اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر 1:
صبح شعبان کے روزوں کے متعلق آپ نے ایک بات کی تھی۔ مجھے چونکہ ان کی فضیلت کی وجہ معلوم نہیں تھی، اس لئے میں یہ بھیج رہی ہوں۔ روایت کے مستند ہونے کا علم تو مجھے نہیں ہے، البتہ حوالہ دیا گیا ہے۔ السلام علیکم۔
جواب:
یہ ایک حدیث شریف انہوں نے سلسلہ احادیث نبویہ میں سے بھیجی ہے۔ جامع ترمذی میں ہے:
’’سُئِلَ النَّبِیُّ ﷺ، اَیُّ الصَّوْمِ اَفْضَلُ بَعْدَ رَمَضَانَ؟ قالَ: شَعْبَانُ لِتَعْظِیْمِ رَمَضَانَ۔‘‘ (سنن ترمذی: 663)
ترجمہ: ’’نبی اکرم ﷺ سے پوچھا گیا کہ رمضان کے بعد کون سے روزے افضل ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: شعبان کے روزے جو رمضان کی تعظیم کے لئے ہوں‘‘۔
اس حدیث کی سند ضعیف ہے۔
سوال نمبر 2:
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! اللّٰہ پاک آپ سے راضی ہوں۔ علاجی ذکر کو ایک ماہ ہوگیا ہے۔ الحمد للّٰہ 5 منٹ سب لطائف کا ذکر اور مراقبہ تنزیہ اور صفاتِ سلبیہ کا ملا تھا۔ نیز ساتھ 10 منٹ مراقبہ دعائیہ تھا۔ ذہنی انتشار کچھ بہتر ہوا ہے الحمد للّٰہ۔ اس وقت صرف اپنے آپ پر توجہ دے رہا ہوں، جبکہ اس سے پہلے ہر وقت بس دوسروں کا سوچتی تھی اور اپنے اوپر نظر میں بالکل احساس کمتری کا شکار تھی، لوگوں میں کم وقعتی کا خوف، منع نہ کر سکنا اور ذلیل ہونا مجھ پر حاوی تھا۔ سوچ مثبت رکھنے کی کوشش کر رہی ہوں، اس سے شکر بھی نصیب ہوا ہے اور ماضی کی چیزوں اور مستقبل کا خوف بھی کم ہوا ہے۔ الحمد للّٰہ! معمولات بھی سب کر رہی ہوں، تقریبا ’’منزل‘‘ 2 بار زیادہ تر پڑھ لیتی ہوں، لیکن آپ نے 3 بار دی ہوئی تھی، ’’مناجات مقبول‘‘ اور ’’چہل درود شریف‘‘ ابھی تو بہت کم، لیکن جمعہ کی مجلس میں پڑھ لیتی ہوں یا سن لیتی ہوں۔ آگے کے لئے رہنمائی کی درخواست ہے۔
جواب:
فی الحال آپ یہی جاری رکھیں، طبیعت جب اور بہتر ہوجائے گی، تب کچھ بات کریں گے۔
سوال نمبر 3:
السلام علیکم۔ حضرت! میرا نام فلاں ہے، میں فرانس میں ہوتی ہوں، فلاں میری سہیلی جو جرمنی میں ہوتی ہیں، انہوں نے 3 سال پہلے مجھے فلاں صاحبہ سے رابطے کا کہا تھا، پھر باجی نے مجھے بیعت کے لئے بھی کہا اور 40 دن والا ذکر بھی دیا، اس کے بعد میں 3 تسبیحات بھی کر رہی تھی، لیکن اب نہیں پڑھتی اور باقی معمولات میں 5 منٹ کا مراقبہ کرتی ہوں۔ میرے اپنے شوہر کے ساتھ کچھ مسائل تھے، اس کے لئے فلاں باجی سے رابطہ کرتی، تو باجی مجھے وظیفے پڑھنے کو دیتیں، میں وہ پڑھ لیتی، کبھی حالات بہتر ہوجاتے اور کبھی نہیں ہوتے تھے، آج کل بھی حالات مشکل ہیں، لیکن میں اللّٰه پاک سے پھر باتیں کرتی ہوں، اللّٰه پاک کے آگے روتی ہوں، میں نے فلاں سے بات کی، تو انہوں نے مجھے آپ کا نمبر دیا کہ آپ سے رابطہ کروں۔ مجھے بس دل کا سکون چاہئے، اللّٰہ تعالیٰ کی محبت چاہئے، میں بہت تنگ آگئی ہوں یعنی مجھے بہت stress ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے میرے 2 بیٹے، ایک 7 سال کا اور دوسرا 3 سال کا ہے، ان پر بہت اثر پڑتا ہے اور میری صحت بہت زیادہ خراب ہوگئی ہے۔ میرا اپنے شوہر کے ساتھ جو مسئلہ ہے، جو میں نیچے لکھ رہی ہوں، آپ میری guideness کریں۔ میرے شوہر فلاں بیماری میں مبتلا ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ سب چھوڑنا چاہتے ہیں، نماز قائم کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں، پھر بھی عادت نہیں جاتی، ساتھ وعدہ کرتے ہیں، پھر توڑ لیتے ہیں، بار بار heart ہوکر ختم ہوگئی ہوں، کوئی ضروری بات ہوجاتی ہے تو تب بات کرتی ہوں، میرا بھروسہ ٹوٹ گیا، میں نہ ان کو چھوڑ سکتی ہوں، نہ ان کے ساتھ رہنے کا دل کرتا ہے، میں اپنے بیٹوں کا سوچ کر صبر کر رہی ہوں، میں بہت دکھی ہوگئی ہوں اور 3 دن سے اللّٰہ پاک سے دعا کر رہی ہوں، نفل پڑھ کر بھی دعائیں کرتی ہوں اور استغفار کثرت سے پڑھتی ہوں کہ اللّٰه پاک کوئی راستہ دکھا دے۔ اب میرے پاس ہمت نہیں ہے، ماں باپ سے ذکر نہیں کرسکتی، وہ بہت بیمار اور بزرگ ہیں۔
جواب:
دراصل یہ دنیا مومن کے لئے قید خانہ ہے۔ چنانچہ حدیث پاک میں آتا ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’اَلدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّةُ الْكَافِرِ‘‘ (مسلم: 7417)
ترجمہ: ’’دنیا مومن کے لئے قید خانہ ہے اور کافر کے لئے جنت ہے‘‘۔
اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ کافر آزاد ہے، جو کرنا چاہتا ہے، وہ کرتا ہے، لیکن اس کا نتیجہ خراب ہوتا ہے۔ لیکن مومن آزاد نہیں ہے، وہ شریعت کا پابند ہے، بس جو کچھ بھی وہ کرے گا، وہ اللّٰه تعالیٰ کی مرضی کے مطابق کرے گا۔ اس وجہ سے وہ قید خانے کی طرح زندگی گزار رہا ہوتا ہے۔ لیکن اس کا جو فائدہ ہے، وہ آخرت میں ملے گا، اگرچہ دنیا میں بھی مل سکتا ہے، لیکن ضروری نہیں ہے، کیونکہ دنیا عکس ہے، اصل نہیں ہے۔ اس وجہ سے جو آپ کے حالات ہیں، اس سے بھی زیادہ مشکل حالات دوسرے لوگوں کے ہیں۔ اب اگر آپ کے ذہن میں یہ سوال آجائے کہ اگرچہ دوسرے لوگوں کے مشکل حالات ہیں، لیکن بہت سارے لوگوں کے اچھے بھی ہیں۔ ٹھیک ہے، لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہ دنیا چونکہ امتحان گاہ ہے، اور اس میں امتحان ہوتا ہے یعنی بعض لوگوں کا پرچہ صبر کا ہے، اور بعض لوگوں کا شکر کا ہے۔ اکثر لوگوں کو میں نے دیکھا ہے کہ شکر کرنے والے ناکام ہوجاتے ہیں یعنی بہت کم مالداروں کو، خوشحالوں کو، صحتمندوں کو، آپ نے دیکھا ہوگا کہ وہ شکر کریں، بلکہ وہ بغاوت پر اتر آتے ہیں۔ جبکہ صبر کرنے والے پھر بھی تھوڑے بہت ہیں۔ یعنی جن کے حالات مشکل ہوتے ہیں، وہ پھر بھی تھوڑا بہت صبر کر لیتے ہیں، لہٰذا صبر کرنے والوں کا وجود زیادہ ہے اور شکر کرنے والوں کا کم ہے۔ اب بات یہ ہے کہ اگر آپ یہ کہیں کہ مجھے شکر کا پرچہ کیوں نہیں دیا گیا؟ تو آپ سوچ لیں کہ کیا آپ اس وقت وہ شکر کر لیتیں؟ اس وجہ سے جو حالات اللّٰه نے بھیجے ہیں، اس پر راضی رہنا یہی سب سے بڑا کمال ہے۔ لہٰذا آپ یہ چیز چھوڑ دیں کہ میرے حالات کیسے ہوجائیں، اس کو بس اللّٰه تعالیٰ پر چھوڑ دیں، البتہ جو اسباب ہیں، وہ اسباب اختیار کرسکتی ہیں، مثال کے طور پر شوہر کے ساتھ نرم رویہ اور اچھی باتوں کی ترغیب، بری باتوں سے منع یعنی افہام و تفہیم والی جو بات ہے، وہ ہونی چاہئے۔ لیکن اس کو اپنے اوپر بوجھ نہ بنائیں کہ ایسا کیوں نہیں، بس اس کو آپ اپنے لئے ایک امتحان سمجھ لیں، کیونکہ دوسری طرف آپ نے دیکھا ہے کہ آپ کے والدین بھی بزرگ ہیں، اگر آپ ادھر چلی جائیں، تو آپ کی زندگی اور بھی اجیرن ہوجائے گی اور آپ کے ساتھ آپ کے والدین کی زندگی بھی اجیرن ہوجائے گی۔ مطلب آگے کنواں، پیچھے کھائی والی بات ہے۔ لہٰذا اگر آپ نے صبر کرنا ہے، تو صبر سے ہی اللّٰہ تعالیٰ آپ سے راضی ہوں گے۔ اللہ پاک فرماتے ہیں:
﴿الَّذِيۡنَ اِذَآ اَصَابَتۡهُمۡ مُّصِيۡبَةٌ قَالُوۡٓا اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّـآ اِلَيۡهِ رٰجِعُوۡنَؕ اُولٰٓئِكَ عَلَيۡهِمۡ صَلَوٰتٌ مِّنۡ رَّبِّهِمۡ وَرَحۡمَةٌ وَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡمُهۡتَدُوۡنَ﴾ (البقرہ: 156 157)
ترجمہ1: ’’یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو یہ کہتے ہیں کہ ہم سب اللہ ہی کے ہیں اور ہم کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر ان کے پروردگار کی طرف سے خصوصی عنایتیں ہیں، اور رحمت ہے اور یہی لوگ ہیں جو ہدایت پر ہیں‘‘۔
لہٰذا مؤمنین کے بارے میں اللّٰه پاک فرماتے ہیں کہ جب ان کو کوئی مصیبت یا تکلیف پہنچتی ہے، تو وہ کہہ دیتے ہیں ’’اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّآ اِلَيۡهِ رٰجِعُوۡنَؕ‘‘ اس وجہ سے بس اس راستے کو اپنائیں، اللّٰہ جل شانہٗ آپ کو جلد سے جلد آسانی نصیب فرما دے۔
سوال نمبر 4:
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ۔ میرے بچوں کے مراقبے کی report دینی ہے۔ ان کے مراقبے کا ایک ماہ ہوگیا ہے۔
نمبر 1:
پہلے پانچوں لطائف پر 5 منٹ یہ تصور کرنا ہے کہ میرے دل کی طرف اللّٰه تعالیٰ محبت سے دیکھ رہے ہیں اور میرا لطیفہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کر رہا ہے۔ اس کے بعد ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبحَانَكَ‘‘ کا پوری امت کے لئے استغفار کی نیت سے مراقبہ کرنا ہے کہ اس کا فیض اللّٰه تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کے قلبِ اطہر پر اور پھر ان کے پورے جسم پر یہ فیض آرہا ہے۔ الحمد للّٰہ! پانچوں لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے۔ مراقبے کے دوران کچھ خاص کیفیات محسوس نہیں ہو رہیں، اللّٰہ تعالیٰ پر بھروسہ بڑھ رہا ہے اور اپنے گناہوں پر استغفار پڑھنے کا خیال آتا ہے۔ جب خیال آتا ہے تو توبہ کرتی ہوں اور ساتھ امت کی معافی کے لئے دعائیں کرتی ہوں۔
جواب:
ماشاء اللّٰہ! اس کو جاری رکھیں۔
نمبر 2:
دوسرے کا مراقبۂ معیت اور مراقبۂ دعائیہ ہے۔ پہلے پانچوں لطائف پر 5 منٹ یہ تصور کرنا ہے کہ میرے دل کو اللّٰه تعالیٰ محبت سے دیکھ رہے ہیں اور میرا لطیفہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘کر رہا ہے۔ اس کے بعد 15 منٹ کا مراقبۂ معیت اور دعائیہ کرنا ہے۔ پانچوں لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے۔ اللّٰه تعالیٰ سے دعائیں بالخصوص فلسطین کے لئے بہت دعائیں کی ہیں۔ 2 ناغے ہوئے ہیں۔
جواب:
اللّٰه جل شانہٗ مزید استقامت عطا فرما دے۔ اس کو تو آج کل زیادہ دیر کے لئے جاری رکھنا چاہئے، کیونکہ دعاؤں کی سب کو ضرورت ہے۔
نمبر 3:
وظیفے کی ترتیب یہ ہے: درود پاک 200 مرتبہ، تیسرا کلمہ 200 مرتبہ، استغفار 200 مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ 200 مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ 400 مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ 600 مرتبہ اور ’’اَللّٰہ‘‘ ہزار مرتبہ ہے۔ فلاں صاحب اپنے وظیفے کی تعداد میں غلطی کرتا ہے، اس لئے ہاتھ سے ایک کاغذ پر لکھ کر دیوار پر چپکایا ہوا ہے، لیکن اس مرتبہ اس سے پھر غلطی ہوگئی کہ ’’حَقْ‘‘ کو 600 مرتبہ کے بجائے 400 مرتبہ پڑھا اور ’’اَللّٰہ‘‘ ہزار کی بجائے 500 مرتبہ پڑھا، لیکن باقی تینوں کو الحمد للّٰہ! ٹھیک پڑھا ہے۔ نماز پڑھنے اور قرآن پاک کی تلاوت پر استقامت ہے۔ رجب میں ہمارا جو اجتماعی درود پاک ہے وہ سترہ ہزار تین سو تھا، آپ سے دعاؤں کی درخواست ہے۔ آگے رہنمائی۔
جواب:
ماشاء اللّٰہ! ان کو بھی یہی بتائیں کہ فی الحال یہی جاری رکھیں اور اس تعداد کو صحیح طور پر کریں، روزانہ آپ اس کاغذ کو دیکھ کر اس سے کریں۔
سوال نمبر 5:
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ۔
My name is that. I am from قاذقستان. I am 37 years old. I want to join the group
جواب:
ماشاء اللّٰہ!
It's very good. You are welcome for this because it is a good determination and I think the first thing one should do is this because اللّٰہ سبحانہ و تعالیٰ has said in the Qur'an
﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا﴾ (الشمس: 9-10)
ترجمہ: ’’فلاح اسے ملے گی، جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے، اور نامراد وہ ہوگا، جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے‘‘۔
So the person who has cleaned his soul so he is actually a successful Or you can say if the person does not do so he is at a loss. So I think you are coming to a very good, very destination. And for that reason I think you should start and start three hundred times
’’سُبْحَانَ اللهِ، وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ، وَلَا إِلٰهَ إلَّا اللهُ، وَاللهُ أَكْبَرُ‘‘
and two hundred times
وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ‘‘
and this will be for forty days. You should fix a time for this and at that time you should do it and without discontinuity. You should complete this in forty days. After each صلوۃ you shoul recite thirty three times ‘‘سُبْحَانَ اللهِ’’ thirty three times ‘‘اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ’’ thirty four times‘‘ اَللهُ أَكْبَرُ’’ and three times ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ‘‘ three times صلوۃ علَی النَّبِیِّ، صلوۃ ابراہیمی and three three times
استغفار ’’اَسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّىْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّاَتُوْبُ اِلَيْهِ‘‘
and one time آیۃ الکرسی. After forty days, you should write to me about your condition.
سوال نمبر 6:
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ۔ حضرت! اگر کوئی فرض عبادت کے علاوہ اپنی نفلی عبادات جیسے عمرہ، نفل، درود شریف اور قرآن پاک کی تلاوت کو ایصال ثواب کرتا ہے تو یہ عمل کیسا ہے؟ اور کیا اس پر کوئی اجر بھی ملتا ہے؟ اور یہ عمل اللّٰہ پاک کو پسند ہے یا نہیں؟
جواب:
بالکل، اللّٰہ پاک کو پسند ہے، بلکہ اگر کوئی ایصال ثواب کرتا ہے تو اس میں دو قول ہیں، ایک قول تو یہ ہے کہ جتنے لوگوں کو ثواب بخشا جائے تو ان سب کو اتنا اتنا مکمل ثواب ملتا ہے، مثلاً آپ نے دو رکعت نماز پوری امت کو بخشی تو پوری امت کے ہر ہر فرد کو ان دو رکعت کا ثواب ملے گا اور ان سب کے برابر آپ کو بھی ملے گا۔ دوسرا قول یہ ہے کہ یہ تقسیم ہوتا ہے یعنی دو رکعت کا جو ثواب ہے، وہ پوری امت پر تقسیم ہوجائے گا۔ بہرحال اللّٰہ کو پتا ہے کہ اصل کیا ہے۔ آپ اگر ایصال ثواب کریں گے تو ثواب پہنچ جاتا ہے، اور اللّٰه پاک کو پسند بھی ہے۔
سوال نمبر 7:
السلام علیکم۔ شیخ صاحب!
’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ two hundred times ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ four hundred times ‘‘حَقْ’’ six hundred and ‘‘اَللّٰہ’’ five hundred times been have completed for this month. Further guidance is requested.
جزاک اللّٰہ خیراً۔
جواب:
Now you should do two hundred times ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ’’ four hundred times ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ’’ six hundred times ‘‘حَقْ’’ and thousand times ‘‘اللّٰہ’’ for one month.
سوال نمبر 8:
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! جہلم سے فلاں گزارش کر رہا ہوں کہ آپ کے ارشاد کے مطابق روزانہ 15 منٹ مراقبۂ معیت کرتا ہوں۔ جس سے گناہ سے بچنے کا دھیان دل میں رہتا ہے اور اللّٰه کو اپنے ساتھ محسوس کرتا ہوں، آخرت کے عذاب سے بچنے کی دعا کرتا ہوں، زبان کو ذکر میں مشغول رکھنے کی کوشش بھی کرتا ہوں، لیکن وقت غفلت سے بھی گزر جاتا ہے۔ رہنمائی کی درخواست ہے۔
جواب:
ماشاء اللّٰہ! بہت اچھی بات ہے۔ اب اس مراقبۂ معیت کے ساتھ مراقبۂ دعائیہ بھی ملائیں یعنی جو بھی دعا کرنا چاہیں، تو اس وقت دل میں دعا کریں۔ آج کل ہم سب کے لئے دعاؤں کی ضرورت ہے، بالخصوص جو غزہ کے مسلمان ہیں، ان کے لئے تو بہت زیادہ دعاؤں کی ضرورت ہے اور پاکستان کے لئے بھی۔
سوال نمبر 9:
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ۔
I make dua that you are well! الحمد للّٰہ I have completed one week of جہری ذکر that you gave me last week. And I enjoyed especially saying ‘‘حَقْ حَقْ’’. Secondly, I have a very bad problem with my gaze. I find it very difficult to lower my gaze. Every time I see a woman, I find it hard to look away. Also, I am still watching حرام things online and each time I try to stop, after a few days, I go back to watching them. To stop this I have deleted all social media from my phone and only have WhatsApp. What else can I do? Lastly, I am really missing you !شیخ Please do dua that I can truly benefit from you and come to خانقاہ with عافیہ as soon as possible.
جواب:
ماشاء اللّٰہ!
It is true that it is very difficult to control oneself. This is called نفس. So what is needed in thi is مجاہدہ. It means you should stop with determination. Your نفس doing نفس from this and this will be مجاہدہ. But this مجاہدہ will become easier and easier with the passage of time if you act upon it. The other thing is that actually you are addicted to seeing things online. So addiction can be controlled if you control yourself for three weeks consecutively. If you stop yourself from these things for three weeks consecutively then inshallah this will be stopped. So you should not lose this chance. This is actually what doctors say because doctors are anxious to solve this problem. Nowadays, it is a big problem. So addiction can be controlled by adults by controlling themselves for three weeks consecutively and for children for one week. So I think you can act upon this. And the other thing is that you should not go to those places intentionally where غیر محرم are there. You can go there if it is needed but with your eyes lowered. May اللّٰہ سبحانہ و تعالیٰ protect you from these sins!
سوال نمبر 10:
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ۔ حضرت!
Dua requested for me to do مقبول حج this year.
جواب:
May اللّٰہ سبحانہ و تعالیٰ grant Tawfiq to us to perform مقبول حج this year. May Allah accept it.
سوال نمبر 11:
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ۔ حضرت! جیسا کہ کوئی عورت خلیفہ نہیں بن سکتی، تو کیا بیعت کرنا بھی خلیفہ کا کام ہوتا ہے یا بیعت کرنا خلافت سے الگ ہے؟ کیا شیخ کسی متقی نیک خاتون کو (جن کی اصلاح ہو چکی ہو، اور اس نے سلوک طے کر لیا ہو) صرف بیعت کرنے کی اجازت دے سکتا ہے؟ جو خواتین کو بیعت کرے اور ان کی اصلاح کرے اور وہی بات بتائے جو شیخ بیعت کرتے وقت پڑھتا ہے۔
جواب:
عورت شیخ نہیں بن سکتی، یہ بات تو final ہے۔ اور اس کے اندر بڑی حکمت ہے، البتہ وہ یوں کرسکتی ہے کہ اگر کسی شیخ نے اس سے کہا ہو کہ آپ میری مجھ سے خواتین کو بیعت کر لیا کریں اور وہ الفاظ اس شیخ کے لئے کہلوا دے، تو بیعت وہ شیخ سے ہوگی، لیکن اس خاتون کے ذریعے سے۔ لہٰذا یہ بات تو ہوسکتی ہے، لیکن خود وہ بیعت نہیں کرسکتی۔ اس لئے اگر کوئی کر رہی ہے، تو وہ غلط کر رہی ہے، اور یہ اپنے آپ کو گڑھے میں گرا رہی ہے، نقصان پائے گی۔ لہٰذا ایسی چیزوں سے پرہیز کرنا چاہئے، کیونکہ یہ تو ذمہ داریاں ہیں اور ذمہ داری کون آسانی سے لیتا ہے؟ میں تو حیران ہوتا ہوں کہ ذمہ داری کو لینے کے لئے کوششیں ہو رہی ہیں، کیونکہ جب میں دفتروں میں کسی کو دیکھتا ہوں کہ اسے ذمہ داری دی جا رہی ہے، تو وہ بھاگتا ہے اور وہ ذمہ داری لینے سے کتراتا ہے، کیونکہ پھر اس سے پوچھا جاتا ہے۔ اب اگر اللّٰه پاک آپ کو مقبول بنا دے اور آپ شیخ نہ ہوں، خلیفہ نہ ہوں اور کسی کو پتا بھی نہ ہو، جیسے حدیث شریف میں آتا ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْعَبْدَ التَّقِيَّ الْغَنِيَّ الْخَفِيَّ‘‘ (سلسلہ احادیث صحیحہ: 1)
ترجمہ: ’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ پرہیزگار، بے نیاز اور گمنام بندے سے محبت کرتا ہے“۔
بلکہ ایک حدیث شریف میں آتا ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جس کا مفہوم یہ ہے کہ بہت سارے لوگ ایسے ہوتے ہیں، جو خشک کھالوں والے ہوتے ہیں اور جو پریشان حال ہوتے ہیں اور کوئی ان کو سلام نہیں کرتا، نہ کوئی اس کا سلام لیتا ہے، کوئی کسی کو نکاح کا پیغام بھیجے، تو قبول نہیں کرتے، نہ کوئی مشورے کے لئے بلاتا ہے، لیکن اللّٰه پاک کے یہاں ان کا ایسا مقام ہوتا ہے کہ اگر وہ کسی بات پر قسم کھائیں، تو اللّٰه تعالیٰ ان کی لاج رکھنے پر اس قسم کو پورا فرما دیتے ہیں۔ (سنن ترمذی: 3854)
اس لئے میں حیران ہوں کہ ان چیزوں کے لئے لوگ کیوں خوش ہوتے ہیں، جبکہ یہ چیزیں مطلوب نہیں ہیں۔ اصلاح مطلوب ہے۔ ﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا﴾ (الشمس: 9-10) کا مطلب یہ نہیں کہ کامیاب ہوگیا وہ شخص جو خلیفہ بن گیا۔ یہ ترجمہ نہیں ہے، بلکہ ترجمہ یہ ہے کہ کامیاب ہوگیا وہ شخص جس نے اپنی اصلاح کر لی، اپنے نفس کو قابو کر لیا۔ تو چاہے وہ عورت ہو، چاہے مرد ہو، کامیابی اپنے نفس کو قابو کرنے میں ہے۔ لہٰذا خلیفہ بننے میں کامیابی نہیں ہے، بلکہ وہ ذمہ داری ہے، اور ذمہ داری شوق سے کوئی نہیں لیتا۔ حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کا واقعہ ہے کہ جب حضرت نے ان کو اجازت دی، تو فرمایا کہ میرے پیروں تلے زمین نکل گئی تھی، میں نے کہا یہ کیا ہوگیا! میں کیسے کروں گا؟ اور پھر باقاعدہ اس کے اوپر کلام کیا تھا۔ لہٰذا یہ چیزیں بالکل نہیں سوچنی چاہیئں اور نہ ہی کبھی اس کی خواہش کرنی چاہئے، دل کو ان چیزوں سے بالکل خالی رکھنا چاہئے، ایک ہی بات ہو کہ میں اللّٰه کا بندہ بنوں۔ ’’اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُهٗ‘‘ یہاں عَبْدُہ پہلے ہے اور رَسُوْلُه بعد میں ہے۔ اس کا مطلب کیا ہوا؟ کہ بندگی سب سے مطلوب ہے، لیکن رسول کسی کسی کو بنایا جاتا ہے، یہ تشکیل کی بات ہے، اگر تشکیل ہوجائے، تو ٹھیک ہے، پھر بھاگنا بھی نہیں ہے، پھر مجبوری ہے، لیکن اگر تشکیل نہیں ہوئی، تو تمنا نہیں کرنی چاہئے۔ بلکہ میں ایک مثال دیتا ہوں اور بہت آسان مثال ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے محبوب کے پاس بیٹھا ہو اور کئی لوگ اور بھی محبوب کے پاس بیٹھے ہوں، سب خوش ہوں، ادھر محبوب ایک آدمی کو کہہ دے کہ جاؤ، بازار سے میرے لئے فلاں چیز لاؤ، اور وہ وہاں سے جانا نہ چاہتا ہو، لیکن حکم کے مطابق اٹھے اور وہ چیز لانا چاہے، تو اب بیشک وہ بازار جائے گا، لیکن اس کا دل بازار میں نہیں ہوگا، بلکہ اس کا دل ادھر محبوب کے پاس ہوگا۔ اب یہ پورے ذہن سے کام بھی لے گا، اور سب کچھ کرے گا، لیکن جلد سے جلد واپس ہونے کی کوشش بھی کرے گا، کیونکہ اس کا دل ادھر لگا ہوا ہے۔ اب اگر اس وقت کوئی اور آدمی کہہ دے کہ مجھے کیوں نہیں بھیجا؟ تو اب بتاؤ! وہ کیسے اور یہ کیسے؟ بس یہی بات ہے۔ لہٰذا ہمارے حضرات تو یوں کرتے تھے کہ جن کے دلوں میں اس قسم کی ذرا بھی خواہش آتی، تو ان کو خوب رگڑے دیتے تھے، تاکہ کسی طریقے سے بھی ان کے دل میں یہ خیال نہ آئے۔ ہمارے ایک بزرگ گزرے ہیں، جن کا نام تھا احمد، وہ فرماتے ہیں۔
احمد تو عاشقے بمشیخت ترا چہ کار
دیوانہ باش، سلسلہ شد شد نشد نشد
(احمد تو ایک عاشق ہے، تجھے مشیخت سے کیا کام ہے؟ دیوانہ بن، سلسلہ ہو یا نہ ہو، اس سے تمہیں کیا؟)
کیونکہ یہ کام تمہارا تھوڑا ہے، اللّٰه تعالیٰ اپنی مخلوق کو جانتا ہے۔ اس لئے جب تک کامل اصلاح نہ ہوئی ہو، اور حکم نہ دیا گیا ہو، اس وقت تک صرف اپنے بارے میں سوچنا چاہئے کہ میری اصلاح ہوجائے۔ میں اس کی بہت آسان مثال دے سکتا ہوں کہ ہسپتال میں ہزاروں مریض ہوتے ہیں، لائن لگی ہوتی ہے، کیا کوئی مریض اپنا نمبر (جو بیسویں نمبر پر کھڑا ہو، وہ چالیسویں نمبر والے کو اپنا نمبر) دے سکتا ہے؟ بیشک وہ کتنا ہی اچھا آدمی کیوں نہ ہو، لیکن اس کو اپنی فکر ہوتی ہے۔ اسی طرح ہر ایک کو اپنی فکر ہوتی ہے، اپنی بیماری کی فکر ہوتی ہے، وہ اپنے میدان میں ہوتا ہے، اسی طریقے سے دوسرے لوگوں کی فکر سے پہلے اپنی فکر کرنی چاہئے۔ اسی کے بارے میں حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا: کارے خود کن کار بیگانہ مکن۔ (اپنا کام کرو، دوسروں کا کام چھوڑو) لہٰذا جب تک آپ کی ذمہ داری نہیں لگی، اس وقت تک اپنا کام کرو، دوسرے کا کام چھوڑو۔
سوال نمبر 12:
السلام علیکم۔
name فلاں حضرت جی one and a half months past of my current ذکر نفی اثبات two hundred ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ’’ two hundred and ‘‘اسم ‘‘حَقْ three hundred and اسم ذات hundred times although I became more regular than before still not truly punctual.
جواب:
This you should do this way نفی اثبات Two hundred ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ’’ three hundred and ‘‘حَقْ’’ also three hundred and ‘‘اسم ذات ’’اَللّٰہ hundred times and I think you have missed one very important thing and your message that should start from السلام علیکم because it is سلام مسنون
سوال نمبر 13:
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! جو اللّٰہ والے ہوتے ہیں، ان کے دل بنے ہوئے ہوتے ہیں اور وہ ہر فیصلہ دل سے پوچھ کر کرتے ہیں، کیونکہ وہ دنیا کے لئے نہیں، بلکہ دین کے لئے فیصلے کرتے ہیں، چاہے وہ عام خرید و فروخت کے معاملات ہی کیوں نہ ہوں، لیکن وہ لوگ دل سے پوچھ کر کرتے ہیں اور چیز کا انتخاب کرتے ہیں، لیکن ہم جیسا عام انسان ان باتوں کو نہیں سمجھتا۔ شاید اس لئے کہ ہمارے دل نہیں بنے ہوتے، اس لئے ہم ان فیصلوں کو بھی نہیں سمجھ پاتے اور نہ ہی دل سے فیصلے کرسکتے ہیں۔ حضرت! یہ دل کس طرح بنتے ہیں، کیا یہ مراقبے سے بنتے ہیں یا اس کے لئے کوئی مجاہدہ بھی کرنا ہوتا ہے؟
جواب:
جب تک انسان ایک شیخ کی تعلیم میں ہو، تو میں سمجھتا ہوں کہ وہ بڑا خوش قسمت ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارے حضرت سید تسنیم الحق صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے شیخ میخ بند بابا جی رحمۃ اللّٰہ علیہ جب فوت ہوئے، تو اس کے بعد میں حضرت کے پاس گیا، حضرت بیمار تھے اور hospital میں تھے، نالی ناک میں لگی ہوئی تھی، میں جب گیا، تو حضرت نے جب مجھے دیکھا تو مجھے فرمایا (کیونکہ حضرت میرے ساتھ ان کے پاس جاتے تھے، اس لئے حضرت کو اپنا شیخ یاد آیا، تو رو پڑے اور فرمایا) تیری دعاؤں کی جگہ تو ہے، میری دعاؤں کی جگہ چلی گئی، اور پھر رونا شروع کیا۔ ان کی جو بیٹیاں تھیں، وہ ڈاکٹرز تھیں، انہوں نے مجھے کہا کہ آپ ہٹ جائیں، کیونکہ یہ اس وقت مشکل میں ہیں، ناک میں نالی لگی ہوئی ہے، تو بہت مشکل ہوتا ہے، اس وقت ان کو تکلیف ہوگی۔ میں ہٹ کر ایک طرف بیٹھ گیا۔ اب دیکھیں! انہوں نے دو لفظوں میں بڑی بات کردی کہ تمہاری دعا کی جگہ تو ہے، لیکن ہماری دعا کی جگہ تو ختم ہوگئی۔ چنانچہ اگر کسی کا شیخ زندہ ہے، تو اس کو بڑا شکر ادا کرنا چاہئے، ان سے پوچھ پوچھ کر کام کرنے چاہیئں۔ باقی جب وہ کہہ دے کہ تمہارا دل اس کے مطابق بن گیا ہے، تو پھر اپنے دل سے پوچھا کرو اور شرح صدر پر عمل کیا کرو، پھر ٹھیک ہے، اس وقت تو آپ کے پاس بہت آسانی ہوگی۔ البتہ عام طور پر بڑی بات یہ ہوتی ہے کہ جائز کام کرنا چاہئے، ناجائز نہیں کرنا چاہئے۔ یہ بڑے اصول کی بات ہے، اور یہ شریعت ہی کی بات ہے، اس میں تو پوچھنے کی بھی ضرورت نہیں، البتہ یہ علماء سے پوچھ سکتے ہیں کہ کونسا کام جائز ہے اور کونسا کام ناجائز ہے۔ لیکن عام طور پر فیصلے اس بنیاد پر ہوتے ہیں۔ باقی اگر کچھ ایسی باتیں ہوں، جس میں کوئی critical decision ہو، تو وہ پھر شیخ سے پوچھنا چاہئے۔ میرے خیال میں یہ کافی ہے۔
سوال نمبر 14:
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! آپ کی رہنمائی کی منتظر ہوں۔ جزاکم اللّٰه۔ میں الحمد للّٰہ! 13 فروری کو آپ سے بیعت ہوئی تھی۔
جواب:
ٹھیک ہے، میں آپ کو کارڈ send کرتا ہوں، شاید میں بھول گیا ہوں، میں ابھی بھیج دیتا ہوں۔
سوال نمبر 15:
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ میں فلاں سعودی عرب سے بات کر رہا ہوں۔ میرے اصلاحی ذکر میں اکثر ناغے ہوتے ہیں، اس وجہ سے میں رابطہ نہیں کر پا رہا۔ ذکر میں ناغے کرتے کرتے 5 ماہ گزر گئے ہیں۔ حضرت والا! میں بہت شرمندہ ہوں۔ حضرت والا! میں آپ سے بہت معذرت خواہ ہوں، ارادہ کرتا ہوں، لیکن پھر ناغہ ہوجاتا ہے، اس وجہ سے آپ کو اطلاع نہیں کی، اب بہت مشکل سے آپ کو خط لکھا ہے، شیطان حاوی ہے، بد نظری کرتا ہوں، وقت فضول کاموں میں خرچ کرتا ہوں، جھوٹ بولنا اور غصے میں نازیبا گفتگو کرنا یعنی گالم گلوچ ہوتی ہے، فجر کی نماز 4 ماہ سے انفرادی ہے، باقی نماز جماعت کے ساتھ پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں، موبائل پر وقت کا ضائع کرنا عادت ہے۔ میرا اصلاحی جہری ذکر 200 مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘، 400 مرتبہ ’’اِلَّا اللّٰہ‘‘، 600 مرتبہ ’’اَللّٰهُ اَللّٰهْ‘‘، 500 مرتبہ ’’اَللّٰہ‘‘ اور ساڑھے 4 ہزار اسم ذات ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ ہے۔ اور گھر والی کا اصلاحی ذکر مراقبۂ قلب 15 منٹ ہے، جس میں 4 بار ناغہ ہوا ہے۔ مراقبہ میں تھوڑا تھوڑا محسوس ہوا ہے۔ آگے کے لئے رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
آپ اس طرح کر لیں کہ اپنا ذکر تھوڑا سا کم کر لیں، تاکہ آپ کو پہلے regularity آئے، کیونکہ وہ زیادہ ضروری ہے۔ تو اب آپ اس طرح کر لیں کہ 200 مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘، 400 مرتبہ ’’اِلَّا اللّٰہ‘‘، 600 مرتبہ ’’اَللّٰهُ اَللّٰهْ‘‘، 500 مرتبہ ’’اَللّٰہ‘‘ کریں، تاکہ آپ کا ذکر روزانہ ہو۔ دوسری بات یہ ہے کہ آپ مجھے بتاؤ کہ آپ نے ڈاکٹر کے پاس اس وقت جانا ہوتا ہے، جس وقت آپ ٹھیک ہوجاتے ہیں؟ میرا خیال ہے کہ اتنی عقل تو بچے کو بھی ہوگی کہ جب انسان بیمار ہوتا ہے، اس وقت ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے۔ لہٰذا اگر کام نہیں ہو رہا، تو اس کی اطلاع تو کم از کم کرنی چاہئے کہ یہ چیز نہیں ہو رہی۔ یہ جو میں نے آپ کو اب بتایا ہے، یہ میں آپ کو پہلے بھی بتا سکتا تھا۔ پانچ مہینے آپ نے ٹرخا دیا، اس میں نقصان کس کا ہوا؟ باقی آئندہ یہ بات ذہن میں نہ رکھیں کہ جب میں ٹھیک ہوجاؤں گا، پھر میں بات کروں گا۔ بس آئندہ کے لئے اس بات کا خیال رکھیں۔ اور اپنے گھر والوں کو بتا دیں کہ 20 منٹ اب ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ دل سے کر لیا کریں۔
سوال نمبر 16:
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰه وبرکاتہ۔
I pray you are keeping well dear شیخ though I am still full of words الحمد للّٰہ since you blessed Advise to be go I have not downloaded utube on my phone nor watch it in my In my laptop I was closed to many time and would feel the desire on the weekend But through the workout of your advice I have been saved Since الحمد للّٰہ may اللّٰہ تعالیٰ grant me complete اصلاح at your hands I wanted to ask a question I have now started working in hospital And the hospital setting involves a lot of treatment And therefore a lot of interaction with the opposite gender I wanted to ask how should I interact For example I try to keep the conversational professional only And avoid mixing with them When I don't need to like when it is tea time however they sometimes start random conversation For example they talk about their problems at home Or might talk about favorite foods And ask me what me what my favourite is They also offer snakes But I politely refuse and avoid eating them Because I don't want to eat from their رزق as I don't want to to affect my heart But another Muslim said to me that I am doing too much As the food I buy from the supermarket is also prepared by their hands He says that we we should not be extreme and cause unnecessary to those around us and quote the
﴿فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ﴾ (التغابن: 16)
ترجمہ: ’’لہٰذا جہاں تک تم سے ہو سکے اللہ سے ڈرتے رہو‘‘۔
I don't understand what to do and what standards to keep So that I don't displease اللّٰہ while acting with the حکمۃ Kindly advise beloved شیخ may اللّٰہ allow me to fully benefit from your فیض and may prolong your share with me for a long time Sorry for the lengthy message
جواب:
ماشاء اللّٰہ! آپ کے بڑے اچھے جذبات ہیں، اللّٰہ تعالیٰ آپ کے جذبات کو قبول فرمائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ماشاء اللّٰہ! جن چیزوں سے اللّٰہ پاک نے آپ کو حفاظت نصیب فرمائی ہے، اس پر اللّٰه تعالیٰ کا شکر ادا کریں، تاکہ نعمت بڑھ جائے۔ باقی جہاں تک آپ کے سوال کا تعلق ہے، تو یہ جو کم سے کم interaction ہے، اس کو یقینی بنائیں۔ کیونکہ مجاہدہ کیا ہوتا ہے؟ مثلاً تقلیلِ طعام، تقلیلِ کلام، تقلیلِ منام، تقلیل خلط مع الانام، یہ سب مجاہدات ہیں۔ اب یہ نہیں کہا کہ بالکل یہ نہیں کرنا، بلکہ کم کریں، کم کرنے کے بارے میں فرمایا ہے، کیونکہ کوئی طعام بالکل ختم تو نہیں کرسکتا، البتہ کم کرسکتا ہے، نیند بالکل ختم نہیں کرسکتے، کم کرسکتے ہیں اور لوگوں کے ساتھ ملنا جلنا ختم نہیں کرسکتے، لیکن کم کرسکتے ہیں، اس طرح لوگوں کے ساتھ بات چیت کرنا کم کرسکتے ہیں۔ لہٰذا آپ اس صاحب کو (جس نے یہ بات کی ہے، ان کو) بتا دیں کہ میں کم کرنے کی کوشش کر رہا ہوں، کیونکہ پہلے سے جو کچھ ان کی طرف سے ہو رہا ہے، جتنا میں مجبوراً کر رہا ہوں، وہ اس کم میں آگیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ کھانے کی بات تو ٹھیک ہے، ہمیں پتا ہے کہ ہم باہر بازار سے خریدتے ہیں، وہ بھی ان لوگوں نے بنایا ہوا ہے، تو اس چیز کو بھی ہم کم کرسکتے ہیں، کیونکہ اس کا دل پر اثر ہوتا ہے۔ البتہ جتنا ہم لوگ مجبور ہیں، اتنا ٹھیک ہے، مجبوری میں تو انسان کو حرام بھی کھانے کی اجازت ہوتی ہے، تو وہ مجبوری کی باتیں ہوتی ہیں، لیکن جہاں مجبوری نہیں ہے، جہاں پر اختیار ہے، تو اپنے اختیار کو استعمال کر کے ہم کم کرسکتے ہیں۔ لہٰذا یہ کم کرنے والی بات ہے، یہ ختم کرنے والی بات نہیں ہے اور یہ logic بالکل ٹھیک نہیں ہے کہ اگر ہم بازار سے لینے میں مجبور ہیں، تو پھر باقی چیزیں بھی ہم اس طرح کریں۔ نہیں، ایسا نہیں ہے۔ مثلاً پہلی نظر مجبوری ہوتی ہے، کیونکہ پتا نہیں ہوتا، لیکن کیا اس کو ہم جاری رکھ سکتے ہیں؟ اس کو جاری نہیں رکھ سکتے، بلکہ اس وقت اپنے چہرے کو ہٹانا ہوتا ہے۔ اس طرح ہی practical رہنا چاہئے اور practical یہی بات ہے کہ جتنا انسان اس کو کم کرسکتا ہے، اتنا کم کرے اور ڈرتا رہے۔ تقویٰ اسی کو کہتے ہیں کہ ڈرتا رہے کہ کہیں میں کوئی گڑھے میں پڑ نہ جاؤں، میں غلطی نہ کروں، کوئی نقصان نہ ہوجائے، بس اتنی ہی بات ہوتی ہے۔ مثلاً ایک آدمی بالکل ڈرتا رہے کہ کہیں میرا accident نہ ہوجائے، اور وہ گھر سے ہی باہر نہ نکلے، تو اس کو کہیں گے کہ بھائی گھر سے تو باہر نکلنا ہوگا کام کے لئے، البتہ غیر ضروری طور پر نہ جائیں۔ اسی طریقے سے جہاں ضرورت ہے، مجبوری ہے، وہاں ٹھیک ہے، ورنہ آپ اپنے آپ کو بچائیں، جو لوگ بچنا چاہتے ہیں، ان کے بارے میں اللہ فرماتا ہے:
﴿وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا﴾ (الطلاق: 2)
ترجمہ: ’’اور جو کوئی اللہ سے ڈرے گا اللہ اس کے لئے مشکل سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کردے گا‘‘۔
لہٰذا جو لوگ ڈرتے ہیں، ان کے لئے اللّٰه پاک راستے نکال لیتے ہیں، ان کو راستہ مل جاتا ہے۔ اس لئے ہم لوگوں کو practical ہونا چاہئے۔
سوال نمبر 17:
ایک سالک نے سوال کیا تھا جو کہ حضرت نے مجلس میں نہیں سُنایا، بلکہ اُس کا صرف جواب حضرت نے دیا ہے۔
جواب:
باقی ذکر اب اس طرح کریں کہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ 200 مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ 200 مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ 200 مرتبہ اور ’’اَللّٰہ‘‘ 100 مرتبہ۔
سوال نمبر 18:
حضرت! بچوں سے متعلق ایک سوال ہے کہ بعض بچے جو تھوڑا بڑے ہوجاتے ہیں، تو وہ بالکل بات نہیں مانتے۔ ان کو اگر کسی ایسے کھیل سے جو ناجائز ہوتا ہے، منع کیا جائے، تو وہ چھپ کر نکل جاتے ہیں یا بالکل بات ہی نہیں مانتے۔ ان کے ساتھ کیا کرنا چاہئے؟
جواب:
اصل میں یہ تو person to person کرتا ہے، ہر شخص کے لئے اس کا الگ طریقہ کار ہے، جو اس کو سمجھ جائے کہ آخر اس کو یہ بگاڑ کس وجہ سے آیا ہے؟ اگر کسی بری صحبت کی وجہ سے آیا ہے، تو اس سے اس کو کاٹنے کی کوشش کی جائے یا اگر وہ ignore یعنی نظر انداز کی وجہ سے بگڑا ہو، تو پھر اس کے ساتھ اپنا رابطہ بہتر کرنا چاہئے، تاکہ وہ ہماری بات مانے۔ اصل میں ہم لوگ ان پر ٹائم لگاتے نہیں جتنا ٹائم لگانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جتنا بچہ ذہین ہوگا، اتنا زیادہ ٹائم لگانا ہے، کیونکہ یہ بات تو حقیقت ہے کہ ان میں شرارتیں بھی ہوتی ہیں۔ وہ dodge بھی کرتے ہیں۔ لیکن یہ بات ہے کہ اس کو اپنے assignment سمجھنا ہے کہ یہ تو میری ذمہ داری ہے، اس لئے میں یہ کروں گا، لہٰذا ان کے ساتھ رابطہ مضبوط کرنا ہوتا ہے، تاکہ وہ بات مانے۔ مثلاً اگر جائز و ناجائز والی بات ہے، تو اگر جائز چیز کی اجارت اس کو دی جاتی ہو، تو ناجائز چیز سے روکنا آسان ہوجاتا ہے، لیکن اگر جائز بھی اس کو کرنے کی اجارت نہ دی جائے، تو پھر وہ باغی ہوجاتا ہے، پھر وہ جائز و ناجائز کی پروا نہیں کرتا، جو بھی اس کا دل کرے گا، پھر وہ کرے گا، چاہے چھپ کے کرے، چاہے کسی اور طرح کرے۔ لہٰذا جس حد تک اس کو ڈھیل دی جاسکتی ہے، اس حد تک اس کو ڈھیل دے کر کنٹرول کرنا چاہئے۔ مثال کے طور پر جانور کی رسی کو لمبا کرنا، لیکن اس کو چھوڑنا نہیں۔ بس یہی طریقۂ کار ہے، لیکن یہ سب کے اوپر فٹ آنا ضروری نہیں ہے، کیونکہ اس میں بہت سارے لوگوں کی باتیں مختلف ہوسکتی ہیں۔
سوال نمبر 19:
حضرت! اس میں یہ ہوتا ہے کہ جو بچے ذہین ہوتے ہیں، وہ ناجائز کے لئے جائز کو پہلے step بناتے ہیں۔ وہ ایسا کر لیتے ہیں کہ بھئی یہ تو جائز ہے، ان کو بھی پتا ہوتا ہے، لیکن جب اس کی اجارت دی جاتی ہے، تو اس سے اگلا قدم ان کا اصل مقصود ہوتا ہے۔ لہٰذا جائز تک جب ان کو چھوڑو، تو پھر وہ آگے چلے جاتے ہیں۔
جواب:
یہ بات تو صحیح ہے۔ اسی لئے میں نے آپ سے عرض کردیا کہ اس میں یہ فارمولہ ضروری نہیں کہ سب کے اوپر فٹ آئے۔ لیکن اس کے لئے ہمیں یہی طریقہ اختیار کرنا چاہئے۔ یعنی باخبر رہنا چاہئے، وقت پر کنٹرول کرنا چاہئے، کیونکہ اگر کسی کو کسی چیز کی addiction ہوجائے، تو پھر اس کو کنٹرول کرنا مشکل ہوجاتا ہے، مثال کے طور پر کسی بچے کو سائیکل کا addiction ہوتا ہے، لیکن سائیکل چلانا اس کے لئے خطرناک ہوتا ہے (حالات کے لحاظ سے) اب اس سے اس کو کنٹرول کرنا آسان نہیں ہوتا، کیونکہ وہ کوئی راستہ نکالے گا، اس لئے وقت پر اگر اس کو کنٹرول کیا، تو addiction نہیں ہوتا۔ اور اگر ایک دفعہ ان کو یہ ہوجائے، تو پھر بہت محنت کرنی پڑتی ہے۔ اللّٰه تعالیٰ بس مدد فرمائے، اس وقت تو لگے ہوئے ہیں۔ یہ قسمت قسمت کی بات ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ہی ماحول ہوتا ہے، کچھ لوگوں کے لئے بڑی آسانی ہوجاتی ہے، راستے پر آنا آسان ہوتا ہے، وہ فائدہ اٹھاتے ہیں اور ان کے لئے راستہ بن جاتا ہے۔ لیکن کچھ لوگ اسی جگہ پر ہوتے ہیں، لیکن ان کے لئے وہی چیزیں بغاوت پر آمادہ کرتی ہیں۔ اور پھر وہ نہیں مانتے۔ مثلاً مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی اولاد دیکھیں! ماشاء اللّٰہ، اللّٰہ پاک نے ان کے والد سے ان کو فیض اٹھانے کا بڑا موقع پہنچایا اور بڑے لوگ بن گئے، لیکن ایسے بہت بڑے بڑے حضرات ہیں، ان کی اولاد صحیح نہیں ہوئی، جیسے حضرت ظفر احمد عثمانی صاحب رحمۃ اللّٰه علیہ کا بیٹا یا حضرت عبدالعزیز رحمۃ اللّٰه علیہ سرگودھا والے ان کا بیٹا سعید رائے پوری۔ مطلب یہ ہے کہ کتنے ہزاروں کو ان سے فائدہ ہو رہا تھا، لیکن اپنا بیٹا ایسا ہوا۔ لہٰذا دیکھا جائے کہ علم کی وجہ سے اگر کسی کو reaction ہوتا ہو، تو مفتی شفیع صاحب کے بیٹوں کو کیوں نہیں ہوا؟ خیر اس میں باتیں تو بہت زیادہ ہیں 2، 3 باتوں میں اس کا اندرہ لگانا مشکل ہے، لیکن ہم اپنی کوشش کے مکلف ہیں، ہم قسمت تو تبدیل نہیں کرسکتے، پر اپنی کوشش کے مکلف ہیں، بس جتنی آپ کرسکتے ہیں، وہ کریں۔ احادیث شریفہ میں اس لحاظ سے اشارے موجود ہیں، جیسے ایک وقت آئے گا کہ کھلم کھلا غلط کام ہوتے ہوں گے، تو جو آدمی ان کو کہے گا کہ ذرا تھوڑا سا ہٹ کر کر لو، تو وہ اس وقت کا ولی اللّٰہ ہوگا۔ اب دیکھیں! صرف اتنا کہتے ہیں کہ ذرا ایک طرف ہوجائیں یعنی یہاں تک حالات پہنچیں گے۔ مطلب یہ ہے کہ اتنی بے بسی ہوگی کہ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ نہ کرو، صرف یہ کہیں گے کہ بس ذرا تھوڑا سا ہٹ کر کر لو، اس طرح کھلم کھلا نہ کرو۔
سوال نمبر 20:
’’اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدِنِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ وَّعَلىٰ آلِہٖ وَاَصْحَابِهٖ وَّبَارِكْ وَسَلِّمْ‘‘ یہ صحابہ کی شان میں بھی چلا جاتا ہے؟
جواب:
میں نے آپ کو اس وقت ہی بتا دیا تھا کہ جو آپ ﷺ سے منقول درود شریف ہے، وہ جو بھی ہے، وہ آپ پڑھ سکتے ہیں۔ اب اگر یہ منقول ہے اور اسی طرح منقول ہے، تو بس ٹھیک ہے، پڑھ سکتے ہیں۔
سوال نمبر 21:
حضرت! ایک درود شریف ہے، ’’اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلىٰ مُحَمَّدِنِ النَّبِیِّ وَّاَزْوَاجِهٖ وَذُرِّیَاتِهِ کَمَا صَلَّیْتَ عَلىٰ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّكَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ‘‘۔
جواب:
یہ آپ کو ’’چہل احادیث شریف‘‘ میں مل جائے گا۔ یہ بالکل پڑھ سکتے ہیں۔ ہمارے قادری سلسلے کا اپنا ایک منتخب درود ہے، اس میں عترتی کا لفظ آتا ہے۔ اور چشتی سلسلے کا میرے خیال میں دشمنی سے حفاظت کا ذکر ہے۔ خیر درود میں کوئی فرق نہیں ہے، بس یہ تو اپنی اپنی مناسبت ہے، درود تو سارے اچھے ہیں۔ میں نے تو اپنے لئے بڑا مختصر کیا ہوا۔ میں جب زیادہ برکت حاصل کرنے کے لئے درود پاک پڑھنا چاہتا ہوں، تو درود ابراہیمی پڑھتا ہوں اور اگر موقع نہ ہو تو پھر مختصر ’’صَلَّی اللّٰه عَلَیْه‘‘ پڑھتا ہوں بس۔ لہٰذا کوئی مشکل نہیں ہے۔ باقی درود ابراہیمی صحاح ستہ سے ثابت ہے، جو یقیناً افضلیت والی بات ہے کہ چھے کی چھے کتابوں میں آگیا، اور پھر اس کو نماز کے لئے منتخب کیا گیا ہے۔ اور اگر انسان کی طبیعت میں نیند کی طلب ہو، تو ذکر اس کو مزید بڑھا سکتا ہے، کیونکہ اس میں سکون ہے اور سکون نیند آور چیز ہے۔ اس لئے اس میں پھر یہ ہوگا۔ البتہ اگر آپ ہشاش بشاش ہیں اور کسی بھی کام کو ہشاش بشاش طریقے سے کرسکتے ہیں، تو ذکر بھی پھر اس میں آپ کرسکتے ہیں۔ اس وجہ سے میں اکثر کہتا ہوں کہ اس کے لئے وہ وقت منتخب کر لو، کم از کم جو علاجی ذکر ہے، اس کے لئے تو جو انسان کا ہشاش بشاش وقت ہو، جس میں انسان ہر کام آسانی کے ساتھ کرسکتا ہو، تو وہ ذکر کو دے دے۔ اکثر ہمارے بہت سارے ساتھی جو ہیں، ان کا یہ طریقہ ہوتا ہے کہ جو ہشاش بشاش وقت ہے، اس میں تو دوسرے کام کرتے ہیں اور ذکر کو وہ وقت دیتے ہیں خصوصاً ہمارے تبلیغی جماعت والے حضرات یہ تو مشہور ہیں کہ عشاء کی نماز کے بعد جب بستر پر بیٹھ جاتے ہیں، پھر ذکر کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نیند کی نیت کر لی ہے، کیونکہ یہ تو نیند کی دعوت ہوتی ہے۔ جب ہم جماعت میں چلتے تھے، تو اگر اس طرح بیٹھ جاتے، تو امیر صاحب کہتے کہ آپ نے نیند کی نیت کر لی ہے، اس لئے آپ التحیات کی شکل میں بیٹھ جاؤ، کیوںکہ اس میں اگر نیند آئے گی تو وہ گرے گا اور فوراً جاگے گا، لیکن اگر اس طرح ہے تو پھر اس میں آپ کو کچھ بھی نہیں ہوگا۔ اور اگر کوئی بستر پر بیٹھ کر ذکر کرتا ہے، تو اس نے تو نیت کر لی ہے کہ بس ٹھیک ہے۔ یا پھر بعض لوگ علاجی ذکر چلتے پھرتے کر لیتے ہیں، بلکہ مجھ سے تو بعض لوگوں نے یہ اجازت مانگی کہ میں driving کرتے ہوئے ذکر کرسکتا ہوں؟ میں نے کہا بالکل نہیں، خصوصاً driving کرتے ہوئے تو ویسے بھی اجازت نہیں ہے، البتہ ویسے آپ کرسکتے ہیں کہ جس میں آپ کی توجہ change نہ ہوتی ہو۔ لیکن یہ بات ہے کہ اس میں توجہ چاہئے ہوتی ہے یعنی علاجی ذکر میں، کیونکہ اس میں آپ نے اپنے آپ کو بدلنا ہے، لہٰذا اگر آپ driving کرتے ہوئے ذکر کریں گے تو driving کی طرف خیال کریں گے یا اس کی طرف خیال کریں گے۔ بہت بڑی دولت ہے ذکر اگر انسان سمجھے تو، بلکہ میں ایک بات عرض کرسکتا ہوں کہ بہت سارے وقت میں انسان ذکر کرتا ہے، الفاظ ذکر کے ہوتے ہیں، لیکن اس کا احساس ذکر کا نہیں ہوتا، مثلاً ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کر رہا ہوتا ہے، لیکن اللّٰه یاد نہیں ہوتا۔ لہٰذا اس وقت اپنے آپ کو اس طرف لانا کہ اس کو اللّٰه یاد رہے، کیونکہ اصل ذکر تو اللّٰه یاد رہے، یہ الفاظ تو صرف اس کا ایک راستہ ہے، باقی بنیاد تو یہی ہے کہ انسان کو اللّٰه یاد رہے، گناہوں سے حفاظت تو تب ہوگی، جب انسان کو اللّٰه یاد ہوگا۔
سوال نمبر 22:
جب میں ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کر رہا ہوتا ہوں تو اس طرح خیال آجاتا ہے کہ جیسے میں اللّٰه کو پکار رہا ہوں۔
جواب:
بالکل صحیح ہے، کیونکہ واقعی آدمی اللّٰہ کو پکار رہا ہوتا ہے۔
سوال نمبر 23:
جیسے بچہ ہوتا ہے، ایسے ہی مسلمان فریاد کر رہا ہوتا ہے؟
جواب:
ٹھیک ہے، یہ صحیح ہے، کیونکہ یہ فریاد کر رہا ہوتا اور یہ ہے بھی فریاد یعنی اپنے آپ کو اللّٰہ کے سامنے حاظر کرنا، اپنی التجاؤں کے ساتھ، اپنی فریاد کے ساتھ، محبت کے ساتھ۔ یہی ہمارے ذکر کا مطلب ہے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
۔ نوٹ! تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔