اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر 1:
السلام علیکم۔
Sir after the ذکر of Allah Allah for ten minutes on heart, fifteen minutes on right side soul for a few days. Tears were coming with Allah Allah coming from the heart with ease not with pressure. It was usual. I kept in my mind that I have to continue my effort. I was not making intention before مراقبہ the previous months but it came to my mind today. I do the مراقبہ after عصر.
جواب:
اپنا مراقبہ جاری رکھیں اور جیسے آپ کو بتایا گیا تھا، اسی طریقے سے کرتی رہیں۔ احوال بدلتے رہتے ہیں، اس لئے احوال کے پیچھے ہم نہیں جاتے، البتہ مستقل مزاجی کے ساتھ اپنا مراقبہ جتنی دیر کے لئے بتایا گیا ہے، اتنی دیر تک وہ کرتی رہیں، اس کے اثرات خود بخود ہوتے رہیں گے، ان شاء اللہ۔
سوال نمبر 2:
السلام علیکم۔ حضرت جی! میرا ذکر 200, 400, 600 اور اسم ذات پندرہ ہزار مرتبہ ہے، اسے ایک مہینہ پورا ہوگیا ہے۔
جواب:
اب آپ ساڑھے پندرہ ہزار اسم ذات کریں اور باقی وہی کریں جو آپ کو بتایا گیا ہے۔
سوال نمبر 3:
السلام علیکم۔ شیخ محترم! میرا سورۃ فاتحہ کا مراقبہ اور پانچ پانچ منٹ لطائف کا ذکر مکمل ہو چکا ہے۔ شیخ محترم! جیسے جیسے مجھے اشارہ ملتا رہا ہے، اس میں وہ سب ویسے ہی ہوا ہے۔ مشکل وقت سے پہلے یہ آیت میرے سامنے آئی:
﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ﴾ (البقرۃ: 46)
ترجمہ1: ’’اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو‘‘۔
لہٰذا جب مشکل وقت آتا، تو اللہ تعالیٰ کی مدد کے اشارے ملتے اور پھر دنیا ایک طرف، لیکن اللہ کی مدد میرے ساتھ ایک طرف ہوتی تھی۔ جب میں نے بہت بے بسی محسوس کی، تو اللہ تعالیٰ نے ایسی مدد کی کہ میں خود حیران ہوئی۔ شیخ محترم! آگے رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
سورۃ فاتحہ کے مراقبہ کے بعد آیت الکرسی کا مراقبہ کریں۔ آیت الکرسی کا جو مفہوم ہے، وہ ذہن میں بٹھائیں اور اس کا جو فیض ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کی طرف آرہا ہے اور آپ ﷺ کی طرف سے شیخ کی طرف اور شیخ کی طرف سے آپ کے جسم پر آرہا ہے۔
سوال نمبر 4:
السلام علیکم۔ شاہ صاحب! میرا دو، چار، چھ اور پانچ کا ذکر مکمل ہوگیا ہے۔ مجھے اگلا ذکر دے دیں۔
جواب:
اب ان شاء اللہ! آپ دو، چار، چھ اور دس شروع فرما لیں۔
سوال نمبر 5:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
I pray you are well. اَلْحَمْدُ للہ I have been able to control my eye from watching impermissible things for eleven days. This has been made easier by being in مدینۃ المنورة where پردہ and حیا are both common in society. Please do دعا that I am able to complete this three weeks that you prescribed. Looking forward to continue seeing you soon ان شاء اللہ. Please keep me and my family in your duas جزاکم اللہ خیراً .
جواب:
اللہ جل شانہٗ مزید توفیقات سے نوازے اور استقامت نصیب فرمائے۔
سوال نمبر 6:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ کئی سالوں سے صحت کی خرابی کے باوجود اَلْحَمْدُ للہ! اعمال ہو رہے تھے اور مجاہدہ بھی ہوجاتا تھا، لیکن تقریباً ایک ماہ سے صحت کی زیادہ خرابی کی وجہ سے سارے اعمال چھوٹ گئے ہیں، یہاں تک کہ قضا نماز بھی نہیں پڑھی جاتی۔ ان شاء اللہ! کچھ دنوں تک بہتری کی امید ہے۔ حضرت! کہاں سے دوبارہ شروع کرنا چاہئے؟ جزاک اللہ۔
جواب:
آپ اپنے پرانے معمولات مجھے بتا دیجئے گا اور جب صحت ہوجائے تو ان شاء اللہ میں بتا دوں گا۔
سوال نمبر 7:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ میرے پیارے مرشد، حضرت شاہ صاحب، حضرت جی! فقہ کی کتاب آج میں نے بھجوائی ہے۔ حضرت والا! آپ نے مجھے ذکر خفی بتایا تھا۔ حضرت والا! مجھے طریقہ ذرا بتا دیں۔ آپ نے فرمایا تھا کہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ پانچ سو مرتبہ پڑھنے کے بعد مراقبہ کرنا ہے۔ مہربانی کر کے ذرا طریقہ بتا دیں۔ جزاک اللہ۔
جواب:
پانچ سو مرتبہ جلدی جلدی ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ زبان سے کہنا ہے، پھر آپ نے دس منٹ کے لئے آنکھیں بند، زبان بند اور قبلہ رخ بیٹھ کر اسی ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ پر یہ تصور کرنا ہے کہ آپ کے دل میں اب اسی طریقہ سے ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ ہو رہا ہے۔
سوال نمبر 8:
السلام علیکم۔ حضرت! لاہور سے فلاں عرض کر رہا ہوں۔ میرا جہری ذکر دو سو، چار سو، چھ سو اور گیارہ ہزار مرتبہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ ہے۔ گزشتہ ماہ عیوب کی فہرست دیکھ کر آپ نے ذکر کے ساتھ دنیا کی محبت اور لوگوں کی پروا دل سے نکلنے کا تصور کرنے کی تلقین کی تھی، مگر ذکر کے دوران ذہن فوراً منتشر ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے قبول فرما لیں، ورنہ میرے ذکر کی حالت تو الٹا قابل وبال ہے۔ اور اس مہینہ تین چار دفعہ فجر کی نماز بھی قضا ہوگئی تھی۔ حضرت! پچھلی بار آپ نے سلوک سے چلانے کا بھی فرمایا تھا۔
جواب:
دیکھیں! آپ اپنی ذکر والی line ٹھیک کریں، پھر اس کے بعد سلوک اور تمام چیزیں ٹھیک ہوں گی۔ ذکر سلوک سے آسان ہے، اگر اس میں آپ کے ساتھ مسئلہ ہے، تو پھر سلوک کیسے شروع کریں گے؟ کیونکہ اس کے لئے تو زیادہ ہمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہٰذا آپ یہ ذکر والا معاملہ اور نمازوں والا معاملہ ٹھیک کر لیں کہ نماز آپ سے کسی حالت میں بھی نہ چھوٹے، کیونکہ یہ بھی مجاہدہ ہے، ابتدائی سلوک اسی سے ہوتا ہے۔ لہٰذا آپ نمازوں کا مجاہدہ کر لیں کہ آپ کی نماز قضا نہ ہو اور اپنا ذکر باقاعدگی کے ساتھ جاری رکھیں اور اپنے بارے میں بتاتے جائیں، ان شاء اللہ! اس کے بعد جب ضرورت پڑے گی، تو پھر آپ کو بتا دیں گے۔
سوال نمبر 9:
السلام علیکم۔ حضرت جی! میرے وظیفے کا مہینہ پورا ہوگیا ہے۔ حضرت! وظیفہ لینے میں ایک ہفتہ کی تاخیر ہوگئی ہے، کیونکہ میں میسج کرنا بھول گئی تھی۔ حضرت جی! میرا وظیفہ چھ ہزار مرتبہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کا ذکر زبان پر، تین مرتبہ آیت الکرسی اور پندرہ منٹ کا دل پر مراقبہ تھا۔ حضرت! میں جب دل میں مراقبہ کرتی ہوں، تو کبھی کبھی ’’اَللّٰہ‘‘ محسوس ہوجاتا ہے، لیکن مسلسل نہیں ہوتا۔ وظیفہ اس مہینے میں تین مرتبہ چھوٹ بھی گیا ہے۔ حضرت! میں نے صبح کا وقت وظیفہ کے لئے نکالا ہوا ہے اور جب کبھی اس وقت موقع نہ ملا، تو پھر دوسرے وقت میں ویسے ہی ٹائم نہیں دے پاتی، اس لئے مجھ سے وظیفہ چھوٹ جاتا ہے۔ حضرت! جب بیماری کے لئے اسماء الحسنیٰ کا وظیفہ ملا تو اَلْحَمْدُ للہ! اللہ کے فضل اور دعا سے طبیعت ٹھیک ہوگئی ہے۔ حضرت جی! اب میرے لئے آگے کیا حکم ہے؟ کوتاہی پر معافی چاہتی ہوں، دعاؤں کی طلبگار ہوں۔
جواب:
سبحان اللہ! بڑی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بیماریوں سے شفا عطا فرما دی۔ لیکن پھر آپ نے شکر کے طور پر وظیفہ قضا کردیا، یہ اچھا شکر کرنے کا طریقہ ہے۔ آئندہ کے لئے اس کا خیال رکھیں اور اپنے وظیفے میں کوئی ناغہ نہ کریں، ورنہ انسان بالکل کورے کا کورا رہ جاتا ہے۔ اب آپ اپنا یہی وظیفہ ایک مہینہ اور چلائیں اور اس میں بالکل ناغہ نہ ہونے دیں اور نماز بھی بالکل قضا نہ ہو، پھر ان شاء اللہ! اس کے بارے میں بتاؤں گا۔
سوال نمبر 10:
السلام علیکم۔ حضرت جی! امید ہے کہ آپ عافیت سے ہوں گے۔ حضرت جی! اَلْحَمْدُ للہ! میں نے آپ کی دعاؤں اور توجہ سے ایک مہینہ 200 مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘، 400 مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، 600 مرتبہ ’’حَقْ‘‘ اور ساڑھے تین ہزار مرتبہ ’’اَللّٰہ‘‘ کی تسبیحات پابندی کے ساتھ کی ہیں۔ اَلْحَمْدُ للہ! باقی اعمال بھی پابندی کے ساتھ جاری ہیں۔ آپ سے دعاؤں اور مزید رہنمائی کی درخواست ہے۔
جواب:
اب ماشاء اللہ! ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ 4000 مرتبہ کر لیں اور باقی سب وہی رکھیں۔ اللہ جل شانہٗ مزید توفیقات سے نوازے اور استقامت نصیب فرمائے۔
سوال نمبر 11:
السلام علیکم۔ حضرت جی! مجھے اکثر خواب میں فضلہ نظر آتا ہے خود کرتے ہوئے، کپڑے یا جسم پر لگتے ہوئے یا واش روم کرتے ہوئے۔ یہ اکثر خواب آجاتا ہے، ignore کرنے کے باوجود بھی پریشانی ہوتی ہے۔ رات کو دعائیں اور بستر بھی چھاڑ کے سوتے ہیں۔
جواب:
بس سنت کے مطابق وقت گزارنے کی کوشش کریں، دل سے دنیا کی محبت کو نکالنے کی کوشش کر لیں، یہ دنیا کی محبت ہے، جو آپ کو مختلف صورتوں میں نظر آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے محفوظ فرمائے۔
سوال نمبر 12:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
I pray you are well dear حضرت! اَلْحَمْدُ للہ احوال are getting better through your فکر and دعا especially as I am very slowly starting to get consistency in all معمولات اَلْحَمْدُ للہ. I have fixed a time for everything which helps a lot. I have been trying to use a second simple phone but it presented many issues so I have to revert to only using the same smart phone but my SOP is to leave it in the kitchen when I am at home as home is where I easily get distracted. I had two questions dear Sheikh. During Salah time at work all the senior doctors and surgeons make a specific Arab doctor lead Salah but he has no beared. Can I pray behind him or should I pray alone at different time? You explained to us that we should not think of ourselves as بزرگ last week جزاک اللہ. However, I sometime think that usually in دنیا we end to be the best versions of ourselves. So should we not aim high in deen especially when someone has been blessed with some knowledge of deen or it is wrong if it feels that ones اعمال should be better than others as often the عوام look towards him as a role model?
جواب:
جہاں تک بغیر داڑھی والے کے پیچھے نماز پڑھنے کی بات ہے، تو اس کے بارے میں فتاویٰ بھی ہیں اور احادیث شریفہ میں بھی یہ بات ہے کہ فاسق و فاجر کے پیچھے بھی نماز پڑھ سکتے ہو۔ ظاہر ہے کہ داڑھی نہ رکھنے والا فاسق ہی ہے، لیکن یہ احوال پر منحصر ہے کہ آپ کون سے حالات میں ہیں، اس کے حساب سے فتویٰ ہوگا۔ اب انگلینڈ جیسی جگہ میں تو مفتی صاحب بھی فرما رہے ہیں کہ اگر امام مقرر ہے تو اس بغیر داڑھی والے کے امام پیچھے نماز پڑھنے کی گنجائش ہے۔ کیونکہ اس کا جو وبال ہے، وہ مقرر کرنے والوں کے ذمہ ہے، گویا یہ اکیلے پڑھنے سے بہتر ہوگا۔ کیونکہ داڑھی والے کے پیچھے پڑھنے سے تو یہ بہتر نہیں ہوگا، لیکن اکیلے پڑھنے والے سے یہ بہتر ہوگا۔ بہرحال آپ اب دیکھ لیں کہ کیا صورتحال ہے۔ اگر اس کے علاوہ کچھ ہوسکتا ہے، کوئی option ہو تو پھر تو ٹھیک ہے، ورنہ اس فتویٰ پر عمل کیا جاسکتا ہے۔ جہاں تک دوسرے سوال کی بات ہے تو اس میں یہ بات ہے کہ اپنے آپ کو بزرگ نہیں سمجھنا چاہئے۔ آپ نے پوچھا ہے کہ میں سوچتا ہوں کہ جیسے دنیا میں ہم آگے ترقی کرنا چاہتے ہیں، تو اس طرح دین میں ترقی کی سوچ بھی ہونی چاہئے، یہ بہتر ہے، میں نے یہ تو نہیں کہا کہ دین میں ترقی کا سوچا نہیں جاسکتا، بلکہ مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ بار بار فرماتے ہیں کہ آگے بڑھو، آگے بڑھو، آگے بڑھو، لیکن کبھی انہوں نے یہ فرمایا ہے کہ بزرگ بننے کا سوچو؟ بزرگ بننے کا سوچنا اور چیز ہے اور دین میں ترقی کرنا اور چیز ہے۔ دین میں ترقی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ شریعت کی پوری پوری پابندی ہو، لیکن پھر بھی اپنے آپ کو انسان بزرگ نہیں سمجھ سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اصل بات قابلیت پر نہیں، قبولیت پر ہے یعنی ہمارے اعمال آیا قبول ہو رہے ہیں یا نہیں ہو رہے؟ یہ پتا چلے گا قیامت میں، اس وقت اپنے آپ کو بیشک بزرگ سمجھ لینا، پھر اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن یہاں تو آپ کو پتا نہیں ہے، نہ مجھے پتا ہے، تو پھر کیسے ہم اپنے آپ کو بزرگ سمجھ سکتے ہیں؟ لہٰذا بزرگ سمجھنے پر پابندی ہے، بزرگ بن جانے میں پابندی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو بہت بزرگ بنا دے، ہم تو آپ کے لئے یہ دعا کرتے ہیں، لیکن کبھی بھی آپ اپنے آپ کو بزرگ نہ سمجھیں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ ہم سے زیادہ جانتے تھے۔ حضرت نے فرمایا تھا کہ بھائی! بزرگوں کی طرح اپنے آپ کو نہ سمجھو۔ اللہ پاک نے بزرگوں جیسا معاملہ آپ کے ساتھ کیا تو پھر کیا کرو گے؟ اس وجہ سے اپنے آپ کو سادہ مسلمان سمجھنا چاہئے اور دین میں ترقی اعمال کے لحاظ سے کرنی چاہئے، سوچ کے لحاظ سے نہیں یعنی اعمال خوب سے خوب تر ہوں اور اس کی کوشش کرنی چاہئے۔
سوال نمبر 13:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! اللہ کے فضل سے میرا ذکر مکمل ہو چکا ہے۔ میرا ذکر 2 سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘، 4 سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، 6 سو مرتبہ ’’حَقْ‘‘ اور ساڑھے پانچ ہزار مرتبہ ’’اَللّٰہ‘‘ ہے۔ اس کے ساتھ پانچوں لطائف پر دس دس منٹ اور پندرہ منٹ مراقبۂ دعائیہ ہے۔ آپ نے زبان، کان اور آنکھ کو کنٹرول کرنے کا سبق دیا تھا، اس میں کوشش جاری ہے اور اس میں کافی فائدہ ہو رہا ہے۔ مزید رہنمائی کی درخواست ہے۔
جواب:
ماشاء اللہ! پہلی بات یہ ہے کہ جو آپ کا ذکر ہے، وہ آپ جاری رکھیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ کوشش کر لیں کہ کوئی بات آپ کی زبان سے فضول نہ نکلے۔ بس اس بات کی کوشش کر لیں اس دفعہ۔
سوال نمبر 14:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اَلْحَمْدُ للہ! میرا ذکر جاری ہے، جو فجر کے بعد اشراق کی نماز تک مسجد میں بیٹھ کر پورا کرتا ہوں۔ باقی مجھے کچھ پریشانی ہے مکان تبدیل کرنے کی، دوسرا مکان ابھی نہیں ملا۔ دعا کی درخواست ہے۔
جواب:
دعا ہے کہ اللہ جل شانہٗ آپ کو اچھا مکان دے، جس میں دین اور دنیا دونوں کا فائدہ ہو۔
سوال نمبر 15:
حضرت! پیر والے دن احوال لکھ کر بھیج دیتے ہیں، لیکن انٹرنیٹ کی خرابی کی وجہ سے send نہیں ہوتا، کبھی ایک دن، کبھی دو دن بعد send ہوتا ہے۔ اس پر معذرت خواہ ہوں۔
جواب:
اس طرح نہ کیا کریں، بلکہ اس کو پیر سے پہلے بھیج دیا کریں، مثلاً دو دن پہلے بھیج دیں، تاکہ پیر کو مل جائیں۔ اگر آپ عین پیر کو بھیجیں گے تو پھر ظاہر ہے کہ اگر انٹرنیٹ بند ہوگا، تو دو دن بعد ملے گا اور وہ پیر کا دن نہیں ہوگا، جس سے پھر ایک ہفتہ انتظار کرنا پڑے گا، اس وجہ سے پیر سے ایک دو دن پہلے بھیج دیا کریں۔
سوال نمبر 16:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت! مزاج بخیر و عافیت ہوں گے۔ بندہ کو جو ذکر دیا تھا، اس کو ایک مہینہ بلاناغہ پورا ہوگیا ہے۔ ذکر یہ تھا، 2 سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘، 4 سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، 6 سو مرتبہ ’’حَقْ‘‘ اور 5سو مرتبہ ’’اَللّٰہ‘‘۔ اور مراقبہ شانِ جامع تھا، جو کہ محسوس ہوتا ہے، اس طرح کہ بندہ کا نفس پر کنٹرول ہوگیا ہے اور گناہ پر جو بے چینی ہوتی ہے وہ بیان سے باہر ہے۔
جواب:
ماشاء اللہ! اللہ تعالیٰ مزید توفیقات سے نوازے۔ اب آپ پانچ سو مرتبہ کی جگہ ایک ہزار مرتبہ ’’اَللّٰہ‘‘ کر لیا کریں اور مراقبہ شانِ جامع کو فی الحال جاری رکھیں۔
سوال نمبر 17:
حضرت! اگر کوئی آدمی اپنے شیخ سے بدگمان ہوجائے، تو اس سے بیعت ٹوٹ جاتی ہے؟
جواب:
بدگمانی سے بیعت ٹوٹنے کا فیصلہ تو اللہ پاک کو بہترین معلوم ہے، لیکن یہ بات ہے کہ نقصان ہوتا ہے، اس میں کوئی شک نہیں۔
سوال نمبر 18:
اگر وہ شیخ کو بتائے بغیر تجدید بیعت کرے، مثلاً کوئی اور آدمی بیعت کر رہا ہو، تو اس کے ساتھ وہ بھی شامل ہوجائے اور وہ اپنے ذہن میں اس کو تجدید بیعت سمجھے تو کیا کرسکتا ہے؟
جواب:
اصل میں دیکھیں! تجدید کی تو ضرورت نہیں ہے، کیونکہ بیعت ٹوٹنے کی بات نہیں ہوئی۔ البتہ یہ بات ہے کہ اپنی اس بدگمانی کو دور کر لے، بلکہ اس کا حکم تو عام لوگوں کے لئے بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ﴾ (الحجرات: 12)
ترجمہ: ’’بعض گمان گناہ ہوتے ہیں‘‘۔
مطلب یہ ہے کہ قرآن پاک کا حکم ویسے بھی یہی ہے کہ بدگمانی نہیں ہونی چاہئے، کیونکہ بہت ساری باتیں بدگمانی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ بلکہ اس دفعہ ’’مثنوی مولانا روم‘‘ میں جو بیان آیا تھا، اس میں زیادہ تر بیان یہی تھا کہ اگر آپ کو کوئی چیز معلوم نہیں ہے، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ایسی ہی ہے، جیسی آپ سمجھ رہے ہیں، کیونکہ آپ بعض دفعہ ایک بات ایک طرح سمجھ رہے ہوتے ہیں، لیکن وہ دوسری طرح ہوتی ہے۔ اس وجہ سے بہت ساری باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ اللہ جل شانہٗ کا ایک خاص نظام ہوتا ہے، مثلاً کسی کے لئے یہ ہے کہ اس کو ignore کیا جائے یعنی اس کی اصلاح کے لئے طریقہ یہ ہو کہ اس کو ignore کیا جائے۔ اس پر اگر وہ بدگمان ہوجائے، مثلاً اگر اس کو مرض یہ ہو کہ وہ اپنے آپ کو کچھ سمجھتا ہو، تو اس کا علاج کیسے ہوگا؟ اس کا علاج یہ ہے کہ اسے ignore کیا جائے اور اس کی پروا نہ کی جائے۔ اس سے اب اس کا دل ٹوٹے گا، اگرچہ عیب خود اس میں ہے، لیکن وہ اس کو کسی دوسرے میں سمجھ رہا ہے۔ اس طرح بہت ساری باتیں ہوتی ہیں، جو انسان کو معلوم نہیں ہوتیں، لیکن اسی میں اس کی بہتری ہوتی ہے۔ جیسے خواجہ عزیز الحسن مجذوب رحمۃ اللہ علیہ جو اتنے بڑے عاشق اور بزرگ ہیں، اور حضرت بھی اس کے بڑے معترف تھے، لیکن ایک چھوٹی سی بات پر خانقاہ سے باہر نکال دیا۔ بات بھی یہ تھی کہ دوات رکھا ہوا تھا اور کسی کو ٹھوکر لگ گئی، جس سے سیاہی بکھر گئی، تو اس بے پرواہی پر کہ ایسی جگہ دوات کیوں رکھی تھی؟ اپنی جگہ پہ کیوں نہیں رکھی تھی؟ اس سے یہ نقصان ہوا ہے، تو حضرت نے ان کو خانقاہ سے نکال دیا۔ اب جب خانقاہ سے نکال دیا، تو وہ تو عاشق تھے، اس لئے سیڑھی میں بیٹھ گئے اور کہتے تھے کہ:
ادھر وہ در نہ کھولیں گے، ادھر میں در نہ چھوڑوں گا
حکومت اپنی اپنی ہے کہیں ان کی کہیں میری
اب مسلسل یہ کہتے جا رہے تھے۔ حضرت کو تھوڑی دیر کے بعد خیال آیا کہ وہ باولا کدھر ہے؟ تو بتایا گیا کہ وہ تو باہر بیٹھا ہوا ہے اور اس طرح کہہ رہا ہے۔ فرمایا: لے آؤ۔ اور اس کو فرمایا کہ آئندہ کے لئے احتیاط کرو، اس طرح نہیں کرو۔ اب ظاہر ہے کہ ان کی اصلاح اسی میں تھی، اگرچہ ان کی اصلاح ہو بھی چکی ہو، لیکن اس پر مزید ترقی اگر اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے رکھی تھی، تو اس کے لئے ظاہر ہے کہ یہ فائدہ کی بات تھی۔ اب اگر کوئی آدمی یہ کہہ دے کہ اوہ یار! اس میں کیا مسئلہ تھا؟ چھوٹی سی بات تھی، لیکن اس کو اتنا چڑھا دیا، تو اس کا نتیجہ کیا ہوتا؟ لہٰذا شیخ کے سامنے اصل بات ہوتی ہے۔ باقی شیخ کچھ بھی نہیں دیتا، یہ میں ہزارہا مرتبہ کہہ چکا ہوں کہ شیخ کچھ بھی نہیں دے سکتا، بلکہ دینے والی ذات صرف اللہ کی ہے، لیکن اللہ جل شانہٗ نے ہر چیز کے دینے کے اسباب بنائے ہوئے ہیں۔ اور ان اسباب میں یہ بھی ہے کہ شیخ کے ذریعے دیتے ہیں۔ اس لئے اگر شیخ کے ساتھ اس کا تعلق ٹھیک ہوتا ہے، تو ماشاء اللہ! اس کو اللہ پاک بہت نوازتے ہیں۔ میں نے جو کلام اپنے شیخ کے بارے میں ’’بیاد شیخ‘‘ کے عنوان سے کہا تھا، اس کے بعد ایک صاحب کو حضرت کی زیارت ہوئی یعنی حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی۔ حضرتؒ نے فرمایا: یہ وہ وفاداری ہے کہ اللہ پاک اس کو کئی گناہ بڑھا کر پھر اس کو واپس کردیتے ہیں۔ بلکہ آج میں نے ایک زبردست بات راستے میں میجر حسین صاحب جو میرے ساتھ صبح تھے، ان کو میں نے چلتے چلتے بتائی۔ میں نے کہا کہ دیکھیں! حدیث کے فن میں ایک چیز ہوتی ہے ’’تدلیس‘‘، اور اس راوی کو مدلس کہتے ہیں جو اپنے استاذ سے نقل نہ کرے، بلکہ استاذ کے استاذ سے نقل کرے جو زیادہ مشہور ہو یعنی اپنی نسبت استاذ کے استاذ سے کرے، کیونکہ وہ زیادہ مشہور ہوتا ہے۔ اب اس میں نفس کا ایک کھیل تو ہے، گویا کہ وہ اپنے آپ کو کچھ سمجھنے والا ہے یعنی استاذ کے بارے میں ذرا تخفیف والی بات ہوتی ہے۔ تو حدیث کے فن میں اس کو ایک عیب قرار دیا گیا ہے، اور ان کی حدیث کو قبول کرنے میں کچھ سوچا جاتا ہے کہ فلاں مدلس تھا۔ لیکن جو اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتا اور اپنے استاذ کو بہت regard دیتا ہے، تو اس کو پھر اللہ والا بنا دیا جاتا ہے، جیسے حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ایک دفعہ کھڑے ہوگئے۔ شاگردوں نے پوچھا کہ حضرت! کیا بات ہے؟ آپ کیوں کھڑے ہیں؟ فرمایا: میرے استاذ آرہے ہیں۔ ادھر ادھر جب دیکھا تو کوئی ایسا شخص نہیں تھا، جس کو ہم امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا استاذ کہہ سکیں۔ تو انہوں نے کہا کہ حضرت! آپ کے استاذ کدھر ہیں؟ تو ایک مصلی آرہا تھا، اس کے بارے میں فرمایا کہ یہ میرا استاذ ہے۔ انہوں نے کہا کہ حضرت! یہ آپ کے کیسے استاذ ہیں؟ فرمایا: ایک دفعہ مجھے مسئلے کی ضرورت ہوئی تھی کہ کتا کب بالغ ہوتا ہے؟ تو یہ کسی اور کو معلوم نہیں تھا۔ میں نے ان سے پوچھا، تو اس نے مجھے بتایا تھا۔ اس لئے یہ میرا استاذ ہوگیا۔ اب دیکھیں! انہوں نے اپنے مصلی کو اپنا استاذ سمجھا، تو اللہ تعالیٰ نے ان کو علم کے کس مقام پر پہنچا دیا۔ دوسری طرف اس ظالم کو دیکھیں یعنی حکیم نورالدین جو قادیانی ہوگیا تھا۔ اس کا یہ عمل تھا کہ وہ جس استاذ کے پاس جاتا تو اخیر میں اس کو کہتا کہ جی! آپ مجھے پڑھانے کے قابل نہیں ہیں اور اس کو چھوڑ دیتا۔ آخری جس استاذ کو چھوڑ رہا تھا، تو اس نے کہا کہ چلا جا، لیکن ایک تو اپنے آپ کو خدا نہ کہنا اور دوسرا اپنے آپ کو رسول نہ کہنا۔ انہوں نے کہا کہ یہ کیا مطلب ہے؟ آپ کیا کہہ رہے ہیں مجھے؟ انہوں نے کہا کہ دیکھیں! ہر عیب سے تو خدا ہی پاک ہے، لیکن تو سمجھتا ہے کہ شاید تو ہی بالکل ہر چیز سے پاک ہے۔ اور رسولوں سے ہی اختلاف نہیں کیا جاسکتا، لیکن تو اپنے آپ سے اختلاف کو گوارا نہیں کرتا۔ اس لئے اپنے آپ کو خدا نہ سمجھ اور اپنے آپ کو رسول نہ سمجھ۔ اب دیکھیں! کہ ایک طرف تو اپنے آپ کو اتنا سمجھ رہا تھا اور دوسری طرف سزا کے طور پر غلام احمد قادیانی جس کو انسان بھی کہنا مشکل ہے، اس کے ہاتھ پہ بیعت کر لی اور کہہ دیا ’’اَشْھَدُ اَنَّکَ رَسُولُ اللہِ‘‘ اور اس کے ہاتھ پر بیعت ہوگیا۔ یہ سزا کے طور پر تھا، کیونکہ وہ اپنے آپ کو کچھ سمجھتا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا۔ اور جیسے قسیم کے ساتھ ہوا تھا۔ یہ ایک عالم تھے اور یہ علامہ بصیر رحمۃ اللہ علیہ کے پیچھے پڑ گئے تھے کہ یہ مشرک ہے۔ لوگوں نے سمجھایا بھی کہ یہ عالم ہیں اور اللہ والے ہیں ان کی بے ادبی نہ کرو، لیکن اس کو سمجھ نہیں آئی، تو پھر اخیر میں وہ عیسائی ہوکر مر گیا۔ اب کہاں دوسرے کو مشرک کہنا اور کہاں اتنے بدترین شرک میں مبتلا ہوجانا۔ اس وجہ سے ان باتوں کو اگر انسان اپنے سامنے رکھ کر سمجھے تو میرے خیال میں بہت ساری چیزوں کا جواب مل جاتا ہے۔ باقی بدگمانی تو عام لوگوں کے ساتھ بھی نہیں کرنی چاہئے، کیونکہ شریعت میں تو حسن ظن کے لئے دلیل کی ضرورت نہیں ہے، لیکن سوء ظن کے لئے دلیل کی ضرورت ہے یعنی یہ فقہ کا قاعدہ ہے کہ حسن ظن کے لئے دلیل کی ضرورت نہیں ہے، آپ کسی کے ساتھ بھی نیک گمان کریں، آپ کسی کو ولی اللہ کہہ دیں، اس پر آپ کے اوپر کوئی گرفت نہیں ہے، کیونکہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿اَللّٰهُ وَلِیُّ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ (آل عمران: 68)
ترجمہ: ’’اللہ ایمان والوں کا رکھوالا ہے‘‘۔
لیکن کسی کو اگر آپ کوئی نسبت دیں جو غلط ہو، تو اس کے لئے ثبوت چاہئے ہوگا۔
سوال نمبر 19:
ذکر بالجہر میں اگر نیند آجائے تو چھوڑ دینا چاہئے؟ اور بعد میں کس وقت کریں؟
جواب:
ذکر بالجہر تو نیند کو اڑاتا ہے۔ مراقبہ میں نیند آجاتی ہے، لیکن ذکر بالجہر تو خوب جوش سے کرنا چاہئے۔ اصل بات یہ ہے کہ ذکر کے لئے صحیح وقت کو چننا یہ ایک ضروری امر ہے۔ ہمارے تبلیغی ساتھی جو ہیں، جو ذکر سے اکثر محروم ہوتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ عشاء کے بعد ذکر کرتے ہیں اور بعض دفعہ بستر پر بیٹھ کر ذکر کرتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ سونے کی نیت کر کے وہ ذکر کرتے ہیں۔ اس میں ظاہر ہے کہ پھر نیند آنی ہوتی ہے، کیونکہ سارا ماحول نیند کا ہوتا ہے، پھر وہ کہتے ہیں کہ جی! بس نیند آگئی۔ پھر آہستہ آہستہ بالکل لائن سے کٹ جاتے ہیں۔ اس لئے ذکر بالجہر تو نیند کو بھگانے والا ہے۔
سوال نمبر 20:
ذکر کرتے کرتے نیند آجاتی ہے اور الفاظ آگے پیچھے ہوجاتے ہیں۔
جواب:
اس کی وجہ یہ ہے کہ وقت غلط چنا ہوگا، ورنہ ذکر بالجہر سے تو نیند بھاگتی ہے۔
سوال نمبر 21:
کیا ذکر کے دوران نیند آنے کی صورت میں ذکر کا وقت تبدیل کرنا چاہئے؟
جواب:
جی! وقت تبدیل کرنا چاہئے اور پھر اسی وقت کرنا چاہئے یعنی خوب تجربہ کر کے کہ کون سا وقت بہتر ہے، پھر اسی میں کرنا چاہئے۔ اور یہ ہر انسان کو اپنے احوال کا پتا ہوتا ہے کہ میرے لئے کون سا ٹائم زیادہ بہتر ہے، اس کے حساب سے پھر کرنا چاہئے۔
سوال نمبر 22:
اگر کہیں ایسا ہو کہ ذکر کرتے ہوئے نیند آجائے، تو اس کو پھر دوبارہ کرنا چاہئے یا نہیں؟ کیونکہ جو ہوا ہے، وہ تو خانہ پوری ہوئی ہے۔
جواب:
اگر وقت غلط منتخب ہوچکا ہوگا، تو دوبارہ بھی کریں گے، پھر بھی ویسے ہی ہوگا یعنی دوبارہ بھی ٹھیک نہیں ہوگا۔
سوال نمبر 23:
معمول کے ساتھ ایسا نہ ہو، لیکن کسی وقت اس طرح ہوجائے تو پھر؟
جواب:
ہاں! اگر تھکاوٹ وغیرہ ہو، تو پھر اس کی اجازت ہے یعنی پھر سو جائے اور اس کے بعد جب اٹھے تو پھر کر لے، لیکن اس کو عادت نہیں بنانا چاہئے۔
سوال نمبر 24:
السلام علیکم۔ حضرت! مقامِ حیرت بندے کو اللہ کے ساتھ ہوتا ہے؟ کیا مقام حیرت کا کوئی درجہ مرید کو شیخ کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے؟
جواب:
یعنی شیخ کے کاموں پر حیرت ہو یا کس چیز کے ساتھ حیرت ہو؟ اس کی تشریح فرما دیں، پھر جواب دیں گے۔
سوال نمبر 25:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! اللہ پاک سے آپ کی اور آپ کے جملہ متعلقین کی صحت و تندرستی کے لئے دعاگو ہوں۔ حضرت جی! میرا مسئلہ یہ ہے کہ آج کل ادارہ میں ایک خاتون کی transfer ہوگئی ہے، جو کہ میری junior ہے۔ اس کے باعث اکثر نہ چاہتے ہوئے بھی نظر اٹھ جاتی ہے۔ برائے مہربانی غض بصر کی مشق کے بارے میں رہنمائی فرما دیں۔ اللہ پاک آپ کے درجات کو بلند فرمائے۔ آپ کو اجر عظیم عطا فرمائے۔ (آمین)
جواب:
اصل میں غض بصر کا انتظام اللہ نے پہلے سے کیا ہوا ہے، اللہ نے حکم دیا ہے اور اس کا انتظام بھی کیا ہوا ہے۔ آنکھوں کی جو پتلی ہے، جس کو کھولنا کہتے ہیں، اس میں اصل تصویر بنتی ہے، جس سے انسان انسان کو پہچانتا ہے اور کسی بھی چیز کو پہچانتا ہے، لیکن اس کے اوپر نیچے، دائیں بائیں rodes ہوتے ہیں، اس سے کسی چیز کی موجودگی کا احساس تو ہوتا ہے، لیکن اس کی پہچان نہیں ہوتی۔ اب اگر کوئی راستہ پر چل رہا ہے اور نیچے دیکھ رہا ہے، تو اوپر والے rodes کی وجہ سے ان کو پتا چل رہا ہوتا ہے کہ کوئی آرہا ہے، لیکن یہ پتا نہیں کہ کون ہے اور کیسا ہے؟ لہٰذا بچت بھی ہوگئی اور آنکھوں کی حفاظت بھی ہوگئی۔ اسی طرح دائیں بائیں بھی اگر کوئی ہے، تو دل میں اللہ پاک کا خوف ہو اور ایک بات کی ذہن اور دل کے اندر طلب ہو کہ یہ ایک ایسا عمل ہے، جس کے کرنے کی وجہ سے انسان کو اللہ پاک ایمان کی حلاوت نصیب فرماتے ہیں۔ تو اگر آپ یہ ذہن میں رکھیں کہ مجھے اللہ پاک ایمان کی حلاوت کے مواقع زیادہ دے رہے ہیں، تو اس سے مجھے فائدہ اٹھانا چاہئے، پھر اگر ان سے بات چیت بھی ہو، تو نیچے نظر رکھیں یعنی ان کو اگر کوئی کام بھی دینا ہو، تو اس طریقہ سے دیں۔ البتہ اپنے ارادہ سے اس کا انتظام نہیں کرنا چاہئے تھا، وہ آپ نے کیا نہیں۔ ایک دفعہ مجھے اپنے boss نے بلایا، عجیب و غریب بات تھی، مجھے کہا کہ تمھیں subordinate چاہئے؟ میں نے کہا ہاں، کہا فلاں لڑکا ہے، لیکن اس کا عقیدہ ٹھیک نہیں تھا اور ایک لڑکی ہے، جو ابھی ابھی qualify کر چکی ہے، ان دونوں میں سے کس کو آپ subordinate بنانا چاہتے ہیں؟ میں حیران ہوگیا، میں نے کہا یا اللہ! یہ تو عجیب سوال ہے، تو میں نے کہا کہ حضرت! کچھ ٹائم آپ مجھے دے سکتے ہیں؟ کہا ہاں، بالکل ٹھیک ہے، آپ دو تین دن سوچ لیں، پھر مجھے جواب دیں۔ تو سب سے پہلے میں نے local علماء سے پوچھا، جو اس قسم کے لوگوں کے جن کا عقیدہ غلط تھا ان کے بڑے مخالف تھے، انہوں نے کہا بالکل اس کو نہ لیں۔ لیکن مجھے تسلی نہیں ہوئی ان کے جوابوں سے، تو میں اپنے شیخ کے پاس پشاور چلا گیا اور حضرت کے سامنے بات رکھی۔ حضرت نے فرمایا کہ کیا وہ آپ کا subordinate ہوگا؟ میں نے کہا جی ہاں، یعنی آپ کی بات مانے گا؟ میں نے کہا جی ہاں۔ فرمایا: پھر وہ بدعقیدہ لے لو، کیونکہ subordinate ہونے کی وجہ سے اس کا control آپ کے پاس ہوگا، اس لئے وہ کام غلط نہیں کر سکے گا اور فرمایا کہ بدعقیدہ کا boss ہونا خطرناک ہے اور لڑکی کا subordinate ہونا خطرناک ہے، کیونکہ subordinate ہوگی تو پھر آپ کے تابع ہوگی تو آپ کے نفس کے لئے موقع ہوگا۔ اس وجہ سے پھر اپنی حفاظت کرنی زیادہ مشکل ہوگی۔ تو پھر میں نے کہا کہ دیکھو! کتنی بڑی بصیرت ہے اور دل نے فوراً بات قبول کر لی۔ میں نے پھر اس لڑکے کو لے لیا اور اَلْحَمْدُ للہ میرے ساتھ ٹھیک ٹھاک رہا۔ لہٰذا غض بصر کے مواقع تو ہیں اور آپ اس کو سمجھ لیں کہ آپ کا ایک ٹیسٹ ہے، امتحان ہے، جس میں آپ کی promotion ہے، بس یہ ذہن میں رکھیں۔
سوال نمبر 26:
حضرت جی! ذکر جہری دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘، دو سو مرتبہ ’’اِلَّا اللّٰہ‘‘، دو سو مرتبہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘، اور سو مرتبہ ’’اَللّٰہ‘‘ کرتا ہوں، لیکن اس کے بعد قلب پر مراقبہ کی کوشش کرتا ہوں، لیکن ذہنی یکسوئی نہ ہونے کی وجہ سے کافی عرصہ سے مراقبہ نہیں ہوا۔ تو کیا اس کے بجائے جہری ذکر بڑھا سکتا ہوں؟
جواب:
بالکل، اب دو سو، چار سو، چھ سو اور سو مرتبہ یعنی بارہ تسبیح کا یہ ذکر شروع فرما لیں، یہ آپ کے لئے زیادہ بہتر ہے، کیونکہ بعض لوگوں کا مراقبے والا راستہ نہیں ہوتا۔ کیونکہ بعض لوگ مراقبہ نہیں کر پاتے، تو یہ راستہ ان کے لئے زیادہ آسان ہوتا ہے۔
سوال نمبر 27:
ایک سالک کا سوال آیا تھا جو کہ حضرت نے مجلس میں نہیں سُنایا، بلکہ اُس کا صرف جواب حضرت نے دیا ہے۔
جواب:
اپنی ID سے تصویر کو ختم کردیں۔ تصویر بھی ایک بلا ہے، مصیبت ہے۔ ماشاء اللہ ’’سُبْحُانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیْمِ‘‘ یہ اب لگا دیا ہے۔ بلاوجہ اپنے آپ کو گناہگار کرنے والی بات ہے، میں حیران ہوتا ہوں۔ اگر کوئی آدمی تصویر اس لئے رکھتا ہے کہ اس کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا ہو تو یہ خود پسندی ہے، یہ بھی بیماری ہے، یعنی اگر اپنے آپ کو کچھ سمجھتا ہے تو یہ بھی بیماری ہے، عجب ہے۔ اور تصویر کے فقہی حکم میں جائے بغیر اس کے اثرات کو دیکھا جائے تو یہ بات ہے۔ کیونکہ تصویر لوگ کیوں نکالتے ہیں؟ آخر کیا وجہ ہوتی ہے؟ صرف اسی لئے کہ اپنے آپ کو کچھ سمجھتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ میں مشہور ہوجاؤں، مجھے لوگ دیکھیں، میری تعریف کریں۔ تو یہ ساری باتیں بری ہیں، ریاکاری بھی ہے۔ الغرض خواہ مخواہ اپنے آپ کو آ بیل مجھے مار کا مصداق ہے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
۔ نوٹ! تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔