اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر 1:
السلام علیکم۔ حضرت! آپ نے جو اذکار دیئے تھے، ان کو ایک مہینہ مکمل ہوچکا ہے، اَلْحَمْدُ للہ! مزید رہنمائی فرمایئے۔ اذکار یہ ہیں: ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہ‘‘ چھ ہزار مرتبہ، اس کے ساتھ پانچ منٹ تصور کرنا کہ دل ’’اَللہ اَللہ‘‘ کر رہا ہے، لیکن حضرت! ابھی محسوس نہیں ہوتا کہ دل ’’اَللہ اَللہ‘‘ کہہ رہا ہے۔
جواب:
ابھی آپ ’’اَللّٰہ‘‘ ساڑھے چھ ہزار مرتبہ کرلیں، باقی وہی رکھ لیں ایک مہینے کے لئے۔
سوال نمبر 2:
السلام علیکم۔ حضرت!
I found this number on the website. ان شاء اللہ next time, I will ask question on this number.
جواب:
Ok. ماشاء اللہ most welcome.
سوال نمبر 3:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! میرا ذکر بھی مکمل ہوگیا۔ اس کے بارے میں ہدایت دیجئے، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’اِلَّا اللّٰہ‘‘ تین سو مرتبہ، ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ تین سو مرتبہ اور سو مرتبہ ’’اَللّٰہ‘‘۔
جواب:
ابھی آپ ’’اِلَّا اللّٰہ‘‘ اور ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ چار سو چار سو مرتبہ کرلیں، باقی وہی کریں۔
سوال نمبر 4:
السلام علیکم۔ حضرت جی! بندہ سے گزشتہ ایک دن معمول سخت مصروفیات کی وجہ سے رہ گیا تھا، جس کا تدارک اب کیسے کیا جائے؟
جواب:
دراصل اس میں چونکہ انسان کا اپنا فائدہ ہوتا ہے اور یقیناً اگر معمول رہ جاتا ہے تو اس کا نقصان ہوتا ہے کہ آدمی پیچھے ہوجاتا ہے، لہٰذا آئندہ کے لئے اہتمام کریں کہ معمول کا ناغہ نہ ہو اور ہمیشہ کے لئے کوئی ایسی ترتیب بنا لیں اور ایسا وقت اس کے لئے چن لیں کہ آئندہ اس کے ناغے کا امکان کم سے کم ہو، اور اس سے عبرت لے لیں، experience بنا دیں، تاکہ آئندہ اس قسم کا واقعہ پیش نہ آئے۔
سوال نمبر 5:
السلام علیکم۔ حضرت! اسلام آباد سے فلاں عرض کر رہا ہوں۔ حضرت جی! میرا ذکر دو سو، چار سو، چھ سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ ’’حَقْ‘‘ اور اس کے ساتھ ساڑھے تین ہزار مرتبہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کے دو ماہ ہوگئے ہیں۔ گزشتہ ماہ آپ نے ذکر میں تبدیلی کئے بغیر گھر والوں کو خواتین کی مجلس میں لانے کا مشورہ دیا تھا، جس کی اَلْحَمْدُ للہ عید سے اگلے روز یعنی اتوار کو توفیق ہوئی تھی۔ مزید رہنمائی کی درخواست ہے۔
جواب:
اب آپ اس طرح کریں کہ دو سو، چار سو، چھ سو اور چار ہزار مرتبہ یہ ذکر کریں۔
سوال نمبر 6:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اپنے بچوں کے مراقبہ کی report دینی ہے۔ تقریباً مراقبہ کا مہینہ ہوگیا ہے۔ ان کی ترتیب یہ ہے کہ:
نمبر 1: پہلی بیٹی کا مراقبہ معیت ہے، پہلے پانچوں لطائف پر پانچ منٹ یہ تصور کرنا ہے کہ میرے لطیفے کی طرف اللہ تعالیٰ محبت کے ساتھ دیکھ رہے ہیں اور میرا لطیفہ ’’اَللہ اَللہ‘‘ کر رہا ہے۔ اس کے بعد پندرہ منٹ کا مراقبہ معیت کرنا ہے۔ دو ناغے ہوئے ہیں۔
کیفیات: اَلْحَمْدُ للہ! پانچوں لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی موجودگی اور اس کے ہونے کا یقین، گناہوں سے بچنا اور اگر گناہ ہوجائے، تو ندامت کی کیفیت پچھلے مہینے سے زیادہ ہے۔
نمبر 2: دوسری بیٹی کا مراقبہ صفاتِ ثبوتیہ ہے۔ پہلے پانچوں لطائف پر پانچ منٹ یہ تصور کرنا ہے کہ میرے لطیفہ کی طرف اللہ میاں دیکھ رہے ہیں محبت کے ساتھ اور میرا لطیفہ ’’اَللہ اَللہ‘‘ کر رہا ہے۔ اس کے بعد پندرہ منٹ کا صفات ثبوتیہ کا مراقبہ کرنا ہے۔ دو ناغے ہوئے۔
کیفیات: اللہ تعالیٰ کی موجودگی کا یقین دن بدن بڑھ رہا ہے اور گناہوں سے بچنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اور اگر گناہ ہوجائے تو ندامت محسوس ہوتی ہے۔
نمبر 3: بیٹے کے وظیفہ کی ترتیب یہ ہے کہ درود پاک دو سو مرتبہ، پہلا کلمہ دو سو مرتبہ، استغفار سو مرتبہ اور تیسرا کلمہ سو مرتبہ۔ اس دفعہ تقریباً چار ناغے ہوئے۔
باقی! تینوں کو اَلْحَمْدُ للہ نماز پڑھنے، اپنے وظائف پورے کرنے اور قرآن پاک کی تلاوت پہ استقامت ہے۔ اس ماہ ہمارے گھر کا اجتماعی درود پاک دو لاکھ مرتبہ سے زیادہ ہے۔ اب آپ سے درخواست ہے کہ رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
ما شاء اللہ! پہلے والی بیٹی مراقبہ معیت کے ساتھ مراقبہ دعائیہ بھی جاری رکھیں یعنی دل دل میں جس وقت آپ معیت محسوس کر رہی ہوں، تو اس وقت جو بھی اللہ تعالی سے مانگنا ہو، اس کی دل دل میں اللہ تعالی سے دعا کر لیا کریں۔ کیونکہ یہ اللہ کی موجودگی میں اس کے سامنے اس سے مانگنا ہوگا۔
اور دوسری بیٹی جن کا مراقبہ صفات ثبوتیہ ہے، ان کو اب اس کی جگہ مراقبہ شیونات ذاتیہ بتا دیں۔ باقی وہی پہلے والی چیزیں ہوں گی۔
اور جو بیٹا ہے، اس کا دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ کا ذکر ٹھیک ہے۔ پہلے استغفار سو مرتبہ اور تیسرا کلمہ بھی سو مرتبہ تھا۔ اب اس دفعہ کوشش کرلیں کہ استغفار بھی دو سو مرتبہ کرلیں اور تیسرا کلمہ بھی دو سو مرتبہ کرلیں۔
سوال نمبر 7:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ حضرت! میں فلاں ہوں اور میں اپنی امی کے حوالہ سے آپ سے بات کرنا چاہتی ہوں۔ حضرت! آپ نے امی کو چھ ہزار پانچ سو مرتبہ زبانی ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کا ذکر تلقین فرمایا تھا، جس کی مہینے بعد اطلاع دینی تھی۔ بلاناغہ ذکر کرنے کا ایک مہینہ 21 جولائی کو پورا ہوچکا ہے۔ ابھی تک اسی طرح ذکر جاری ہے۔
جواب:
اب سات ہزار مرتبہ کرلیں۔
سوال نمبر 8:
السلام علیکم۔ حضرت جی! جہلم سے فلاں بات کر رہا ہوں۔ بارہ تسبیحات کا ذکر اور پانچوں لطائف پر پانچ پانچ منٹ مراقبہ کے ساتھ لطیفۂ اخفیٰ پر شان جامع کا مراقبہ پندرہ منٹ کررہا ہوں۔ مراقبہ میں اللہ کی تمام صفات کا استحضار رہتا ہے اور ان کے اثرات طبیعت پر بعد میں بھی محسوس ہوتے ہیں۔ رہنمائی کی درخواست ہے۔
جواب:
ابھی ماشاء اللہ! مراقبہ حقیقتِ کعبہ شروع فرما لیں کہ حقیقتِ کعبہ کا جو فیض ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ پر آرہا ہے اور آپ ﷺ کی طرف سے شیخ پر آرہا ہے اور شیخ سے آپ کے جسم پر آرہا ہے، بس اس کا مراقبہ پندرہ منٹ کا آپ شروع کرلیں اور آپ نے پانچوں لطائف پر پانچ پانچ منٹ کا مراقبہ جاری رکھنا ہے۔ اس مراقبہ کو ہیئتِ وحدانی کہتے ہیں یعنی پورے جسم پر یہ ہوتا ہے، یہ کسی لطیفہ پر نہیں ہے۔
سوال نمبر 9:
السلام علیکم۔ حضرت جی! میرا بات کرنے سے پہلے پندرہ منٹ خاموش رہنے والا مراقبہ ہے، جسے ایک مہینہ ہوگیا ہے۔ حضرت جی! اس دفعہ گھر سے باہر بات سے پہلے پندرہ منٹ خاموش رہا کہ بات شروع کروں؟ تو یہ سوچ کر رک جاتا تھا۔ حضرت جی! گھر میں مراقبہ ٹھیک نہیں ہو رہا اور خاموشی کے دوران کیا کرنا چاہئے؟ رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
اس کو جاری رکھیں اور خاموشی کے دوران کچھ بھی نہیں کرنا، تاکہ نفس مشکل وقت میں بھی خاموش رہ سکے۔
سوال نمبر 10:
السلام علیکم۔ حضرت! آپ نے میری خالہ کو اللہ پاک کی آٹھ صفات والا لطیفۂ روح کا کون سا مراقبہ دیا ہے؟ کیا وہ صفات ثبوتیہ والا ہے؟ برائے مہربانی طریقہ سمجھا دیں۔ چونکہ ان کو آواز صحیح نہیں آرہی تھی۔
جواب:
جی بالکل یہ مراقبہ صفات ثبوتیہ کا ہے۔ صفات ثبوتیہ میں جو اللہ پاک کی خاص صفات ہیں یعنی اللہ پاک حیّ و قیوم ہے، قادر ہے، سمیع ہے، بصیر ہے، اصل علم اللہ پاک کا ہے، اصل ارادہ بھی اللہ پاک کا ہے اور اس کا کلام ہی اصل کلام ہے اور وہی ذات سب چیزوں کو پیدا کرنے والی ہے یعنی تمام اسماء مبارکہ کا جو فیض ہے، وہ فیض اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کے قلب پر آرہا ہے، آپ ﷺ سے شیخ کے پاس آرہا ہے اور شیخ سے آپ کے لطیفۂ روح پر آرہا ہے۔ لہٰذا آپ یہ مراقبہ ان کو بتا دیں کہ وہ یہ مراقبہ اس طرح کریں۔ جو اللہ پاک کے نام ہیں، ان کا جو فیض ہے، وہ بہت زیادہ ہے، کیونکہ اللہ پاک سنتا ہے، اب اگر یہ مراقبہ ہمارا پکا ہوجائے تو کیا پھر ہم غیبت کرسکیں گے یا کوئی غلط کام کرسکیں گے؟ نہیں، پھر اس طرف ہی دھیان ہوگا کہ اللہ سنتا ہے، اللہ دیکھ رہے ہیں، اس لئے یہ سارے اہم مراقبات ہیں، ان کو بتا دیجئے گا۔
سوال نمبر 11:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
I hope and pray you are keeping well dear Sheikh. This is فلاں from the UK. May اللہ تعالیٰ grant your shadow over me and grant me توفیق to do my اصلاح and fully benefit from your فیض اَلْحَمْدُ للہ I have started the routine of making all my family members sit after عشاء to recite منزل جدید and explain to them it’s need as a means of protection. I also prayed تہجد on two days after عشاء last week and I am trying to bring it in my daily life. May Allah تعالیٰ grant me توفیق and accept. I had three questions dear Sheikh.
No. 1: This weekend, we will have our only چاچو and پھوپھو and their families coming over as guest. I am the oldest of all the cousins and with all the cousins started to become older. I wanted to ask how the future generation of the family (خاندان) can be kept together? Is it okay to feel like the most fortunate person on earth? When I look at the problems others are facing and see the blessings of Allah, He has given to me. I feel grateful in my heart to اللہ سبحانہ و تعالیٰ as He is most generous to me and that I am the most fortunate. Is it okay to feel this way? Is writing a personal dairy beneficial for the سالک?
جواب:
پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ ماشاء اللہ! آپ اپنے cousins کے ساتھ بیٹھیں اور آپ ان میں بڑے بھی ہیں، تو آپ ان کو اپنے normal انداز میں (جس میں ناصحانہ انداز نظر نہ آئے، لیکن ہو ناصحانہ) کہ ایسا انداز ہو کہ جس سے ان کا تعلق آخرت کے کاموں کے ساتھ کیا جائے یعنی آخرت کا جو تصور ہے، وہ ان کو دینے کی کوشش کی جائے اور جس وقت کسی ایک چیز پر سب مرکوز ہوجائیں تو اتفاق خود آجائے گا، کیونکہ اتفاق اس وقت ختم ہوتا ہے جب targets مختلف ہوں اور target اگر ایک ہی ہوگا تو پھر سب کا اتفاق ہوجائے گا کہ سب آخرت بہتر بنانا چاہتے ہوں گے، پھر لازمی بات ہے کہ سب کا راستہ ایک ہی ہوجائے گا اور اتفاق ہوجائے گا۔ باقی آپ نے یہ جو شکر کے لئے سوچا ہے، تو یہ بہت اچھا ہے کہ اس پہ شکر کرنا چاہئے، لیکن بڑائی کی طرف نہیں جانا چاہئے کہ میں کچھ زیادہ بڑا ہوں، کیونکہ اس سے نقصان ہوگا، اس لئے تکبر کی طرف نہیں جانا چاہئے، عجب کی طرف بھی نہیں جانا چاہئے، بلکہ شکر کی طرف جانا چاہئے اور اس کو فرحِ شکر کہتے ہیں، یہ ہونا چاہئے، لیکن فرح بتر نہیں ہونا چاہئے۔ اور personal ڈائری لکھنے میں کوئی مسئلہ نہیں، یہ صرف اپنے آپ کو directional رکھنے کے لئے ہے، تاکہ خاص target کی طرف انسان جارہا ہو اور اپنا احتساب کرسکتا ہوں۔ لہٰذا اس نیت سے اگر ڈائری لکھی جائے تو اچھی بات ہے۔
سوال نمبر 12:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
نمبر 1: دو ہزار زبانی ذکر اسم ذات کا ہے۔
جواب:
اب ڈھائی ہزار کرلیں۔
نمبر 2: ابتدائی وظیفہ بلاناغہ پورا کر لیا ہے۔
جواب:
اب اس کو دس منٹ قلب کا ذکر بتا دیں۔
نمبر 3: تمام لطائف پر دس دس منٹ ذکر اور مراقبہ صفات ثبوتیہ پندرہ منٹ ہے، اللہ تعالیٰ کی صفات پر یقین پختہ ہوگیا ہے۔
جواب:
ماشاء اللہ! اب ان صفات سے اللہ کی ذات کی طرف انتقال یعنی مراقبہ شیونات ذاتیہ ان کو بتا دیں۔
نمبر 4: تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبہ شیونات ذاتیہ پندرہ منٹ ہے، کچھ محسوس نہیں ہوتا۔
جواب:
اللہ جل شانہٗ کی ذات کی طرف توجہ سے جو محسوس ہوتا ہے، وہ تو ہے، لہٰذا اس کو دوبارہ کرلیں۔
نمبر 5: تمام لطائف پر دس دس منٹ ذکر اور مراقبہ معیت پندرہ منٹ مختلف اوقات میں پانچ پانچ منٹ ہے۔ یہ طالبہ کہتی ہیں کہ میں نے پہلے تین ماہ تک پندرہ منٹ اکٹھے کیا تھا، پھر پانچ پانچ کے وقفوں سے، لیکن یہ وقفوں سے کرنا مجھ سے اکثر بھولا ہوا ہوتا ہے۔ اور یہ کہتی ہے کہ مراقبہ کروں تو عبادت کا شوق بہت بڑھا جاتا ہے اور جب ناغہ ہوجاتا ہے تو شوق کم ہوجاتا ہے۔ اس طالبہ سے چار نمازیں بھی قضا ہوگئی ہیں، تین بخار کی وجہ سے اور ایک بغیر عذر کے۔
جواب:
بخار کی وجہ سے جو قضا ہوئی ہیں، اس کی تو صرف قضا کرلیں اور جو بغیر عذر کے قضا ہوئی ہے، اس کے تین روزے بھی ساتھ رکھ لیں۔ اور مراقبہ معیت باقاعدہ جاری رکھیں فی الحال اور اکٹھا کریں۔
نمبر 5: تمام لطائف پر پانچ پانچ منٹ ذکر اور نماز میں حقیقت کعبہ، حقیقت قرآن اور حقیقت صلوٰۃ تینوں کو محسوس کرنا ہے۔
جواب: ماشاء اللہ! یہ بڑی اچھی بات ہے، اس کو فی الحال جاری رکھیں۔
نمبر 1: تمام نمازیں اول وقت پر پڑھنا نصیب ہوگئی ہیں۔
نمبر 2: تسلی سے نماز پڑھتی ہوں، خاص کر دل کو سکون ملتا ہے۔
نمبر 3: لوگوں کے ساتھ بات کروں تو لہجے کی سختی کا احساس ہوتا ہے، پہلے لوگ کہتے تھے کہ تمھارا لہجہ سخت ہے، لیکن خود مجھے پتا نہیں چلتا تھا اور اب خود بھی محسوس ہوتا ہے۔
نمبر 4: قناعت اور استغنا بڑھ گیا ہے۔
نمبر 5: تلاوت قرآن شوق سے کرتی ہوں، تلاوت سے دل میں خاص قسم کا نور محسوس ہوتا ہے۔
نمبر 6: نماز پڑھتی ہوں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خانہ کعبہ میرے سامنے ہے اور میں بیت اللہ شریف کے فرش پر نماز پڑھ رہی ہوں۔ یہ تمام حالات اس بچی کے ہیں۔
جواب:
ان کو کہہ دیں کہ اس کو جاری رکھیں اور اس کو فائدہ ہو رہا ہے تو یہ فائدہ جاری رہنا چاہئے۔
سوال نمبر 13:
السلام علیکم۔ حضرت جی۔ اللہ تعالیٰ آپ کا سایہ ہمارے سروں پر قائم رکھے۔ حضرت جی! ایبٹ آباد سے فلاں عرض کر رہا ہوں، میرا سبق مندرجہ ذیل ہے: دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘، چار سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، چھ سو مرتبہ ’’حَقْ‘‘، سو مرتبہ ’’اَللّٰہ‘‘ اور دس منٹ مراقبہ۔ حضرت جی! گزشتہ چار ماہ سے معمولات جاری نہیں رکھ سکا اور شرمندگی کے باعث آپ کو اطلاع بھی نہیں کی، کیونکہ یہ سراسر میری کوتاہی اور سستی کی وجہ سے ہوا ہے، اس میں کسی کا عمل دخل نہیں ہے، اس میں آپ سے خصوصی دعا کی درخواست کرتا ہوں۔ حضرت جی! ایک مسئلہ شیئر کرنا چاہتا ہوں آج سے تین سال قبل ایک دوست جو کرنل صاحب ہیں، ان کے دوست سے میری ملاقات لاہور میں ہوئی جو ایک ڈاکٹر صاحب ہیں، جن کا تعلق سلسلہ قادریہ سے ہے، انہوں نے مجھے چاروں تسبیحات پڑھنے کو دی تھیں، میں ان ڈاکٹر صاحب سے بیعت نہیں ہوا تھا، کیونکہ انہیں بیعت کی اجازت نہیں تھی اور وہ اب قادری سلسلہ کے کسی بزرگ کے خلیفہ ہیں۔ حضرت جی! وہ چاروں تسبیحات بِسْمِ اللّٰهِ، پہلا کلمہ، درود شریف اور استغفار ہے۔ یہ میں نے ایک سال یعنی 2020 تک جاری رکھی۔ اس کی وجہ سے حال طاری ہوتا تھا اور دل کی کیفیت نرم ہوجاتی تھی، اس کے بعد جاری نہ رکھ سکا، کیونکہ دل تذبذب کا شکار ہوتا چلا گیا۔ حضرت جی! حالیہ میرے وہی دوست مجھے ملے کہ چاروں تسبیحات میں دوبارہ شروع کرلوں۔ میں نے اطلاع کی کہ میں اپنے شیخ سے بیعت ہوچکا ہوں اور اب میرے لئے ممکن نہیں کہ میں وہ پوری تسبیحات شروع کروں، لیکن دوست کافی دیر مجھے اس بات پر convince کرتے رہے کہ آپ کو اصل guidance ڈاکٹر صاحب سے ملے گی اور یہ وہ ڈاکٹر صاحب ہی کی برکت ہے کہ آپ کو موجودہ شیخ کی بیعت حاصل ہوئی ہے، مجھے روحانیت میں وحدانیت کے concept کے بھی دلائل دیئے۔ حضرت جی! آپ کو خواب میں دیکھا کہ محفل میں آپ موجود ہیں اور ڈاکٹر صاحب آکر مجھے گلے ملتے ہیں اور کہتے ہیں تجھے کیا ہوگیا ہے؟ حضرت جی! اس واقعہ کے بعد چند دن تک میری طبیعت میں غصہ بڑھ گیا اور گھر میں لڑائیاں بھی ہوئی، لیکن بہرحال میں نے ڈاکٹر صاحب والی تسبیحات شروع نہیں کی، کیونکہ میرا دل نہیں مانتا۔ برائے کرم میری رہنمائی فرمائیں۔ جزاک اللہ۔
جواب:
اصل میں جس کو تصوف کہتے ہیں، وہ اور ہے اور جس کو جذباتی تصوف کہتے ہیں، وہ اور ہے۔ تصوف کا جذباتی رخ جو ہے، اس کو نہیں لینا چاہئے، یہ ایک procedure ہے اور procedure میں procedure کو follow کیا جاتا ہے، جیسے میڈیکل لائن ہے کہ جب ایک ڈاکٹر کو کوئی آدمی پکڑ لے تو پھر اس ڈاکٹر کی بات ماننی پڑے گی، بے شک پہلے کسی بھی ڈاکٹر سے علاج کیا ہوگا، لیکن اب اس سے نہیں پوچھنا پڑے گا، بس اب جو موجودہ ڈاکٹر ہے، اس سے علاج مکمل کرنا چاہئے، کیونکہ ساری چیزیں اس کے سامنے آچکی ہوں گی۔ اور اگر پھر پہلے والے کے پاس جائے گا تو نئے سرے سے ساری چیزیں شروع ہوں گی، اس وجہ سے آپ مطمئن رہیں قادریہ سلسلہ بھی ہمارا ہے اور دوسرے سلسلے بھی ہمارے ہیں، ہم سلسلے سارے مانتے ہیں، اس وجہ سے اس کرنل صاحب کو ہم غلط نہیں کہتے، وہ اپنے طور پر بالکل صحیح ہوں گے، لیکن طریقۂ کار اس کا غلط ہے کہ کسی اور کو مجبور کرنا کہ وہ اسی کے سلسلے پہ چلا جائے، یہ غلط بات ہے، کیونکہ اس میں فائدہ کو دیکھنا چاہئے، اس کو نہیں دیکھنا چاہئے کہ کوئی ہمارے ساتھ ہے یا نہیں ہے۔ باقی یہ بات اس کی صحیح ہے کہ اگر اس بزرگ نے آپ کو تسبیحات دی تھیں تو اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو شیخ عطا فرما دیا تھا، اس پہ شکر کرنا چاہئے اور اس کو بھی شکر کرنا چاہئے کہ اس کی برکت سے آپ کو فائدہ ہوا۔ مگر اب جو بھی شیخ ہوگا، اسی کی بات ماننی پڑے گی، دو شیخ نہیں ہوا کرتے، شیخ صرف ایک ہی ہوتا ہے۔ اور اگر وہ شیخ کو مانتا ہے کہ شیخ اس کو حاصل ہوگیا تو بس اس کو حاصل رہنے دے، اب اس کے درمیان میں کسی اور بات کے کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ باقی جو تسبیحات ہیں، وہ تسبیحات غلط نہیں ہیں، لیکن ایک طریقہ سے جب کسی نے شروع کر لیا ہے اور اس کو اس طریقہ پر چلانا ہے تو پھر وہیں چلنا چاہئے، اگرچہ سارے طریقے ٹھیک ہیں، لیکن ہر طریقہ کی اپنی اپنی انفرادیت ہے، اس انفرادیت کو disturb نہیں کرنا چاہئے۔ لہٰذا جو طریقہ ابھی آپ کا ہمارے ساتھ ہے، اس کو باقاعدگی کے ساتھ جاری رکھ لیں اور منتشر ذہن کے ساتھ نہیں، بلکہ یکسو ہو کر بس آپ اسی طرف توجہ رکھیں۔ اور وحدت کا مطلب یہی ہے جو اس نے بتایا (جیسے آپ کہتے کہ اس نے مجھے وحدانیت کے concept کے بھی دلائل دیئے) لیکن اسے توحید مطلب کہتے ہیں، وحدانیت نہیں کہتے اور توحید مطلب یہی ہے کہ اب آپ ایک شیخ کے ہوجائیں، اگرچہ دنیا میں ہزاروں شیخ بھی ہوں، لیکن آپ کے جو شیخ ہیں، بس آپ کے لئے وہی ہیں۔ بس اس پر آپ مطمئن رہیں اور اپنے اس دوست کو میرا سلام بھی کہیں اور اس کو میری یہ باتیں بتائیں، بس یہ کافی ہے، ان شاء اللہ العزیز! اللہ تعالیٰ ان کی برکات کو بھی جاری رکھے اور آپ کو بھی سلسلہ کے جملہ فیوضات و برکات نصیب فرمائے۔
سوال نمبر 14:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت! مجھ میں بدگمانی کا رذیلہ بدرجہ اتم موجود ہے، جس کا مجھے بہت افسوس ہوتا ہے، اس سے چھٹکارا پانے کا کیا طریقہ ہوسکتا ہے؟
جواب:
آپ اس بدگمانی کو ایک وسوسہ سمجھیں اور وسوسہ کا علاج یہ ہوتا ہے کہ اس کی طرف توجہ نہ دی جائے اور مزید آپ ایسے شخص کے بارے میں جس کے بارے میں آپ کو بدگمانی ہے، اس کی اچھی باتوں کو لوگوں میں بیان کر لیا کریں کہ ان میں یہ اچھی باتیں ہیں، ان کی بری باتیں نہ بیان کریں، یہ ماشاء اللہ! بڑی اچھی بات ہوگی۔
سوال نمبر 15:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! بندہ کا ذکر مکمل ہوگیا ہے، جو دو سو، تین سو، تین سو اور سو۔
جواب:
اب دو سو، چار سو، چار سو اور سو کرلیں۔
سوال نمبر 16:
بندہ نے کچھ مبشرات دیکھے ہیں کہ مدینہ منورہ میں روضۂ اقدس کے سامنے جاتا ہوں اور گناہوں سے دل میں بہت ڈر رہا ہوں کہ آپ ﷺ میری نااہلی کی وجہ سے ناراض نہ ہوں، بندہ آپ کے لئے دعاگو رہتا ہے، آپ کے ذکر میں بندہ مشغول رہتا ہے، آپ سے بھی دعا کی درخواست ہے۔
جواب:
ضرور ان شاء اللہ! دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو سلسلہ کے جملہ برکات نصیب فرما دے۔
سوال نمبر 17:
حضرت! آج ایک چھوٹا سا واقعہ پیش آیا، جس کی وجہ سے دل کافی اداس ہے کہ family گھر جارہی تھی، تو میں نے فون پہ اڈے والوں سے رابطہ کیا، تو انہوں نے کہا کہ ہم نے آپ کے لئے سیٹیں رکھ لی ہیں، پھر بعد میں کال کی کہ ہم نے سیٹیں نہیں رکھیں، باقی ہم آپ کو پھر بتاتے ہیں۔ یہ سن کر میں نے کسی دوسری جگہ کال کرلی اور سیٹیں بک کروا دیں اور وہ اس میں چلے گئے، مگر پھر بعد میں انہوں نے مجھے کال کی کہ ہم نے آپ کے لئے سیٹ رکھی ہے اور آپ آئے نہیں؟ اور پھر مجھے مسلسل کال کر رہے تھے، تو میں نے بتایا کہ آپ نے مجھے کہا تھا کہ میں دوبارہ کال کروں گا، مگر آپ نے کال نہیں کی تو گھر والے چلے گئے۔ اب مجھے یوں محسوس ہو رہا ہے کہ شاید میری طرف سے دھوکہ ہوا ہے ان کے ساتھ۔
جواب:
اگر انہوں نے ایسے ہی کہا ہے جیسے آپ فرماتے ہیں کہ سیٹیں ہم نے نہیں رکھیں، البتہ جب ہوجائیں گی تو آپ کو بتا دیں گے کہ ہم آپ کو دوبارہ کال کریں گے، مگر دوبارہ اگر انہوں نے کال نہیں کی تو آپ کے اوپر ذمہ داری نہیں رہی، بلکہ ان کے اوپر ہے، کیونکہ یہ معاملہ کی بات ہے۔
سوال نمبر 18:
السلام علیکم۔ جس طرح آپ فرماتے ہیں کہ لطیفۂ قلب شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تعلیمات کے مطابق عقل، نفس اور روح کے مطابق ان کے impacts پڑتے ہیں تمام جسم پر اور روح کا روح پر، تو حضرت! روح کا اثر روح پر اور قلب کا اثر قلب پہ، تو اخفیٰ، سر اور خفی کا اثر حضرت! نفس پہ پڑے گا یا کہاں پڑے گا؟ اس کی رہنمائی آپ سے درکار ہے۔
جواب:
دیکھیں! بنیادی طور پر تو لطیفۂ قلب ہی اصل لطیفہ ہے، قرآن سے یہی ثابت ہے اور حدیث شریف سے بھی یہی ثابت ہے، لیکن کشف سے باقی لطائف ثابت ہیں اور یہ عالم امر سے ہیں۔ حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق اس میں جو آج میں نے پڑھی ہے، وہ یہ ہے کہ روح علوی اور روح سفلی دو ہیں۔ علوی کا عرش سے اوپر تعلق ہے یعنی لطائف: قلب، روح، سر، خفی اور اخفیٰ کا تعلق عالم امر سے ہیں۔ اور جو پانچ عالم خلق میں سے ہیں، وہ نفس، آگ، پانی، ہوا اور مٹی ہیں، جس کو کہتے ہیں کہ عناصرِ اربعہ اور نفس عالم خلق سے ہیں۔ اب جو آپ لطیفۂ قلب کا فرما رہے ہیں تو قلب کا بھی عالم امر کے ساتھ تعلق ہے، عرش سے اوپر اس کا جو center ہے یعنی اس کی جڑ اس سے activate ہوجاتا ہے۔ لہٰذا آپ کا ادھر سے تعلق ہوجاتا ہے اور اگر روح کا لطیفہ activate ہوگیا تو جو روح والا center ہے، وہ activate ہوجائے گا، اگر سر والا ہے تو سر والا ہوجائے یعنی یہ پانچوں اس کے ساتھ activate ہوجائیں گے۔ روحانیت اسی کے ذریعہ سے آتی ہے اور نفسانیت نیچے والوں پہ محنت کرنے سے آتی ہے یعنی ان چیزوں کو اگر آپ دبا دیں، طبیعت کو دبا دیں تو نفسانیت کم ہوجائے گی اور جب ان کے اوپر محنت کریں تو روحانیت آئے گی۔
سوال نمبر 19:
حضرت! اس میں ایسی stage بھی آتی ہے کہ نفسانیت بالکل ہی دب جائے ان پہ محنت کرنے سے اور پھر نفسانیت ابھر کے نہ آئے؟
جواب:
اصل میں اس کو فنائیت کہتے ہیں، اور فنائیت یہ ہے کہ اس نفس کا جو effect ہے، وہ جس وقت بالکل ختم ہوجائے اور اپنے آپ کو بھی انسان بھول جائے، اصل میں نفس ایک ایسا نظام ہے کہ جس کے Sensations all the time ہوتے ہیں یعنی ہر وقت اس کے signals آپ کو ملتے ہیں، گویا کہ یہ اپنی موجودگی ہر وقت ثابت کر رہا ہوتا ہے، مگر جب تک فنائیت نہ ہو تو اس سے چھٹکارا پانا ممکن نہیں ہے، تو یہ چیز چلتی رہے گی، اور جب فنائیت ہوجائے گی اور فنائیت ہونے کے لئے کسی کے ساتھ اتنی محبت ہو مثلاً اللہ کے ساتھ اتنی محبت ہو کہ آپ ان تمام چیزوں سے منقطع ہوجائیں، تو یہ پہلے جذب کی صورت میں ہوتا ہے، پھر بعد میں اس کو permanent کرنے کے لئے سلوک طے کرنا ہوتا ہے اور وہ مقامات طے کرنے ہوتے ہیں یعنی مقام ریاضت اور مقام قناعت وغیرہ کو طے کرنا ہوتا ہے اور جب یہ چیزیں آپ طے کرلیں تو یہ پھر permit ہوجاتا ہے اور پھر فنائیت ہوجائے گی۔ پھر جب فنائیت ہوجاتی ہے تو اگر اللہ پاک اس کو قبول فرما لے تو پھر بقا حاصل ہوتی ہے، پھر اس کو اللہ تعالیٰ اپنے لئے چن لیتے ہیں، بس پھر اسی حالت پہ رہیں گے۔ لیکن اللہ پاک نے اگر دوسروں کے لئے آپ کو چن لیا یعنی اب آپ سے کام بھی لینا چاہتے ہیں تو دوسروں کو اس طرف لانے کے لئے، تو پھر آپ کو وہ چیزیں دوبارہ واپس کردیں گے اور آپ بجائے اوپر رہنے کے نیچے نزول فرمائیں گے اور نزول کے لئے پھر یہ ہوگا کہ پھر دوبارہ انسان مقام قلب میں آجاتا ہے جہاں پر نفس اور روح ملی ہوئی ہے۔ جب دوبارہ آجائے گا تو پھر آپ برزخ میں رہیں گے یعنی روحانیت کے تعلق کی وجہ سے آپ ملاء اعلیٰ سے لیں گے اور جو نفس کے ساتھ تعلق ہے، اس کے ذریعہ سے آپ دوسروں کو دیں گے، بس یہ سلسلہ پھر ہوتا رہتا ہے۔
سوال نمبر 20:
اس میں حضرت! جیسے ماشاء اللہ! آپ نے فرمایا تو اس سے پھر یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جذب جتنا بھی حاصل ہوجائے، انسان کے اندر جتنی بھی روحانیت ہوجائے، لیکن اس کے بعد کا جو process ہے یعنی جو مجاہدہ والا سلوک ہے، وہ لازمی ہے کہ اس کے بغیر گزارا نہیں ہے۔
جواب:
جی بالکل جذب ہے ہی اسی لئے یعنی بنیادی طور پر جذب کی اپنی کوئی value نہیں ہے، لیکن اگر آپ نے اس سے یہ کام لیا تو پھر فائدہ ہے۔ جیسے میں نے مثال دی تھی کہ لوہا اگر آپ موڑنا چاہتے ہیں اور ایک خاص shape بنانا چاہتے ہیں، تو جب تک یہ ٹھنڈا ہوتا ہے، اس وقت تک آپ کچھ نہیں کرسکتے اس کے ساتھ، لیکن جس وقت آپ گرم کرتے ہیں، تو اس گرم ہونے سے وہ نرم ہوجاتا ہے، اس وقت آپ کسی بھی shape میں convert کرسکتے ہیں۔ اور پھر جس shape میں آپ نے convert کیا اور پھر وہ ٹھنڈا ہوگیا تو پھر establish ہوگیا، بس پھر وہی اس کی shape ہوگئی۔ اور اگر آپ نے لوہا گرم کردیا، نرم کردیا، مگر پھر ویسے ہی ٹھنڈا ہوگیا تو کیا فائدہ ہوا؟ پھر کوئی فائدہ نہ ہوا، بلکہ اس کی طاقت کمزور ہوجائے گی۔
سوال نمبر 21:
حضرت! آپ نے فرمایا کہ فنائیت جذب کے بعد حاصل ہوتی ہے، ایسے ہی؟
جواب:
جذب کے بعد نہیں، فنائیت سلوک کے بعد حاصل ہوتی ہے، جذب کے بعد تو عارضی ہوتی ہے، بلکہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو صبح کاذب کہا ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ صبح کاذب ہے، یہ دوبارہ غائب ہوتی ہے، پھر اصل صبح صادق آتی ہے۔
سوال نمبر 22:
حضرت! فنائیت کے بعد جو کہا جاتا ہے کہ ’’اَلْفَانِیْ لَا یَرُدُّ‘‘ (فانی نہیں لوٹتا) یہ دعویٰ کس حد تک صحیح ہے؟
جواب:
جی اگر صحیح معنوں میں فانی ہوگیا یعنی اس کا تعلق ذات الہٰی کے ساتھ ہوگیا اور یہ ذات الہٰی میں فانی ہوگیا تو پھر واپس نہیں آئے گا، لیکن صفات الہٰی میں فانی ہوگیا تو پھر واپس آسکتا ہے، کیونکہ پھر اصل فانی نہیں ہے۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اس پر بڑا کلام فرمایا ہے کہ اگر صفات میں کوئی فانی ہے مثلاً کوئی اللہ پاک کی ایک خاص صفتِ رزاقیت میں فانی ہے، تو اس کو جب تک رزق ملے گا، وہ خوش ہوگا اور جس وقت کوئی تنگی آجائے گی تو پھر اپنی position پہ چلا جائے گا۔ لیکن اگر وہ اس سے jump کرکے اللہ کی ذات میں فنا ہوگیا، اگرچہ پہلے رزق کی وجہ سے ہوا ہے۔ جیسے ایک صاحب مجھے کہہ رہے تھے کہ اللہ کا شکر ہے کہ اللہ پاک نے مجھے بہت اچھی حالت میں رکھا ہے، میں اس پہ بڑا شکر کرتا ہوں۔ میں نے کہا شکر کی حالت میں رہیں تو پھر اچھا ہے، لیکن اگر آپ نے عجب اختیار کیا تو پھر مصیبت ہے۔ کیونکہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دیا ہے، اس کے اوپر وہ شکر کی حالت میں رہے تو پھر تو بہت اچھا ہے۔ لہٰذا یہ فانی اگر اللہ تعالیٰ کی صفات میں ہے تو پھر تو واپس ہوسکتا ہے، اور اس کو عود کہتے ہیں، لیکن اگر فنا فی الذات ہوگیا، پھر بس اس کا ہی ہوجائے گا، کیونکہ ذات کے علاوہ پھر کوئی اور نہیں ہے، پھر واپس نہیں ہوگا، البتہ پھر صرف واپس کردیا جائے گا یعنی کام کرنے کے لئے۔
سوال نمبر 23:
حضرت! استغراق کیا ہے؟
جواب:
استغراق ایک جزوی کیفیت ہے، جو وقتی طور پر بعض کو ہوتی ہے اور بعض کو نہیں ہوتی یعنی یہ ہر ایک کو ہونا ضروری نہیں، لیکن بعض کو ہوسکتی ہے، یعنی اگر اس کے جسم کی ساخت ایسی ہو کہ وہ اس کو برداشت کرسکے تو وہ استغراق میں چلا جائے گا، مثلاً کسی کو anesthesia دے کر آپریشن کیا جاتا ہے اور بعض کو ضرورت نہیں ہوتی، بس بغیر anesthesia کے بھی آپریشن ہوسکتا ہے۔ بس استغراق میں بھی یہی بات ہے، لیکن یہ بات ضرور ہے کہ جو فانی ہوجاتا ہے، اس کو اللہ کے علاوہ کسی اور چیز سے دلچسپی نہیں ہوتی، کوئی اور چیز محسوس نہیں ہوتی، باقی ساری چیزیں اس کے لئے زیرو ہوجاتی ہیں۔
سوال نمبر 24:
اس کا وجود رہتا ہے، یہ زندگی گزار رہا ہوتا ہے۔
جواب:
جی اس لئے حضرت فرماتے ہیں کہ شہودی طور پہ ہوتا ہے، وجودی طور پہ نہیں ہوتا۔ شہودی طور پہ اس طرح کہ اس کی کیفیت ایسی ہوتی ہے، مگر وجودی طور پہ نفس ختم نہیں ہوسکتا، کیونکہ جب تک زندہ ہے تو نفس ہوگا۔
سوال نمبر 25:
حضرت! یہ جو آپ فرماتے ہیں کہ صفات میں جو فانی ہوا ہے، اس کا عود ہوسکتا ہے اور اس کی مثال آپ اکثر یہی رزاقیت کی دیتے ہیں۔ مگر یہ اللہ تعالیٰ کی وہ صفت ہے جو کہ انسان کا نفس بھی اس چیز کو چاہ رہا ہے، لیکن ایسی صفات بھی اللہ تعالیٰ کی ہیں جیسے حکیم ہے یا صفات ثمانیہ ہیں، ان میں سے کسی میں اگر کوئی فانی ہوجائے تو پھر تو عود نہیں ہوسکتا۔
جواب:
اگر کسی چیز کی حکمت سامنے نہ ہو تو پھر کیا ہوگا؟ پھر عود ہوجائے گا۔ لہٰذا صفات کا دائرہ تنگ ہے، اس میں آدمی کا نفس نہیں ختم ہوتا یعنی فانی نہیں ہوتا، کیونکہ نفس کے ساتھ اس کا تعلق ہے اور نفس ہی کی وجہ سے آدمی گھیرے میں آتا ہے، مگر جب ذات میں کوئی فنا ہوتا ہے تو وہاں نفس ختم ہوتا ہے، پھر بالکل ہی اپنا اثر ختم کر لیتا ہے۔
سوال نمبر 26:
ایک سالک کا سوال آیا تھا جو کہ حضرت نے مجلس میں نہیں سُنایا، بلکہ اُس کا صرف جواب حضرت نے دیا ہے۔
جواب:
السلام علیکم۔ اؤ کسبي طور باندې حاصليږي اؤ وهبي طور باندې هغه څهٔ ورته وائی جذب۔۔۔۔ مطلب يو دے جذب کسبي اؤ يو دے جذب وهبي دا دَ جذب قسمونه دي اؤ فنا چې کوم دے دا پهٔ کسب باندې حاصليږي۔ مطلب هغه طريقے به ورته اختياروي پهٔ کوم باندې چې دا حاصليږي اؤ هغه دا مقامات طے کول دي۔ مقامِ توبه، مقامِ انابت، مقامِ رياضت، مقامِ قناعت، مقامِ تقويٰ، مقامِ ذُهد، مقامِ صبر، مقامِ توکل، مقامِ تسليم، مقامِ رضا۔ دا مقامات چې سر ته ورسئ نو بيا فنا حاصله شي۔
سوال نمبر 27:
حضرت! صفات کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کو پہچانا جاتا ہے، مگر جو حسین قصاب رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ ہے کہ انہوں نے پہاڑ کا سفر کیا اور پہاڑ کے اوپر جا کے وہ خیمہ دیکھا جس سے مراد صفات ہیں، مگر خیمے کے اندر جب گیا تو وہاں بھی اللہ کو نہیں پایا۔
جواب:
اصل میں صفات کے ذریعہ سے پہچاننے کا مطلب یہ ہے کہ صفات ہمیں محسوس ہوتی ہیں، چونکہ اللہ پاک کی ذات وراء الوراء ہے۔ مثلاً دیکھیں! ہم بھی دیکھتے ہیں، اللہ بھی دیکھتے ہیں، اگرچہ ہمارا دیکھنا اللہ کے دیکھنے کی طرح نہیں ہے، اس کا دیکھنا کلی ہے اور اس کے لئے کوئی ذریعہ بھی نہیں، بس اللہ پاک خود بخود دیکھتے ہیں، اسی طرح اللہ پاک کلام فرماتے ہیں، مگر ہماری طرح کلام نہیں ہے، اللہ جل شانہٗ سمیع ہے کہ سنتا ہے، لیکن ہم لوگوں کا سننا limited ہے، اللہ پاک کا سننا unlimited ہے، اب یہ ساری صفات ہماری بھی ہیں اور اللہ کی بھی ہیں، مگر ہم اپنی چیزوں اگر نہ جانتے تو پھر اللہ پاک کے سننے، جاننے کو کیا سمجھتے؟ کیونکہ ہمارے پاس وہ علم کا ذریعہ ہی نہ ہوتا، اس وجہ سے ان صفات کے ذریعہ سے انسان اللہ پاک کو جان لیتا ہے۔ جیسے کہا جاتا ہے: ’’مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ‘‘ (جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا) خیر میرا مطلب یہ ہے کہ جب انسان اپنے آپ کو جان لیتا ہے تو پھر اللہ پاک کی ان صفات کو جان لیتا ہے۔ اب اللہ پاک کی صفات میں جو لافانیت ہے اور لامحدودیت ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے حساب سے ہے، چونکہ صفات ہماری بھی وہی ہیں، اللہ پاک کی بھی وہی ہیں، لیکن اللہ کی صفات لامحدود ہیں، اس کی کوئی حد نہیں ہے۔ لہٰذا یہ فرق جب انسان پہ کھلتا ہے تو اس سے انسان اللہ کی ذات کی طرف جاتا ہے، کیونکہ دیکھیں! فرق کس وجہ سے ہے؟ فرق ذات کی وجہ سے ہے کہ میری بھی صفت ہے اور اس کی بھی صفت ہے، کہ جب اللہ کو صفات کے ذریعہ سے جان لیا، تو چونکہ اللہ کی صفات لامحدود ہیں تو اللہ پاک کی تمام چیزیں لامحدود ہیں۔ لہٰذا اس لحاظ سے جب وہ جاتا ہے اور وہ اس میں پھر غرق ہوجاتا ہے اور فنا ہوجاتا ہے، تو اس کو ہم کہتے ہیں ذات الہٰی میں فنا ہوگیا اور اگر ایسا نہیں ہوا اور اس کا نفس ابھی باقی ہے (کسی نہ کسی درجہ میں بھی) تو پھر عود ہوسکتا ہے۔
سوال نمبر 28:
حضرت! جس طرح ماشاء اللہ! بات سے بات نکل رہی ہے اور پھر ماشاء اللہ! آپ کی تشریح سے اور باتیں واضح ہو رہی ہیں اور مزید سوالات پیدا ہو رہے ہیں، تو میں اطمینان قلب کے لئے پوچھ رہا ہوں کہ حضرت! اس میں اگر کوئی سالک ذکر کی کیفیت حاصل کرتا ہے، اپنے شیخ سے ذکر لیتا ہے، تو اس میں کوئی مخصوص مدت ہوتی ہے کہ اس مخصوص مدت کے بعد اس کو وہ جذبی کیفیت حاصل ہوگی؟ پھر شیخ اس کا سلوک شروع کرواتے ہیں یا سالک اس ذکر کو کتنا اپنے اندر جذب کر پا رہا ہے، یہ سالک کے اوپر ہے؟ اور پھر شیخ پہ یہ چیز آشکارا ہوتی ہے یعنی شیخ پہ یہ چیز اللہ پاک کھولتے ہیں، مگر اس میں کوئی مخصوص مدت متعین نہیں ہے۔
جواب:
آپ کسی کو اگر ڈرائیونگ سیکھا رہے ہیں تو کیا خیال ہے، سارے ایک ہی وقت میں سیکھ لیں گے؟ نہیں، سارے ایک ہی وقت میں نہیں سیکھیں گے، بلکہ ہر ایک کی dedication پر، capability پر اور availability پر یعنی ان تمام چیزوں پر انحصار ہے اور یہ ہر ایک کی اپنی اپنی ہیں، لہٰذا ہر ایک کے لئے اپنی اپنی ترتیب ہوگی، ممکن ہے کہ کسی کو بیس سال لگ جائیں، چالیس سال لگ جائیں اور ممکن ہے کسی کو دوسرے دن مل جائے، جیسے حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کو چوبیس گھنٹے میں مل گئی۔ لہٰذا یہ depend کرتا ہے اس پر۔ میں اگر آپ کو چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے حالات کا ترجمہ پڑھ کر سناؤں جو پشتو میں لکھے ہوئے ہیں تو آپ حیران ہوجائیں کہ اتنے پیارے انداز میں لکھے ہیں کہ میں خود حیران ہوتا ہوں، کیسے شیخ کے ساتھ ان کی ملاقات ہوئی، پھر ملاقات میں جو بات چیت جس طرح ہوئی، پھر حضرت ان کو کیا بتاتے ہیں، پھر وہ کیا کرتے ہیں، یہ ایک عجیب معاملہ ہے ماشاء اللہ! بس پھر چوبیس گھنٹے میں حضرت نے سب کچھ لے لیا۔ لہٰذا انفرادی محنت بھی ہے اور یہ اپنے اوپر ہے، Subject to condition ہے یعنی Irrelevant to condition نہیں ہے، Subject to condition ہے۔ اور حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی اس میں نصیحت ہے کہ اس کو کورس نہ بنایا جائے کہ جس طرح کورس ہوتا ہے، اس طرح کورس نہ بنایا جائے، کیوںکہ کورس میں انسان اس چیز کو رکھتا ہے کہ بس ٹھیک ہے، میں نے اس کو پڑھ لیا، بس یہ آگیا، نہیں، یہ پڑھنے سے تعلق نہیں رکھتا، کرنے سے تعلق رکھتا ہے اور ہونے سے تعلق رکھتا ہے، بس ہوا تو ہوا، نہیں ہوا تو نہیں ہوا۔ اور آپ حیران ہوں گے کہ جو لوگ پی ایچ ڈی کرتے ہیں، وہ اچھی خاصی محنت کرتے ہیں، لیکن پروفیسر ان میں دیکھ لیتے ہیں کہ آیا یہ پی ایچ ڈی کا صحیح مفہوم جان گیا ہے یا نہیں جانا یا یہ اب independent کام کرسکتا ہے یا نہیں، بلکہ آپ حیران ہوں گے کہ بعض دفعہ ساری چیزیں ان کی جاننے کے باوجود کہ بہت یہ intelligent ہے، سارا کچھ ہے، لیکن اس کو پی ایچ ڈی کے لئے qualify نہیں سمجھتے، ان کو کوئی اور ڈگری دے دیتے ہیں اور رخصت کردیتے ہیں، کیونکہ اس کے لئے special ایک attitude چاہئے، ایک طریقۂ کار ہے کہ اگر اس کے اندر وہ ڈھل گیا تو ڈھل گیا، نہیں ڈھلا تو نہیں ڈھلا۔ اس میں کمال کی بات میں آپ کو بتاؤں اور بزرگوں نے اس کے مختلف الفاظ میں interpret کیا ہے، کیونکہ الفاظ مقصود نہیں ہیں، کیونکہ مختلف حالات میں وہ ہوچکے ہیں، مثال کے طور پر آپ کسی کو کہہ دیں کہ فلاں کام کرنا ہے، لیکن آپ کے خیال میں بلی نہ آئے، اب بتاؤ! آپ کیسے اپنے خیال سے بلی نکالیں گے؟ ایسے ہی جو خلافت کا چکر ہے، یہ کیسے ذہن سے نکلے گا؟ یہ کتنا بڑا مسئلہ ہے اس راستے کا کہ آپ اس راستہ پہ جائیں، لیکن یہ چیز ذہن میں نہیں آنی چاہئے، کیونکہ یہ تو بس اللہ کی عطا ہے، جیسے اللہ فرماتے ہیں:
﴿ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُؕ﴾ (الحدید: 21)
ترجمہ1: ’’یہ اللہ کا فضل ہے جو وہ جس کو چاہتا ہے دیتا ہے‘‘۔
لہٰذا اس میں اور کچھ نہیں کہہ سکتے آپ۔ بس آدمی تمام چیزوں سے disconnect ہوکر اور یکسو ہوکر اللہ کی طرف بڑھے۔ میں آپ کو آج ایک کلام سناتا ہوں جو پشتو میں ہے، میں صرف ترجمہ کروں گا، کیونکہ بعض چیزیں ترجمہ کے ساتھ ہی چلتی ہیں۔
يو اور مې دې وي زړهٔ کښې لګېدلے هميشه
منزل مې خپل پهٔ سترګو کښې سارلے هميشه
(یعنی ایک آگ سی میرے دل میں لگی رہے ہمیشہ کے لئے اور منزل میری آنکھوں سے اوجھل نہ ہو)
غوږونه مې دَ يار دَ زوږ پهٔ لور وے لګېدلے
پهٔ دې کښې مخکښې نور هم رو رو تللے هميشه
(میرے کان اپنے محبوب کی آواز پر بس لگے ہوں کہ وہاں سے کیا آواز آتی ہے اور اس کی طرف ہی آہستہ آہستہ میں بڑھتا رہوں)
دَ عقل پهٔ دنيا زما نظر پهٔ ضرورت وے
دَ عشق پهٔ دنيا کښې وسېدلے همېشه
(عقل کی دنیا پر میری نظر صرف ضرورت کے مطابق ہو یعنی جہاں ضرورت ہے اور عشق کی دنیا میں ہمیشہ میں رہوں)
پهٔ زړهٔ کښې مې هغه وے اؤ پهٔ خوله دَ هغه نوم
محفل ته دَ هغه داسې ورتللے همېشه
(دل میرے میں وہی ہو اور زبان پر اس کا نام ہو اور اس کی محفل میں اسی طریقے سے میں جاؤں) جیسے حدیث شریف سے بھی ثابت ہے کہ جو انسان زبان سے اللہ پاک کا ذکر کرتا ہے تو اللہ پاک فرماتے ہیں کہ میں اس کے ساتھ ہوں۔ (بلوغ المرام، حدیث نمبر: 1332)
﴿فَاذْكُرُوْنِیْۤ اَذْكُرْكُمْ﴾ (البقرۃ: 152)
ترجمہ: ’’لہٰذا مجھے یاد کرو، میں تمہیں یاد رکھوں گا‘‘۔
دَ ګل اؤ دَ بلبل شاعري څهٔ به چاته ورکړي
دې وخت دَ خلقو څومره ضائع کړے همېشه
(گل و بلبل کی شاعری کسی کو کیا دے گی؟ اس نے تو ہمیشہ لوگوں کا وقت ہی ضائع کیا ہے)
شبيره منزل کله په طوفان کښې هم ملاؤ شي
ساحل کښې صرف نشي دا موندلے همېشه
(شبیر کبھی منزل طوفان میں بھی مل جاتی ہے، ضروری نہیں ہے کہ ساحل پر ہی ملے)
یعنی اس چیز میں اس طرح لگے رہو، لگے رہو، لگ جائے گی، چلتے رہو، چلتے رہو پہنچ جاؤ گے، لیکن یکسو ہو کر کہ باقی تمام چیزوں سے یکسو ہو کر جتنا آپ جلدی یکسو ہوسکیں گے، اتنی جلدی پا لو گے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے بڑی عجیب بات فرمائی کہ یکسوئی ہو، چاہے پاس ایک سوئی بھی نہ ہو۔ لہٰذا یکسوئی بہت ضروری ہے۔ چنانچہ عورتوں کو کیوں جلدی فائدہ ہوجاتا ہے؟ اس لئے کہ ان میں یکسوئی بہت ہوتی ہے، ان میں یکسوئی natural ہے۔ لہٰذا آپ ان سے تھوڑی سی بھی اگر بات کرلیں، تو بہت فائدہ ہوتا ہے۔ بس ان پہ شرعی پابندیاں ہیں، ورنہ صحیح بات ہے کہ عورتیں مردوں سے بہت آگے چلی جاتی ہیں، بس شریعت میں جو پابندیاں ہیں، انہی کی وجہ سے پھر یہ compensation اللہ نے کی ہے یعنی ان پہ پابندیوں کی وجہ سے جو رکاوٹ ہے، اس وجہ سے اللہ پاک نے اس کو compensate کیا ہے کہ تھوڑی سی بات کا بہت زیادہ اثر لیتی ہیں۔ مجھے ایک خاتون نے بڑی عجیب بات کی ہے کہ آپ کے مرد مرید ہیں، وہ آپ کی محفل میں بیٹھے ہوتے ہیں، صحبت میں بیٹھے ہوتے ہیں، فائدہ حاصل کر رہے ہوتے ہیں، مگر ہم لوگ کیا کریں؟ ہمیں کیسے فائدہ ملے گا؟ یہ ایک Natural question تھا، تو ان کو میں نے ایک بات بتائی، میں نے کہا کہ تم عورتوں کو اللہ نے وہ چیز دی ہے جو مردوں کو نہیں دی ہے، اس نے کہا کیا؟ میں نے کہا دیکھو! اللہ پاک کی ذات وراء الوراء ہے، لیکن مرد اس کا match نہیں کر پا رہے ہوتے، کیونکہ مرد تو سب کو سامنے دیکھتے ہیں، اس لئے ان کا دیکھنے کے ساتھ تعلق ہوتا ہے، لہٰذا جس کو نہیں دیکھا تو اس کا experience ہی نہیں ہوتا کہ بغیر دیکھے کیسے حاصل کیا جاسکتا ہے، جبکہ آپ کو اسی میں ہی وہ چیز حاصل ہوجاتی ہے یعنی شیخ کو آپ دیکھتے نہیں ہیں، لیکن آپ کو ان کے ساتھ تعلق ہوتا ہے اللہ کے لئے یعنی اللہ کو بھی نہیں دیکھا اور شیخ کو بھی آپ نہیں دیکھتے تو آپ کے لئے یہ آسانی ہے، کیونکہ experience بغیر دیکھے حاصل کرنے والی نعمت پہلے سے موجود ہے، لہٰذا آپ زیادہ تیزی کے ساتھ بڑھ سکتی ہیں۔ خیر میرا مطلب یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کسی چیز کا حکم دے تو اس کے لئے پھر وہ بھی طاقت بھی دیتے ہیں، سہولت بھی دیتے ہیں۔ ہمارے ایک نقشبندی بزرگ ساتھی ہے، ان کو پہلے کافی غلط فہمیاں تھیں ہمارے بارے میں، مگر پھر اَلْحَمْدُ للہ! ان کی غلط فہمیاں دور ہوگئیں، پھر انہوں نے میرا کلام پڑھا ہے اور بڑی محبت کے ساتھ پڑھا ہے کہ
دل وہ بنتا ہے یاد محبوب میں اپنے جذبات کا کیا میں کروں
مجھ کو الفاظ نہیں ملتے ہیں مدعا کس طرح ادا میں کروں
بندہ بندہ ہے اس کی کیا اوقات، پر میرا رب بہت کریم ہے جب
بس خدا کے فضل کو دل میں رکھ کر دل کا جو در ہے، اس کو واہ میں کروں
وہی دیتا ہے اس سے ہی مانگوں اس کا بندہ ہوں اور اس کا ہی رہوں
سنت پہ چلنے کی کروں میں سعی اور اس کے ہونے کی دعا میں کروں
دیکھیں! یہاں اختیاری اور غیر اختیاری کو ساتھ ملا دیا، اختیاری سنت پہ چلنے کی سعی ہے۔ اور اس کا بن جاؤں، یہ میرے بس میں نہیں ہے، تو اس کی دعا میں کروں۔
اِیَّاكَ نَعْبُدُ دل سے سمجھوں اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ بھی ساتھ اس کے
مانگ کے صراط مستقیم اس سے اور پھر بس اس پہ ہی چلا میں کروں
عشق کو الفاظ نہیں ملتے ہیں میں بے الفاظ دل اس کے سامنے رکھوں
دل کے پھر خوش نصیب کانوں سے شبیرؔ صرف اس کو ہی سنا میں کروں
یہ وہ صاحب تھے جو ہمارے گروپ میں کافی بحث کرتے تھے کہ یہ ٹھیک نہیں، یہ ٹھیک نہیں، مگر اللہ کا شکر ہے کہ یہ بڑی محبت کے ساتھ پڑھا ہے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)
نوٹ! تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔