الٹے خیالات آنے لگیں، تو سمجھ لیں کہ ان سے آپ کو فائدہ پہنچ رہا ہے، اور شیطان اس رشتے کو خراب کرنا چاہتا ہے۔ اسی طرح جن لوگوں سے نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے، ان کے بارے میں اچھے خیالات لا کر شیطان دھوکہ دیتا ہے۔ especially نماز میں ایسے خیالات آنا شیطان ہی کا فعل ہے، اس لیے ان باتوں کا بالکل اثر نہ لیا کریں، اور اپنی توجہ نماز پر رکھا کریں۔ ہماری پشتو میں ایک ضرب المثل ہے، جو میرے خیال میں اس صورتحال کے لئے زیادہ بہتر ہے، کہا جاتا ہے: سپی به غاپی اؤ کارغان به پرې تیریږی یعنی کتے بھونکتے رہتے ہیں اور کوّے اپنا سفر جاری رکھتے ہیں۔ کیونکہ کتے بھونک کر کوؤں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، اس لئے بھلے بھونکتے رہیں۔ اسی طریقہ سے شیطان بھلے وسوسے ڈالتا رہے، وہ ہمیں ان سے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا اس لئے اس کی پروا نہ کریں۔

ہم I-10 (اسلام آباد) میں صبح کے وقت walk کیا کرتے تھے۔ کبھی کبھی کسی گھر میں موٹا سا کتا بندھا ہوتا تھا۔ یہاں اسلام آباد میں کتے پالنے کا رواج ہے۔ وہ کتا وقتاً فوقتاً بڑی خوفناک آواز سے بھونکتا تھا۔ جب ہم کسی ایسے گھر کے سامنے سے گزرتے اور کتا اچانک بھونکتا، تو میں اپنے ساتھیوں سے کہتا کہ یہ وسوسے کی مثال ہے۔ یعنی کتا بندھا ہوا ہے، کر تو کچھ بھی نہیں سکتا، لیکن اس کی بھونکنے کی آواز سے انسان ڈر جاتا ہے کہ کہیں حملہ نا کردے۔ حالانکہ حقیقت میں اگر کسی کو معلوم ہو کہ یہ بندھا ہوا ہے اور کچھ نہیں کر سکتا، تو پھر کسی کو اس کی آواز کی پروا بھی نہ ہو۔ اسی طرح اگر ہم شیطان کی بات نہ مانیں تو وہ ہمارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔ لہٰذا اس کی پروا نہیں کرنی چاہیے۔

سوال نمبر 9:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، حضرت جی! امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ آپ کو صحت، تندرستی اور برکت والی لمبی عمر عطا فرمائے۔ حضرت جی! کچھ خامیاں مجھ میں پہلے سے موجود تھیں۔ ان کا علم تو تھا، لیکن کبھی اس بات کا احساس نہ ہوا کہ ان خامیوں کو ٹھیک بھی کرنا ہے۔ حضرت جی! سب سے پہلی خرابی یہ ہے کہ میں ریاکاری میں مبتلا ہوں۔ دوسری خرابی یہ ہے کہ میرا اچھا کھانا کھانے کو دل کرتا ہے۔ اگرچہ جو مل جائے کھا لیتا ہوں، لیکن کوشش ہمیشہ اچھے کھانے کی ہوتی ہے۔ تیسری کمزوری یہ ہے کہ مجھ میں شہوت کا مادہ بہت زیادہ ہے، اور کم ہونے میں نہیں آرہا۔ حضرت جی! ان معاملات میں آپ سے رہنمائی کی درخواست ہے۔ میرا ذکر دو سو، چار سو اور چھ سو مرتبہ کا ہے، اور اس کے علاوہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ دو ہزار بار کہنے کا معمول ہے۔ واپس آنے کے بعد تھکاوٹ اور وقت کی تبدیلی کی وجہ سے دو تین دن ناغہ ہوگیا تھا۔ اب نیت کی ہے کہ ان شاء اللہ آئندہ ناغہ نہیں کروں گا۔

جواب:

ما شاء اللہ! دیکھیں، جیسے مریض اپنی بیماریاں ڈاکٹر کو بتاتا ہے، اسی طرح اپنے باطنی امراض اور خامیاں شیخ کو ضرور بتانی چاہئیں، لیکن مایوسی کے ساتھ نہیں، بلکہ علاج کی امید اور رغبت کے ساتھ۔ اور پھر جب شیخ علاج بتائیں، تو اس پر عمل بھی کرنا چاہیے۔ آپ کو اپنی خامیوں کا احساس ہوجانا، ما شاء اللہ، آپ کے لیے فائدے کا باعث بنے گا، کیونکہ اب ان کا علاج ممکن ہے۔ ریاکاری ایک ایسا معاملہ ہے جو اختیاری عمل ہے، غیر اختیاری نہیں ہے۔ اگر ریاکاری کا خیال بغیر ارادے کے ذہن میں آجائے تو وہ محض وسوسہ ہے، اور وسوسے پر شرعاً کوئی گرفت نہیں۔ ریا تب ہوتی ہے جب انسان قصداً، نیت کے ساتھ عمل کسی اور کے لیے کرے، یعنی دکھاوے کے ارادے سے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ آپ کا عمل، لوگوں کی موجودگی یا غیر موجودگی سے متاثر نہ ہو۔ یعنی جو عمل آپ تنہائی میں کرتے ہیں، وہی مجمع میں کریں، اور جو مجمع میں کرتے ہیں، وہی تنہائی میں کریں۔ اگر آپ لوگوں کے سامنے قصداً اچھا عمل کرنے لگیں تو وہ ریا ہے، لہٰذا کبھی بھی لوگوں کے لئے اپنے عمل میں تبدیلی نہ کریں۔ بس جو عمل آپ کر رہے ہیں، تو اگرچہ کرنا تو اچھا ہی چاہیے، لیکن صرف اللہ کے لیے، کسی اور کی نیت نہیں ہونی چاہیے۔

اچھے سے اچھا کھانے کا ہر ایک کا دل چاہتا ہے، لیکن انسان کو جو ملے، وہ کھا لے اور اس پہ شکر کرے، اور اگر اپنی طبیعت کے مطابق نہ ملے تو صبر کرے، اور بہتر یہ ہے کہ اس پر بھی شکر کرے کہ ایسے لوگ بھی ہیں جو بھوکے ہیں، جن کو کچھ بھی نہیں مل رہا۔ حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک دن میرے جوتے چوری ہوگئے، تو میں بہت پریشان تھا، مسجد سے باہر آگیا، تو میں نے دیکھا کہ ایک شخص کے پیر ہی نہیں تھے۔ میں نے کہا: یا اللہ! تیرا شکر ہے، میرے کم از کم پیر تو ہیں، چلیں بغیر جوتوں کے چلا جاؤں گا، ان کے تو پیر بھی نہیں۔ بہت سارے لوگ ایسے بھی ہیں جن کے پاس ایک وقت کے کھانے کا بھی نہیں ہے۔ آپ کو اللہ پاک دے رہا ہے تو چاہے مزاج کے مطابق ہے، چاہے مزاج کے مطابق نہیں ہے، اس پر اللہ پاک کا شکر کریں۔

شہوت کا جو مادہ ہے، مادہ ہونا کوئی برائی کی بات نہیں ہے۔ بلکہ مادہ ہو اور control ہو، تو اجر زیادہ ہے۔ ہاں! اس کا جائز استعمال ضرور ہونا چاہئے۔ جو اللہ پاک نے دیا ہے، اس کا جائز طریقے سے استعمال کرنا چاہیے۔ باقی رہا اس کا ہونا، تو دیکھئے! کسی چیز کی خواہش کا ہونا، یا کسی عمل کی صلاحیت رکھنا، کوئی بری بات نہیں ہے۔ بری بات تب ہے جب اس کے تقاضے پر خلاف شریعت عمل کیا جائے۔ یعنی جب کوئی حرام یا ناجائز راستہ اختیار کیا جائے۔ اور اگر آپ اس کو control کر رہے ہیں تو سبحان اللہ! آپ کو اس پر زیادہ اجر مل رہا ہے۔ باقی یہ ہے کہ ابھی آپ نے ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کا ذکر شروع کیا ہے تو ایک مہینہ مکمل کر کے مجھے اطلاع دے دیجیے گا۔

سوال نمبر 10:

میں مدرسہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوں اور میرا گھر فلاں جگہ پر واقع ہے، جو تحصیل ضلع و مانسہرہ میں ہے۔ الحمد للہ! آپ سے میرا قلبی تعلق ہے، اور یہ تعلق خاص طور پر حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوبات کے حوالے سے مزید مضبوط ہوا ہے۔ بندہ کو مکتوباتِ مجدد سے غیر معمولی محبت ہے، اور میں ان کو سمجھنا بھی چاہتا ہوں۔

جواب:

ما شاء اللہ! یہ مناسبت بہت بڑی نعمت ہے۔ کسی بھی بزرگ کے ساتھ قلبی مناسبت اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ عظیم نعمت ہوتی ہے۔ بالخصوص اگر یہ مناسبت حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ہو تو اس سے بڑھ کر اور کیا سعادت ہوسکتی ہے! یہ واقعی ایک بڑی خوش نصیبی کی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس مناسبت کے بے شمار فوائد عطا فرمائے۔ حضرت کے مکتوباتِ شریفہ میں واقعی ما شاء اللہ بہت سارے عظیم علوم ہیں۔ حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوبات میں ایسے بہت سے علوم ہیں جن سے ہم لوگ ابھی ناواقف ہیں، یعنی ہم ان کی طرف پوری طرح متوجہ نہیں ہیں۔

ما شاء اللہ! آپ ان مکتوبات کو پڑھ سکتے ہیں۔ البتہ، اگر آپ کو کبھی اس بارے میں بات کرنی ہو تو جب بھی آپ راولپنڈی تشریف لائیں، تو ضرور ملاقات کیجئے۔ ان شاء اللہ اس موضوع پر بات ہوجائے گی۔

باقی ہماری ویب سائٹ پر اَلْحَمْدُ لِلّٰہ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوباتِ شریفہ کے دروس موجود ہیں، جو مکمل ہوچکے ہیں۔ آپ ان شاء اللہ ان کو پڑھ بھی سکتے ہیں، دیکھ بھی سکتے ہیں اور سن بھی سکتے ہیں۔ اور چونکہ آپ کو حضرت سے مناسبت ہے، تو ان شاء اللہ آپ کو اس سے بہت زیادہ فائدہ بھی ہوگا۔

سوال نمبر 11:

شیخِ محترم! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ. لطیفہ قلب کسی بھی وقت محسوس ہوتا رہتا ہے۔ البتہ لطیفہ روح مراقبے کے وقت تو محسوس ہوتا ہے مگر جب میں اس پر الگ سے غور کرتی ہوں تو تھوڑی سی توجہ دینے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ تھوڑی توجہ دینے پر لطیفہ روح پر بھی دھڑکن کی کیفیت واضح طور پر محسوس ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ جزاکم اللہ۔

جواب:

بس محسوس ہونا اسی کو کہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر وقت ہی محسوس ہو۔ ہر وقت تب محسوس ہوتا ہے جب انسان کافی آگے چلا جائے یعنی انسان کے لئے یہ بالکل طبیعت ثانیہ بن جائے۔ وہ ایک علیحدہ بات ہے لیکن آپ کو اگر مراقبہ کرتے وقت محسوس ہوتا ہے تو سبحان اللہ، اس پر بھی اللہ کا شکر کریں۔ اب ان شاء اللہ آئندہ اس طرح کریں کہ ان دو لطائف پر آپ دس دس منٹ ذکر سننے کی کوشش کریں اور لطیفہ سر پر پندرہ منٹ سوچیں۔ لطیفہ سر کی جگہ اگر معلوم نہ ہو تو مجھ سے پوچھ لیں، میں ان شاء اللہ بتا دوں گا۔

سوال نمبر 12:

السلام علیکم! ’’أَنْتُمْ أَعْلَمُ بِأَمْرِ دُنْيَاكُمْ‘‘ (صحیح مسلم، حدیث نمبر: 6128) کی حدیث بھی سامنے ہے، استخارہ اور قلبی رجحان بھی ہے، تجویز اور حکمِ شیخ بھی ہے اور اپنی سوچ بھی ہے۔ اس صورت میں دنیا کے متعلق فیصلے کس بنیاد پر کیے جائیں؟

جواب:

اگر شیخ سے مشورہ ہوچکا ہو اور انہوں نے کوئی بات بتادی ہو تو وہی مقدم ہے۔ اگر شیخ سے مشورہ نہ ہوا ہو تو دنیاوی امور میں استخارہ کرنا چاہئے، اور دینی امور میں شریعت کے حکم کے مطابق عمل کرنا لازم ہے۔ فی الحال اپنی ذاتی سوچ پر زیادہ عمل کرنے سے گریز کرنا چاہئے، خاص طور پر ان لوگوں کو جن کے خیالات میں کثرت اور تلوّن پایا جاتا ہو، کیونکہ ایسے خیالات کسی بھی طرف مائل ہوسکتے ہیں۔

سوال نمبر 13:

لطیفہ قلب کیا کیا ہوتا ہے؟ ایک عام آدمی اور ایک سالک کے لطیفہ قلب میں کیا فرق ہوتا ہے؟

جواب:

لطیفہ قلب، دراصل قلب ہی کی ایک حالت ہے، اس میں تو قلب ہی شامل ہوتا ہے۔ سوال مقام قلب کے بارے میں ہونا چاہئے۔ مقام قلب میں نفس اور روح دونوں کا اجتماع ہوتا ہے، اور وہ نفس سے بھی اثر لے رہا ہوتا ہے اور روح سے بھی۔ اس کیفیت کو حالت جذب کہتے ہیں۔ ایسی حالت میں انسان کو فائدہ اٹھانا چاہئے اور سلوک طے کرنا شروع کردینا چاہئے۔ رہی بات لطیفہ قلب کی، تو وہ ایک Sensing point ہے، یعنی ایسا مقام جہاں ذکر کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ میرے خیال میں اتنی وضاحت کافی ہے۔

سوال نمبر 14:

زید کو بچپن سے دیرپا sinus کا مسئلہ ہے، جس کی وجہ سے وہ اکثر منہ سے سانس لیتا ہے اور ناک بند رہتی ہے۔ لسانی ذکر کرتے وقت زید کا سانس چڑھ جاتا ہے اور رکنے لگتا ہے۔ ایسی حالت میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا زید لسانی ذکر کی کوشش جاری رکھے یا قلبی ذکر ہی اس کی قسمت میں ہے۔

جواب:

اگر واقعی لسانی ذکر سے کوئی مسئلہ پیش آرہا ہو تو زید کو قلبی ذکر کرنا چاہئے۔ البتہ صرف ہونٹ ہلانے سے عام طور پر سانس نہیں چڑھتا، سانس چڑھنے کی کیفیت زیادہ تر اس وقت ہوتی ہے جب کوئی بات کر رہا ہو۔ اگر زید کی حالت بھی اسی قسم کی ہو تو بتا دیں۔

سوال نمبر 15:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، حضرت جی! میں فلاں ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو صحت اور عافیت میں رکھے۔ میرے علاجی ذکر کو الحمد للہ ایک ماہ مکمل ہوچکا ہے۔ اس میں سب لطائف پر پانچ پانچ منٹ اور مراقبہ تنزیہ اور صفات سلبیہ کا مراقبہ پندرہ منٹ دیا گیا تھا۔ حضرت جی جتنا عرصہ مراقبہ کر رہی ہوں، رونا اور دعا کرنا بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ شاید یہ حالات کی وجہ سے بھی ہو، لیکن بعض اوقات مراقبہ کے دوران بھی دعا میں لگ جاتی ہوں۔

رمضان المبارک میں ایک بار دل سے یہ استحضار ہوا کہ اللہ پاک سبحان ہے، سب عیوب سے پاک ہے، نہ اس جیسی کوئی شئی ہے اور نہ ہی اس کی کوئی مثال دی جاسکتی ہے۔ کچھ وقت مسلسل اسی دھیان میں گزرا اور کیفیت بھی رہی۔

اب بھی مراقبہ جاری ہے، لیکن ذہنی انتشار بہت بڑھ گیا ہے۔ اس لیے محض ناغہ سے بچنے کے لیے کر لیتی ہوں، دل نہیں کرتا اور دھیان بھی کم ہوگیا ہے۔ پہلے تو ذکر نہ ہونے کی پریشانی تھی، اب ذکر کی عادت ہوگئی ہے اور مسلسل محسوس بھی ہوتا رہتا ہے، شاید اسی وجہ سے دھیان پہلے جیسا نہیں رہا۔ خیالات بھی بہت زیادہ آنے لگے ہیں۔

جواب:

جو اختیاری عمل ہے، اس میں ہمت کرنی چاہئے، اور جو غیر اختیاری ہیں، ان کے پیچھے نہیں پڑنا چاہئے۔ ما شاء اللہ آپ جو مراقبہ میں دعا کرنے لگی ہیں، تو اس کے ساتھ مراقبہ دعائیہ بھی شروع کرلیں۔ مراقبہ دعائیہ یہ ہے کہ انسان دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگے، زبان سے الفاظ ادا نہ کرے، لیکن دل سے اللہ سے مانگنے کی کیفیت قائم رکھے۔ آپ بے شک دس منٹ کے لیے دل ہی دل میں دعائیں بھی کیا کریں۔

سوال نمبر 16:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ حضرت جی رب العزت آپ کے درجات بلند فرمائے، آپ کا سایہ ہم پر قائم رکھے اور آپ کو لمبی حیات عطا فرمائے۔ محترم حضرت جی! آپ نے جو وظیفہ عطا فرمایا تھا، یعنی ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ، ’’اَللّٰہ‘‘ پانچ سو مرتبہ، اور پانچ پانچ منٹ لطیفہ قلب، لطیفہ روح، لطیفہ سر، لطیفہ خفی، لطیفہ اخفیٰ پر مراقبہ کرنے کا، اور پندرہ منٹ مراقبہ معیت کا کہ جس میں یہ تصور کرنا تھا کہ فیض اس ذات پاک سے آرہا ہے جو میرے ساتھ ہے اور کائنات کے ہر ذرے کے ساتھ ہے، وہاں سے شیخ کے قلب مبارک پر، اور وہاں سے میرے قلب پر آرہا ہے، اور صبح و شام دو نفل اس کیفیت کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہے ہیں، یہ پڑھنے کے لئے بتایا تھا، الحمد للہ تقریباً پینتالیس دن مکمل ہوچکے ہیں۔ مراقبہ کے دوران یہ تصور کرتا ہوں کہ فیض اس ذات سے آرہا ہے جو میرے ساتھ ہے، اور کائنات کے ہر ذرے کے ساتھ ہے۔ پہلے مراقبہ میں کبھی کبھی یہ کیفیت بھی محسوس ہوتی تھی کہ میں خانہ کعبہ کے اندر ہوں اور سامنے بیٹھا ہوں، مگر اب یہ کیفیت باقی نہیں رہی۔ مصروفیت کے باعث اطلاع میں تاخیر ہوئی جس پر مجھے افسوس ہے۔ حضرت جی! آپ سے دعا کی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے راضی ہو، مجھے عافیت عطا فرمائے اور خاتمہ بالایمان نصیب کرے۔ حضرت جی! میرے لیے آئندہ کے لیے کیا حکم ہے؟ آپ کی دعاؤں کا طلبگار ہوں۔

جواب:

ما شاء اللہ، بہت اچھی بات ہے، الحمد للہ۔ جو آپ کر رہے ہیں اس طرح یہ کرتے رہیں۔ البتہ اس کے ساتھ ساتھ جب یہ تصور ہو کہ اللہ آپ کے ساتھ ہے، تو اللہ پاک سے دل ہی دل میں مانگنا بھی شروع کردیں۔

سوال نمبر 17:

السلام علیکم حضرت! معمولات کے بارے میں بتانا تھا۔ ذکر کی تعداد دو سو، چار سو، چھ سو اور ہزار ہے۔ کیا مناجات مقبول، باقاعدہ معمولات، تلاوت، چہل درود و سلام اور 313 والی تسبیحات دوبارہ شروع کروں؟

جواب:

جی ہاں، اب ذکر کی تعداد تھوڑی سی بڑھا دیں۔ اب ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ پندرہ سو مرتبہ کیا کریں۔

سوال نمبر 18:

السلام علیکم حضرت جی، کبھی دو تین ہفتے یا مہینہ گزر جاتا ہے اور میری کوئی نماز قضا نہیں ہوتی تو مجھے یہ خیال آجاتا ہے کہ الحمد للہ میری نماز قضا نہیں ہوئی، حالانکہ اس پر میں شکر بھی کرتی ہوں کہ یہ سب اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہے اور دعا بھی کرتی ہوں کہ آئندہ بھی میری نماز قضا نہ ہو، ایک دفعہ تو میں نے شکرانے کے طور پر نفل بھی ادا کیے کہ میری نماز قضا نہیں ہوئی، مگر پھر اگلے ہی روز کسی نہ کسی وجہ سے فجر کی نماز قضا ہوجاتی ہے، اس پر آپ سے رہنمائی کی درخواست ہے۔

جواب:

ہمارے ہاں نماز قضا ہونے پر تین روزے بطور جرمانہ رکھنے ہوتے ہیں، بس آپ یہ تین روزے رکھ لیا کریں اور آئندہ جس وجہ سے بھی نماز قضا ہو، اس کی طبعی وجہ کو سوچ لیا کریں کہ کس سبب سے نماز رہ گئی، اور پھر اس طبعی وجہ کا علاج کر لیا کریں۔ بس ہم اتنے کے ہی مکلف ہیں۔

سوال نمبر 19:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ حضرت! میں فلاں بات کررہا ہوں، میرا ذکر ختم ہوگیا ہے۔

جواب:

اول تو ذکر ختم ہوتا ہی نہیں، اس کو یوں کہہ لیں کہ میرا موجودہ ذکر پورا ہوگیا ہے، کیونکہ ذکر کبھی ختم نہیں ہوسکتا، اللہ پاک نے فرمایا ہے:

﴿اُذْكُرُوا اللّٰهَ ذِكْرًا كَثِیْرًا ۝ وَّسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّاَصِیْلًا﴾ (الأحزاب: 41-42)

ترجمہ: "اللہ کو خوب کثرت سے یاد کیا کرو۔ اور صبح و شام اسکی تسبیح کرو"۔

تو یہ ذکر ہمیشہ جاری رہنے والی چیز ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ آپ نے یہ نہیں بتایا کہ میں نے آپ کو کتنا ذکر دیا تھا؟ تو آپ یہ بھی واضح کریں۔ تیسری بات یہ ہے کہ آپ اس نمبر پر آڈیو نہ بھیجا کریں۔

سوال نمبر 20:

السلام علیکم! حضرت جی تقریباً ایک ہفتہ پہلے رات کو معمولات کی وجہ سے دیر سے سویا اور صبح فجر کی نماز قضا ہوگئی، حضرت آپ نے بات کرنے سے پہلے دس منٹ خاموش رہنے کا مراقبہ دیا تھا، وہ بہت کم کر سکا۔ حضرت رمضان کے بعد معمولات میں بہت سستی ہورہی ہے، رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

ذرا ڈاکٹر صاحب کے پاس جا کر ان کو کبھی بتائیں کہ آپ نے جو دوائی دی تھی، اس سے بہت سستی ہوگئی ہے، وہ میں نے بہت کم دوائی کھائی ہے، اور یہ بات بھی بتا دیں کہ جیسے اگر ایک وقت زیادہ دوائی کھا لیں تو دوسرے وقت یہ کہہ کر چھوڑ دیتے ہیں کہ میں نے زیادہ کھا لی تھی۔ تو یہ چیزیں طبعی طور پر ٹھیک نہیں ہیں، آپ اس طرح معمول بنا لیں کہ کم از کم فجر کی نماز قضا نہ ہو، فجر کی نماز بہت اہم ہے، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک رشتہ دار بچہ تھا جو فجر کی نماز میں نظر نہیں آیا، تو حضرت نے گھر والوں سے پوچھا کہ وہ مجھے نماز میں نظر نہیں آیا، گھر والوں نے بتایا کہ وہ رات بھر عبادت کرتا رہا تو صبح آنکھ لگ گئی اور مسجد نہ پہنچ سکا۔ حضرت نے فرمایا کہ میرا تو دل چاہتا ہے کہ میں پوری رات سوجاؤں لیکن صبح فجر کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کر لوں۔ بس ایسا ہی ذوق اپنا لیں، اور یہ جو دس منٹ خاموش رہنے کا مراقبہ ہے، اسے بھی باقاعدہ کر لیں، اور جس چیز میں سستی ہو اسے چستی سے بدل لیں۔

سوال نمبر 21:

السلام علیکم

My dear and respected مرشد I hope you are well. My sincere apologies for not contacting your respected self. Two hundred times ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ’’ two hundred times ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ’’ two hundred times ‘‘حَقْ’’ and hundred times ‘‘اَللّٰہ’’

حضرت جی دامت برکاتھم if you please advise me what to do next. جزاک اللہ. A humble request to remember me in your dua.

جواب:

Now you should do two hundred times ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ’’ three hundred times ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ’’ three hundred times ‘‘حَقْ’’ and hundred time ‘‘اَللّٰہ’’ and always send me your message directly not through any other person.

سوال نمبر 22:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ حضرت جی، میں فلاں، میجر صاحب کی اہلیہ ہوں، معمولات میں دس دس منٹ لطیفہ قلب اور لطیفہ روح اور پندرہ منٹ لطیفہ سر پر مراقبہ کر رہی ہوں، معمولات کو کچھ ماہ ہوگئے ہیں لیکن ابھی بھی اکثر لطائف اپنی مخصوص جگہ محسوس نہیں ہوتے، مراقبہ کے دوران بے بہا دنیاوی خیالات آتے ہیں اور اکثر معمولات قضا بھی ہوجاتے ہیں، حضرت جی اپنی کچھ روح کی بیماریوں سے آپ کو آگاہ کرنا چاہتی ہوں، میرے اندر غصہ، ستائش کی خواہش، لوگوں کے بارے میں منفی رائے رکھنا، کچھ اچھا کرنے کی توقعات رکھنا، ان جیسی بہت سی بیماریاں ہیں جن کا اب شدت سے ادراک ہونے لگا ہے، اب کوشش کرتی ہوں کہ ان کو قابو میں رکھوں لیکن اکثر زندگی میں ان بیماریوں کی وجہ سے مشکلات اٹھاتی ہوں، حضرت جی جو شخص خود کی اصلاح میں مصروف بھی رہے اور پھر بھی نقصان اٹھائے، اس کے لئے کیا حکم ہے؟

جواب:

جب تک لوہا گرم نہ ہو اور نرم نہ ہو، اس پر چوٹ لگانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا، اس وجہ سے جب تک مطلوبہ جذب حاصل نہ ہو تو انسان کے اندر تبدیلی لانا مشکل ہوتا ہے۔ لہٰذا آپ کو جو ذکر میں بتاتا ہوں اس ذکر کو باقاعدگی کے ساتھ کیا کریں، یعنی معمولات کو اہتمام کے ساتھ کرنے کی کوشش کر لیا کریں، بے شک آپ کا جی نہ بھی چاہے، کیونکہ جب جی نہیں چاہے گا تو آپ کو دو فائدے ہوں گے، ایک نفس کا بھی علاج ہوگا اور دوسرا دل کا بھی علاج ہوگا، اور اگر دل چاہے گا تو صرف دل کا علاج ہوگا، لہٰذا آپ ان معمولات کو باقاعدہ کر لیا کریں، باقی خود بخود جو خیالات آتے ہیں ان کی طرف بالکل توجہ نہ کریں بلکہ ان کو چھوڑ دیا کریں، جیسے انسان پنکھے کے نیچے بیٹھا ہو تو پنکھے کے شور کی طرف توجہ نہیں دیتا بلکہ اپنے کام میں مشغول رہتا ہے۔ اسی طرح خیالات آئیں تو ان کی پروا نہ کریں، صرف اپنے کام پر دھیان رکھیں، اور اگر پھر بھی آپ کو لطائف کی مخصوص جگہ محسوس نہ ہو تو اس جگہ پر انگوٹھا رکھ لیا کریں اور یہ سوچیں کہ اس انگوٹھے کے نیچے وہ ذکر ہورہا ہے۔

سوال نمبر 23:

السلام علیکم! حضرت جی اللہ پاک سے آپ کی خیریت، صحت اور تندرستی کے لئے دعاگو ہوں۔ حضرت جی کئی دنوں سے شوال کے روزے رکھنے کی کوشش کر رہا ہوں، روزانہ alarm لگا کر سوتا ہوں کہ صبح روزہ رکھنا ہے، گھر والوں کو بھی تاکید کرتا ہوں کہ سحری میں اٹھنا ہے، باقی تیاری بھی کرتا ہوں مثلاً کھانے وغیرہ کا بندوبست کر لیتا ہوں، لیکن سحری میں alarm بند کر کے دوبارہ سو جاتا ہوں اور دل میں سوچتا ہوں کہ کل دیکھوں گا۔ اس سستی سے چھٹکارا کیسے حاصل کروں۔

جواب:

آپ اس طرح کریں کہ سوتے وقت جتنا کھا سکتے ہوں، کھا لیا کریں اور پھر سو جایا کریں۔ اور سحری میں اٹھیں تو کچھ پانی پی لیا کریں ورنہ ایسے ہی روزہ رکھ لیا کریں، پھر آپ کو ان شاء اللہ نفس اٹھائے گا۔

سوال نمبر 24:

السلام علیکم حضرت صاحب! مجھے مندرجہ ذیل ذکر کرتے ہوئے تیس دن ہوگئے ہیں: ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ تین سو، ’’حَقْ‘‘ تین سو اور ’’اَللّٰہ‘‘ سو مرتبہ۔

جواب:

اب آپ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو، ’’حَقْ‘‘ چار سو اور ’’اَللّٰہ‘‘ سو مرتبہ کرلیں۔

سوال نمبر 25:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ حضرت!

I feel spiritually low. Before when I used to make ذکر قلبی اور سری I used to feel their effects and more of Allah’s love. Now by making ذکر لسانی feel no effects. What is meant by محمدی مشرب and what is the sign? What is the difference between کمالات نبوت and مشرب انبیاء?

جواب:

First of all tell me have you kept the connection with me or not. Tell me the truth then I shall tell you something because off and on if you contact me and you are not continuing this so I think for that reason I will not be able to tell you something. There are many people who need my guidance and I should try to concentrate more upon them who feel connected with me. Those who feel connected with other people probably, I will not be having that much time to spend on them. So please me first and then I shall tell you. ان شاء اللہ

سوال نمبر 26:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔

نمبر 1:

تمام لطائف پر دس منٹ ذکر اور مراقبہ صفات ثبوتیہ پندرہ منٹ۔ سکون اور اطمینان محسوس ہوتا ہے، کوئی غم کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ نماز میں ٹھنڈک اور سکون محسوس ہوتا ہے۔ مراقبہ میں جب توجہ زیادہ بڑھ جائے تو اپنا آپ، اپنی اولاد اور سب کچھ بھول جاتی ہوں، بس صرف ایک روشنی سی نظر آتی ہے۔

جواب:

ما شاء اللہ! ابھی آپ صفات ثبوتیہ کے بعد پندرہ منٹ کے لئے اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف توجہ کے فیض کا مراقبہ کریں۔ چونکہ صفات ثبوتیہ کا مراقبہ مکمل ہوگیا ہے، اس لیے اب آپ یہ مراقبہ کریں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف توجہ کا فیض اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضور ﷺ کی طرف آرہا ہے اور حضور ﷺ سے شیخ کی طرف اور پھر آپ کے لطیفہ سر پر آرہا ہے۔

نمبر 2:

تمام لطائف پر پانچ پانچ منٹ ذکر اور مراقبہ صفات سلبیہ پندرہ منٹ۔ یقین بہت مضبوط ہوگیا ہے اور نیک عمل کی سستی بالکل ختم ہوگئی۔

جواب:

ماشاء اللہ! اب یہ کریں کہ چاروں لطائف کے جو مراقبات ہیں، ان سب کا جو مجموعی فیض ہے، جسے شانِ جامع کہتے ہیں، آپ اس شانِ جامع کے فیض کا مراقبہ کریں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ فیض آپ ﷺ کی طرف آرہا ہے، آپ ﷺ کی طرف سے شیخ کی طرف منتقل ہورہا ہے اور شیخ سے آپ کے لطیفہ اخفیٰ پر آرہا ہے۔

نمبر 3:

لطیفہ قلب دس منٹ، لطیفہ روح دس منٹ، لطیفہ سر دس منٹ اور لطیفہ خفی پندرہ منٹ۔ تمام لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

اب لطیفہ اخفیٰ کا پندرہ منٹ شروع کرلیں اور باقی پہ دس دس منٹ کرتی رہیں۔

نمبر 4:

ہزار مرتبہ زبانی ذکر۔ اس نے رمضان تک کیا تھا۔ ہم نے سوچا کہ تمام طالبات کے مراقبات تبدیل ہوں گے، تو وہ سمجھی کہ رمضان المبارک کے بعد یہ چھوڑنے ہیں، اس لئے اس نے چھوڑ دیا تھا۔

جواب:

اب دوبارہ شروع کرلے۔

نمبر 5:

تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبہ احدیت پندرہ منٹ۔ نیک اعمال کی طرف توجہ بڑھ گئی ہے۔

جواب:

سبحان اللہ! اب ان کو مراقبہ احدیت کی جگہ تجلیات افعالیہ کا مراقبہ دے دیں۔

نمبر 6:

تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبہ دعائیہ پندرہ منٹ۔

جواب:

ما شاء اللہ، اس سے پہلے انہوں نے جو جو مراقبات کیے ہیں، وہ مجھے بتا دیں۔

سوال نمبر 27:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، تصوف میں ان احوال سے کیا مراد ہے جن کے چھپانے پر زور دیا جاتا ہے؟ برائے مہربانی اس کی وضاحت فرمائیے۔

جواب:

ماشاء اللہ! احوال حال سے ہے اور حال کیفیت کے بیان کو کہتے ہیں، یعنی جو بھی اس وقت انسان کا حال ہو، مثلاً اگر میں کسی بیمار سے پوچھوں کہ آپ کا کیا حال ہے، تو وہ اگر کوئی تکلیف ہو تو بتا دے گا اور اگر تکلیف نہ ہو تو کہہ دے گا کہ ٹھیک ہے، اسی طرح جو عیوب ہیں ان کا بتانا، اور جو ذکر کا حال ہے کہ ذکر کی کیفیت کیسی ہے، یہ سب بیان کرنا حال کہلاتا ہے، اور پھر شیخ اس کیفیت کے مطابق رہنمائی فرماتے ہیں۔ گویا جو اس وقت اس کی condition اور کیفیت ہے، اس کا بتانا حال ہوتا ہے، باقی ایک اور حال وہ ہوتا ہے جو بدلتی ہوئی کیفیتوں کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے کہتے ہیں: ’’اَلْاَحْوَالُ مَوَاھِبُ وَالْمَقَامَاتُ مَکَاسِبُ‘‘۔ یعنی احوال تبدیل ہوتے رہتے ہیں وہ اللہ کی طرف سے ہوتے ہیں، کبھی کسی پر بہت بڑا ڈر طاری ہوجائے، تو یہ بھی ایک حال ہے، کبھی کسی کو بہت محبت اور جذب کا غلبہ ہوجائے، تو یہ بھی ایک حال ہے۔ تو یہ احوال تبدیل ہوتے رہتے ہیں، ان میں ایسی کوئی بات نہیں ہوتی۔ اور اپنا حال دوسروں سے چھپانا چاہئے اور صرف اپنے شیخ کو بتانا چاہئے، کسی اور پر ظاہر نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ حال ظاہر کرنے سے شہرت کا اندیشہ ہوتا ہے اور شہرت بہت بڑی مصیبت ہے، بعض اوقات شہرت ذلت میں بھی بدل جاتی ہے، اور ذلت کو کوئی برداشت نہیں کر سکتا، لہٰذا حال کو چھپانا چاہئے اور صرف شیخ کو بیان کرنا چاہئے۔

سوال نمبر 28:

حضرت قبلہ کی سمت معلوم کرنے کا طریقہ بتادیں۔

جواب:

قبلہ معلوم کرنے کے کئی طریقے ہیں، ایک عام طریقہ قطب نما کے ذریعہ ہے، لیکن قطب نما کے ذریعہ معلوم کرنے کے لئے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ قطب نما پر کس درجہ پر قبلہ واقع ہے، یعنی جس شہر میں آپ ہیں جیسے پنڈی یا اسلام آباد، وہاں پر قبلہ کس زاویہ پر ہے، یہ پہلے سے معلوم ہونا چاہئے، اَلْحَمْدُ للہ ہمیں معلوم ہے کہ شمال کی سمت سے 104 ڈگری کا زاویہ بناتا ہے، تو پہلے آپ کسی بھی طریقے سے شمال کی سمت معلوم کر لیں، چاہے قطب نما سے کریں یا زوال کے وقت سے معلوم کر لیں، پھر شمال کی سمت سے 104 ڈگری پر گھوم جائیں، تو یہی قبلہ ہوگا۔ البتہ یہ طریقہ عام لوگوں کے لئے مشکل ہوتا ہے کیونکہ ڈگری وغیرہ کے حساب کتاب اور قطب نما کے استعمال میں احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔

قبلہ معلوم کرنے کا سب سے آسان طریقہ سورج کے سایہ کی مدد سے ہے، آپ جب قبلہ معلوم کرنا چاہیں تو دیکھ لیں کہ کل کی تاریخ میں اوقات قبلہ میں کیا وقت لکھا ہے۔ مثلا 17 مئی کو چھ بج کے تئیس منٹ کا وقت ہے۔صبح سویرے سورج چڑھنے کے ساتھ ہی تقریباً چھ بج کر تئیس منٹ پر آپ سورج کے سایہ کی طرف دیکھیں گے تو سورج کا سایہ آپ کو نظر آئے گا، آپ اس پہ لائن لگا دیں، جس طرف سایہ ہوگا قبلہ بھی اسی طرف ہوگا۔ اب یہ بھی سمجھ لیں کہ سورج کا سایہ کس طرح معلوم کرنا ہے۔ اس کا طریقہ بہت آسان ہے۔ آپ ایک چارپائی کو لمبائی میں کھڑا کردیں، ایک مضبوط رسی اور ایک شاپر لے لیں اور اس میں اندازاً تین چار کلو پتھر ڈال کر اسے رسی سے باندھ کر چارپائی کے ایک پائے کے ساتھ اس طرح لٹکا دیں کہ اس کا سایہ زمین پر نظر آئے۔ چھ بج کر تئیس منٹ سے پندرہ منٹ پہلے آپ اس کو تیار کرلیں۔ تو سایہ تبدیل ہوتا ہوا آپ کو نظر آرہا ہوگا۔ کچھ وقت پہلے یہ سب اس لیے تیار کرنا ضروری ہے تاکہ وہ شاپر ٹھہر جائے اور شاپر میں زیادہ وزن اس لئے ضروری ہے تاکہ وہ ہوا سے نا ہلے، وزن سے وہ ایک ہی جگہ رہے گا تو وہ بالکل عمود بن جائے گا کیونکہ لٹکی ہوئی چیز ہمیشہ عموداً ہوتی ہے۔ چھ بج کر تئیس منٹ پہ آپ یہ کرلیں کہ اپنے ساتھ لمبی کیلیں لے لیں اور ان میں سے ایک رسی کے بالکل قریب اس سائے کی جڑ میں گاڑھ دیں اور دوسری اس سے دور آخری سرے پہ گاڑھ دیں۔ یہ دو کیلیں آپ اسی وقت گاڑھ دیں۔ بس ان دونوں کیلوں کو ملانے والا جو خط ہوگا وہی قبلہ ہوگا۔ اس طرح ان شاء اللہ العزیز ہمارے آنے کی بھی ضرورت نہیں ہوگی، آپ ان شاء اللہ آسانی کے ساتھ خود اپنا قبلہ معلوم کر لیں گے۔ یہ سب وہاں کریں جہاں دیوار نہ ہو۔ وہاں اس لائن کو جتنا چاہے لمبا کرلیں، اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ جب سورج نکلتا ہے تو اگر اس کی طرف دیوار ہے تو آپ اس سے آگے جا کے یہ سب کریں۔ آپ کو کم از کم چھ بج کر تئیس منٹ پر سورج جتنا چڑھتا ہے، اس کا اندازہ ہوچکا ہوگا کہ کب اس پہ روشنی آتی ہے تو اس کے بعد آگے میدان خالی ہے تو آپ کے پاس کھلی جگہ ہے، جتنا چاہیں آگے جائیں، دور جانے سے وہ چارپائی سورج کی range میں آ جائے گی۔ بس انتظام اس طرح کر لیں کہ شاپر کا سایہ زمین پہ پڑے۔ یہ طریقہ ٹیلی فون پر بھی ہم بتا سکتے تھے لیکن اس طرح ساری باتیں آپ کو سمجھ نہ آتیں۔ اگر ضرورت پڑے تو ہم آپ کو عملی طور پر بھی کروا سکتے ہیں۔ مثلاً ایک یہ کھڑا ہے اور یہ کھڑا ہے، تو اِس کا سایہ اِدھر آرہا ہے تو بس ایک کیل ادھر گاڑھ لیں اور ایک ادھر گاڑھ لیں اور پھر اس کو خط کے ساتھ ملا دیں۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ



  1. (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

    نوٹ! تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔


سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات - مجلسِ سوال و جواب