سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 667

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر 1:

السلام علیکم ورحمۃ اللّٰه وبرکاتہ۔ حضرت جی! اللّٰہ پاک سے آپ کی صحت و تندرستی کے لئے دعاگو ہوں۔ حضرت جی! میرا مسئلہ یہ ہے کہ ہفتے کے روز ذکر کے دوران کچھ غنودگی سی طاری ہوئی تھی، اس کے دوران دیکھا تھا کہ ایک سیاہ رنگ کا کتا میری طرف آیا ہے اور بجائے اس کے کہ میں اسے بھگا دوں، لیکن میں اسے چمکارنا شروع کردیتا ہوں اور پیار کرتا ہوں۔ اس کے علاوہ جب یہ خبر مجھے ملی کہ اس مرتبہ اعتکاف جہانگیرہ کے بجائے مرحبا مسجد میں ہوگا، تو دل پر بہت بوجھ سا محسوس ہوا اور بہت کوشش کر کے اپنے آپ کو راضی کیا کہ جہاں حضرت جی اعتکاف کرنا چاہتے ہیں، میں بھی وہیں پر راضی ہوں۔ برائے مہربانی اس بارے میں رہنمائی فرمائیں۔ اللّٰه پاک آپ کو اور آپ کے جملہ متعلقین کے درجات کو بلند فرمائے اور بہترین اجر عطا فرمائے۔

جواب:

اصل میں کسی جگہ کے ساتھ جذباتی تعلق ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ کوئی بری بات نہیں ہے، البتہ عمل اس پر ہوگا جو شریعت اور عقل کے مطابق ہو یعنی عام طور پر عقل کے مطابق ہو، لیکن شریعت کی مخالفت اس میں نہ ہو۔ اور اگر شریعت کی بات اس میں دوسری ہو، تو پھر شریعت کے مطابق معاملہ ہوگا۔ اور یہاں چونکہ شریعت کی بات نہیں ہے، کیونکہ ہر جگہ اعتکاف کرنا درست ہے، وہاں بھی درست ہے، یہاں بھی درست ہے، لہٰذا یہ شریعت کی بات نہیں ہے۔ البتہ عقل کی بات یہاں پر ہوسکتی ہے۔ اصل میں جو اصلاحی اعتکاف ہے، تو اصلاحی اعتکاف میں چونکہ اپنی اصلاح مد نظر رکھنی ہوتی ہے، اپنی پسند مد نظر نہیں رکھنی ہوتی ہے، لہٰذا آپ نے اچھا کیا کہ اپنی پسند کو مد نظر نہیں رکھا اور اپنی اصلاح کو مد نظر رکھا اور یہی کرنا چاہئے تھا۔ اس سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے۔ باقی جو خواب ہے، اس کے بارے میں آپ کو private نمبر پر جواب دوں گا ان شاء اللّٰه! کیونکہ خوابوں کو ہم یہاں پر نہیں بلکہ gradually بتایا کرتے ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کی دعاؤں کو قبول فرمائے۔

سوال نمبر 2:

السلام علیکم۔ حضرت! 40 دن کا ابتدائی وظیفہ بلاناغہ مکمل کر لیا ہے۔

جواب:

ماشاء اللّٰہ بڑی اچھی بات ہے، اللّٰہ پاک نے بڑا فضل فرمایا کہ آپ نے اس کو مکمل کر لیا، کیونکہ اس میں شیطان بہت زور لگاتا ہے کہ کسی طرح یہ مکمل نہ ہو۔ اس لئے اکثر ہم کہتے رہتے ہیں کہ اس میں آپ نے مقابلہ کرنا ہے اور شیطان کی بات نہیں ماننی۔ لہٰذا اللّٰه پاک نے توفیق دے دی۔ دوسری بات چونکہ رمضان شریف کا مہینہ تھا اور تقریبا 18، 19 دن رمضان شریف کے مل گئے ہیں۔ اس میں شیطان چونکہ قید ہوتا ہے۔ باقی آپ نے ہمت بھی کی ہے۔ اب آپ اس طرح کر لیں کہ تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار 100، 100 دفعہ روزانہ کیا کریں اور یہ عمر بڑھ رہے گا۔ اس کے علاوہ آپ کو جو card بھیجا تھا، اس میں ہر نماز کے بعد کرنے کا جو وظیفہ تھا، وہ بھی ساری عمر کرنا ہے۔ اور ابھی آپ نے 10 منٹ کے لئے آنکھ بند، زبان بند، قبلہ رخ بیٹھ کر یہ تصور کرنا ہے کہ میرا دل ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کر رہا ہے، لیکن یہ آپ کروا نہیں سکتیں اور نہ ہی کروانے کی کوشش کریں، مگر جب خود سے ہونے لگے، تو پھر آپ کو پتا چلنا چاہئے یعنی آپ کی غفلت کی وجہ سے یہ miss نہیں ہونا چاہئے۔ لہٰذا بس اتنا آپ کا کام ہے کہ آپ توجہ رکھیں کہ اگر ہو رہا ہو، تو آپ کو پتا چلے اور اگر نہ ہو رہا ہو، تو پروا نہ کریں۔ بس اس کے انتظار میں بیٹھیں۔ اور اس کو آپ ایک مہینہ کریں، پھر مجھے اطلاع کردیں۔

سوال نمبر 3:

السلام علیکم ورحمۃ اللّٰه وبرکاتہ۔ حضرت! اگر کسی گھر کے ماحول میں اثرات ہوں، مثلا شرپسند عناصر جیسے ٹی وی اور سوشل میڈیا کے منفی اثرات کے ساتھ ساتھ جادو اور تعویذوں کے بھی اثرات ہوں اور ہر وقت دیندار لوگ اور علماء کرام کے خلاف بولتے ہوں، تو اس ماحول میں اپنی بات کس طرح کی جائے؟

جواب:

یہ بات آپ نے بہت اچھی بتائی ہے۔ کیونکہ ٹیلی ویژن اور موبائل کے اوپر جو بد نظری ہے، یہی اثرات کو دعوت دیتی ہے۔ کیونکہ اس سے انسان کی عمومی حفاظت ٹوٹتی ہے۔ اور جب وہ ٹوٹ جاتی ہے، تو پھر ادھر ادھر کی چیزیں ہوتی ہیں اور ان کو attack کرنے کا موقع مل جاتا ہے، اور ایسی چیزیں انسان کو آسان معمول بنا لیتی ہیں۔ لہٰذا اگر کوئی اپنی حفاظت چاہتا ہو تو ان چیزوں سے بچنا ویسے بھی ضروری ہے۔ دوسری بات کہ تعویذات اور ان چیزوں کے جو اثرات ہیں، ان کو دور کرنے کے لئے ہمارے پاس ’’منزل جدید‘‘ ہے، وہ اسی کے لئے ہے۔ لہٰذا ’’منزل جدید‘‘ کو باقاعدگی کے ساتھ مغرب کے بعد پڑھا جائے، تاکہ یہ اثرات ختم ہوتے رہیں، ورنہ اگر یہ جڑ پکڑ لیں، تو پھر اتارنا آسان نہیں ہوتا، بہت مشکل ہوتا ہے۔ لہٰذا باقاعدگی کے ساتھ یہ پڑھی جائے۔ لیکن ہمارا کام کیا ہے، ہمارا مسئلہ کیا ہوتا ہے کہ جس وقت امن کی حالت ہو، تو اس وقت تو حفاظت کے وجہ سے نہیں پڑھتے، مگر جب ہوجائے، تو پھر اس کا نکالنا ذرا specialisation ہے، اگرچہ اسی سے نکل سکتے ہیں، لیکن ایک طریقۂ کار کے ساتھ یعنی پھر اس کے طریقے سے کرنا ہوتا ہے۔ اس وجہ سے ہم لوگوں کو یہ ’’منزل جدید‘‘ دی گئی ہے، الحمد للّٰہ! یہ اللّٰہ کا بڑا بہت فضل ہے۔ جب سے یہ ہمیں ملی ہے، اس وقت سے میں اس کا ناغہ نہیں کرتا، الحمد للّٰہ! کل بھی میں نے پڑھی ہے یعنی میں خود بھی اس کا ناغہ نہیں کرتا، بلکہ میں روز پڑھتا ہوں۔ کل تراویح جب 10 بجے شروع کر رہے تھے، تو میں 10 منٹ پہلے آگیا تھا، میں نے جب دیکھا کہ ابھی 10 منٹ ہیں، تو میں نے اس میں ’’منزل جدید‘‘ پڑھ لی اور پھر اس کے بعد ہم نے تراویح شروع کر لیں۔ لہٰذا یہ اپنی حفاظت ہے، گھر کی حفاظت ہے، اس لئے اس کو باقاعدگی کے ساتھ پڑھا کریں، تاکہ کم از کم اپنی حفاظت ہو۔ اللّٰه تعالیٰ ہم سب کو بھی نصیب فرمائے۔

سوال نمبر 4:

السلام علیکم۔ حضرت! امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ جو عورتیں مکہ میں عمرہ یا حج کرنے جاتی ہیں، کیا ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی ساری نماز حرم میں جا کر ادا کریں؟ یا پھر وہ گھر یعنی اپنی ہوٹل کے کمرے میں بھی نماز ادا کرسکتی ہیں؟ افضل کیا ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں تفصیلاً رہنمائی کریں۔

جواب:

آپ نے سوال افضل کا کیا ہے، اس لئے بتا دیتا ہوں۔ آپ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ عورت کا گھر میں نماز پڑھنا میری مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے اور گھر کے صحن سے زیادہ افضل برآمدے میں اور برآمدے سے زیادہ افضل کمرے میں ہے۔ کیونکہ اس کے لئے جو حجاب کے احکامات ہیں، وہ بہت زیادہ ضروری ہیں۔ باقی جہاں تک حرم شریف کا اپنا حصہ تھا یعنی مکہ مکرمہ میں حرم شریف کی جگہ، وہاں تو خانہ کعبہ ہے۔ اور خانہ کعبہ صرف نماز کے لئے نہیں ہے، بلکہ خانہ کعبہ کو دیکھنا بھی ثواب ہے۔ چنانچہ طواف کرنے والوں کو ہم بتاتے ہیں کہ ان کے لئے 60 حصے نیکیاں ہیں، 40 حصے نماز پڑھنے والوں کے لئے ہیں اور 20 حصے صرف دیکھنے والوں کے لئے ہیں یعنی جو اس کو صرف دیکھتے ہیں۔ اب یہ دیکھنا کمرے میں نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا اس کے لئے جانا پڑتا ہے، لیکن پردے والی جگہ پر جائیں یعنی جہاں عورتوں کی جگہ ہو، وہاں بیٹھ کر دیکھا کریں۔ اور طواف بھی چونکہ عورتیں کرتی ہیں، لہٰذا طواف بھی کرنا ہے۔ البتہ جو نماز ہے، تو وہ میں نے بتا دیا کہ افضل کیا ہے۔ باقی کچھ ایسی باتیں بھی ہیں جو وہاں کے علماء کرام کرتے ہیں کہ اگر عورت نماز پڑھ رہی ہو، تو اس کے پیچھے مردوں کی نمازیں نہیں ہوتیں یعنی عورت اگر آگے ہو، تو عورت کے پیچھے مرد کی نماز نہیں ہوگی، اور نہ دائیں طرف والے کی، نہ بائیں طرف والے کی۔ اب پیچھے کتنے مردوں کی نماز خراب ہوجائے گی؟ اس وجہ سے وہاں پر اپنی نماز پڑھ لیں، یہ بہتر ہے۔ اور پھر اس میں ایک عجیب نکتہ ہے کہ کچھ حضرات نے کہا ہے کہ وہ ائمہ اس وجہ سے عورتوں کی نماز کی نیت ہی نہیں کرتے، تاکہ ان کی نماز میں وہ مسئلہ ہی نہ ہو۔ تو ان کے مسلک پر تو یہ مسئلہ حل ہو جاتا ہے، کیونکہ ان کے مسلک میں امام کا عورت کی نیت کرنا ضروری نہیں ہے۔ لیکن ہمارے امام کے نزدیک عورت اگر امام کے پیچھے نماز پڑھے، تو امام کے لئے ضروری ہے کہ ان عورتوں کی نیت بھی کرے۔ اب بتائیں! جب نیت ہی نہ کی ہو تو پھر عورتوں کی نماز ہوگی؟ لہٰذا ایسی چیزوں میں احتیاط کرنی چاہئے۔ اس لئے نماز نہیں پڑھنی چاہئے، احتیاط اسی میں ہے۔ الحمد للّٰہ! تبلیغی جماعت کے امیر حضرت مولانا انعام الحسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ، ان کے گھر کی خواتین جب آتیں، تو وہ نماز کے وقت ان کو باہر نکلواتے تھے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ کہ جو متقی علماء ہیں، وہ اس بات کا خیال رکھتے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت دور اچھا تھا، لوگ مانتے تھے، اب مانتے نہیں ہیں۔ اب آپ بیشک مسئلہ بتائیں، لیکن پھر درمیان میں کوئی بات کرے گا۔ بہرحال لوگ ماننے کے لئے تیار ہی نہیں ہیں، اس لئے ان کو کیا مسئلہ بتایا جائے؟ مسئلہ تو ان کو بتایا جائے گا جو مانتا ہو، جو صحیح چیز سمجھنا چاہتے ہوں۔ بہرحال اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو سمجھ کی توفیق عطا فرما دے اور حق کے مطابق بات کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے۔

سوال نمبر 5:

السلام علیکم۔ شاہ صاحب! امید کرتا ہوں کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ میرا ذکر 200 مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘، 400 مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، 600 مرتبہ ’’حَقْ‘‘ اور 100 مرتبہ ’’اَللّٰہ‘‘ مکمل ہوگیا ہے۔ مجھے آگے کیا کرنا چاہئے؟

جواب:

آپ اس طرح کر لیں کہ 200 مرتبہ، 400 مرتبہ، 600 مرتبہ تو اپنی جگہ پر رکھیں، لیکن ’’اَللّٰہ‘‘ کا ذکر اب 300 مرتبہ کریں۔

سوال نمبر 6:

السلام علیکم۔ گزشتہ کئی سال سے رمضان میں بہت زیادہ جسمانی اور اعصابی کمزوری ہوجاتی ہے، جس کی وجہ سے غیر رمضان والے اعمال بھی نہیں ہو پاتے۔ اور علاج کے باوجود بھی غیر رمضان والی تندرستی نہیں ہو پاتی۔ اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ جزاک اللّٰہ۔

جواب:

میں اس کے بارے میں کسی ڈاکٹر سے ہی پوچھ سکتا ہوں، کیونکہ یہ تو میری field نہیں ہے۔ لہٰذا کوئی ڈاکٹر ہو اور اس کی opinion ہو، کیونکہ مریض کی opinion وہ تو خود مریض ہوتی ہے۔ جیسے کہتے ہیں ’’رَأیُ العَلِیْلِ عَلِیْلٌ‘‘ (علیل کی رائے بھی علیل ہوتی ہے) لہٰذا اس کے بارے میں انسان کچھ نہیں کہہ سکتا، لیکن اگر ڈاکٹر کہہ دے کہ ہاں ایسا ہوجاتا ہے، تو پھر ٹھیک ہے، پھر اس کے لئے شرعی گنجائشوں پر عمل ہوسکتا ہے، لیکن اپنے طور پر کوئی چیز اپنے ذہن میں بنا لینا، اس سے بعض دفعہ مسئلہ ہوتا ہے۔

سوال نمبر 7:

السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ۔

Respected حضرت I pray that you are well. Is there any additional steps or آداب I can do to increase the chance of my لطيفۂ قلب activation as I always desire to hear ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ from my heart but I cannot because of غفلت

جواب:

No it is not غفلت. Actually you are going step by step. All the things cannot be given at once even if it is possible. It means شیخ can give all the things at once but it will not work. It may cause problems. Therefore, you should do whatever you can do. This is enough ان شاء اللّٰه

سوال نمبر 8:

السلام علیکم۔ میرا لطيفۂ قلب، روح، سر پر 5 منٹ کا مراقبہ ہے اور خفی پر 10 منٹ، جبکہ اخفی پر 15 منٹ ہے۔ سب پر ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ محسوس ہوتا ہے اور بعض پر ٹھنڈک بھی ہوتی ہے۔

جواب:

اب آپ ان سب کے اوپر 10 10 منٹ کرنے کے بعد مراقبۂ احدیت کر لیں۔ مراقبۂ احدیت یہ ہوتا ہے کہ آپ یہ تصور کر لیں کہ اللّٰه تعالیٰ کی طرف سے فیض آپ ﷺ کی طرف آرہا ہے اور آپ ﷺ کی طرف سے شیخ کی طرف آرہا ہے اور شیخ کی طرف سے آپ کے دل پر آرہا ہے۔ یہ تصور آپ کر لیں، یہ مراقبۂ احدیت ہے۔

سوال نمبر 9:

السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! میں اسلام آباد سے فلاں عرض کر رہا ہوں۔ سب سے پہلے تو آپ سے معذرت خواہ ہوں کہ رمضان مبارک کے دوران آپ کے پاس حاضر نہیں ہو سکا۔ حضرت جی! ایک لمبے عرصے کے بعد اس رمضان مبارک کی برکت اور آپ کی دعا سے مجھے اپنے معمولات دوبارہ شروع کرنے کی توفیق نصیب ہوئی ہے۔ تقریباً گزشتہ 2 ہفتے سے میں نے وہیں سے اسباق شروع کردیئے ہیں جہاں سے چھوڑے تھے۔ اس کی تفصیل درج ذیل ہے۔ 200 دفعہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘، 400 دفعہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، 600 دفعہ ’’حَقْ‘‘ اور 100 دفعہ ’’اَللّٰہ‘‘ اور 15 منٹ کا مراقبہ ہے۔ حضرت جی! اللّٰه کا شکر ہے کہ معمولات کو جاری رکھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔ ایک دن میری اپنی سستی کی وجہ سے ناغہ ہوگیا تھا۔ اذکار کے دوران ابھی تک ویسے ہی تصور قائم کرنے سے قاصر ہوں، جیسے آپ نے کہا تھا، اور آپ کی ہدایت website پر موجود ہے۔ البتہ توجہ ذکر پر ہی مرکوز رہتی ہے۔ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ اور ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ کے ذکر کے دوران میرا تصور الگ الگ نہیں ہوتا، بلکہ ایک سا ہوتا ہے یعنی اللّٰه تعالیٰ کی وحدانیت کی موجودگی کا میرے دل میں صرف تصور ہے۔ اس کے ساتھ یہ تصور بھی قائم ہوتا ہے کہ یہ ذکر میرے دل کے لئے اطمینان کا باعث ہے، جیسے کہ قرآن پاک کی آیت ہے۔ ’’حَقْ‘‘ کے ذکر کے دوران یہ تصور قائم کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ میرے دل سے باطل چیز نکل کر صرف حق کی جگہ بن رہی ہے، لیکن میرا تصور جو ذکر کے دوران قائم رہتا ہے، وہ یہ ہے کہ حق کے علاوہ سب کچھ nonexistent ہے یعنی صرف اللّٰه تعالیٰ کی ذات، جس کا ایک صفاتی نام حق ہے، اس حق کے علاوہ اور کچھ سرے سے موجود ہی نہیں ہے، اگر ہے تو صرف نظر کا دھوکہ ہے۔ حق اگرچہ عیاں نہیں، لیکن پھر بھی موجود ہے۔ آخر میں حق نے ظاہر بھی ہوجانا ہے اور فاتح بھی، یہی Ultimate truth ہے اور اس کے علاوہ سب باطل ہے۔ اللّٰه کے ذکر کے دوران مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ میرے ساتھ 2 لوگ اور ہیں، جو میرے اندر ہی موجود ہیں اور میرے ساتھ ذکر کر رہے ہیں، ایک مرتبہ تو ایسے بھی محسوس ہوا جیسے لوگوں کا ایک گروپ میرے پیچھے بیٹھا ذکر کر رہا ہے، کبھی میرے سینے کے کسی نقص کی وجہ سے 3 آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ 15 منٹ مراقبے کو میں پورا نہیں کر پاتا، کبھی 10 منٹ، کبھی 15 منٹ، کبھی 12 منٹ اور کبھی اس سے بھی کم پر ہی آنکھ کھول لیتا ہوں۔ مراقبے کے دوران اگر توجہ اپنے دل کی دھڑکن پر مرکوز ہوجائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دل کی دھڑکن ہی ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کا ذکر کر رہی ہے، لیکن پھر گمان ہوتا ہے کہ یہ تو دھڑکن کی آواز ہے۔ گزشتہ 2 دن سے اس دھڑکن کی آواز کبھی محسوس کیے بغیر اور کبھی محسوس کرنے سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کا ذکر ہوتا ہے، لیکن اس پر زیادہ توجہ مرکوز نہیں رکھ سکا۔ حضرت جی! میں نے تقریباً 2 سال سے معاملات شروع کیے ہیں۔ برائے کرم میری رہنمائی فرمائیں اور میرے لئے استقامت کی دعا فرمائیں۔ مزید یہ بھی فرمائیں کہ ذکر بالجہر کے دوران آنکھیں بند کرنا بہتر ہے یا کھلی رکھنا؟

جواب:

ماشاء اللّٰہ بہت اچھا analysis ہے۔ اور آپ نے جو رمضان کی برکت سے ذکر شروع کیا ہے، اس میں ایک message ہے، وہ message یہ ہے کہ رمضان میں چونکہ شیطان باندھ دیا جاتا ہے، لہٰذا اس کی جو فورس ہے، وہ ختم ہونے کی وجہ سے آپ کو اللّٰه پاک نے توفیق دی ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے نفس پر قابو پا سکتے ہیں اور شیطان کے چکر سے نکل سکتے ہیں۔ شیطان چونکہ غافل کرتا ہے، جب وہ غافل کرتا ہے تو سب سے پہلے ہم سے اسلحہ چھینتا ہے۔ ذکر ہمارا اسلحہ ہے، تو وہ ہمارا ذکر stop کرواتا ہے۔ لہٰذا آئندہ اپنے ذکر کا خیال رکھیں، ذکر کبھی نہ چھوڑیں۔ اس لئے جب رمضان شریف پورا گزر جائے، تو ذکر بالکل نہیں چھوڑنا، اس کو اپنے لئے لازم سمجھنا ہے کہ اس کے علاوہ ہماری روح کو اطمینان بھی نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا ذکر باقاعدگی کے ساتھ کرتے رہیے۔

دوسری بات یہ ہے کہ آپ نے جو باتیں سوچی ہیں، وہ ٹھیک سوچی ہیں، کوئی بات نہیں ہے، کیونکہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ کا گھر ایک ہی ہے۔ اللّٰه اور ھُوْ ایک ہی ہیں، کیونکہ ھُوْ کی نسبت اللّٰہ تعالیٰ کی طرف کی جا رہی ہے۔ ھُوْ بذات خود اسم ضمیر ہے اور اسم ضمیر میں جو آپ کی نیت ہو وہی مراد ہوتا ہے، مثلاً آپ کہہ دیں کہ وہ ہے، تو وہ کا کیا مطلب ہے؟ وہ کا وہی مطلب ہے جو آپ کی مراد ہوگی اور اسی طرف آپ کا دھیان جائے گا یا جو اس کو سمجھتا ہو، جیسے آپ نے انگلی سے اشارہ کیا ہو کہ وہ، تو پھر اشارہ اس کی طرف ہوگا، لیکن اگر اپنے طور پر آپ کوئی ذہن میں رکھتے ہوں گے، تو پھر اسی کے حساب سے ہوگا۔ لہٰذا اگر آپ کا اس سے مطلب اللّٰه ہی ہے، تو پھر اللّٰه کی طرف ہی دھیان جائے گا۔ یہ بالکل ٹھیک ہے، اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ البتہ صحیح بات یہ ہے کہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ کا ذکر یکسوئی کا اور کیفیتِ حضوری کا یعنی اللّٰه کے سامنے حاضری کا ذکر ہے۔ اس وجہ سے اس سے وہ کام لیا جاسکتا ہے، اگر کیفیتِ حضوری حاصل کرنی ہو۔ ایک ہوتا ہے کیفیتِ حضوری اور ایک ہوتا ہے کیفیتِ احسان۔ کیفیتِ حضوری میں ہر وقت انسان اللّٰه کے سامنے اپنے آپ کو پاتا ہے اور کیفیتِ احسان میں انسان عبادت اس طرح کرتا ہے کہ جیسے وہ اللّٰہ کو دیکھ رہا ہے۔ اس لئے کیفیتِ حضوری بہت بڑی نعمت ہے، اسی وجہ سے یہ ذکر اس کے لئے کرایا جاتا ہے۔ لہٰذا آپ اس میں یہ بھی کرسکتے ہیں کہ اللّٰه کے سامنے میں موجود ہوں۔ آپ نے اشارہ بھی موجودگی کا دیا ہے، اس لئے بات بالکل وہی ہے۔ تیسری آپ نے ’’حَقْ‘‘ کی بات کی ہے۔ تو حق میں یہی بات ہے، جو آپ نے سوچی ہے یعنی آپ نے صحیح سوچا ہے کہ حق باطل کی ضد ہے۔ اس میں حق اللّٰه کے نام کی صفت ہے اور حق کے ساتھ ہی حق قائم ہے۔ لہٰذا جتنا اللّٰہ کا تعلق ہوگا، اتنا ہی حق پر انسان رہے گا۔ بہرحال بات یہ ہے کہ ہم لوگ اس طرح اس لئے بتاتے ہیں کہ جتنے باطل ہمارے دل میں موجود ہیں، حق کے ذریعے سے وہ ٹوٹ رہے ہوتے ہیں، جیسے آپ ﷺ خانہ کعبہ میں داخل ہوکر فرما رہے تھے:

﴿جَآءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُؕ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا﴾ (بنی اسرائیل:81)

ترجمہ1: ’’حق آن پہنچا، اور باطل مٹ گیا، اور یقیناً باطل ایسی ہی چیز ہے جو مٹنے والی ہے‘‘۔

یعنی آپ ﷺ جس طرح باطل کو توڑ رہے تھے، تو ساتھ ساتھ یہ فرماتے جاتے تھے۔ لہٰذا ہم اس کا سہارا لے کر اپنے دلوں کے بتوں کو توڑتے ہیں۔ دل کے بت کیا ہیں؟ جو لوگوں کے معبود بنے ہوئے ہیں۔ وہ خواہشاتِ نفس ہیں یعنی یہ خواہشات ہمارے دل کے بت ہیں، ان کو توڑنا ہوتا ہے۔ آج کل چونکہ فتنے بہت زیادہ ہیں، لہٰذا حق کا ذکر بہت ہی مؤثر ہے۔ اس وجہ سے ہمارے سلسلے میں حق کا ذکر بہت زیادہ ہے یعنی ہم یہ بتاتے ہیں، تاکہ باطل دب جائے اور حق غالب ہوجائے۔ باقی جو اللّٰه کا ذکر ہے، اس کی مثال ایسے ہے، جیسے ہم اللّٰه کے بندے ہیں اور اللّٰہ ہم سے پیار کرتے ہیں، اور اللّٰہ کی محبت اور پیار کی وجہ سے ہم مسلمان ہیں یعنی یہ توفیقات ہیں۔ خیر یہ تصور کرنا کہ اللّٰه پاک ہمارے دل کو محبت کے ساتھ دیکھ رہے ہیں، ظاہر ہے کہ جب اُدھر سے محبت ہے، تو اِدھر سے بھی محبت ہونی چاہیئے۔ لہٰذا یہ تصور کرنا کہ دل بھی محبت کے ساتھ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کر رہا ہے۔ بہرحال وہ بھی ٹھیک ہے۔ ابھی آپ اس کو جاری رکھیں۔ باقی دھڑکن ٹھیک ہے، دھڑکن تو آپ ختم نہیں کرسکتے، لیکن دھڑکن کے ساتھ کوئی اور چیز آپ attach کرسکتے ہیں۔ اس لئے وہ چیز attach کریں، جو ہم attach کرتے ہیں اور وہ اللّٰه کا ذکر ہی ہے۔ اور اللّٰه کا ذکر اس سے محسوس ہوتا ہے۔ اور اگر میں یہ بات technical انداز میں کروں تو یہ ایسا ہے جیسے بادل ہوں، اور کسی چیز کی shape یعنی شکل کسی کی نفسیات پر حاوی ہوں، تو پھر بادل میں بھی اس کو وہ نظر آتی ہے کہ اب وہ چیز بن رہی ہے اور اب وہ چیز بن رہی ہے، حالانکہ وہ چیز نہیں ہوتی، لیکن اس کے تصور میں یہ ہوتا ہے۔ اب اگر یہاں پر ہم تصور کریں کہ یہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کہہ رہا ہے یعنی ہماری نفسیات یہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کہہ رہی ہیں، تو پھر اس کا فائدہ تو ہوگا کہ ہم غافل نہیں رہیں گے، کیونکہ ہمیں اللّٰه تعالیٰ یاد ہے اور جب اللّٰه یاد ہے تو ہمارا کام بن رہا ہے۔ ہمیں چونکہ کام سے غرض ہے، اس کی حقیقت سے غرض نہیں ہے کہ اصل میں کیا ہو رہا ہے۔ لہٰذا اصل بات یہ ہے کہ ہمیں اس سے غرض ہے کہ کیا ہو رہا ہے، اگر اچھا ہو رہا ہے، تو بس ٹھیک ہے۔ صوفیاء انہی چیزوں کو استعمال کرتے ہیں، آثار کو استعمال کرتے ہیں، مثلاً حبسِ دم ہے، یہ جوگی کرتے تھے، لیکن ہمارے لوگوں نے اس کو اپنے مقصد کے لئے استعمال کیا۔ اب کیسے استعمال کیا کہ حبسِ دم سے چونکہ انسان کو یکسوئی حاصل ہوتی ہے، مثلاً اگر کسی کا سانس رک جائے، تو اس کا کس طرف تصور جائے گا؟ کسی اور چیز کی طرف جائے گا؟ نہیں، بلکہ اس کا تصور سانس کی طرف ہی ہوگا۔ اب سانس کے ساتھ جو تصور اس وقت ہم کرتے ہیں یعنی ’’اَللّٰہ اَللّٰہ اَللّٰہ اَللّٰہ اَللّٰہ اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ ایک ہی سانس میں کر رہے ہیں، تو اس وقت ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ ہی ہو رہا ہے، اس لئے اس کا تصور بھی کسی اور طرف نہیں ہوگا۔ لہٰذا یہیں سے فائدہ اٹھا لیتے ہیں، یہی کمال ہوتا ہے کہ جو دوسرے لوگ کسی چیز سے غلط فائدہ اٹھاتے ہیں، لیکن صوفیاء اس سے اچھا فائدہ اٹھا لیتے ہیں۔ اور پھر لوگ کہتے ہیں کہ دیکھو! یہ بھی جوگیوں کی طرح کر رہے ہیں۔ بھئی! جوگی کی طرح نہیں، کیونکہ جوگی اس چیز کو کس لئے استعمال کرتے تھے اور یہاں پر لوگ کس لئے استعمال کرتے ہیں؟ یعنی یہ استعمال پر موقوف ہے۔

سوال نمبر 10:

السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ۔

May اللّٰہ تعالیٰ reward you abundantly for all the sacrifices you make for us all and may He grant me توفیق to do شکر for these blessings in a manner which pleases Him. I just wanted to ask a question what's the mechanism by which Allah تعالیٰ makes the شیخ the primary point of benefit for the murid?

جواب:

سبحان اللّٰہ! یہ بڑا اچھا سوال کیا ہے۔ میں اسے اردو میں کردیتا ہوں۔ سوال یہ ہے کہ یہ کیسا نظام ہے کہ اس کے اندر اللّٰہ تعالیٰ مرید کے لئے شیخ کو فائدے کا اصل ذریعہ قرار دیتے ہیں؟ میں اس سوال کا یہی مطلب سمجھا ہوں۔ اس جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿كَلَّا بَلۡ تُحِبُّوۡنَ الۡعَاجِلَةَ ۝ وَتَذَرُوۡنَ الۡاٰخِرَةَ﴾ (القیامہ: 20-21)

ترجمہ: ’’خبردار (اے کافرو) اصل بات یہ ہے کہ تم فوری طور پر حاصل ہونے والی چیز (یعنی دنیا) سے محبت کرت ہو۔ اور آخرت کو نظر انداز کئیے ہوئے ہو‘‘۔

یہ فوری چیز کیا ہے؟ فوری چیز نفس کی خواہش ہے، جس کو انسان فوری طور پر لیتا ہے یعنی وہ چیز سامنے ہوتی ہے۔ تو اس کے مقابلے میں کوئی ایسی فوری چیز ہونی چاہئے جو خیر کی طرف لا رہی ہو، جیسے کہتے ہیں diamonds کا diamond یعنی لوہا لوہے کو کاٹتا ہے۔ لہٰذا اگر یہ شر کی طرف لا رہی ہے تو اس کے مقابلے میں خیر کی طرف لانے والی کوئی چیز ہونی چاہئے۔ اب اس کو ذرا دوسرے انداز میں بتاتا ہوں۔ اصل بات تو اللّٰه کی ہے، اللّٰه ہی فائدہ پہنچاتا ہے، اللّٰه ہی ہدایت دیتا ہے، اللّٰه ہی سب کچھ دیتا ہے۔ اور اس کے لئے سب سے اعلیٰ ذریعہ جو ہمارے لئے بنایا ہے، وہ آپ ﷺ ہیں، کیونکہ آپ ﷺ کے ذریعے سے تمام رحمت پوری دنیا میں تقسیم ہوتی ہے، اس لئے یہ بات تو بالکل صحیح ہے۔ اب قرآن اور حدیث میں کوئی چیز موجود ہے، چونکہ قرآن کا تعلق اللّٰہ کے ساتھ ہے اور حدیث کا تعلق آپ ﷺ کے ساتھ ہے، لیکن کسی کو اس پر عمل کرنے کی توفیق نہیں ہوتی، مثلاً جھوٹ نہ بولو، قرآن میں ہے، حدیث میں ہے، غرض سب جگہوں پر ہے، لیکن اس چیز کو ماننے والے بھی جھوٹ بولتے ہیں یا نہیں بولتے؟ کتنے لوگ ہیں جو جھوٹ بولتے ہیں۔ تو انہوں نے اللّٰه کے حکم پر عمل نہیں کیا، گناہ گار ہوگئے۔ آپ ﷺ کے حکم پر عمل نہیں کیا، گناہ گار ہوگئے۔ لیکن اب وہ اپنا علاج کرنا چاہتے ہیں کہ ہم گناہ گار نہ ہوں، تو چونکہ قانون یہ ہے کہ انسان فوری چیز سے اثر لیتا ہے اور دور کی چیز سے اثر نہیں لیتا، بیشک وہ کتنی ہی زیادہ مؤثر ہو۔ مثلاً میں مد و جزر کے بارے میں عرض کرتا رہتا ہوں کہ مد و جزر سورج کی وجہ سے کم ہوتا ہے اور چاند کی وجہ سے زیادہ ہوتا ہے اور یہ تجاذب کی وجہ سے ہوتا ہے یعنی کشش کی وجہ سے ہوتا ہے، اور کشش ہوتی ہے وزن کی بنیاد پر۔ حالانکہ چاند کا وزن زیادہ ہے یا سورج کا وزن زیادہ ہے؟ سورج کا تو بہت زیادہ ہے، لیکن سورج کا اثر سمندر کے پانی پر اتنا نہیں ہے، جتنا کہ چاند کا ہے۔ آخر کیوں؟ کیونکہ چاند قریب ہے، اور قریب کا اثر ہمارے اوپر زیادہ ہوتا ہے۔ لہٰذا جو چیز ہمارے قریب ہوتی ہے، اس کا اثر زیادہ ہوتا ہے۔ ایسے ہی شیخ چونکہ سامنے ہے، آپ کا اس کے ساتھ تعلق ہے، اور جب وہ آپ کو کسی چیز سے روکتے ہیں، تو آپ رک جاتے ہیں، حالانکہ اس چیز سے پہلے سے اللّٰہ نے روکا ہوا ہے، مثلاً جھوٹ نہ بولو، یہ اللّٰه نے بھی فرمایا ہے، حدیث شریف میں بھی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا ہے، لیکن عمل کی توفیق نہیں ہوتی۔ مگر جب شیخ اس کو کہتا ہے کہ جھوٹ نہ بولو، تو وہ جھوٹ نہیں بولتا۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ وجہ صرف یہی ہے کہ وہ قریب ہے یعنی آپ اس کو دیکھ رہے ہیں، وہ عاجلہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فنا فی الشیخ پہلے ہوتا ہے اور پھر فنا فی الشیخ سے ترقی کر کے انسان فنا فی الرسول پر جاتا ہے اور پھر فنا فی الرسول سے ترقی کر کے فنا فی اللہ پر جاتا ہے۔ ترتیب یہاں الٹ ہے مگر اثر لینے کے لحاظ سے ہے، کیونکہ انسان عاجلہ سے زیادہ اثر لیتا ہے، تو یہ عاجلہ کی وجہ سے ہے، اس کی طاقت کے لحاظ سے نہیں ہے۔ چونکہ شیخ عاجلہ ہے اس لئے انسان اس کی بات کا زیادہ اثر ہوتا ہے۔ آپ یقین کیجئے کہ حضرت مولانا اشرف صاحب جو ہمارے شیخ تھے، انہوں نے جو اعمال ہمیں بتائے ہیں، وہ اعمال ہماری گھٹی میں پڑ گئے ہیں، وہ الحمد للّٰہ! ہم سے ابھی تک نہیں چھوٹتے۔ مثلاً حضرت نے ہمیں نماز کے بعد کا جو وظیفہ بتایا ہے، 33 دفعہ ’’ سُبْحَانَ اللهِ‘‘، 33 دفعہ ’’اَلْحَمْدُ للهِ‘‘، 34 دفعہ ’’اَللهُ أَكْبَرُ، 3 دفعہ کلمہ طیبہ، 3 دفعہ درود ابراہیمی، 3 دفعہ استغفار، ایک مرتبہ آیت الکرسی۔ امام صاحب جلدی ہاتھ اٹھا لیتے ہیں، لیکن ہمارا وظیفہ اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا، اس لئے ہم وہی کرتے ہیں، چاہے دوسرے لوگ کچھ بھی کر رہے ہوں۔ اسی طرح ’’مناجات مقبول‘‘ حضرت نے دی تھی، الحمد للّٰہ! ابھی تک پڑھ رہے ہیں یعنی جو بھی چیز ہمیں دی ہے، وہ ماشاء اللّٰہ! مستحکم ہے۔ اور جو چیز ہم نے خود شروع کی تھی، وہ آہستہ آہستہ sideline ہوگئی۔ یہی چیز ہے کہ یہ شیخ کا اثر ہے اور اس اثر کے لئے لوگ شیخ کے پاس آتے ہیں۔ جیسے ابھی تھوڑی دیر پہلے میں نے کہا کہ صوفیاء حقیقت کی طرف نہیں جاتے، وہ اثر کی طرف جاتے ہیں کہ اثر کس چیز کا زیادہ ہوتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ شیخ الحدیث رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اپنی کتاب ’’فضائل ذکر‘‘ میں اور ’’فضائل درود شریف‘‘ میں خواب بھی بتائے ہیں۔ حالانکہ خواب کی قرآن و حدیث کے مقابلے میں کیا حیثیت ہے؟ ہم کہتے ہیں کہ آپ بالکل صحیح کہتے ہو کہ خواب کی کوئی حیثیت اس کے مقابلے میں نہیں ہے، لیکن کیا کریں کہ لوگ اس سے اثر زیادہ لیتے ہیں۔ کیا لوگ خواب سے زیادہ اثر لیتے ہیں یا نہیں لیتے؟ صحیح حدیث شریف میں ایک چیز آئی ہے، لیکن آپ کو عمل کی توفیق نہیں ہوتی، مگر آپ خواب میں آپ ﷺ کی زیارت کر لیتے ہیں اور آپ ﷺ آپ کو ایک چیز فرما دیتے ہیں، تو آپ فوراً رک جائیں گے۔ کیوں؟ اس لئے کہ آپ نے خواب میں خود آپ ﷺ کو دیکھا ہے، اس لئے آپ کے اوپر اس کا اثر ماشاء اللّٰہ! بہت زیادہ ہے۔ لہٰذا یہی چیز ہے کہ اس کا اثر ہے، اس لئے انہوں نے ان چیزوں کو بھی بیان کردیا، نہ کہ اس لئے کہ یہ اصل ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اس طرح کی چیزوں کو بیان فرمایا ہے اور بہت آسانی کے ساتھ بیان فرمایا ہے، فرمایا کہ ایک ہوتی ہے باپ کی نصیحت اور ایک ہوتی ہے کسی اور کی نصیحت۔ کسی اور کی نصیحت اس طرح ہوتی ہے کہ بس اس نے نصیحت کردی، اب اگر نہیں مانتا، تو جائے بھاڑ میں۔ لیکن باپ کی نصیحت ایسی نہیں ہوتی، بلکہ وہ تو کسی طریقے سے اس چیز کو منوانا چاہتا ہے، جو آپ کے لئے مفید ہو، اس لئے وہ بار بار کہے گا، حتی کہ دوسرے لوگوں سے بھی کہلوائے گا اور کسی طریقے سے بھی آپ کو اس پر لائے گا۔ تو یہ صوفیاء باپ کی طرح ماشاء اللّٰہ! شفیق ہوتے ہیں، وہ کسی طریقے سے آپ کو حق پر لانا چاہتے ہیں۔ اس لئے آپ ان کی قدر کریں، ان کی مخالفت نہ کریں۔ مثلاً آپ اگر نیکی پر آجائیں، تو اس میں کیا صرف اس کو فائدہ ہوگا یا آپ کو بھی فائدہ ہوگا؟ اس لئے اگر وہ آپ کے لئے سوچ رہا ہے، اگر آپ کے لئے بول رہا ہے، اگر آپ کے لئے کام کر رہا ہے، تو آپ کو اس پر خوش ہونا چاہئے۔ بہرحال یہ چیزیں نہ سمجھنے کی وجہ سے لوگ اس طرح کرتے ہیں، ورنہ بات یہ ہے کہ شیخ جو ہوتا ہے، وہ چونکہ عاجلہ ہوتا ہے، اس لئے وہ مرید کے معمولات میں کافی مؤثر ہوتا ہے۔

سوال نمبر 11:

حضرت ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ آپ ﷺ کے پاس ایک صحابی نے فرمایا کہ یا رسول اللّٰہ! ﷺ میں دعا میں چوتھا حصہ درود شریف کا شامل کر لوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس کو زیادہ کر لو، یہاں تک کہ آخر میں فرمایا کہ ہر وقت درود شریف پڑھیں۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے جتنے مسائل ہیں اور جتنی حاجات ہیں، تو ہر وقت اگر ہم درود شریف پڑھیں اور دعا کو تھوڑا سا کر لیں، تو کیسا ہے؟ میں نے آپ سے مشورہ لینا ہے۔ آپ اس میں رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

دیکھیں! اللّٰہ کا حکم ہے:

﴿اُدۡعُوۡنِىۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَـكُمۡؕ﴾ (المؤمن: 60)

ترجمہ: ’’مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا‘‘۔

لہٰذا جو دعا کرتے ہیں، وہ اللّٰه کا حکم پورا کر رہے ہیں اور اگر درود شریف پڑھ رہے ہیں، تو وہ بھی اللّٰه کا حکم ہے، کیونکہ اللّٰه پاک نے فرمایا ہے:

﴿اِنَّ اللّٰهَ وَمَلٰٓئِكَتَهٗ يُصَلُّوۡنَ عَلَى النَّبِىِّ يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَيۡهِ وَسَلِّمُوۡا تَسۡلِيۡمًا‏﴾ (الأحزاب: 56)

ترجمہ: ’’بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود بھیجو، اور خوب سلام بھیجا کرو‘‘۔

اس وجہ سے ان میں آپس میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ دعا آپ کرتے ہیں، تو یہ بھی اللّٰه کے حکم پر عمل ہو رہا ہے، درود شریف آپ پڑھ رہے ہیں، تو یہ بھی آپ ﷺ کے حکم پر عمل ہو رہا ہے۔ باقی یہاں بات یہ ہے کہ انہوں نے چونکہ کوئی وقت دعاؤں کے لئے مقرر کیا تھا اور یہ اس حدیث شریف میں ہی ہے کہ انہوں نے کہا تھا کہ میں نے ایک وقت دعاؤں کے لئے مقرر کیا ہے، اس میں درود شریف کا کتنا حصہ رکھوں؟ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ بڑھا دو تو اچھی بات ہے، اور پھر بڑھاتے بڑھاتے انہوں نے پورا وقت کہہ دیا کہ درود پڑھیں۔ لہٰذا جتنا وقت انہوں نے مقرر کیا تھا، اس کے بارے میں یہ بات ہے، باقی دوسری چیزوں کے ختم کرنے کے بات نہیں ہے۔ لہٰذا آپ دعا بھی کرسکتے ہیں اور درود شریف بھی پڑھ سکتے ہیں اور اس دوران آپ نفل نماز بھی پڑھ سکتے ہیں، کوئی اور ذکر بھی کرسکتے ہیں، کیونکہ یہ ساری چیزیں ثابت ہیں، اس لئے اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اس کے فائدے میں یہ چیزیں لکھی ہیں۔

سوال نمبر 12:

اللّٰه پاک کا نظام ہے کہ شیخ ہدایت کا سامان ہے، مگر اس کا میکنیزم ہے؟ یعنی شیخ پر کس حد یقین کرنا چاہئے۔

جواب:

حدیث قدسی ہے:

’’اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ‘‘ (بخاری: 7405)

ترجمہ: ’’میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں جو وہ میرے ساتھ رکھتا ہے‘‘۔

اگر اللّٰه تعالیٰ کے ساتھ آپ کا گمان یہ ہے کہ اللّٰه پاک ہدایت دیتے ہیں اور اللّٰه جل شانہٗ نے ہدایت کے جو ذریعے بنائے ہیں، ان ذریعوں کے مطابق ہدایت دیتے ہیں۔ اور آپ کے تصور میں اگر یہ جم جائے کہ میرے لئے سب سے بڑا ذریعہ شیخ ہے، تو پھر اللّٰہ تعالیٰ آپ کے گمان کے مطابق شیخ کے ذریعے سے آپ کو فیض پہنچائیں گے۔ میں اس کی اکثر ایک مثال دیتا ہوں کہ جیسے ایک ہال ہو اور اس میں بہت ساری کھڑکیاں ہوں اور اس کے اوپر نمبر لکھے ہوں 1، 2، 3، 4 یعنی ہر کھڑکی پر نمبر لکھے ہوئے ہوں۔ اب آپ ایک چیز لینا چاہیں، اور آپ کو ایک کھڑکی مثلاً 11 نمبر الاٹ ہوجائے اور آپ کی چیز وہاں پر رکھ دی جائے، لیکن دوسرے کے لئے 13 نمبر پر رکھی جائے، کسی اور کے لئے 21 نمبر پر رکھ دی جائے۔ تو اس کو کیا کرنا چاہئے؟ وہ چیز اسے کہاں ملے گی؟ تو یہ باقی کھڑکیوں کی مخالفت تو نہیں ہے یا ان کا مقابلہ تو نہیں ہے، لیکن ان کے لئے یہی ہے، البتہ آپ کے لئے کون سی ہے؟ آپ کے لئے وہی ہے۔ لہٰذا جیسے انسان کسی شیخ کو چنتا ہے، تو گویا کہ وہ اپنے لئے کھڑکی کو پسند کر لیتا ہے کہ میرے لئے یہی کھڑکی ہے۔ تو اللّٰہ جل شانہٗ چونکہ ہدایت دیتا ہے اور پھر اسی کے ذریعے سے آپ کو ساری چیزیں دیتا ہے۔ اس میں ہمارے لئے الحمد للّٰہ! اتنے مشاہدات ہیں کہ اللّٰه جل شانہٗ کی مہربانی سے شیخ کا مقام ایسا بن جاتا ہے کہ بعض دفعہ آپ نے ایک بات بتائی نہیں ہے، بس آپ کے ذہن میں ایک سوال ہے یا آپ کے دل میں ایک سوال ہے، لیکن شیخ پر بات کھل جاتی ہے اور وہ بتا دیتا ہے، تو لوگ کہتے ہیں کہ یہ کیسے ہوا؟ بھئی! اللّٰہ پاک اس کے ذریعے اس کو ہدایت دے رہا ہے اور جب وہ ہدایت دے رہا ہے، تو پھر اس کے لئے کیا مشکل ہے کہ آپ کے ذہن کا سوال اللّٰہ تعالیٰ دیکھ لیں اور اللّٰه تعالیٰ اس کا جواب آپ کے شیخ کی زبان پر رکھ دیں، اس میں کون سا مشکل کام ہے۔ لیکن اس میں یہ بات ضرور ہے کہ اللّٰه جل شانہٗ کی تائید کا اس میں پتا چلتا ہے کہ اس تعلق کی تائید اللّٰہ تعالیٰ کتنی فرماتے ہیں اور کتنا اس سے فائدہ ہوتا ہے۔

سوال نمبر 13:

حضرت! جن اکابر کی ہم اتباع کرتے ہیں، چونکہ وہ زیادہ سمجھتے ہیں کہ یہ line کہاں پر drop کرتی ہے۔ لیکن کچھ لوگ گمراہ بھی ہوجاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اکابر کی اتباع نہیں ہے، بلکہ قرآن و سنت کو سامنے رکھیں۔

جواب:

خوارج کا ایک طریقہ تھا اور اس کے مقابلے میں فاطمیوں کا بھی ایک طریقہ تھا، لیکن تھے دونوں گمراہ۔ خوارج کے طریقے میں گمراہی کا پہلو یہ تھا کہ انہوں نے کہا کہ ہمارے لئے کتاب اللّٰه کافی ہے اور وہ رجال اللّٰه کو نہیں مانتے تھے، نہ ہی رجال اللّٰه سے لیتے تھے، اس لئے وہ گمراہ ہوگئے۔ آپ ﷺ نے ان کے بارے میں پیشن گوئی فرمائی تھی کہ کچھ لوگ ایسے دین سے نکل جائیں گے، جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2455) اب یہ بات ان کے بارے میں فرمائی تھی، حالانکہ وہ کتاب اللّٰه کو مانتے تھے، اور کتاب اللّٰه پر سب کا حق ہے، کون کہتا ہے کہ کسی کا حق نہیں ہے، لیکن چونکہ انہوں نے رجال اللّٰه سے انکار کردیا، تو وہ دین سے دور ہوگئے۔ دوسری طرف فاطمیین ہیں۔ یہ رجال اللّٰه کو اتنا مانتے ہیں کہ کتاب اللّٰه کو اس کے لئے چھوڑ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو چیز یہ بتائیں، بس وہی دین ہے۔ بس ہمارے لئے اللّٰه تعالیٰ کی طرف سے یہی بات ہے اور کتاب اللّٰه کی اتباع وہ نہیں کرتے۔ لہٰذا وہ بھی گمراہ ہوگئے۔ اب حق کیا ہے؟ حق ان دونوں کے جمع کرنے میں ہے یعنی کتاب اللّٰه کو رجال اللّٰه سے سیکھو گے اور پھر کتاب اللّٰه پر عمل کرو گے۔ اس لئے جب تک آپ کو رجال اللّٰه کا تعلق حاصل نہیں ہوگا، تب تک کتاب اللّٰه کو سمجھنا ہی مشکل ہے، بلکہ اس میں درمیان میں نفس آجاتا ہے، پھر آپ غلط مطلب لے لیتے ہیں، لیکن رجال اللّٰه کی محنت کے ذریعے سے آپ کے نفس کی اصلاح ہوجاتی ہے، پھر آپ کو کتاب اللّٰه پوری پوری صاف صاف نظر آجاتی ہے اور صحیح سمجھ میں آجاتی ہے اور پھر اس سے گمراہی نہیں ہوتی۔ اب ہم لوگ کیا کرتے ہیں؟ ہم رجال اللّٰه کے پاس جاتے ہیں، جن میں شیخ بھی ہے اور ہمارے اکابر بھی ہیں، تاکہ ہماری اصلاح ہوجائے۔ پھر جب اصلاح ہوجائے، تو پھر اس کے بعد کتاب اللّٰه میں قرآن بھی موجود ہے، حدیث بھی موجود ہے اور بزرگوں کے واقعات بھی موجود ہے یعنی ان سب چیزیں سے ہمیں ان شاء اللّٰہ! ہدایت ملے گی۔

سوال نمبر 14:

حضرت! بزرگوں سے سنا ہے کہ برے لوگوں کا برا اثر ہوتا ہے۔ لیکن روزمرہ کی زندگی میں ایسے لوگوں کے ساتھ واسطہ پڑتا ہے کہ ان کے ساتھ کسی نہ کسی کام کی وجہ سے سلام دعا ہوتی ہے، تو ان لوگوں کے اثر سے کیسے بچا جائے؟ دوسری بات یہ تھی کہ روزمرہ کی زندگی میں ایسے لوگوں سے بھی واسطہ پڑتا ہے، جن کے ساتھ بیٹھ کر وہ مال کی باتیں، دنیا کی باتیں اور پیسوں کی باتیں بہت زیادہ ہوتی ہیں، پھر جب ان کے پاس سے اٹھتے ہیں، تو وہ چیز اپنے دل میں محسوس کرتے ہیں یعنی مال کی محبت اپنے دل میں محسوس کرتے ہیں، اس چیز سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

جواب:

حدیث شریف میں آتا ہے:

’’اَلْوَحْدَةُ خَيْرٌ مِّنْ جَلِيْسِ السُّوْءِ وَالْجَلِيْسُ الصَّالِحُ خَيْرٌ مِّنَ الْوَحْدَةِ‘‘ (مشکوۃ: 4864)

ترجمہ: ”بُرے ہم نشین سے تنہائی بہتر ہے اور نیک ہم نشین تنہائی سے بہتر ہے‘‘۔

لہٰذا ایسے لوگوں کے پاس جن سے شر پھیلتا ہو یعنی ان کی دعوت شر کی طرف ہو، چاہے وہ زبان سے نہ کہتے ہوں، لیکن ان کا تعلق ہی شر کی طرف دعوت دے رہا ہو، تو ایسے لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا چھوڑ دیں، نہیں چھوڑ سکتے تو کم سے کم کردیں یعنی جتنا انسان کم کرسکتا ہے، وہ کردے، تاکہ اس کا نقصان کم سے کم ہو۔ مثلاً جس کو الرجی ہو، تو وہ ایسی جگہوں پر نہیں جاتا جہاں اس کو الرجی ہوتی ہو، وہ وہاں سے بچتا ہے، لیکن اگر مجبوری ہو، تو پھر کیا کرتے ہیں؟ پھر ماسک وغیرہ لگا لیتے ہیں، کوئی اور انتظام کر لیتے ہیں، تاکہ اس کے اوپر اس کا اثر نہ آئے۔ اس وجہ سے ہم لوگوں کو یہ چاہئے کہ ایسے لوگوں کے پاس اٹھنا بیٹھنا بند کر لیں، ان کے پاس نہ بیٹھیں، لیکن اگر مجبوری ہو، جیسے بازار میں کسی کا کام ہے، چونکہ بازار میں سارے لوگ جاتے ہیں، تو پھر اپنی حفاظت کرتے ہوئے جائیں۔ اور طریقہ یہ ہے کہ ہماری حفاظت کی جو جگہ ہیں، ان کے ساتھ اپنا رابطہ مضبوط کر لیں اور ذکر کے ذریعے سے اپنے آپ کو ہر وقت محفوظ رکھیں، کیونکہ ذکر انسان کو غفلت سے نکالتا ہے، ورنہ غفلت میں شیطان مارتا ہے۔ لہٰذا اپنے آپ کو بچانے کے لئے انسان کو ذاکر بنانا چاہئے۔ اب ذکر ایک تو زبان سے ہوتا ہے، اور ایک قلب کا ذکر ہوتا ہے اور ایک اصل میں دھیان کا ذکر ہوتا ہے، اب اگر کسی کو اصل ذکر حاصل ہوجائے، تو پھر بیشک وہ لوگوں کے درمیان بیٹھا ہو، لیکن وہ لوگوں کے پاس نہیں ہوتا، بلکہ وہ اللّٰہ کے پاس ہوتا ہے۔ اس کو کہتے خلوت در انجمن یعنی لوگوں کے درمیان رہ کر بھی لوگوں کے ساتھ نہیں ہوتا، بلکہ وہ اللّٰه کے ساتھ ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر کسی کو یہ حالت نصیب ہوجائے، تو پھر اس پر کوئی کیا اثر کرے گا؟ اس پر اثر نہیں ہوگا، کیونکہ وہ تو اللّٰه تعالیٰ کے پاس ہوتا ہے۔ لہٰذا اللّٰہ تعالیٰ کی موجودگی میں وہ ان چیزوں کا کوئی اثر نہیں لیتا۔ اس لئے پھر اپنی اس کیفیت کو بڑھانے کی کوشش کرنی چاہئے اور جہاں سے اس کو اس چیز کا فائدہ ہو، وہاں آنے جانے کا اپنا تعلق مضبوط کرنا چاہئے۔ لیکن شیطان اس چیز سے روکتا ہے، کیونکہ اس کا تو کام ہے روکنا۔ یہاں تک کہ ہمیں اپنے دوستوں نے بتایا ہے کہ جب خانقاہ کی نیت سے گھر سے باہر آتے ہیں، تو اتنے کام ہمیں یاد آجاتے ہیں کہ اوہ! تو نے یہ کام نہیں کیا، یہ کرو، یہ کرو، وہ کرو۔ لیکن ہم پھر یہ کیا کرتے ہیں کہ ہم کہتے ہیں کہ اچھا! خانقاہ نہیں جاتے، بس اس کے دروازے کو touch کر کے واپس آجائیں گے، لیکن جانا ضرور ہے، پھر (وہ ساتھی کہتے ہیں کہ) جیسے ہی ہم پہنچ جائیں، بس سارا کچھ ختم ہوجاتا ہے۔ اب بتاؤ! یہ کون سی چیز تھی؟ یہ شیطان کی کاروائی تھی۔ اس لئے اپنے آپ کو شیطان کی اس کاروائی سے بچانا چاہئے، وہ ہزار مرتبہ بھی کہہ دے کہ یہ کام کر لو، تو کہیں کہ بس ٹھیک ہے، اس کو کر لوں گا، لیکن بعد میں کروں گا، ابھی میں نے ادھر ہی جانا ہے۔ اس طریقے سے ماشاء اللّٰہ! کام بن جاتا ہے۔ الحمد للّٰہ!

سوال:

حضرت اقدس مرشدی و مولایی ادام اللہ فیوضکم۔ میرے دوست کا میسج ہے جرمنی سے۔

السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ۔

ان شاء اللہ you and your all loved ones are doing well بِفَضْلِ اللّٰه. On April first I will have completed the next thirty days. Something noteworthy happened to me two weeks ago. I had to give a presentation at school. So I stood at the teacher's desk in front of the class and had to talk. While talking, I noticed how I kept doing things to get the attention or impression from the female side of the class. It was not anything significant, just some gestures or remarks, comments or jokes I made briefly in between and then a flash of thought came to me. Imagine if شیخ were sitting here at the front watching me. From that moment on, everything went much better. I immediately started to behave properly. And from that day on, it has occasionally happened again that I was in such a situation and this thought came. For example, also in physical education class, I told you before, that when I know the girls are watching it automatically makes me want to perform better and then the flash of thought comes to me again. I actually wanted to think about it. It was more of a flash of thought, what if شیخ would be here watching? And then again things improved. I thought it might be important for you to know.

جواب:

سبحان اللّٰہ! بڑی اچھی بات ہے۔ یہ بالکل وہی بات ہے، جو ابھی ہم کر رہے تھے کہ شیخ کو اللّٰه پاک ذریعہ بناتے ہیں۔ یوسف علیہ السلام اور زلیخا کا جو واقعہ ہوا تھا، اس آیت کریمہ میں ایک لفظ ہے:

﴿لَوْلَاۤ اَنْ رَّاٰ بُرْهَانَ رَبِّهٖؕ﴾ (یوسف: 24)

ترجمہ: ’’اگر وہ اپنے رب کی دلیل کو نہ دیکھ لیتے‘‘۔

اس برھان کے بارے میں مفسرین نے بات کی ہے کہ یعقوب علیہ السلام کی شبیہ سامنے آگئی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے والد چونکہ پیغمبر ہی تھے اور ان کے مربی بھی تھے، تو اللّٰه پاک نے ان کو ان کے لئے ذریعہ بنا دیا۔ اسی طریقے سے جو مشائخ ہوتے ہیں، تو واقعتاً اللّٰه پاک ان کو ذریعہ بناتے ہیں۔ اور بعض دفعہ ایسی حیرت انگیز صورتحال پیش آجاتی ہے، جس کو عام انداز میں explain کرنا بڑا مشکل ہوجاتا ہے۔ ابھی ابھی اس صاحب نے جو واقعہ بیان کیا ہے، وہ یہی بیان کیا ہے کہ میں سوچنے لگا کہ اگر شیخ یہاں پر ہوتے تو کیا ہوتا۔ چنانچہ شیخ کے اثر سے negative چیزیں ختم ہوگئیں۔ تو اگر اس کے یاد آنے سے اتنا فائدہ ہوتا ہو، تو اس کی موجودگی میں کتنا فائدہ ہوگا۔ میں اکثر ایک بات عرض کرتا رہتا ہوں کہ پہلے وقتوں میں تصورِ شیخ ایک چیز ہوتی تھی، جو کہ مشائخ دیتے تھے۔ اس وقت چونکہ اچھے حالات تھے، اس لئے اس سے بہت فائدہ ہوتا تھا۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے، جیسے میں عام طور پر لوگوں سے ملتا ہوں اور کام کرتا ہوں، لیکن مجھے پتا ہو کہ شیخ مجلس میں موجود ہے، تو پھر میرا رویہ کیسا ہوگا؟ بالکل different ہوجائے گا، بہت conscious ہوجاؤں گا۔ اسی طریقے سے اگر تصور میں شیخ اس طرح آجائے، تو اس کا اثر بھی اس طرح ہوتا ہے کہ اپنے اعمال کے اندر صحیح چیز انسان لینے لگتا ہے۔ لیکن آج کل وہ مشکل ہے، کیونکہ آج کل لوگوں کی سمجھ میں قصور ہے۔ کیونکہ جب اس قسم کے واقعات اس کے ساتھ بار بار ہوتے ہیں، تو وہ شیخ کو حاضر ناظر سمجھنے لگتا ہے، جو کہ غلط عقیدہ ہے۔ حالانکہ عقیدہ بڑی چیز ہے، اس لئے اس کی حفاظت ضروری ہے۔ لہٰذا ہمارے مشائخ نے تصورِ شیخ کی مروجہ شکل کو ایک اور طریقے میں تبدیل کر لیا۔ وہ طریقہ یہ ہے کہ شیخ کے لئے دعا کرو یا شیخ کی کتاب پڑھو۔ تو شیخ کے لئے آپ جو دعا کرتے ہیں، اس میں شیخ کا بھی فائدہ ہے اور آپ کا بھی فائدہ ہے کہ جب آپ اس کے لئے دعا کریں گے، تو آپ کو وہ یاد ہوگا۔ لہٰذا اس کا فائدہ ہوگا یا نہیں ہوگا؟ پس مقصد حاصل ہوگیا۔ لیکن عقیدے میں مسئلہ نہیں آیا، حاضر ناظر والی بات درمیان میں نہیں آئی، عقیدہ بچ گیا اور فائدہ باقی رہ گیا۔ اصل میں یہی آج کل کے دور کی تحقیق ہے کہ ہمیں لوگوں کے حالات کے مطابق فیصلے کرنے چاہئیں، اپنے حالت کے مطابق نہیں۔ مثلاً ڈاکٹر اپنی حالت کے مطابق دوائی دیتے ہیں یا مریض کی حالت کے مطابق دوائی دیتے ہیں؟ ظاہر ہے مریض کی حالت کے مطابق دوائی دیتے ہیں۔ اس وجہ سے جب ہم کہتے ہیں کہ اس وقت تصورِ شیخ مشکل ہے، تو جو تصورِ شیخ کے گزشتہ طریقے پر چلتے آرہے ہیں اور اس کو روکنا نہیں چاہتے، تو وہ ہمارے مخالف ہوجاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو! یہ تصورِ شیخ کو نہیں مانتے۔ ہم کہتے ہیں خدا کے بندو! مانتے ہیں، لیکن آج کل کے لحاظ سے اس کو کرو تو فائدہ ہوگا، ان شاء اللّٰہ۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ


  1. ۔ نوٹ! تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔