سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 684

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر 1:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

Hoping for your long life and good health. May Allah سبحانہ وتعالیٰ mercy and blessings be upon you and your family. I am فلاں. Hazrat G الحمد للہ I don’t play games anymore. Though I do my prayers and ذکر, I find myself not concentrating. I am missing تہجد. I know only Allah سبحانہ وتعالیٰ can help me and I only ask from Him. I believe in his decree but I am lacking the urge to proceed on this path. I know Allah سبحانہ وتعالیٰ the most merciful. I believed in his mercy but I fear my sense. I feel I have failed in every relationship, say as a doctor, sister, friend, wife, mother and every other relation. I don’t want to blame anybody as I find myself to be blamed but please pray for me and my family for guidance. Sorry for mistakes in everything. Hazrat G, I have one request if you can, as you have a busy schedule, send me all your messages that you sent from this number of yours as I by mistake cleared all chats. If it is possible then only. I don’t want to put you under pressure. Sorry if I waste your time.

جواب:

ما شاء اللہ! اللہ جلّ شانہٗ آپ کو سلامت رکھے اور مشکلات سے نکال دے۔ جہاں تک concentration کی بات ہے، اس میں اکثر لوگوں کو غلط فہمی ہوجاتی ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ concentration اس کو کہتے ہیں کہ کسی اور چیز کا بالکل خیال ہی نہ آئے۔ لیکن اصل دو چیزیں ہیں: ایک ہے؛ اختیاری طور پہ لانا اور ایک ہوتا ہے؛ غیر اختیاری طور پر آنا، یہ دو چیزیں مختلف ہیں، اختیاری طور پر آنے کو تو فوراً روکنا چاہئے، اس کو تو بالکل نہیں کرنا چاہئے اور اسی کے ہم مکلف ہیں۔ جہاں تک غیر اختیاری طور پر آنا ہے، تو یہ بعد میں رک سکتے ہیں، لیکن اس کے لئے کافی ٹائم چاہئے ہوتا ہے۔ حضرت تھانوی صاحب فرماتے ہیں کہ اگر کوئی کہتا ہے کہ میرے لئے سڑک بالکل فارغ کر دی جائے، میں اکیلا اس پہ جاؤں گا، تو کون اس کی پروا کرے گا؟ اگرچہ ممکن تو ہے کہ کسی وقت ایسا status آرہا جائے کہ اس کے لئے واقعی سڑک کو فارغ کیا جائے، لیکن وہ کوئی کوئی ہوگا اور کسی کسی وقت ہوگا۔ پس یہاں پر بھی یہی بات ہے کہ آدمی سمجھے کہ مجھے بالکل ہی خیال نہ آئے، یہ کافی محنت طلب کام ہے اور انسان کے بس میں نہیں ہے۔ اور جو کام انسان کے بس میں نہیں ہے، انسان اس کا مکلف بھی نہیں ہے۔ قرآن میں ہے:

﴿لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا﴾ (البقرۃ: 286)

ترجمہ1: ’’اللہ کسی بھی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ ذمہ داری نہیں سونپتا‘‘۔

البتہ ایک بات ضرور ہے کہ انسان جس environment میں رہتا ہے، اس environment کی گونج اس کو ہر چیز میں سنائی دیتی ہے، جتنا جتنا environment ہم صاف کرتے جائیں گے، اتنے اتنے ہمارے خیالات صاف اور پاک ہوتے جائیں گے، یہ ایک Gradual process ہے۔

خیر! جہاں تک آپ نے کہا کہ آپ فیل ہیں، تو میرے خیال میں آپ فیل نہیں ہیں۔ اس پر مجھے ایک بات یاد آگئی کہ ایک دفعہ تین بزرگوں کی خدمت میں میں حاضر ہوا تھا، وہ آپس میں کسی بات پہ discussion کر رہے تھے، میں بھی اس discussion میں شامل ہوگیا، بعد میں مجھے خیال ہوا کہ بزرگوں کی discussion میں شامل ہونے کی کیا ضرورت تھی۔ وہ تو بزرگ تھے، تجھے کیا ضرورت پڑی تھی کہ تو ان کی باتوں میں شامل ہوگیا، اس وجہ سے مجھے ایک قسم کی guilt محسوس ہورہی تھی۔ صبح میں ان میں سے ایک حضرت کو ملا، تو میں نے معذرت کی اور کہا کہ حضرت! معاف کیجئے، مجھے بزرگوں کا ادب کرنا نہیں آتا، اسی وجہ سے میں آپ کی باتوں میں مخل ہوا، جس کی میں معافی چاہتا ہوں۔ حضرت بڑے خوش ہوئے اور فرمایا کہ جو کہتا ہے کہ مجھے ادب کرنا آتا ہے، اس کو نہیں آتا اور جو کہتا ہے کہ مجھے نہیں آتا، اس کو آتا ہے۔ اس وجہ سے آپ بالکل پروا نہ کریں، اللہ پاک آپ کو فیل نہ کرے، اللہ جلّ شانہٗ آپ کو ہر چیز میں کامیاب فرمائے۔ ہماری طرف سے تو محنت ہے، باقی غیر اختیاری چیزوں میں تو ہمارا کوئی role نہیں ہے۔ جہاں تک request کی آپ نے بات کی ہے، تو میں ان شاء اللہ اگر موقع ملا، تو ضرور اس کو کسی وقت کر لوں گا، اللہ پاک آسانی فرما دے۔

سوال نمبر 2:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

Hazrat I pray you are in good health in all affairs. This message is to notify your good self that الحمد للہ I and others have been studying مکتوب نمبر 62 with Sheikh فلاں and I took part in mostly all the fourteen lessons on its translation. What Sheikh had done for us helped greatly in this. We are recently progressing on to مکتوب نمبر 287 which is the more lengthy complicated مکتوب. In this regard, with Allah’s توفیق I have been working on a translation of the initial pages. the translation is based on two other English translations done by authors as well as listening from your reading of مکتوب 287 in the recordings. I took all three sources into consideration with a particular focus on your reading being the foremost in terms of a guide. Below is the translation. Your guidance, advice, comments, prayers and توجہ are requested and appreciated.

جواب:

ما شاء اللہ!

May Allah سبحانہ وتعالیٰ help you in this regard. You are doing a very good job. May Allah سبحانہ وتعالیٰ help you in this and may you get all the benefits from these .مکتوبات شریفہ

سوال نمبر 3:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اسوۂ رسول کے گروپ میں ایک خاتون نے دو سوال پوچھے ہیں، وہ سوال میں آپ حضرت کو forward کر رہی ہوں۔

نمبر 1: یہ عرض خصوصی طور پر خواتین اور نوجوان لڑکیوں کے بارے میں ہے، جس نے اپنے شیخ کو دیکھا بھی ہو اور شیخ کا دل جوان بھی ہو۔ غرض یہ ہے کہ تصوف سے مراد اللہ تعالیٰ کی رضا اور محبت حاصل کرنا ہے، لیکن چونکہ اس میں تصورِ شیخ بھی ہوتا ہے اور جب انسان مراقبہ کرتا ہے، تو از خود شیخ کا تصور آجاتا ہے، مراقبہ وغیرہ تو گھنٹہ کے بعد ختم ہوجاتا ہے، لیکن شیخ کا خیال رفتہ رفتہ انسان کے دل و دماغ میں پختہ ہوتا جاتا ہے، حالانکہ اس نے مراقبہ صرف اللہ کی رضا اور محبت کے لئے شروع کیا ہوتا ہے، شیخ کی محبت میں اس کے خیالوں میں بعض اوقات انسان مبتلا ہوجاتا ہے۔ شیخ کی محبت تو ضروری ہے تصوف میں ترقی کے لئے، لیکن یہاں محبت نفسانی یا یوں کہیں کہ نفسانی خواہشات بھی اس میں شامل ہوجاتی ہیں، وہ حالانکہ ایسا کرنا نہیں چاہتی، لیکن اختیاری طور پر ہو رہا ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں کیا کرنا زیادہ بہتر اور افضل ہے؟ برائے کرم اس کا جواب اگر بڑوں سے پوچھ لیں، تو اور زیادہ تسلی ہوجائے گی۔

نمبر 2: میرا خود کا حال یہ ہے کہ میں پہلے نقشبندی شیخ سے بیعت تھی، اس کا مراقبہ کرنے میں اور ذکر وغیرہ کرنے میں مزہ آتا تھا اور ہر وقت یہ خیال ہوتا تھا کہ جلدی سے دل کی تاریکیاں دور ہوجائیں، اللہ اور رسول ﷺ کی محبت دل میں آجائے اور فنا فی اللہ ہوجاؤں، لیکن پہلے شیخ سے رابطہ ممکن نہ تھا اور تصوف میں رابطۂ شیخ تو ضروری ہے، جس کی وجہ سے پھر میں نے مفتی فلاں کے خلیفہ مجاز مفتی فلاں سے بیعت کی، ان سے اصلاح لے رہی ہوں ان کی بیوی کے ذریعہ سے، ان کا طریقۂ بیعت اور اصلاح مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے طرز پر ہے۔ حضرت! اصل تو اصلاح ہی ہے کہ انسان کے حقوق العباد کے معاملات درست ہوجائیں۔ ان کا طرزِ اصلاح اچھا معلوم ہوا ہے بمقابلہ نقشبندی مشائخ کے۔ میں کوشش بھی کرتی ہوں کہ وہ مزہ اور شوق تو نہیں ہے، جو نقشبندیہ میں ہوتا تھا، لیکن چونکہ مقصد اللہ کی رضامندی ہے، اس لئے میں خود کو زبردستی اس پر آمادہ کرتی ہوں، حالانکہ بیعت بھی اپنی مرضی سے کی تھی۔ پس کیا اس بیعت کو برقرار رکھوں یا کسی نقشبندیہ سلسلہ والے سے بیعت کروں، تاکہ اپنا ذوق و شوق اور معمولات پورے کروں، فی الحال میں کسی نقشبندیہ سلسلہ والے کو جانتی بھی نہیں اور مفتی فلاں دوسرے جو شیخ ہیں، الحمد للہ وہ شریعت کے پابند بھی ہیں، اصلاح لیتے ہوئے میں اپنی خرابات وغیرہ مکمل طور پر کہہ سکتی ہوں، حالانکہ نقشبندیہ سلسلہ میں ایسا ممکن نہ تھا۔

جواب:

ما شاء اللہ! مجھے آپ کی فکر کی بہت خوشی ہوئی، اللہ کرے کہ سب کو اس کی فکر ہو۔

پہلی بات تصورِ شیخ والی جو آپ نے کی ہے، یہ لازمی امر نہیں ہے۔ حضرت سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ مشہور نقشبندی شیخ ہیں اور مجدد ہیں، ان کے شیخ شاہ عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ بھی نقشبندی تھے، وہ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے بیٹے بھی تھے اور ان کے خلیفہ بھی تھے، انہوں نے ان کو جس وقت تصورِ شیخ تعلیم کیا، تو سید صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ حضرت! اگر یہ تصوف کے لوازمات میں سے ہے، تو میں تصوف کو سلام کہتا ہوں، اس میں میں معذور ہوں، کیوں کہ مجھے یہ شرک نظر آتا ہے اور اگر یہ لوازمات میں سے نہیں ہے، تو پھر مجھے اس سے معاف کردیا جائے۔ شاہ عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ چونکہ بہت جہاں دیدہ بزرگ تھے، اس پر فوراً ان کو گلے لگایا اور فرمایا کہ مجھے آپ کی بات سن کر خوشی ہوئی اور یہ شانِ نبوت کا اثر ہے، میں ان شاء اللہ اسی طریقے سے آپ کو لے چلوں گا، آپ تصور شیخ نہ کریں۔ اب دیکھیں! یہ بھی نقشبندی شیخ ہیں۔ اسی وجہ سے ہمارے سلسلہ میں چونکہ انہی کا فیض آیا ہوا ہے، لہٰذا ہمارے سلسلہ میں بھی تصورِ شیخ نہیں ہے، البتہ اگر خود بخود ہوجائے، تو اس پہ پابندی بھی نہیں ہے، کیونکہ وہ پھر منجانب اللہ ہوتا ہے اور جب منجانب اللہ ہوگا، تو پھر اللہ حفاظت بھی فرما دیں گے، لیکن قصداً تصور کرکے یہ چیز ہمارے ہاں نہیں ہے۔ خود بخود ہم تصور نہیں کرتے اور نہ ہم کرواتے ہیں، البتہ اگر خود بخود ہوجائے، تو ٹھیک ہے۔ اگر آدمی اس کو صرف رسول اللہ ﷺ کی اور اللہ کی محبت کے لئے ذریعہ سمجھے کہ اس کے ذریعے سے مجھے وہ حاصل ہوگی، تو اس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے۔ یہ ایک پاک سلسلہ ہے، لہٰذا پھر اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔

دوسری بات جو آپ نے فرمائی کہ پہلے میں نقشبندی سلسلہ میں تھی، تو مزہ آتا تھا، مجھے نہیں معلوم کہ وہ کون بزرگ تھے، وہ تو اللہ کو پتا ہے یا آپ کو پتا ہے، البتہ ہمارے سلسلہ میں یہ بات ہے کہ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ مزہ مقصود نہیں ہے، اصلاح مقصود ہے، اس وجہ سے اگر اصلاح ہو رہی ہے، تو پھر مزے کی پروا نہ کریں۔ میں آپ کو نقشبندی سلسلہ کی مثال دیتا ہوں، مرزا مظہر جان جاناں رحمۃ اللہ علیہ جو کہ بہت بڑے بزرگ تھے اور ما شاء اللہ! درجۂ اول کے نقشبندی مشائخ میں سے تھے۔ ان کے ایک خلیفہ ہیں شاہ غلام علی رحمۃ اللہ علیہ، وہ بھی بہت بڑے بزرگ ہیں۔ جب وہ حضرت سے بیعت ہونا چاہتے تھے، تو حضرت نے فرمایا کہ بھائی! ہم سے بیعت نہ ہوں، ہمارے ہاں تو بالکل پتھر کے اوپر نمک ڈال کر چاٹنا ہے، ہمارے ہاں کیوں بیعت ہوتے ہو؟ یعنی یہاں کوئی مزہ وغیرہ نہیں ہے۔ تو شاہ غلام علی صاحب نے فرمایا کہ مجھے اس کی کوئی پروا نہیں ہے۔ تو حضرت نے فرمایا کہ اچھا، پھر ٹھیک ہے، پھر آجاؤ۔ اگر ایسی بات ہے، تو پھر کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ پھر ما شاء اللہ! حضرت کے خلیفہ بھی ہوگئے، اللہ نے ان سے بڑا کام لیا، تو شاہ غلام علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ بہت اونچے درجہ کے بزرگ ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ یہ چیزیں مقصود نہیں ہیں، ان لوگوں کو غلط فہمی ہے جو ان کو مقصود سمجھتے ہیں۔ اچھے خیالات کا آنا، اچھے خواب نظر آنا؛ یہ کوئی مقصودی باتیں نہیں ہیں۔ میں حیران ہوگیا کہ ہمارے ایک بزرگ گزرے ہیں، استاد بھی تھے ’’پیر مسرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ‘‘ ایک دفعہ ہم حضرت کے ساتھ جا رہے تھے، حضرت نے فرمایا: کمال ہے لوگوں کا قلب جاری ہوتا ہے اچھے ماحول میں اور ہمارا قلب جاری ہوتا ہے برے ماحول میں۔ مجھے ان کی بات پر اس وقت حیرت ہوئی، لیکن بعد میں مجھے سمجھ آگئی کہ کیا بات فرمائی ہے، کیونکہ برے ماحول میں اگر قلب جاری ہوجائے تو، وہ alarm ہے کہ کوئی گڑبڑ ہو رہی ہے، جس کی اطلاع کی جا رہی ہے اور تنبیہ ہو رہی ہے، تو آدمی alert ہوجائے گا۔ جیسے گھنٹی بجنا شروع ہوجائے، تو ظاہر ہے کہ وہ مفید چیز ہے۔

بہرحال! ہمارے ہاں الحمد للہ! Practical approach ہے اور جو چیزیں آپ نے فرمائی ہیں، ان کو بھی ہم غلط نہیں کہتے، لیکن ہم ان کو مقصود نہیں سمجھتے۔ اگر خود بخود کسی کو مزہ آرہا ہے، تو ہم اس کو ختم بھی نہیں کرواتے، لیکن اگر نہیں آرہا، تو ان کو ہم کہتے ہیں کہ یہ مقصود نہیں ہیں۔ ایک دفعہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو کسی نے خط لکھا کہ حضرت! مجھے تو نماز پڑھنے کو بالکل جی نہیں چاہتا اور بس یوں لگتا ہے کہ جیسے پتھر کا بوجھ دل پہ ہے، لیکن پڑھ لیتا ہوں۔ حضرت نے فرمایا کہ خدا کے بندے! جب اللہ پاک سو فیصد نمبر دینا چاہتے ہیں، تو تم کیوں بھاگتے ہو، کیونکہ جب مزہ آئے گا، تو مزے کے کچھ نمبر کٹ جاتے ہیں، کیونکہ اس کے ذریعے سے آپ کو مزہ آرہا ہے، لہٰذا اگر مزہ ختم ہوجائے، تو تمہارا test تو ابھی complete نہیں ہوا، یعنی مشکل سوال ابھی تجھ سے نہیں پوچھا گیا، جیسے پیپر میں جو مشکل سوال ہوتے ہیں، ان کے نمبر بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ پس وہ سوال تو ابھی آپ سے نہیں پوچھا گیا۔ مشکل یہی ہے کہ آپ کو مزہ نہ آئے اور پھر بھی آپ کریں، پس یہ test تو آپ کا ہوا نہیں، لہٰذا نمبر کم ہوجائیں گے۔ لیکن اگر آپ سے وہ سوال پوچھا گیا اور آپ اس میں کامیاب ہوگئے، تو آپ کے نمبر زیادہ ہوجائیں گے۔

بہرحال! آپ کی یہ بات مجھے اچھی معلوم ہوئی، لیکن آپ فکر نہ کریں، آپ ان شیخ کے ساتھ رابطہ رکھیں اور ان سے اصلاح لیں اور ایسی چیزیں جو کہ مطلوب اور مقصود نہیں ہیں، ان کے بارے میں پروا نہ کیا کریں۔

سوال نمبر 4:

جناب شبیر احمد کاکاخیل صاحب! السلام علیکم۔ حضرت! آپ نے 24 جون کو درج ذیل ذکر کا فرمایا تھا، جو اب پورا ہوچکا ہے:

’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ، ’’اَللہ‘‘ پندرہ سو مرتبہ، تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار سو سو دفعہ۔ مزید نماز کے بعد معمول جاری ہے۔ پندرہ منٹ کا مراقبہ دل جمعی کے ساتھ نہ کرنے کی وجہ سے میں نہیں کرسکا۔

جواب:

پہلی باتیں تو ٹھیک ہیں، دل جمعی والی بات ٹھیک نہیں ہے۔ پہلے پہلے تو دل جمعی نہیں ہوتی، وہ تو جب آپ جم کر بیٹھیں گے، تو پھر دل جمعی شروع ہوجائے گی۔ جب آپ بیٹھ نہیں سکتے، تو دل جمعی کیسے آئے گی۔ پہلے تو تم جسم جمعی کرو، پھر اس کے بعد دل جمعی شروع ہوگی۔ ابتدا میں آپ گھبرا گئے، تو پھر کیسے دل جمعی آئے گی۔ پس آپ جسم جمعی شروع کرلیں، پھر ان شاء اللہ آپ کی دل جمعی بھی ہوجائے گی۔ میرے خیال میں نیا ذکر دینے کی بجائے آپ پہلے اسی کی کوشش کریں۔

سوال نمبر 5:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت! مجھے تقریباً ایک ماہ ہوا ہے کہ dieting کر رہی ہوں، جس میں بائیس گھنٹے کی fasting ہے اور میں نے دیکھا ہے کہ اس میں مجاہدہ بھی بہت ہے، کبھی کبھی تھک بھی جاتی ہوں۔ جب ہمت کم ہوجاتی ہے، تو دو رکعت حاجت کے نفل پڑھ لیتی ہوں کہ اللہ ہمت دے دے کہ میں اس کو پورا کروں، پھر تھوڑی بہت ہمت آجاتی ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ دنیاوی چیز جس پر مجھے اجر نہیں ملے گا، میں کیا نیت کروں کہ مجھے مجاہدات پر بھی اجر ملے؟

جواب:

اگر آپ اس کو بیماری سمجھتی ہیں، تو بیماری پر اگر آپ صبر کریں گی، صبر کا اجر ملے گا یا نہیں ملے گا؟ یعنی بیماری کا علاج اگر مشکل ہے، تو وہ آپ کے لئے غیر اختیاری مجاہدہ ہے اور غیر اختیاری مجاہدہ پر بہت فائدہ ہوتا ہے۔ لہٰذا آپ اس کو یہی سمجھیں، پھر ان شاء اللہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

سوال نمبر 6:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت! میں لاہور سے فلاں ہوں فلاں کی معرفت سے۔ حضرت! اللہ تعالیٰ نے بیٹی کی نعمت سے نوازا ہے، اس کے لئے دعاؤں کی درخواست ہے۔ حضرت جی! میری بیٹی کا نام تجویز فرما دیجئے۔ جزاک اللہ! بیٹے کا نام محمد موسیٰ اکرام رکھا تھا، جو آپ نے تجویز فرمایا تھا۔

جواب:

پہلے آپ مجھے اپنی گھریلو خواتین میں سے دو تین کا نام بتا دیں، تاکہ مجھے پتا چل جائے کہ آپ کے ہاں کون سا trend ہے، اس کے حساب سے پھر نام رکھ لیں، کیونکہ عورتوں کو اس معاملہ میں ذرا زیادہ باتیں کرنے کی عادت ہے۔

سوال نمبر 7:

السلام علیکم۔ حضرت جی! مسجد سے باہر نمازیوں کی جوتی سیدھی کرنے کا مجاہدہ شروع کردیا ہے۔ حضرت جی! معلوم کرنا ہے کہ کیا ہر نماز کے بعد یہ مجاہدہ کرنا ہے یا کوئی ایک نماز مقرر کرکے؟ ابھی مقرر کرکے فجر کے بعد شروع کیا ہے۔ جیسے آپ حکم فرمائیں گے، ویسے آپ کے ارشاد کے مطابق کروں گا، ان شاء اللہ۔

جواب:

اصل میں بات یہ ہے کہ یہ کوئی اس طرح کی بات نہیں ہے کہ آپ اس کو بس ایک سبق کے طور پہ کر رہے ہیں، یہ تو اپنے نفس کو سیدھا کرنے والی بات ہے، نفس کو سیدھا کرنے کے لئے آپ سے جتنا ہوسکے، تو کوشش کرلیں۔ اللہ پاک اگر آپ کو پانچوں دفعہ موقع دے رہا ہے، تو اس سے آپ کیوں روگردانی کر رہے ہیں؟

سوال نمبر 8:

السلام علیکم۔ حضرت! الحمد للہ، میرے فلاں بیٹے نے قرآن پاک کا حفظ مکمل کیا ہے، الحمد للہ۔

جواب:

ما شاء اللہ، ما شاء اللہ۔ مبارک ہو، مبارک ہو۔ میری طرف سے بھی اپنے بیٹے کو اور اپنے گھر والوں کو مبارک دے دیں۔

سوال نمبر 9:

السلام علیکم۔ اللہ آپ کو صحت دے اور آپ کا سایہ ہمیشہ ہمارے سر کے اوپر قائم رکھے۔ پانچوں لطائف پہ دس دس منٹ اور پندرہ منٹ سورت فاتحہ کے مفہوم کا فیض دیا تھا۔ تین مہینہ ہوگئے ہیں، پانچ لطائف کی ایک روشنی سی محسوس ہوتی ہے، جو پہلے نہیں ہوتی تھی۔ پہلے صرف ذکر محسوس ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ محسوس ہوتا ہے، جو کال پر بتاؤں گی، message پر اتنا زیادہ نہیں بتا سکتی۔

جواب:

بہرحال! پانچوں لطائف پر دس دس منٹ کا ذکر تو آپ جاری رکھیں گی، اور سورت فاتحہ کے مفہوم کے بجائے اب سورت اخلاص کے مفہوم کو ذہن میں رکھ کر آپ اس کے فیض کا مراقبہ کر لیا کریں۔ اور جو چیزیں بھی اللہ پاک آپ کو دیں، ان پر شکر کیا کریں۔

سوال نمبر 10:

کیا ایک متوسط سالک اپنے احوال کو دیکھ کر خود نتیجہ اخذ کرسکتا ہے کہ اس کا نفس کیا کیا غلطیاں کر رہا ہے؟ کیا اپنے نفس اور شیطان کے دخل کا محاسبہ درست ہے؟ مثلاً: مجھے لگتا ہے کہ میرا نفس بہت زیادہ مجھے کھانے پینے میں لگا رہا ہے، جس سے جسمانی اور روحانی صحت خراب ہو رہی ہے۔

جواب:

دیکھیں! میں نہیں یہ کہہ سکتا کہ یہ ہمیشہ غلط ہوگا اور میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ ہمیشہ یہ ٹھیک ہوگا، لہٰذا ٹھیک ہونے اور غلط ہونے کی probability موجود ہے، جب ایسی probabilty موجود ہو، تو اس میں پھر تردد ہوتا ہے، جب تردد ہوتا ہے، تو تردد کو دور کرنا ضروری ہوتا ہے اور وہ دور ہوگا شیخ سے پوچھنے پر، لہٰذا اس میں نہ پوچھنے کا پھر کیا مسئلہ ہے۔

سوال نمبر 11:

السلام علیکم۔ آپ نے fast کے متعلق استخارہ کا کہا تھا، وہ میں نے کر لیا ہے۔ دوسرا میں FAST میں پردہ پورا کروں گی ان شاء اللہ، کیونکہ میں پہلے بھی نقاب لگا کر پورا پردہ اور نقاب بھی کرکے جاتی تھی، کیونکہ وہاں کا ماحول بھی اچھا نہیں تھا۔ دوسرا میرے پاس اب دو ہی صورتیں ہیں: یا یہ کہ Political Science پڑھوں، اس میں بھی مطمئن نہیں ہوں، کیونکہ وہاں پر جمہوریت کی باتیں ہوتی ہیں اور Business میں بھی پڑھا ہوا ہے، لیکن وہاں سود کی باتیں ہوتی ہیں، مگر کم۔ اب باقی کالجوں میں داخلہ بند ہوگیا ہے، History جیسا subject میں نہیں پڑھ سکتی اور اسلامیات میں میں نے پتا کیا کہ اس میں graduation نہیں ہوتی۔ میں نے LUMS کا استخارہ کیا تھا، تو واضح نفی میں خواب آیا تھا، اب FAST کا استخارہ کیا ہے، اس میں واضح نفی نہیں ہوئی، یعنی دل نفی پر بھی مطمئن نہیں ہے۔

جواب:

اس کا مطلب یہ ہے کہ تردد موجود ہے۔ تو جب تک تردد دور نہ ہو، اس کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے، لہٰذا تردد کو دور ہونا چاہئے۔ بہرحال! جو بھی آپ اپنے والدین کی وجہ سے کریں، تو وہ ذمہ دار ہیں، اس میں میں کچھ نہیں کہہ سکتا، میرا شرح صدر نہیں ہو رہا۔ اگر مجھ سے پوچھیں گے، تو میرا شرحِ صدر نہیں ہو رہا، باقی آپ جو بھی فیصلہ اپنے والدین کی وجہ سے کر رہی ہیں، تو ظاہر ہے کہ پھر وہی ذمہ دار ہوں گے۔

لیڈیز کے لئے Buisness کا کیا فائدہ؟ خواہ مخواہ اپنے آپ کو پھنسانے والی بات ہے، ایسی firms میں جہاں Buisness والی باتیں ہوں، وہاں پہ لیڈیز کی کوئی reason نہیں ہوسکتی۔ ضرورت بھی نہیں ہے، مجبوری ہو تو وہ بھی ایک بات ہے، لیکن یہاں تو مجبوری بھی نہیں ہے، صرف رواج کا مسئلہ ہے اور اس کے لئے اتنا risk لینا؛ کم از کم میرا اس پر شرحِ صدر نہیں ہوسکتا۔

سوال نمبر 12:

السلام علیکم۔ حضرت جی! اللہ پاک سے دعا ہے کہ آپ سلامت رہیں۔ (آمین) اور میرے ذکر کی ترتیب مندرجہ ذیل ہے:

بارہ تسبیح، اس کے بعد پانچ سو زبان سے خفی طور پر ’’اَللہ، اَللہ‘‘ دس منٹ پانچوں لطائف پر ’’اَللہ، اَللہ‘‘ محسوس کرنا اور پندرہ منٹ مراقبۂ معیت ہے، جس میں آپ نے فرمایا کہ دل ہی دل میں اللہ پاک سے دعا بھی مانگیں۔

احوال: حضرت جی! اللہ پاک کا شکر ہے کہ ذکر بھی اچھا جا رہا تھا۔ دعا مانگنے کا بہت مزہ آتا ہے، جو دل میں آتا ہے، مانگتا ہوں دنیا کے لئے بھی اور آخرت کے لئے بھی، کیونکہ دینے والا اللہ پاک ہے۔ پتا ہی نہیں چلتا کہ پندرہ منٹ ہوجاتے ہیں۔

حضرت جی! دو دنوں سے کان بند ہے، دماغ میں نزلہ جمع ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے ماتھے کی بائیں رگ میں تکلیف ہے۔ ذکر جب شروع کرتا ہوں، تو تکلیف اور زیادہ ہوجاتی ہے، جس کی وجہ سے جب تک ٹھیک نہیں ہوجاتا، ذکر نہیں کر پا رہا۔ دعا بھی فرما دیں۔

جواب:

ما شاء اللہ! اللہ جلّ شانہٗ آپ کو جلد صحت عطا فرمائے۔ اس کا علاج کرلیں۔ کانوں کا مسئلہ بعض دفعہ تھوڑا سا مشکل بن سکتا ہے، اس لئے اس کا علاج کرلیں۔ علاج اس کا آسان ہے، کیونکہ نزلے کا پانی بند ہوگیا ہو، تو اس کے لئے میرے خیال میں شاید Spray type کچھ چیزیں ہیں، جن سے وہ کھل جاتا ہے، کسی ڈاکٹر سے مشورہ کرلیں۔

سوال نمبر 13:

السلام علیکم۔ حضرت! میں کافی عرصہ سے اپنی صحت اور اپنی ازدواجی زندگی میں بہت سے مسائل کا سامنا کر رہی ہوں، اس لئے میں اپنا روحانی علاج کروانا چاہتی ہوں۔ جزاک اللہ خیراً۔

جواب:

سب سے پہلے آپ نے مجھے بتانا ہوگا کہ آپ روحانی علاج کس کو کہتی ہیں؟ کیونکہ بعض لوگ روحانی علاج جادو ٹونوں کو کہتے ہیں، بعض لوگ روحانی علاج عملیات وغیرہ کرنے کو کہتے ہیں، بعض لوگ روحانی علاج اپنی اصلاح کو کہتے ہیں۔ آخری تو ٹھیک ہے کہ روحانی علاج ہے، لیکن پہلے دو روحانی علاج نہیں ہیں، کیوں کہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ جسمانی علاج عملیات کے ذریعہ سے بھی ہوسکتا ہے، ڈاکٹر وغیرہ کے ذریعہ سے بھی ہوسکتا ہے۔ اگر عملیات کا مسئلہ ہو، تو پھر عملیات سے علاج کرسکتے ہیں اور اگر میڈیکل مسئلہ ہو، تو پھر ڈاکٹری علاج ہوسکتا ہے، لیکن جہاں تک روحانی علاج ہے، تو وہ صرف اصلاح ہے، کیونکہ روح کا تعلق تو اصلاح کے ساتھ ہے۔ چونکہ confusion ہے، اس وجہ سے میں نے پوچھا ہے، لہٰذا پہلے آپ یہ بتا دیں۔

سوال نمبر 14:

السلام علیکم۔ شیخ صاحب! میں یونیورسٹی میں پروفیسر ہوں، الحمد للہ! پہلے رفاہ یونیورسٹی میں تھا اور ابھی آج کل NUST میں ہوں۔ جیسے ابھی Business کی بات ہوئی ہے، تو اس حوالے سے میں سوال کرنا چاہ رہا تھا کہ میں Business کا سبجیکٹ ہی پڑھتا ہوں، اب اس میں بہت ساری چیزیں سامنے آتی ہیں، اس میں بچیوں کا بھی آتا ہے، پردہ کا بھی بڑا مسئلہ ہے، رفاہ یونیورسٹی میں پھر بھی کچھ ماحول بہتر تھا، لیکن ابھی جس یونیورسٹی میں ہوں، اس میں ماحول بالکل اسلامی اقدار کے مطابق نہیں ہے۔ یہ ہوسکتا ہے کہ یہ ذاتی نوعیت کا سوال ہو، لیکن سب کے سامنے اس لئے کر رہا ہے کہ آپ نے ابھی موقع دیا ہے۔ اب اس میں ہمارے لئے کیا حکم ہے؟ کیوں کہ وہاں یہ بہت مشکل ہوتا ہے کہ نظروں کی حفاظت کی جائے۔ کیوں کہ ساتھ کلاس میں بھی female students ہوتی ہیں، colleagues بھی female ہیں اور اگر ان کی طرف دیکھ کے بات نہ کی جائے، تو وہ اس چیز کو برا محسوس کرتی ہیں کہ teacher ہمیں وقت ہی نہیں دے رہے یا ہمیں توجہ نہیں دیتے۔ ویسے بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ تو ایسے ماحول میں یہ نوکری چھوڑ دیں یا آپ اس کا کیا حل تجویز کرتے ہیں؟ کیونکہ اگر کوئی محنت کرے، ذکر اذکار کرے یا کچھ اعمال کرے، تو جیسے وہاں جاتے ہیں، تو اس ماحول میں وہ چیز پھر ختم ہوجاتی ہے۔ میں اس چیز کے بہت زیادہ اثرات محسوس کر رہا ہوں۔

جواب:

دیکھیں! میں 2014 میں ریٹائر ہوا ہوں اور PIEAS یونیورسٹی میں پڑھاتا رہا ہوں، وہاں بھی co-education تھی اور بعض classes میں نے ایسی بھی پڑھائی ہیں، جن میں صرف لیڈیز تھیں، یعنی اسلامی یونیورسٹی میں ایسی classes تھیں کہ جن میں صرف لیڈیز تھیں۔ آپ کی بات صحیح ہے کہ مشکل ہے۔ لیکن ناممکن نہیں ہے۔ جس وقت یورپ میں انسان جاتا ہے، تو وہاں یہ چیز بہت زیادہ انسان face کرتا ہے کہ اگر کسی عورت کے ساتھ eye-contact نہ کرو، جیسے کوئی receptionist ہو یا Sale girl ہو، تو وہ بہت mind کرتی ہیں، لیکن ہمیں اس سے کیا غرض ہے؟ اگر ان کو ہم سے غرض ہے، تو وہ مجبوراً برداشت کرے گی اور اگر ہم سے غرض نہیں ہے، تو ٹھیک ہے ناراض ہوجائے، اس کے لئے ہم اللہ کو کیوں ناراض کریں۔ ایک طرف اللہ پاک کی ناراضگی کا ڈر ہے اور دوسری طرف ان کی ناراضگی کا ڈر ہے، تو ہم کس کی ناراضگی کا خیال کریں گے؟ ظاہر ہے کہ اللہ پاک کی ناراضگی کا خیال کریں گے، لہٰذا پروا ہی نہیں کرنی چاہئے۔ پہلے مجاہدہ ہوتا ہے، بعد میں وہ لوگ خود سمجھ لیتے ہیں۔ اور اس چیز کو میں 100٪ اپنے رشتہ داوں میں بھگت چکا ہوں۔ جب میں نے اپنے رشتہ داروں سے پردہ شروع کیا، تو انتہائی سخت درجے کی مخالفت ہوئی، عجیب عجیب آوازیں کسی گئیں، جن میں صرف ان کی باتیں نہیں تھیں، جن سے میں پردہ کر رہا تھا، بلکہ ان کے بڑوں کی بھی تھیں۔ برخود غلط کہا گیا، اور کہا گیا کہ پتا نہیں اس کا دماغ خراب ہے، اس کے دل میں گند ہے۔ اس قسم کی باتیں میں نے سنی ہیں، لیکن پھر وہی لوگ بعد میں قدر کرنے لگے۔ مجاہدے کا ایک period ہوتا ہے، جو گزر جاتا ہے، پھر بعد میں آسانی ہوجاتی ہے۔ جیسے داڑھی رکھنا ابتدا میں بڑا مشکل ہوتا ہے، لیکن بعد میں اسی سے عزت ہونے لگتی ہے۔ پس یہ چیزیں ہیں۔ ابتدا میں ذرا مجاہدے کی صورت ہوتی ہے، اس سے لوگ گھبراتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ شاید یہ possible ہی نہیں ہے، حالانکہ ایسی بات نہیں ہے۔

اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ کلاس میں کیسے پڑھایا جاسکتا ہے، اگر کلاس میں دونوں قسم کے لوگ ہیں یعنی لیڈیز بھی ہیں اور مرد بھی ہیں، تو بطورِ teacher آپ ان سے کہہ سکتے ہیں کہ لیڈیز ایک طرف بیٹھ جائیں اور مرد دوسری طرف بیٹھ جائیں، اور پھر یہ ہے کہ آپ دیکھیں مردوں کو اور سنائیں سب کو۔ بعض دفعہ انسان غیر محسوس طور پر بھی یہ کرسکتا ہے یعنی بورڈ کو دیکھے یا مردوں کو دیکھے یا نیچے دیکھے، جو بھی ہو، مطلب یہ ہے کہ لیڈیز کی طرف نہ دیکھے۔ اور اگر لیڈیز کوئی question کریں، تو آنکھ نیچی کرکے ان کو جواب دے دے یا بورڈ کی طرف رخ کرکے اس کے اوپر لکھ کر جواب دے دے۔ ظاہر ہے کہ پھر بھی ان کی طرف رخ نہیں ہوگا۔ اور اگر کوئی شکایت کر دے، تو ان سے کہہ دیں کہ آپ بے شک شکایت کریں، میری شرعی مجبوری ہے، اس میں میں کچھ نہیں کرسکتا۔ آپ کی طرف دیکھنا مجھے لازم نہیں ہے، آپ کو سمجھانا مجھے لازم ہے، جب میں سمجھا رہا ہوں، تو پھر اس کے بعد کیا مسئلہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ انسان کو یہ چیزیں face کرنی ہوتی ہیں، کیونکہ آج کل کے دور میں ایسی باتیں ہیں، لیکن ان پر اجر بہت ملتا ہے، کیوں کہ یہ بہت بڑا مجاہدہ ہے۔ آپ نے سنا ہوگا کہ غیر محرم سے اگر کوئی اللہ کے ڈر کی وجہ سے اپنی نظر ہٹا لے، تو اللہ پاک اس کو پھر ایسی عبادت کی توفیق عطا فرماتے ہیں کہ جس میں اس کو ایمان کی حلاوت خود محسوس ہوجاتی ہے۔ اس وجہ سے آج کل اس کا موقع تو بہت زیادہ ملتا ہے، اسی کے ذریعہ سے انسان ترقی کرتا رہے، ان شاء اللہ کوئی مشکل نہیں ہے۔

یورپ میں میرے خیال میں میرے ساتھ یہی ہوا تھا، میں نے پیسے ان کے سامنے رکھ دیئے اور ان کے ہاتھ میں نہیں دیئے، تو پہلے اس نے غصہ کیا اور پھر اس نے لے لیے۔ تو یہ چیزیں manageable ہیں۔

سوال نمبر 15:

حضرت! احمد جام رحمۃ اللہ علیہ کا شعر ہے:

گشتگان خنجر تسلیم را

اور علامہ اقبال کا شعر ہے:

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق

عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی

علامہ اقبال کا یہ شعر چوں کہ ابراہیم علیہ السلام کے متعلق ہے، اس وجہ سے بعض لوگ کہتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام کے جذبات عقل پہ غالب تھے۔ کیا انبیاء کے بارے میں اس طرح کی بات کہی جاسکتی ہے؟

جواب:

دیکھیں! انبیاء کرام کی عقل کامل ہوتی ہے اور یہاں عقل بمعنی معرفت ہے۔ اور ان کا عشق بھی کامل ہوتا ہے، اس وجہ سے ہم کسی پیغمبر کے بارے میں نہیں کہہ سکتے کہ ان کا عشق ان کی عقل پر بہت زیادہ حاوی ہے، یعنی ان کا عشق ان کی عقل سے زیادہ نہیں ہوتا، ایسی بات نہیں ہے۔ میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں، مثلاً حضرت ابراہیم علیہ السلام آگ میں کودنے کے لئے تیار ہوئے، اس کو آپ عشق کہہ دیں، ہم نے مان لیا، لیکن جب فرشتہ آیا اور اس نے کہا کہ اگر آپ چاہیں، تو میں اس آگ کو بجھا سکتا ہوں، آپ حکم دیں۔ ابراہیم علیہ السلام پوچھتے ہیں کہ کیا تمہیں بھیجا گیا ہے یا تم خود آئے ہو؟ اس نے کہا کہ میں خود آیا ہوں۔ فرمایا: پھر مجھے آپ کی مدد کی ضرورت نہیں ہے، جس کے لئے ہو رہا ہے، وہ خود دیکھ رہا ہے۔ یہ کیا چیز ہے؟ یہ logic ہے، یہ معرفت ہے۔ اور اسی معرفت کی وجہ سے تو یہ ہوا ہے، لہٰذا یہاں معرفت اور عشق دونوں ایک جیسے ہیں، اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، البتہ جو غیرِ نبی ہوتا ہے، اس کی معرفت موت سے پہلے پہلے کامل معرفت کے level پہ نہیں آسکتی یعنی اس کی معرفت میں کچھ نہ کچھ کمی ہوتی ہے اور وہ موت کے بعد پوری ہوجاتی ہے۔ موت کے بعد ہر ایک کو پتا چل جاتا ہے۔ اس وجہ سے عام لوگوں کے لئے تو یہ بات ہے کہ ان کا عشق اتنا غالب ہو کہ ان کی عقل کو cross کرے۔ جیسے غازی علم الدین شہید تھے کہ وہ معرفت والی باتیں نہیں جانتے تھے، وہ بس یہی عشق کی بات تھی۔ اس نے کہا کہ اچھا، میرے نبی کے خلاف بات کرتا ہے! بس اس کے لئے یہی بات کافی تھی، وہاں پر عشق غالب تھا۔ تو یہ غیر نبی کے لئے صحیح ہے، نبی کے لئے صحیح نہیں ہے۔ البتہ علامہ اقبال نے بطورِ مثال آگ میں کودنے والی بات ابراہیم علیہ السلام کی طرف کی، تو اس کا یہ حصہ بالکل ٹھیک ہے، لیکن دوسرا حصہ اگر ابراہیم علیہ السلام کی طرف کیا جائے، تو وہ ٹھیک نہیں ہے اور نہ انہوں نے اس پر زور دیا ہے کہ یہ اسی وجہ سے ہوا ہے، یہ تو لوگ خود اپنی طرف سے بنادیتے ہیں۔

سوال نمبر 16:

حضرت! اسی شعر پر آج کل بہت لے دے ہو رہی ہے۔ مرزا جہلمی ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں یہ کہہ رہا ہے کہ اگر بے خطر کود پڑا، تو وہ خود کود پڑا، پس یہ تو خود کشی ہے۔ ابراہیم علیہ السلام گئے تو نہیں تھے، ان کو تو پھینکا گیا تھا۔ لہذا ان کے بارے میں یہ نہیں ہوسکتا اور اگر ہے، تو غلط ہے۔

جواب:

خیر! جہاں تک واقعہ کی بات ہے، تو واقعہ کی سند تو ہمارے پاس نہیں ہے، وہ تو پھر تحقیقی بات ہے کہ کون سی بات ہوئی تھی، خود کودے ہیں یا ان کو پھینکا گیا ہے، لیکن پھینکے جانے کے لئے تیار ہونا؛ یہ کیا چیز ہے؟ یعنی اگر اس میں انہوں نے کوئی مزاحمت نہیں کی اور پھینکے جانے کے لئے تیار ہوگئے، تو وہ بھی تو یہی چیز ہے، اس کو بھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ کود پڑا۔

باقی! جو خود کشی کی بات ہے، تو فدائیت اور خود کشی میں فرق ہے، فدائیت میں تو یہ ہوتا ہے کہ آدمی اپنی جان کی پروا نہ کرکے دشمن کے سامنے ڈٹ جاتا ہے۔ جیسے شریعت پر چلنے کی وجہ سے کسی کو پھانسی دی جا رہی ہو، تو وہ نہ تو نہ بھاگ سکتا ہے، نہ کچھ کرسکتا ہے، اس کو پتا ہے کہ مجھے پھانسی دی جائے گی، لیکن پھر بھی وہ اس بات کو نہ چھوڑے اور وہی بات کرے، تو کیا وہ خود کشی ہے؟ اگر ایسا ہے، تو پھر تو جتنے بھی حضرات ہیں، جن کو پھانسی دی گئی ہے، جیسے انگریزوں نے دی ہے یا ترکی میں لوگوں کو ملی ہے، تو کیا ان سب کو خود کشیاں کہا جائے گا؟

سوال نمبر 17:

اسی سے وابستہ کہ نبی صاحبِ شریعت بھی ہے اور ہر لمحہ اس پہ وحی کے ذریعہ سے اللہ پاک اس کی مدد بھی فرما رہے ہوتے ہیں اور رہنمائی بھی فرما رہے ہیں۔ تو اگر اتنا بڑا عمل ہو رہا تھا، تو ظاہر ہے کہ اللہ پاک کی رہنمائی ساتھ شامل تھی۔ لہٰذا اس عمل کو خود کشی کہنے سے کیا اللہ پاک کی طرف اعتراض نہیں جاتا؟

جواب:

اصل میں بات یہ ہے کہ جس صاحب کی بات ہو رہی ہے، اس کی کسی بات کی بھی کچھ value نہیں ہے، کیونکہ وہ ایک ملحد شخص ہے، وہ صرف آپ کو تنگ کرنے کے لئے اس قسم کی باتیں کرے گا۔ ہم تو نبی کو معصوم سمجھتے ہیں اور ان کی معصومیت ہی اس بات کی دلیل ہے کہ ان کی ساری باتیں چونکہ اللہ کی طرف سے ہیں، لہٰذا ان کی طرف کسی ایسی بات کی نسبت نہیں کی جاسکتی۔ ہم نے تو پہلے کہہ دیا کہ عقل کی کمی والی بات کی بھی نبی کی طرف نسبت نہیں کی جاسکتی، چہ جائے کہ خودکشی کی نسبت کی جائے، خودکشی تو بہت بڑی بات ہے۔

سوال نمبر 18:

حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنا؛ یہ بھی تو بظاہر خلافِ شریعت ہے۔

جواب:

باقی لوگوں کے لئے اس کی گنجائش ہی نہیں ہے، یہ تو وحی کی بات تھی۔ (اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی کے لئے وہ اصول نہیں ہے، جو عوام کے لئے ہے) پس نبی کی معرفت بھی کامل ہوتی ہے اور نبی کا عشق بھی کامل ہوتا ہے، اس کی مثال نہیں دی جاسکتی۔ اور پھر بات یہ ہے کہ نبی کے لئے بہت سارے ایسے مواقع ہیں، جیسے زکریا علیہ السلام کو آرے سے چیرا گیا، لیکن انہوں نے اف تک نہیں کی، کیونکہ حکم یہی تھا۔ اس طرح اور بہت سارے حالات ہیں، جیسے یحییٰ علیہ السلام کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ پس عام لوگوں کے لئے الگ بات ہے اور انبیاء کے لئے الگ بات ہے، اس وجہ سے ان کے بارے میں بہت خیال سے بات کریں گے۔ لیکن مرزا کی کسی بات کو value دینا تو بذاتِ خود علم کی توہین ہے۔

سوال نمبر 19:

عقل کی رسائی کہاں تک ممکن ہے؟ مثال کے طور پر موزوں پہ مسح کے بارے میں لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ یہ نیچے ہونا چاہئے، کیونکہ ہم اس پر چلتے ہیں۔ اور دوسرا یہ ہے کہ معراج کے موقع پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جب پوچھا گیا، تو انہوں نے بغیر سوچے سمجھے کہہ دیا کہ اگر آپ ﷺ فرما رہے ہیں، تو پھر ٹھیک ہے۔ اب ادھر یہ بات تھی کہ انہوں نے اس پہ سوچا بھی نہیں ہے اور ادھر جب موزوں کی بات آتی ہے، تو ان کی طرف سے اعتراض ہوتا ہے۔

جواب:

نہیں، ایک ہی چیز ہے۔ اصل میں بات یہ ہے کہ عقل ہماری ایک انسانی faculty ہے، جس کے ذریعہ سے انسان دنیا کے مسائل کو حل کرسکتا ہے، لیکن Subject to condition ہے، یہ اس وقت ہے، جب وہ شریعت کے مقابلے میں نہ ہو۔ اگر شریعت کا حکم آجائے، تو وہاں عقل کو surrender کرنا پڑے گا، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری عقل کی limitation ہے، مثال کے طور پر میں اس دیوار کے پیچھے کی چیز کو نہیں دیکھ سکتا، میں چھت کے اوپر کی چیز کو نہیں دیکھ رہا، میں زمین کے اندر کی چیزوں کو نہیں دیکھ رہا، ایک سیکنڈ کے بعد میرا کیا ہونے والا ہے، مجھے اس کا پتا نہیں ہے۔ تو جتنی کم معلومات ہوتی ہیں، ان کے اوپر عقل بے شک کتنی ہی کامل کیوں نہ ہو، اس کا فیصلہ ناقص ہی ہوگا۔ جب کہ اللہ جلّ شانہٗ کا علم کامل ہے، اللہ پاک نے وحی کے ذریعے سے جو بھیجا ہے، وہ یقینی اور قطعی چیز ہے، اس کے ذریعہ سے جو بات آئی ہے، وہ فائنل ہے، کیونکہ اس میں غلطی کا امکان نہیں ہے۔ جبکہ عقل میں غلطی کا امکان ہے، کیونکہ limitations ہیں۔ لہٰذا عقل اگر شریعت کے حق میں جا رہی ہے، جیسے میں کسی حدیث شریف کی تحقیق کر رہا ہوں کہ وہ راوی سے ثابت ہے یا نہیں، تو یہاں میں عقل استعمال کروں گا، لیکن جب ثابت ہوجائے گا، تو پھر عقل کی بات نہیں ہوگی۔ جیسے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ عقل کی مثال ایسی ہے کہ آپ پہاڑ کے دامن تک چلے جائیں گے، لیکن پہاڑ کے اوپر چڑھنا اس کے بس کی بات نہیں ہے، پھر عشق کی بات ہے۔ پس ہماری عقل limited ہے، وحی کے مقابلے میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے، جب وحی کے ساتھ بات سامنے آئے گی، تو پھر اس میں عقل کی بات نہیں چلے گی۔ جیسے ابراہیم علیہ السلام والی بات چل رہی تھی، وہاں چونکہ وحی تھی اور وحی کے مقابلے میں تو عقل کو نہیں لایا جاسکتا، اس لئے اس وقت عقلمندی یہی تھی کہ بات مان لی جائے۔ یعنی عقلمندی یہی تھی کہ جب اللہ کا حکم ہے، تو پھر میں دوسری بات تو نہیں کروں گا۔ اور یہی اسماعیل علیہ السلام نے بھی کیا۔ پس جتنے بھی مرحلے اس میں دیکھے جاتے ہیں، اس میں یہ ہے کہ انسانی عقل کی ایک حد ہے، وہ اس سے آگے کچھ نہیں کرسکتی۔

سوال نمبر 20:

حضرت جی! میں اس سلسلہ میں نیا ہوں، مجھے ذرا تصوف کے بارے میں سمجھا دیں کہ یہ کیا چیز ہے؟ یہ دین کا حصہ کس طرح سے ہے؟ کیا نبی پاک ﷺ کے زمانے میں یہ چیز تھی؟ مجھے ذاتی طور پر اس میں جو اشکال پیش آتا ہے، وہ یہ ہے کہ جیسے پہلے ایک سوال بھی شرک کے حوالے سے آیا تھا کہ انسان کا براہِ راست اللہ سے رابطہ کیوں نہیں ہے؟ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمہاری شہ رگ سے زیادہ نزدیک ہوں، مجھے پکارو، میں سنتا ہوں۔ لہٰذا درمیان میں واسطے کی کیا ضرورت ہے؟

جواب:

بہت اچھا سوال ہے۔ سوال تو آپ کا حق ہے اور سب کا حق ہے کہ اس میں پوچھا جائے، لیکن بات یہ ہے کہ ذرا سننے کا پھر حوصلہ ہونا چاہئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری ہر چیز اس پہ منحصر ہے کہ ہماری طلب موجود ہو۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ہم سے صرف تین چیزوں کا مطالبہ ہے: علمِ نافع کا، عملِ صالح کا اور اخلاصِ کامل کا۔ یعنی خالص اللہ کی رضا کے لئے عمل ہو، حضور ﷺ کے طریقہ کے مطابق ہو، اور اس کا علم بالکل صحیح صحیح ہو۔ یہ تین باتیں ہوگئیں۔ اب ان تین باتوں پر عمل کرنے کے لئے میں بھی تیار ہوں، آپ بھی تیار ہیں، سب لوگ تیار ہیں، لیکن میرے ساتھ بھی شیطان اور نفس ہے، آپ کے ساتھ بھی شیطان اور نفس ہے، ہر ایک کے ساتھ شیطان اور نفس موجود ہے۔ شیطان ہمیں عمل کرنے کے لئے نہیں چھوڑے گا اور وہ نفس کو استعمال کرے گا۔ ہمارے نفس کی خواہشات ہیں، جب اس کی خواہشات شریعت کے ساتھ ٹکرا رہی ہوں، تو وہ شریعت کی پروا نہیں کرے گا، کیونکہ نفس نافرمان ہے، وہ ماننے والا نہیں ہے، وہ نفسِ امّارہ ہے۔ جب یہ بات ہے، تو اس نفسِ امّارہ کو نفسِ مطمئنہ بنانا پڑے گا، نفس مطمئنہ وہ ہے جو اس پر مطمئن ہوجائے کہ شریعت کی بات مان لے۔ پس ہر شخص پر خود یہ لازم ہے کہ وہ خود کرے۔ اب تین طریقہ ہیں جن کے ذریعہ سے آپ یہ کرسکتے ہیں۔ پہلا طریقہ وہ ہے جو آپ نے بتایا کہ انسان خود کرے، کسی اور واسطے کی کیا ضرورت ہے۔ اس کو ہم اخیار کا طریقہ کہتے ہیں۔ اخیار کا طریقہ exist کرتا ہے، لیکن زیادہ کامیاب نہیں ہے۔ کامیاب نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ experience نہیں ہے اور زیادہ مجاہدہ بعض دفعہ برداشت نہیں ہو پاتا۔ بس پھر تھک کر بیٹھ جاتا ہے، اخیر میں سمجھ لیتا ہے کہ مجھ سے ہونے کا ہی نہیں ہے، لہٰذا وہ درمیان میں رہ جاتا ہے۔ بہت باکمال لوگ جو بہت ہی صاحبِ استعداد ہوں، ممکن ہے کہ وہ اس میں آگے بڑھ جائیں اور ان کا کام ہوجائے۔ اس وجہ سے ایسی مثالیں ہیں، لیکن بہت کم ہیں۔ دوسری طرف یہ ہے کہ کسی کے experience سے فائدہ اٹھایا جائے۔ پس تصوف میں اس experience سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے، یعنی کوئی ایسا شخص ہو، جو خود اس راستے سے گزر چکا ہو، یعنی جس کی اصلاح ہوچکی ہو، جو صحیح اور غلط کو جانتا بھی ہو اور صحیح راستہ پہ چلا بھی سکتا ہو اور غلط راستہ سے بچا بھی سکتا ہو۔ اس کو اس کا experience ہو، اس کو ہم شیخ کہتے ہیں۔ شیخ کی پھر نشانیاں ہیں، ابھی میں تفصیل میں نہیں جا رہا، لیکن بہرحال! وہ شیخ کہلاتا ہے۔ اس کے پاس آنے سے دو فائدے فوراً مل جاتے ہیں: ایک فائدہ یہ ہے کہ اس کے experience کا فائدہ ہوجاتا ہے اور دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس کے سلسلے کی برکت کا فائدہ ہوجاتا ہے۔ سلسلہ کی برکت کو اگر کوئی نہیں سمجھتا، تو میں اس کو آسان طریقہ سے سمجھا سکتا ہوں۔ وہ یہ ہے کہ جو بھی بزرگ اور اللہ والا ہے، اس کو اللہ نے مواقع دیئے ہیں تہجد کے بعد، حج کے موقع پر، عرفات میں، منٰی میں یا دوسرے خاص مواقع جہاں پر اس نے دعائیں کی ہوں گی، اپنے سلسلہ کے لئے دعائیں کی ہوں گی اور اس کی دعائیں قبول بھی ہوچکی ہوں گی، اب اگر اس نے اپنے آنے والے لوگوں کے لئے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ان کو کامیاب کر دے، تو جب آپ ان کے سلسلے میں جڑیں گے، تو آپ ان دعاؤں کے لئے expose ہوجائیں گے، اس میں جب اللہ کی مدد آئے گی، تو یہی تو سلسلے کی برکت ہے۔ تو سلسلے کی برکت بھی مل جاتی ہے اور experience کی بنیاد پر اس سے تربیت میں support بھی مل جاتی ہے۔ اس وجہ سے بہت جلدی جلدی ترقی ہونے لگتی ہے۔ چیز تو وہی ہے، یعنی target اخیار کا بھی وہی ہے اور ابرار کا بھی وہی ہے، یعنی target ایک ہے، لیکن acheive کرنے کے لئے جو صلاحیت ہے، وہ اس میں زیادہ ہے، لہٰذا ان کو جلدی فائدہ ہوگا، لیکن پھر بھی اس میں Will power کا استعمال ہوتا ہے کہ آدمی اپنے شیخ کے ساتھ ٹکا رہے اور ان کی بات مانتا رہے۔ اتنی Will power کی ضرورت اس کو بھی ہے۔ پہلے کے لئے ہر چیز میں Will power کی ضرورت ہے، لیکن اس کے کے لئے اس چیز کے لئے Will power کی ضرورت ہے، باقی چیزیں اس کے ساتھ خود ہوجاتی ہیں۔ تیسری ایک category ہے، جن کو شطاریہ کہتے ہیں۔ یہ لوگ شیخ پر ایسے عاشق ہوتے ہیں کہ وہ چاہتے ہیں کہ ہمیں شیخ بتائے، تاکہ ہم عمل کریں۔ ان کو Will power کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ وہ تو سراسر فدائی ہوتے ہیں، پھر ان کو Will power کی کیا ضرورت ہے۔ وہ تو خود چاہتے ہیں کہ ہمیں شیخ کوئی بات کہہ دے اور ہم عمل کرلیں، لہٰذا ان کی ترقی بہت تیز ہوتی ہے۔ یہاں تک میں نے شیخ کی بات کی۔ آگے شیخ اپنی طرف نہیں بلاتا، بلکہ شیخ اللہ کی طرف اور حضور ﷺ کے طریقے کی طرف بلاتا ہے۔ لہٰذا شروع میں فنا فی الشیخ ہے اور Next step فنا فی الرسول ہوتا ہے، یعنی پھر وہ سنت کا ایسا عاشق بن جاتا ہے کہ وہ ہر وقت سنت کی فکر کرنے لگتا ہے، اور یہ فنا فی الرسول ہے۔ جب فنا فی الرسول ہو، تو آپ ﷺ تو ہر کام اللہ کے لئے کرتے تھے، تو یہ فنا فی اللہ ہیں، تو خود بخود یہ procedure سیٹ ہوجاتا ہے۔ پس یہ practical چیزیں ہیں، theoretical نہیں ہیں۔ جو شخص ان کو theoretical سمجھتا ہے، وہ اپنے آپ کو confuse کرے گا۔ مجھے بتاؤ کہ اس کے علاوہ کیا کرسکتے ہیں؟ جو کرسکتے ہیں، وہ اخیار والا طریقہ ہے، لیکن اس کا result آپ کو معلوم ہے۔

سوال نمبر 21:

حضرت! یہ جو فنا فی الشیخ اور فنا فی الرسول ہے، تو فنا فی الشیخ کیا ہے؟ کیا یہ ہے کہ شیخ سے اتنی محبت کی جائے کہ اس کے ہر عمل کو اختیار کر لیا جائے؟

جواب:

اپنے ارادہ کو شیخ کے ارادہ میں فنا کر لے، بس اس کو فنا فی الشیخ کہتے ہیں۔ اصل تو ارادہ ہے، باقی یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ آپ ہر طرح سے اس میں ختم ہوجائیں۔

سوال نمبر 22:

یہ بات دینی ارادوں میں ہے یا دنیاوی ارادوں میں بھی ہے؟

جواب:

دنیاوی ارادوں میں تو حضور ﷺ نے بھی آزاد چھوڑا ہے کہ ’’أَنْتُمْ أَعْلَمُ بِأَمْرِ دُنْيَاكُمْ‘‘۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر: 6277) دنیا میں تو اللہ تعالیٰ نے بھی کچھ چھوٹ دی ہے، لیکن اتنی بات ہے کہ وہ دنیا جو شریعت کے مخالف ہو، اس کی اجازت نہیں ہوگی۔ اس کے لئے پھر علماء کے پاس جانا پڑے گا۔ اگر اس کی مخالفت ہو، تو پھر تربیت کروانی پڑے گی، وہ ایک علیحدہ چیز ہے۔ لیکن بہرحال! جو دنیا کی بات ہے، جیسے کھیتی باڑی وغیرہ، وہ آپ کو شریعت نہیں بتاتی کہ ایسے کھیتی باڑی کرو، وہ آپ کی اپنی research ہے، اس کے مطابق آپ کو کرنا پڑے گا۔ یعنی اس چیز کے specialist سے آپ کو اس چیز کے بارے میں زیادہ فائدہ ہوگا، لیکن یہ بات ہے کہ شریعت کے مطابق ہو۔ اگر اس میں شریعت سے مخالفت ہے، تو اس سے دور ہونا پڑے گا۔

سوال نمبر 23:

حضرت جی! تصوف کا سلسلہ کب سے وجود میں آیا؟

جواب:

حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کا نام سنا ہے؟ جی ہاں۔ ان کے وقت سے تصوف ہے۔ اس وقت اس کی ضرورت پڑی، اس کی وجہ آثارِ صحابہ ہیں، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے ابھی آپ ﷺ کی قبر شریف کی مٹی سے ہاتھ ہی جھاڑے تھے کہ ہمیں اپنے دل میں تبدیلی محسوس ہوگئی۔ یعنی وہ نور جو آپ ﷺ کے قلب کا تھا، وہ اب نہیں رہا۔ اس وجہ سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب روتے تھے، تو لوگ کہتے کہ حضرت! آپ کو تو آپ ﷺ نے خود بشارتیں دی ہیں، آپ کیوں روتے ہیں؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ وہ کام جو ہم نے آپ ﷺ کے سامنے کام کئے ہیں، ان کی تو ہمیں تسلی ہے، ان کا تو کوئی مسئلہ نہیں ہے، اس کے بعد کے جو کام ہیں، ان کی ہم کیا ذمہ داری لے سکتے ہیں، ان کے بارے میں ہمیں فکر ہے۔ تو اس کے لئے انہوں نے پھر کچھ کیا ہوگا، صحابہ اس کی فکر کرتے تھے، مثلاً: حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا واقعہ آپ کو یاد ہوگا کہ جب حضرت کے ساتھ کچھ وفود ملے اور امیر المومنین کی صورت میں حضرت نے ان سے ملاقات کی، تو بعد میں بیت المال کی بوریاں اٹھا اٹھا کر رکھنے لگے۔ کسی نے کہا کہ حضرت! خادم موجود ہے، آپ خود کیوں کر رہے ہیں؟ فرمایا: وفود کے ساتھ امیر المومنین کی حیثیت میں ملاقات ہوئی ہے، تو نفس کو ٹھیک کرنے کے لئے یہ کر رہا ہوں۔ تو یہ کیا چیز ہے؟ انہوں نے خود اپنے نفس کے اوپر محنت والا کام جاری رکھا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی جاری رکھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی جاری رکھا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تو بہت مشہور ہے۔ اب یہ ساری باتیں وہ کرتے تھے، کیونکہ انہوں نے آپ ﷺ سے ہی ساری چیزیں خود لی تھیں۔ پھر بعد میں صحابہ کرام کا دور چلا گیا، تو کمزوری بہت آگئی، اس کمزوری کو دور کرنے کے لئے کچھ extra efforts کرنی پڑیں، اس کے لئے پھر حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک جگہ ایسی بنائی کہ اس کے اوپر علمی ماحول کی جگہ تھی یعنی مدرسہ کی صورت تھی اور نیچے جو حصہ تھا وہ تربیت کے لئے تھا۔ جو لوگ حضرت کے پاس آتے تھے، حضرت ان کی تربیت کے لئے وقت نکالتے تھے، باقاعدہ مجاہدات اور یہ ساری چیزیں کراتے تھے، گویا کہ خانقاہ کی ابتدائی صورت بن گئی۔ پھر اس کے بعد شیخ عبد الواحد رحمۃ اللہ علیہ جو ان کے خلیفہ تھے، اس وقت تو کہتے ہیں کہ بارہ ہزار کے لگ بھگ خانقاہیں مختلف جگہ پر بن گئی تھیں، مجھے تو نہیں معلوم کہ اس وقت پوری دنیا میں بارہ ہزار خانقاہیں ہوں گی یا نہیں ہوں گی۔ لیکن اس وقت تقریباً بارہ ہزار خانقاہیں بن چکی تھیں، تو یہ چیز اس وقت سے شروع ہوگئی تھی اور درمیان میں تو بہت زیادہ develop ہوئی تھی۔ جیسے شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ، خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ، شیخ بہاء الدین نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ، شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ، ما شاء اللہ! ان کے وقت میں تصوف بہت پھیلا تھا، ایک وقت تھا کہ لوگ علم حاصل کرتے تھے اور جیسے علم سے فارغ ہوجاتے تھے، تو فوراً ان کا کام کسی کامل شخص کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اپنی تربیت کروانا ہوتا تھا۔ اس کے لئے قافلے چلتے تھے، چونکہ راستے اس وقت محفوظ نہیں ہوتے تھے، اس وجہ سے باقاعدہ قافلوں کی صورت میں لوگ جاتے تھے۔ چنانچہ یہ بہت پرانی بات ہے، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ نئی صورت جو بنی ہے، وہ یہ ہے کہ یہاں تصوف میں بگاڑ آیا ہے۔ لہٰذا اس وقت اگر تصوف کا کام ہے، تو وہ اس بگاڑ کو دور کرنا ہے، جو وقت کے ساتھ ساتھ آیا ہے، لوگوں میں بدعات اور اس قسم کی غلط چیزیں آگئی ہیں، ان کو دور کرنا اس وقت کے مشائخ کا کام ہے، ورنہ یہ تصوف تو پہلے سے چلا آرہا ہے، اس میں تو کوئی نئی بات نہیں ہے۔

سوال نمبر 24:

جزاک اللہ۔ یعنی آپ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ نبی پاک ﷺ کے زمانے میں یہ چیزیں تھیں، لیکن ان کا نام تصوف نہیں تھا۔

جواب:

جی، بالکل، اس وقت مدرسہ اس طرح ہوتے تھے؟ (سائل نے جواب دیا کہ اصحاب صفہ کا ایک مدرسہ تھا۔ اس پر حضرت نے فرمایا کہ) وہاں تو تربیت بھی ایک ساتھ ہو رہی تھی۔ جس طرح اُس کو مدرسہ آپ کہہ سکتے ہیں، اسی طرح اس کو آپ خانقاہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ (سائل نے کہا: اس کے بعد جب بزرگوں نے دیکھا کہ دین کے اعبتار سے لوگوں میں بہت زیادہ کمزوری آرہی ہے، تو انہوں نے ان چیزوں کو اکٹھا کرکے ایک نصابِ ترتیب دے دیا۔ اس کے جواب میں حضرت نے فرمایا:) بلکہ یوں کہہ سکتے ہیں کہ تقسیمِ کار ہوگئی، کچھ لوگوں نے مدرسوں کا کام شروع کر لیا اور کچھ لوگوں نے خانقاہوں کا کام شروع کر لیا اور کچھ لوگوں نے دعوت و تبلیغ والے کام کو زیادہ بڑھایا اور کسی نے خلافتِ راشدہ والا کام زیادہ بڑھایا، یعنی مختلف طریقوں سے دین کے کام کے شعبے چل پڑے۔

سوال نمبر 25:

ابھی آپ نے شاید سید احمد شہید صاحب کی بات کی ہے شرک کے حوالے سے، تو وہ کیا بات آتی ہے کہ انہوں نے بھی اس طرح کی بات کی۔ ان کو کہاں شرک محسوس ہوا؟

جواب:

دیکھیں! میں آپ کو بات بتاؤں، وہ کہتے ہیں:

ساقی پلا دے پھول تو کانٹا نکال کے

یہ والی بات ہے۔ اس وقت جو حضرات کرواتے تھے، ان کو اس میں شرک محسوس نہیں ہوتا تھا، جیسے حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کراتے تھے، شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کراتے تھے، حتیٰ کہ شاہ عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ بھی کراتے تھے۔ وہ ان چیزوں سے بچاتے تھے، لیکن بعد میں لوگوں میں بچنے کی صلاحیت کم ہوگئی، لوگوں کی طبیعتوں میں فساد آگیا، اس وجہ سے حضرت نے فرمایا کہ اس میں تو میں شرک کی بو پاتا ہوں۔ باقی یہ نہیں کہ طریقہ غلط تھا، یہ طریقہ تو صحیح تھا اور چلا آرہا تھا اور اس میں لوگوں کو فائدہ بھی تھا۔ میں آپ کو اس کی ایک وجہ بتاتا ہوں، جو نماز آپ شیخ کے ساتھ پڑھتے ہیں اور جو نماز آپ شیخ کے ساتھ نہیں پڑھتے، اس میں کوئی فرق ہوگا یا نہیں ہوگا؟ ظاہر ہے کہ فرق ہوگا۔ نماز تو وہی ہوگی، لیکن کیفیت فرق ہوگا۔ ہم جب حضرت کے ساتھ ہوتے تھے، تو بات الگ ہوتی تھی۔ یعنی اخلاص اور تقویٰ کا معیار اور سب چیزیں مختلف ہوجاتی تھیں۔ آخر صحبتِ صالحین کے بارے میں جو اللہ پاک نے فرمایا ہے:

﴿وَكُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ﴾ (التوبہ: 119)

ترجمہ: ’’اور سچے لوگوں کے ساتھ رہا کرو‘‘۔

آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ کیوں فرمایا ہے؟ اس کا کچھ تو فرق ہے۔ جب ان کے ساتھ ہونے کا یہ فائدہ ہے، تو ان کے تصور کا بھی فائدہ ہوگا، ان کے خیال کا بھی فائدہ ہوگا۔ پس یہی تصورِ شیخ ہے۔ اسی سے تصور شیخ بنتا ہے اور اس سے یہ فائدہ تھا، لیکن اب اگر اس سے غلط چیز اور پڑجائے، تو پھر یہ واجب تو نہیں ہے، لہٰذا پھر آپ اس سے روکتے ہیں کہ اس کو نہ کریں۔ اس وجہ سے سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو منع کیا اور ہمارے سلسلے میں بھی نہیں ہے، البتہ خود بخود ہوجائے، تو اس پہ پابندی بھی نہیں ہے۔

سوال نمبر 26:

یعنی مراقبے میں یا ذکرکے دوران تصور نہیں کرنا چاہئے؟

جواب:

جی ہاں، لیکن اگر خود بخود ہوجائے، جیسے مجھے شیخ یاد آئے، تو پھر کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ لہٰذا اگر یاد آئے، تو اس کا فائدہ ہوتا ہے۔ واقعی ہمیں اب بھی یاد آئے، تو فائدہ ہوتا ہے، میں اس کا انکار نہیں کرتا۔ الحمد للہ! جب بھی ہمیں حضرت یاد آتے ہیں، تو ہمیں فائدہ ہوجاتا ہے، لیکن ہم قصداً نہیں کرتے کہ خواہ مخواہ ہم یاد کر کرکے ان کا خیال لاتے ہوں، البتہ حضرت کی کتابیں جب ہم پڑھیں، جیسے: الحمد للہ! آج کل ہفتہ کے دن مقالات اشرف میں پڑھا رہا ہوں، تو بہت فائدہ ہوتا ہے۔ حضرت مولانا عزیر گل صاحب رحمۃ اللہ علیہ جو اسیرِ مالٹا تھے اور بہت بڑے بزرگ تھے، ان کے پاس حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کا ایک چھوٹا سا کتابچہ تھا، کسی نے ان سے کہا کہ حضرت! پتا نہیں یہ آپ نے کتنی دفعہ پڑھا ہے، آپ کب تک اس کو پڑھیں گے؟ فرمایا: میں تو اپنے شیخ کے ساتھ باتیں کرتا ہوں۔ تو یہ چیز ایک قلبی کیفیت ہے۔ ایک شعر ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر تجھے عشق نصیب نہیں ہے، تو عشق والوں کی حالت کا تمہیں کیا پتا۔ یعنی وہ کیا چیز ہے، اس کے بارے میں آپ کچھ نہیں کہہ سکتے، یہ تو کیفیت کی چیزیں ہیں اور وہ کیفیات کیفیات والوں کو ہی معلوم ہوتی ہیں کہ وہ کیا چیز ہیں۔ مثلاً حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اعتکاف میں بیٹھے تھے، ایک صاحب آئے کہ حضرت! مجھ پہ قرض ہے اور قرض کی ادائیگی کی صلاحیت مجھ میں فی الحال نہیں ہے، میں نے ایک ٹائم کا وعدہ کیا تھا، کیا آپ اس وعدہ کی تاریخ بڑھوانے میں میری شفارش کرسکتے ہیں؟ نفلی اعتکاف تھا، حضرت اٹھ گئے اور ساتھ جانے لگے۔ جیسے مسجد سے باہر جانے لگے، تو اس نے کہا کہ حضرت! آپ کا تو اعتکاف تھا، مجھ سے غلطی ہوگئی۔ فرمایا: نہیں۔ پھر قبر مبارک کی طرف اشارہ کیا کہ میں نے ان صاحبِ قبر سے سنا ہے، اور اس وقت آنکھوں میں آنسو آگئے۔ تو یہ آنکھوں میں آنسو کیوں آئے؟ پھر حضرت نے حدیث شریف سنا دی کہ جو کسی دوسرے کے کام میں مشغول ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے۔ تو یہ عشق کی بات ہے، یہ کوئی اور چیز تو نہیں ہے۔ لہٰذا کیفیات تو اہلِ کیفیات کو ہی معلوم ہوسکتی ہیں۔ ان سے کوئی انکار نہیں کرسکتا، ان چیزیں کا وجود تو ہے، لیکن یہ لازم نہیں ہیں۔ اور کیفیات مؤثر بھی ہیں، اب اگر کوئی اپنی عقل کے ذریعہ سے دوسرے ذریعہ سے پہنچ سکتا ہے، تو اس پر ممانعت نہیں ہے، لیکن وہ راستہ تھوڑا سا لمبا ہے اور یہ راستہ تھوڑا سا نسبتاً direct ہے، اس سے فائدہ جلدی ہونے لگتا ہے، اس وجہ سے حضرات اس کو استعمال کر لیتے ہیں۔

سوال نمبر 27:

تصوف کے بارے میں ایک بڑا اعتراض یہ تھا کہ اس میں بندہ بس ایک کونے میں بیٹھ کے اپنی اللہ اللہ تو کیے جا رہا ہے، بس اپنی اصلاح ہو رہی ہے، لیکن معاشرے کے لئے، دوسرے انسانوں کے لئے، دوسروں کی بھلائی کے لئے اور دعوت کے لئے اس کا کیا کردار ہے یا نظام کی بہتری کے لئے اس میں کیا ہے؟

جواب:

کیا آپ کے خیال میں شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ ایک کونے میں بیٹھے ہوئے تھے؟ حضرت مولانا حسین مدنی رحمۃ اللہ علیہ ایک کونے میں بیٹھے ہوئے تھے؟ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ ایک کونے میں بیٹھے ہوئے تھے؟ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ پر نوے لاکھ لوگ مسلمان ہوئے، ان کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اس کی مثال تو لائیں، یہ کیسے ہوا۔ پتا نہیں کہ لوگوں نے تصوف کو کیا سمجھا ہوا ہے۔ تصوف ایک practical چیز ہے، جس کی برکات ہیں۔ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ کا پورا ہندوستان تصوف کی وجہ سے مسلمان ہوا ہے، اور Central Asia تصوف کی برکت سے مسلمان رہا ہے، ورنہ یہ کافر ہوجاتا۔ ترکی تصوف کی وجہ سے بچا ہوا ہے۔ ابھی بھی آپ ترکی میں چلے جائیں، تو خانقاہیں دیکھ کر آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ وہاں پر تصوف کی وجہ سے کتنا فائدہ ہوا ہے، اسی کی وجہ سے لوگ مسلمان ہیں۔ اردگان جو صدر بنے ہوئے ہیں، یہ تصوف کی وجہ سے بنے ہوئے ہیں۔ تصوف کا زور آپ کو معلوم ہی نہیں ہے کہ تصوف کا زور کتنا ہے۔ ہم لوگوں نے اس کو اصل معنوں میں سنا ہی نہیں ہے۔ یہاں کے لوگ جو اعتراضات کرتے ہیں، وہ صرف اعتراض برائے اعتراض کرتے ہیں، انہوں نے تصوف کے بارے میں study ہی نہیں کیا کہ تصوف ہے کیا چیز۔ تصوف ایک practical چیز ہے۔ آپ مجھے چودہ سو سال میں مشہور لوگوں میں سے کوئی ایک شخص بتا دیں، جس سے اللہ پاک نے کسی بھی field میں دین کا کام لیا ہو اور وہ صوفی نہ ہو۔

سوال نمبر 28:

حضرت جی! آج کل جیسے ابھی بہت سارے ہمارے ہاں شیوخ ہیں، بہت سارے حضرات ہیں، میرا سوال سخت ہوسکتا ہے، لیکن میں اپنی تسلی کے لئے پوچھ رہا ہوں۔ کیا اتنے سارے حضرات معاشرے کی بہتری کے لئے یا نظامِ خلافت کے لئے یا حکومت کے لئے یا دین کو عام کرنے کے لئے کوئی بڑا اقدام کیوں نہیں کرتے؟ یہ تو اس طرح ہے کہ جو آگیا، وہ آگیا۔ اس نے اپنی ذاتی اصلاح کر لی، لیکن باقی لوگ محروم رہتے ہیں۔

جواب:

میں عرض کرتا ہوں کہ ذاتی اصلاح بنیاد ہے اجتماعی اصلاح کی، جب تک انفرادی اصلاح نہیں ہوچکی ہوتی، اجتماعی اصلاح نہیں ہوسکتی۔ مثلاً گندے ہاتھوں سے آپ چیزوں کو صاف کرسکتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ نہیں کرسکتے۔ بالکل اسی طرح تصوف صرف آپ کے قلب، عقل اور نفس کو پاک کرنے کی کوشش کرتا ہے، جب یہ پاک ہوجاتے ہیں، تو آپ کی عقل بھی ہے، اس کے ذریعہ سے آپ کوئی بھی دین کا کام کرسکتے ہیں۔ آپ کا قلب بھی ہے، کسی دین کے کام کا جذبہ آپ کے دل میں آسکتا ہے۔ اور آپ کا نفس بھی ہے، نفس کی رکاوٹیں بھی دور ہوجائیں گی۔ پھر آپ دین کا کام آسانی سے کرسکیں گے۔ تصوف آپ کو یہ نہیں کہتا کہ آپ نے خانقاہ میں بیٹھنا ہے، وہ تو کوئی کوئی ہوتا ہے، ہر ایک ایسا نہیں ہوتا، لیکن یہ ہے کہ پھر تقسیمِ کار ہوجاتی ہے کہ کسی کو کسی کام پہ لگا دیا اور کسی کو کسی کام پہ لگا دیا۔ یہ اب بھی ہو رہا ہے۔ ہمارے شیخ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے جتنے بھی خلفاء ہیں، مختلف علاقوں میں مختلف جگہوں پہ اپنے اپنے کام کر رہے ہیں، کوئی انجینئر تھا، کوئی ڈاکٹر تھا اور کوئی پروفیسر تھا اور کوئی politician تھا۔ مختلف کام کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر فدا صاحب کیا کام کر رہے ہیں؟ اس طریقہ سے جو ہمارے دوسرے ساتھی تھے، جیسے اختیار الملک صاحب خانقاہ چلا رہے تھے، لیکن دوسرے کچھ حضرات جو پروفیسر تھے، وہ سٹوڈنٹس کی تربیت کر رہے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ بات نہیں ہے کہ صرف خانقاہ میں بیٹھنا تصوف ہے، وہ تو اس کا ایک source اور ایک سنٹر ہے، جہاں پر development ہوتی ہے، جہاں پر تربیت ہوتی ہے اور جہاں پر لوگ بنتے ہیں۔ میں آپ کو امریکہ کا ایک واقعہ سناتا ہوں، میں امریکہ میں گیا تھا، وہاں پر تبلیغی جماعت کا جو مرکز تھا، اس کے امیر صاحب کا نام لقمان تھا، وہ Manhattan میں تھے، تو وہ مجھے receive کرنے کے لئے آئے۔ ایک دن صبح بیٹھے ہوئے تھے، صبح کا ناشتہ کر رہے تھے۔ ویسے انہوں نے سوال کیا کہ

Which country is the most developed country?

اب لوگ اس کے جواب میں مختلف ملک بتا رہے ہیں، کوئی جرمنی کہہ رہا ہے، کوئی جاپان کہہ رہا ہے، کوئی Russia کہہ رہا ہے، کوئی امریکہ کہہ رہا ہے۔ لیکن وہ No کہتے رہے۔ میں حیران تھا کہ یہ تو ہر چیز پہ No کر رہے ہیں۔ اخیر میں میں نے ان سے پوچھا کہ آپ بتائیں۔ کہنے لگے کہ پاکستان ہے۔ اب میں خود حیران ہوگیا۔ میں نے سوچا کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں! پھر انہوں نے کہا:

These people are developing things. These are things and Pakistan is developing ulama, tablighi and مشائخ. These are actual things.

میں نے سوچا کہ ایک امریکن کی ایسی سوچ ہے۔ بہرحال! خانقاہ میں یہ کام ہوتا ہے۔ یہ مختلف لوگ جو produce ہوتے ہیں، یہ produce خانقاہ میں ہوتے ہیں، لیکن پھر بعد میں خانقاہ سے باہر نکل کے پھر مختلف شعبوں میں کام کرتے ہیں۔ آپ اپنی اصلاح کروا لیں، پھر جو مرضی کریں اور جو بھی کام آپ کے لئے suit ہو، وہ آپ کرلیں۔ بلکہ میں کہہ سکتا ہوں کہ ایک ہوتی ہے اللہ کی تشکیل اور ایک ہوتی ہے انسان کی تشکیل۔ اللہ کی تشکیل یہ ہے کہ طبیعت کیسی بنائی ہے، اس کو کس شعبہ میں کام آسان ہے، یہ اللہ کی تشکیل ہے۔ شیخ اس تشکیل کو جان لیتا ہے اور پھر اس سے وہی کام لیتا ہے، جس کے لئے اس کو اللہ پاک نے بنایا ہے۔

سوال نمبر 29:

حضرت! ابھی آپ سے میرا تعلق نہیں ہوا تھا کہ میرے پاس ایک دفعہ مسجد میں قاری خادم صاحب جدہ سے آئے تھے، وہ اچھا قرآن پڑھتے تھے، فجر کی نماز کے لئے میں نے ان کو آگے کردیا۔ وہ مصلے پہ جاتے ہی جیسے انہوں نے سورت فاتحہ شروع کی، تو رونا شروع کردیا، بہت زیادہ روئے۔ نماز کے بعد مجھے انہوں نے کہا کہ بھائی! پیچھے کوئی صاحبِ نسبت ہو، تو مجھے بتا دیا کرو۔ اس وقت مجھے یہ نہیں پتا تھا کہ صاحبِ نسبت کون ہوتا ہے۔ میں نے کہا کہ صاحب نسبت کون ہوتا ہے اور کیا ہوتا ہے، مجھے نہیں پتا۔ اور پیچھے ایک دوسرا آدمی تھا، جو نقشبندیہ سلسلے سے صاحبِ نسبت تھا، ویسے تو ہم ایسے ہی سمجھتے تھے کہ نقشبندیہ ایک لقب ہوتا ہے۔ اس نے مجھے کہا کہ یہ صاحب جنہوں نے نماز پڑھائی ہے، یہ کون ہے؟ میں نے کہا کہ یہ جدہ سے آئے ہوئے ہمارے ایک دوست ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ کسی سے بیعت ہیں؟ میں نے کہا کہ مجھے نہیں پتا کہ وہ کسی سے بیعت ہیں یا نہیں۔ پوچھ کے یہ بھی چلے گئے اور وہ بھی چلے گئے۔ بعد میں جب آپ سے رابطہ ہوا، تب مجھے پتا چلا کہ صاحبِ نسبت کون ہوتے ہیں، یعنی نماز کی کیفیت والی بات۔ انہوں نے کہا کہ میرے اوپر ایسی کیفیت طاری ہوگئی کہ کوئی صاحبِ نسبت آدمی پیچھے ہے۔ بعد میں وہ آدمی نقشبندی نام سے ہی مشہور تھے۔ تو انہوں نے بھی مجھ سے پوچھا کہ یہ کون ہیں اور انہوں نے بھی پوچھا کہ پیچھے کوئی صاحبِ نسبت ہیں۔

جواب:

یہ تو میرے ساتھ بھی ہوا ہے، جب میں ادھر اپنا مکان بنا رہا تھا، تو میرے شاگرد ہیں ’’حافظ صبور صاحب‘‘، وہ ملنے کے لئے تشریف لائے، یہ حافظ قرآن تھے۔ اس وقت ایک اللہ والے ہمارے پاس ملنے کے لئے آئے، وہ ادھر سے گلی سے enter ہو رہے ہیں، ادھر سے حافظ صاحب میرے ساتھ کھڑے ہیں، حافظ صاحب مجھے کہتے ہیں یہ کون ہیں؟ میں نے کہا کہ کیوں پوچھتے ہوں؟ انہوں نے کہا کہ ان کو دیکھ کر میرا دل جاری ہوگیا۔ یہ تو انہوں نے کہا۔ پھر جب وہ بزرگ تشریف لائے، تو انہوں نے مجھے سائیڈ پر کرکے کہا کہ یہ کون ہیں؟ میں نے بتایا، تو کہنے لگے کہ اس پہ قرآن کے انوارات نظر آرہے ہیں۔ یعنی دونوں نے ایک دوسرے کی نسبت پہچان لی، ان کی ذکر والی نسبت تھی، تو وہ ان پہ کھل گئی، اور ان کی قرآن کی نسبت تھی، تو یہ ان پہ کھل گئی۔ پس یہ links ہیں، ایسی چیزیں ہوتی ہیں، لیکن جب تک ہم لوگ سامنے نہ ہوں، اس وقت کیا ہم اس کو سمجھیں گے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ انسان کی ان چیزوں کے ساتھ کچھ چیزیں develop ہوتی ہیں۔ البتہ یہ چیزیں مقصودی نہیں ہیں، اگر کسی کو نہ ہوں، تو ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ ناکام ہوگیا، مقصود تو اللہ کی رضا ہے، وہ حاصل ہونی چاہئے، یہ چیزیں ساتھ میں توابع کے طور پہ چلتی ہیں۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ


  1. (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عمثانی صاحب)

    تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔