اہلِ بیت، صحابہ کرام اور امہات المؤمنین کا مقام

جمعہ بیان

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
جامع مسجد مدنی - کھنہ پل، اسلام آباد

یہ بیان سورۃ الفتح کی آیاتِ مبارکہ کی روشنی میں صحابہ کرامؓ کے اوصاف اور ان کے مقام و مرتبے  اور محرم الحرام کی فضیلت کو اجگر کرتا ہے۔ حضرت عمرؓ اور امام حسینؓ کی یادوں، اور عاشورہ کے روزے کی اہمیت کو سیرتِ نبویؐ کے تناظر میں واضح کیا گیا۔ اس میں صحابہ کرام کو تین طبقات میں تقسیم کیا گیا: عام صحابہؓ، اہلِ بیتؓ، اور امہات المؤمنینؓ، اور تینوں کے مقام کو قرآن و حدیث کی روشنی میں متوازن اور محبت بھری نگاہ سے پیش کیا گیا۔ یزید کی بداعمالیوں کا تاریخی اور معتبر حوالوں سے رد کرتے ہوئے امت کو اس کی حمایت سے بچنے کی تلقین کی گئی، جبکہ اہلِ بیتؓ کی مخالفت کو ہلاکت خیز قرار دیا گیا۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ، امام ابو حنیفہؒ، اور دیگر اکابر کے اقوال سے واضح کیا گیا کہ صحابہؓ اور اہلِ بیتؓ دونوں کی پیروی ہی دین کی مکمل شکل ہے۔ سنتِ نبویؐ جیسے داڑھی، مسواک، اور لباس کی مخالفت کو ایمان کے لیے خطرہ قرار دے کر عاجزی، محبت، اور ندامت کے ساتھ شریعت کی طرف رجوع کا پیغام دیا گیا۔ بیان کے آخر میں واضح کیا گیا کہ جو شخص عام صحابہ، اہلِ بیت اور امہات المؤمنین میں سے کسی کا بھی انکار کرے یا مخالفت کرے، وہ دراصل آپ ﷺ کی مخالفت کرتا ہے۔ امت کو اعتدال، اتحاد، اور تمام محبوبانِ رسول ﷺ سے یکساں محبت کی دعوت دی گئی ہے۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہ رَبِّ الْعَلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

﴿مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ وَالَّذِیْنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَی الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ تَرٰىهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَرِضْوَانًا سِیْمَاهُمْ فِیْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ذٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ وَمَثَلُهُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْـَٔهٗ فَاٰزَرَهٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰی عَلٰی سُوْقِهٖ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْهُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا۠(الفتح: 29)

صَدَقَ اللہُ الْعَظِیْمُ وَصَدَقَ رَسُولُہُ النَّبِيُّ الْکَرِیْمُ


ترجمہ: ’’محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں، وہ کافروں کے مقابلے میں سخت ہیں (اور) آپس میں ایک دوسرے کے لیے رحم دل ہیں۔ تم انہیں دیکھو گے کہ کبھی رکوع میں ہیں، کبھی سجدے میں، (غرض) اللہ کے فضل اور خوشنودی کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کی علامتیں سجدے کے اثر سے ان کے چہروں پر نمایاں ہیں۔ یہ ہیں ان کے وہ اوصاف جو تورات میں مذکور ہیں۔ اور انجیل میں ان کی مثال یہ ہے کہ جیسے ایک کھیتی ہو جس نے اپنی کونپل نکالی، پھر اس کو مضبوط کیا، پھر وہ موٹی ہوگئی، پھر اپنے تنے پر اس طرح سیدھی کھڑی ہوگئی کہ کاشتکار اس سے خوش ہوتے ہیں۔ تاکہ اللہ ان (کی اس ترقی) سے کافروں کا دل جلائے۔ یہ لوگ جو ایمان لائے ہیں اور انہوں نے نیک عمل کیے ہیں، اللہ نے ان سے مغفرت اور زبردست ثواب کا وعدہ کرلیا ہے‘‘۔

معزز خواتین و حضرات! اللہ کا شکر ہے اَلْحَمْدُ للہ! اللہ جل شانہ نے دو عیدیں ہمیں نصیب فرمائیں، عید الفطر، اس کے بعد عید الاضحیٰ اور عیدالضحیٰ میں اللہ پاک نے حجاج کرام کو حج نصیب فرمایا، اللہ ان کے حجوں کو قبول فرمائے۔ اور ہمیں قربانی کی توفیق عطا فرمائی، اللہ ہماری قربانی کو قبول فرمائے۔ اور اللہ جل شانہٗ نے اپنی بڑائی بیان کرنے کی توفیق عطا فرمائی، اس کے لئے نماز پڑھنے کی توفیق عطا فرمائی، اللہ پاک ہماری نمازوں کو بھی قبول فرمائے۔ اب جو آنے والا مہینہ ہے یہ ہے محرم، یہ بھی بہت اونچا مہینہ ہے اور بہت سی یادیں بھی اس کے ساتھ وابستہ ہیں، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یومِ وفات بھی یکم محرم کا ہے اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت بھی اسی محرم میں ہے اور محرم میں عاشورہ بھی ہے۔ عاشورہ کے بارے میں ایک بات عرض کروں، اس میں دو روزے رکھے جاتے ہیں، آپ ﷺ جب مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو یہود کو دیکھا کہ وہ دس محرم کا روزہ رکھ رہے ہیں، تو ان سے پوچھا کہ آپ کس لئے رکھ رہے ہیں یہ؟ انہوں نے کہا کہ موسیٰ علیہ السلام کی قوم کو چونکہ اس دن نجات ہوئی تھی، ہم اس خوشی میں یہ روزہ رکھ رہے ہیں۔ فرمایا: پھر تو ہم اس کے زیادہ حقدار ہیں، کیونکہ موسیٰ علیہ السلام تو ہمارے ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے، وجہ یہ ہے کہ اسلام ایک ہی ہے اسلام دو تین چار نہیں ہیں، جتنے بھی پیغمبر آئے ہوئے ہیں سب اسلام پر تھے۔

’’اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ‘‘ (آل عمران: 81)

ترجمہ: ’’بیشک (معتبر) دین تو اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے‘‘۔

تو جتنے بھی پیغمبر آئے، وہ سب ایک ہی پیغام لے کے آئے حق کا پیغام، ایک ہی پیغام سارے پیغمبر لائے تو موسیٰ علیہ السلام اولو العزم پیغمبر ہیں بنی اسرائیل میں سے تھے اور اسرائیل یعقوب علیہ السلام کا نام ہے، یعقوب علیہ السلام بیٹا ہے اسحاق علیہ السلام کا، اسحاق علیہ السلام بیٹا ہے ابراہیم علیہ السلام کا اور اسی طرح ابراہیم علیہ السلام کا دوسرا بیٹا اسماعیل علیہ السلام ہے اور آپ ﷺ اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں ہیں۔ تو یہ سارے ایک ہی بابا ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔ لہٰذا ایک ہی دین اور ایک ہی نسل ہے۔ اس لحاظ سے ہم اس کے زیادہ مستحق ہیں کہ ہم بھی روزہ رکھیں۔ صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ! کہیں اس سے یہود کی مشابہت تو نہیں ہوجائے گی؟ اس سے اندازہ ہوا کہ صحابہ کرام کی ایسی تربیت ہوئی تھی کہ وہ مشابہت سے بچتے تھے۔ آج کل افسوس کی بات یہ ہے کہ اس چیز کو بہت لوگ بھول گئے ہیں، یعنی لوگ یہود و نصاریٰ کی کھلم کھلا مشابہت کرتے ہیں اور ان میں ذرہ بھر بھی خوف محسوس نہیں کرتے ہیں اور کمال کی بات ہے گناہ کی باتوں میں، حالانکہ وہ روزہ رکھنا تھا اور اللہ کے لئے روزہ رکھنا تھا، لیکن اس پہ بھی مشابہت کے لئے صحابہ کرام کو یہ محسوس ہوا کہ کہیں یہ مشابہت تو نہیں ہوجائے گی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر میں زندہ رہا، ان شاء اللہ اگلے سال ہم دو روزے رکھیں گے، یعنی اس کے ساتھ ایک ملا دیں گے، یا نواں ملا دیں گے یا گیارواں ملا دیں گے، یعنی یا نویں اور دسویں کا روزہ رکھیں گے یا دسویں اور گیارہویں کا روزہ رکھیں گے، جب یہ دو روزے ہوجائیں گے مشابہت ختم ہوجائے گی۔ اس میں وہ روزہ بھی آجائے گا جو موسیٰ علیہ السلام کی قوم کی آزادی کے لئے رکھا جاتا تھا، وہ روزہ بھی آجاے گا اور ساتھ ایک اور روزہ رکھ کر مشابہت سے نکل جائیں گے۔ تو پتا چلا کہ اچھے کاموں میں بھی ہمیں اس بات کا احتیاط کرنا چاہئے کہ مشابہت کہیں ایسے لوگوں کے ساتھ نہ ہو جو مبغوض لوگ ہوں۔

تو میں عرض کررہا تھا کہ محرم کا مہینہ یہ بہت ساری چیزوں کو لیے ہوئے ہے۔ اب ایک بات میں آج خصوصی طور پر عرض کرتا ہوں اور یہ باتیں آج کل بیان نہیں کی جاتیں، افسوس کی بات ہے۔ ان کو ممبر سے بیان کرنا ضروری ہے تاکہ لوگوں کا ذہن صاف ہوجائے۔ ابھی میں نے قرآن پاک کی جو آیاتِ مبارکہ پڑھیں ہیں، آپ لوگوں نے اس کا ترجمہ بھی سن لیا کہ یہ کن کے بارے میں ہیں، یہ آپ ﷺ کے ساتھیوں کے بارے میں ہیں، آپ ﷺ کے ساتھیوں کے بارے میں ہیں۔ اب آپ ﷺ کے ساتھی اس حد تک اللہ پاک کے پسندیدہ حضرات اور خواتین کہ ان کو ایسی تشبیہ دی کہ یہ لوگ ایسے ہیں جیسے کھیتی سے ایک کونپل نکلتا ہے کمزور، پھر آہستہ آہستہ اس کے اندر قوت آجاتی ہے، پھر اس کا تنا بن جاتا ہے پھر وہ تنا مضبوط ہوتا جاتا ہے اور اپنے تنے پہ کھڑا ہوجاتا ہے اور بڑی سخت آندھیاں بھی آتی ہیں اس کو نہیں ہلا سکتیں۔ تو پہلے جو صحابہ کرام تھے نئے نئے جو آئے تھے، وہ کمزور تھے مکہ مکرمہ میں، پھر آہستہ آہستہ جب مدینہ منورہ تشریف لے گئے، ان میں طاقت آتی گئی، حتیٰ کہ ایسا ہے کہ بڑوں بڑوں کو شکست دی، اپنی طاقت کے اوپر کھڑے ہوگئے۔ اور پھر اللہ پاک ایک عجیب بات فرماتے ہیں، فرمایا یہ باتیں میں اس لئے بتا رہا ہوں، ان کی تعریف میں اس لئے کررہا ہوں، تاکہ کفار کے دل جلیں:

’’لِیَغِیْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَؕ‘‘ (الفتح: 29)

ترجمہ: ’’تاکہ اللہ ان (کی اس ترقی) سے کافروں کا دل جلائے‘‘۔

اب بات کس کی ہورہی ہے؟ صحابہ کی ہورہی ہے۔ اللہ پاک کیوں بیان فرما رہے ہیں؟ تاکہ کفار کے دل جلیں۔ صحابہ کرام سے کس کا دل جلتا ہے؟ بات سمجھ میں آرہی یا نہیں آرہی؟ ان کے لئے پیغام موجود ہے، جن کا صحابہ کے تذکرہ سے دل جلتا ہے، اللہ پھر ان کے ساتھ اسی طرح معاملہ کرتا ہے، ان کے دلوں کو جلاتے ہیں۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے ایسے لوگوں پر کفر کا فتویٰ لگایا، پتا چلا کہ صحابہ کرام کی مخالفت نہیں ہونی چاہئے۔ لیکن آج ایک اور اہم نکتہ میں بیان کرنے والا ہوں، جس کا میں عرض کر رہا ہوں یہ بات، یہاں تک تو سب میرے ساتھ ہیں۔ لیکن آج ایک بات اور بہت اہم بیان کرنے والا ہوں، جس کا ذکر آپ کو بہت کم ملے گا لیکن وہ ذکر بہت ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ صحابہ کون ہیں، صحابہ کا تعارف کیا ہے، صحابہ کون لوگ ہیں، صحابہ تین گروپوں پر مشتمل ہیں، تین گروہوں پر مشتمل ہیں: وہ صحابہ جن کا آپ ﷺ کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں تھا، جن کا آپ ﷺ کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں تھا، لیکن ایمان کا رشتہ تھا۔ باہر، حضر، سفر کے ساتھی تھے، ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ، طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، یہ سب اونچے درجہ کے صحابہ ہیں، بالخصوص حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ، یہ خلفاء راشدین ہیں، تو ان کا بہت اونچا مقام ہے، یہ صحابہ کا ایک گروہ ہے۔

دوسرا صحابہ کا گروہ وہ ہے جو اہل بیت ہیں، جو گھر کے لوگ ہیں جیسے حضرت علی کرم اللہ وجہہ، حضرت فاطمہ الزھراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حسنین کریمین، یہ حضرات گھر کے افراد ہیں۔ ایک بات یاد رکھئے! کسی کی مخالفت میں ہم حق سے روگردانی نہ کریں، کیوںکہ بھگتنا پھر ہمیں ہی پڑے گا، ان کو تو کچھ نہیں ہوگا، بھگتنا ہمیں ہی پڑے گا، حق سے روگردانی نہ کریں۔ اب حق سے روگردانی کا مطلب کیا ہے؟ اگر کوئی صحابہ کی مخالفت کرتا ہے اور اہل بیت کا اپنے آپ کو ساتھی بتاتے ہیں، کیا ہمیں جرات ہوسکتی ہے کہ ہم اہل بیت کی مخالفت کریں، کیا یہ جرات ہوسکتی ہے؟ بھئی! اہل بیت صحابہ نہیں ہیں؟ حضرت علی کرم اللہ وجہہ صحابی نہیں ہیں؟ کیا فاطمہ الزھراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا صحابیہ نہیں ہیں؟ کیا حسنین کریمین صحابی نہیں ہیں؟ وہ بھی تو صحابہ ہیں۔ ہاں! ان کا ایک اور تعارف بھی ہے اور وہ تعارف کیا ہے؟ وہ آپ ﷺ کے رشتہ دار ہیں، آپ ﷺ کے اہل بیت بھی ہیں۔ تھوڑا سا میں آپ حضرات کو سمجھانے کے لئے عرض کرتا ہوں، ایک کتاب ملتی ہے چہل حدیث شریف، مقبول وظیفہ، جس میں حضرت مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے پچیس صیغے درود شریف کے اور پندرہ صیغے سلام کے جمع کیے ہیں صحیح احادیث شریفہ سے، جو پچیس صیغے درود شریف کے ہیں ان میں سے بائیس میں اہل بیت کا ساتھ ذکر ہے:

’’اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِ مُحَمَّدٍ‘‘ کون ہوگئے؟ آلِ محمد کون ہیں؟ ’’اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيْدٌ مَجِيْدٌ، اَللّٰهُمَّ بَارِكْ عَلٰى مُحَمَّدٍ، وَعَلٰى اٰلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيْدٌ مَجِيْدٌ‘‘۔

یہ وہ درود پاک ہے جس کو افضل ترین درود پاک کہا جاتا ہے، جس کو نماز میں ہم پڑھتے ہیں۔ اس میں کس کا ذکر ہے؟ آل رسول کا ذکر ہے، آل رسول کا ذکر ہے۔ اس طریقہ سے بائیس صیغے ایسے ہیں اس میں، صحیح احادیث شریفہ کے کہ جس میں آل کا ذکر ہے، تین چار صیغے ایسے ہیں جس میں باقی صحابہ کا ذکر ہے۔ اور غالباً دو تین ایسے ہیں جن میں امہاتُ المؤمنین کا بھی ذکر ہے۔ میں یہ نہیں کہتا ہوں کہ نَعُوْذُ بِاللہِ ان کا مقام کم ہے، نہیں! ان کا مقام کم نہیں ہے۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقام کو کون کم کہہ سکتا ہے، عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقام کو کون کم کہہ سکتا ہے، عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقام کو کون کم کہہ سکتا ہے؟ بس صرف میرا مطلب یہ ہے کہ دیکھو! صحیح احادیثِ شریفہ سے اہلِ بیت کا مقام ثابت ہوتا ہے یا نہیں ہوتا؟ ثابت ہوتا ہے۔ لہٰذا اہلِ بیت کو چھیڑنا بہت خطرناک، اپنے آپ کو انگاروں کے حوالے کرنا ہے، یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ تو اہلِ بیت صحابہ رضوان اللہ اجمعین جو ہیں، ان کو اسی محبت کے ساتھ دیکھنا ہے جس محبت کے ساتھ ہم ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھ رہے ہیں، عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھ رہے ہیں، عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھ رہے ہیں۔

آپ کو ایک عجیب بات بتاؤں، آپ حضرات جانتے ہیں بہت مشہور نام ہے سید عبد المجید ندیم اس علاقہ کے بڑے مشہور حضرات میں سے ہیں اور کافی بڑے مقرر گزرے ہیں، پشاور میں وہاں جلسہ تھا ایک مسجد ہے جو آج کل جامع امدادیہ کے نام سے ہے، اس وقت پہلے فیصل مسجد پھر بعد میں درویش مسجد کہا جاتا ہے، صدر میں مشہور مسجد ہے بڑی مسجد ہے، یہ پہلے Freemason Lodge تھا تو اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کوششوں کی برکت سے واگزار ہوا، اس پر مسجد بن گئی، مدرسہ بن گیا، چونکہ حضرت اس کے patron تھے، لہٰذا ہر جلسہ میں حضرت کو لایا جاتا تھا، اُس وقت ہم حضرت کے ساتھ موجود تھے تو ہم حضرت کے ساتھ چلے گئے، جلسہ ہوگیا۔ شاہ جی اس وقت کافی جوان، مضبوط طاقتور تھے، بعد میں تو بوڑھے ہوگئے، اُس وقت کافی جوش کے ساتھ بات کرتے تھے، تو اپنے جوش میں کہے جارہے ہیں: صدیق بیٹی دے رہا ہے، علی بیٹی لے رہا ہے، فلاں یہ کررہے ہیں، فلاں یہ کررہے ہیں، وہ جیسے جوش خطابت ہوتا ہے، سب لوگ واہ واہ کررہے ہیں، مولانا صاحب خاموش! ہم گئے حضرت کے ساتھ، جب پہنچ گئے اپنی جگہ پہ تو ایک طالبعلم نے کہا حضرت شاہ جی نے تو بہت زبردست تقریر کی۔ حضرت خاموش! پھر انہوں نے تعریف کی، تو انہوں نے کہا بھائی بات سنو! یہ مقابلے والی بات مجھے سمجھ میں نہیں آرہی کہ صدیقؓ ایسا ہے اور علیؓ ایسا، یہ ٹھیک نہیں ہے، علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ہماری آنکھوں کے نور ہیں۔ بات سمجھ میں آرہی ہے یا نہیں آرہی؟ یہ ہے بزرگوں کی بات، اللہ والوں کی بات۔ یہ وہ صاحب تھے مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کہ مولانا تقی عثمانی صاحب ان کے سامنے دو زانوں بیٹھا کرتے تھے، مولانا یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ especially حضرت کو بلایا کرتے تھے، مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ وہ ایک دن آپ کے پاس آئے کہتے ہیں: میں نے خواب دیکھا ہے خواب میں آپ ﷺ کی زیارت ہوئی، آپ ﷺ نے مجھے آپ کے لئے عطر کی شیشی دی، جس وقت میں جاگ گیا تو وہ شیشی میرے ہاتھ میں پڑی ہوئی تھی، وہ میں آپ کے لئے لایا ہوں۔ یہ وہ صاحب تھے مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ۔ سمجھ میں آگئی ناں بات؟ ایسے لوگوں کے دل کی بات آپ کو بتا رہا ہوں، خدا کے بندو! کہیں اپنے آپ کو غرق نہ کرو، اہل بیت کی مخالفت نہ کرو، اہل بیت کا مقابلہ باقی صحابہ کے ساتھ نہ کرو، سارے اچھے ہیں، صحابہ بھی اچھے ہیں، اہل بیت بھی اچھے ہیں اور امہات المؤمنین بھی اچھی ہیں۔ سب میں بڑے بڑے لوگ موجود ہیں، حضرت فاطمۃ الزہراء ’’سَیِّدَۃُ النِّسَاءِ فَاطِمَۃُ الزَّھْرَاءِ رَضِیَ اللہُ تَعَالیٰ عَنْہَا‘‘، امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ، امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ: ’’سَیِّدَا شَبَابِ اَہلِ الْجَنَّۃِ‘‘ یہ الفاظ کس کے ہیں؟ آپ ﷺ کے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’سَیِّدَا شَبَابِ اَہلِ الْجَنَّۃِ‘‘۔ ایک دن حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آپ ﷺ کندھے پر سوار کرکے آرہے ہیں، ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیکھا، خوشی سے کہا: ما شاء اللہ! کیسی اچھی سواری پائی ہے، (واہ سبحان اللہ) امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بچے تھے، کندھے پہ سوار کرکے آپ ﷺ تشریف لا رہے ہیں تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خوشی سے کہا: ما شاء اللہ! کیسی اچھی سواری پائی ہے۔ تو آپ ﷺ کیا فرما رہے ہیں؟ سوار بھی کتنا اچھا ہے، سوار بھی کتنا اچھا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ دیکھو! اتنا پیار آپ ﷺ کا ان کے ساتھ، یہ کوئی معمولی بات ہے؟ اسی طرح امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ لڑکھڑا لڑکھڑا کے آرہے ہیں، آپ ﷺ خطبہ پڑھ رہے ہیں، خطبہ چھوڑ کے ان کو اٹھا لیا اور یہ کبھی کبھی آپ ﷺ کے کندھے پہ نماز کی حالت میں سوار ہوجاتے تھے، بچے تھے، آپ ﷺ اس وقت تک سر نہ اٹھاتے جب تک کہ وہ اتر نہ جاتے، یہ ہے محبت۔

اور آپ ﷺ کا فاطمہ الزھراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ یہ معاملہ تھا جب آپ ﷺ تشریف لے جاتے فاطمۃ الزھراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے لئے، تو وہ کھڑی ہوجاتیں، آپ ﷺ کا استقبال کرتیں، پھر وہ آپ ﷺ کو لے کر اپنی جگہ پر بٹھا دیتیں اور آپ ﷺ کے پاس جب فاطمۃ الزھراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی تشریف آوری ہوتی، آپ ﷺ ان کے استقبال کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے اور پھر ان کو لے کر اپنی جگہ پر ان کو بٹھا دیتے۔ یہ ہے بات، مطلب یہ ہے کہ اتنی محبت۔ اور سب سے پہلے جس وقت باہر سے تشریف لاتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم، سب سے پہلے حضرت فاطمۃ الزھراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ ملاقات فرماتے اور جس وقت جاتے کہیں سفر پہ، سب سے آخری ملاقات فاطمۃ الزھراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ ہوتی، کیسی محبت ہے۔ اور یاد رکھئے کہ جس وقت آپ ﷺ کی وفات ہورہی تھی اور تکلیف تھی آپ ﷺ کو، فاطمۃ الزھراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا رونے لگ گئیں، ہائے میرے ابا جان کی تکلیف! آپ ﷺ نے فرمایا: آج کے بعد تیرے ابا جان کو کوئی تکلیف نہیں ہوگی، آج کے بعد تیرے ابا جان کو کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔ آپ ﷺ نے ان کے کان میں کچھ کہا، فاطمۃ الزھراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا رونے لگ گئیں، پھر دوبارہ کان میں کچھ کہا، پھر ہنسنے لگیں، اپنے اس راز کو اپنے ساتھ رکھا، اخیر میں لوگوں نے ان سے پوچھا کہ کیا بات تھی کہ ایک دفعہ آپ رونے لگ گئیں دوسری دفعہ آپ ہنسنے لگیں۔ فرمایا: مجھے آپ ﷺ نے فرمایا: یہ میرے آخری دن ہیں میں جانے والا ہوں۔ تو میں رونے لگ گئی، پھر آپ ﷺ نے دوسری بار فرمایا: سب سے پہلے تم میرے ساتھ آملو گی، سب سے پہلے تم میرے ساتھ آملو گی۔ تو اس پر میں ہنسنے لگی۔ یہ ہے پیار صحابہ کرام کے ساتھ اور اہلِ بیت کے ساتھ اور پھر امہات المؤمنین رضوان اللہ علیہن اجمعین ان کی بات سبحان اللہ! حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حضرت زینت رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، اور اس طرح ساری جو امہات المؤمنین ہیں ان کا بہت اونچا مقام ہے، جنت میں آپ ﷺ کے ساتھ رہیں گی۔ تو اس کا مطلب کیا ہوا کہ ان تینوں گروہوں کی قدر کرنی چاہئے۔ اگر کوئی ان میں سے کسی کا مخالف ہے اور وہ کسی کی حمایت کا دعویدار ہے، ہم اُن کی وجہ سے جس کا وہ دعویدار ہے، ان کے مخالف نہیں ہوں گے۔ دیکھو! کیا ہے؟ اعتدال۔ یہ امت اعتدال والی امت ہے، امت وسطیٰ ہے، یہ اعتدال والی امت ہے، اس میں اعتدال پہ سب کو رکھا جاتا ہے۔ تو اس وجہ سے ہم لوگوں کو کسی طرف سے انتہا پسندی پہ نہیں جانا چاہئے۔ سارے صحابہ کرام جتنے بھی ہیں، وہ ہمارے اپنے ہیں اور ہم لوگ ان کے راستے پہ ہیں۔

آپ ﷺ نے ایک موقع پہ فرمایا: گزشتہ امتوں میں یہود میں اکہتر فرقے ہوگئے، نصاریٰ میں بہتر فرقے ہوگئے، میری امت میں عنقریب تہتر فرقے ہوجائیں گے، صرف ایک حق پر ہوگا۔ صحابہ کرام ڈر گئے، پوچھا یارسول اللہ! کون ہوں گے جو حق پر ہوں گے جو نجات پائیں گے؟ فرمایا:

’’مَا اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْ‘‘ (سنن ترمذی: 2641)

ترجمہ: ’’جس پر میں ہوں اور جس پر میرے صحابہ ہیں‘‘۔

تو قانون بتاتا ہوں، قانون کیا ہے؟ جب صرف اصحاب کا ذکر آتا ہے، جب صرف اصحاب کا ذکر آتا ہے ان میں تینوں گروہ شامل ہوتے ہیں، جب صرف اصحاب کا ذکر آتا ہے ان میں تینوں گروہ شامل ہوتے ہیں۔ ورنہ اگر اہلِ بیت کا ذکر آئے تو وہ اصحاب جو اہل بیت بھی ہیں، اگر امھات المؤمنین کا ذکر آتا ہے تو وہ صحابیات جو امھات المؤمنین ہیں، ان کا اپنا ایک الگ تعارف بھی ہے، لیکن یہ بات ہے کہ ہیں سارے صحابہ۔ تو یہاں جس کے بارے میں فرمایا: ’’مَا اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْ‘‘ جس پر میں ہوں اور جس پر میرے صحابہ ہیں۔ اصل میں ان میں یہ تینوں آجاتے ہیں۔ نصف علم کے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس تھا، نصف علم عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس تھا۔ بڑے بڑے صحابہ کرام پوچھنے کے لئے حاضر ہوجاتے اماں عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس اور پوچھتے اور اماں عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ان کو جواب دیتیں۔ ایک دفعہ اس طرح ایک مسئلہ تھا جس میں ظاہر ہے وہ صحابی پوچھنے میں شرم محسوس کررہے تھے، لیکن آپ ﷺ کا وہ طریقہ معلوم کرنے کے لئے عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے معلوم بھی کرنا ضروری تھا، کیونکہ وہ صرف امھات المؤمنین کو ہی معلوم ہوسکتا تھا، تو شرم کرنے لگے، تو اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: بیٹا! شرم نہ کیا کرو میں تمھاری ماں ہوں پوچھو میں جواب دوں گی، اور پھر اس کے بعد انہوں نے مسئلہ پوچھا اور اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جواب دیا۔ تو آدھا علم آپ ﷺ کی طرف سے عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو منتقل ہوا، ان کی جو کم عمری میں شادی ہوئی ہے اس کے پیچھے علماء کرام یہی حکمت بتاتے ہیں، کیونکہ اگر کم عمری میں شادی نہ ہوتی ان کو اتنا موقع نہ ملتا آپ ﷺ سے اخذ کرنے کا، اس کے لئے ایک قوی ذہن کی ضرورت تھی اور ہر وقت ساتھ رہنے والی کی ضرورت تھی جو کہ زوجہ محترمہ ہی ہوسکتی تھیں، تو اللہ پاک نے ان کو چن لیا، آپ لوگوں کو پتا ہے کہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح کس نے پڑھایا تھا؟ اللہ جل شانہٗ نے، اللہ جل شانہٗ نے عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح پڑھایا تھا۔ تو پتا چل گیا کہ کس مقصد کے لئے عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو چن لیا گیا تھا۔ تو عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا اگر خدانخواستہ کسی بدزبانی کے ساتھ ذکر کیا تو تباہی والی بات ہے۔ اور عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پہلے اماں خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جنہوں نے اپنا سب کچھ قربان کردیا تھا آپ ﷺ پر، اپنا مال قربان کرلیا، اپنی جان قربان کرلی تھی، سب کچھ قربان کرلیا تھا۔ اس وجہ سے آپ ﷺ ان کا بہت ہی زیادہ محبت کے ساتھ ذکر کیا کرتے تھے۔ تو عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک دفعہ کہا کہ آپ ان کا کیوں اس طرح ذکر کرتے ہیں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: انہوں نے میرے ساتھ جو برتاؤ کیا وہ تو معلوم ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ دیکھو! یہ سب ما شاء اللہ ہماری مائیں ہیں، ہم ان کے لئے ما شاء اللہ بیٹوں کی طرح ہیں اور ہمارے جذبات ان کے لئے ایسے ہی ہونے چاہئیں۔ اور اہل بیت سبحان اللہ! ان کے ساتھ محبت کرنے سے آپ ﷺ خوش ہوتے ہیں اور آپ ﷺ کے خوش ہونے سے اللہ خوش ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے کبھی بھی صحابہ کے بارے میں، اہل بیت کے بارے میں، امھات المؤمنین کے بارے میں کوئی غلط خیال ذہن میں نہیں لانا چاہئے، یہ بڑے اونچے لوگ ہیں۔ میں آپ کو ایک بات عرض کرنا چاہتا ہوں، حضرت مجدد الف ثانی رَحِمَہُ اللہ جنہوں نے صحابہ کے مخالفین کے خلاف لڑائی میں گزاری ہے پوری عمر، لیکن دیکھ لیں! اہل حق کی پہچان کیا ہے کہ وہ اس حالت میں بھی حق کو نہیں چھوڑتے، تو کیا فرماتے ہیں مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ، فرمایا: دیکھو یہ جو فیض کا سلسلہ جاری ہوا ہے وہ علی کرم اللہ وجہہ سے جاری ہوا ہے اور پھر اس کے بعد ان کی اولاد سے جاری ہوا ہے اور پھر سارے امام جن کا دوسرے لوگ ذکر کرتے ہیں کہ وہ ہمارے امام ہیں، اصل میں وہ ہمارے امام ہیں۔ حضرت امام زین العابدین رحمہ اللہ، حضرت امام باقر رحمہ اللہ، حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ، حضرت موسیٰ کاظم رحمۃ اللہ علیہ، یہ سارے ہمارے ہیں، تو ان کا ذکر کیا، اس طریقے سے آتے آتے آتے پھر آخر میں شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ پہ آگئے، فرمایا اگر کوئی غوث بھی ہو قطب بھی ہو ابدال بھی ہو، سب کو فیض اِن کے ذریعہ سے ملتا ہے، سب کو فیض اِن کے ذریعہ سے ملتا ہے۔ تو اس کا مطلب ہے اہل بیت جو ہیں، دیکھو! اللہ پاک نے اپنے قانون کو نافذ کروایا ظاہری طور پر خلفاءِ راشدین کے ذریعہ سے، خلفاءِ راشدین کے ذریعہ سے ظاہری احکامات نافذ کروائے، ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذریعہ سے، عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذریعہ سے، عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذریعہ سے، علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذریعہ سے، لیکن جو باطنی فیض ہے وہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذریعہ سے جاری فرمایا۔ تو باطنی فیض کن سے ذریعے سے جاری فرمایا؟ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذریعہ سے۔ یہی تو حضرت مجدد صاحب فرماتے ہیں، چاروں سلسلوں جو ہمارے چلتے ہیں یہ ہند و پاک میں، چاروں علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے چلتے ہیں۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک نے ان کو اس چیز میں (ممتاز کیا) کمال کی بات یہ ہے، ذرا تھوڑا سا غور کریں اللہ پاک نے ظاہری چیز کے نفاذ کے لئے جو راستہ بنایا اس میں رشتہ داری کو نہیں لیا، کیونکہ اس پہ طعن ہوسکتا تھا، رشتہ داری کو نہیں لیا۔ نسباً حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ ﷺ سے سب سے زیادہ دور ہیں، پھر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نمبر دو دور ہیں یعنی کم دور ہیں، پھر عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان سے کم دور ہیں، اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سب سے کم دور ہیں یعنی سب سے قریب ہیں، لیکن خلیفہ راشد اول کون ہیں؟ ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ دوسرے کون ہیں؟ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ تیسرے کون ہیں؟ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ چوتھے؟ علی کرم اللہ وجہہ تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہاں پر رشتہ داری نہیں دیکھی گئی بلکہ رشتہ داری کا عکس ہے۔

لیکن باطنی جو نظام ہے وہ اللہ پاک نے ان کے ساتھ رکھا ہوا ہے، اس وجہ سے حتیٰ کہ اخیر میں جو امام مہدی علیہ السلام آئیں گے وہ بھی اہلِ بیت میں سے ہوں گے، مطلب اہلِ بیت کی اولاد میں سے ہوں گے، حسنی بھی ہوں گے حسینی بھی ہوں گے، باپ کی طرف سے حسنی ہوں گے ماں کی طرف سے حسینی ہوں گے۔ یہ میں اس لئے باتیں کررہا ہوں کہ معاملہ بہت قریب قریب آنے والا ہے، معاملہ کچھ ایسا ہے کہ اللہ خیر کرے! پتا نہیں حالات کیا بننے والے ہیں۔ ممکن ہے ہمارے وقت میں ہی دجال کا ظہور ہوجائے، ممکن ہے امام مہدی علیہ السلام ہمارے وقت میں ہی آجائیں، جتنی تیزی کے ساتھ حالات بدل رہے ہیں۔ تو یاد رکھئے! اگر کسی کو اہل بیت کے ساتھ بغض ہوا وہ امام مہدی علیہ السلام کے پاس نہیں آسکیں گے اور امام مہدی علیہ السلام کی حالت یہ ہوگی کہ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر برف کے پہاڑ پر پھسلنے سے کام بنتا ہو اور آپ امام مہدی تک پہنچ سکتے ہوں تو پہنچو! ان سے بیعت کرنے کے لئے۔ چاہے برف کے پہاڑ سے پھسلنا پڑے، اتنی زیادہ لازمی بات ہوگی ان کی بیعت میں آنا یعنی جتنا مشکل بھی ہو تب بھی اس کو کرنا ہے۔

اگر کسی کو اہل بیت کے ساتھ بغض ہوگا، ان کے قریب جاسکیں گے؟ وہ حسنی بھی ہیں حسینی بھی ہیں۔ تو اس لحاظ سے میں یہ عرض کرتا ہوں کہ اس بات کو یاد رکھو! ابھی محرم کا مہینہ آنے والا ہے بہت کچھ لوگ کہیں گے، بہت کچھ لوگ کہیں گے، ایک طرف سے بھی کہیں گے دوسری طرف سے بھی کہیں گے، آگے پیچھے کہیں گے، اپنے آپ کو ذمہ دار بنائیں گے، لیکن یاد رکھو! حق حق ہوتا ہے وہ کسی کے کہنے سے بدلتا نہیں ہے، کسی کے کہنے سے بدلتا نہیں ہے، یہ جو میں نے باتیں کی ہیں، ہمارے پاس سند موجود ہے۔

ایک دفعہ میری بیٹی مدرسہ میں پڑھ رہی تھی، عاشورہ کے دن تھے وہ آئی کہتی ہے ہمارے قاری صاحب نے آج بیان کیا تو اس نے یزید کی حمایت میں بیان کیا، تو استانیاں بھی حیران ہوگئیں اور ہم بھی حیران ہوگئیں طالبات بھی کہ یہ کیا ہو رہا ہے، انہوں نے کہا آپ خود تحقیق کرلیں، یہ کتابیں ہیں آپ دیکھو۔ اب میری بیٹی آئی میرے پاس، میں کمپیوٹر پے بیٹھا ہوا تھا، مجھے کہا ابو کیا یہ ٹھیک ہے؟ یہ سچ ہے؟ میرے پاس اس وقت حضرت مولانا عبدالرشید نعمانی رحمہ اللہ جو بنوری ٹاؤن کے شیخ الحدیث تھے، بڑے شیخ الحدیث تھے، ان کی کتاب "شہدا کربلا پر افتراء" وہ میرے پاس پڑی ہوئی تھی اس میں ساری چیزیں سند کے ساتھ موجود تھیں، چھوٹی سی کتاب ہے، وہ کتاب میں نے کھولی، میں نے کہا بیٹی دیکھتی جاؤ اور مجھے ایک سی ڈی ملی تھی جس پہ ہزار کتابیں تھیں، الفیہ (کہتے ہیں جسے)، ان دنوں مجھے ملی تھی۔ میں نے سی ڈی کمپیوٹر میں ڈالی اور میں نے کہا کہ اس میں سے کچھ عربی کے الفاظ چن کے مجھے بتا دیا کریں، جیسے البدایۃ و النہایۃ اور دوسرے جو جو references دیئے تھے وہ میں اس میں ڈالتا گیا اور پوری لسٹ آجاتی، یہاں پر یہ بتایا، یہاں پر یہ بتایا، یہاں پر یہ بتایا، اور وہ نوٹس لیتی رہی، جب اس نے نوٹس لے لیے، اگلے روز وہ چلی گئی اور کہا کہ قاری صاحب! آپ نے کل کہا تھا کہ تحقیق کرو، تو میں نے کچھ تحقیق کی ہے بتا دوں؟ وہ حیران ہوگیا کہ یہ بچی نے کیا تحقیق کی ہوگی، اس نے کہا اچھا بتا دو اس نے اپنے نوٹس بیان کرنے شروع کرلیے، اب قاری صاحب کو فوراً پتا چل گیا کہ یہ معاملہ اب میرے ہاتھ میں نہیں ہے، انہوں نے کہا یزید کون سا ہمارا ماما چاچا ہے، چھوڑو۔ بات سمجھ آرہی ناں؟ حق حق ہوتا ہے۔

﴿وَقُلۡ جَآءَ الۡحَقُّ وَزَہَقَ الۡبَاطِلُ اِنَّ الۡبَاطِلَ کَانَ زَہُوۡقًا(بنی اسرائیل: 81)

ترجمہ: ’’اور کہو کہ: حق آن پہنچا، اور باطل مٹ گیا، اور یقینا باطل ایسی ہی چیز ہے جو مٹنے والی ہے۔‘‘۔

یہیں اس علاقہ کے اندر بڑے بدبخت لوگ موجود ہیں، جو یزید زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں۔ اسی لئے تو میں بیان کررہا ہوں، بات سمجھانے کے لئے عرض کررہا ہوں، ایسے بدبخت لوگ موجود ہیں جو یزید زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں۔ خدا کے بندو! یہ کیا کررہے ہو؟ یزید نے جو کام کیے ہیں وہ حدیث شریف میں جو الفاظ بتائے گئے کہ جو یہ کرے گا، جو یہ کرے گا، جو یہ کرے گا، اس پر اللہ کی لعنت، اس کے فرشتوں کی لعنت، وہ سب اس کے اوپر آتا ہے۔ جو میرے اہل بیت کی عزت کو رسوا کرے گا، جو خانہ کعبہ کی، مدینہ منورہ کی بےحرمتی کرے گا، یہ تینوں کام اس سے ہوئے ہیں۔ خانہ کعبہ پہ گولہ باری ہوئی ہے اس کے دور میں، مسجد نبوی میں زنگیوں نے گھوڑے باندھے تھے اور صحابہ کرام کو شہید کیا، صحابہ کرام کی اولاد کو شہید کیا تھا اور آپ ﷺ کے اہل بیت کے ساتھ کیا کیا تھا، وہ تو آپ سب کو پتا ہے۔ تو یہ جتنے کام بتائے گئے تھے کہ ان پہ اللہ کی لعنت ہے جنہوں نے یہ کام کیا ہو، میرے پاس وہ روایت موجود ہے، اسی میں لکھی ہوئی ہے، شیخ الحدیث مولانا عبدالرشید نعمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی جو کتاب ہے، اس میں یہ موجود ہے۔ پھر اس کے بعد مجبوراً میں نے وہ کتاب لکھی: ’’اہل سنت و الجماعت کے اکابر کی نظروں میں اہل بیت کا مقام‘‘ چھوٹا سا رسالہ ہے، یہ میں نے پھر لکھا، ’’اہل سنت و الجماعت کے اکابر کی نظروں میں اہل بیت کا مقام‘‘۔ اَلْحَمْدُ للہ اس میں ساری روایات پھر ہم نے جمع کرلیں۔ وجہ کیا ہے؟ حق بات کو سمجھانا ضروری ہوتا ہے، جس پر ہمارے ایمانوں کا دار و مدار ہو، کیا اس کو سمجھانا ضروری نہیں ہے؟ آپ ﷺ اگر قیامت میں ہم سے پوچھیں۔ یہ آپ کو یاد ہونا چاہئے، روایات میں موجود ہے کہ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد بڑے عجیب واقعات ہوئے ہیں شہادت کے بعد۔ یہ میں آپ کو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی بات بتا رہا ہوں، حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے مواعظ میں میں نے خود پڑھا ہے، فرمایا اکثر لوگ جو امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت میں کسی طریقہ سے بھی شریک تھے، ان کو طبعی موت نصیب نہیں ہوئی، مارے گئے، بہت ذلت کے ساتھ مر گئے، بہت خطرناک حالت میں۔ کہتے ہیں ایک بوڑھے سے بات کی گئی جو اس میں شریک تھا کہ جو لوگ اس میں شریک تھے ان کو طبعی موت نصیب نہیں ہوئی، اس نے کہا کہ میں بھی اس میں شریک تھا مجھے تو کچھ بھی نہیں ہوا، بس challenge ہوگیا۔ وہ گھر چلا گیا گھر اس کا چراغ لگا ہوا تھا، وہ ٹمٹما رہا تھا، اس نے چراغ کو درست کرنے کے لئے پھونک ماری، پھونک ماری تو اس کے شعلے اس کی داڑھی میں پڑ گئے، اس کی داڑھی نے آگ پکڑی، داڑھی سے کپڑوں نے آگ پکڑی، تھوڑی دیر میں جل کر خاکستر ہوگیا۔ اللہ کے قہر کو دعوت دینا کوئی معمولی بات ہے۔ اس وجہ سے کبھی بھی لوگوں کی باتوں میں آکر ایسی حرکت نہیں کرنی چاہئے۔

میں آپ کو صاف ستھری بات بتاؤں! اللہ پاک ہادی برحق ہیں، اللہ پاک ہادی برحق ہیں، آپ ﷺ اسمِ ہادی کے مظہر ہیں، یعنی ہدایت کس کے ذریعہ سے ملتی ہے؟ آپ ﷺ کے ذریعہ سے، ایک ہی راستہ اللہ تعالیٰ نے چنا ہے اور وہ ہے آپ ﷺ کا طریقہ، آپ ﷺ کی اس ہدایت کو لینے کے لئے ہمارے پاس تین راستے ہیں۔

پہلا راستہ عام صحابہ کرام، دوسرا راستہ اہل بیت کرام، تیسرا راستہ صحابیات میں سے جو امھات المؤمنین ہیں۔ جہنوں نے تینوں راستوں کو لے لیا انہوں نے پورا دین لے لیا ہے، کیونکہ کچھ روایتیں اِن سے ہیں، کچھ اِن سے ہیں، کچھ اِن سے ہیں، دین تو مختلف راستوں سے آیا ہوا ہے ہمارے پاس، اگر کسی نے عام صحابہ سے لیا اور اہل بیت سے نہیں لیا تو وہ ناقص دین لے لیا انہوں نے، کم، کچھ لے لیا، بات سمجھ آرہی ہے یا نہیں؟ یا امھات المؤمنین سے نہیں لیا، کچھ کم لے لیا، جنہوں نے ان میں سے کسی ایک سے نہیں لیا تو کم لے لیا، اور جنہوں نے ان میں سے کسی ایک کی مخالفت کی، چاہے صحابہ کی مخالفت کی، چاہے اہل بیت کی مخالفت کی، چاہے امھات المؤمنین کی مخالفت کی، انہوں نے کچھ بھی نہیں لیا، کیوں کچھ بھی نہیں لیا؟ انہوں نے آپ ﷺ کی مخالفت کی۔ کیونکہ ان میں سے تینوں کے بارے میں آپ ﷺ کے اقوال موجود ہیں۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں موجود ہیں، عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں موجود ہیں، عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں موجود ہیں، عام صحابہ کے بارے میں موجود ہیں:

’’اَصْحَابِيْ كَالنُّجّوْمِ فَبِاَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمْ‘‘ (مشکٰوۃ المصابیح: 6018)

ترجمہ: ’’میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں جن کے پیچھے جاؤ گے ہدایت پا لو گے‘‘۔

اہل بیت کے بارے میں، اہل بیت کیا ہیں؟ یہ تو کشتی کی مانند ہیں، نوح علیہ السلام کی کشتی، جو اس میں سوار ہوگیا بچ گیا ورنہ پھر! ان کے بارے میں ہے۔ اور ان میں اہل بیت اور قرآن یہ آپس میں ملے رہیں گے، حتیٰ کہ حوض کوثر پر میرے ساتھ ملیں گے۔ آپ یقین کیجئے جو ہمارے چاروں امام ہیں، آپ یقین کیجئے چاروں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ یہ چاروں اہل بیت کے ساتھ تھے، چاروں۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ براہ راست حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ ہیں، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ ہیں، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ حضرت موسیٰ کاظم رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ ہیں، جو امام جعفر صادق کا بیٹا تھا ان کے خلیفہ ہیں، یہ چاروں ما شاء اللہ ان کے ساتھ شامل ہیں۔ بات یہ ہے کہ ان کو پتا تھا۔ ایک دفعہ امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ مسجد نبوی میں بیٹھے ہوئے تھے، پتا نہیں تھا امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو، وہ فتوؤں کے جوابات دے رہے تھے، استفتاؤں کے جوابات دے رہے تھے۔ تو کسی نے کان میں کہا حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ بھی یہاں پر ہیں، تو حضرت کا چہرہ زرد ہوگیا، کہا اچھا میں ان کے سامنے باتیں کررہا ہوں، تو اٹھ کر ڈرتے ڈرتے حضرت کے پاس پہنچ گئے، حضرت غلطی ہوگئی مجھے پتا نہیں تھا، آپ آئیے اپنی مسند پر تشریف فرما ہوں، آپ سے ہم پوچھیں گے آپ جواب دیں گے، میری کیا حیثیت ہے کہ میں آپ کے ہوتے ہوئے سوالوں کے جواب دوں۔ امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا بیٹا میں نے آپ کی باتیں سن لی ہیں، آپ کی کوئی بات ہمارے آباؤ اجداد کی بات کے خلاف نہیں ہے، آپ جواب دیتے رہیں۔ یہ وہ سند ہے حضرت کے ساتھ سبحان اللہ! امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ کہ امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تم جواب دیتے رہو اور حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’لَوْلَا سَنَتَانِ لَهَلَکَ النُّعْمَانُ‘‘ اگر وہ دو سال میں نے امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ نہ گزارے ہوتے تو نعمان ہلاک ہوجاتا۔ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے تو ما شاء اللہ عاشقانہ الفاظ ہیں، مجھے وہ عربی کا شعر یاد نہیں ہے، لیکن مفہوم سناتا ہوں فرمایا اے حج کو جانے والے، منیٰ کو جانے والے ثقلین گواہ رہیں، یعنی جن و انس گواہ رہیں اگر اہل بیت کے ساتھ محبت رفض ہے ’’فَاَنَا رَافِضِیٌّ‘‘ تو میں رافضی ہوں۔ ’’اِذَا کَانَ حُبُّ اَہْلِ البَیْتِ رِفْضاً فَاَنَا رَافِضِیٌّ‘‘ یہ فرمایا اگر اہل بیت کے ساتھ محبت رفض ہے تو میں رافضی ہوں۔ بتاؤ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کیا کہہ رہے ہیں۔ اس طرح امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ ہیں۔ افسوس کی بات ہے! کہ آج کل ان چیزوں سے لوگوں کو آگاہ نہیں کیا جارہا، لوگ اپنی اپنی باتوں میں پھنسے ہوئے ہیں ادھر ادھر کی باتیں کرلیں گے، اصل بات کی طرف نہیں آئیں گے۔ اصل بات یہ ہے کہ سب کو جمع کرلو، سب کو جمع کرو، امت کو جمع کرو امت کے اندر توڑ نہ بناؤ امت کے اندر جوڑ پیدا کرو، امت کے اندر محبت کو پیدا کرو۔ مجھ سے ایک گروہ جو کہ صحابہ کے خلاف ہے اس کی ایک بچی نے فون پر پوچھا! شاہ صاحب آپ لوگوں کو جوابات دیتے ہیں میرے ایک سوال کا جواب دے سکتے ہیں؟ میں نے کہا بیٹا بتاؤ کیا سوال ہے؟ انہوں نے کہا شیعہ اور سنی کے درمیان بنیادی فرق کیا ہے؟ شیعہ اور سنی کے درمیان بنیادی فرق کیا ہے؟ میں نے کہا بیٹا بات یہ ہے کہ ہمیں تین راستوں سے دین مل رہا ہے، آپ ﷺ سے اور آپ ﷺ کو اللہ پاک سے ملا ہوا ہے، تو ایک ہیں عام صحابہ، ایک ہیں اہل بیت اور ایک ہیں امھات المؤمنین۔ جنہوں نے سب سے لیا انہوں نے پورا لے لیا اور جنہوں نے ان میں سے کسی سے لیا اور کسی سے نہیں لیا انہوں نے ناقص لے لیا اور جنہوں نے ان میں سے کسی کی مخالفت کی انہوں نے کچھ بھی نہیں لیا، تو ہم سب کے ساتھ ہیں۔ فرمایا میں سمجھ گئی، مجھے آپ وظیفہ دے دیں، میں سمجھ گئی، مجھے آپ وظیفہ دے دیں۔

مقصد یہ ہے کہ یہ بالکل direct باتیں ہیں یہ کوئی ادھر ادھر کی باتیں نہیں ہیں، ڈھکی چھپی باتیں نہیں ہیں کھلی باتیں ہیں۔ خدا کے بندو! اگر اپنے آپ کو بچانا ہے، تو آپ ﷺ کے جو بھی محبوبین ہیں، ان میں سے کسی کے ساتھ نفرت نہ کرو، ان میں سے کسی کے ساتھ نفرت نہ کرو جو بھی آپ ﷺ محبوبین ہیں، اور اللہ پاک کے محبوب کے کسی حکم کی مخالفت نہ کرو، بے شک عمل نہ ہو، کیونکہ انسان ہے کمزور ہے، عمل میں کمزوری آسکتی ہے، مخالفت نہ کرنا مثلاً داڑھی کا مذاق نہ اڑاؤ، داڑھی کا مذاق نہ اڑاؤ۔ ٹخنوں سے پاجامہ اوپر ہونے کا مذاق نہ اڑاؤ، مسواک کا مذاق نہ اڑاؤ، ایمان خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ یہ آپ ﷺ کے طریقے ہیں اگر آپ کو راس نہیں ہیں، (راس نہیں) اگر آپ کو نصیب نہیں ہیں تو بدبخت اپنے آپ کو مزید بدبخت تو بناؤ ناں، تمھاری پسند نا پسند سے تو یہ چیز تو نہیں بدل سکتی۔ یہ حضور ﷺ کا طریقہ ہے، داڑھی کی مخالفت، لوگ کہتے ہیں داڑھی میں اسلام نہیں ہے، خدا کے بندو! داڑھی میں اسلام نہیں اسلام میں داڑھی ہے، لیکن اس کا مطلب یہ کہ داڑھی کی مخالفت کرو، داڑھی کی مخالفت میں کفر کا اندیشہ ہے، داڑھی کی مخالفت میں کفر کا اندیشہ ہے۔ کیوں؟ آپ حضور ﷺ کی سنت کی مخالفت کررہے ہیں، مسواک کی مخالفت یا آپ ﷺ کے لباس کی مخالفت، آپ ﷺ کے کسی طریقہ کی مخالفت، بہت خطرناک ہے۔

ایک دفعہ غالباً حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ واللہ اعلم، ممکن ہے غلطی پہ ہوں، لیکن بہرحال نام ممکن ہے غلط ہو، لیکن ایک صحابی تھے، وہ بات کر رہے ہیں کہ آپ ﷺ کو کدو پسند تھا، آپ ﷺ کو کدو پسند تھا۔ ان کے بیٹے نے کہا مجھے تو پسند نہیں، بہت سارے لوگوں کو کدو پسند نہیں ہوتا، لیکن اس نے چونکہ اس وقت کہا تھا جبکہ آپ ﷺ کا ذکر ساتھ ہوا تھا، انہوں نے پوری عمر ان سے بات نہیں کی، کہتے ہیں میں تمھارے ساتھ بات نہیں کرنا چاہتا، تو نے آپ ﷺ کی محبوب چیز کی توہین کی ہے۔ تو کدو کھانا کوئی سنت نہیں ہے اس طرح کہ شرعاً مطلوب سنت ہو، سنت مستحبہ ہوسکتی ہے زیادہ سے زیادہ، لیکن داڑھی تو باقاعدہ سنت ہے شعار ہے۔ اس طریقہ سے مسواک سنت ہے، اس طرح ٹخنوں سے پاجامہ اٹھانا باقاعدہ ضروری ہے کیونکہ یہ تکبر کی علامت ہے اگر وہ نیچے جاتا ہے تو۔ اس طرح اور بہت ساری باتیں ہیں، صرف مثالیں میں نے تین دے دیں، کبھی کسی سنت کی مخالفت نہ کرنا۔

آپ ﷺ کا طریقہ اگر تمھیں نصیب نہیں ہے اپنے آپ کو کمزور سمجھو، اپنے آپ کو گناہگار سمجھو اور اللہ پاک سے توفیق مانگو کہ اللہ پاک آپ کو نصیب فرما دے۔ حضرت مولانا زکریا صاحب نے ایک موقع پر، حالانکہ حضرت تقریریں نہیں کیا کرتے تھے، لیکن کچھ تقریریں جو حضرت کی ہیں ان میں سے ایک بات یہ بھی ہے جو میں نے سنی ہے۔ فرمایا: دیکھو! شوگر کا مریض میٹھا نہیں کھا سکتا، شوگر کا مریض میٹھا نہیں کھا سکتا، لیکن کیا وہ میٹھے کی برائی کرتا ہے؟ کہ میٹھا اچھی چیز نہیں ہے، اس کا دل کڑہتا ہے کہ کاش! میں بھی میٹھا کھا سکتا ہوتا۔ اس طرح اگر آپ کسی سنت پر عمل پیرا نہیں تو اس کی مخالفت نہ کرو، بلکہ اس پر کڑہنا چاہئے کہ کاش! مجھے بھی نصیب ہوجائے، بس یہ چند باتیں تھیں۔ اللہ مجھے بھی اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے اور آپ کو بھی۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ

اہلِ بیت، صحابہ کرام اور امہات المؤمنین کا مقام - جمعہ بیان