اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر 1:
السلام علیکم۔ بھائی!
How are you? Is the highest form of معرفت through witnessing جمع and فرق?
جواب:
You have asked me about the highest. I think no one can know the highest because it's a continuous process and the معارفت is increasing day by day because of عبدیت.
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ says that because of معرفت ,عبدیت is increasing and because of عبدیت ,معرفت is increasing and it's a continuous cycle which ends at the death of عارف. When he meets اللّٰہ سبحانہ و تعالیٰ in that معارفت which he reaches at the time of death and his عبادت is completed. Therefore, we cannot say that the highest rank is this but it's increasing day by day.
سوال نمبر 2:
السلام علیکم۔ شیخ محترم! میری دعا ثنا جو نماز میں پڑھی جاتی ہے، اس کا مراقبہ مکمل ہو چکا ہے۔ شیخ محترم! مجھے 30 سپاروں کے مراقبے کے ساتھ جو عملی کام آپ بتاتے ہیں، اس کے مطابق میرا حال اچھا نہیں ہے، جیسا کہ اس بار آپ نے مجھے مصیبت کی تشکیل پر صبر کی تلقین کی تھی، تو میرے حالات اس ماہ ایسے مشکلات والے بن گئے تھے، لیکن میں نے صبر کیا اور تکلیف دینے والوں سے بدلہ لینے کے بجائے اللّٰہ تعالیٰ پر توکل کر کے اس کی مدد کا انتظار اور صبر کیا۔ ساتھ ہی آپ نے عافیت کی دعا مانگنے کی بھی تلقین کی تھی، جب مجھے یاد آتا، تو یہ دعا مانگ لیتی تھی۔ شیخ محترم! مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میرے شیخ advance میں مجھے وہی نصیحت کردیتے ہیں، جو معاملات میرے ساتھ ہونے والے ہوتے ہیں۔ پھر پورا مہینہ صبر کے حالات اور اقوال لگاتار میرے سامنے آتے رہے، جس کی نصیحت آپ نے اس ماہ مراقبہ کے ساتھ کی تھی۔ شیخ محترم! آگے رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
ماشاء اللّٰہ! ثنا والا مراقبہ تو مکمل ہوگیا ہے۔ اب سورہ فاتحہ والا مراقبہ کر لیں یعنی اس کا مفہوم ذہن میں رکھ کر اس کو شروع فرما لیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ شیخ کچھ بھی نہیں ہے، بلکہ یہ تو اللّٰه تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے، شیخ تو صرف ذریعہ ہے، جو استعمال کیا جاتا ہے۔
سوال نمبر 3:
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰه وبرکاتہ۔ حضرت! مجھے رات کو نیند نہیں آتی، اچھی نیند کے لئے جو ضرورت ہے، جیسے نیند کی timing، چائے، کافی وغیرہ سے پرہیز پر عمل کرتا ہوں، پھر بھی نیند صحیح نہیں آتی۔ میں چونکہ PhD کر رہا ہوں، لیکن اس میں زیادہ اچھی progress نہیں ہو رہی، اس کی بھی tension لگی رہتی ہے۔ ایک دفعہ آنکھ لگ جائے تو دو تین گھنٹے کے بعد کھل جاتی ہے، PHD کے کام کے بارے میں خیالات آنا شروع ہوجاتے ہیں کہ یہ نہیں کیا تو وہ نہیں ہوا، supervise کیا کہے گا وغیرہ وغیرہ۔ اب جبکہ نیند پوری نہیں ہوتی، تو اگلے دن کام بھی صحیح نہیں ہوتا، tension مزید آگے بڑھ جاتی ہے۔ اس سلسلے میں رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
بھائی صاحب! اسی کے لئے تو تفویض ہے۔ اگر تفویض آپ میں آجائے تو پھر آپ کو tension نہیں رہے گی۔ جو کام ہونا ہوگا، وہ ہوگا، بس آپ نے اپنی محنت نہیں چھوڑنی، ہمت نہیں چھوڑنی، لیکن نتیجہ خدا پر چھوڑنا ہے۔ اگر ایسا ہوجائے، تو پھر آپ کی tension ختم ہوجائے گی، ورنہ یہ tension بڑھتی جائے گی۔ لہٰذا آپ اللّٰہ پر بھروسہ کر کے ان چیزوں کا جو ٹائم ہوتا ہے، اس میں آپ اس کے بارے میں سوچیں اور جس وقت وہ ٹائم گزر جائے، اور کسی اور کام کا ٹائم ہوجائے، جیسے نماز کا وقت ہے، کھانے کا وقت ہے، سونے کا وقت ہے، تو اس میں بس آپ ﴿وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْۤ اِلَى اللّٰهِؕ اِنَّ اللّٰهَ بَصِیْرٌۢ بِالْعِبَادِ﴾ (المؤمن: 44) پڑھ کر سب کچھ اللّٰه کے حوالے کردیا کریں۔ ہماری website پر مثنوی شریف کا پورا ایک folder ہے، اس کو دیکھ لیں، اس پہ ہمارے لکھے ہوئے ہوتے ہیں۔
سوال نمبر 4:
السلام علیکم۔ حضرت جی! میں جب خانقاہ آتی ہوں، تو کچھ دنوں تک اپنے اندر نور محسوس کرتی ہوں، کسی دنیاوی چیز میں دل نہیں لگتا، بس دل چاہتا ہے کہ خانقاہ چلی جاؤں اور بس آپ کا بیان سنتی رہوں، لیکن کچھ دن گزر جانے کے بعد وہ چیز ختم ہوجاتی ہے اور وہی دنیاوی باتیں اور دنیاوی کاموں میں لگ جاتی ہوں۔ بہت کوشش کی کہ خانقاہ چلی جاؤں اور آج کا بیان سنوں، لیکن میری بچی بیمار ہے، اس لئے نہیں جا سکی۔ جس حالت میں جانا مشکل ہو، جبکہ یہ بھی پتا ہو کہ میرا علاج ہی اس سے ہوگا یعنی خانقاہ جانے سے، لیکن حالات کی وجہ سے نہ جا پاؤں، تو کیا کروں؟ تاکہ وہ نور جو خانقاہ جا کر دل میں محسوس ہوتا ہے، اس سے محروم نہ ہوجاؤں۔
جواب:
اصل میں یہ تو ہوتا ہے۔ ایک فیض ہوتا ہے انعکاسی اور دوسرا ہوتا ہے القائی۔ القائی فیض لینے کے لئے جو معمولات آپ کو بتائے جائیں وہ اچھی طرح پورے کر لیا کریں، اور جو بیانات online ہوتے ہیں، ان کو سن لیا کریں۔ لیکن جب انعکاسی فیض کی ضرورت ہو، جو خانقاہ میں ملتا ہے، تو پھر اس کے لئے خانقاہ آجایا کریں، کوشش کر لیا کریں کہ آپ خانقاہ آسکیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللّٰه پاک نے جو اس میں رکھا ہے یعنی جیسے پانی میں اللّٰه پاک نے صفت رکھی ہے، آگ میں صفت رکھی ہے، اسی طرح خانقاہ میں بھی اللّٰہ پاک نے ایک صفت رکھی ہے، بلکہ اس کے بارے میں تو ہمارے ایک ساتھی بتا رہے ہیں کہ میرا ایک دوست خانقاہ آیا۔ ہماری خانقاہ میں پہلے یہ ہوتا تھا کہ جو لوگ خانقاہ میں وقت گزارنے والے ہوتے تھے وہ ایک کمرے میں لوگ سوتے تھے اور ایک کمرے میں ذکر ہوتا تھا۔ تو اس نے دونوں کمروں میں لے جا کر کہا کہ آپ کو کیا محسوس ہو رہا ہے؟ حالانکہ ان کو علم نہیں تھا کہ کون سے کمرے میں ذکر ہوتا ہے اور کون سے کمرے میں سویا جاتا ہے۔ تو جب ان سے پوچھا تو انہوں نے ذکر والے کمرے کا کہا کہ اس میں خوشی محسوس ہوتی ہے اور دل لگتا ہے، اور دوسرے کمرے میں یہ کچھ نہیں ہے۔ انہیں کہا کہ بس آپ نے ٹھیک سوچا ہے۔ لہٰذا یہ ذکر کے اثرات ہیں، اس میں کوئی شک نہیں، کیونکہ ذکر کے اثرات، معمولات کے اثرات خانقاہ لے لیتی ہے اور پھر خانقاہ میں جو بعد میں لوگ آجاتے ہیں، ان کو فیض ادھر سے ملتا ہے۔ جیسے concrete دن میں گرم ہوتا ہے اور رات کو گرمی چھوڑتا ہے، اسی طرح سلسلہ چلتا رہتا ہے، لیکن بہرحال آپ کے لئے یہ بات ہے کہ القائی فیض آپ کو جو ملتا ہے، وہ معمولات سے ملتا ہے اور جو بیان سنتے ہیں اس سے ملتا ہے، لیکن انعکاسی فیض کے لئے تو یہی کرنا ہوتا ہے۔
سوال نمبر 5:
السلام علیکم۔ حضرت! میں لاہور سے فلاں عرض کر رہا ہوں۔ آپ نے میرا ذکر جہری ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ 200، ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ 400، ’’حَقْ‘‘ 600 کے ساتھ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ 11 ہزار تک بڑھایا تھا، جس کو الحمد للّٰہ! ایک مہینہ ہوگیا ہے۔ اس ماہ بیٹے کی بیماری اور دنیاوی مصروفیات کی زیادتی تھی، جس کی وجہ سے میرے احوال بہت منتشر رہے ہیں، ذکر کی گنتی اکثر رات سوتے جاگتے میں پوری کی یا چھٹی کے دنوں میں، اکثر اگلی صبح اٹھ کر مکمل کی، اکثر فجر بغیر جماعت کے گھر میں پڑھی اور 2 دفعہ قضاء بھی ہوئی اور اس دفعہ ذکر کے علاوہ online بیان سنتے وقت بھی دھیان بھٹکا رہتا تھا۔ اس کے علاوہ مجھے خود نمائی کا شدید خیال رہتا ہے۔
جواب:
اللّٰہ جل شانہٗ آپ کے بیٹے کو صحت عطا فرمائے۔ یہ جو بیماری ہوتی ہے، یہ اضطراری مجاہدہ ہوتا ہے اور اس میں اللّٰه تعالیٰ بہت ترقی دیتے ہیں، لیکن اپنے معمولات نہیں چھوڑنے چاہئیں تاکہ وہ متأثر نہ ہوں، البتہ اس کے اپنے فوائد ہیں، ان کو حاصل کرنا چاہئے۔
سوال نمبر 6:
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ۔ حضور! کل میرے ذکر کو ایک ماہ مکمل ہوگیا تھا۔ ذکر 200، 400، 600 اور 1500 ہے۔ ابھی میں قطر میں اپنے پوتے کی پیدائش پر آیا ہوں۔ دعا فرما دیں کہ اللّٰہ پاک اس زکریا کو نیک بنائے اور دراز عمر اور صحت عطا فرمائے۔ میرے لئے اب کیا حکم ہے؟ حضور! تمام مریضوں سمیت میرے لئے صحت یابی اور ایمان وصحت کی دعا کی درخواست ہے۔ اللّٰہ پاک میرے لئے ذکر میں آسانی عطا فرمائے۔ آپ کی دعاؤں کا طالب۔
جواب:
اب 200، 400، 600 اور 2 ہزار مرتبہ آپ کر لیا کریں۔ اللّٰه تعالیٰ آپ کے پوتے کو ماشاء اللّٰہ! صحت بھی عطا فرمائے اور عمر، علم اور عمل یہ سب کچھ عطا فرمائے اور اس کو آپ کے لئے زبردست نیکیوں کا ذریعہ بنا دے، اور اللّٰه تعالیٰ سارے مریضوں کو صحت عطا فرمائے۔ اللّٰہ پاک آپ کو، ہم کو اور سب کو دنیا سے ایمان کے ساتھ رخصتی کے لئے قبول فرمائے۔ اصل میں یہ ہم سب کی ضرورت ہے۔ آپ میرے لئے دعا کیا کریں، میں آپ کے لئے دعا کروں گا۔
سوال نمبر 7:
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! میں فلاں بات کر رہا ہوں جہلم سے۔ ان شاء اللّٰہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ حضرت جی! میں نے کچھ دن پہلے آپ کو بتایا تھا کہ ہر وقت موت کا خوف رہتا ہے، اس کی وجہ سے میں کافی سارے گناہوں سے بچ جاتا ہوں، جب گناہ کا دل میں خیال آئے تو دل بہت بھاری ہوجاتا ہے، لیکن ایک گناہ ایسا ہے جس کی وجہ سے بہت پریشان ہوں، جو جوانی میں ہوتا تھا، وہ ابھی بھی بار بار ہوجاتا ہے۔ جب بھی ہوتا ہے، تو اللّٰه تعالیٰ سے معافی مانگتا ہوں، آئندہ نہ کرنے کی توبہ کرتا ہوں، لیکن توبہ ٹوٹ جاتی ہے۔ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں کہ کیسے چھوڑوں۔
جواب:
خانقاہ تشریف لے آئیں۔
سوال نمبر 8:
Two hundred four hundred six hundred four thousand
والا ذکر مکمل ہوگیا ہے۔ اگلا ذکر ارشاد فرمائیں۔
جواب:
The last will be four thousand five hundred times.
سوال نمبر 9:
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ۔ میرا نام فلاں ہے۔ حضرت جی! جنوری 2022 میں آپ سے بیعت کی اور سبق 2، 4، 6 ہزار تک چلا گیا تھا، اس دوران ذکر قلبی بھی محسوس کیا تھا، تہجد میں بھی دل لگتا تھا اور تہجد بلاناغہ پڑھ رہا تھا، لیکن پھر تہجد کی توفیق ختم ہوگئی، اس کے بعد ذکر میں بھی ناغے شروع ہوگئے۔ آخر ذکر 2، 4، 6 ہزار ہے، اس کے بعد سے اب تک ڈیڑھ سال ناغے چل رہے ہیں۔ اس درمیان میں نے کوشش کی تھی کہ ذکر دوبارہ شروع کروں، لیکن دوبارہ ناغے شروع ہوگئے۔ ہفتے کے جوڑ میں آپ کے پاس آتا ہوں۔ اب تقریباً دو مہینے سے تہجد پڑھ رہا ہوں، کبھی کبھی تہجد میں ناغہ بھی ہوجاتا ہے۔ اب سنجیدگی سے ذکر دوبارہ شروع کرنے کا ارادہ ہے۔ کیا ذکر 2، 4، 6 ہزار سے شروع کردوں؟ رہنمائی فرما دیں۔
جواب:
اللّٰہ تعالیٰ استقامت دے دے۔ اب 2، 4، 6 ہزار سے آپ شروع کر لیں۔ یہ بات ہے کہ یہ آپ کو بہت پہلے بتانا چاہئے تھا، لیکن خیر، ابھی آپ کو تجربہ ہوگیا ہے کہ نہ بتانے سے کیا نقصان ہوتا ہے۔ لہٰذا آپ 2، 4، 6 ہزار شروع کر لیں اور تہجد باقاعدگی کے ساتھ پڑھ لیں۔ یہ اعمال مجاہدہ بھی ہے اور ذکر بھی۔
سوال نمبر 10:
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ۔ میرا نام فلاں، بنت فلاں، شہر فلاں اور تعلیم فلاں ہے۔ شیخ محترم! میں آپ کی سالکہ ہوں، روزانہ کی تسبیحات و اذکار کے ساتھ تیسرا مراقبہ تجلیات صفاتیہ شیوناتِ ذاتیہ کا سبق ہے۔ میرا سبق ابھی continue ہے۔ آج میں نے ایک درخواست کے لئے یہ message کیا ہے۔ درخواست یہ ہے کہ میری بہن (فلاں) اس کو یہ ہوگیا ہے۔ رپورٹ 14 فروری کو آئے گی۔ شیخ محترم! آپ دعا فرمائیں کہ میری بہن کی ساری رپورٹس اچھی آئیں، اس کو کسی قسم کا کوئی مسئلہ یا بیماری نہ ہو۔ please دعا کریں، میرا دل بہت ڈرا ہوا ہے اور پریشان ہے۔
جواب:
اللّٰہ جل شانہٗ آپ کی بہن کو صحت کاملہ عاجلہ مستمرہ عطا فرما دے۔ باقی آپ کا جو مراقبہ ہے وہ تجلیات صفات شیونات ذاتیہ نہیں ہے، بلکہ اصل میں آپ دو مراقبوں کو mix کر رہی ہیں۔ ایک ہے تجلیاتِ افعالیہ، دوسرا ہے صفاتِ ثبوتیہ، تیسرا ہے شیونات ذاتیہ، لیکن آپ کا شیونات ذاتیہ کا سبق ہے۔ اصل میں شان سے صفت نکلتی ہے۔ صفات کا مراقبہ آپ نے کیا ہے، اب شان کا مراقبہ کرنا ہے یعنی اس کا جو فیض ہے، اس کا تصور کریں کہ اس کا فیض اللّٰه تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کی طرف آرہا ہے، آپ ﷺ کی طرف سے شیخ کی طرف اور شیخ کی طرف سے آپ کے لطیفۂ سر کے اوپر آرہا ہے۔ یہ آپ کا سبق ہے، اس کو پکا کر لیں۔
سوال نمبر 11:
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ۔ 17 فروری بروز ہفتہ کو فلاں صاحب کے گھر جوڑ ہے۔ میں آپ سے جوڑ میں شرکت کی اجازت چاہتا ہوں۔
جواب:
بالکل آپ تشریف لے جاسکتے ہیں۔ یہاں پر text بھیجا کریں، یہ پہلے بھی شاید کہا ہوگا۔ اس پر جواب audio میں دیا جاتا ہے، کیونکہ text پڑھا جاسکتا ہے اور audio سب کو سنائی نہیں جاسکتی۔
سوال نمبر 12:
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ۔
I pray that you are in the best of health. الحمد للّٰہ I have completed my first forty days of the three hundred and two hundred times, third کلمہ. Please tell me what to do next? Keep me in your duas.
جواب:
Now ماشاء اللّٰہ you have completed it. Congratulations for this. And now you should do the complete third کلمہ hundred times, صلوٰۃ علی النبی یعنی درود شریف hundred times and استغفار hundred times. This will be once in a day and every day you have to perform it. And all the ذکر which is after صلوۃ given to you, you have to do it. Besides this, hundred times ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ hundred times ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ hundred times ’’حَقْ‘‘ and hundred times ’’اَللّٰہ‘‘ .This all is ذکر جہری. You should do this as we are doing it and you have already done it with us.You should do it daily while sitting with concentration for one month ان شاء اللّٰہ .
سوال نمبر 13:
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ۔
I pray you are well dear شیخ. I just wanted to ask the question that when we have guests, how should we balance our معمولات while doing their اکرام? I have heard of a شیخ who would decrease all his معمولات when a guest would come but then there is a story of حضرت شیخ زکریا رحمۃ اللّٰہ علیہ visiting in رمضان. So I was confused
جواب:
Okay. Actually this was حضرت مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ والی جو بات ہے وہ رمضان شریف کی ہے۔ ظاہر ہے کہ رمضان شریف کے معمولات کسی طرح نہیں چھوڑے جاسکتے، وہ حضرات چونکہ مقتدا تھے، تو وہ سب کے لئے ایک سبق تھا اور آج ہم اس سبق سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ لہٰذا حضرت نے ایسا کیا۔ مہمان کا اکرام یقیناً ہے، لیکن اس کے لئے معمولات نہیں چھوڑنے چاہئیں، بلکہ اس طرح کام کرنا چاہئے کہ معمولات بھی ہوں اور اکرام بھی ہو۔ کیونکہ اکرام مسلسل بیٹھنے کو نہیں کہتے، بلکہ اکرام اس کو کہتے ہیں کہ اس کی جو ضروریات ہیں ان کا خیال رکھا جائے اور ان کی خدمت کا پورا انتظام ہو۔ یہ کر کے انسان فارغ بھی ہوسکتا ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے یہاں بھی مہمان آتے تھے، لیکن سارا کام کرتے تھے، بلکہ میں آپ کو ایک بات بتاؤں، حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے پاس حضرت شیخ الہند رحمۃ اللّٰہ علیہ تشریف لائے، جو ان کے استاذ تھے۔ حضرت نے اپنے استاذ کی بہت خدمت کی، لیکن جب وہ وقت آگیا جس میں حضرت کچھ لکھتے تھے، تو فرمایا حضرت! اس وقت میرا کچھ لکھنے کا معمول ہے، کیا آپ اجازت دیں گے کہ میں اس کو لکھ لوں؟ حضرت نے بھی فوراً فرمایا کہ کیوں نہیں، بالکل جاؤ۔ لہٰذا انسان ادب کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہے، اور یہ سارے کام ماشاء اللّٰہ ہوجاتے ہیں، بشرطیکہ اس کے لئے ترتیب بنا دی جائے۔ balance اسی کو کہتے ہیں، مطلب یہ ہے کہ ساتھ ساتھ کاموں کو کرنے کی ترتیب، جیسے حضرت شیخ رحمۃ اللّٰہ علیہ سارے کام کیا کرتے تھے، اور ماشاء اللّٰہ اپنی اپنی جگہ پر کرتے تھے۔ معمولات کے لئے اگر مختلف اعذار کو دیکھا جائے گا، تو آہستہ آہستہ سارے معمولات چھوٹتے جائیں گے، کیونکہ شیطان کا سب سے پہلا وار اسی پر ہوتا ہے، معمولات پہلا چھڑاتا ہے، پھر معمولات سے تعلق چھڑاتا ہے اور پھر تعلق سے تعلق مع اللّٰه چھڑاتا ہے، اس طریقے سے گویا کہ اس کے پیچھے لگا ہوتا ہے۔ اگر آپ نے اس کے لئے معمولات چھوڑنے شروع کیے، تو اس سے پھر معاملہ آہستہ آہستہ خراب ہوتا جائے گا۔ لہٰذا معمولات نہ چھوڑیں، لیکن مہمان کا اکرام بھی ساتھ کردیا کریں، وہ اپنے طور پر لازمی ہے۔
سوال نمبر 14:
السلام علیکم۔ حضرت جی! میرا بجلی کا میٹر بند ہے۔ میں نے اپنے میاں سے کہا کہ براہِ کرم میرے بچے بھی بیمار رہتے تھے۔ اس نے کہا کہ میں بھائی سے کہوں گا تو کوئی جھگڑا کرے گا۔ حضرت! آپ مجھے بتا دیں کہ کیا کروں؟ کیونکہ الگ بھی اس کی آمدنی کی وجہ سے نہیں رہ سکتے۔
جواب:
آپ مجھے ٹیلی فون کر لیں۔ یہ بات اس طرح مختصر نہیں ہے۔ یہ معاملات کی بات ہے اور گھر اور خاندان کی بات ہے، یہ 2، 3 سطروں سے سمجھ میں نہیں آتی، بلکہ اس میں Cross questioning ہوتا ہے۔ لہٰذا ٹیلی فون پر یہ مجھ سے پوچھیں، پھر میں کچھ عرض کرسکتا ہوں۔
سوال نمبر 15:
السلام علیکم۔ حضرت جی! میں لاہور سے فلاں آپ سے مخاطب ہوں۔ حضرت جی! میں کچھ سال پہلے مولانا فلاں صاحب سے ایک دعائیہ مجمع میں بیعت ہوئی تھی، چونکہ وہ مصروف شخصیت ہیں، اس لئے اصلاح کے لئے میرا مستقل رابطہ اور سلسلہ قائم نہیں ہوسکتا تھا۔ حضرت جی! میری دلی خواہش ہے کہ میں سنت رسول ﷺ پر چلتے ہوئے اپنے دل و نفس کی اصلاح کروں اور اس سلسلے میں آپ سے بیعت ہونا چاہتی ہوں۔ میری اس حوالے سے رہنمائی فرما دیں کہ کیا میں آپ سے بیعت ہوسکتی ہوں؟ اور کیسے ہوسکتی ہوں؟
جواب:
دراصل بیعت جو ہوتی ہے، یہ اصلاح کے لئے ہوتی ہے۔ جہاں سے اصلاح ممکن ہو، وہاں بیعت کی جاسکتی ہے۔ مقصد بڑا نام نہیں ہوتا، بلکہ اصل میں کام ہوتا ہے۔ اب اگر بڑے نام کے پیچھے کام ہی چھوٹ جائے تو اس کا کیا فائدہ ہوگا؟ بہرحال اگر آپ کو شرح صدر ہے، آپ بیعت کرنا چاہتی ہیں، تو 3 بجے ہمارے پاس اس کا ٹائم ہوتا ہے یعنی 3 بجے کے فوراً بعد ہمارے ٹیلی فون کا ٹائم شروع ہوتا ہے۔ آپ بالکل exact تین بجے فون کر لیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر آپ نے نہیں کیا تو درمیان میں کسی اور کا ٹیلی فون آجائے گا، چونکہ یہ ٹائم میں نے آپ کو دیا ہوگا، تو اس کے بعد ممکن ہے کہ 5 منٹ کے بعد کسی اور کو ٹائم دیا ہوا ہو، تو اگر آپ نے late کیا تو اس کے ٹائم میں چلی جائیں گی۔ لہٰذا exact تین بجے فون کر لیں۔ پھر ان شاء اللّٰہ بیعت ہوجائے گی۔
سوال نمبر 16:
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ۔
نمبر 1: کم کھانے کا مجاہدہ جاری ہے۔ میں 16 گھنٹے fasting اور 8 گھنٹوں میں 2 دفعہ کھانا کھاتی ہوں۔ ایک دفعہ کھاتی تھی، لیکن اس کے ساتھ کمزوری بڑھ گئی تھی، اس لئے اب 2 دفعہ کھاتی ہوں، صرف جمعرات کے دن 2 دفعہ کھانا کھایا تھا اور 3 دفعہ چائے پی تھی، اس کے علاوہ صرف ایک وقت ہی کھانا کھایا تھا، 2 وقت کھانا نہیں کھایا تھا۔
جواب:
بالکل آپ 2 وقت کھانا کھا لیا کریں۔ جو 8 گھنٹے اور 16 گھنٹے ہیں، تو اس میں بالکل صحیح طرح وہ کر لیا کریں جو آپ کو بتایا گیا ہے، اپنی طرف سے اس کو تبدیل نہ کیا کریں، کیونکہ یہ بھی مجاہدہ ہے یعنی یہ مجاہدہ ہے کہ آپ 8 گھنٹے کھاتی ہیں 16 گھنٹے نہیں کھاتیں، تو یہ آپ کے لئے کافی ہے، البتہ یہ بات ہے کہ ایک وقت میں زیادہ نہ کھایا کریں، تاکہ بوجھ نہ بن جائے، بس اتنا ہو کہ آپ کو اس سے فائدہ مل جائے۔
نمبر 2:
لطیفۂ قلب 20 منٹ ہے، تقریباً ذکر کا چھٹا مہینہ ہے، لیکن اب بھی محسوس نہیں ہوتا۔
جواب:
ان سے کہہ دیں کہ ایک ہزار مرتبہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ زبانی کریں، پھر اس کے بعد 20 منٹ لطیفۂ قلب کا ذکر کریں۔
نمبر 3:
لطیفۂ قلب 10 منٹ ہے، لیکن محسوس نہیں ہوتا۔
جواب:
اس کو 15 منٹ کا بتا دیں۔
نمبر 4:
ابتدائی وظیفہ بلاناغہ 40 دن پورا کر لیا ہے۔
جواب:
ماشاء اللّٰہ! اب ان کو ابتدائی 10 منٹ والا قلب کا وظیفہ بتا دیں۔
نمبر 5:
لطیفۂ قلب 10 منٹ ہے، محسوس بھی ہوتا ہے۔
جواب:
ماشاء اللّٰہ! اس کو 10 منٹ دل کا اور 15 منٹ لطیفۂ روح کا بتا دیں۔
نمبر 6:
تمام لطائف پر 10 منٹ ذکر اور مراقبہ تجلیاتِ افعالیہ 15 منٹ ہے۔ اس بات کا ادراک نصیب ہوا ہے کہ انسان تمام نیک کام اللّٰہ کی توفیق سے کرتا ہے اور اللّٰه تعالیٰ کسی کے ساتھ ظلم نہیں کرتا، بلکہ انسان کے ساتھ جو کچھ برا ہوتا ہے، وہ اس کے اعمالِ بد کا نتیجہ ہوتا ہے۔ میں جب بھی کوئی نیک کام کرتی ہوں، تو خیال آتا ہے کہ یہ اللّٰه تعالیٰ کی توفیق سے کیا ہے۔ اور ہر روز تمام گناہوں سے توبہ کرتی ہوں اور گناہ نہ کرنے کا ارادہ کرتی ہوں۔ اگر کوئی گناہ ہوجائے تو فوراً توبہ کرتی ہوں۔
جواب:
ماشاء اللّٰہ! بہت اچھا ہے۔ اب ان کو مراقبہ صفاتِ ثبوتیہ بتا دیں۔
نمبر 7:
تمام لطائف پر 5 منٹ ذکر اور مراقبہ صفات سلبیہ 15 منٹ ہے۔ اس بات کا ادراک کرتا ہوں کہ اللّٰہ تعالیٰ تمام صفاتِ سلبیہ سے پاک ہیں۔
جواب:
ماشاء اللّٰہ! اب ان کو شانِ جامع کا مراقبہ دے دیں۔
نمبر 8:
لطیفۂ قلب 15 منٹ ہے اور محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
اب ان کو 10 منٹ قلب کا اور 15 منٹ لطیفۂ روح دے دیں۔
نمبر 9:
تمام لطائف پر 5 منٹ ذکر اور مراقبہ آیت الکرسی کا مفہوم ہے۔ میں جب یہ مراقبہ کرتی ہوں، تو خود کو مصائب سے محفوظ محسوس کرتی ہوں۔
جواب:
ماشاء اللّٰہ! بہت اچھی بات ہے۔ اب ان کو تمام لطائف پر 5 منٹ کا ذکر اور جو نماز میں ثنا پڑھتے ہیں، اس کا مفہوم اور اس کے فیض کا مراقبہ بتا دیں۔ اور یہ دونوں بہت اچھے ہیں۔ آپ یہ آیت الکرسی کا بھی ساتھ کر لیں اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کر لیں جو میں نے ابھی بتایا ہے۔
سوال نمبر 17:
السلام علیکم۔ حضرت جی! اللّٰہ پاک آپ کا سایہ سالکین پر قائم رکھے، بالخصوص مجھ جیسے بے ذوق اور ناکارہ جیسوں پر۔ احوال میں تسلسل کے لئے کافی زور اور عرصہ لگتا ہے، مگر اس کے زوال میں ذرا دیر نہیں لگتی، چاہے غفلت میں ہو یا معاصی میں ہو، یہی روش رہتی ہے۔ بندے کا ذکر 200، 400، 600 اور 2 ہزار ہے۔ دلجمعی کم ہے، فجر میں دیر سویر ہوتی ہے، وقت کی کمی ہے یا بے برکتی کا شکار رہتا ہوں، بس ایک routine ہے، اور آخرت کی فکر بتکلف نہیں ہے۔ رہنمائی کی درخواست ہے۔
جواب:
اس میں جو آپ کے اختیار میں ہے، اس میں سستی نہ کریں اور جو اختیار میں نہیں ہے، اس کی پروا نہ کریں۔ وساوس کا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، لیکن جو عمل ہے، اس میں سستی نہیں کرنی چاہئے۔ باقی جو ذکر ہے، وہ فی الحال آپ یہی کریں، کیونکہ اس میں دلجمعی پہلے پیدا کر لیں، پھر آگے بڑھیں گے ان شاء اللّٰہ۔ اور نماز میں کوئی سستی نہ کریں۔ ان شاء اللّٰہ العزیز! آگے ترقی ہوگی۔
سوال نمبر 18:
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! اللّٰہ پاک سے آپ کی صحت و تندرستی اور بلند درجات کے لئے دعاگو ہوں۔ حضرت جی! الحمد للّٰہ میرا ذکر مکمل ہوگیا ہے۔ ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ 200 مرتبہ، ’’اِلَّا اللہ‘‘ 400 مرتبہ، ’’اَللّٰہُ اَللّٰہ‘‘ 600 مرتبہ اور ’’اَللّٰہ‘‘ 3 ہزار مرتبہ ہے۔ ذکر کے دوران کیفیات تو کچھ خاص نہیں، البتہ کچھ عرصہ پہلے جب میرا ذکر زیادہ تھا، تو اس وقت کے بارے میں سوچتا ہوں اور اپنے اوپر افسوس و شرمندگی کا احساس ہوتا ہے۔ اور اپنے حالات شیخ کے علاوہ کسی اور کو بتائے تھے، اپنی اس غلطی پر دکھ ہوتا ہے اور بہت ندامت محسوس ہوتی ہے، اس لئے آپ سے معافی کا طلبگار ہوں۔ اس کے علاوہ میں محسوس کر رہا ہوں کہ میرے اندر خود پسندی کی عادت بڑھ رہی ہے، جن لوگوں کے ساتھ بے تکلف ہوں، ان کے سامنے اپنے ماضی کے کاموں اور اپنی تعریف کرتا رہتا ہوں، اس پر اتراتا بھی ہوں، جبکہ یہ خیال بھی آتا ہے کہ یہ غلط کر رہا ہوں، لیکن اکثر اپنے نفس کے ہاتھوں مجبور ہوجاتا ہوں۔ برائے مہربانی اس بارے میں رہنمائی فرمائیں۔ اللہ آپ کو اور آپ کے جملہ متعلقین کو دنیا و آخرت کی کامیابی عطا فرمائے اور آپ کو اجر عظیم عطا فرمائے۔ (آمین)
جواب:
ذکر تو اب آپ 3500 مرتبہ ’’اَللّٰہ‘‘ کر لیں، باقی وہی رکھیں، البتہ جو اختیاری چیز ہے، اس میں آپ خود اپنی مرضی سے سستی نہ کریں، اور جس سے آپ کو خطرہ ہو کہ اس سے نقصان ہو رہا ہے، تو وہ نہ کریں۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ میں ڈاکٹر کے پاس گیا، مجھے اس وقت Throat infection تھا، اس نے مجھے دوائی دی، تو میں نے پوچھا کہ حضرت! پرہیز کیا کروں؟ فرمایا intelligent پرہیز۔ میں نے کہا intelligent پرہیز کیا ہوتا ہے؟ کہا کہ جو چیز آپ کو نقصان دے وہ نہ کھائیں۔ لہٰذا میں بھی آپ کو intelligent پرہیز کا بتاتا ہوں کہ آپ کو جو چیز نقصان دے اور آپ کو پتا ہے کہ یہ نقصان دے رہی ہے، تو اس کو نہ کریں۔
سوال نمبر 19:
حضرت میری والدہ بیمار ہیں، ان کے لئے دعا کر دیں۔
جواب:
اللّٰه تعالیٰ آپ کی والدہ کو صحت کاملہ عاجلہ مستمرہ نصیب فرمائے۔
سوال نمبر 20:
السلام علیکم۔ حضرت! میں معذرت چاہتا ہوں، مجھے نہیں پتا تھا کہ Audio message نہیں کرسکتے۔ میں ان شاء اللّٰہ text ٹائم سے پہلے لکھوں گا اور میں آپ کو لکھ کر message کردیا کروں گا۔ حضرت! میں نے اپنے ذکر کا احوال بتانا ہے، الحمد للّٰہ! میرا 200، 400، 600 اور 500 کا ذکر مکمل ہوگیا ہے۔ مجھے آگے کا ذکر بتا دیجئے۔
جواب:
200، 400، 600 اور 100 یہ ذکر کرنے کے بعد پھر آپ یہ کریں کہ 10 منٹ کے لئے آنکھیں بند، زبان بند اور قبلہ رخ بیٹھ کر یہ تصور کریں کہ میرا دل ’’اَللّٰه اَللّٰه‘‘ کر رہا ہے یعنی جو ’’اَللّٰه اَللّٰه‘‘ آپ پہلے 100 دفعہ کر چکے ہوں گے، وہ تصور کریں کہ میرا دل کہہ رہا ہے۔
سوال نمبر 21:
سوال برائے پیر مسجد۔ میرا سوال دعا سے متعلق ہے، اور وہ یہ ہے کہ ایک دن میرے دل میں خیال آیا کہ میں اللّٰه پاک سے دعا کروں کہ مجھے خانقاہ کے پاس اپنا ذاتی گھر مل جائے، تاکہ میں اپنے گھر والوں کے ساتھ یہاں قریب رہ کر اپنی اور ان کی اصلاح بھی کروا لوں اور حضرت کے ساتھ رہوں تو گناہوں سے بچنا بھی آسان ہوگا اور آپ حضرت کی صحبت بھی میسر رہے گی۔ پھر بعد میں سوچا کہ بظاہر اسباب سے اگرچہ ناممکن لگ رہا ہے، لیکن اللّٰه پاک کے لئے تو مشکل نہیں ہے، یہ تو میرے لئے مشکل ہوسکتا ہے۔ کیا اس طرح کی دعا بھی کرنی چاہئے کہ جو بظاہر اسباب کے موافق نہ لگ رہی ہو، جیسے میرا یہ معاملہ ہے۔ جس وقت میں سوال لکھ رہا ہوں، اس وقت میرے ذہن میں آپ کی دعا سے متعلق وہ جواب جو آپ نے مجھے بتایا تھا، وہ آگیا ہے کہ آپ اللّٰه پاک سے وہ مانگو جو آپ اپنے لئے بہتر سمجھتے ہیں، لیکن اللّٰه پاک وہ کریں گے، جو آپ کے لئے بہتر ہے۔ پھر بھی سوال بھیج رہا ہوں، تاکہ باقی لوگوں کو بھی اس کا فائدہ و رہنمائی مل جائے۔
جواب:
جو آپ کے دل میں آیا ہے، وہ بالکل صحیح ہے۔ یہی ہم بتاتے ہیں کہ تم اپنے لئے وہی مانگو جو بہتر سمجھتے ہو اور اللّٰه پاک آپ کے لئے وہ کریں گے جو آپ کے لئے بہتر ہوگا۔
سوال نمبر 22:
حضرت! میں نے ذکر لینا ہے، میں نے جو ابھی اس مہینے کے لئے کیا تھا، وہ 200 دفعہ ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ اور 400 دفعہ ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ اور 400 دفعہ ’’حَقْ‘‘ اور 100 دفعہ ’’اَللّٰہ‘‘ ہے۔
جواب:
ماشاء اللّٰہ! ابھی اس طرح کر لیں کہ 200 دفعہ ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘، 400 دفعہ ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، 600 دفعہ ’’حَقْ‘‘ اور 100 دفعہ ’’اَللّٰہ‘‘۔
سوال نمبر 23:
حضرت! جو ہم نے پہلے مراقبات اور ذکر وغیرہ کیے ہیں، یہ کیا ممکن ہے کہ دوبارہ ہم ان کو شروع کریں؟
جواب:
جی یہ ہوسکتا ہے۔ دراصل جس وقت انسان کو ان ساری چیزوں کا پتا چل جائے، تو پھر اس میں دیکھے کہ میرے لئے کونسی چیز مفید ہے یعنی کونسی چیز سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے، تو اس کا ایک معمول اپنے لئے مقرر کر لے اور اس معمول کو پھر وہ کر لیا کرے، اس سے ان شاء اللّٰہ! اس کو فائدہ جلد ہوگا۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا کہ مشائخ اپنے لئے ایک معمول تجویز کر لیں اور پھر اس کو باقاعدہ کر لیا کریں، کیونکہ اگر یہ چھوڑ دیا تو ایک دن کورے کے کورے رہ جائیں گے۔ یہ اصل میں حاجی فاروق سکھروی صاحب رحمۃ اللّٰہ نے مجھے فرمایا تھا۔ وہ ایک مرتبہ ذکر کرا رہے تھے، تو فرمایا کہ بھائی! اس بہانے ہم بھی ذکر کر لیتے ہیں۔ اس لئے یہ کرنا چاہئے، اس کا فائدہ ہوتا ہے۔
سوال نمبر 24:
معمول میں حضرت! ایک ہی ذکر کر لیں یا وہ 5، 5 دن سارے کرتے رہیں یا 10 دن اپنی طرف سے مقرر کر لیں؟
جواب:
نہیں! بلکہ اگر ایک ذکر تجویز ہوجائے تو وہ ٹھیک ہے۔ اس پر پھر آپ سے بعد میں بات کر لوں گا ان شاء اللّٰہ! اور اس پر تجویز کر لوں گا ان شاء اللّٰہ۔
سوال نمبر 25:
حضرت! جو ذکر کے بعد مراقبات ہوتے ہیں، اس میں کچھ ساتھیوں کو پتا نہیں چلتا، جب مراقبات وہ مکمل کرتے ہیں، تو آپ پوچھتے ہیں کہ اس کا اثر کیا ہے؟ تو وہ کہتے ہیں کہ ٹھیک ٹائم سے ہوا، اس کا یقین اتنا آگیا، مثلاً جو صفاتِ ثبوتیہ یا پھر باقی کے ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ اثر کا نہیں پتا ہوتا، خاص کر خواتین، وہ نہیں بتاتیں، بس کہتی ہیں کہ ہم نے کر لیا ہے، لیکن اس کے اثر کا ہمیں نہیں پتا۔
جواب:
دراصل یہ جو مراقبات ہیں، یہ کوئی سیر سپاٹا نہیں ہے، بلکہ یہ باقاعدہ ایک بامقصد کورس ہے، جس میں کچھ مقاصد ہوتے ہیں۔ اب اگر وہ مقاصد حاصل نہ ہوں، تو اس کا مطلب ایسا ہی ہے جیسے بغیر مطلب کے کوئی چیز پڑھ رہے ہیں، تو اس کا وہ مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ لہٰذا اس میں یہ مقصد حاصل ہوا ہے یا نہیں، یہ اصل ہوتا ہے۔ اب اگر وہ ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں جو بتائیں گے تو اس سے ہمیں پتا چل جاتا ہے کہ کس کا فائدہ ہوا اور کس کا نہیں یعنی یہ اندازہ لگ جاتا ہے۔ ویسے تو ظاہر ہے کہ ہم تفصیل سے نہیں جانتے، لیکن یہ ضرور ہے کہ اتنا اندازہ ہوجاتا ہے کہ آیا اس کو حقیقی فائدہ ہوا ہے یا نہیں ہوا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جی سکون ملا ہے۔ بھائی! سکون کے لئے تو کیا ہی نہیں ہے یعنی سکون تو اس کا مقصد ہی نہیں ہے، بلکہ وہ Side effect ہوسکتا ہے، لیکن یہ Main effect نہیں ہے۔ اس وجہ سے جب مجھے کوئی یہ کہتا ہے، تو میں کہتا ہوں کہ بس یہ سمجھا ہی نہیں ہے یعنی جو اصل چیز ہے وہ اس نے سمجھی ہی نہیں ہے۔ لہٰذا یہ پورا ایک کورس ہے یعنی پہلے ہم لوگ مَردوں کو جہری ذکر دیتے ہیں، اس کے بعد پھر سری ذکر بھی ساتھ دیتے ہیں اور سری ذکر 5 لطائف تک لے جاتے ہیں۔ اور یہ 5 لطائف کا جو ذکر ہے، یہ اصل میں مراقبے کی تیاری ہے، یہ مراقبہ نہیں ہے، عام لوگ اس کو مراقبہ سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ مراقبہ نہیں ہے، بلکہ یہ مراقبے کی تیاری ہے۔ اس کے بعد پھر مشارب ہیں، اس کو بھی ہم مراقبہ نہیں سمجھتے، بلکہ یہ مشارب ہیں۔ اور پھر آپ جو تجلیاتِ افعالیہ یا صفاتِ ثبوتیہ یا شیوناتِ ذاتیہ یا پھر صفاتِ سلبیہ کرتے ہیں اور اسی طرح شانِ جامع کرتے ہیں، یہ سب مراقبات ہیں، یہ بعد میں شروع ہوتے ہیں۔ مثلاً مراقبۂ احدیت یہاں سے شروع ہوگیا، اس کو مراقبہ ہی کہتے ہیں، لیکن مراقبۂ احدیت بھی فیض کا اجراء ہے یعنی یہ بھی مراقبے کی ابتداء ہے۔ پھر اس کے بعد ایک خاص فیض تجلیاتِ افعالیہ ہے اور اس کا اجراء ہے کہ اللّٰه جل شانہٗ سب کچھ کرتے ہیں، جب یہ راسخ ہوجائے یعنی یہ صرف علم کی بات نہ ہو، بلکہ یہ راسخ ہوجائے۔ بہرحال یہ ہم خاص فیض کا مراقبہ کراتے ہیں۔ اس طرح ہم لوگ جب ساری چیزیں کریں، تو مشارب ختم ہونے کے بعد پھر مراقبات شروع ہوتے ہیں۔ جیسے مراقبہ حقیقتِ صلوۃ ہے، حقیقتِ کعبہ ہے، مراقبۂ معیت ہے، تو یہ مراقبات ہیں۔ پھر اس کے بعد اور بڑے مراقبات ہیں اور مراقبات کی کوئی حد نہیں ہے۔ مثلاً میں کسی کو آیت الکرسی کا مراقبہ دیتا ہوں، کسی کو ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَانَكَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ‘‘ کا مراقبہ دیتا ہوں۔ اسی طرح قرآن میں جو مراقبہ ہے: ﴿يَآ أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا اتَّقُوْا اللهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ﴾ (الحشر: 18) اس مراقبہ کو کیا نام دیں؟ لہٰذا مراقبات کی کوئی حد نہیں ہے، بس جس کا جو حال ہے، اس کو اسی کے مطابق دیا جاتا ہے۔ یہ تو ایک side ہوگئی۔ اب دوسری side بتاتا ہوں۔ دوسری side یہ ہے کہ یہ unlimited ہیں، لیکن limited ہیں۔ اب limited کیسے؟ کیونکہ مقصد اس میں سلوک کی تیاری ہے، یعنی ایک خاص جگہ تک پہنچ کر سلوک کے لئے انسان capable ہوجاتا ہے، پھر فوراً مجاہدات پر لانا، ریاضیات پر لانا، تاکہ ان کے اندر کام کرنے کی استعداد پیدا ہو۔ کیونکہ اگر سارا دن 6، 6 گھنٹے مراقبہ کر کے آپ کام کے بالکل قابل نہ ہوں، تو کیا فائدہ؟ مثلاً بعض حضرات کہتے ہیں کہ میں جانتا ہوں کہ یہ نقصان پہنچتا ہے، لیکن پھر بھی کرتے ہیں، کیونکہ اس میں کچھ کمی ہے، اس کمی کو دور کرنا ہوتا ہے، اور یہ کمی سلوک سے دور ہوگی، ایسے ہی دور نہیں ہوگی، اس لئے پھر سلوک طے کرلیا جاتا ہے، اور اس میں سلوک کہیں سے بھی شروع کیا جاسکتا ہے۔ جب انسان کو پتا چل جاتا ہے کہ اب یہ کام کرنے کے قابل ہوگیا ہے، تو پھر اس کا سلوک طے ہوجاتا ہے۔
سوال نمبر 26:
حضرت! جیسے نماز کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ جس کی نماز صحیح نکل آئی، اس کے سارے اعمال صحیح نکل آئیں گے۔ تو جب نماز پر ہی دار ومدار ہے تو پھر اس کے بعد یہ سلوک اور تصوف کیا ضرورت ہے؟
جواب:
یقیناً نماز میں سب کچھ ہے، لیکن نماز، نماز ہوجائے تو نماز ہی سب کچھ ہے۔ جیسے پہلے بھی یہ بات گزری ہے اور حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب کی بات بھی گزری ہے۔ لیکن اگر نماز، نماز نہ ہو، تو پھر وہ چیز نہیں ملے گی۔ اب اگر وہ چیز آپ کو سلوک کے ذریعے سے مل جائے، تو پھر جو نماز ہے وہ نماز بن جائے گی، لیکن یہ سلوک کے ذریعے سے بنے گی۔ جیسے نفس اور پھل آپس میں مسلسل interact کرتے ہیں۔ مثلاً قرآن پاک میں اللہ پاک فرماتے ہیں:
﴿فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَ الَّذِیْنَ هُمْ یُرَآءُوْنَ﴾ (الماعوں:4-6)
ترجمہ: ’’پھر بڑی خرابی ہے ان نماز پڑھنے والوں کی جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں۔ جو دکھاوا کرتے ہیں‘‘۔
اب اس میں جو کمی ہے، وہ کیا چیز ہے؟ وہ ایمان کی کمی ہے۔ ایمان میں کمی کی وجہ سے وہ کرتے ہیں یا پھر سستی کرتے ہیں۔ اب اس سستی کو اگر وہ مسلمان ہے تو سلوک کے ذریعے سے دور کرے گا، اور اگر ایمان نہیں ہے تو پھر ایمان لانے کے ذریعے سے کرے گا۔
لہٰذا ﴿اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْكَرِ﴾ (العنکبوت: 45) بالکل ہے، لیکن نماز، نماز تو ہو۔ یہ بات میں آپ کو ایک اور طریقے سے عرض کرتا ہوں۔ مثلاً ہمارے دل کا اثر آنکھ پر، کان پر، زبان پر، دماغ پر یعنی سب چیزوں پر ہوتا ہے اور ان ساری چیزوں کا اثر دل پر ہوتا ہے۔ اب ایک عجیب بات عرض کروں، حدیث شریف میں آتا ہے:
’’اَلْوَحْدَةُ خَيْرٌ مِّنْ جَلِيْسِ السُّوْءِ وَالْجَلِيْسُ الصَّالِحُ خَيْرٌ مِّنَ الْوَحْدَةِ‘‘۔ (مشکوۃ: 4864)
ترجمہ: ’’بری صحبت سے خلوت اچھی اور اچھی صحبت خلوت سے اچھی ہے‘‘
لہٰذا اگر ہم اپنی اصلاح کرنا چاہیں تو چونکہ ہمارا دماغ، ہماری آنکھیں، ہمارے کان، ہماری زبان یہ سب غلط استعمال ہوتے ہیں، کیونکہ ہم معاشرے کے اندر ہیں اور معاشرے کی برائی کا اثر ہمارے دل پر پڑ رہا ہے۔ اس لئے ہمیں خلوت میں جانا چاہئے، تاکہ یہ نہ ہو۔ پھر خلوت میں تو ہم صرف ان چیزوں سے کٹ جائیں گے، لیکن جو بہتری ہے، وہ ذکر سے آئے گی اور صحبت سے آئے گی۔ اب ذکر تو ہم خلوت میں کرسکتے ہیں، لیکن صحبت تو خلوت میں نہیں ہوسکتی، بلکہ اس کے لئے پھر اچھی صحبت میں جائیں گے، اس لئے اچھی صحبت ہمیں چاہئے ہوگی۔ لہٰذا اچھی صحبت کے ذریعے سے ہمیں وہ چیز مل جائے گی اور پھر اس کے بعد جب ہمارا دل اور دماغ درست ہوجائے گا یعنی اس خلوت اور اس صحبت سے، تو پھر جب ہم آئیں گے، تو پھر ہماری آنکھ صحیح استعمال ہوگی، گویا کہ پھر ہم صحیح چیزیں لیں گے اور pick کریں گے، ہمارے کان صحیح استعمال ہوجائیں گے، ہم صحیح چیزیں لوگوں سے سنیں گے اور ہمارا دماغ صحیح استعمال ہوگا، ہم صحیح سوچیں گے اور پھر معاشرے سے ہم اچھی چیزیں لیں گے اور معاشرے کو اچھی چیزیں دیں گے۔ گویا کہ اس میں بھی وہی والی بات آگئی کہ یہ آپس میں interact کر رہے ہیں، یعنی ہم لوگ خیر اور شر کے درمیان چل رہے ہوتے ہیں۔ لہٰذا اگر ہماری نماز خیر کے رخ پر آجائے یعنی اس میں خشوع وخضوع آجائے، جو کہ ہماری کچھ سستیوں کی وجہ سے نہیں ہوتا یا ہمارے دل کے بگاڑ کی وجہ سے نہیں ہوتا۔ لہٰذا سستی کو تو ہم دور کریں گے سلوک سے اور دل کے بگاڑ کو دور کریں گے ذکر سے۔ اس لئے جو اصلاحی ذکر ہے، وہ اس کے لئے ہوتا ہے۔ پس اصلاحی ذکر کے ساتھ جب ہمارا دل درست ہوجائے گا تو نماز بھی ہماری درست ہوجائے گی، نتیجتاً ہم نماز کی برکات بھی حاصل کر لیں گے۔
سوال نمبر 27:
حضرت! ایک بات عرض کرنی ہے کہ بعض لوگوں کی نماز بہت اچھی ہوتی ہے ماشاء اللّٰہ! لیکن بہت سارے معاملات اچھے نہیں ہوتے۔
جواب:
اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں دوسری چیزیں نہیں ہوتیں۔ عادتاً ان کی نماز درست ہے، لیکن ابھی چونکہ ان کی اصلاح نہیں ہوئی یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے ایک جزو میں کمال حاصل کر لیا ہے، لیکن ابھی باقی اجزاء میں نہیں کیا ہے۔ لہٰذا وہ باقی اجزاء جو رہتے ہیں، ان کی وجہ سے بگاڑ ہوگا۔ مثال کے طور پر میں نماز پڑھتا ہوں اور ساتھ کھڑے ہوئے آدمی کا خیال نہیں رکھتا، تو یہ معاملات میں گڑبڑ ہے۔ مثلاً میں اپنے ہاتھ اس طرح کر لیتا ہوں اور اس کی پروا نہیں کرتا کہ اس سے دوسرے کو تکلیف ہوتی ہے، تو یقیناً یہ میرے معاملات میں گڑبڑ ہے، معاشرت میں گڑبڑ ہے یعنی یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں ہوتی ہیں، لیکن اس سے پتا چلتا ہے کہ معاملات ٹھیک نہیں ہیں۔ مثلاً امام صاحب اگر پیچھے کھڑے لوگوں کا خیال نہیں رکھتے یعنی وہ دھوپ میں کھڑے ہیں، لیکن اس کو پروا نہیں ہوتی، وہ بڑی لمبی قراءت کر رہا ہے، تو یہ معاملات میں ٹھیک نہیں ہے، اس کو یہ احساس نہیں ہے کہ مجھ سے لوگوں کو تکلیف ہو رہی ہے، کیونکہ یا تو ان سب کے لئے سائبان اور تمام چیزوں کا انتظام کر لے تاکہ وہ بھی اس کی طرح ہوں یا پھر یہ ہو کہ ان کے لئے نماز معتدل پڑھ لے۔ مطلب یہ ہے کہ اس وقت جس کو کہتے ہیں کہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے یعنی مقتدیوں میں بھی مسئلہ ہے اور دوسری طرف بھی مسئلہ ہے اور یہ مسائل کا پورا ایک chain ہے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ