سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 666

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ


سوال نمبر 1:

السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ! حضرت میری والدہ مجھ سے ناراض تھیں اور میری غلطی بھی نہیں تھی، بعد میں پھر میں نے ان کو call کی اور صفائیاں دیں کہ میری غلطی نہیں تھی، لیکن بات پھر بحث کی طرف چلی گئی اور والدہ دوبارہ ناراض ہوگئیں۔ پھر مجھے بعد میں خیال آیا کہ میں نے ابھی معافی مانگی تھی۔ آج بھی میں نے call کی اور معافی مانگی، میں نے کہا کہ آج مجھے ماریں بھی تو میں کچھ نہیں کہوں گی آپ کا حق ہے۔ پھر امی نے کہا کوئی بات نہیں میں نے معاف کیا۔ اس سے خوشی ہوئی، لیکن مجھے بعد میں خیال آیا کہ میں صفائی نہ دیتی بس معافی مانگ لیتی۔ ایک تو مجھ میں جلدبازی ہے، اور دوسری چیز میں نے سوچا کہ میں غلطی پر نہیں ہوں تو پھر معافی کیوں مانگوں، امی کو سمجھاؤں کہ میں غلطی پہ نہیں تھی۔ تو مجھے لگا کہ میرے اندر عاجزی نہیں ہے، اگر عاجزی ہوتی تو میں اس چیز کو نہ دیکھتی کہ غلطی ہے یا نہیں، بس معافی مانگ لیتی۔ آپ اصلاح فرمائیں جَزَاکَ اللّٰہ۔

جواب:

اس پر میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں۔ میں نے پڑھا ہے ایک صاحب ٹیکسی چلا رہے تھے تو سامنے سے کوئی گاڑی آئی غلطی اُس کی تھی۔ تو بجائے اس کے وہ معافی مانگتا ان کے اوپر چڑھ گیا کہ آپ میرے سامنے کیوں آئے اور اس طرح، اس طرح، تو ان صاحب نے معافی مانگ لی کہ جی معاف کر دیجئے گا غلطی ہو گئی، بات ختم ہو گئی۔ ان کے ساتھ جو سواری بیٹھی تھی اس نے کہا: غلطی تو اس کی تھی آپ نے کیوں معافی مانگی؟ انہوں نے کہا یہ بیچارہ frustrated ہے اور اس frustration میں اس کو اپنے اوپر کنٹرول نہیں ہے، اگر میں معافی نہ مانگتا تو اس نے اپنی ساری frustration مجھ پہ اتارنی تھی اور ظاہر ہے میرے ساتھ لڑائی کرنی تھی، تو میں خوامخواہ کیوں لڑائی کرتا، میں نے معافی مانگ لی اور بس آزاد ہوگیا۔ اس نے کہا واقعی یہ تو کمال کی بات ہے۔ تو ویسے ہی یہ Strategic point of view سے بھی یہ طریقہ زیادہ بہتر ہے کہ انسان جلدی معافی مانگ لے تو اس میں آسانی ہے۔ حساب کتاب بعض لوگوں کے ساتھ کیا جاسکتا ہے لیکن والدین کے ساتھ حساب کتاب نہیں کیا جاسکتا، ان کی تو عمر بھی زیادہ ہوتی ہے۔ بعض دفعہ عمر کے لحاظ سے تو مخبوط الحواس بھی ہوجاتے ہیں، اس وقت تو ان کو سنبھالنا ہوتا ہے، ان کو سکھانا تو نہیں ہوتا۔ سکھانے میں اور سنبھالنے میں فرق ہے۔ بہرحال یہ آپ نے اچھا کیا کہ معافی مانگ لی اور آپ نے اس سے سبق بھی سیکھا، اس سبق کو یاد رکھیں اِنْ شَاءَ اللّٰہ فائدہ ہوگا۔

سوال نمبر 2:

السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ!

Hoping for your long life and good health. Meant by listening and then repeating it not just listening. I understood your reply and I will try my best اِنْ شَاءَ اللّٰہ. Thanks.


جواب:

مَاشَاءَ اللّٰہ

Congratulations!

سوال نمبر 3:

السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ! حضرت اللّٰہ پاک سے دعا ہے کہ آپ سلامت رہیں اور اللّٰه پاک ہم سب سے راضی ہو جائیں آمین۔ میرے ذکر کی ترتیب درج ذیل ہے: 12 تسبیح، اس کے بعد 500 مرتبہ زبان سے خفی طور پر ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘، 10 منٹ پانچوں لطائف پر ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ محسوس کرنا اور 15 منٹ مراقبۂ معیت ہے۔ حضرت جی میرے احوال یہ ہیں کہ ذکر کی کیفیت میں کوئی خاص تبدیلی نہیں ہوئی، میرے ذکر اور مراقبات میں تقریباً نوے منٹ لگتے ہیں، رمضان المبارک میں چھٹی والے دن کے سوائے ذکر پورا نہیں ہو رہا۔

حضرت جی ایک خواب دیکھا کہ آپ نماز کے بعد مجھے پڑھنے کے لئے ایک کتاب دیتے ہیں، غالباً جس میں شبِ قدر کے فضائل ہوتے ہیں، آپ کہتے ہیں پڑھو۔ لیکن مجھ سے نہیں پڑھا جاتا۔ ساتھ ایک ساتھی ہوتے ہیں وہ کہتے ہیں مجھے دو میں پڑھتا ہوں، تو وہ بھی نہ پڑھ سکے۔ آپ انتظار کر رہے ہوتے ہیں پھر آپ ناراض ہو کے چلے جاتے ہیں اور کہتے ہیں: آپ لوگ ٹھیک سے manage نہیں کر سکے۔ خواب یہاں پر ختم ہو جاتا ہے۔ حضرت جی اِنْ شَاءَ اللّٰہ آپ کے ساتھ اعتکاف کا بھی ارادہ ہے، دعا فرما دیں اللہ آسانی اور قبولیت کے ساتھ توفیق عطا فرما دیں۔

جواب:

یہ تو مَاشَاءَ اللّٰہ سلسلے کی طرف سے گویا آپ کو ایک دعوت ہے کہ آخری عشرے میں کمانے کی خوب کوشش کریں۔ ویسے بھی ہمارا تو یہی طریقہ ہوتا ہے کہ ہم بتاتے رہتے ہیں، تو آپ کو خواب میں متمثل ہوا، بات تو ٹھیک ہے۔ آخری عشرے کی تیاری کریں اور جس طریقے سے اس کو بہترین کیا جاسکتا ہے اس طرح کریں۔ اور اعتکاف کا جو آپ نے رادہ کیا ہے اللّٰه مبارک فرمائیں اور اس کی جملہ برکات ہم سب کو نصیب فرمائیں۔

سوال نمبر 4:

السلام علیکم! حضرت جی میرا وظیفہ زبان پر 6 ہزار ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کا ذکر، 3 مرتبہ آیت الکرسی اور 10 منٹ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کا مراقبہ دل پر تھا۔ حضرت جی مراقبہ کرتے وقت ’’اَللّٰه اَللّٰه‘‘ کا ذکر دل کے بجائے گلے میں محسوس ہوتا ہے اور اس وقت میری زبان بند ہوتی ہے۔ حضرت میں نے message کیا لیکن مجھے آگے وظیفہ نہیں ملا۔ اب میرے لئے کیا حکم ہے؟ کوتاہیوں پر معافی چاہتی ہوں۔

جواب:

اصل میں ذکر دل کا ہی ہوتا ہے اور دل کا ذکر مختلف جگہوں پر محسوس ہوسکتا ہے۔ چشتیہ میں اور نقشبندیہ میں یہ معرکۃ الآراء بحث ہے۔ نقشبندی حضرات لطائف کا ذکر کراتے ہیں، اور ماشاء اللہ بڑا مفید ذکر ہے۔ چشتی حضرات صرف قلب کا ذکر کرتے ہیں، یعنی وہ لطائف جو قرآن سے ثابت ہیں ان کو ہی مانتے ہیں۔ یعنی قلب ایک لطیفہ ہے وہ اس کو مانتے ہیں اور باقی پورے جسم کو دل پر منحصر سمجھتے ہیں۔ لہٰذا جہاں پر بھی ذکر محسوس ہوتا ہے وہ فرماتے ہیں وہ دل کا ہی ہے، صرف اس کا اظہار ادھر ہو رہا ہے۔ خیر آپس میں ان کی بات چیت ہے۔ تو اگر ذکر آپ کو گلے میں محسوس ہو رہا ہے تو بالکل ٹھیک ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ کیونکہ ذکر تو ادھر ہو رہا ہے اور مَاشَاءَ اللّٰہ دل کا ہی اثر ہے۔ تو آپ اس کو جاری رکھیں، اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ البتہ اپنے ارادے سے دل پر ہی محسوس کرتی رہیں۔

سوال نمبر 5:

فقیر name فلاں

I pray you are very well dear شیخ and all your loved ones. I have completed my six months of twenty minutes مراقبہ facing the قبلہ imagining my heart saying اللّٰہ اللّٰہ looking at it with love. I unfortunately missed one day. I heard in one of your recent speeches that the علاجی معمولات should be done when a person is ہشاش بشاش. Despite trying to implement this, my focus still remains very poor throughout. I sometimes can only maintain focus for a total of four minutes whilst at other times it is a bit better. I think of all tasks I need to do and I feel as though the مراقبہ has made me aware how bad my توجہ الی اللّٰه is in my عبادات and general life? This thought depresses me but I try not to let it stop trying. Kindly advise for the next. I had a bad month. The worst part was missing a total of three صلوۃ wherease I never usually miss more than one صلوۃ every few months. The main reason was that I would not eat probably all day due to the pressure and business of the hospital work and then مدرسہ teaching and so on. I would eat after عشاء which would make waking for فجر extremely difficult the next day. I hope I have learnt my lesson to not do this again as when I ate dinner early yesterday, waking up for فجر and also تہجد was easy. The main good thing that happened this month throughout your برکۃ was that I was able to permanently get off YouTube اَلْحَمْدُ لِلّٰہ. I only go on it if I want to study something specific or to listen to قرآن and never download the app on my phone. Only when I was sick I downloaded it for three days and wasted a lot of time. This reminds me why I stopped and I deleted it again and did توبہ. I also have one question dear شیخ, is it okay for a person to say to others that he is the worst sinner? Obviously we all sin but I wonder that if اللّٰہ تعالیٰ has covered our sins is it not wrong to tell other people that I have committed lots of sins or I am the worst sinner. I will send my رمضان routine on your private number for advice اِنْ شَاءَ اللّٰہ. Is it okay? Kindly remember me in your دعا جَزَاکَ اللّٰہ۔ for this love always.

فقیر


جواب:

مَاشَاءَ اللّٰہ آپ کا جو مراقبہ ہے، قبلہ کی طرف رخ کر کے کہ یہ فیض آرہا ہے، یہ بہت اچھا ہے۔ اس کو جاری رکھیں۔ رمضان شریف میں ویسے بھی ہم ذکر واذکار میں زیادہ تبدیلی نہیں کرتے۔ جو رمضان کے معمولات ہیں ان پر ہمارا stress ہوتا ہے۔ آپ کی یہ بات صحیح ہے کہ جو علاجی ذکر ہے اس میں ہشاش بشاش انسان زیادہ فائدہ حاصل کر سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کو وہ time اس کے لئے spare کرنا چاہیے جو اس کا بہترین time ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں اس کی ترقی ہوتی ہے۔ جتنی concentration یعنی توجہ کم ہوگی تو ترقی میں کمی ہوسکتی ہے۔ لہٰذا اس کے لئے ہشاش بشاش وقت دینا چاہیے جو بہترین وقت ہو۔ دوسری بات کہ اس کے لئے وہ وسائل بھی استعمال کیے جاسکتے ہیں جیسے مثال کے طور پر کوئی چائے پیتا ہے تو اس کی وجہ سے اگر اس کی طبیعت زیادہ اچھی ہوتی ہے تو وہ اس کو بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ اور تنہائی وغیرہ یہ تمام چیزیں اسی لئے کی جاتی ہیں تاکہ اس میں کوئی کمی نہ ہو۔ باقی توجہ میں خیالات کی وجہ سے اگر disturbance ہے تو خیالات کی طرف توجہ نہ دی جائے، بس یہ قانون ہے۔ اگر خیالات آتے ہیں تو آنے دیں کوئی مسئلہ نہیں ہے، آپ کا اس کے ساتھ کوئی کام نہ ہو، جیسے راستے میں شور ہورہا ہو، ایک تو یہ ہے کہ میں شور والوں کے ساتھ لڑوں کہ آپ کیوں شور کر رہے تھے، اس سے میرا وقت بھی ضائع ہوگا، مانیں گے تو پھر بھی نہیں۔ اور اگر میں پروا نہ کروں کہ یہ تو ہوتا رہتا ہے، میں اپنے کام سے کام رکھوں تو میرے کام کا کوئی حرج نہیں ہوگا، صرف طبعی tension ہوگی، لیکن اس کو انسان برداشت کر سکتا ہے۔ بہرحال آپ خیالات کے ساتھ لڑیں تو نہیں، البتہ اپنی طرف سے توجہ کام پہ رکھیں۔ اور 3 نمازوں کی تو اللّٰہ تعالیٰ سے دعا کریں، توبہ تو آپ نے کر لی، صلوۃ التوبہ بھی آپ نے پڑھی ہوگی۔ اس تجربے سے آپ فائدہ اٹھائیں کہ ایسا کیوں ہوا، اور آئندہ اس قسم کی بات نہیں ہونی چاہیے۔ اور یوٹیوب سے تو واقعی اپنے آپ کو بچانا چاہیے، اس بارے میں تو میں یہاں تک قائل ہوں کہ جو فقہ میں بتاتے ہیں کہ دفعِ مضرت جلبِ منفعت سے زیادہ اہم ہے۔ لہٰذا اگر اس سے کچھ فوائد ختم بھی ہو رہے ہوں، نہ بھی حاصل ہو رہے ہوں پھر بھی اس کو چھوڑنا زیادہ بہتر ہے۔ کیونکہ اس کے جو مصائب اور نقصانات ہیں وہ زیادہ ہیں۔ لہٰذا اگر آدمی اس کا sacrifice کر دے اور وہ پرانی ڈگر پہ چلا جائے کہ جب یہ چیزیں نہیں تھیں، تو کیا خیال ہے اس وقت لوگ اچھے اعمال کر رہے تھے یا نہیں کر رہے تھے؟ کر رہے تھے۔ تو اب بھی وہی کر سکتے ہیں۔ ضروری تو نہیں کہ انسان موبائل کے اچھے اعمال ہی کرے۔ ٹھیک ہے انسان اپنے message وغیرہ کے لئے اگر چھوٹا موبائل رکھ لے تو اچھی بات ہے، اس میں یہ نقصانات نہیں ہیں۔ لیکن یہ جو Smart phone ہیں اس میں تو مصیبت ہی مصیبت ہے اللّٰه تعالیٰ بچائیں۔ اور اس میں چکر یہ ہوتا ہے کہ لوگ اس کو اچھی چیزوں کے لئے لیتے ہیں اور غلط چیزوں میں استعمال ہوجاتا ہے۔

باقی اپنے گناہوں کا اظہار specifically نہیں کرنا چاہیے کہ میں نے یہ گناہ کیا ہے، یہ جرم ہے، یہ دوسرا گناہ ہے۔ لیکن ویسے اپنے آپ کو گناہگار کہنا اس پہ کوئی پابندی نہیں ہے، کیونکہ وہ حقیقت میں ہم ہیں۔ جیسے حدیث پاک میں ہے: ’’كُلُّ ابْنِ آدَمَ خَطَّاءٌ وَخَيْرُ الخَطَّائِيْنَ التَّوَّابُوْنَ‘‘۔ (سنن ترمذی، حدیث نمبر: 2499)

ترجمہ: ’’تم سب خطاکار ہو، مگر بہتر خطاکار وہ ہیں جو توبہ کرتے ہیں۔‘‘

لہٰذا یہ کہنے میں کوئی مسئلہ نہیں کہ میں خطاکار ہوں، میں گناہگار ہوں۔ ہمارے اکابر جیسے حضرت مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی جتنی بھی کتابیں پڑھیں، تو وہ اپنے بارے میں وہ کیا کہتے ہیں! خطاکار، گناہگار، سیاہ کار، نابکار۔ پتا نہیں کیا کیا الفاظ اپنے لئے استعمال کرتے ہیں۔ ظاہر ہے احادیث شریفہ تو ہم ان سے سیکھیں گے، تو وہ کیسے اپنے آپ کو کہتے ہیں۔ واقعتاً یہ تو حقیقت ہے کہ ہم خطاکار ہیں۔ البتہ یہ بات ہے کہ specific گناہ کسی کا اگر ہو تو وہ توبہ کر لے اور کسی کو نہ بتائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنے گناہ کا بتانا یہ دوسرا گناہ ہے۔ ہاں! شیخ کو بتانا چاہیے کیونکہ شیخ معالج ہے، اگر پردے کی جگہ بھی کوئی تکلیف ہو تو معالج کو دکھانے کی اجازت ہوتی ہے، لیکن کسی اور کو دکھانے سے گناہ ہوتا ہے۔ اللّٰه جل شانہٗ ہم سب کو صحیح سمجھ عطا فرما دیں۔

سوال نمبر 6:

السلام علیکم ورحمۃ اللّٰه وبرکاتہ! حضرت جی معمولات اَلْحَمْدُ لِلّٰہ معمول کے مطابق جاری ہیں۔ ذکر یہ ہے: ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ 200 مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ 400 مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ 600 مرتبہ، ’’اَللّٰہ‘‘ ساڑھے 16 ہزار مرتبہ، 5 منٹ کے لئے یہ سوچنا کہ اللّٰه مجھے محبت کے ساتھ دیکھ رہا ہے، اللّٰه کے فضل اور آپ کی دعاؤں کی برکت سے مکمل ہوگیا ہے۔ حضرت جی مہینے میں کچھ دن اوپر بھی ہوگئے ہیں، کیفیت میں کچھ خاص تبدیلی محسوس نہیں ہوئی، اتنا ضرور ہے کہ گناہوں کا احساس بڑھ رہا ہے اور بچنے کی کوشش میں بھی اَلْحَمْدُ لِلّٰہ اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کی مثال internet، یوٹیوب کا استعمال میں نے ترک کردیا ہے، باقی Facebook اور Twitter تو آپ کی دعاؤں کی برکت سے کافی عرصے سے ترک کر چکا ہوں، یوٹیوب کا محتاط استعمال کرتا تھا، لیکن اَلْحَمْدُ لِلّٰہ آپ کی دعاؤں اور تربیت کی برکت سے اب یہ بھی ترک کردیا ہے، اللّٰہ استقامت عطا فرمائے۔ نمازیوں کے جوتے سیدھے کرنے کا مجاہدہ جاری ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ۔ میرے لئے آگے کیا حکم ہے؟ حضرت جی کوتاہیوں پر معافی کا طلبگار ہوں۔

جواب:

مَاشَاءَ اللّٰہ! یہ فی الحال جاری رکھیں اور رمضان شریف کا آخری عشرہ چونکہ آرہا ہے اس میں کوشش کریں کہ اگر اعتکاف کر سکتے ہوں تو اعتکاف کر لیں اور اگر اعتکاف نہیں کر سکتے تو پھر اعمال کی حفاظت کریں۔ یہ اس وقت بڑا assignment ہے، پھر عید کے بعد رابطہ کر لیں تو اِنْ شَاءَ اللّٰہ بتا دوں گا۔

سوال نمبر 7:

پیارے حضرت السلام علیکم! میرے سامنے دو بڑے مسائل ہیں جو مجھے نیک کاموں میں مستقل مزاجی سے روکتے ہیں، ایک ٹی وی دیکھنا اور دوسرا بہت زیادہ کھانا پینا۔ آپ کی دعاؤں کی بدولت میں ٹی وی چھوڑنے میں کامیاب ہوگیا ہوں اِنْ شَاءَ اللّٰہ اور لوگوں کی تمام تصاویر سے بھی دور رہنے کی پوری کوشش کر رہا ہوں، یہاں تک کہ خبریں پڑھنے کے بغیر خبریں سن کر۔ مگر مسئلہ یہ کہ میں بہت زیادہ کھاتا ہوں، چاہے میں دن میں 1 بار کھاؤں یا 3 بار، جب بھی میں کھانے کے لئے بیٹھوں تو بہت زیادہ کھاتا ہوں اور ہمیشہ لالچ سے کھاتا ہوں۔ براہِ کرم کسی بھی حکمتِ عملی یا کسی بھی چیز کے بارے میں مشورہ دیں جو میری مدد کر سکے۔ میں ہمیشہ آپ کی دعاؤں، مہربانی اور توجہ کا محتاج ہوں۔

جواب:

اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ آپ کسی ڈاکٹر یا کسی مہربان سے مشورہ کرلیں جو ان چیزوں کو جانتا ہو، وہ آپ کے کھانے کی مقدار تجویز کر دیں اور پھر اپنے گھر والوں سے کہہ دیں کہ مجھے اس مقدار کے مطابق کھانا دے دیا کریں، اس کے علاوہ نہ دیا کریں۔ اور آپ ان کی بات مان لیا کریں، تو میرے خیال میں یہ طریقہ ہوگا، پھر اس کے اوپر عمل ہو سکے گا۔ ورنہ اگر آپ نے چننا ہے تو پھر نفس تو آپ کا ہر وقت موجود ہے، وہ آپ کو زیادہ چننے پہ ہی مجبور کرے گا۔

سوال نمبر 8:

السلام علیکم! حضرت جی آج کل جیسے زکوٰة کے مسائل درس میں بھی چل رہے تھے۔ میرا سوال یہ ہے کہ اگر کسی صاحبِ نصاب کے ذمہ کچھ سالوں کی زکوٰة باقی ہو تو وہ ان گزرے سالوں کی زکوٰة کا حساب اس وقت کے سونے کے بھاؤ سے نکالے گا؟ جس وقت بھی ادا کرے گا اس وقت کے سونے کی قیمت کے حساب سے دے گا؟ جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ سونے کی قیمت کتنی تیزی سے بڑھی ہے۔ دوسرا یہ کہ ہمارے چند رشتہ دار غریب ہیں لیکن انہوں نے 2، 3 تولے زیور مشکل وقت کے لئے رکھا ہوا ہے، ایسی صورت میں ان کی مدد کیسے کریں، جبکہ بہت سے لوگوں کے بارے میں معلوم بھی نہیں ہوتا کہ کسی مستحق کے پاس زیور ہے یا نہیں۔ ایسی صورت میں کیا کرنا چاہئے؟ مہربانی فرما دیں۔

جواب:

زکوٰۃ کے مسائل تو بڑے clear ہیں، مثال کے طور پر 2016 کی زکوہ آپ نے دینی ہے تو آج کل net پر available ہے کہ 2016 میں سونے کے بھاؤ کیا تھا اور چاندی کا بھاؤ کیا تھا، آپ کو مل سکتا ہے۔ اب دیکھیں کہ اس وقت زکوٰۃ کا نصاب کتنا بنتا تھا، اس کے حساب سے آپ زکوٰۃ دیں گے۔ دوسری بات جو 2، 3 تولے زیور کی آپ نے کی ہے۔ یہ البتہ واقعی مسئلہ ہے، کیونکہ جو خود صاحبِ نصاب ہو اس کو تو آپ زکوٰۃ نہیں دے سکتے۔ اس لئے اس کی تحقیق کرنی ضروری ہے۔ آج کل تو جو ہمارے غزہ کے مسلمان ہیں ان تک اگر زکوٰۃ پہنچائی جا سکے تو وہاں یہ مسئلہ نہیں ہوگا، کیونکہ وہاں تو بہت مسائل ہیں۔ اس طرح ایسی جگہیں انسان تلاش کر سکتا ہے جہاں کوئی مسئلہ نہ ہو۔ تو مفتیان کرام سے آپ مشورہ کر لیں، اِنْ شَاءَ اللّٰه وہ آپ کو بتا دیں گے۔

سوال نمبر 9:

حضرت السلام علیکم! اس مہینے کی کارگزاری پیش خدمت ہے۔ نفی اثبات 100 مرتبہ، ’’اِلَّا ھُوْ‘‘ 100 مرتبہ، اسمِ ضمیر 100، ’’حَقْ‘‘ 100، ’’حَقْ اَللّٰہ‘‘ 100، مراقبۂ دعائیہ 15 منٹ، مراقبۂ فنائیت 15 منٹ، خاموش اسمِ ذات ایک منٹ، مراقبۂ آیت الكرسی 5 منٹ، اسمِ ذات 48 ہزار مرتبہ جاری ہے۔

جواب:

فی الحال یہی جاری رکھیں اِنْ شَاءَ اللّٰہ۔ رمضان کے معمولات کی کوشش کریں، بالخصوص آخری عشرے کے معمولات کی۔ رمضان کے بعد اِنْ شَاءَ اللّٰہ بات ہوگی۔

سوال نمبر 10:

السلام علیکم! حضرت جی گوجرانوالہ سے فلاں بات کر رہا ہوں۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ ہم یہاں خیریت سے ہیں اور آپ کی نیک خیریت مطلوب ہے۔ حضرت جی میرا سبق ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ 200 مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ 400 مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ 600 مرتبہ اور ’’اَللّٰه‘‘ 100 مرتبہ، ایک ماہ سے زیادہ ہوگیا ہے۔

جواب:

اب ’’اَللّٰه‘‘ 300 مرتبہ کرلیں، باقی یہی کریں سارا۔

سوال نمبر 11:

السلام علیکم! شیخ بہت معذرت، بہت تاخیر سے حاضری ہو رہی ہے۔ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ 200 مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ 400 مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ 600 مرتبہ، ’’اَللّٰه‘‘ 500 مرتبہ، تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار 100، 100 مرتبہ، لطیفۂ قلب 10 منٹ، لطیفۂ روح 10 منٹ، لطیفۂ سِر 15 منٹ، یہ مکمل ہوگیا ہے۔ کیفیات: حضرت مراقبہ کے دوران کبھی کبھی نیند آجاتی ہے، لطیفۂ قلب، لطیفۂ روح، لطیفۂ سِر پر حرارت محسوس ہوتی ہے۔ دل میں پہلے کچھ درد محسوس ہوتا تھا جو اب نہیں ہو رہا اَلْحَمْدُ لِلّٰہ، نماز واذکار میں پوری توجہ نہیں رہتی۔

جواب:

اگر آپ درمیان میں یہ ذکر کرتے رہے ہیں تو پھر آپ نے اطلاع کیوں نہیں دی؟ یہ بڑی عجیب بات ہے۔ اور اگر آپ نہیں کرتے رہے تو پھر یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ مکمل ہوگیا ہے، اس بات کی آپ تسلی کروا دیں۔ دوسری بات کہ آپ فی الحال یہی ذکر جاری رکھیں۔ البتہ رمضان شریف کے جو معمولات ہیں، آپ کوشش کریں کہ ان میں بہت آگے چلے جائیں۔ کیونکہ بالخصوص آخری عشرہ میں جو اعتکاف ہے اور دوسری چیزیں وہ بہت زیادہ اہم ہیں۔ تو اس پہ توجہ کر لیں اور یہ ساتھ جاری رکھیں۔ اِنْ شَاءَ اللّٰه عید کے بعد پھر بات ہوگی۔

سوال نمبر 12:

السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ! ایک دفعہ پہلے میں نے آپ سے پوچھا تھا کہ میری بیوی پوچھ رہی تھی کہ کیا اس کو پردہ کرنا چاہیے؟ آپ نے فرمایا کہ اگر حکم دیں تو feedback ہوگا، جب وہ خود کریں گی تو اس میں پھر مسئلہ نہیں ہوتا۔ اسی ضمن میں ایک آدمی جو کہ UK میں ہے، اس نے مجھے کسی دوسرے شیخ کا Audio clip بھیجا، جس میں وہ اپنا ذکر بتاتے ہیں۔ میں نے پھر اس کو سمجھایا کہ توحید کا مطلب کیا ہے، اگر دو تین ڈاکٹر سے دوائی ایک ساتھ لیں تو کیا ہوگا۔ کیا میں نے اس کو حکم دیا تھا؟ کیونکہ لکھتے وقت دل سے مجھے اس پر بوجھ ڈالنے کا جوش آیا، کیا یہ دعوت میں شامل ہے؟ آپ نے بیان میں فرمایا کہ جو نامکمل دعوت دیتے ہیں وہ دوسرے کو تکبر دیتے ہیں اور پہلے اپنی زندگی میں لوگوں کو میں نے تبلیغی جماعت کی بہت دعوت دی، میں نیت کر سکتا ہوں کہ یہ سارے ظلمات میں نے دی ہیں، میں واپس لے لوں؟

جواب:

مَاشَاءَ اللّٰہ انسان سیکھتا ہے، روز سیکھتا ہے، اور اپنے سیکھنے سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ آپ یہ ارادہ کر لیں کہ آئندہ جب بھی آپ کسی کو بات کریں تو ترغیب کے لحاظ سے تو ہو، لیکن علاج کے لحاظ سے نہ ہو۔ بالخصوص اگر ان کا اپنا شیخ ہے تو ان کی طرف متوجہ کرتے رہیے، یہ بھی ترغیب کی بات ہوگی، اور اگر ان کا شیخ نہیں ہے تو پھر ان سے کہہ دیں کہ آپ کسی شیخ سے اصلاحی تعلق بنا لیں۔ تو یہ بات آپ ترغیبی انداز میں کر سکتے ہیں یعنی اصلاحی انداز میں تبلیغ کرنی ہے، کیونکہ اصلاح انسان اپنے آپ کی کر لے، یہ زیادہ بہتر ہے۔ باقی جو غلطیاں ہو چکی ہیں ان پر استغفار کر لیں اور آئندہ کے لئے ایسا نہ کریں۔

سوال نمبر 13:

نمبر 1:

السلام علیکم ورحمۃ اللّٰه حضرت شاہ صاحب! اللّٰہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائیں۔ خالہ جان کا ذکر 10 منٹ لطیفۂ قلب اور 15 منٹ لطیفۂ روح پر تھا، جس کو ایک ماہ ہوگیا ہے۔ دونوں جگہوں پر اَللّٰه اَللّٰه محسوس ہوتا ہے، خواب میں صاف پانی کے چشمے دیکھے۔

جواب:

اگر دونوں پر محسوس ہوتا ہے تو پھر ان کو تیسرا بتا دیں یعنی دونوں پر 10، 10 منٹ کریں اور لطیفۂ سِر پر 15 منٹ کا بتا دیں۔ اور مَاشَاءَ اللّٰہ یہ علم کے حصول کی علامت ہے، اِنْ شَاءَ اللّٰہ، اللّٰہ پاک صحیح علم نصیب فرمائے گا۔

نمبر 2:

200، 400، 600 ساڑھے 4 ہزار والا ذکر مکمل ہوگیا ہے، اگلا ذکر ارشاد فرمائیں۔

جواب:

ایک مہینے کے لئے 200، 400، 600 اور 5 ہزار والا ذکر شروع فرما لیں۔

سوال نمبر 14:

ایک سالک کا سوال آیا تھا جو کہ حضرت نے مجلس میں نہیں سُنایا، بلکہ اُس کا صرف جواب حضرت نے دیا ہے۔

جواب:

آپ آج دو بجے سے لے کے 3 بجے کے درمیان ٹیلی فون کر لیں پھر اِنْ شَاءَ اللّٰہ بات ہوجائے گی۔

سوال نمبر 15:

السلام علیکم! وقوفِ قلبی کے طور پر کیا ہر وقت یہ خیال رکھنا بہتر ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ محبت کے ساتھ قلب کو دیکھ رہے ہیں بنسبت یہ کہ دل اَللّٰہ اَللّٰہ کر رہا ہے یا قلبی دعائیں مانگنے کا خیال؟ جَزَاکَ اللّٰہ۔

جواب:

تینوں ٹھیک ہیں۔

سوال نمبر 16:

السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ! قرآنِ پاک کی تلاوت کے دوران اگر وقف النبی ﷺ آئے تو سنت سمجھ کر اس جگہ وقف ضرور کرتی ہوں، وقف کے بعد درودِ پاک پڑھ کر آگے تلاوت شروع کر لیتی ہوں۔ آج تہجد کے وقت قرآنِ پاک پڑھ رہی تھی تو اس طرح وقف پر رکی اور ساتھ ہی غنودگی بھی آگئی، دیکھا کہ ایک راستہ ہے اور اس راستے پہ آپ ﷺ تشریف لے جا رہے ہیں، میں درود پاک پڑھتی ہوں تو آپ ﷺ پیچھے دیکھتے ہیں کہ یہ کس نے درود پڑھا! رسول پاک ﷺ انتہائی جوان جیسے 30، 35 سال کے درمیان، خوبصورت اور خوب مضبوط اور تندرست ہوتے ہیں اور بھوری رنگ کی جیکٹ پہنے ہوئے ہیں اور آپ ﷺ کی داڑھی مبارک نہیں ہوتی۔ بس کچھ سیکنڈ کی غنودگی تھی، جب اٹھی تو اَلْحَمْدُ لِلّٰہ بہت اچھا محسوس کر رہی تھی۔ اس خواب میں آپ ﷺ نے بھوری جیکٹ تن فرمائی تھی اور آپ ﷺ کی داڑھی مبارک نہیں ہے، اگر اس خواب کی تعبیر آپ بیان فرما دیں۔

جواب:

اِنْ شَاءَ اللّٰہ اس کی تعبیر میں آپ کو private نمبر پہ بتا دوں گا، آپ private نمبر پہ send کردیں۔

سوال نمبر 17:

السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ!

I pray that you are in the best of health شیخ! I have a couple of things regarding which I need your guidance. Firstly, sometimes when I do my جہری علاجی ذکر I find that I start doing the ذکر with a tune. Is this allowed or should I stop myself from doing so?


جواب:

It is allowed.

سوال نمبر 18:

Secondly I wanted to ask for your advice regarding getting rid of arrogance. اَلْحَمْدُ لِلّٰہ Allah has blessed me with the opportunity to recite the Holy Quran in تراویح صلوٰہ but sometimes, I feel as if I am better than others in my family because I am able to recite more than them. When this happens I try to remind myself that it is only through Allah's will that I am able to do this. But these thoughts keep returning again and again. Is there anything else I can do to stop this thing from coming?

جواب:

مَاشَاءَ اللّٰہ نماز میں قرآن پاک کی تلاوت کرنا یہ بڑی اچھی عادت ہے، لیکن اگر وساوس آجائیں تو ان کی پروا نہ کریں۔ وسوسہ اسے کہتے ہیں جس پہ آپ کو کنٹرول نہ ہو۔ جس پہ آپ کو کنٹرول ہو تو نہ کریں، لیکن جس پہ کنٹرول نہ ہو تو وسوسہ ہے، وسوسے پہ کوئی گرفت نہیں ہے بس آپ اس کی طرف توجہ نہ کریں، اپنے کام کی طرف لگے رہیں، نہ اس کو دفع کریں نہ اس کو لائیں، اس کی وجہ سے آپ کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔

سوال نمبر 19:

نمبر 1:

نقشبندی حضرات مبتدی سالک جو لطائف پر ذکر کرتے ہیں تو بعض حضرات سے سنا ہے کہ لطائف پر ذکر کرنے سے جب مبتدی حضرات قرآنِ پاک کی تلاوت زیادہ کرتے ہیں تو ان کے انوارات تیز ہوتے ہیں جو کہ لطائف کے انوارات کو ضعیف کرتے ہیں، مبتدی حضرات قرآنِ پاک کی تلاوت ذرا کم کریں، لطائف پر زیادہ زور دیں۔

جواب:

دیکھیں! اس میں لطائف کے ذکر پر توجہ کرنا، اس سے تو انکار نہیں ہے کیونکہ یہ علاجی ذکر ہے، ثوابی ذکر نہیں ہے۔ تو کوئی لطائف کے ذکر کو ثواب کے لئے استعمال نہیں کر سکتا۔ وہ علاجی ذکر ہے۔ علاجی ذکر جتنا بتایا گیا اتنا کرنا چاہیے۔ جیسے ابھی ہم لوگوں کو بتا رہے تھے، وہ ہر حال میں کرنا چاہیے۔ باقی جو ثوابی ذکر ہے تو ثوابی ذکر کا ثوابی ذکر کے ساتھ مقابلہ ہے۔ اس کے لئے پھر ہم گلدستے والی بات کرتے ہیں کہ کچھ تلاوت، کچھ ذکر، کچھ دعا، کچھ نماز، یعنی اس طریقے سے اس کو balance کر لیں، اس کے لئے ہم یہ بتاتے ہیں۔ لیکن جو علاجی ذکر ہے اس کے ساتھ تو ثوابی ذکر کا کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔ مثلاً 2 کیلے اور 4 آم کتنے ہوتے ہیں؟ اس کا کوئی جواب نہیں ہے، کیونکہ نہ 6 کیلے کہہ سکتے اور نہ ہی 6 آم کہہ سکتے ہیں۔ بس یہی بات ہے کہ علاجی ذکر کا ثوابی ذکر کے ساتھ کوئی مقابلہ نہیں ہے، یہ اپنے طور پر ہے وہ اپنے طور پر ہے۔ یہ لوگوں کی باتیں ہیں، پتا نہیں لوگوں نے اپنی طرف سے کیا باتیں بنائی ہوئی ہیں کہ فلاں ذکر گرم ہے، فلاں ذکر ٹھنڈا ہے، یہ اس کے انوارات ہیں۔ خدا کے بندو! اللّٰہ پاک کا کلام ہے، اس کے انوارات کا آپ کیا مقابلہ کر سکتے ہیں؟ انوارات کا تو نام ہی نہ لیں۔

نمبر 2:

انہوں نے بیان فرمایا تھا کہ قرآنِ پاک کے ساتھ پہلے مناسبت نہیں ہوتی، جب لطائف پر ذکر ہونے سے اصلاح ہو جاتی ہے تو رفتہ رفتہ پھر وہ انوارات بھی محسوس ہونے لگتے ہیں۔

جواب:

اگر کوئی محسوس نہیں کرتا تو کیا اس کو ثواب نہیں ہوگا؟ مجھے کشف سے مناسبت نہیں ہے، تو کیا خیال ہے مجھے کسی عمل کا ثواب نہیں ہوگا؟ بالکل ہوگا۔ کیونکہ وہ تو ایک فطری چیز ہے، کسی کو اللہ پاک نے دی ہے، کسی کو نہیں دی۔ مثلاً کسی کو اچھے خواب نظر آتے ہیں، کسی کو نہیں نظر آتے۔ تو اچھے خواب نظر آنے سے اس کے ثواب میں کوئی کمی ہوگی؟ ظاہر ہے اس میں تو کمی نہیں ہوگی۔ تو قرآن اللّٰه کا کلام ہے، اس پر حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کا رمضان شریف والا جو قول ہے، وہ پڑھ لیں کہ قرآن کے بارے میں وہ کیا فرماتے ہیں۔ یہ تو اللّٰه پاک کی صفتِ کلام ہے اور کلام کا تعلق شیوناتِ ذاتیہ کے ساتھ ہے اور شیوناتِ ذاتیہ کا تعلق اللّٰہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ ہے۔ لہٰذا اس کے ساتھ مقابلے کی کوئی بات ہی نہیں ہے۔ ہاں! محسوس کرنے والی بات ہے، ٹھیک ہے کوئی محسوس کرے گا، کوئی محسوس نہیں کرے گا، لیکن اس کی جو برکات اور ثواب ہے وہ تو ہر حالت میں ہوتا ہے، اس میں کوئی مسئلہ نہیں۔ باقی جو لطائف کا ذکر ہے وہ علاجی طور پہ اہم ہے، اس کا اس کے ساتھ ٹکراؤ نہیں ہے۔ مثلاً ہم لوگ علاجی ذکر بتاتے ہیں تو ساتھ ہمیں 100 دفعہ تیسرا کلمہ، 100 دفعہ درود شریف، 100 دفعہ استغفار بتاتے ہیں، یہ ثوابی ذکر ہے۔ اور جو علاجی ذکر ہے وہ بتا دیتے ہیں۔ بہت سارے لوگ ہمیں بتاتے ہیں کہ ثوابی ذکر تو ہمارا ہوتا ہے، علاجی ذکر ان سے نہیں ہو پاتا۔ میں کہتا ہوں کہ شیطان آپ کو دھوکہ دے رہا ہے، کیونکہ شیطان کو پتا ہے کہ اگر آپ علاجی ذکر چھوڑیں گے تو آپ کو آگے جا کر ان چیزوں میں ترقی نہیں ہوگی۔ لہٰذا علاجی ذکر ضرور کرنا چاہیے اس کو چھوڑنا نہیں چاہیے، اس سے آپ کو بہت نقصان ہو رہا ہے۔ لیکن ہم ان کو یہ نہیں کہتے کہ ثوابی ذکر چھوڑ دو تاکہ آپ کا علاجی ذکر زیادہ اچھا ہو جائے۔ بلکہ کہتے ہیں ثوابی ذکر بھی کرو۔ مثلاً ایک آدمی کا اگر معدہ ٹھیک نہیں ہے تو وہ خوراک کھاے گا تو اس کو فائدہ نہیں ہوگا، لیکن تھوڑی تھوڑی خوراک تو اس وقت بھی لیتا ہے، بالکل بند تو نہیں کرتے کہ بس صرف دوائی دیتے ہیں اور خوراک بند۔ دراصل آدمی جذبات میں آجاتا ہے، ٹھیک ہے ایک چیز کے ساتھ محبت ہے، اس کے ساتھ محبت کا معاملہ کرنا چاہیے، لیکن دوسری چیز کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ وہ بہت اہم ہے۔ میں صحیح بات عرض کرتا ہوں کہ اللّٰه تعالیٰ ہمیں قرآن کی سمجھ عطا فرما دے کہ قرآن ہے کیا؟ قرآن کریم بہت بڑی دولت ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللّٰہ علیہ کا ایک خواب ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں اللّٰہ تعالیٰ کا دیدار کیا، وہ تمثال تھا، میں نے پوچھا: یا اللّٰه! تجھ تک پہنچنے کا آسان طریقہ کیا ہے؟ فرمایا: قرآن پاک کی تلاوت۔ میں نے کہا: یا اللّٰه! سمجھ کر یا بغیر سمجھے؟ حالانکہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللّٰہ علیہ عربی تھے، ان کو یہ سوال کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ اللہ نے فرمایا: چاہے سمجھ کر ہو یا بغیر سمجھے، دونوں حالتوں میں اللّٰه تعالیٰ کے قرب کا بہترین ذریعہ ہے۔ ایک شخص کبھی کسی پیر سے نہیں ملا اور وہ روز قرآنِ پاک کی تلاوت کرتا ہے، کیا خیال ہے اس کے بارے میں اس کو فائدہ ہوگا یا نہیں ہوگا؟ چنانچہ قرآنِ پاک کی تلاوت تو بہرحال کرنی چاہیے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اپنا علاج بھی کرنا چاہیے تاکہ اس سے پورا فائدہ اٹھائے۔ اور مقابلے کی صورت پیدا نہ کرے، اس میں بے ادبی کا عنصر پایا جاتا ہے۔ یعنی بے ادبی نہیں کرنی چاہیے کہ یہ چیز زیادہ اہم ہے، کیونکہ اپنی اپنی جگہ پر دونوں اہم ہیں۔ میں اکثر لوگوں سے کہتا ہوں کہ کھانا زیادہ اہم ہے یا پینا زیادہ اہم ہے؟ کیا جواب دیں گے؟ کہتے ہیں جی کھانا بھی اہم ہے، پینا بھی اہم ہے۔ تو دونوں چیزیں ہونی چاہیئں۔ اسی طرح یہاں پر بھی یہی بات ہے کہ دونوں ہونی چاہیئں۔

نمبر 3:

حضرت خلیفہ دین محمد صاحب نے مناسبت پر بیان کیا تھا کہ عام طور پر اولیاء کی بات لوگوں پر بہت زیادہ اثر کرتی ہے بنسبتِ احادیث اور پھر احادیث اور قرآنِ پاک، اس لیے ہماری مناسبت اولیاء کے ساتھ زیادہ ہے، پھر نبی ﷺ سے، پھر قرآن سے۔ جب رفتہ رفتہ مناسبت ہوتی ہے تو پھر وہ چیزیں زیادہ اثر کرتی ہیں۔

جواب:

یہ بات تو میں بھی اکثر کہا کرتا ہوں، آپ لوگوں نے سنا ہوگا کہ فنا فی الشیخ پہلے ہے، پھر فنا فی الرسول پہ جاتا ہے، فنا فی الرسول سے پھر انسان فنا فی اللّٰه پہ جاتا ہے۔ چونکہ عاجلہ کا توڑ آجلہ کے ساتھ ہے، تو شیخ عاجلہ ہے کیونکہ وہ سامنے ہے اور نفس کی جو خواہشات ہیں وہ بھی عاجلہ ہیں۔ لہٰذا قرآن وحدیث میں ایک چیز کی ممانعت ہوتی ہے لیکن عمل کی توفیق نہیں ہوتی، جب کوئی کسی شیخ کے ساتھ تعلق بنا لیتا ہے تو عمل کی توفیق ہوجاتی ہے۔ تو کیا اللّٰه کا حکم ماننا ضروری تھا یا شیخ کا حکم ماننا ضروری تھا! تو یہ عاجلہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ لہٰذا اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

نمبر 4:

اور جو اولیاء اپنی قبر میں زندہ رہتے ہیں اس کے لئے ایک دلیل یہ بھی ہے کہ وہ فنا فی الشیخ ہوتا ہے، فنا فی الشیخ فنا فی الرسول کا مقدمہ ہے۔ تو رسول اللّٰہ ﷺ اور جتنے انبیاء ہیں وہ اپنی قبر میں زندہ ہیں، تو ولی بھی اس لئے زندہ ہے کہ وہ فنا فی الرسول ہے؟

جواب:

وہ شعر جسے سنتے سنتے حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللّٰه علیہ کا وصال ہوگیا تھا۔ اس میں یہی بات تھی:

کُشتگانِ خنجرِ تسلیم را

ہر زماں از غیبِ جانِ دیگر است

کہ جو عشقِ تلوار سے کٹ گئے ہیں، فوت ہو گئے ہیں، شہید ہو گئے ہیں، ان کو ہر وقت ایک نئی جان دی جا رہی ہے۔ تو یہ اللّٰه تعالیٰ کے عاشق ہوتے ہیں جب اللّٰه کے عاشق ہوتے ہیں تو پھر بات کسی اور کی طرف لے جانے کی ضرورت کیا ہے۔ سارے اولیاء اللّٰه، اللّٰہ کے عاشق ہوتے ہیں یا نہیں ہوتے؟

یہ اس کی زیادہ اچھی تشریح ہے کہ یہ اللّٰه کے عاشق ہوتے ہیں اور اللّٰہ کے راستے میں شہید ہو جاتے ہیں، لہٰذا ان کو مستقل ایک جان ملتی ہے۔ یعنی شہید کی طرح زندہ ہوتے ہیں، مردہ نہیں ہوتے۔

﴿وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌؕ بَلْ اَحْیَآءٌ وَّلٰـكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ﴾ (البقرہ: 154)

ترجمہ: ’’اور جو لوگ اللہ کے راستے میں قتل ہوں ان کو مردہ نہ کہو، دراصل وہ زندہ ہیں مگر تم کو (ان کی زندگی کا) احساس نہیں ہوتا‘‘۔

نمبر 5:

بعض حضرات کے بارے میں کتابوں میں ایسا بھی پڑھا ہے جیسے عبد الکبیر گیمانی رحمۃ اللّٰہ علیہ جب بیت اللّٰه شریف داخل ہوئے تو ایک سال صرف مسلسل طواف کیا، نماز کے قعدے کے علاوہ بیٹھے بھی نہیں اور نہ کچھ کھایا، اور نہ ایک سال میں نیند کی۔

جواب:

ہم حضور ﷺ کے طریقے کے مکلف ہیں، ہم ان باتوں میں نہیں پڑتے۔ حضور ﷺ کا طریقہ ہمارے لئے کافی ہے۔ حضرت گنگوہی رحمۃ اللّٰہ علیہ سے کسی نے کہا: فلاں بزرگ کھانا کھاتے تو ہر لقمے کے ساتھ ذکر کرتے تھے، فرمایا: ہمارے لئے حضور ﷺ کا طریقہ کافی ہے۔ ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم‘‘ یا ’’بِسْمِ اللّٰهِ وَعَلٰی بَرَكَةِ اللّٰه‘‘ سے ابتداء کر لو اور اخیر میں ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ أَطْعَمَنَا وَسَقَانَا وَجَعَلَنَا مُسْلِمِیْن‘‘ کہہ دو، بس یہ کافی ہے درمیان میں کھاتے رہو۔ تو جو حضور ﷺ کا طریقہ ہے وہ افضل ترین ہے۔


وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ