سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 675

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر 1:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! اللہ پاک سے آپ کی اور آپ کے اہل و عیال کے لئے دعاگو ہوں۔ کچھ عرصہ پہلے ایک صاحب نے تلقین کی کہ اپنے شیخ کے لئے دعا کیا کرو۔ جو ان کے لئے مانگو گے، تمہیں بھی ویسا ہی ملے گا یا جو کچھ خیر اور بھلائی اپنے لئے چاہتے ہو، وہی شیخ کے لئے بھی مانگو، اللہ پاک تمہاری حاجت بھی پوری کریں گے۔ کچھ عرصہ تو میں دعائیں کرتا رہا ہوں، لیکن اب یہ خیال آتا ہے کہ یہ اخلاص والی اور بے غرض دعائیں نہیں ہیں، بلکہ اس میں تو خود غرضی شامل ہے یعنی اپنی حاجت پوری کرنے کے لئے حضرت شیخ کے لئے دعا کرنا کہاں کا اخلاص ہے۔ اس بارے میں اپنی نیت کیسے ٹھیک کی جائے اور بے غرض ہو کر اخلاص کے ساتھ شیخ کے لئے کیسے دعا کی جائے؟ حضرت جی! میری طیبعت میں غفلت اور لاپرواہی بہت ہے، اس کے باعث دین اور دنیا کے کاموں میں کافی نقصان اٹھا چکا ہوں، لیکن عادت نہیں بدلتی، بالخصوص اپنے بیوی بچوں کی دینی اصلاح کی طرف بالکل توجہ نہیں ہے، خود تو نماز پڑھنے چلا جاتا ہوں، لیکن بیٹے کو ساتھ نہیں لے کر جاتا اور نہ ہی بیوی اور بیٹی کو نماز کی تلقین کرتا ہوں، بس سرسری انداز میں کبھی کہہ دیتا ہوں۔ برائے مہربانی اس بارے میں بھی رہنمائی فرمائیں۔ اللہ پاک آپ کو اور آپ کے جملہ متعلقین کو دنیا اور آخرت میں بہترین اجر عطا فرمائے، آسانیاں پیدا فرمائے۔

جواب:

ماشاء اللہ! اچھی سوچ ہے۔ اصل میں اپنی اصلاح کی سوچ تو بہت اچھی سوچ ہوتی ہے۔ کوئی بھی شخص اپنے آپ کو کامل نہیں کہہ سکتا، لیکن جو لوگ اپنی اصلاح چاہتے ہیں، ان کے لئے اللہ پاک راستے کھولتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا﴾ (العنکبوت: 69)

ترجمہ1: ’’اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی، ہم ان کو ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچا دیں گے‘‘۔

یعنی جو لوگ اس کے لئے سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں، اس کے لئے محنت کرتے ہیں، تو اللہ پاک پھر راستے کھول لیتے ہیں۔ باقی جہاں تک شیخ کے لئے دعا کی بات ہے، تو شیخ کے لئے دعا کرنی چاہئے، ویسے بھی شیخ دعا کا محتاج ہے۔ البتہ اپنے لئے بھی مانگو اور اپنے شیخ کے لئے بھی مانگو، پھر آپ کو یہ مسئلہ نہیں ہوگا کہ میں شیخ کے لئے اس لئے مانگ رہا ہوں کہ میں اپنے لئے اس کو بنا لوں۔ لہٰذا جب آپ خود اپنے طور پر مانگ ہی رہے ہوں گے اور شیخ کے لئے جو مانگنا ہوگا، وہ صرف شیخ کے لئے ہوگا۔ پھر اس کا جو اثر اللہ دیں گے، یعنی اللہ تعالیٰ اس کے لئے جو بھی فیصلہ چاہیں گے وہ فرما دیں گے۔ اور یہ بات بالکل صحیح ہے میں نے جب اپنے شیخ کے بارے میں کلام لکھا تھا، اللہ کا شکر ہے، اس کے بارے میں پھر کسی ساتھی کو خواب آیا کہ یہ وہ وفاداری ہے جو اللہ تعالیٰ کئی گنا بڑھا کر واپس لوٹا دیتا ہے۔ لہٰذا کم از کم مجھے تو یہ بتایا گیا ہے کہ اپنے شیخ کے لئے اگر کوئی مخلص ہو، تو یقیناً اس کا فائدہ بے انتہا ہوتا ہے، کیونکہ شیخ آئینہ ہوتا ہے، اور آئینے میں reflection ہوتی ہے یعنی جو چیز اس کی طرف جاتی ہے، تو وہ واپس اسی طرح آتی ہے۔ لہٰذا آپ واقعی اپنے شیخ کے لئے دعا کر لیا کریں، یہ بہت مفید ہے، لیکن اپنے لئے بھی دعا کر لیا کریں، اس سے مستغنی نہ ہوں۔ اور جتنی عاجزی ہوگی، اتنا ہی زیادہ فائدہ ہوگا ان شاء اللہ۔ دوسری بات طبیعت میں غفلت اور لاپرواہی ہونا، یہ دونوں چیزیں اختیاری ہیں اور اختیاری کا علاج اختیاری ہوتا ہے، لہٰذا غفلت چھوڑ دیں۔ غفلت کو چھوڑنے کا جو ذریعہ ہے، وہ ذکر ہے اور فکر ہے۔ ذکر تو آپ کر ہی رہے ہیں، فکر بھی شروع کر لیں کہ میں ٹھیک جا رہا ہوں یا ٹھیک نہیں جا رہا۔ اگر ٹھیک نہیں جا رہا ہوں، تو کیسے جانا چاہئے، کس طرح جانا چاہئے؟ اس کے لئے ہمت کرنی چاہئے۔ اور لاپرواہی بھی غیر اختیاری نہیں ہے، یہ بھی اختیاری چیز ہے۔ لہٰذا انسان کو مستقبل کے لئے سوچنا چاہئے، اپنے لئے بھی، اپنے متعلقین کے لئے بھی۔ اس لئے اپنے بیٹے کو بھی ساتھ لے جایا کریں یعنی اگر اس کی عمر ہے، وہ سمجھدار ہے اور مسجد میں اس کے لئے کوئی بچوں والا مسئلہ نہیں بنتا، تو پھر ٹھیک ہے، لے جایا کریں۔ مجھے نہیں پتا کہ اس وقت آپ کے بیٹے کی عمر کتنی ہے، لیکن اگر وہ سمجھدار بچہ ہے، تو پھر اس کو اپنے ساتھ لے جایا کریں۔ اور دوسری طرف بیوی کو بھی بتایا کریں اور بیٹی کو بھی بتایا کریں، بلکہ اگر آپ کا راضی ہونا اور ناراض ہونا ان چیزوں پر ہوگیا، تو خود ہی ان کو اندازہ ہوجائے گا۔ مثال کے طور پر ایک آدمی کھانے میں نمک کم یا زیادہ ہونے پر تو غصہ کرتا ہے، یا تو اگر ایک انسان کے اندر غصہ ہی نہ ہو، تو اس کی بات الگ ہے، کیونکہ بعض لوگ ٹھنڈے ہوتے ہیں، ان میں غصہ ہوتا ہی نہیں، نہ اِس پر غصہ کرتے ہیں، نہ اُس پر غصہ کرتے ہیں، یہ بھی ٹھیک نہیں ہے، بلکہ غصہ ہونا چاہئے۔ لیکن اگر دنیا کی چیزوں پر غصہ ہے، اور دین کی باتوں پر نہیں ہے، تو پھر یہ بات ٹھیک نہیں ہے، یہ غفلت والی بات ہے۔ لہٰذا اس پر بھی ناراض ہونا چاہئے اور اس کے لئے طریقے بھی ڈھونڈنے چاہئیں۔ یعنی وہ خود سمجھ لیں کہ آپ کی خوشی اسی میں ہے، اس کے لحاظ سے پھر ان کو سوچنا بھی ہوگا اور پھر آپ کے کہنے کا اثر بھی ہوگا۔ اور سرسری طور پر کہنے سے کام نہیں بنتا، بلکہ باقاعدہ طریقے سے کہنا اور تسلسل کے ساتھ کہنا اور motivate کرنا، یہ تمام باتیں اس میں شامل ہیں، جیسے آپ دنیا کے لئے کرتے ہیں، دنیا کی چیزوں کے لئے جیسے کرتے ہیں، تو یہ سارے کام اپنے دین کے لئے بھی استعمال کرنے چاہئیں۔ اللہ پاک توفیق عطا فرمائے۔

سوال نمبر 2:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت! میں ٹیکسلا سے فلاں بات کر رہا ہوں۔ حضرت جی! عرض یہ کرنا ہے کہ فلاں صاحب جو کہ مانسہرہ میں رہتے ہیں، ان کا ذکر دو سو، دو سو، دو سو اور سو ہے۔ ایک مہینہ ذکر کو مکمل ہوا ہے، اس کے بعد آپ سے مزید رہنمائی کی درخواست ہے۔

جواب:

ابھی آپ ان کو دو سو، تین سو، تین سو اور سو کرا دیں۔

سوال نمبر 3:

السلام علیکم۔ حضرت صاحب! میں فلاں ہوں۔ میرے معمولات یہ ہیں: تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار سو سو دفعہ اور مراقبہ دس منٹ ہے۔ حضرت صاحب! جو عمل کوئی کرتا ہے، اس کو کسی اور کے آگے (اس شخص کی غیر موجودگی میں) بیان کرنا غیبت ہے، لیکن حضرت صاحب! جب مجھ سے یہ عمل ہوتا ہے، تو اس کے بعد مجھے خود سے شرمندگی ہوتی ہے کہ میں نے ایسا کیوں کیا؟ پھر توبہ بھی کرتی ہوں، اللہ پاک مجھے معاف کردے، لیکن پھر سے غیبت ہوجائے تو میں کیا کروں؟

جواب:

اصل میں اگر کسی کام کو لوگ اچھا نہ سمجھتے ہوں اور وہ کوئی کر رہا ہو اور پھر اس کی غیر موجودگی میں کسی اور سے وہ کام بیان کیا جائے تو پھر وہ غیبت بن جاتی ہے۔ لیکن اگر آپ کسی کا اچھا کام بتا دیں، جیسے آپ کہہ دیں کہ وہ نماز پڑھتا ہے، تو یہ غیبت نہیں ہوگی، بلکہ یہ تو اس کی تعریف ہوگئی، اور پیٹھ پیچھے تعریف تو بہت اچھی بات ہوتی ہے۔ البتہ کسی کے پیٹھ پیچھے برائی کرنا یہ غیبت ہے، یہ نہیں ہونی چاہئے۔ لہٰذا آپ جو فرماتی ہیں کہ مجھ سے یہ عمل ہوجاتا ہے۔ یہ ہو نہیں جاتا، بلکہ آپ کر لیتی ہیں اور آپ اس کے کرنے میں محسوس نہیں کرتیں کہ میں کوئی گناہ کر رہی ہوں۔ لہٰذا اس کو یاد کرنا کہ یہ گناہ ہے اور میں نے یہ نہیں کرنا، اس کے لئے کوئی نشانی ہاتھ پر باندھ لیں، کوئی تار باندھ لیں یا کوئی اور نشانی کہ اس کو دیکھ کر آپ کو فوراً یاد آجائے کہ میں نے یہ کام نہیں کرنا۔ کیونکہ بعض دفعہ لوگوں کی یاداشت فوری طور پر نہیں ہوتی، تو پھر اس طرح ان کو طریقے بتائے جاتے ہیں کہ پھر اس طرح کر لو یا کسی اور چیز کے ساتھ اس کو باندھ لو، جب وہ چیز سامنے ہوگی تو آپ کو یاد ہوگا کہ مجھے یہ کام نہیں کرنا چاہئے۔ اس لئے آپ یہ کر لیں۔ بلکہ میں کہتا ہوں کہ اپنے ملنے جلنے والوں سے پہلے سے یہ کہہ دیں کہ کبھی کبھی مجھ سے غیبت ہوجاتی ہے، لہٰذا اگر میں کوئی غیبت شروع کر لوں، تو مجھے فوراً ٹوک دیا کریں، اور بتا دیا کریں، یہ آپ کا احسان ہوگا۔ اس میں پھر یہ ہوتا ہے کہ اس کو بھی فائدہ ہوجاتا ہے اور آپ کو بھی فائدہ ہوجاتا ہے۔ اور یہ عمل یاداشت کے لئے ہے، ورنہ حکم تو پورا ہے یعنی حکم وہی ہے، حکم میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

سوال نمبر 4:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ میں یونیورسٹی کے بارے میں رہنمائی چاہتی ہوں۔ میں خود تو باہر نکل کر دنیوی تعلیم حاصل کرنے کی بہت حامی نہیں ہوں، مگر والدین کی وجہ سے اور اس وجہ سے کہ خاندان میں ڈگری کا ہونا ضروری سمجھا جاتا ہے، اس لئے مجھے تعلیم حاصل کرنا پڑ رہی ہے۔ اس سلسلہ میں FAST یونیورسٹی میں داخلہ لے لوں؟ کیونکہ اس یونیورسٹی میں میری بہن پڑھ چکی ہے، اگرچہ مخلوط ہے، مگر وہ نقاب کے ساتھ بآسانی پڑھی ہے اور والدین کو بھی یہاں کے ماحول وغیرہ سے تسلی ہے، LUMS والا ماحول نہیں ہے اَلْحَمْدُ للہ! یہ میرے گھر سے بھی قریب ہے یعنی فیصل ٹاؤن میں ہے۔ استخارہ کے ساتھ ساتھ آپ کی رہنمائی چاہئے کہ کیا میرا فیصلہ صحیح ہے؟ آپ سے دعا کی درخواست ہے۔ اللہ تعالیٰ دوام عطا فرمائیں اور اصلاح فرمائیں۔

جواب:

آپ کی بات پر میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں، کیونکہ آپ مجھ سے مشورہ مانگ رہی ہیں، اور مشورہ دینے والا امانت دار ہوتا ہے۔ چنانچہ حدیث پاک میں آتا ہے:

’’اَلْمُسْتَشَارُ مُؤْتَمَنٌ‘‘ (سنن ترمذی:2823)

ترجمہ: ’’جس سے مشورہ کیا جائے وہ امانت دار ہونا چاہئے‘‘۔

لہٰذا آپ کو اس حساب سے مشورہ دینا چاہئے کہ آپ کے لئے کون سا مفید ہے، اپنے لحاظ سے نہیں دینا چاہئے۔ ایک بچی تھی جو مجھ سے بیعت تھی، سادات میں سے تھی، اس نے مجھے ایک دن فون کیا کہ شاہ صاحب! اسلامیہ یونیورسٹی میں مجھے Afternoon classes میں admission مل رہا ہے، کیا میں admission لے لوں؟ میں نے کہا بیٹا! میرا شرح صدر نہیں ہے، اس لئے نہ لو۔ وہ رو پڑی کہ یہ تو بڑی مشکل سے مل رہا ہے۔ میں نے کہا فیصلہ آپ کا ہے، آپ جو بھی کریں، لیکن مجھ سے آپ نے پوچھا ہے اور جب آپ نے مجھ سے پوچھا ہے، تو میں نے وہی بتانا ہے جو آپ کے لئے مفید ہو، کیونکہ میں آپ کو آپ کے لئے نقصان دہ چیز کا نہیں بتا سکتا۔ اگر خود اپنی مرضی کرنا چاہتی ہیں، تو پھر اس میں ذمہ دار میں نہیں ہوں، وہ پھر آپ کا اپنا کام ہے۔ خیر، سادات میں سے تھی، بعض لوگوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا کرم ہوتا ہے۔ اس نے چند دنوں میں خواب دیکھا کہ کوئی اس کو بتا رہا ہے کہ خبردار! شام کے وقت اپنے گھر سے باہر نہ نکلنا، کتے، بھیڑیے باہر پھر رہے ہوتے ہیں، نقصان پہنچائیں گے۔ اس نے مجھے فون کیا کہ اس طرح میں نے خواب دیکھا ہے۔ میں نے کہا سن لو، میں نے آپ کو کیا بتایا تھا؟ یہ وہی چیز آپ کو بتائی جارہی ہے۔ لہٰذا باہر تو مسئلے ہیں اور اس میں afternoon والی بات ہے، اس وجہ سے آپ کو نقصان ہوگا۔ خیر، روتے روتے اس نے میری بات مان لی، اگرچہ تکلیف تو اس کو بہت ہوئی۔ لیکن پھر اللہ کا شکر ہے کہ چند ہی دنوں میں اس کی شادی ہوگئی اور وہ اپنے گھر میں خوش ہے۔ تو بس ٹھیک ہے، اس کا کام ہوگیا۔ میرا مقصد یہ ہے کہ یہ چیزیں ہوتی ہیں، یہ پڑھنا لکھنا Subject to condition ہوتا ہے، جن کو ضرورت ہو وہ یہ کریں۔ ضرورت سے مراد یہ ہے کہ ان کا اس کے بغیر گزارا نہ ہوتا ہو۔ اگر آپ ایسی مجبور ہیں کہ اس کے بغیر آپ کا گزارا نہیں ہے، کیونکہ بعض لوگ ہوتے ہیں کہ ان کا کوئی نہیں ہوتا، تو پھر شریعت بھی ان کو اجازت دیتی ہے کہ احتیاط کے ساتھ آپ باہر جاسکتی ہیں اور یہ احتیاط کرنی پڑیں گی۔ پھر اللہ تعالیٰ بھی ان کی مدد فرماتے ہیں، کیونکہ یہ مجبوری والی بات ہوتی ہے۔ لیکن اگر مجبوری نہ ہو، انسان خود ہی اپنی مرضی سے صرف risk لے، تو پھر وہ مدد بھی نہیں ہوتی، بلکہ ان کو حالات کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ چونکہ میں خود پڑھا چکا ہوں، ایسے institute میں پڑھا چکا ہوں، جہاں پر coeducation ہے، مجھے معلوم ہے کہ ایسی چیزوں میں کیا ہوتا ہے، یہاں پردے کا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، بلکہ پردے کے اندر بھی بے پردگی ہوتی ہے، اگر ایسے ماحول میں کوئی چلا جائے۔ کیونکہ ماحول ماحول کی بات ہوتی ہے، ورنہ میں یہ نہیں کہتا کہ آپ کے اوپر مجھے بدگمانی ہے، میں تو کبھی بھی کسی کے اوپر بدگمانی نہیں کرسکتا اور نہ ہی شریعت بدگمانی کی اجازت دیتی ہے، لیکن مشورہ وہی دینا چاہئے جو مشورہ مانگنے والے کے لئے مفید ہو۔ بہرحال آپ مجھے تفصیل بتا دیں کہ آپ کو اس کے پڑھنے میں کیا مجبوری ہے؟ صرف یہ بات ہے کہ ہمارے خاندان میں یہ بات ہے کہ یہ پڑھنا چاہئے، اتنی ڈگری ہونی چاہئے؟ بھئی! یہ تو مردوں کے لئے ہے، عورتوں کے لئے تو نہیں ہے، مردوں کو مجبوری ہوتی ہے، انہوں نے کمانا ہوتا ہے، تو ان کے لئے مجبوری ہوتی ہے کہ اگر وہ کہیں انٹرویو دے گا، تو اس کے پاس ڈگری ہونی چاہئے، qualification ہونی چاہئے، ان کا مستقبل ان چیزوں پہ منحصر ہے۔ عورتوں کا تو ایسا مسئلہ نہیں ہے۔ میں آپ کو خود بتاتا ہوں کہ میں نے میڈیکل کالجز میں lectures دیئے ہیں، ایک میڈیکل کالج میں lecture دے رہا تھا، تو تقریباً ستر فیصد لڑکیاں تھیں اور تیس فیصد لڑکے تھے، لیکن آپ ہسپتالوں میں جائیں اور بتائیں کتنی فیصد عورتیں ہوتی ہیں؟ لیڈی ڈاکٹرز ہوتی ہیں؟ کم ہوتی ہیں یا زیادہ ہوتی ہیں؟ بہت کم ہوتی ہیں، میرے خیال میں بمشکل تیس فیصد بھی نہیں ہوں گی۔ تو یہ معاملہ الٹ ہے، جتنی عورتیں پڑھتی ہیں، اتنا وہ استعمال نہیں کرتیں، زیادہ ہوجاتی ہیں اور گورنمنٹ کی seats بھی ضائع کر لیتی ہیں، جو مرد حاصل کرسکتے تھے، وہ عورتیں لے لیتی ہیں، اور پھر استعمال بھی نہیں ہوتیں۔ تو یہ تمام چیزوں کا ضیاع ہوتا ہے۔ چنانچہ ایسی صورت میں مشورہ کیا دیا جائے! بہرحال یہ مسائل تو ہیں۔ لہٰذا میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ اگر مجبوری نہ ہو، پھر تو اپنے آپ کو بچائیں، اگر مجبوری ہو، تو پھر مجبوری کا نام شکریہ ہے، پھر اس کے بارے میں سوچا بھی جاسکتا ہے، اس کے بارے میں بات بھی کی جاسکتی ہے۔ لیکن اگر مجبوری نہیں ہے، تو پھر اپنے گھر پر ہی جو پڑھ سکتی ہیں، پڑھ لیں۔ یہ گھر پر بھی ہوتا ہے، education کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ گھر پر نہ ہو، بلکہ بڑی اچھی طرح education ہوتی ہے، بہت سارے subjects ایسے ہیں، جن کو گھر پر ہی انسان پڑھ سکتا ہے اور امتحان دے سکتا ہے اور ان کو وہ ڈگری بھی مل جاتی ہے۔ مثلاً علامہ اقبال یونیورسٹی ہے، اس طرح دوسری بھی جگہوں پر ہیں، ان سے بھی ہوسکتا ہے، ضروری نہیں ہے کہ انسان خواہ مخواہ اس کے لئے جائے۔ بس سائنس کے subjects کے لئے جانا پڑتا ہے، یہ مجبوری ہے کہ اس میں لیبارٹری ہوتی ہے، لیکن جو arts subjects ہیں، انگلش ہے یا اردو ہے یا Political Science ہے یا کوئی اور ہے، ان subjects کے لئے کسی یونیورسٹی جانے کی ضرورت نہیں ہوتی، اگر کوئی واقعی گھر پر پڑھنا چاہے، تو آج کل گھر پر پڑھنے کے اتنے طریقۂ کار موجود ہیں کہ باہر جانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اور میں آپ کو بتاؤں کہ یونیورسٹی میں کیا ہوتا ہے، ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ وہ کتنا پڑھتے ہیں، پھر بھی کام گھر پر ہی کرنا پڑتا ہے، لہٰذا یہ صرف اور صرف ایک خواہش ہی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔

سوال نمبر 5:

السلام علیکم۔ حضرت جی! اس مہینے کی کارگزاری پیشِ خدمت ہے۔ نفی اثبات سو مرتبہ، ’’اِلَّا ھُوْ‘‘ اسم ضمیر سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ سو مرتبہ، ’’حَقْ اَللّٰہ‘‘ سو مرتبہ، مراقبۂ دعائیہ پندرہ منٹ اور مراقبۂ فنائیت پندرہ منٹ، خاموش اسم ذات ایک منٹ، مراقبہ آیت الکرسی پانچ منٹ اور اسم ذات اڑتالیس ہزار مرتبہ بلاناغہ جاری ہے۔

جواب:

اَلْحَمْدُ للہ، سبحان اللہ! بہت اچھی بات ہے، اللہ جل شانہٗ آپ کو مزید ترقیات نصیب فرما دے۔ آیت الکرسی کا تو مراقبہ آپ نے کر لیا ہے، اب یہ کر لیں کہ ’’لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ‘‘ کا مراقبہ اسی طریقہ سے کر لیں یعنی اس کا جو مفہوم ہے، وہ ذہن میں بٹھا کر تصور کر لیں کہ اس کا جو فیض ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کی طرف اور آپ ﷺ کی طرف سے شیخ کی طرف اور شیخ کی طرف سے آپ کی طرف آرہا ہے، یہ آپ پانچ منٹ کر لیں۔

سوال نمبر 6:

السلام علیکم۔ حضرت جی! میں فلاں ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو عافیت میں رکھے۔ حضرت! پہلے مجھے لگتا تھا کہ مجھے آپ ﷺ سے سب سے زیادہ محبت ہوتی تھی، لیکن اب اللہ پاک سے زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ پہلے اعمال بہت کرتی تھی، اب کم بھی ہوں، تو زیادہ لگتے ہیں۔ سنت کی پیروی کی کوشش میں تو لگے ہوئے ہیں، حالات سخت ہونے سے شکر بڑھ رہا ہے، اَلْحَمْدُ للہ سکون ہے۔ مراقبہ بھی لگتا ہے کہ کچھ نیا نہیں ہے، ہر وقت اللہ پاک کا دھیان تو رہتا ہے، لیکن مراقبہ میں بہت bore ہوتی ہوں۔ اعمال میں بھی بار سا ہوتا ہے، پتا نہیں کیوں؟ جیسے کمرے میں پنکھا چلتا ہے، تو مجھے پتا ہوتا ہے کہ چل رہا ہے، بار بار یاد کرنے کی ضرورت نہیں رہتی، ایسے ہی مراقبہ میں ہر وقت محسوس تو ہوتا ہے، پنکھے کی طرح اللہ کا دھیان بھی رہتا ہے۔ یہ کیفیات پتا نہیں محسوس ہو رہی ہیں، پریشان نہیں ہوں، لیکن آپ کو بتانا چاہ رہی تھی۔ رہنمائی کی درخواست ہے۔

جواب:

سبحان اللہ! اصل میں آپ کو تھوڑی تھوڑی confusion ہے، باقی چیزیں ٹھیک ہیں۔ اصل میں ہم لوگوں کو وہ کرنے چاہئیں جو کرنے کے ہیں۔ اور جو رکنے کے ہیں یعنی جس سے روکا جاتا ہے، روکنے کے لئے کہا گیا ہے، ان سے رکنا چاہئے۔ لہٰذا جن کو محسوس کرنے کے لئے بتایا گیا ہے، وہ محسوس کرنے چاہئیں اور جو دوسروں کو بتانے کے لئے کہا گیا ہے، وہ بتانے چاہئیں یعنی جس چیز کا جس درجہ میں حکم ہے، اس پر عمل کرنا چاہئے۔ باقی ایک بات یہ ہے کہ انسان ایک چیز علاج کے لئے کرتا ہے، تو اس کے اپنے اصول ہیں، لیکن ایک عام انسان ثواب کے لئے کرتا ہے، تو اس کے اپنے اصول ہیں، دونوں کو mix نہیں کرنا چاہئے۔ تو مراقبہ ایک علاج ہے، لیکن محسوسات علاج نہیں ہیں، بلکہ یہ اثرات ہیں۔ جیسے حدیث پاک میں آتا ہے:

’’اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ، فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ‘‘ (مسلم: 97)

ترجمہ: ’’اللہ کی عبادت ایسے کرو کہ گویا کہ تو اسے دیکھ رہا ہے، پس اگر تو اسے نہیں دیکھ رہا تو وہ تجھے دیکھ رہا ہے‘‘۔

لہٰذا یہ محسوسات ہیں۔ اس وجہ سے اس کو مراقبہ کے طور پر نہیں کرسکتے۔ بلکہ ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ باقی تمام مراقبات اور تمام محنتوں کا جو نچوڑ ہے، اور جو ہمیں result ملتا ہے، وہ یہ ملتا ہے کہ محسوس ہونے لگے کہ میں اللہ کے سامنے کھڑا ہوں۔ مثال کے طور پر آپ نماز میں کھڑے ہوکر مراقبہ شروع کر لیں اور سمجھیں کہ میں اللہ کے سامنے کھڑا ہوں، تو یہ کیفیت احسان نہیں ہے، یہ تو آپ کے لئے مراقبہ ہے، لیکن خود بخود آپ کو محسوس ہونے لگے کہ میں اللہ کے سامنے کھڑا ہوں، یہ پھر اثرات ہیں، یہ محسوسات ہیں اور یہ ہونا چاہئے، اس کے لئے پھر بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ ما شاء اللہ! اگر آپ کو جو محسوس ہو رہا ہے، تو بس یہ اثرات ہیں اور جو آپ یہ محسوس کرنے کے لئے کر رہے ہیں، یہ مراقبات ہیں۔ میرے خیالات اب کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ باقی مراقبہ میں جو بوریت ہے، تو علاج میں بوریت ہوسکتی ہے، لیکن اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، آپ بوریت کی پروا نہیں کریں گے، مگر اس کو کریں گے۔ ماشاء اللہ آپ خود ڈاکٹر ہیں، کیا خیال ہے دوائی ہمیشہ میٹھی ہوتی ہے؟ میٹھی ہو یا نہ ہو، لیکن لینی پڑتی ہے۔ بلکہ injection جو ہوتے ہیں اسی طرح یہ جو vaccination کرتے ہیں، جس کے بعد بخار بھی ہوجاتا ہے اور ڈاکٹر خود بتاتے ہیں کہ اس سے بخار ہوگا، لیکن paracetamol دے دیں، تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ لہٰذا علاج میں اگر بوریت بھی ہو، تو بھی پروا نہیں کرنی چاہئے، کیونکہ علاج ہے، اور علاج میں ایسی چیزیں ہوتی ہیں۔ البتہ اثرات میں یہ نہیں ہونی چاہئیں۔ اور اچھے اثرات کو حاصل کرنے کے لئے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ میرے خیال میں اب شاید آپ کو confusion نہیں ہوگی۔

سوال نمبر 7:

AOA. I asked whom to discuss my problems with? I liked his suggestions. He is also in your community. Through him, I came to know about you sir. How did you do your child's wedding in the اعتکاف routine in simplicity you follow. My request to give me the first step I should follow which is not difficult for me. I am already offering four must and five occasionally فجر left mostly with regret.

جواب:

پہلی بات یہ ہے کہ AOA. No. It's not good although you have said السلام علیکم But it is not السلام علیکم It is AOA

چنانچہ یہ جو آپ نے AOA لکھا ہے، آئندہ کے لئے اس سے پرہیز کیا کریں، یہ ٹھیک نہیں ہے یعنی ایک مسنون عمل سے آپ تنگ ہو رہی ہیں۔ میں تو اکثر جب صلی اللہ علیہ وسلم کا لفظ یعنی محمد ﷺ کا لفظ خط میں آتا ہے، تو خوش ہوتا ہوں کہ اَلْحَمْدُ للہ! اللہ درود شریف لکھنے کی توفیق دے رہے ہیں۔ اب اس کو میں ص پر روک دوں، تو یہ بڑی عجیب بات ہے۔ کہتے ہیں پہلی دفعہ جس نے ص لکھا تھا، اس کے ہاتھ شل ہوگئے تھے۔ درود شریف میں یہ بات ہے۔ اس لئے AOA نہیں لکھنا چاہئے۔

ماشاء اللہ! آپ نے سچ سچ بتا دیا اور سچ بتانا بھی چاہئے، کیونکہ ڈاکٹر کے پاس جب کوئی جاتا ہے، تو اس کو سچ بتانا چاہئے، لیکن جب ڈاکٹر کوئی چیز بتا دے، تو اس پہ عمل بھی کرنا چاہئے، یہ دونوں باتیں automatic ہیں۔ تو آپ نے سچ بتایا، ماشاء اللہ! آپ قابل تعریف ہیں۔ دوسری بات کہ پہلا step میں بتا دیتا ہوں۔ وہ تین سو دفعہ ’’سُبْحَانَ اللهِ، وَالْحَمْدُ للهِ، وَلَا إِلٰهَ إلَّا اللهُ، وَاللهُ أَكْبَرُ‘‘ اور دو سو دفعہ ’’وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ‘‘ پڑھنا ہے، اور یہ چالیس دن تک کے لئے بلاناغہ کرنے کا وظیفہ ہے۔ اور یہ مسئلہ بھی بتا دوں کہ ذکر پر کوئی پابندی نہیں ہوتی، جن ایام میں خواتین پر نماز پڑھنا بند ہوتا ہے یا قرآن پاک پڑھنا بند ہوتا ہے، اس وقت بھی ذکر کرنے پر پابندی نہیں ہے، بلکہ ذکر کیا جاسکتا ہے۔ اس لئے آپ چالیس دن بلاناغہ یہ ورد کر لیں۔ اور ہر نماز کے بعد عمر بھر کے لئے تینتیس دفعہ ’’سُبْحَانَ اللهِ‘‘ تینتیس دفعہ ’’اَلْحَمْدُ للهِ‘‘ چونتیس دفعہ ’’اَللهُ أَكْبَرُ‘‘ اور تین دفعہ کلمہ طیبہ، تین دفعہ درود ابراہیمی، تین دفعہ استغفار اور ایک مرتبہ آیت الکرسی بھی آپ شروع فرما لیں۔ چالیس دن کے بعد آپ مجھے بتا دیجئے گا۔ میں ان شاء اللہ! اگلا بتا دوں گا۔ اور نماز کی کوشش کر لیں کہ کوئی نماز قضا نہ ہو۔

روز محشر کے جاں گداز بود

اولیں پرسش نماز بود

(یعنی روز محشر جو کہ بہت سخت دن ہے، اس کے اندر پہلا سوال یہی نماز کے بارے میں ہے)

لہٰذا نماز میں کوئی کمی نہ کریں، فرض نماز کسی حالت میں چھوڑنی نہیں چاہئے، اس کے لئے بیشک کئی alarm آپ لگا دیں، جتنے لوگوں کو بتائیں وہ آپ کی بات ہے یعنی جتنی کوشش آپ اس کے لئے کریں، تو کر لیں، لیکن نماز رہنی نہیں چاہئے، نماز چھوڑنی نہیں چاہئے، یہ بہت بڑا نقصان ہے یعنی جو نقصان انسان اس دنیا میں کرسکتا ہے، ان سب سے بڑا نقصان یہ نماز کا چھوڑنا ہے۔ بس اس کو شروع کر لیں، اللہ جل شانہٗ آپ کو توفیق عطا فرمائے۔ آپ میرے لئے دعا کریں، میں آپ کے لئے دعا کروں گا۔

سوال نمبر 8:

السلام علیکم۔ کیا حال ہے حضرت؟ تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار، سو دفعہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘، دو سو دفعہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، چھ سو دفعہ ’’حَقْ‘‘ اور ’’اَللّٰہ‘‘ دس ہزار مرتبہ جاری ہے، مہینہ سے زیادہ ہوگیا ہے۔ آگے کیا حکم ہے؟

جواب:

ماشاء اللہ! اب آپ ایسا کر لیں کہ ساڑھے دس ہزار مرتبہ ’’اَللّٰہ‘‘ کر لیں، باقی چیزیں یہی رکھیں۔ اللہ آپ کو مزید توفیقات سے نوازے۔

سوال نمبر 9:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

جواب:

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ ایک بات یاد رکھیں کہ آپ نے مجھے sticker بھیجا ہے السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کا۔ یہ sticker والا culture آج کل بہت develop ہوا ہے۔ لیکن یاد رکھئے گا کہ جو آپ اپنے ہاتھ سے لکھتے ہیں، تو ان چیزوں کی جو ہاتھ گواہی دے گا، وہ گواہی sticker کی صورت میں نہیں ہوگی۔ لہٰذا آپ بالکل وہی طریقہ رکھیں، جو پہلے چلا آرہا ہے، ان چیزوں میں وہ برکت نہیں ہے۔ مثال کے طور پر مولانا تقی عثمانی صاحب دامت برکاتھم نے ارشاد فرمایا کہ انسان موبائل کے اوپر قرآن پاک پڑھ سکتا ہے، اجازت ہے، منع نہیں ہے، لیکن براہ راست قرآن پڑھنا، اور یہ برابر نہیں ہوسکتے، کیونکہ قرآن کے جو الفاظ ہیں، وہ مستقل ہیں، کاغذ کے اوپر سے وہ ہٹتے نہیں ہیں، اور یہ عارضی ہیں، آپ نے قرآن کے الفاظ کے بعد فوراً کوئی اور چیز کھولی تو وہ آگئی، اب یہ قرآن نہیں رہا، تو اس کے ساتھ وہ چیز attach نہیں ہے جو کہ قرآن کے ساتھ ہے۔ لہٰذا جن کے پاس موبائل میں یہ ہے، ان کو بھی کوشش کرنی چاہئے کہ براہ راست قرآن پاک سے پڑھیں۔ اس طریقہ سے ہم لوگ برکات سے روز بروز اپنے آپ کو محروم کر رہے ہیں اور ان چیزوں میں پڑ رہے ہیں، تو کوشش کریں کہ ایسا نہ ہو۔

سوال نمبر 10:

حضرت شیخ صاحب! السلام علیکم۔ جیسا کہ آپ نے فرمایا، ویسے ہی میں نے تیس دن ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ تین سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ تین سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہ‘‘ سو دفعہ کر لیا ہے۔ وظیفہ اور ذکر کرتا ہوں، نظر کی حفاظت میں کوتاہی ہوجاتی ہے، جس کی وجہ سے پریشان ہوں اور کبھی کبھار طبیعت میں عجیب سا اضطراب پایا جاتا ہے۔ آپ کی رہنمائی اور حکم کے انتظار میں ہوں۔

جواب:

اب ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ اور ’’حَقْ‘‘ چار، چار سو مرتبہ کر لیں اور باقی وہی رکھیں۔ اور نظر کی جو حفاظت ہے، یہ اصل میں دل کی حفاظت ہے۔ کیا خیال ہے! دل کی بیماری جس کو لگ جاتی ہے، اس کو ڈاکٹر کیا بتاتے ہیں کہ یہ نہیں ہونا چاہئے، یہ نہیں ہونا چاہئے، کیونکہ اس سے دل پر بوجھ بنے گا اور اس سے دل کو مزید بیماری ہوگی۔ ایسے ہی یہاں پر بھی صورتحال ہے کہ اگر کوئی نظر کی حفاظت نہ کرے، کان کی حفاظت کوئی نہ کرے، زبان کی حفاظت کوئی نہ کرے، تو یہ سب دل کی تباہی اور بربادی ہے۔ لہٰذا دل کی حفاظت اگر کرنی ہو، تو نظر کی حفاظت ضروری ہے۔ اور یہ خود بخود نہیں ہوتا، اس کو کرنا پڑتا ہے، خود بخود کوتاہی ہوتی ہے اور ٹھیک کرنا پڑتا ہے یعنی اس کوتاہی سے بچنا ہوتا ہے، بس اگر آپ اس کے اوپر چیک نہ لگائیں، تو یہ ہوتا رہے گا، کیوںکہ نفس کی خواہش ہے، اور نفس ہر وقت فعال ہے، اس وجہ سے آپ کو اس کے اوپر check لگانا پڑے گا اور اگر کچھ عرصہ آپ نے ماشاء اللہ! check لگا دیا، تو پھر آپ کے اوپر check خود لگ جائے گا، یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے پھر انتظام ہوجاتا ہے۔ مثلاً ایک شخص ہے، وہ نظر کی حفاظت کا عادی نہیں ہے، اس کو کوئی پروا نہیں ہوتی، لیکن جو کرتا ہے، جب اس سے یہ گناہ ہوجاتا ہے، تو ایسا ہوجاتا ہے کہ جیسے کوئی اوپر پہاڑ گر پڑا ہو، اس وقت تک اس کو آرام نہیں ہوتا، جب تک اس کو رو دھو کے صاف نہ کر لے۔ یہ حدیث شریف سے ثابت ہے کہ جب مومن شخص سے کوئی گناہ ہوجائے، تو اس کے اوپر ایسے ہوجاتا ہے جیسے کوئی پہاڑ گر پڑا ہے اور وہ جب تک رو دھو کے اس سے اپنے آپ کو پاک نہ کرے، اس وقت تک اس کو آرام نہیں آتا اور فاسق جو ہوتا ہے، اس کے لئے ایسا ہوتا ہے، جیسا کہ اس پر مکھی بیٹھی اور اڑ گئی۔ (سنن ترمذی: 2497)

اس کا مطلب ہے کہ جس کو اس چیز سے کچھ فرق نہیں پڑتا، وہ اس definition میں چلا گیا ہے اور جس کو فرق پڑ رہا ہے، اس کو اس پر خوش ہونا چاہئے کہ اَلْحَمْدُ للہ ابھی اس میں حیات ہے۔ اور یہ بہت اہم بات ہے۔ جب میں جرمنی میں تھا، وہاں ظاہر ہے کہ بے حیائی عام ہے، لیکن ہم تو یہاں سے گئے تھے، لہٰذا ہمیں تو بڑی پریشانی تھی، میں بعض دفعہ اس کا ذکر بھی اپنے وہاں کے لوگوں سے کرتا تھا، تو وہ مسکراتے تھے، ہسنتے تھے، اور وہ کہتے پتا نہیں آپ کو کیوں ہوتا ہے، ہمیں تو کچھ بھی نہیں ہوتا۔ تو میں نے وہاں جرمنی میں ایک نو مسلم بھائی الفریڈ (اللہ ان کی مغفرت فرمائے، بڑے اچھے آدمی تھے، بڑے اچھے خیالات تھے اور اس کے بڑے اچھے اقوال ہوتے تھے، تو میں نے اس) سے کہا کہ یہ لوگ اس طرح کہتے ہیں، اب یا تو میں بہت خراب ہوں یا یہ جھوٹے ہیں، کیونکہ میں تو دس فٹ سے بھی گزرتا ہوں، تو مجھے یہ ہوتا ہے اور یہ کہتے ہیں کہ ہمیں کچھ بھی نہیں ہوتا۔ وہ کہتے کہ نہ یہ جھوٹے ہیں، نہ تم خراب ہو۔ میں نے کہا کیوں؟ کہتے ہیں، تمھارا system alive ہے، تمھارا system functional ہے، لہٰذا تمھیں محسوس ہو رہا ہے، ان کا system dead ہو چکا ہے، لہٰذا ان کو محسوس نہیں ہو رہا، یہ ماتم کی حالت ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ جو لوگ ہوتے ہیں، میں جانتا ہوں کہ یہ ڈاکٹروں کے پاس کس لئے جاتے ہیں؟ کیونکہ ان کا system dead ہو چکا ہے، یہ اپنے گھر والوں کے قابل بھی نہیں رہتے، تو پھر وہ ڈاکٹروں کے پاس جاتے ہیں کہ ہم کیا کریں؟ لہٰذا آپ کا system ٹھیک ہے، اَلْحَمْدُ للہ! اس وجہ سے کوئی مسئلہ نہیں ہے اور یہ جھوٹ نہیں بول رہے، ٹھیک بول رہے ہیں، ان کو کچھ نہیں ہو رہا۔ لہٰذا یہ والی بات ہے، ہمیں اپنی حفاظت کرنی پڑے گی، خود کرنی پڑے گی، کوئی اور نہیں کرے گا ہماری حفاظت۔ اللہ پاک ہمیں توفیق عطا فرمائے۔

سوال نمبر 11:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت شیخ محترم! دوسرا ذکر جمعہ کے دن سے شروع کردیا ہے، جو کہ ان شاء اللہ! بلاناغہ تیس دن تک جاری رکھوں گا۔ تاکید فرما دیں کہ کیسے اللہ کا قرب حاصل کروں؟ میرے لئے یکسوئی کی دعا فرمائیں۔ جزاک اللہ احسن الجزا۔

جواب:

سبحان اللہ! جب تک کوئی راستہ پر ہے، اس وقت تک تو اس کے لئے بشارت ہے۔ بر صراط مستقیم ہرگز کسے گمراہ نیست (جو صراط مستقیم پر چل رہا ہے، وہ پہنچ جائے گا، ہرگز گمراہ نہیں ہوگا) اب آپ مجھے بتاؤ! یہاں پر پنڈی کی بھول بھولیاں ہیں، تو ہم جب لاہور جاتے ہیں، تو کیا کرتے ہیں؟ ہم جب لاہور جاتے ہیں، تو پہلے یہاں کی گلیوں سے نکلتے ہیں، پھر یہاں کے روڈ سے نکلتے ہیں، پھر اس کے بعد ہم وہاں موٹروے پر پہنچ جاتے ہیں، پھر موٹروے پر پہنچ کر لاہور کے لئے رواں دواں ہوجاتے۔ اب اگر کوئی کہتا ہے کہ میں موٹروے پر پہنچ گیا ہوں، تو فوراً لاہور کیوں نہیں پہنچا؟ تو کیا کہیں گے کہ بھائی! ٹھیک ہے، آپ نے چلنا شروع کر لیا، لیکن اب اپنے وقت پر پہنچ جاؤ گے، یہ تو نہیں کہ موٹروے پر پہنچنا لاہور تک پہنچنا ہے۔ اسی طریقے سے ماشاء اللہ! آپ نے چلنا شروع کر لیا ہے اور اللہ کا قرب اسی راستہ میں ہے، تو اس راستہ پر چلتے رہیں ہمت کے ساتھ، استقامت کے ساتھ، ان شاء اللہ! پہنچ جاؤ گے۔ اللہ تعالیٰ نصیب فرما دے۔

سوال نمبر 12:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

How are you Sheikh? How many minutes beginners do مراقبہ of لطیفۂ قلب?

جواب:

It depends upon the condition of the person who is doing this and Sheikh must know what his condition is. He shall tell him as per his condition because Sheikh is like a doctor. When he gives medicines to the patient he should know the condition of the patient. In some cases he even doesn’t give paracetamol in fever to the person because he has liver problems. Therefore, the Sheikh must know what is the condition and depending upon that, he should prescribe that for him.

سوال نمبر 13:

بظاہر میرے انفرادی اور خاندانی مسائل کا حل زیادہ پیسے کمانا ہے، لیکن امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی کیمائے سعادت پڑھی، تو اس میں قناعت اور قانع درویش کا پڑھا، مزید یہ کہ صحت کو گنوا کر پیسے کمانا بھی ایک مروجہ phenominon ہے، استخارہ کرتا ہوں، تو صحت کا خیال رکھنے کا ذہن میں آتا ہے، مگر اس سب میں شل ہوجاتا ہوں کہ زیادہ پیسے کمانے کی کوشش کروں یا فی الحال صحت بچا کر قناعت اختیار کروں۔ تو کیا کروں؟

جواب:

ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جانا بھی ٹھیک نہیں ہے اور اتنا اس میں گم ہوجانا کہ صحت کا خیال نہ رہے، یہ بھی ٹھیک نہیں ہے۔ اعتدال اسی کو کہتے ہیں۔ ظاہر ہے اعتدال پر بھی چلنا ہوتا ہے۔ لہٰذا اپنی صحت کی condition کا خیال کر کے اتنا کام کریں، جس سے آپ کی صحت نہ بگڑے، اور بالکل اس کو چھوڑیں بھی نہیں، کیونکہ نکھٹو بننا بھی شریعت نہیں سکھاتی۔ لہٰذا کام تو کرنا پڑتا ہے، لیکن Subject to condition ہے، آپ اپنی حالت کو جانتے ہوں گے کہ کیا حالت ہے، اس کے مطابق کام کریں۔

سوال نمبر 14:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ میں نے بچوں کے مراقبے کے report دینی ہے، ان کے مراقبہ کو ایک ماہ ہوگیا ہے۔

نمبر 1:

پہلے پانچوں لطائف پر پانچ منٹ یہ تصور کرنا ہے کہ میرے لطیفہ کی طرف اللہ تعالیٰ محبت کے ساتھ دیکھ رہے ہیں اور میرا لطیفہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کر رہا ہے۔ اس کے بعد ’’لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ‘‘ میں پوری امت کے لئے استغفار کی نیت سے مراقبہ کرنا ہے کہ اس کا فیض رسول پاک ﷺ کے قلبِ اطہر پر اور پھر آپ حضرت کے قلب مبارک پر اور پھر ان کے پورے جسم پر یہ فیض آرہا ہے۔ کیفیت یہ ہے کہ اَلْحَمْدُ للہ! پانچوں لطائف پر ذکر محسوس ہو رہا ہے۔ مراقبہ کے دوران کچھ خاص کیفیت کا اندازہ تو اس کو نہیں ہو رہا۔ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ بڑھ رہا ہے اور اپنے گناہوں پر استغفار پڑھنے کا خیال آتا ہے اور جب خیال آتا ہے تو توبہ کرتی ہیں اور ساتھ امت کی معافی کی بھی دعائیں کرتی ہیں۔ اور ناغہ اس کا کوئی نہیں ہوا۔

جواب:

کیا یہ اثرات نہیں ہیں؟ ماشاء اللہ! یہ بھی تو کیفیت ہے۔ بہرحال ٹھیک ہے، اس کو مزید ایک مہینہ کر لیں، تاکہ اور بھی کیفیت پکی ہوجائے۔

نمبر 2:

مراقبۂ معیت اور مراقبۂ دعائیہ ہے۔ پہلے پانچوں لطائف پر پانچ پانچ منٹ یہ تصور کرنا ہے کہ میرے لطیفہ کی طرف اللہ تعالیٰ محبت کے ساتھ دیکھ رہے ہیں اور میرا لطیفہ بھی ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کر رہا ہے۔ اس کے بعد پندرہ منٹ کا مراقبۂ معیت اور دعائیہ کرنا ہے۔ پانچوں لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے۔ اللہ سے دعائیں اور بالخصوص فلسطین کے لئے بہت دعائیں کی ہیں۔ دس ناغے ہوئے ہیں۔

جواب:

ناغے نہ کریں۔ ابھی اس کو ہی تیس دن کے لئے جاری رکھیں۔

نمبر 3:

وظیفے کی ترتیب یہ ہے: درود پاک دو سو، تیسرا کلمہ دو سو، استغفار دو سو اور ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ دو سو، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو، ’’حَقْ‘‘ چھ سو اور ’’اَللّٰہ‘‘ ہزار مرتبہ۔ پانچ منٹ کے لئے لطیفے کا مراقبہ کہ میرے لطیفہ کی طرف اللہ محبت سے دیکھ رہے ہیں اور میرا لطیفہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کر رہا ہے۔ مراقبہ کے دوران کچھ محسوس نہیں ہوتا۔ پانچ ناغے ہوئے ہیں۔ باقی تینوں کو اَلْحَمْدُ للہ! نماز، قرآن پاک کی تلاوت پر استقامت ہے۔ رمضان مبارک میں اجتماعی درود پاک پینتیس ہزار دو سو تھا۔

جواب:

اب اس طرح کر لیں کہ ان کو یہ بتا دیں کہ پانچ منٹ کی جگہ دس منٹ مراقبہ کریں اور باقی چیزیں وہی رکھیں۔ ان شاء اللہ! اللہ پاک توفیق دیں گے۔

سوال نمبر 15:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اَلْحَمْدُ للہ! ایک، دو، چھ اور دو ہزار ذکر کرتے ہوئے ایک ماہ مکمل ہوگیا ہے، البتہ ذکر میں مسنون تسبیحات میں تین ناغے ہوگئے ہیں، ان شاء اللہ! آئندہ سے ناغہ نہیں کروں گا۔

نمبر 2:

ذکر کے دوران دھیان رکھنا کافی مشکل ہوتا ہے، اکثر ذہن ذکر میں نہیں ہوتا۔

نمبر 3:

رمضان میں اور رمضان کے کچھ دنوں بعد چند مرتبہ لطیفۂ قلب میں حرکت محسوس ہوئی، لیکن اس کے بعد اب تک محسوس نہیں ہوئی۔

نمبر 4:

اس طرح جنوری کے مہینہ سے تہجد شروع کی ہوئی تھی، لیکن شوال کے مہینہ میں تہجد میں کافی زیادہ ناغے ہوئے ہیں اور پچھلے چند ہفتے سے تہجد بھی نہیں پڑھی گئی، البتہ فجر طلوع آفتاب سے پہلے پڑھ لیتا ہوں۔

نمبر 5:

مختصر یہ کہ شکوک کے باوجود روحانی راستے کا گراف نیچے کی طرف جا رہا ہے۔ دعا فرما دیں اور اس کے لئے رہنمائی فرما دیں۔

جواب:

اصل بات یہ ہے کہ اس دفعہ کا رمضان شریف گرمیوں سے پہلے آیا تھا اور گرمیوں میں دن لمبے ہوجاتے ہیں، راتیں چھوٹی ہوجاتی ہیں، نتیجاً نیند کی کمی ہوتی ہے، لیکن اس نیند کی کمی کو دن میں پورا کرنا ہوتا ہے، ورنہ پھر اس کے اثرات اس کے رات کے اعمال پر ہوتے ہیں۔ لہٰذا اس کے لئے کوشش کر لیں کہ دن کو کچھ arrangement ہوجائے کہ آپ دن کو اپنی نیند پوری کرسکیں۔ باقی فرض نماز میں کوئی کمی نہیں ہونی چاہئے۔ اور نفل نماز میں تہجد بہت اونچی نماز ہے، اگر کسی کو اللہ تعالیٰ توفیق دے دے، تو اس کو disturb نہیں کرنا چاہئے، اس وجہ سے کوشش کرنی چاہئے اور دن کے وقت جب آپ سوئیں گے، تو اس میں آپ تہجد کی نیت کر لیں کہ تہجد کے لئے اٹھنا آسان ہوجائے، تو ان شاء اللہ! آپ کو اس کے مطابق ثواب ملے گا۔ بہرحال میں نے پہلے سے بتایا تھا کہ شوال کے مہینہ میں اپنے اوپر محنت کریں، تاکہ شوال میں رمضان شریف کی برکات ضائع نہ ہوں، ورنہ پھر اس کے اثرات پورے سال پر پڑیں گے۔ اب آپ کو مزید محنت کرنی پڑے گی اس چیز کو دوبارہ حاصل کرنے کی اور پھر اس کی حفاظت بھی ضروری ہے۔

سوال نمبر 16:

دو سو، چار سو، چھ سو اور پانچ ہزار والا ذکر مکمل ہوگیا ہے۔ اگلا ذکر ارشاد فرمائیں۔

جواب:

اب پانچ ہزار کی جگہ ساڑھے پانچ ہزار کریں، باقی وہی ہوگا ان شاء اللہ۔

سوال نمبر 17:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

Are you ok? (Yes اَلْحَمْدُ للہ) Hazrat how do سلسلہ that are not true سلسلہ create so many کیفیات? How do they open لطائف which cause حرکت in them? How do they cause feelings of معیت and فنا etc? Can شیطان copy the feelings when they travel from heart to heart. If I tell someone their سلسلہ is not reliable they will say to me what about these things, what is the response?

جواب:

ماشاء اللہ! بڑی اچھی بات آپ نے پوچھی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح فکر عطا فرما دے۔ سوال میں اردو میں دہراتا ہوں تاکہ باقی سب لوگ بھی اس کو سمجھیں کہ میں کس چیز کا جواب دے رہا ہوں، کیونکہ اہم سوال ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو سلسلے صحیح نہیں ہیں، ان میں کیفیات کیسے حاصل ہوجاتی ہیں اور کیسے ان کے لطائف جاری ہوجاتے ہیں اور یہ مراقبۂ معیت اور فنا والی کیفیات ان کو کیسے حاصل ہوتی ہیں؟ کیا شیطان ایک دل سے دوسرے کی طرف بات کو لے جاسکتا ہے؟ میں اگر کسی کو کہوں کہ آپ کا سلسلہ صحیح نہیں ہے، تو اگر وہ یہ باتیں کرے، تو پھر میرے پاس کیا جواب ہوگا؟ (جواب) ماشاء اللہ! بہت اچھی بات ہے۔دراصل ہر چیز جس کے دو رخ ہوں، ایک دنیوی اور دوسرا دینی۔ اب دینی تو دیندار لوگوں کے پاس ہوگا، لیکن دنیوی جو ہوگا، وہ دنیا دار لوگوں کے پاس ہوگا، یہ پہلا اصول ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جو کیفیات آپ بتا رہے ہیں، یہ کیفیات دنیوی ہیں، یہ کیفیات آخرت کی نہیں ہیں، اس کو آخرت کے لئے بنانا پڑتا ہے اور اس کے لئے پوری محنت ہے۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ لطیفہ جاری ہونا یہ تو دینداری ہے، تو بھائی! یہی تو آپ کی غلط فہمی ہے۔ آپ شاید سن کے حیران ہوں گے کہ ہندو بھی لطائف جاری کرتے ہیں، اس کو وہ چکر کہتے ہیں، تو ان کے چکر ہوتے ہیں، وہ چل پڑتے ہیں، بالکل ایسے ہی محسوس ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے ان کے جو فاسد خیالات ہیں، وہ actuate ہوتے ہیں، اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں بڑی چیزیں حاصل ہو رہی ہیں۔ تو یہ کیفیتیں ہوتی ہیں۔ مثلاً میوزک ہے، میوزک کے بارے میں فرماتے ہیں کہ شیطان اپنے دونوں پنجے لطیفۂ قلب اور لطیفۂ روح پر مارتا ہے، جس سے انسان میں جوش پیدا ہوتا ہے اور وہ میوزک سے مزے لیتا ہے۔ اب بتاؤ! یہ کیا چیز ہے؟ یہی چیزیں تو جاننی چاہئیں۔ لہٰذا جو گمراہ سلسلے ہیں، وہ ان چیزوں میں پڑ جاتے ہیں اور جو چیز صحیح نہیں ہے، اس کو وہ صحیح سمجھنے لگتے ہیں اور جو صحیح ہے، اس کو غلط سمجھنے لگتے ہیں۔ کتنے لوگ ہیں، جو شرک کو توحید کے مقابلہ میں اچھا کہتے ہیں۔ لہٰذا پہلے اپنا ذہن درست کر لیں کہ یہ جو کیفیات ہیں، یہ ضروری نہیں کہ دینی ہوں، نہیں، بلکہ یہ دین کے لئے بنانی پڑتی ہیں۔ مثلاً تصور کافر کو بھی ہوتا ہے اور مسلمان کو بھی ہوتا ہے، لیکن مسلمان اس تصور کو اللہ تعالیٰ کی طرف لے جاتا ہے اور جو کافر ہے، وہ اس کو دنیا کی چیزوں کی طرف لے جاتا ہے۔ اب بعض لوگ جو ذکر کے ساتھ میوزک کو شامل کر لیتے ہیں یا Musical style کو شامل کر لیتے ہیں، پھر اس سے اچھل کود پیدا ہوجاتا ہے، تو لوگ سمجھتے ہیں کہ پچاس ہزار سال کا راستہ طے کردیا۔ کرتے ہیں یا نہیں کرتے؟ حالانکہ جو صحیح اعمال ہیں، ان کی طرف ان کا خیال نہیں ہوتا، یعنی اخلاص، تقویٰ، اللہ کی رضا ہے، ان چیزوں کی طرف جانا وغیرہ وہ نہیں ہوتا، تو اس میں یہ بات ہے۔ دیکھو! سنت کو جب چھوڑا جاتا ہے، تو وبال شروع ہوجاتا ہے اور اللہ کی رضا کے لئے کام کرنا جب چھوڑا جاتا ہے، تو پھر کام خراب ہوجاتا ہے۔ چنانچہ اگر کوئی آدمی اس پر خوش ہوتا ہے کہ میں اچھل کود کرتا ہوں، تاکہ لوگ کہہ دیں کہ کیا بڑا بزرگ بن گیا! تو یہ دنیا ہے یا آخرت ہے؟ بس یہی چیزیں میں عرض کرتا رہتا ہوں۔ مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ان کے بارے میں ہمیں اعلان کیا ہے کہ ہمیں ایسی چیزوں میں نہیں پڑنا چاہئے۔ حضرت نے فرمایا ہے: یہ تو چھلکے ہیں، گری کو لینا چاہئے، ان چیزوں میں نہیں پڑنا چاہئے۔ میں نے ایک دفعہ حضرت سے کچھ ایسی باتیں بیان کیں، تو فرمایا دور کرو، دور کرو، یہ راستے کے کھیل تماشے ہیں، یہ کھیل تماشے ہیں۔ یہ دل پشوری کرنا ہوتا ہے یعنی ایسی چیزوں سے مزہ لینا یہ دل پشوری کرنے کی باتیں ہوتی ہیں۔ لہٰذا اپنے آپ کو ان چیزوں سے بچانا چاہئے۔ باقی جہاں تک معیت اور فنا ہے، اس کے بارے میں میں آپ کو بتاؤں کہ جب تک نفس آپ کا فعال ہے، اس وقت تک فنا کدھر ہے؟ کیونکہ جس وقت انسان کا نفس فعال نہیں رہتا، اس وقت پھر اس کو فنا کی کیفیت حاصل ہوتی ہے، اور وہ ایسی ہے کہ انسان اپنے آپ کو بھی بھول جاتا ہے، صرف اللہ یاد ہوتا ہے، وہ اپنے آپ کی بھی پروا نہیں کرتا۔ بہرحال میں تفصیل میں نہیں جاتا، میرے خیال میں کافی بات ہوگئی ہے، جنہوں نے نہیں ماننا ہوتا، ان کے بارے میں ہمیں زیادہ سوچنا نہیں چاہئے، بس ہمیں اپنے آپ کو بچانا چاہئے، ورنہ ہمیں دوسروں کی فکر ہو اور خود گمراہ ہوجائیں، تو یہ کیا فکر ہے!

سوال نمبر 18:

السلام علیکم۔ حضرت شاہ صاحب! اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے۔ ذکر اَلْحَمْدُ للہ! دو سو، چار سو، چھ سو اور نو ہزار ہے اور دس منٹ کے مراقبہ کو ڈیڑھ ماہ ہوگیا ہے۔ یہ آپ کی برکت سے بلاناغہ جاری ہے۔ ذکر کا پہلا حصہ تو آسانی سے مکمل ہوجاتا ہے، لیکن اسم ذات کے ذکر میں بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ ایک نشست میں مکمل ہو، کیونکہ طبیعت پر بہت بھاری پن محسوس ہوتا ہے۔ کچھ عرصے سے اسم ذات کا ذکر جب مکمل ہوتا ہے، تو اپنا وجود گم ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور ہلکا سا سرور چھا جاتا ہے۔ مراقبۂ موت میں مدھم سی دھڑکن محسوس ہوتی ہے۔ آج کل رزق میں بہت تنگی ہے۔ معمولات آپ کی برکت سے بلاناغہ جاری ہیں۔ صبح کے وقت انجانی سی سخت پریشانی محسوس ہوتی تھی آپ کی برکت سے اس میں بہت افاقہ ہے۔ مزید رہنمائی کی درخواست ہے۔

جواب:

ماشاء اللہ! بہت اچھی بات ہے۔ اسم ذات کا جو ذکر ہے، وہ آپ کئی حصوں میں کرسکتے ہیں، اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ البتہ مراقبہ اس کے بعد کر لیا کریں اور دس منٹ کی جگہ پندرہ منٹ مراقبہ کر لیا کریں، باقی چیزیں وہی ہوں گی۔

سوال نمبر 19:

السلام علیکم۔ حضرت جی!

You gave me مراقبہ of ten minutes for one month. I have finished it yesterday اَلْحَمْدُ للہ. In the beginning of مراقبہ I have to focus on my heart to say Allah Allah. With time whenever I start it without any focus my heart starts saying Allah Allah and I sometimes feel heaviness in my heart.

جواب:

ماشاء اللہ!

Ok it is very good. Now you should do it for fifteen minutes. These are good signs.

سوال نمبر 20:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! تصوف میں توجۂ شیخ سے کیا مراد ہے؟ کیا اس سے مراد دعا ہے؟ جو شیخ مرید کے لئے کرتا ہے۔ وضاحت فرمائیں۔

جواب:

جی دعا کبھی الفاظ میں ہوتی ہے، کبھی بے الفاظ ہوتی ہے۔ جو بے الفاظ دعا ہوتی ہے، وہ توجہ ہوتی ہے۔ میرے خیال میں یہ آسان بات ہے کہ جس میں الفاظ نہیں ہوتے، وہ توجہ ہوتی ہے، اسے قلبی دعا بھی کہتے ہیں۔

سوال نمبر 21:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

I pray you and your loved ones are well dear حضرت. I have completed my eight months of doing twenty minutes مراقبہ imagining my heart saying Allah Allah while Allah تعالیٰ looks at it with love. I missed one day of my مراقبہ and I am very upset with myself that I have almost always missed at least one day of my علاجی معمولات every month since doing بیعت. This was the same last month. In that whenever I maintain focus I feel my heart warms up and it feels love. However, after missing my one day مراقبہ it no longer feels the same and actually it feels as though I lost all that I gained. I have been really struggling over the past week. Kindly advise for the next احوال. All other معمولات are being completed اَلْحَمْدُ للہ except for daily Quran recitation for which I have not hit the target 1.25 para in a week استغفر اللہ.

ان شاء اللہ I will put a plan in a place to make sure this issue is resolved. اَلْحَمْدُ للہ through your barka (blessing) it has been over ten days and I have not downloaded youtube again on my phone. I also got a simple second phone with my sim in it which means that my نفس has less chance to attack when I am at home to waste time.

جواب:

Yes it's very good that you are telling about this and

یہ جو بات آپ کر رہے ہیں کہ ماشاء اللہ! آپ کا مراقبہ بلاناغہ ہوجاتا ہے، تو پھر آپ کو یہ feel ہوتا ہے کہ سارا کچھ lost ہوگیا۔ یہ ایک برکت ہے یعنی اندھیرے کا جو احساس ہے، یہ روشنی کا احساس ہے۔ کیونکہ جس کو اندھیرے کا احساس نہیں ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کو روشنی کا بھی احساس نہیں ہے، کیونکہ چیزیں اپنی اضداد سے پہچانی جاتی ہیں۔ لہٰذا آپ کو چونکہ احساس ہوجاتا ہے کہ کچھ گیا، تو اس کا مطلب ہے کہ کچھ تھا، اس لئے یہ محسوس ہوتا ہے۔ لہٰذا اس سے آپ کو یہ جاننا چاہئے کہ اس سے نقصان ہوتا ہے اور اس نقصان سے بچنے کے لئے انسان کو ناغے سے بچنا چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے۔

سوال نمبر 22:

I have two questions dear Sheikh. When I interact with females at work I keep myself very deserved as per Sharia Laws. However, I know some of them take this personally as I am much more open with males. So is it ok to just say hello to them and what is the balanced way to interact with them, that is, keeping with Sharia while also not making them think bad of Islam and me?

جواب:

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ دوسروں کے جوتوں کی حفاظت کے لئے اپنی گٹھڑی کو گم نہ کریں۔ لہٰذا دوسروں کا اس چیز میں خیال رکھنے کے لئے کہ وہ برا نہ سوچیں، ہم اپنے آپ کو خطرے میں نہیں ڈال سکتے۔ اگر کوئی برا سوچتا ہے، تو کبھی آنکھیں نیچے کیے ان کو جواب دیا جاسکتا ہے کہ یہ ہمارے لئے شریعت کا حکم ہے۔ اسی انگلینڈ ہی میں ایک واقعہ ہوا تھا۔ یہ جو اشفاق صاحب ہیں، بڑے مشہور ادیب ہیں، وہ لکھتے ہیں کہ میں اپنی بیوی کے ساتھ وہاں گیا تھا، ایک پارک میں ہم بیٹھے ہوئے تھے، اور وہاں کوئی جماعت آئی ہوئی تھی، وہ جماعت سے نماز پڑھ رہے تھے، تو لڑکیوں کا ایک گروہ آیا، انہوں نے جب ان کو نماز پڑھتے دیکھا، تو ان کو عجیب لگا، وہ کھڑی ہوگئیں ان کے انتظار میں۔ جب انہوں نے نماز ختم کی، تو جو ان کے امام تھے، ان سے پوچھا کہ آپ کیا کر رہے تھے؟ اس نے کہا ہم نماز پڑھ رہے تھے۔ نماز کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے دین کے بارے میں بتانا شروع کردیا، چونکہ وہ تو آئے ہی اسی لئے تھے کہ لوگوں کو دین کی باتیں بتائیں۔ جب انہوں نے ساری باتیں بتائیں، تو curtesy میں اس نے اپنا ہاتھ آگے کیا کہ ہاتھ ملائیں۔ یہ چونکہ ان کے لئے normal ہے، ان کے لئے کوئی ایسی بات نہیں ہے۔ لیکن انہوں نے ہاتھ پیچھے کر لیا اور کہا کہ یہ تو میری بیوی کی امانت ہے۔ اب یہ سننا تھا کہ وہ لڑکی چیخ مار کر یہ کہتے ہوئے گر پڑی کہ کیا خوش قسمت تیری بیوی ہے۔ اب دیکھو! احساس تو ان کو بھی ہے، لیکن مسئلہ یہی ہے۔ بہرحال ہم لوگ ان کے لئے اپنے اقدار کو نہیں چھوڑ سکتے۔ اس لئے اپنی نظریں جھکا کر ہم نے ان کے ساتھ بات کرنی ہے اور ظاہر ہے کہ کام تو آپ کر ہی رہے ہیں، کام تو آپ نے کرنا ہے، لیکن اپنی حفاظت بھی کرنی ہے۔

سوال نمبر 23:

What is the best way for a مرید to do the خدمت of Sheikh? I pray and request if you could also make dua حضرت جی that اللہ تعالیٰ allow me to perform lots of Hajj with you in the future with خیر and عافیت!

جواب:

ماشاء اللہ! اللھم آمین ثم آمین۔

محبت خود تجھے اپنے آداب سیکھائے گی یعنی یہ والی بات ہے، جیسے محبت ہوگی، تو اس کے ساتھ یہ آداب بھی سمجھ میں آجاتے ہیں۔

سوال نمبر 24:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ آپ کے درس میں حجر اسود کا تذکرہ ہوا تھا کہ دل کا جو حال حجر اسود کے سامنے ہو، وہی حال دل میں نقش ہوجاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ حجر اسود کے سامنے استلام کرنے سے پہلے دل کی اچھی حالت کیسے لائی جائے؟ آیا یہ حالت اللہ کی طرف سے ہے، دعا کی جائے یا دل کو خود زبردستی اچھی حالت کی طرف لایا جائے؟ آپ کا دیا ہوا تیسرا ذکر جاری ہے اور ایک ماہ سے زیادہ ہوگیا ہے۔ ابھی چند دن ہوئے ہیں کہ ذکر کی طرف مائل نہیں ہو رہا، زبردستی ذکر کرتا ہوں، چونکہ چھوڑا نہیں ہے، لیکن نفس نہیں چاہتا کہ ذکر کروں۔ میرا ذکر ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ دو سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہ‘‘ سو مرتبہ ہے۔ میری بیوی کہہ رہی ہے کہ آپ کے دیئے ہوے ذکر کو ایک مہینے سے زیادہ ہوگیا ہے۔ میرا ذکر دس منٹ تصور کرنا ہے کہ میں ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کر رہی ہوں۔ اس سے میری نیند بہت اچھی ہوگئی ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زندگی باوجود تکلیف کے آسان ہے۔ دل میں کسی کسی وقت خود کو بری محسوس کرتی ہوں۔ میرا دل ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کر رہا ہے۔ رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

ماشاء اللہ! سارے گناہوں کو دھونے کا جو طریقہ ہے، وہ کیا ہے؟ توبہ و استغفار ہے۔ لہٰذا دل کی حالت اگر اچھی نہیں ہے، تو اس کو اچھی کرنے کا پہلا step کون سا ہوگا؟ توبہ اور استغفار۔ اس کے بعد پھر بعد میں عمل ہی کرنا پڑتا ہے یعنی عمل بعد میں آئے گا، لیکن ماضی سے disconnection کا طریقہ کون سا ہے؟ توبہ و استغفار ہے۔ لہٰذا حجر اسود پر آنے سے پہلے دل سے استغفار کر لیں، توبہ کر لیں کہ اے اللہ! میں نے جتنے گناہ کیے ہیں ان سب سے توبہ کرتا ہوں اور اپنے دل کو کینے سے اور بغض اور ان تمام چیزوں سے پاک کرنے کا ارادہ کرتا ہوں کہ میرا کسی کے ساتھ کوئی کینہ نہیں، پھر اس کے بعد وہاں جائیں۔ باقی نیت آپ کریں گے۔ اور اب ذکر ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ تین سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ تین سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہ‘‘ سو مرتبہ کر لیں۔ اور آپ کی جو اہلیہ ہے، اسے کہیں کہ اس کا جو دنیوی فائدہ ہے، اس کو اصل نہ سمجھیں، وہ تو اس کا ایک Side effect ہے، اصل effect یہ ہے کہ آپ کو اللہ پاک کی یاد نصیب ہوجائے، اسی کی طرف آپ زیادہ دھیان کیا کریں اور اس کو جاری رکھیں۔

سوال نمبر 25:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! زبان پر control نہیں رکھ سکتی، جس کی وجہ سے ہر وقت اپنی ہلاکت کا خوف رہتا ہے، خوب پتا چل جاتا ہے کہ نفس کا شر ہے، لیکن پھر بھی میں control نہیں کر پاتی، بار بار میں control کا ارادہ کرتی ہوں، لیکن ناکام ہوجاتی ہوں، یہ میری نیکیوں کو کھا رہی ہے، میری زبان کو خاموش رہنا نہیں آتا۔ آپ نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ کسی اجتماعی گفتگو میں حصہ نہیں لینا، بس خاموش رہیں، لیکن مجھے وقت پر یہ بات یاد نہیں رہتی، بعد میں یاد آجاتی ہے، لیکن پھر وقت گزر چکا ہوتا ہے، اس کا کیا علاج کریں؟

جواب:

یہ جو آپ فرما رہی ہیں کہ آپ کو اپنی ہلاکت کا خوف رہتا ہے، تو جس چیز سے خوف رہتا ہے، اس سے بچنے کی کوشش بھی ہوتی ہے۔ اور پھر جب آپ کو پتا ہے کہ نفس کا شر ہے، تو نفس کے شر کا ساتھ نہیں دینا چاہئے۔ اور پھر آپ control کا ارادہ کرتی ہیں، لیکن ناکام ہوجاتی ہیں، تو آپ ہمت نہ ہاریں اور اپنی کوشش جاری رکھیں اور جو غلطی، کوتاہی ہوتی ہے، اس پر استغفار کر لیا کریں اور آئندہ کے لئے عزم کر لیا کریں کہ میں پھر آئندہ اس طرح نہیں کروں گی۔ باقی جہاں تک زبان کا معاملہ ہے، اس کے بارے میں آپ نے ماشاء اللہ! خود سنا ہی ہوگا کہ حدیث شریف میں آتا ہے:

’’مَنْ صَمَتَ نَجَا‘‘ (سنن ترمذی: 2501)

ترجمہ: ’’جو خاموش رہا، اس نے کامیابی پائی‘‘۔

لہٰذا خاموش رہنا سیکھیں۔ میں نے آپ کو بتایا تھا کہ وہ مراقبہ آپ کریں، وہ یہ ہے کہ جب hot discussion کسی کے ساتھ ہو، اس وقت خاموش رہیں، اس وقت نفس کو بھی فہمائش ہوجایا کرے گی۔ اور آپ بھی ماشاء اللہ! اس سے فائدہ اٹھائیں گی۔

نمبر 1:

لطیفۂ قلب دس منٹ، لطیفۂ روح پندرہ منٹ ہے اور محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

اب ان دونوں کو دس منٹ کر لیں اور تیسرا لطیفہ پندرہ منٹ کا بتا دیں۔

نمبر 2:

لطیفۂ قلب دس منٹ ہے، محسوس بھی ہوتا ہے۔

جواب:

اب اس کو لطیفۂ قلب پندرہ منٹ کا بتا دیں۔

سوال نمبر 26:

السلام علیکم۔ حضرت دعا ہے کہ آپ خیریت سے رہیں۔ میں نے ذکر شروع کیا تھا، ایک مہینہ ہوگیا ہے۔ بیچ میں شاید کچھ ناغے بھی ہوں گے۔ میرا ذکر تھا پانچ لطائف پر دس منٹ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ محسوس کرنا اور پندرہ منٹ قلب پر تجلیاتِ افعالیہ کا فیض محسوس کرنا۔ یہ سارا ذکر پانچ سے چھے منٹ میں کر لیتی ہوں، پہلے تقریباً دو منٹ تک کرتی تھی، اب آپ کے کہنے پر تھوڑا بڑھایا ہے۔ ذکر محسوس ہوتا ہے اَلْحَمْدُ للہ! ذکر پہلے چھوڑا تھا، تو کافی رونے دھونے لگ جاتی تھی، چھوٹی چھوٹی پریشانیاں کافی حد تک ختم ہو چکی ہیں، چھوٹے چھوٹے کام کافی سیدھے ہوجاتے ہیں، اللہ کی مدد اپنے کاموں میں صاف نظر آرہی ہے۔ حضرت! جب شادی سے پہلے میں نے شرعی پردہ شروع کیا تھا، تو امی نے مجھے بہت ڈرایا کہ تمہارا رشتہ خراب ہوجائے گا، سسرال والے باتیں سنائیں گے، لیکن ابھی یقین کریں کہ وہی میرے لئے بہت اچھے اور نرم ہیں، اَلْحَمْدُ للہ! اور گاؤں کے ہوکر بھی اس کو اتنے اچھے طریقے سے دیکھتے ہیں، چاہے میرے دیور ہوں یا میری نند یا ساس، سب پوری کوشش کرتے ہیں کہ میں تنگ نہ ہوں، اپنی طرف سے احتیاط کرتے ہیں، لیکن ایک دو دفعہ میرے دیوروں سے غلطی ہوئی، مگر پھر دوبارہ انہوں نے نہیں کی۔

جواب:

ماشاء اللہ! بس اس کو جاری رکھیں اور اپنا ذکر کبھی بھی نہ چھوڑیں اور جو آپ کو بتایا جاتا ہے، اس کے اوپر عمل کریں۔ ذکر اگر آپ چھوڑیں گی، تو اس کے اثرات بھی ختم ہونا شروع ہوجائیں گے اور پھر اپنی پرانی position پر آپ چلی جائیں گی۔ لہٰذا کوشش کریں کہ ذکر میں کبھی ناغہ نہ ہو۔


وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ


  1. نوٹ! تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔