اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ۔ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر 1:
السلام علیکم! حضرت جی میں فلاں ہوں، حضرت میری امی کل پندرہ اپریل کو فلاں بھائی کے ساتھ عمرہ کے لئے گئی ہیں، ان کی عید کے بعد تین دن لگاتار فجر کی نمازیں قضا ہوئی ہیں اور آپ نے انہیں دس منٹ کا مراقبہ بھی دیا ہے کہ یہ تصور کریں کہ میں اللہ کی بندی ہوں اور مجھے ہر وہ کام کرنا ہے جس کا مجھے حکم ملتا ہے۔ یہ مراقبہ کرنا وہ بھول جاتی ہیں، کہتی ہیں میں ذکر کر لیتی ہوں اور ذکر کے فورا بعد اگر کوئی پاس بیٹھا ہو یا نماز ہو تو ذہن سے نکل جاتا ہے کہ مراقبہ بھی کرنا ہے۔ امی چاہ رہی تھیں کہ یہ باتیں آپ کو بتا دوں۔
جواب:
ٹھیک ہے آپ نے بتا دی ہیں۔ آپ نے ان کو کہنا ہے کہ ہر فجر کی نماز کے بدلے آپ جرمانے کے طور پر تین روزے رکھ لیں یعنی نو روزے رکھ لیں اور آئندہ کے لئے توبہ کریں کہ اس طریقے سے نہیں عید گزارنی کہ نمازیں قضا ہوجائیں۔ اور جو مراقبہ ہے، اس کے لئے طریقہ یہ کر لیں کہ اول تو ذکر اس وقت کر لیا کریں جب کوئی پاس نہ ہو، زیادہ تر کوشش ایسی کریں کہ ٹائم ایسا مختص کر لیں اور اگر ایسا ٹائم ہوجائے کہ لوگ آجائیں تو لوگوں کی پروا نہ کریں، ان کو بتا دیں کہ مجھے مراقبہ کرنا ہے۔ کیونکہ دس منٹ ہی ہیں تو دس منٹ اتنی بڑی بات تو نہیں ہے، بے شک لوگوں کو کہہ دیں کہ آپ میرا انتظار کر لیں، میں نے دس منٹ کا مراقبہ کرنا ہے۔ بس اس طریقے سے ان شاء اللہ اس پر عمل ہوجائے گا۔ اگر لوگوں کا خیال رکھیں گی یا وقت کا خیال نہیں رکھیں گی تو پھر ایسے مسائل ہوتے رہتے ہیں۔
سوال نمبر 2:
میں فلاں کی زوجہ ہوں میں، آپ کے ساتھ بیعت ہونا چاہتی ہوں۔ میرے پاس کارڈ پہ ابتدائی معمولات کا ذکر ہے، جو میں آج سے شروع کرنے والی ہوں۔ کبھی کبھی آپ کے بیانات سنتی ہوں، میں آپ سے اصلاح لینا چاہتی ہوں۔ میں جب ذکر کرتی ہوں یا نماز پڑھتی ہوں تو مجھے بہت سکون ملتا ہے۔ اگر کبھی کبھی نماز چھوڑ دوں تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ جیسے میں نے بہت کچھ کھو دیا۔ مجھے غصہ بہت جلدی آتا ہے، لیکن غصہ کر کے پھر بعد میں پچھتاوا بھی ہوتا ہے۔ مجھے اپنے شوہر سے بہت محبت ہے، لیکن بہت سارے لوگ میرے دل میں اس کے خلاف بدگمانیاں پیدا کرتے ہیں اور دل میں بہت سارے وسوسے آتے ہیں۔
جواب:
مَاشَاءَ اللہ! بیعت کرنے کے لئے آپ یہ کر لیں کہ کسی دن آپ ٹھیک تین بجے ٹیلی فون کر لیں، نہ اس سے پہلے نہ اس کے بعد۔ فون مجھے landline پہ کر لیں۔ نمبر میں ابھی اس پہ send کر دیتا ہوں۔ ان شاء اللہ آپ کی بیعت ہوجائے گی، لیکن اس سے پہلے آپ وضو کر چکی ہوں۔ اور بیانات باقاعدگی کے ساتھ سنتی رہیں، اس میں آپ کو بہت فائدہ ہوگا ان شاء اللہ۔ جہاں تک یہ ہے کہ آپ کو غصہ آتا ہے، تو غصہ انسان کو آسکتا ہے، غصہ آنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن غصے کو قابو کرنا ہوتا ہے، تاکہ کوئی ایسا کام نہ ہو جس پہ بعد میں پشیمانی ہو یا اللہ پاک کی ناراضگی ہو۔ بہرحال یہ ہے کہ اس کا خیال رکھیں۔ باقی اپنے شوہر سے محبت کی جو بات ہے، یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑا فضل ہے، آپ لوگوں کی باتوں کی پروا نہ کریں اور نہ وسوسوں کی پروا کریں، لوگ تو دو لوگوں کو آپس میں قریب دیکھنا نہیں چاہتے۔ لہٰذا لوگوں کی پروا نہ کریں، آپ اپنا تعلق اللہ کے ساتھ اور اپنے میاں کے ساتھ درست رکھیں۔
سوال نمبر 3:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ میرے بچوں کے مراقبہ کی رپورٹ یہ ہے کہ ان کے مراقبے کا ایک ماہ ہوگیا ہے۔
نمبر 1:
پہلے پانچوں لطائف پر پانچ پانچ منٹ یہ تصور کرنا ہے کہ میرے لطیفہ کی طرف اللہ تعالیٰ محبت کے ساتھ دیکھ رہے ہیں اور میرا ہر لطیفہ اللہ اللہ کر رہا ہے، اس کے بعد ﴿لَآ إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّيْ كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِيْنَ﴾، پوری امت کے لئے استغفار کی نیت سے مراقبہ کرتی ہوں اور اس کا فیض رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر پر اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب پر اور پھر آپ حضرت کے قلب مبارک پر اور پھر فلاں کے پورے جسم پر۔ اَلْحَمْدُ للہ پانچوں لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے۔ مراقبہ کے دوران کچھ خاص کیفیت کا اندازہ نہیں ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ بڑھ رہا ہے اور گناہوں پر استغفار پڑھنے کا خیال آتا ہے اور جب خیال آتا ہے تو توبہ کرتی ہوں اور ساتھ امت کی معافی کی بھی دعائیں کرتی ہوں۔ ناغہ نہیں ہوا۔
جواب:
مَاشَاءَ اللہ! آج کل اس کی بڑی ضرورت ہے، اس کو جاری رکھیں۔
نمبر 2:
اس کا مراقبه مراقبهٔ معیت اور مراقبۂ دعائیہ ہے۔ پہلے پانچوں لطائف پر پانچ منٹ یہ تصور کرنا ہوتا ہے کہ میرے لطیفہ کی طرف اللہ تعالیٰ محبت کے ساتھ دیکھ رہے ہیں اور میرا لطیفہ اللہ اللہ کر رہا ہے۔ اس کے بعد پندرہ منٹ مراقبۂ معیت اور دعائیہ کرنا ہے۔ پانچوں لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے۔ اللہ سے دعائیں بالخصوص فلسطین کے لئے بہت دعائیں کی ہیں۔ ایک ناغہ ہوا ہے۔
جواب:
ماشاء اللہ! اس کو جاری رکھیں، اس کی ضرورت ہے۔
نمبر 3:
ان کا وظیفہ اور ترتیب یہ ہے کہ درود پاک دو سو، تیسرا کلمہ دو سو، استغفار دو سو، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘ دو سو، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا هُوْ'' چار سو، ’’حَقْ‘‘ چھ سو اور ’’اَللّٰہ‘‘ ہزار۔ اَلْحَمْدُ ِللہ! ان باقی تینوں کی نماز پڑھنے اور قرآن پاک کی تلاوت پر استقامت ہے۔ رمضان المبارک میں ہمارے اجتماعی درود پاک کی تعداد سترہ ہزار پانچ سو تھی۔ آپ حضرت سے درخواست ہے کہ اب آگے کی رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
ماشاء اللہ! یہ تو بہت ہی اچھا ہے، اَلْحَمْدُ للہ۔ اب اس کو بھی کہہ دیں کہ اب اس کے بعد ذکر کے لیے پانچ منٹ کے لئے یہ تصور کریں کہ اس کا دل اللہ اللہ کر رہا ہے۔ اور باقی یہ ذکر پورا کر کے پھر اس کے بعد یہ کرنا ہے۔
سوال نمبر 4:
حضرت جی میں student ہوں، السلام علیکم! عرض کر رہی ہوں Women University سے۔ ہمارے department کی کانفرنس ہے جموں کشمیر یونیورسٹی میں، ساتھ Female staff ہوگا، کیا میں جاسکتی ہوں؟
جواب:
اس کے لئے آپ مجھے دو بجے سے لے کے تین بجے کے درمیان فون کرلیں، میں آپ سے کچھ سوالات کروں گا، تو پھر اس کے بعد ان شاء اللہ بات ہوگی۔
سوال نمبر 5:
السلام علیکم! شیخ محترم میرا سورۃ فاتحہ کے مراقبے کا دوسرا ماہ مکمل ہو چکا ہے شکر اَلْحَمْدُ للہ۔ شیخ میں نے پچھلے ماہ ذکر کیا، میرے سامنے یہ آیت لگاتار دن میں کئی مرتبہ سامنے آ رہی ہے۔ صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو۔ شیخ محترم میں سوچتی تھی کہ وقت مشکل ہے، لیکن حالات ایسے بھی نہیں ہیں کہ مجھے صبر کی اس قدر نصیحت کی جائے۔ مجھے کھٹکا سا تھا کہ کوئی زیادہ مشکل وقت آنے والا ہے، جس کے لئے مجھے اللہ تعالیٰ تیار کر رہا ہے۔ لیکن چند دن کے بعد وہ آیت سامنے آنا بند ہوگئی۔ جب واقعی حالات مشکل ہوئے تو پھر وہ آیت دوبارہ سے لگاتار سامنے آ رہی ہے اور اب مجھے اس آیت کا بار بار سامنے آنا سمجھ میں آ رہا ہے، اور میں صبر کی پوری کوشش کر رہی ہوں۔
جواب:
ماشاء اللہ! یہ تو بہت اچھا ہے، اللہ تعالیٰ آپ کی رہنمائی فرما رہے ہیں۔ اور صبر ویسے بھی اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِؕ﴾ (البقرۃ: 46)
ترجمہ: ”صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو“۔
اللہ تعالیٰ آپ کو مزید توفیقات سے نوازے۔
سوال نمبر 6:
السلام علیکم! حضرت میں فلاں بات کر رہا ہوں۔ میں نے اپنے ذکر کے احوال آپ کو بتانے تھے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ میرا دو سو، چار سو، چھ سو اور پانچ سو والا ذکر مکمل ہوگیا ہے۔ اس کے ساتھ مجھے دس منٹ کا مراقبہ کرنا تھا اور دل میں اَللّٰہ اَللّٰہ کرنا تھا، اَلْحَمْدُ ِللہ دل بھی اَللّٰہ اَللّٰہ کرنے لگ گیا ہے۔ ذکر میرا کچھ دن پہلے ختم ہوا، تھوڑے کام میں مصروفیت کی وجہ سے میں ذکر کو جاری نہیں کرسکا اور آپ سے رابطہ بھی نہیں کرسکا۔ میں معذرت چاہتا ہوں، مجھے آگے ذکر کا بتا دیں۔
جواب:
اب باقی ذکر ہے تو وہی کر لیں، لیکن مراقبہ پندرہ منٹ کر لیں اور آئندہ کے لئے رابطہ کرنے کی کوشش کر لیا کریں۔ اس میں معذرت کرنے کی ضرورت نہیں ہے، معذرت تو اپنے آپ سے کیا کریں، کیونکہ نقصان تو آپ کا ہوتا ہے میرا تو کوئی نقصان نہیں ہوتا۔
سوال نمبر 7:
السلام علیکم !حضرت جی میرے مراقبات دو ماہ پندرہ دن سے جاری ہیں، اگلے مرحلہ کی رہنمائی فرمائیں۔ مراقبہ: پانچ منٹ کے لئے مراقبہ دل پر اللہ اللہ، لطیفہ روح پانچ منٹ، لطیفہ سر، لطیفہ خفی پر بھی کر رہا ہوں، اور پندرہ منٹ مراقبہ تنزیہ لطیفہ خفی پر کرتا ہوں۔ کیفیت: مراقبہ کے دوران دھیان کرتا ہوں کہ اللہ کی ذات صمد ہے اور آیت الکرسی کا ترجمہ خوب سمجھتا ہوں اور فیض اللہ سے حضور ﷺ پر، نبی ﷺ سے شیخ پر، شیخ سے میرے لطیفہ خفی پر آتا ہے۔ کیفیتِ اعمال میں بہتری واقع ہو رہی ہے، کچھ خرابیاں کافی پرانی ہیں، طبیعت میں عاجزی ہے، جیسے کوئی میرے ساتھ برا کرے تو دل میں اس سے بدلہ کا یا کوئی جوڑ کا خیال نہیں ہوتا۔ معمولی معاشرتی برائیوں پر، غلط ڈرائیونگ، سودا خریدنے کے دوران اضافی بات وغیرہ پر غصہ آنا۔
جواب:
مَاشَاءَ اللہ! ابھی جو آپ نے مراقبہ کا بتایا ہے کہ مراقبہ تنزیہ کرتے ہیں۔ اس کا آپ نے یہ نہیں بتایا کہ اس کا آپ کے اوپر کیا اثر ہے۔ کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی ذات صمد ہے اور آیت الکرسی کا ترجمہ۔ یہ ذرا بتا دیجئے کہ آیت الکرسی کا ترجمہ اور مفہوم، یہ آپ کو دیا گیا تھا؟ اور مراقبہ تنزیہ چوتھے لطیفہ پر ہے اور اس کے بعد مراقبہ شان جامع ہے۔ تو کیا آپ کو مراقبہ شانِ جامع دیا گیا تھا یا نہیں؟ یہ بھی ذرا بتا دیجئے گا۔
سوال نمبر 8:
ایک سالکہ کا سوال آیا تھا جو کہ حضرت نے مجلس میں نہیں سُنایا، بلکہ اُس کا صرف جواب حضرت نے دیا ہے۔
جواب:
آپ اپنی اصلاح کچھ خاص اوقات میں کیوں کرنا چاہتی ہیں؟ یہ تو ایک continous عمل ہے، اگر آپ کو اس طرح committed انداز میں اصلاح کی طلب ہے، تو اس طرح تو نہیں ہوتا۔ مجھے بتائیں کہ آگ سے کوئی چیز گرم کرنی ہو پھر اس کو موڑنا ہو تو کیا آپ درمیان میں اس کو ٹھنڈا کر کے موڑ سکتی ہیں؟ کیونکہ اس طرح تو بار بار پھر آپ کو وہی کرنا پڑے گا، اس سے تو لوہے کی طاقت ہی ضائع ہوجاتی ہے۔ لہٰذا ابھی تو آپ کو بہت کچھ کرنا ہے، آپ نے ابھی سے ہاتھ کھڑے کردیئے۔ اس لئے ابھی سے آپ پکا ارادہ کر لیں کہ آپ نے اپنی اصلاح کرنی ہے، پھر اصلاح کرنے کے لئے رابطہ اور معمول بروقت کرنا لازمی ہوتا ہے۔ اس وجہ سے میں کہتا ہوں کہ ایک سال آپ نے درمیان میں گزار لیا، آپ کو خیال بھی نہیں آیا کہ مجھے اپنی اصلاح کرنی ہے۔ یہ بات ذرا قابل غور ہے۔
سوال نمبر9:
السلام علیکم!
I have completed forty days of basic ذکر. I am spending a long term in jail and I am also a cancer patient. After doing ذکر I feel that I got برکت from Allah and feel relaxed and my medication is reduced from four tablets daily to one tablet daily. Kindly advise next. Muslim name فلاں۔
جواب:
مَاشَاءَ اللہ!
Allah سُبْحَانَہٗ وَتَعَالیٰ may help you and now you should do hundred times third کلمہ’’ سُبْحَانَ اللهِ، وَالْحَمْدُ للهِ، وَلَآ إِلٰهَ إلَّا اللهُ، وَاللهُ أَكْبَرُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ‘‘،
This will be hundred times and then صَلَاۃُ النَّبِّیِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّمْ
hundred times and then استغفار
اَسْتَغْفِرُ اللہَ رَبِّی مِنْ کُلّّ ذَنّبِِ وَاَتُوْبُ ِالَیْہ’’ and hundred times ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘
with loud voice and hundred times ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ’’ and hundred time ‘‘حَقْ’’
and hundred times اللہ. Brother Yousaf اِنْ شَاءَ اللہ explained to you and the ذکر which will have been done probably after each Salah after each prayer. You should continue for the whole life and this ذکر which I am giving to you third کلمہ and صلوٰۃ النبی and استغفار this will also continue for the whole life ان شاء اللہ. But the zikr ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ’’ hundred times ‘‘لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ’’ hundred times ‘‘حَقْ’’hundred times and اللہ hundred times, this will be changed after one month. So you should inform after one month اِنْ شَاءَ اللہ.
سوال نمبر 10:
ایک سالک کا سوال آیا تھا جو کہ حضرت نے مجلس میں نہیں سُنایا، بلکہ اُس کا صرف جواب حضرت نے دیا ہے۔
جواب:
آپ ان شاء اللہ جب next time خانقاہ آجائیں تو مجھے پھر بتا دیں، تاکہ آپ کے ساتھ اس پر تفصیلی بات ہوسکے، ان شاء اللہ العزیز۔
سوال نمبر 11:
السلام علیکم! حضرت میں نے ایک چیز نوٹ کی ہے کہ مجھے غلطی کا عین وقت پر پتا نہیں چلتا، بعد میں پتا چلتا ہے، پھر میں بہت پریشان ہوتی ہوں، صلوٰۃ التوبہ پڑھ لیتی ہوں، استغفار بھی، لیکن پھر بھی دل عجیب سا ہوتا ہے کہ مجھے غلطی کا پتا بعد میں چلتا ہے گناہ کرنے کے بعد اپنی حالت دیکھ کر دعا بھی کر لیتی ہوں، اب تو ہر روز رات کو سونے سے پہلے پڑھ لیتی ہوں، کیونکہ جب پورے دن کو سوچتی ہوں تو کچھ نہ کچھ گناہ ہو چکے ہوتے ہیں۔ آپ کی رہنمائی چاہئے۔
جواب:
ایک تو ایسے گناہ ہوتے ہیں جو انسان کو معلوم نہیں ہوتے، بہت سارے گناہ ہم سے ہوجاتے ہیں جو ہمیں پتا نہیں ہوتے۔ یعنی علم نہ ہونے کی وجہ سے ان کا استحضار نہیں ہوتا، تو اس پہ تو یہ ایک استغفار کرنا ہوتا ہے:
’’اَسْتَغْفِرُ اللہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ اَذْنَبْتُہٗ عَمَدًا اَوْخَطَأً سِرًّا اَوْ عَلَانِیَۃً وَّاَتُوْبُ اِلَیْہِ مِنَ الذَّنْبِ الَّذِیْۤ اَعْلَمُ وَمِنَ الذَّنْبِ الَّذِیْ لَآ اَعْلَمُ اِنَّکَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ وَسَتَّارُ الْعُیُوْبِ وَغَفَّارُ الذُّنُوْبِ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ۔‘‘
اس پر تو یہ استغفار پڑھنا چاہئے۔ لیکن شعوری توبہ کرنی چاہئے، شعوری توبہ سے مراد یہ ہے کہ انسان کو پتا ہو کہ میں نے کیا غلطی کی ہے اور آئندہ اس کا سدباب کیا ہو۔ مثلاً ایک انسان ہے، اس کو ٹھوکر لگتی ہے، اور یہ کسی کو بھی لگ سکتی ہے، لیکن جیسے کہتے ہیں کہ مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا۔ لہٰذا اس کو معلوم ہوجائے کہ یہاں پر ٹھوکر ہے۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ میں سوات گیا تھا، سوات میں علاقہ ہے جو پورا کٹا پٹا علاقہ ہے، جو صاحب مجھے گاڑی میں لے گئے تھے، ان کی گاڑی نیچے لگتی تھی، بعض گاڑیاں ایسی ہوتی ہیں۔ لیکن وہ چلتا تھا، اس کو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا تھا۔ میں نے کہا کمال ہے آپ کی گاڑی نیچے لگتی بھی ہے اور علاقہ بھی ایسا ہے۔ کہتے ہیں مجھے اس کے ایک ایک پتھر کا پتا ہے، اس لئے اس کے حساب سے میں چلتا ہوں۔ اس کا مطلب یہی شعوری توبہ ہے۔ انسان کو شعور ہو کہ میں کیا غلطی کر چکا ہوں اور اس کا سدباب کیا ہے۔ اکثر مجھ سے لوگ اپنی غلطیوں کی بات کرتے ہیں تو میں ان سے کہتا ہوں کہ آپ نے پھر اس سے کیا سیکھا؟ یعنی دوبارہ ایسا نہ ہو تو اس کے لئے آپ نے کیا سیکھا؟ وہ بتا دیں۔ مطلب یہ ہے کہ انسان کو اس بات کا استحضار ہو کہ میں نے خدا کو جواب دینا ہے۔ تو ایسی صورت میں ہم کیا کریں۔ یعنی کس طریقہ سے اپنے آپ کو بچائیں۔ غلطی ہونا یہ انسانی فطرت ہے، ہوسکتی ہے۔ لیکن پھر دوبارہ رجوع کرنا اور اس سے بچنے کی کوشش کرنا، یہ پھر ماشَاءَ اللہ انسان کے اندر جو روحانیت ہے، وہ ایسے ہوتی ہے۔ بعض ساتھی مجھ سے پوچھتے ہیں کہ روحانیت نہیں ہے۔ میں نے کہا روحانیت یہی ہے۔ روحانیت یہی چیز ہے کہ انسان کا اللہ پاک کے ساتھ جو تعلق ہے اس کو یاد ہو اور اس کے مطابق وہ چلے۔ بس یہ روحانیت ہے۔ اور نفس کے تقاضے جن کو یاد ہوں اور نفس کے مطابق چلے، یہ نفسانیت ہے۔ تو نفسانیت کی ضد روحانیت ہے، جو بھی انسان نفس کی خواہش کے مطابق چلتا ہے وہ نفسانیت پہ چل رہا ہے۔ اور جو اس کی ضد پہ چل رہا ہے کہ جو اس کی نفسانیت ہے، اس کا مقابلہ کرتا ہے، اس کو نہیں ہونے دیتا، یہ روحانیت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثر لوگ وہ ہوتے ہیں جو ان چیزوں کے ساتھ کچھ مافوق الفطرت چیزیں وابستہ کر لیتے ہیں۔ جیسے کشفیات یا اس قسم کی کچھ چیزیں نظر آنا یا کچھ محسوس ہونا، یہ چیزیں وہ کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ چیزیں اس کے ساتھ ضروری نہیں ہیں۔ کتنے صحابہ کرام تھے جن کو یہ چیزیں ہوتی تھیں، وہ تو بالکل ہی خالص زندگی گزارتے تھے یعنی بالکل عام لوگوں کی طرح زندگی گزارتے تھے۔ لیکن ان تمام چیزوں کے استحضار کے ساتھ کہ کون سی چیز اللہ کو پسند ہے اور ہم نے کرنی ہے اور کون سی چیز اللہ کو ناپسند ہے اور ہم نے نہیں کرنی۔ بس سب سے بڑی روحانیت یہی ہے، اس سے زیادہ روحانیت اور کیا ہوتی ہے۔ ایک آدمی کو ساری دنیا کی کشفیں ہو رہی ہیں، اس کو نماز کے اندر بڑا مزہ آ رہا ہے، لیکن وہ گناہوں سے نہیں بچ رہا، دوسرے آدمی کو کچھ بھی نظر نہیں آ رہا، نہ اس کو کسی چیز میں مزہ آتا ہے، لیکن وہ گناہ سے بچتا ہے، بتاؤ کون کامیاب ہے؟ جو گناہ سے بچ رہا ہے وہ کامیاب ہے۔ بس یہی بات ہے کہ ہمارے بزرگوں نے تو ہمیں یہی پیغام دیا۔ اگر یہ سب معلوم ہے تو بس اس کے بعد آپ مطمئن ہیں، پھر عمل کی دیر ہے concept صحیح ہے، یعنی مفہوم صحیح ہے اب صرف عمل کی دیر ہے۔ لہٰذا عمل کرنا چاہئے، اللہ تعالیٰ نصیب فرما دے۔
حضرت حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "وہ ذرا سی بات جو حاصل ہے تصوف کا، یہ ہے کہ جس طاعت میں سستی محسوس ہو، سستی کا مقابلہ کر کے اس طاعت کو کرے اور جس گناہ کا تقاضا ہو، تقاضے کا مقابلہ کر کے اس گناہ سے بچے، جس کو یہ بات حاصل ہوگئی اس کو پھر کچھ بھی ضرورت نہیں۔ کیونکہ یہی بات تعلق مع اللہ پیدا کرنے والی ہے اور یہی اس کی محافظ ہے اور یہی اس کو بڑھانے والی ہے"۔
اب بتائیں! کوئی چیز رہ گئی ہے؟ میں آپ کو اس کی وجہ بتاتا ہوں۔ اصل میں انسان کے نفس کے اندر دو چیزیں ہیں: تقویٰ کا تقاضا بھی ہے یعنی تقویٰ کی صلاحیت بھی ہے اور فجور کی بھی ہے۔ اب فجور کی وجہ سے گناہ کا تقاضا ہوتا ہے تو اس وقت اس کو دبائے اور اس کو نہ ہونے دے، یہ مجاہدہ ہے۔ اور جو انسان کے اندر خوبیاں اور صلاحیتیں ہیں، ان صلاحیتوں کو اجاگر کرے اور اس سے فائدہ اٹھائے، اس کے لئے فاعلات ہیں، یعنی فاعلات ان صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لئے ہیں اور رذائل کو دبانے کے لئے مجاہدات ہیں۔ بس اگر کسی کو یہ حاصل ہوں تو دونوں ذریعے ان کو حاصل ہیں اور اصل مقصد بھی ان کو حاصل ہے۔ لہٰذا مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کریں۔
سوال نمبر 13:
السلام علیکم! حضرت جی میرا چھ ہزار مرتبہ اللہ اللہ کا ذکر زبان پر، تین مرتبہ آیت الکرسی اور دس منٹ اللہ اللہ کا مراقبہ دل پر تھا۔ حضرت جی اس بار مراقبہ کرتے وقت دو مرتبہ دل میں اللہ اللہ کا محسوس ہوا ہے۔ اب میرے لئے آگے کیا حکم ہے؟ کوتاہیوں کی معافی چاہتا ہوں۔
جواب:
آپ اس طرح کرلیں کہ دس منٹ کی بجائے پندرہ منٹ کا اللہ اللہ کا مراقبہ دل پر کر لیا کریں۔
سوال نمبر 14:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!
May اللہ تعالیٰ preserve you dear Sheikh and grant me the توفیق to be a true مرید. I was hoping to get guidance on a question. How can a سالک protect what he gain from the فیض and صحبت of his Sheikh and the ?خانقاہ
جزاک اللہ
جواب:
ماشاء اللہ! بڑا اچھا سوال ہے کہ جو فیض شیخ کی خانقاہ سے لیا ہو یا ان کی صحبت سے لیا ہو، اس کو باقی کیسے رکھا جائے۔ سب سے اہم اس میں یہ بات ہے کہ صحبت ناجنس سے بچیں یعنی جو شیخ کے مزاج کے خلاف لوگ ہوں یا خانقاہ کے مزاج کے خلاف لوگ ہوں۔ ان کی صحبت سے بچیں۔ دوسری چیز جو میں نے ابھی بات عرض کی ہےکہ گناہ کا تقاضا ہو تو اس کا مقابلہ کر کے اس سے بچیں اور جو خیر کی انسان کے اندر صلاحیت ہو، اس کو اجاگر کر کے اس کو کریں۔ اس طریقہ سے مَاشَاءَ اللہ یہ مسلسل متحرک رہے گا اور اس کی برکت سے مَاشَاءَ اللہ وہ چیز آگے بڑھے گی۔ جیسے کہتے ہیں کہ حرکت میں برکت ہے۔ جیسے حضرت نے فرمایا کہ یہی چیز اس کو پیدا کرنے اور بڑھانے والی ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو نصیب فرما دے۔
سوال نمبر 15 :
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!
I am sister فلانہ from Airport Housing Society Rawalpindi اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ my husband and I am going to perform hajj. Our stay will be from 14 May to 25 June. Please pray for each of us and the acceptance of our visit over there!
جواب:
آمین۔
سوال نمبر 16 :
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! حضرت جی جب کوئی ہمارے ساتھ برا کرے اور برا سمجھے، اس کے جواب میں ہم اس کے ساتھ اچھائی کریں۔ ایسی صفت میں خود میں کیسے پیدا کروں؟ کیونکہ جب کوئی مجھے برا سمجھتا ہے تو میں بھی ان کو برا سمجھتی ہوں، ان سے نفرت بھی کرتی ہوں۔ حضرت اس انتقام کے مادے کو کیسے ختم کیا جاسکتا ہے؟
جواب:
بالکل ختم کرنا ممکن نہیں ہے، یہ چیزیں تو ہمارے اندر inbuilt ہیں۔ لیکن ان کے تقاضوں کا مقابلہ کر کے ان کو روکا جاسکتا ہے۔ اگر کوئی اس قسم کی بات ہو تو سب سے پہلی بات یہ ہے کہ جن کو آپ برا سمجھتی ہیں، وہ سارے برے نہیں ہوتے، اس کی کچھ چیزیں بری ہوتی ہیں، اس بری چیز کو برا سمجھیں، اس کو برا نہ سمجھیں، اور اس کی جو اچھی چیزیں ہیں وہ اچھی سمجھیں اور فیصلہ اپنے اوپر نہ چھوڑیں۔ کیونکہ کچھ چیزیں اچھی ہوں اور کچھ چیزیں بری ہوں تو کون فیصلہ کرے گا؟ کیا آپ کو ساری معلومات ہیں؟ جب معلومات نہیں تو فیصلہ اللہ پہ چھوڑنا پڑے گا۔ جب اللہ پہ فیصلہ چھوڑنا ہے تو پھر تم خود فیصلہ نہیں کر سکتی ہو، لہٰذا اس کو برا نہ کہو۔ ہاں! یہ کہہ دو کہ اس کی یہ چیز بری ہے۔ اور اس کی اجازت ہے، اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ جیسے کوئی شخص جھوٹ بول رہا تو آپ کہتے ہیں کہ یہ جھوٹ بولنا اس کا ٹھیک نہیں ہے، لیکن ممکن ہے وہ لوگوں کی خدمت کر رہا ہو، کسی وقت دینداروں کی خدمت کر رہا ہو یا کوئی اور اچھی صفت ہو۔ ظاہر ہے آپ اس کی اچھی صفت کو بھی تو مانیں گے۔ اگر بری صفت مانتے ہیں تو اچھی صفت بھی مانیں گے۔
سوال نمبر 17:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! میں فلاں کے گھر سے message کر رہی ہوں۔ امید ہے کہ آپ خیرت سے ہوں گے ان شاء اللہ، family میں کچھ بہت قریبی رشتہ دار تکلیف دیتے ہیں، اگر خاموش ہوں تو زیادہ پریشان کرتے ہیں اور میں کڑتی رہتی ہوں، اور اگر جواب دوں تو مجھے ڈر لگتا ہے کہ زیادتی نہ کر جاؤں، ان میں اپنی صلاحیت ضائع نہیں کرنا چاہتی، ان سے کنارہ کشی اختیار کرتی ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ صلح رحمی نہیں کر رہی ہوں۔ اپنا دل صاف کر کے چلتی ہوں تو پھر کوئی تکلیف دہ بات سن لیتی ہوں تو زخم تازہ ہوجاتے ہیں۔ آپ ہی رہنمائی فرمائیں میں کیا کروں؟ اور سب سے بڑی آزمائش یہ ہے کہ ان سے بدلہ بھی لے سکتی ہوں۔ عجیب کشمکش ہے۔ بہت معذرت! آپ کا قیمتی وقت لیا۔ جَزَاکَ اللہُ خَیْراً وَّاَحْسَنَ الْجَزَاءِ۔
جواب:
سُبْحَانَ اللہ! میرے خیال میں آپ کو بھی علم ہوگا کہ ایک صحابی نے آپ ﷺ سے اس قسم کی شکایت کی تھی کہ ہمارے خاندان کے جو لوگ ہیں، جن کے ساتھ ہم اچھا کرتے ہیں وہ ہمارے ساتھ برا کرتے ہیں۔ تو آپ ﷺ نے یہی فرمایا تھا کہ اگر ایسی بات ہے تو پھر اس کے بدلہ میں اچھا کریں۔ اس لئے میرے خیال میں ہمیں different ہونا چاہئے۔ جس کو ہم کہتے ہیں کہ دین پھیلا ہے کردار سے گفتار سے نہیں پھیلا۔ اور کردار یہی ہے کہ جو عین وقت پہ ظاہر ہوجائے، یعنی موقع کے مطابق ظاہر ہوجائے۔ علم بھی وہی اصل ہے جس کا عین موقعے پر استحضار ہو، ورنہ کتابیں تو الماریوں میں پڑی ہوتی ہیں۔ وہ تو الماریوں میں علم ہے، وہ تو آپ کو حاصل نہیں ہے۔ لیکن جو آپ کو مستحضر ہے، جس وقت آپ کو ضرورت پڑے تو آپ کو یاد ہو، آپ کو معلوم ہو کہ اس وقت کیا کرنا ہے، وہ علم ہے۔ اس طرح عمل بھی وہی ہے جو عین موقع پہ ہو۔ چنانچہ مَاشَاءَ اللہ اگر آپ ایسا کر رہی ہیں کہ آپ ان کا برا نہیں سوچ رہیں تو آپ کو مبارک ہو، اَلْحَمْدُ ِللہ آپ صحابہ کے نقش قدم پر ہیں، اللہ تعالیٰ اس کو مزید بڑھائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جیسے میں نے عرض کیا کہ ان کی کچھ اچھی باتیں بھی ہوں گی، ان کی اچھی باتوں کو اپنے ذہن میں لایا کریں، جس سے ان شاء اللہ برا سلوک کچھ کم ہوگا، اور خود اپنی طرف سے ان کے حقوق تلف نہ کریں، اگر ان کی وجہ سے ہو رہا ہے تو پھر وہ ذمہ دار ہیں، پھر آپ ذمہ دار نہیں ہیں۔ لیکن آپ ان کے حقوق کو تلف نہ کریں۔ جو ان کے حقوق ہیں وہ ان کو ادا کرتی رہیں اور جو فرض ہیں وہ نبھاتی رہیں، البتہ جو ان کی طرف سےکمزوری ہو، اس کا معاملہ اللہ کے حوالہ کر دیا کریں۔ اگر معاف کریں گی تو اس سے مَاشَاءَ اللہ آپ کا مرتبہ بلند ہوگا اور اگر معاف نہیں کریں گی تو اللہ تعالیٰ کو پتا ہے کہ ان کے ساتھ کیا کرنا ہے۔ بہرحال بہترین بدلہ تو یہی ہے کہ انسان اس کو معاف کر دے اور اللہ پاک سے اس کے بدلے میں خود معافی چاہے کہ یا اللہ! میرے گناہ بھی معاف کر لے۔ اور یہ بہترین وسیلہ ہے اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کرنے کا۔ وہ جو حدیث غار ہے، یہ اس سے ملتا جلتا ہے، اس وسیلے کے تو سارے لوگ قائل ہیں۔ لہذا اپنے اس عمل کا حوالہ دیں تو یہ بہترین وسیلہ ہے اِنْ شَاءَ اللہ۔
سوال نمبر 18:
حضرت محبی ومحبوبی مُدَّ ظلکم العالیہ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! کیا وحدت الوجود میں ڈبکی لگانے کی مدتِ قیام کا ایک خاص وقت ہوتا ہے؟
جواب:
اس بارے میں میں نے کہا کہ جب اللہ پاک آپ کو اس سے نکالے تو پھر اللہ کے کام میں ہم کیا کہہ سکتے ہیں، وہ تو اللہ پاک جب نکالے، اسی وقت فوری طور نکالے یا تھوڑی دیر کے بعد نکالے، وہ پھر اسی پہ چھوڑنا چاہئے۔
سوال نمبر 19:
کیا سالک کو اس حال میں اس کا ادراک ہوتا ہے یا یہ منافی حال ہے جس کا ادراک اس سے بالکل صحو میں ہوتا ہے۔
جواب:
جی ہاں! جب باہر نکل آتا ہے تو پھر اس کو پتا چلتا ہے۔ ہاں! البتہ کچھ صحو اگر باقی ہو تو پھر علیحدہ بات ہے۔ مثلاً ایک شخص ہے جو بالکل مجذوب ہوگیا، اس کی عقل ہی کام نہیں کر رہی، تو وہ تو بالکل مرفوع القلم ہے۔ لیکن بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ حالتِ جذب میں ہوتے ہیں لیکن ان کا control بھی ہوتا ہے، ایسی حالت میں پھر ان کو ادراک ہوسکتی ہے۔
سوال نمبر 20:
نیز کیا سالک کے ساتھ ایسا ہوسکتا ہے کہ وہ کثرت اغیار سے کٹ کر یعنی نفس کے زور سے وحدت الوجود کی طرف جائے اور صرف اللہ ہی کو چاہنا چاہے اور پھر صحو کی طرف آئے اور پھر گناہوں کی طرف عود کر جائے، مگر قلب کے اللہ کریم کی طرف ہمہ تن مرکوز رہنے کی کمی پانا، کیا یہ ذکر میں رسوخ کی کمی اور اپنے اخلاق میں کمی کی وجہ سے ممکن ہے؟
جواب:
اگر مکمل فنائیت نہ ہوچکی ہو، فنا فی اللہ نہ ہو چکا ہو، تو ممکن ہے۔ وہ تو مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بھی فرمایا ہے کہ جب تک انسان کی مکمل فنائیت نہ ہو چکی ہو، فنا فی اللہ نہ ہو چکا ہو یعنی فنا فی الصفات ہو، فنا فی الذات نہ ہو، تو پھر عود ممکن ہے۔ اور فنا فی الذات اور فنا فی الصفات میں جو فرق ہے وہ میرے خیال میں ہم لوگوں کو آنا چاہئے۔ وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کسی صفت کا آدمی عاشق ہو، جیسے اللہ پاک رازق ہے، کسی کو رزق مل رہا ہے تو اس وقت تک تو مَاشَاءَ اللہ ٹھیک ہے، اللہ کا بندہ ہے۔ لیکن جیسے ہی تھوڑی سی تنگی آ جائے تو ساری باتیں فرو ہوجاتی ہیں، پھر کچھ اور کہنا شروع کر لیتا ہے۔ تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اللہ کی ذات میں فنا نہیں ہوا تھا، بلکہ اللہ کی صفت میں فنا ہوا تھا۔ اور اگر اللہ کی ذات میں فنا نہ ہو اور واپس اگر آتا ہے تو سب سے پہلے اپنی نفی نہیں ہوتی، اپنے نفس کا شکار ہوجاتا ہے۔ لہٰذا یہ چیز دائمی نہیں ہے۔ لیکن جس وقت فنا فی الذات ہوجاتا ہے تو پھر مَاشَاءَ اللہ اس کے بعد یہ چیزیں نہیں ہوتیں۔ جیسے حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ زبردستی بھی پھر خیال نہیں آتے۔
سوال نمبر 21:
کیا دوبارہ ڈبکی وحدت کے بارے میں لگانی ہو، تو کیا یہ ممکن ہے۔
جواب:
مجھے حیرت ہوتی ہے کہ وحدت الوجود کوئی قصداً تو کر نہیں سکتا، وہ تو ہوجاتا ہے، کیا نہیں جاتا۔ البتہ اس کا جو راستہ ہے یعنی سیر الی اللہ، اس پہ وہ چلتا ہے۔ تو اس میں یہ چیز آ جاتی ہے، بعض پہ جلدی آتی ہے اور بعض پہ دیر سے آتی ہے، لیکن یہ ہے کہ خود تو کوئی نہیں کہتا کہ چلو جی میں وحدت الوجود میں تھوڑا سا چلا جاؤں۔ اس طرح تو میں نے نہیں دیکھا سنا کہ کوئی اپنی مرضی سے وحدت الوجود میں جاتا ہو۔ بلکہ وہ حضرات تو اس سے پناہ مانگتے ہیں، جیسے حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ہوتا تھا، بعض لوگ کہتے کہ حضرت آپ نے ایسا کہا۔ فرمایا: اچھا؟ جب ایسا ہونے لگے تو پھر مجھے مارو، میں تو زندیق ہوگیا ہوں۔ چونکہ یہ معاملہ من جانب اللہ تھا، لہٰذا انہوں نے تلواریں چلائیں، لیکن ان کے جسم سے گزر گئیں، جیسے کوئی transparent چیز ہو، پس وہ تو من جانب اللہ protection بھی تھی۔ بہرحال یہ چیزیں تو اپنی مرضی کی نہیں ہوتیں۔
سوال نمبر 22:
جو تجلیات ہوتی ہیں، وہ قلب وروح پر وارد ہوتی ہیں تو ایک بجلی جیسی یا پھر غائب؟
جواب:
جو تجلیات ہوتی ہیں ان کے سامنے انسان مغلوب ہوجاتا ہے اور پھر اس کے بعد وہ غائب ہوجاتی ہیں، اس کو برقی تجلی کہتے ہیں۔
سوال نمبر 23:
یہ اگرچہ اللہ کا دیدار تو نہیں ہے، مگر اس کی تجلی تو ہے، اس سے پھر نفس کی عود کیوں ہوتا ہے؟
جواب:
اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ۔ عجیب بات کردی۔ کیونکہ جب برقی ہے وہ چلی گئی تو پھر وہ اپنی اصلی حالت پہ آگیا۔ البتہ اگر اس کی اصلاح ہو چکی ہو یعنی اس کا نفس مطمئنہ ہو چکا ہو تو پھر اس کے بعد واپس عود نہیں کرتا۔ مثلاً اگر کسی کو لیلۃ القدر نظر آ جائے، تو اس میں بھی تجلیات ہوتی ہیں۔ اسی طرح یہ بھی تجلیات ہوتی ہیں، لیکن بعد میں یہ ممکن ہے کہ واپس ہوجائے یعنی گناہوں کی طرف آجائیں۔ کیا یہ نہیں ہوتا؟ اس لئے اپنے آپ کو confuse نہ کریں۔ آپ یہ کہہ دیں کہ میرا ان چیزوں سے کام ہی نہیں ہے، یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خود بخود ہوتی ہیں اور خود بخود چلی جاتی ہیں۔ میرا کام اپنے آپ کو اللہ کا بندہ بنانا ہے بس، یہ سوچیں گے تو پھر بات بنے گی۔ اگر آپ نے کچھ اور بننا ہو تو وہ ہمیں نہیں آتا۔ صرف ایک ہی چیز آتی ہے کہ اللہ کا بندہ بننا ہے اور اللہ کا بندہ بننا ہر ایک کے لئے ضروری ہے۔ اس میں یہ ہے کہ اللہ کا جو حکم ہے وہ میں نے پورا کرنا ہے۔ جس وقت میں ہوش میں ہوں تو مجھے اللہ پاک کا حکم پورا کرنا ہے اور اس کے لئے اپنے نفس کو مارنا ہے۔ نفس کو مارنے کا مطلب رذائل کو دبانا ہے۔ رذائل کو دبانے کے لئے جو مجاہدات ہیں وہ کرنے ہیں، یعنی شیخ کی بات ماننی ہے۔ باقی اس کے ساتھ کیا ہوتا ہے غیر ارادی طور پر اور غیر اختیاری طور پر، اس کے نہ ہم مکلف ہیں نہ ہم ذمہ دار ہیں، کب ہوتے ہیں اور کب نہیں ہوتے، اس کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہتے ہیں۔ کیونکہ یہ ہمارا کام ہی نہیں ہے۔ جو کام جس کا ہے، وہی اس کو جانے گا، وہی اس کو سمجھے گا اور وہی اس کو کرے گا۔ لہٰذا ہمارا جو کام ہے ہم وہ کریں۔ جیسے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اکثر اس پہ فرماتے ہیں کہ کارِ خود کن، کارِ بیگانہ مکن۔ کہ بھائی اپنا کام کرو دوسروں کا کام نہ کرو۔ اور ہمارا کام ہے اللہ کی بندگی کرنا، اللہ پاک نے یہ بندگی اتنی اونچی نسبت بنائی ہے کہ ہم جو کلمہ شہادت پڑھتے ہیں: ''اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ'' یعنی پہلے عَبْدُہٗ آتا ہے پھر بعد میں رَسُوْلُہٗ آتا ہے۔ کیونکہ عَبْدُہٗ سب کے ہاں ہے اور رَسُوْلُہٗ ہر ایک نہیں ہے۔ ''اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ'' لہٰذا ہمیں اپنی بندگی ظاہر کرنی ہے۔ میرے خیال میں اگر ادھر ادھر کی چیزوں سے ہم ہٹ جائیں تو ذرا جلدی انسان کو وصول ہوسکتا ہے۔ حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ، ان حضرات کو اجازت ملی تھی لیکن وہ فرماتے ہیں ہمیں پتا بھی نہیں تھا کہ نسبت کسے کہتے ہیں۔ اور کون اجازت دے رہے ہیں؟ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ اجازت دے رہے ہیں اور حضرت حاجی صاحب دے رہے ہیں۔ اسی طرح حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اگر کسی بندہ پہ ہم بیٹھ جائیں اور کچھ بھی نظر نہیں آتا، لیکن آپ اپنے station پہ پہنچ جائیں، تو کام ہوگیا اور اگر کھڑکیاں کھلی ہوں اور آپ ادھر ادھر باہر نظارے کرتے جائیں اور نظاروں میں گم ہوکر نیچے اتر کے وہ گاڑی miss کر لیں تو پھر کیا ہے۔ لہٰذا ایسی چیزوں کی طرف نہیں جانا چاہئے، بس اللہ پاک کے بندے بن جائیں۔ اللہ پاک کا دیدار اُدھر ہے، یہاں نہیں ہے۔ یہ صاف بات ہے، یہاں پر دیدار ہو نہیں سکتا۔ آپ موسیٰ علیہ السلام سے زیادہ تو نہیں ہیں، موسیٰ علیہ السلام سے جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿لَنْ تَرٰىنِیْ﴾ (الأعراف: 143)
ترجمہ: ”تم مجھے ہر گز نہیں دیکھ سکو گے“۔
لہٰذا یہ بات تو نہیں ہے۔ یہ میں آپ کو نہیں کہہ رہا ہوں، ان کو کہہ رہا ہوں جو ایسا سمجھتے ہیں، آپ تو ایسا نہیں سمجھتے۔ لیکن سب کو چونکہ یہ بات سنا رہا ہوں کہ یہ معاملہ یہاں نہیں ہے۔ جب نہیں ہے تو ان کا سوچو بھی نہیں۔ باقی بندگی اصل بات ہے۔ ابھی میں نے تھوڑی دیر پہلے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی جو بات بتائی ہے کہ اصل بات کہا ہے۔ وہ یہی ہے کہ کوئی بھی رذیلہ سر اٹھائے تو اس کو دبائیں اور اس کام کو نہ ہونے دیں۔ اور جو کوئی فضیلت ہے، جو کوئی اچھی بات ہے وہ ہونی چاہئے، اس لئے ہمت کر کے اس کو کریں اور یہی ساری چیز ہے۔ میرا تو خیال ہے اس میں سب چیز آجاتی ہیں۔
سوال نمبر 24:
کیا حضوری مقصود نہیں ہے اگر اوامر ونواہی شریعت کے پورے کیے جائیں۔ کیونکہ اللہ کی عبادت جیسا کہ اس کو دیکھ رہے ہوں، تو کیا یہ کیفیت احسان حضوری کی نہیں ہے؟ حضوری محسوس ہوتی ہے یا نہیں؟
جواب:
کیفیت احسان یہ ہے کہ as if یعنی ایسا کہ جیسے تو دیکھ رہا ہے۔ دیکھ تو نہیں رہے ہو، لیکن اس کے اثرات ایسے ہوں جیسے دیکھنے سے ہوتے ہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے جنت و دوزخ دیکھی تو نہیں تھی۔ لیکن فرمایا کہ اگر جنت اور دوزخ ہم دیکھ لیں، ہمارے ایمان میں ذرہ بھر اضافہ نہیں ہوگا۔ یعنی پہلے سے بغیر دیکھے ہی وہ چیز حاصل تھی۔ لہٰذا ہم لوگوں کو آپ ﷺ کی بات پر، اللہ تعالیٰ کی اور قرآن کی بات پر یقین اتنا ہو کہ ہمیں کسی اور چیز کے دیکھنے کی ضرورت ہی نہ ہو۔ کیونکہ یہ اللہ کی کتاب ہے، تو اللہ کی کتاب میں ساری باتیں صحیح ہیں، ان میں کوئی بات نہیں ہوسکتی، مجھے کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ہے کہ میں کوئی اور چیز دیکھوں تو پھر اس کے بعد مجھے اس پر یقین آ جائے۔ نہیں! ایسا نہیں ہے۔ اسی طرح آپ ﷺ کی ہر بات صحیح ہے۔ اس کے بعد باقی جو غیر اختیاری چیزیں ہیں وہ ہم لوگوں کو کام کرتے رہنا چاہئے جب اللہ چاہے گا وہ چیزیں مل جائیں گی۔ مثلاً لیلۃ القدر میں اگر کسی کو اللہ پاک نے دکھانا ہے تو کیا وہ عبادت اس لئے کر رہا ہے کہ وہ چیز دیکھے؟ نہیں! بلکہ عبادت اس لئے کر رہا ہے کہ اللہ راضی ہوجائے، درمیان میں دکھا بھی دیتا ہے، جن کو دکھانا ہوتا ہے ان کو دکھاتا ہے اور جن کو نہ دکھائے وہ کوئی کم نہیں ہوتے، ان کے لئے حکمت یہی ہوتی ہے کہ ان کو نہ دکھایا جائے۔ کیونکہ بعض لوگ دیکھ کے غیر محفوظ ہوجاتے ہیں، اپنی بزرگی کا خیال آنے لگتا ہے، تو یوں غیر محفوظ ہوگئے۔ اور جو نہیں دیکھ رہے وہ محفوظ ہیں۔ جیسے حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ فرما رہے ہیں، (جن کو اتنا تیز کشف ہوتا تھا) فرمایا: جن کو کشف نہیں ہوتا ان کی معرفت زیادہ پائیدار ہوتی ہے۔ کیونکہ ان کی معرفت ہے عقیدہ کی بنیاد پر ہے، جو زیادہ مستند ہے۔ کشف تو مستند نہیں ہے، وہ زیادہ مستند ہے، لہٰذا ان کی جو معرفت ہے وہ زیادہ پائیدار ہے۔
سوال نمبر 25:
کیا حضوری مقصود ہے؟
جواب:
عبادت مقصود ہے، کیفیتِ احسان مطلوب ہے۔ اس کے لئے طریقہ یہ ہے کہ نفس کے رذائل دور کرو، کیونکہ رکاوٹ وہی ہیں۔ یہی نفس کے رذائل ہمارے دل کے اوپر پردے ڈال لیتے ہیں، جس کی وجہ سے ہمیں حقیقت نظر نہیں آتی۔ جب نفس کے رذائل دور ہوجائیں تو حقیقت ظاہر ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ یہ کیفیت حضوری ہے، جیسے فرمایا:
''اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ'' (صحیح بخاری، حدیث نمبر 50)
ترجمہ: ’’تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو‘‘۔
جب ہوجائے تو یہ کیفیتِ احسان ہے۔
سوال نمبر 26:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! حضرت جی اللہ پاک آپ سے آپ کی اور آپ کے جملہ متعلقین کی صحبت اور تندرستی اور بلندیٔ درجات کے لئے دعاگو ہوں۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں نفس پرستی میں بری طرح مبتلا ہو چکا ہوں حتیٰ کہ مجھے اپنے عیوب نظر آنا بند ہو چکے ہیں۔ کئی دفعہ عیبوں کے بارے میں جاننا چاہا، مگر اندر سے یہ آواز آئی کہ کون سے عیب؟ تیرے اندر تو کوئی عیب ہے ہی نہیں۔ اس کے باعث پریشانی بھی ہوتی ہے، لیکن نفس مجھے بہلا پھسلا کر مطمئن کر دیتا ہے اور میں دنیاوی کاموں میں لگا رہتا ہوں۔ جس دن روزہ رکھوں اس دن تو تہجد ادا کر لیتا ہوں، لیکن صرف تہجد ادا کرنے کے لئے مجھ سے اٹھا ہی نہیں جاتا۔ ہر روز عزم کر کے میں سو جاتا ہوں۔ اس کے علاوہ حبِ مال کا بھی شکار ہو کر مال کی دعائیں کرتا رہتا ہوں کہ دنیا کا ساز و سامان اکٹھا کر سکوں۔ برائے مہربانی اس بارے میں رہنمائی فرمائیں۔ اللہ پاک آپ کو اور آپ کے جملہ متعلقین کو دنیا اور آخرت میں بہترین اجر عطا فرمائے۔
جواب:
آپ فرماتے ہیں کہ نفسانی بیماریوں میں مبتلا ہو چکا ہوں۔ نفسانی بیماریوں کا علاج کیا ہے؟ وہ نفس کے تقاضوں کو دبانا ہے، نفس کے تقاضوں کو دبانے سے آہستہ آہستہ یہ تقاضے دب جاتے ہیں، پھر وہ اتنے زیادہ شدت سے نہیں ہوتے۔ میں آپ کو اس کی بہت آسان مثال دیتا ہوں، ایک شخص ہے بالکل نماز نہیں پڑھتا، کسی طریقہ سے بھی کہیں مگر وہ نماز نہیں پڑھتا۔ لوگ اس کو کہتے ہیں لیکن وہ کہتا ہے کہ مجھ سے نہیں پڑھی جاتی۔ جیسے بعض لوگ کہہ دیتے ہیں، مگر وہ کہتا ہے کہ مجھ سے نہیں پڑھی جاتی۔ اس کا کوئی جگری دوست آ جاتا ہے جس کی بات کا وہ انکار نہیں کر سکتا، اور وہ نمازی ہے۔ جب نماز کا وقت آیا تو وہ کہتا ہے کہ چلو نماز پڑھتے ہیں۔ وہ کہتا ہے مجھ سے نماز نہیں پڑھی جاتی، جیسے سب کو کہتا ہے اس کو بھی کہہ دیتا ہے۔ وہ تو اس سے بے تکلف ہے اور زبردستی بھی کر سکتا ہے، چنانچہ جب وہ کہتا ہے کہ نہیں پڑھی جاتی، تو وہ اسے کہتا ہے کہ اٹھو! کس طرح کہتے ہو کہ نہیں پڑھی جاتی، جاتے ہو یا نہیں؟ اب اس سے وہ مجبور ہے، انکار نہیں کر سکتا، لہٰذا اٹھ جاتا ہے، وضو کرتا ہے، نماز پڑھ لیتا ہے۔ اب ایک نماز پڑھ لی۔ دوسری نماز کا وقت آگیا، اب بھی وہ تقاضا موجود ہے۔ لیکن اب جب اس کو کہتا ہے تو اس میں اتنی شدت نہیں ہے، تو پھر اٹھ جاتا ہے اور نماز پڑھ لیتا ہے۔ اور تیسری دفعہ نماز پڑھنے سے اور شدت کم ہوجاتی ہے، چوتھی میں اور کم ہوجاتی ہے، حتیٰ کہ چالیس دن تک اگر مسلسل وہ نماز پڑھے تو پھر وہ نماز چھوڑ نہیں سکتا۔ اب مجھے بتاؤ کیا چیز تبدیل ہوئی ہے؟ کیا نماز تبدیل ہوئی ہے یا وہ تبدیل ہوا ہے یا زمانہ تبدیل ہوا ہے؟ کون سی چیز تبدیل ہوئی ہے؟ کوئی بھی چیز تبدیل نہیں ہوئی ہے، ساری چیزیں اپنی جگہ پر ہیں، صرف یہ ہوا کہ اس کا جو مجاہدہ تھا یعنی اس عمل کی وجہ سے جو وہ مجاہدہ بار بار کر رہا تھا، اس سے نہ پڑھنے کا اس کا تقاضا دب گیا۔ بس یہی تصوف ہے اور یہی سلوک ہے۔ اس لئے ہم کہتے ہیں کہ ہمت کر کے کرو، جب ہمت کر کے کرو گے تو آپ کے لئے مزید آسانی آئے گی۔
’’وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا‘‘ پہلے ہے اور ’’لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا‘‘ اس کے بعد ہے۔ لیکن آپ کہتے ہیں کہ پہلے ہدایت دے دو پھر ہم کام کریں گے۔ جب کہ اللہ پاک نے تو ایسے ہی فرمایا ہے، لہٰذا اس کو تو ہم تبدیل نہیں کرسکتے۔
سوال نمبر 27:
ایک سالک کا سوال آیا تھا جو کہ حضرت نے مجلس میں نہیں سُنایا، بلکہ اُس کا صرف جواب حضرت نے دیا ہے۔
جواب:
دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘، دو سو مرتبہ ’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، دو سو مرتبہ ’’حَقْ‘‘ اور سو مرتبہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کریں۔
سوال نمبر 28:
ایک سالک کا سوال آیا تھا جو کہ حضرت نے مجلس میں نہیں سُنایا، بلکہ اُس کا صرف جواب حضرت نے دیا ہے۔
جواب:
ٹھیک کرتے ہیں، تھوڑی دیر انتظار کر کے شروع کر لیں۔
سوال نمبر 29:
ایک سالک کا سوال آیا تھا جو کہ حضرت نے مجلس میں نہیں سُنایا، بلکہ اُس کا صرف جواب حضرت نے دیا ہے۔
جواب:
ثوابی ذکر وہ تھوڑا تھوڑا کر لیں، یعنی تیسرا کلمہ صبح، دوپہر کو درود شریف اور پھر مغرب کے بعد استغفار۔
یہ Special case ہے، سب لوگ اس طرح نہ کریں، ایسا نہ ہو کہ آپ لوگ بھی اس طرح شروع کر لیں۔ جن کا Special case ہو ان کو میں بتا دیتا ہوں کہ یہ صرف آپ کے لئے ہے۔
سوال نمبر 30:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
نمبر 1:
تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبہ حقیقت کعبہ پندرہ منٹ، اس کے نماز میں اپنے اختیار سے الفاظ میں تدبر کرنا، مراقبہ کرتے وقت میرا پورا جسم غیر اختیاری سجدہ میں گرتا چلا جاتا ہے، یہ محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے مجھ سے سجدہ کروایا جا رہا ہو، نماز کے الفاظ میں تدبر کم ہی نصیب ہوتا ہے، اکثر اوقات توجہ نہیں ہوتی نماز کی طرف۔ غصہ تھوڑا کم ہوا، برداشت بڑھ گئی ہے۔
جواب:
اَلْحَمْدُ ِللہ! فی الحال اس کو جاری رکھیں۔
نمبر 2:
تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبه معیت اور دعائیہ پانچ منٹ اور مراقبہ شکر دس منٹ۔ دعا کثرت سے ہوتی ہے، جب کوئی احسان کرے تو اس کو بھی زبان سے اور کبھی دل دل میں دعائیں دیتی ہوں، اس کے علاوہ ہر وقت یہ محسوس ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے ساتھ ہے اور شکر کے بارے میں محسوس ہوتا ہے کہ انسان کے تمام اعضاء پر شکر لازم ہے، اور اللہ کا شکر یہ ہے کہ ان سے گناہ نہ کیا جائے اور ہر وقت اللہ تعالیٰ کی یاد میں مشغول رہے۔ چاشت کی نماز بھی اس کے لئے ہے۔
جواب:
مَاشَاءَ اللہ۔
نمبر 3:
تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبہ حقیقت قرآن پندرہ منٹ، قرآن میں تدبر نصیب ہوا ہے، اللہ تعالیٰ کے اوامر ونواهی، قرآن کی تدبر کے ساتھ تلاوت کرنے سے معلوم ہوتے ہیں۔ تلاوتِ قرآن کی لذت نصیب ہوئی ہے، اَلْحَمْدُ للہ۔ اس کے علاوہ اس بات کا ادراک نصیب ہوا ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ ہے۔ ہم جتنی تلاوت کرتے ہیں اتنا اللہ تعالیٰ کا قرب نصیب ہوتا ہے۔
جواب:
مَاشَاءَ اللہ! اس کو جاری رکھیں۔
نمبر 4:
تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبہ فنا کا مفہوم پندرہ منٹ۔ محسوس نہیں ہوتا۔
جواب:
اس کو جاری رکھیں اور ذرا تصور کے ساتھ کرلیا کریں۔
سوال نمبر 31:
حسد کی کیا definition ہے؟
جواب:
حسد کی definition یہ ہے کہ اس میں محسود سے وہ نعمت دور ہونے کی خواہش ہو کہ اس کو کوئی چیز حاصل نہ ہو اور مجھے حاصل ہو۔ لیکن اگر آپ ان کے لئے بھی مانگیں اور اپنے لئے بھی مانگیں تو یہ رشک ہے، یہ بری چیز نہیں ہے، اس کو غِبطہ کہتے ہیں۔
سوال نمبر 32:
السلام علیکم! حضرت والا آپ کا سایہ اللہ ہمارے سر پہ قائم رکھے۔ مندرجہ ذیل اذکار کی تعداد دو، چار، چھ اور چار ہزار ہے۔ حضرت کی دعاؤں اور توجهات کی برکت سے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ایک مسجد میں درسِ قرآن ساتواں سپارہ چل رہا ہے، دوسری مسجد میں عشاء کے بعد آخری پارہ عم جاری ہے۔ مدرسۃ البنات میں پڑھائی بھی ان شاء اللہ شروع ہوگی اسی بدھ والے دن سے۔ دعا کی درخواست ہے کہ اللہ ہمیں ہمت دے اور اخلاص بھی دے، آمین۔ دکان بھی اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ چلاتا ہوں، کاروبار بھی اچھا چلتا ہے۔ اللہ اس میں بھی آسانی فرما دے آمین۔
جواب:
ماشاء اللہ! آپ کی ہمت ہوگی اور اللہ کی مدد ہوگی، تو ان شاء اللہ سارے سلسلے چلتے رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ اور بھی برکت عطا فرمائے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ