ماہِ صفر میں توہمات میں شرکیہ اور شریعت سے متجاوز چیزیں

احادیث از خطبات الاحکام، خطبہ 40، ماہ صفر کے بیان میں

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
جامع مسجد الکوثر - ریلوے جنرل ہسپتال، راولپنڈی

اس بیان ماہِ صفر سے وابستہ توہمات اور بدشگونی کے عقائد کی سختی سے تردید کی گئی ہے، اور انہیں زمانہ جاہلیت کی باقیات اور شرک قرار د گیا یا ہے۔ اس میں واضح کیا گیا ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے خود "لَا صَفَرَ" فرما کر اس مہینے میں کسی بھی قسم کی نحوست کی نفی کی ہے اور اسلام میں کسی بھی چیز سے بدفالی لینا ممنوع ہے۔ اگر دل میں کوئی وہم پیدا ہو تو اسے اللہ پر توکل کے ذریعے ختم کرنا چاہیے، نہ کہ اس پر عمل کیا جائے۔ ہمارا دین قرآن، سنتِ رسول ﷺ اور صحابہ کرامؓ کے طریقے پر مبنی ایک خالص دین ہے، لہٰذا معاشرے میں پھیلی ان غلط فہمیوں کی اصلاح حکمت اور محبت سے کرنی چاہیے، کیونکہ نجات کا واحد راستہ وہی ہے جس پر آپ ﷺ اور آپ کے صحابہؓ چلے۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہ رَبِّ الْعَلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

فَقَدْ حَانَ شَهْرُ صَفَرَ، يَتَشَائَمُ بِهٖ بَعْضُ النَّاسِ وَيَتَطَيَّرُ كَمَا كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ مَعَ هٰذَا الْإِعْتِقَادِ يَبْتَدِعُوْنَ فِيْهِ النَّسِيْءَ النُّکْرَ، فَأَبْطَلَهُ اللهُ تَعَالٰی بِقَوْلِهٖ: ﴿اِنَّمَا النَّسِیْءُ زِيَادَةٌ فِی الْكُفْرِ (التوبہ: 37) وَكَذٰلِكَ نَفٰی رَسُوْلُ اللهِ ﷺ الشُّوْمَ وَالطِّيَرَةَ بِهٖ خُصُوْصًا وَّبِكُلِّ شَىْءٍ عُمُوْمًا، وَأَزَاحَ بِهٰذَا النَّفْيِ عَنَّا ھُمُوْمًا وَّغُمُوْمًا، فَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ: ''لَا عَدْوٰى وَلا طِيَرَةَ وَلَا هَامَّةَ وَّلَا صَفَرَ''۔ (بخاری، رقم الحدیث: 5707) قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ: ''یَتَشَاءَمُوْنَ بِدُخُوْلِ صَفَرَ''۔ فَقَالَ النَبِیُّ ﷺ: ''لَا صَفَرَ''۔ (ابوداؤد، رقم الحدیث: 3915، بِإِخْتِلَافِ الْأْلْفَاظِ) وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ: ''الطِّیَرَۃُ شِرْكٌ [قَالَهٗ ثَلٰثاً]، وَقَالَ ابْنُ مَسْعُوْدٍ: مَا مِنَّا إِلَّا وَلٰکِنَّ اللهَ یُذْھِبُهٗ بِالتَّوَکُّلِ''۔ (ابوداؤد، رقم الحدیث: 3910) وَعُلِمَ بِقَوْلِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ أَنَّ وَسْوَسَةَ الطِّیَرَۃِ إِذَا لَمْ یَعْتَقِدْھَا بِالْقَلْبِ وَلَمْ یَعْمَلْ بِمُقْتَضَاھَا بِالْجَوَارِحِ وَلَمْ یَتَکَلَّمْ بِھَا بِاللِّسَانِ لَا یُؤَاخَذُ عَلَیْھَا، وَھٰذَا ھُوَ الْمُرَادُ بِالتَّوَکُّلِ۔ وَقَالَ اللہُ تَعَالیٰ: ﴿قَالُوْا طَآئِرُكُمْ مَّعَكُمْ ۚ اَئِنْ ذُكِّرْتُـمْ ۚ بَلْ اَنْتُـمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُوْنَ (یس: 19)

صَدَقَ اللہُ الْعَظِیْمُ وَصَدَقَ رَسُوْلُہُ النَّبِيُّ الْکَرِیْمُ

معزز خواتین و حضرات! صفر کا مہینہ شروع ہوچکا ہے اور جس طرح محرم کے ساتھ لوگوں نے بے تکی باتیں باندھی ہوئی ہیں اپنی طرف سے، جس کا کوئی وجود نہیں تھا، اسی طرح صفر کے ساتھ بھی لوگوں نے اپنی طرف سے بہت ساری باتیں مشہور کیں۔ ہمارا جو دین ہے بہت خالص ہے، اس میں بعض چیزوں کا بہت زیادہ خیال رکھا جاتا ہے اور وہ ایک یہ ہے کہ توحید پہ حرف نہ آئے یعنی شرک کا ارتکاب نہ ہو، کیونکہ اللہ جل شانہٗ ہر چیز کو معاف کرنا چاہے تو کرسکتے ہیں لیکن شرک کو معاف نہیں کرتے۔ دوسرا یہ ہے کہ آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ کے طریقہ سے کوئی تجاوز نہ ہونے پائے، کیونکہ طریقہ جو ہے اللہ تعالیٰ کا منظور شدہ مقبول طریقہ صرف اور صرف آپ ﷺ کا طریقہ ہے، اور آپ ﷺ نے صحابہ کرام کی تربیت فرمائی، ان کا مزاج ایسا بنایا کہ اس کے بعد پھر وہ اس طریقہ سے ذرہ بھر بھی انحراف نہیں کرنا چاہتے تھے اور اسی دین پر ہر حال میں قائم رہے۔ لہٰذا صحابہ کرام کے طریقہ کو آپ ﷺ کی سنت کو سمجھنے کے لئے سمجھنا ضروری ہے، کیونکہ اس کے بغیر آپ ﷺ کی سنت سمجھ میں نہیں آسکے گی۔ تو ہمیں ہر چیز کے اندر یہی بتانا ہوتا ہے کہ اللہ نے کیا فرمایا اور رسول نے کیا فرمایا اور صحابہ نے کیا عمل کیا۔ یہ تین باتیں ہمارے دین کے اندر بنیادی ہیں۔ باقی عقل کا استعمال ممنوع نہیں ہے بلکہ مستحسن ہے، اگر اس کو دین کا خادم رکھا جائے یعنی دین کو سمجھنے کے لئے عقل کو استعمال کیا جائے، تو پھر ٹھیک ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے دین میں بہت ساری چیزوں میں غیب پر ایمان ہے اور غیب جو ہے یہ عقل کی سمجھ سے باہر ہے مثلاً جنت اور دوزخ عقل سے کیسے سمجھ میں آئیں گی۔ قبر کی زندگی عقل سے کیسے سمجھ میں آئے گی۔ یہ عقل کا میدان ہی نہیں ہے، لہٰذا اس میں ہم عقل کی بات نہیں مانیں گے ہم قرآن اور حدیث رسول ﷺ پر یقین کریں گے۔ جیسے انہوں نے فرمایا ہم لوگ اسی طرح کہیں گے اور اسی طریقہ سے ہم دوسروں سے بات کریں گے۔ اب صفر کا جو مہینہ ہے ناں! وہ کیا ہے؟ ایک مہینہ ہے جیسے باقی مہینے ہیں اور اس کے ساتھ لوگوں نے کیا کیا سٹوریاں باندھی ہیں، وہ یہ ہیں کہ اس میں بلائیں اترتی ہیں، اس میں بلائیں اترتی ہیں ان بلاؤں کو دفع کرنے کے لئے باقاعدہ وظیفے بنائے ہوئے ہیں، اخبارات میں آتے ہیں اور جو لوگ ان پر یقین کرتے ہیں پھر وہ ان کو پڑھتے ہیں، اب وظیفہ پڑھنے میں کوئی مسئلہ نہیں، وظیفہ قرآن کا ہو، حدیث کا ہو، کوئی مسئلہ نہیں ہے، مثلاً میں ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ پڑھتا رہوں، مجھے بتاؤ اس میں کیا حرج ہے؟ بالکل نہیں ہے، لیکن آپ کہتے ہیں نہیں! صفر کے مہینے میں اس لئے پڑھنا چاہئے تاکہ بلائیں آنے نہ لگیں، یہ زیادتی ہوگی، حالانکہ ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ میں نے مثال دے دی۔ وجہ یہ ہے کہ ہر چیز اس کی بنیاد پر منحصر ہوتی ہے۔ تو یہ ہمیں سیکھایا گیا ہے:

’’إنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ‘‘ (صحیح بخاری: 54)

ترجمہ: ’’تمام اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے‘‘۔

تو آپ کس نیت سے پڑھ رہے ہیں؟ تو ظاہر ہے اس نیت کا اعتبار ہوگا۔ اصل میں ہوتا کیا ہے وہ ایک بہت logical بات آپ سے عرض کرنا چاہتا ہوں، ایک مکان بن رہا ہے، معمار جو ہے وہ صحیح ہے مکان صحیح بنا رہا ہے، اگر کوئی دشمن ان میں سے مالک مکان کا یا معمار کا ان دونوں میں لڑائی کروانا چاہتا ہو کہ یہ آپس میں لڑیں تو یہ کوئی مشکل نہیں ہے، کیسے؟ وہ شخص اس مکان کے ساتھ قریب سے گزر کر اس کو مکان کو ذرا تنقیدی نگاہ سے اس طرح دیکھے: یار یہ دیوار کچھ ٹیڑھی سے نظر آرہی ہے، بس اتنی بات کہہ کر گزر جائے، وہ اگر مضبوط کرنا چاہتا ہو تو ایک دوسرے آدمی سے بھی کہہ دے کہ وہ بھی اس طرح کہہ دے، کہہ کر گزر جائے، پھر تیسرا آدمی، بس پھر تو لڑائی شروع ہوگی۔ مالک مکان کہے گا آپ نے دیوار ٹیڑھی بنائی۔ وہ کہتا ہے کوئی اوزار لے لو اس کے ساتھ ناپو، دیکھو بالکل کچھ نہیں ہے، ٹھیک ہے، لیکن اس کے دل میں جو شک پڑ گیا اس شک کو دور کرنا آسان نہیں ہے۔ ہاں جی! یہ میں آپ کو اس لئے کہتا ہوں کہ انسان اپنی دنیاوی ملکیتی ذاتی شخصی چیزوں کے بارے میں بہت حساس ہوتا ہے، تو جب اس کو کسی دنیاوی نقصان کا خدشہ ہوتا ہے تو معمولی معمولی باتوں پر بھی یقین کرنے لگتا ہے اور اس کو باقاعدہ اپنے لئے مدار بنا لیتے ہیں زندگی کا۔ یہ ہندو کیا کرتے ہیں، ہندو جو ہے، یعنی میں اس لئے عرض کرتا ہوں کہ یہ چیزیں اس طرف جاتی ہیں پھر، یہ ہندو ہر عجیب الخلقت چیز جس میں کوئی عجوبہ ہو، اس کو ماننا شروع کرلیتے ہیں، پھر اس کو پوجنا شروع کرلیتے ہیں، ہاں جی! اور اس کے بارے میں قصے کہانیاں بنانا شروع کرلیتے ہیں، یہ ان کے پنڈت وغیرہ جو ہیں وہ کرتے ہیں یہ۔ اب مثلاً Corona گزرا ہے ناں، ابھی قریب قریب گزرا ہے، ما شاء اللہ اس وقت ہم ہسپتال کے environment میں بیٹھے ہیں تو کم از کم ڈاکٹر حضرات آپ کے قریب ہیں، تو آپ ان سے پوچھ سکتے ہیں کہ بھئی Corona کی جو بیماری تھی یہ کیا تھی؟ وہ آپ کو اس کے بارے میں جو findings ہیں وہ بتا دیں گے۔ لیکن ہندوؤں نے کیا توہم پرستی کی، انہوں نے باقاعدہ Corona ایک دیوتی کا بت بنایا Corona نامی اور باقاعدہ اس کو پوجنے لگے تاکہ ہمیں نقصان نہ پہنچائے۔ مطلب انہوں نے نفع کے اور نقصان سے بچنے کے علیحدہ علیحدہ بت بنائے ہوتے ہیں۔ مثلاً یہ کالی دیوی ان کی ایک بت ہے وہ بہت خونخوار قسم کی دیوی بتائی جاتی ہے ان کے قصے کہانیوں میں، ان کے پتا نہیں کتنے ہاتھ ہیں اور اس میں خنجر ہے اور کیا کیا چیزیں انہوں نے بنائی ہوئی ہوتی ہیں، اس کی پوجا کرکے سمجھتے ہیں کہ اب یہ ہمیں کالی دیوی کچھ نہیں کہے گی، لہٰذا ہمیں نقصان نہیں ہوگا۔ اس طرح وہ جب جاتے ہیں تو باقاعدہ زائچہ بنواتے ہیں کہ ہم جائیں نہ جائیں یہ دن نحس ہے، یہ دن فلاں ہے یہ دن فلاں ہے، باقاعدہ یہ چیزوں پر وہ یقین رکھتے ہیں اور یہ چیزیں ان میں اتنی پھیلائی ہیں کہ ہمارے بعض لوگ جن میں بڑے بڑے سیاست دان بھی شامل ہیں وہ بھی زائچے بنواتے ہیں، ہاں جی! اپنے سفر سے پہلے اپنے کسی کام سے پہلے۔ بھئی سنت طریقہ کیا ہے؟ استخارہ کرلو استخارہ کرلو، اللہ پاک سے صلاح کرلو، استخارہ کرنا کیا ہے؟ اللہ سے صلاح کرنا۔ وہ کیا کرتے ہیں؟ زائچے بنواتے ہیں تاکہ معلوم کرلیں کہ ہمارا جانا نقصان دہ تو نہیں ہوگا۔ تو اس طرح ان لوگوں نے یہ بنائے ہوئے ہیں۔ اب یہ جو بات ہے کہ چونکہ یہ اس میں بلائیں نہیں اترتیں، کیونکہ آپ ﷺ کی حدیث شریف میں فرمایا: ’’لَا صَفَرَ‘‘ (بخاری: 5717)

ترجمہ: ’’صفر میں کوئی مسئلہ نہیں ہے‘‘۔

ابھی میں نے آپ کے سامنے یہ حدیث شریفہ چونکہ تلاوت کی ہیں، فرق صرف یہ ہے کہ میں نے اس کو عربی میں تلاوت کی ہیں، میں ذرا اس کا ترجمہ بھی پڑھ لوں تاکہ اندازہ ہوجائے کہ آپ ﷺ نے کیا فرمایا ہے۔ اول آیت کریمہ جو تلاوت کی اس کا فرماتے ہیں۔ حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ بے شک مہینوں کا ہٹانا کفر میں ترقی کا باعث ہے۔ یہ اُس وقت کے مشرکوں میں یہ بات تھی کہ وہ مہینے آگے پیچھے کرلیتے تھے کہ وہ مہینے جن کو وہ برکت والے مہینے کہتے تھے چار، ان میں سے آگے پیچھے کرلیتے تھے اپنی مرضی سے، اس کو نَسِیْ کہتے ہیں، تو اللہ پاک نے فرمایا یہ نَسِیْ کا جو عمل ہے یہ کیا ہے، کفر ہے، کفر کا باعث ہے۔ یعنی من جملہ اور کیفیات کے یہ حرکت بھی کفر ہے جو کفار قریش ماہ محرم وغیرہ کے متعلق کیا کرتے تھے، مثلاً اپنی غرض سے محرم کو صفر قرار دے کر اس میں لڑائی کو حلال کردیتے۔ مطلب اس سے پتا چلا کہ اللہ جل شانہٗ کی بنائی ہوئی چیزوں میں تغیر نہ کرو، مثلاً میں مغرب کی نماز پڑھتا ہوں تو ظہر کے وقت مغرب کی نماز پڑھوں گا تو کیسا ہوگا؟ ہاں جی ظاہر ہے نماز نہیں ہوگی، نہ ظہر کی نماز ہوگی نہ مغرب کی نماز ہوگی، نماز پڑھتے ہیں اس میں ہر رکعت کے اندر دو سجدے ہوتے ہیں یعنی لازم، اگر اس نے اس میں کہا کہ سجدہ تو بہت زبردست فضیلت کا عمل ہے چلو ایک رکعت میں تین سجدے کرو، تو تین سجدے کرنے سے نماز کتنی بڑھیا ہوجائے گی؟ ہاں جی نماز ہی نہیں رہے گی۔ تو اس کا مطلب ہے ہم اللہ کی بنائی ہوئی چیز میں تغیر نہیں کرسکتے، تبدیلی نہیں کرسکتے، یہ اختیار ہمیں نہیں حاصل، ہمارا دین اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے اللہ ہی اس میں جو تبدیلی کرنا چاہتا تھا وہ کردی ہے، اب اس کے بعد وحی کا سلسلہ بند ہے، اب اس میں کوئی بھی تبدیلی نہیں کرسکتا۔ ہاں جی! تو اس وجہ سے یہ جو نَسِیْ کا عمل تھا یہ بھی چونکہ تبدیلی تھی، اس کو کفر قرار دیا گیا۔ ارشاد فرمایا آپ ﷺ نے کہ نہ مرض کا تعدیہ ہے۔ With due respect to all doctors present here متعدی بیماری کی اصل کوئی نہیں ہے، یہ بات فرما رہے ہیں۔ اس کے اندر میں تفصیل بتاؤں گا کہ کیا مطلب ہے، کیونکہ یہ بھی ایک ہمارے عقیدہ کا مسئلہ ہے۔ اچھا! ’’تعدیہ نہیں‘‘ بلکہ جس طرح اللہ تعالیٰ کسی کو مریض بناتے ہیں اس طرح دوسرے کو اپنے مستقل تصرف سے مریض کردیتے ہیں، میل جول وغیرہ سے مرض کسی کو نہیں لگتا، یہ سب وہم کا حصہ ہے۔ اور نہ جانور کے اڑنے سے بدشگونی لینا کوئی چیز ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں ناں جی جانور اس طرف اڑا تو یہ ہوجائے گا، اس طرف یہ ہوجائے گا، اس طرف اڑے گا تو یہ ہوجائے گا۔ نہیں! اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔ اور نہ الو کی نحوست کوئی چیز ہے۔ جیسے عام طور پر اس کو منحوس خیال کرتے، یہ بالکل من گھڑت بات ہے اور حدیثِ صریح کے خلاف ہے۔ اور اس میں ایک رسم چار شنبہ یہ صفر کے مہینے میں بعض علاقوں میں ہے، پتا نہیں یہاں ہے یا نہیں ہے، ہمارے علاقوں میں تو ہوا کرتی تھی، اب شاید نہیں ہے۔ وہ یہ ہے کہ چار شنبہ جب آخری چار شنبہ ہوتا ہے آخری بدھ، اس میں وہ چوری پکاتے ہیں، ہاں جی! وہ ایک خاص قسم کی موٹی روٹی ہوتی ہے گندم کی، اس کو پھر وہ چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کرلیتے ہیں خاص procedure سے، اس میں پھر وہ سونف اور گھی اور میٹھا اور یہ ساری چیزیں ڈال کر، وہ بہت لذیذ چیز ہے کوئی شک نہیں، لیکن اس کا جو سلسلہ جوڑا جاتا ہے ناں آپ ﷺ کی بیماری کے ساتھ، ایسی کوئی بات نہیں ہے، جو لوگوں نے مشہور کیا ہے، ویسے چوری کھاؤ اس میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن اگر اُس نیت سے کھاؤ گے تو ٹھیک نہیں ہے، کیونکہ آپ نے اپنی طرف سے ایک چیز suggest کرلی ہے۔

اور آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بدفالی شرک ہے، تین دفعہ ارشاد فرمایا بدفالی شرک ہے۔ بدفالی کیا ہے؟ آپ باہر آئیں پتا چلا بلی سامنے سے گزر گئی، اوہ! یہ معاملہ خراب ہوگیا، چلو واپس۔ نہیں نہیں بھئی بدفالی نہیں کرنی، ہاں جی! اس کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے جو اللہ نے آپ کے لئے لکھا ہے وہی ہوگا اس سے آگے پیچھے نہیں ہوسکتا چاہے آپ کچھ بھی کرلیں۔ یہ بات جو میں نے پہلی کی شاید بعض لوگ ذرا بعد میں آئے میں دوبارہ کہتا ہوں کہ لوگ اپنے دنیاوی نقصان کے لئے بڑے sensitive ہوتے ہیں، لہٰذا اگر کوئی اس کو بتا دے کہ آپ یہ کام کریں گے تو آپ کو فلاں دنیا کا نقصان ہوجائے گا۔ اس سے لوگ بڑے ڈر جاتے ہیں اوہ! کہیں مجھے وہ نقصان نہ ہوجائے، تو اس شرک میں شامل ہوجاتے ہیں۔ کم از کم میری عمر میں کئی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ ایک کاغذ circulate ہوجاتا ہے مختلف طریقوں سے کہ ایک پتا نہیں شیخ احمد صاحب مدینہ منورہ میں مطلب ان کو آپ ﷺ نے یہ فرمایا کہ جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ ایسا کرو تو یہ ہوجائے گا ایسا کرو تو یہ ہوجائے گا اور اگر کسی نے اس پر یقین نہیں کیا تو اس کو نقصان ہوجائے گا، فلاں نقصان ہوجائے گا اور پھر بتاتے ہیں کہ فلاں نے اس کو تقسیم کیا، مطلب ایک ہزار کاپیاں اس کی تقسیم کیں تو اس کو ایک ہفتہ سے پہلے پہلے خوشخبری ملی اور فلاں صاحب نے اس کو نہ مانا تو اس کا بیٹا مر گیا یا یہ ہوگیا۔ اب بتاؤ جو ضعیف الاعتقاد لوگ ہیں ان کو گھٹی تو مل گئی، اب وہ کیا کرتے ہیں، جلدی جلدی دھڑا دھڑ اس کو کاپیاں بنا کر تقسیم کرنا شروع کرلیتے ہیں۔ تو یہ گویا کہ self-sustainable ہوتا ہے بالکل خود بخود یہ چلتا ہے اور یہ معاملہ آگے بڑھتا ہے، یہ لوگوں نے design کی ہوئی ہیں اس قسم کی چیزیں۔ تو ہمیں ان چیزوں اَلْحَمْدُ للہ ثم اَلْحَمْدُ للہ ہم نے ہر دفعہ اس سے انکار کیا اور ہمیں کوئی نقصان ہیں ہوا، اَلْحَمْدُ للہ۔ ہر دفعہ دھڑلے سے اس کا انکار اور اب بھی کرتے ہیں ناں انکار؟ کررہے ہیں یا نہیں کررہے؟ دھڑلے سے اس کا انکار کیا اور ہمیں کوئی نقصان نہیں ہوا، آپ بھی سب انکار کرلیں میرے سامنے، آپ کہیں: ہم انکار کرتے ہیں ایسی چیزیں نہیں ہیں، بس۔ مقصد کیا ہے؟ ہم خواہ مخواہ کیوں ضعیف الاعتقادی میں پھنس جائیں، ہماری کیا ضرورت ہے، اپنے آپ کو کیوں پریشان کریں، دین سے کیوں اپنے آپ کو دور کریں۔ دیکھو میں حدیث شریف سنا رہا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’بدفالی شرک ہے‘‘۔

ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت بڑے صحابی ہیں یہ وہ صحابی ہیں جن کو صاحبَ لوٹا اور مسواک کہتے تھے یعنی ہر وقت آپ ﷺ کا لوٹا اور مسواک حضرت کے ساتھ ہوتا تھا اور اتنا زیادہ حضرت کے ساتھ ملنا جلنا تھا کہ لوگ ان کو حضرت کا گھر والا سمجھتے تھے، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ، بہت بڑے عالم صحابی تھے، تو انہوں نے فرمایا: ہم میں سے کوئی ایسا نہیں جس کو خیال نہ آتا ہو، لیکن اس کو توکل کے ذریعہ سے بھگا دیتے ہیں۔ خیال آنا یہ کوئی برا نہیں ہے مثلاً انسان کو خیال آجائے کہ کہیں ایسا نہ ہو، ٹھیک ہے آجائے خیال کوئی مسئلہ نہیں، لیکن آپ فوراً کہہ دیں: نہیں ایسا کوئی نہیں۔ بس یہ توکل ہے، نہیں ایسا کوئی نہیں ہے، جب اللہ نہیں چاہے گا تو کیا ہوگا، خدا چاہے گا تو بے شک ہم نہ بھی چاہیں پھر بھی ہوجائے گا اور خدا نہیں چاہے گا تو بے شک ہزار دفعہ لوگ کہیں تو پھر بھی کچھ نہیں ہوگا، بس یہی بات ہے۔ تو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم میں سے اکثر کو یہ خیال آتا تھا، کیونکہ مشہور تو تھا ناں، اس کا مطلب ہے صفر کی بات آج کی بات نہیں ہے، یہ بہت پہلے سے چلی آرہی ہے، تو آپ ﷺ نے بھی یہ فرمایا: ’’لَا صَفَرَ‘‘ (صحیح مسلم: 5794) یعنی صفر میں کوئی مسئلہ نہیں ہے‘‘۔

تو بس ٹھیک ہے ہم لوگ بھی کہیں گے صفر میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اس وقت بھی یہ بات تھی۔ پھر یہ فائدہ میں لکھتے ہیں: جو بات مشہور ہو اس کا خیال وقت پر آہی جاتا ہے۔ لوگوں کی باتوں سے انسان اثر لیتا ہے۔ لیکن اس حال پر عمل کرنا اس کو دل میں جمانا جائز نہیں ہوگا، بلکہ توکل کے خیال سے اس باطل خیال کو رفع کردیا جائے، آدمی کہہ دے کہ اللہ نہیں چاہے گا۔ ایک اور بات بھی ہوتی ہے جیسے بعض لوگ کہتے ہیں فلاں مہینے میں شادی نہیں کرنی، اتوار کے دن یہ کام نہیں کرنا۔ یہ عورتوں میں زیادہ مشہور ہے۔ ہاں جی! فلاں جگہ مہمان گئے تو اس کے پیچھے جھاڑو نہ ماریں یعنی گھر سے کوئی باہر جائے ناں تو اس کے پیچھے جھاڑو نہ ماریں۔ ہمارے گاؤں میں ایک عورت تھی تو اس کا ظاہر ہے بیٹا باہر جارہا تھا تو اس کی بہو کو خیال نہیں ہوا تو اس نے جھاڑو مارا، جھاڑو مارا ناں گھر میں، تو اس پر اس نے گرم پانی اس کے سر کے اوپر ڈال دیا۔ اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ۔ ایسے ظالم لوگ ہیں۔ کیونکہ آپ نے میرے بیٹے کے پیچھے جھاڑو ماری اس کا مطلب ہے اس کو نقصان ہوجائے گا۔ اول ایک غلط خیال اور اس کا نتیجہ کیا؟ اتنا بڑا ظلم کیا، تو یہ چیزیں عورتوں میں مشہور ہوتی ہیں اور یہ بیان عورتوں کی طرف بھی جارہا ہے، مطلب ایسا نہیں کہ میں صرف آپ سے کہہ رہا ہوں، یہ بیان بہت دور جارہا ہے۔ تو لوگ جو سنتے ہیں وہ ما شاء اللہ اس کو ظاہر ہے جان لیں گے۔ تو یہ بات ہے کہ کبھی بھی ایسے شرکیہ خیالات جو آتے ہیں ان کی پروا نہیں کرنی چاہئے، بس صرف اتنا کام ہے پروا نہیں کرنی چاہئے، تبلیغ ہر ایک کا کام نہیں ہے وہ ہر ایک نہیں کرسکتا، اس کے لئے کچھ طریقۂ کار کی ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ بعض لوگ جھگڑے شروع کرلیتے ہیں، لرائیاں شروع کرتے ہیں۔ نہیں! یہ لڑائیوں کی چیز تو ہے نہیں، سمجھانے کی چیز ہے اور پیار سے سمجھانے کی چیز ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ پاک نے جب پیغمبری عطا فرمائی تو فرمایا کہ فرعون کے پاس جاؤ اور اس سے نرم زبان سے بات کرنا، نرمی سے بات کرنا۔ اب فرعون سے برا آدمی کوئی ہوگا اس وقت؟ فرعون سے برا تو کوئی نہیں ہوسکتا آج کل، اور موسیٰ علیہ السلام سے بڑا آدمی کوئی ہوگا؟ وہ بھی نہیں ہوسکتا، تو موسیٰ علیہ السلام جیسے اولو العزم پیغمبر کو اللہ پاک فرماتے ہیں کہ فرعون سے نرم زبان میں بات کرنا، تو ہم اپنے بھائی سے سخت زبان میں بات کریں گے تو کام ہوجائے گا؟ نہیں! ایسا نہیں ہے، پیار سے سمجھانا چاہئے، طریقہ کار ہے۔ حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ اُس وقت بچے تھے اور ایک بڑی عمر کا صاحب ان کے قریب بیٹھ کر وضو کررہا تھا، تو وضو ٹھیک نہیں کررہا تھا، ظاہر ہے نیا نیا دین آیا تھا تو بہت سارے لوگوں کو پتا بھی نہیں تھا تو وضو صحیح نہیں کررہا تھا، اب امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اگر اس کو فوری کہہ دیتے کہ آپ غلط وضو کررہے ہیں، اس کا نتیجہ کچھ اور ہوسکتا تھا، تو انہوں نے کیا کیا؟ فرمایا: چچا جان ذرا آپ مجھے دیکھیں میں کبھی کبھی وضو میں غلطی کرسکتا ہوں، تو آپ مجھے ذرا دیکھیں کہ میں وضو کیسے کرتا ہوں؟ کوئی غلطی ہو تو مجھے بتا دیں۔ انہوں نے کہا بیٹا! کرلو۔ تو انہوں نے ان کے سامنے پورا وضو کرلیا، وہ صاحب آخر مخلص تو تھے، انہوں نے کہا بیٹا آپ کا وضو صحیح ہے میرے وضو میں مسئلہ ہے ان شاء اللہ میں پھر ٹھیک کرلوں گا، پھر میں ٹھیک کرلوں گا۔ یہ طریقہ ہے۔ اب یہ بھی ایک طریقہ تھا سمجھانے کا اور وہ بھی طریقہ جیسے ہمارے ہاں آج کل ہے کہ کوئی نیا آدمی بے شک آجائے نماز کے لئے مثلاً اتنا زیادہ نہ آتا ہو مسجد میں اور وہ وضو کررہا ہو، مثلاً وضو میں کوئی مسئلہ ہو اس کا، سمجھ نہ ہو یا بھول جاتا ہو، بھول جانا بھی ہوتا ہے، تو کیسے سمجھاتے ہیں؟ یہ ابھی تک یہ طریقہ نہیں آیا؟ یہ کس طرح وضو کرتے ہو؟ بس لڑائی، خواہ مخواہ مصیبت۔ تو اس طرح نہیں ہے، پیار سے مطلب طریقہ سے سمجھانا چاہئے۔ تو اس وجہ سے میں عرض کرتا ہوں کہ یہ جو توہمات ہیں، توہمات سے بہت کچھ بگڑتا ہے، ہمارا دین بہت خالص ہے، جیسے میں نے پہلے عرض کیا، یہ اس کا یعنی سارا دار و مدار جو ہے وہ یا تو قرآن پر ہے، یا پھر سنت رسول پر ہے۔ لہٰذا جب کبھی اختلاف ہو کوئی نہ سمجھتا ہو تو لڑنے کی ضرورت نہیں ہے، (بلکہ) چلو دیکھ لیتے ہیں، دیکھ لیتے ہیں قرآن کیا کہتا ہے، سنتِ رسول کیا کہتی ہے، بڑوں سے پوچھ لیتے ہیں۔ میں وہاں پڑھتا جرمنی میں تو عرب حضرات ہمارے ساتھ ما شاء اللہ بہت زیادہ ہوتے تھے، علمی اختلاف بھی ہوتا ہے، ہوتا ہے اور یہ علماء میں بھی ہوتا ہے، کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے، صحابہ کرام میں بھی علمی اختلاف ہوا کرتا تھا اجتہادی اختلاف، تو کبھی بات میں اختلاف ہوجاتا تو عرض کرلیتے ما شاء اللہ ’’ھٰذَا رَأْیُکَ وَھٰذَا رَأْیِیْ، مُمْکِنٌ اَنْتَ صَحِیْحٌ مُمْکِنٌ اَنَا صَحِیْحٌ‘‘۔ اچھا ما شاء اللہ! یہ آپ کی رائے ہے اور یہ میری رائے ہے، ممکن ہے آپ صحیح ہوں ممکن ہے میں صحیح ہوں۔ چلو اس پر بات کرلیتے ہیں، سبحان اللہ! کوئی لڑائی نہیں۔ ہاں جی! بلکہ ایک دفعہ ایسا ہوا بالکل میرے واپسی آنے کے دن تھے بیٹھا ہوا تھا تو میں نے اچانک کہا: یَا اِخْوَانَ الْعَرَبِ نَحْنُ نُحِبُّکُمْ۔ وہ متوجہ ہوگئے کہ کیا کہنا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا: آپ کے ساتھ ہم محبت کرتے ہیں اےعرب بھائیو۔ کیونکہ آپ ﷺ نے فرمایا ہے عربوں کے ساتھ محبت کرو کیونکہ میں عرب ہوں، قرآن کی زبان عربی ہے اور اہل جنت کی زبان عربی ہوگی۔ تو آپ کے ساتھ ہم محبت کرتے ہیں۔ کہتے ہیں: ما شاء اللہ! بہت اچھا ہے، لیکن فوراً میں نے کہا: لیکن اگر ایک طرف آپ ہوں اور ایک طرف آپ ﷺ ہوں تو ہم آپ ﷺ کے ساتھ ہوں گے تمھارے ساتھ نہیں ہوں گے۔ اب وہ بڑے حیران ہوگئے کہ یہ کیا بات ہے یعنی ہم آپ ﷺ کے ساتھ کیسے نہیں ہوں گے؟ میں نے کہا آپ کا جو یہ لباس ہے کہو کیا یہ مسنون لباس ہے؟ وہ پہنتے ہیں ناں یہاں تک جو ہوتا ہے، میں نے کہا کیا یہ مسنون لباس ہے؟ بس فوراً سمجھ گئے۔ کہتے ہیں شیخ بس ہم آپ سے یہی باتیں چاہتے ہیں، آپ اس طرح ہی باتیں کرلیا کریں، فوراً انہوں نے اپنی غلطی مان لی۔ مطلب یہ ہے کہ محبت کے ساتھ بات کرو تو محبت کے ساتھ بات کا اثر ہوتا ہے۔ تو یہ جو توہمات ہیں ان کو بھی دور کرنے کا طریقہ ہمارے پاس کیا ہے؟ محبت کے ساتھ سمجھانا، مثلاً ہمارے گھروں میں یہ مسئلہ تھا کہ کوا جب بولتا ہے تو مہمان آتے ہیں، ٹھیک ہے بہت عرصہ سے چلا آرہا تھا، تو میں نے کہا اس کا ٹیسٹ تو بہت آسان ہے آپ ایک نوٹ بک ایک شخص کو دیں جو صرف یہ نوٹ کرے کہ کوا کب کب بولا ہے تاریخ اور وقت نوٹ کرلیں اور دوسرا آدمی جب جب مہمان آئے تو اس کو نوٹ کرے کہ فلاں تاریخ کو فلاں وقت پہ مہمان آئے اور ایک مہینے کے بعد کھول کے آپس میں مقابلہ کرلیں کہ مہمان کب آیا تھا اور کوا کب بولا تھا، پتا چل جائے گا، اس سے وہ چیز بہت جلدی رخصت ہوگئی ختم ہوگئی، اب کوئی بھی اس پر یقین نہیں کرتا۔ ہاں جی! اس طرح بہت ساری باتیں جو ہمارے ہاں مشہور ہیں اور وہ غلط ہیں، تو ایسی باتوں پر یقین نہیں کرنا چاہئے، ہمیں صاف ستھرے دین پر چلنا چاہئے اور صاف ستھرا دین اللہ نے جو بھیجا ہے آپ ﷺ کے ذریعہ سے اور آپ ﷺ نے جو تعلیمات صحابہ کرام تک منتقل کی ہیں اور انہوں نے اس پر جیسے عمل کیا، بس ہم بھی اس طرح عمل کریں۔ ایک صحابیٔ رسول ﷺ کسی دور جگہ تشریف لے گئے تھے مہمان تھے اور کھانے کا وقت تھا، کھانا آگیا، تو جب کھانا آگیا تو اس صحابی سے نوالہ گر گیا، تو اس پر انہوں نے چاہا کہ سنت کے مطابق اس کو صاف کرکے کھا لیں، کسی نے کان میں کہا: حضرت! یہ لوگ اس چیز کو اچھا نہیں سمجھتے، یعنی جو لوگ وہاں بیٹھے ہوئے تھے۔ تو صحابی رسول ﷺ یا تو خفیہ طور پہ چھپ کے کھا جاتا عادت کے مطابق، لیکن حضرت نے کیا کیا اس کو اس طرح لہرا کے کہ ان بیوقوفوں کے لئے ہم حضور ﷺ کی سنت کو چھوڑیں گے اور پھر اس کے بعد اس کو کھا لیا۔ مقصد یہ تھا کہ ان صحابہ کرام نے ایک ایک چیز کی حفاظت کی، ایک ایک چیز کی حفاظت کی، اور ہر اس چیز کو منع فرما دیا جو دین میں نہیں تھی اور دین کے طور پہ مشہور تھی، جو دین کے طور پہ مشہور ہو اور دین نہ ہو اس کو کیا کہتے ہیں؟ بدعت۔ اس پہ بعض لوگ لڑتے ہیں بھئی بدعتی! خدا کے بندے لڑو نہیں سمجھو کہ بدعت ہے کیا چیز؟ ہر نئی چیز بدعت نہیں ہے، مثلاً آج کل ہم سب لوگ جہاز میں سفر کرتے ہیں، تو یہ بدعت ہے؟ یہ بدعت نہیں ہے کیونکہ جہاز میں جانا عبادت تو نہیں ہے ناں نہ دین کی کوئی بات ہے، کافر بھی جہاز میں جاتے ہیں، مسلمان بھی جہاز میں جاتا ہے۔ لہٰذا وہ کوئی بدعت کی بات نہیں ہے، لیکن اگر آپ نے دین کے اندر کوئی نئی بات نکالی جو دین میں نہ ہو اور آپ اس کو دین سمجھ رہے ہوں تو پھر وہ بدعت ہوگی۔ تو ایسی چیزوں سے بچنا چاہئے۔ صحابہ کرام باقاعدہ دیکھیں ناں ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ، جس طرح میں نے ذکر کیا، بڑی عجیب بات فرمائی، فرمایا: امام جس وقت نماز ہوجائے، وہ دائیں طرف سے بھی پھر کر نمازیوں کی طرف رخ کرسکتے ہیں اور بائیں طرف سے بھی پھر کر، دونوں طرف سے اجازت ہے لیکن اگر اس نے دائیں طرف پھرنا اپنے لئے لازم کردیا کہ صرف دائیں طرف پھرتا ہے بائیں طرف نہیں پھرتا، اس نے اپنی نماز میں شیطان کا حصہ بنا لیا۔ اب سنو کیا مطلب؟ چونکہ ہم نے آپ ﷺ کو بعض دفعہ دائیں طرف سے پھرتے ہوئے دیکھا ہے یعنی بائیں طرف بھی پھرتے دیکھا ہے، تو جو کام آپ ﷺ نے کیا ہو آپ اس کو غلط تو نہیں قرار دے سکتے، ہاں! ٹھیک ہے آپ ساری عمر بے شک دائیں طرف (پھریں) لیکن آپ لازم نہ کریں کیونکہ بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے صرف دائیں طرف ہی پھرتے ہیں اور بعض لوگ صرف بائیں طرف ہی پھرتے ہیں، عادت ہوتی ہے، تو عادت کا مسئلہ کوئی نہیں کیونکہ اس میں عقیدہ شامل نہیں ہے، وہ صرف انسان کی طبیعت ہے، لیکن اگر عقیدہ شامل ہوجائے کہ نہیں! یہ اس طرح ہے، اس کو دین سمجھا جائے تو پھر دیکھنا پڑے گا کہ آیا وہ دین ہے یا نہیں ہے۔ تفصیلات بہت ہیں لیکن چونکہ وقت ختم ہوگیا ہے میں زیادہ بات نہیں کرسکتا، اصول سمجھنا چاہئے، وہ یہ ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: گزشتہ امتوں میں یہود میں اکہتر فرقے بن گئے تھے نصاریٰ میں بہتر ہوگئے تھے، میری امت میں عنقریب تہتر ہوجائیں گے، لیکن صرف ایک نجات پائے گا۔ صحابہ کرام نے پوچھا یارسول اللہ وہ کون نجات پائیں گے؟ فرمایا:

’’مَا اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْ‘‘ (سنن ترمذی: 2641)

ترجمہ: ’’جس پر میں چلا ہوں اور جس پر میرے صحابہ چلے ہیں‘‘۔

یعنی میرا طریقہ اور میرے صحابہ کا طریقہ، یہ جو ہے ناں یہ صحیح ہے، اس کے علاوہ باقی کسی کا کوئی طریقہ جو ہے وہ ٹھیک نہیں ہے۔ تو اب دیکھ لیں ہمارے پاس اصول آگیا کہ ہم لوگ اللہ کی بات کو حضور سے سیکھیں اور حضور کی بات کو صحابہ کرام سے سیکھیں، کہ حضور ﷺ کس سنت کو صحابہ کرام نے کیسے اس پر عمل کرلیا، اگر یہ اصول ہمارا زندہ ہے تو ہمیں کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اور اگر اس اصول میں ہماری گڑبڑ ہوگئی تو پھر مسائل بہت زیادہ ہیں۔ اللہ جل شانہٗ ہم سب کو ہمیشہ حق پر قائم رکھے اور جو سچ ہے اور حق ہے ہمیں اس کے ساتھ کردے اور جو باطل ہے اس سے ہمیں ہر صورت میں بچائے۔ ایک دعا ہے میں بھی کرتا ہوں آپ لوگ بھی اس کو سیکھیں، استاد جی سے میں عرض کروں گا کہ وہ ہم سب کو سیکھائے کہ آج کل اس کی بڑی ضرورت ہے۔

’’اَللّٰھُمَّ اَرِنَا الْحَقَّ حَقّاً وَّارْزُقْنَا اتِّبَاعَهٗ وَاَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلاً وَّارْزُقْنَا اجْتِنَابَهٗ‘‘۔

ترجمہ: ’’اے اللہ مجھے حق حق دیکھا دے اور اس پر چلنے کی توفیق عطا فرما اور باطل باطل دیکھا دے اور اس سے بچنے کی توفیق عطا فرما‘‘۔

وَمَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِیْنُ