سادہ زندگی کی وضاحت

سوال نمبر 1606

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ


سوال:

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سادہ زندگی گزارنا ایمان سے ہے۔ (ابنِ ماجہ: 4118) آج کے حالات کے مطابق سادہ زندگی کی کیا تشریح ہے؟ اور کیا سادہ زندگی کی تشریح ہر شخص کے اپنے حال کے مطابق ہوگی؟ اس میں ایک حدیث شریف ہے جو حضرت ابوامامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے ایک دن آپ ﷺ کے سامنے دنیا کا (اسبابِ عیش و تنعم کا) ذکر کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا تم سنتے نہیں ہو؟ کیا تم سنتے نہیں ہو؟ بلاشبہ سادگی ایمان کا حصہ ہے، بلاشبہ سادگی ایمان کا حصہ ہے۔ یعنی زیب و زینت اور تنعم کو چھوڑ دینا۔ (ابوداؤد: 4161)

جواب:

اصل میں سادگی تکلف کے مقابلے میں ہے۔ اور تکلف کہتے ہیں بزور ایک کام کرنا۔ جبکہ سادگی کا مطلب یہ ہے کہ جو میسر ہو اس کو صحیح طور سے استعمال کرنا، یہ سادگی ہے۔ مثلاً (میں آپ کو آج کل کے حالات کے لحاظ سے بتاتا ہوں) جو شادیاں ہوتی ہیں، تو بعض دفع جو لڑکے کا گھر ہوتا ہے وہ بھی آج کل کے حالات کے لحاظ سے غریب ہوتا ہے، اور لڑکی کا گھر بھی غریب ہوتا ہے۔ اب اگر یہ دونوں ایک دوسرے کو پہلے سے مان لیں کہ ہم بھی غریب ہیں اور وہ بھی غریب ہیں تو کیا مسئلہ ہے؟ کوئی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ بہت سادگی کے ساتھ یہ شادی ہوجائے گی اور بہت سادگی کے ساتھ سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔ لیکن آج کل ہوتا کیا ہے کہ لڑکے کے گھر والے دوسرے لوگوں کی گاڑیاں مستعار لے کر بلکہ بعض دفعہ تو کپڑے بھی کرائے پر لے کر شادیاں کرتے ہیں۔ یہاں تو ایسی شادیاں نہیں ہیں، لیکن انڈیا میں باقاعدہ رواج ہے کہ کرائے پر کپڑے لے کر اور کرائے پر گاڑیاں لے کر، کرائے پر کرسیاں اور تمام سامان لے کر اپنے گھر کو سجاتے ہیں، جیسے ان کے ہاں بہت فراوانی ہے۔ اور لڑکی کے ہاں بھی ایسا ہی ہوتا ہے، وہ بھی یہی کرتے ہیں یعنی ان کے پاس بھی نہیں ہوتا لیکن پتا نہیں کیا کیا چیزیں اپنے گھر میں رکھ لیتے ہیں۔ بعض دفعہ تو پتا بھی چل جاتا ہے کیونکہ ساری جگہ تو نہیں بھر سکتے، اس لئے پھر جو رہ جاتی ہے تو اس سے clear ہوجاتا ہے کہ معاملہ کیا ہے۔ لہٰذا یہ معاملہ سادگی کے خلاف ہے۔ اس لئے ایک سادہ سے کپڑے آدمی پہن لے تو بس یہ ٹھیک ہے یعنی جو میسر ہیں ان کو آپ صحیح طریقے سے استعمال کر لیں۔ لیکن اگر آپ اس کے لئے اپنے اوپر ظلم کر کے اِدھر اُدھر سے پیسے پکڑ کے، قرض لے کے آپ fashionable کپڑے لے لیں تو آپ اپنے آپ کو مصیبت میں ڈال لیں گے۔ کیونکہ قرض تو ذلت کا جھنڈا ہے۔ بہت سارے لوگ قرض لیتے ہیں لیکن پھر دیتے نہیں ہیں، اس لئے وہ ذلیل ہوتے رہتے ہیں اور گناہگار بھی ہوتے رہتے ہیں۔ کیونکہ قرض لیتے وقت جس کی نیت دینے کی نہ ہو تو وہ چور ہے۔ اور ہم لوگوں پر جو سارے مسائل آئے ہیں وہ اس وجہ سے آئے ہیں کہ ہم سادہ زندگی نہیں گزارتے۔ کیونکہ سادہ زندگی گزارنے سے آخرت بھی اچھی اور دنیا بھی اچھی ہوتی ہے۔ آخرت اس لئے اچھی کہ گناہ نہیں کرنے پڑتے، یعنی جو Available resources ہیں اسی میں ساری چیزیں ہوجاتی ہیں، پھر رشوت نہیں لینی پڑتی، حرام نہیں کرنا پڑتا، سود نہیں لینا پڑتا یعنی ان تمام چیزوں سے ظلم نہیں کرنا پڑتا، ملاوٹ نہیں کرنا پڑتی، بس جو کچھ میسر ہے اس میں سارا کچھ ہوجاتا ہے۔ ورنہ پھر یہ ہوتا ہے کہ جیسے ایک دفعہ مجھے ایک لفٹیننٹ کرنل کی بیوی نے ایبٹ آباد سے فون کیا، وہ بیچاری بڑی پریشان تھی۔ کہنے لگی جی! دعا کریں شاہ صاحب بڑے مشکل حالات ہیں۔ میں نے کہا کیا مشکل حالات ہیں؟ کہتی ہیں میرے میاں ریٹائر ہوگئے۔ میں نے کہا کس پوسٹ سے ریٹائر ہوگئے؟ کہتی لفٹیننٹ کرنل کی پوسٹ سے۔ یہ سن کر مجھے آئی تو ہنسی لیکن ہنسا نہیں۔ لیکن دوسری طرف چند دن پہلے ہمارے ساتھی ظفر صاحب ریٹائر ہوئے تھے جو لانس نائیک تھے۔ لانس نائیک کی کیا پنشن ہوگی؟ چھے ہزار روپے پنشن تھی۔ میں نے اس سے کہا ریٹائرمنٹ کیا کرو گے؟ چھے ہزار روپے پنشن کے ساتھ کیا کرو گے؟ اس نے کہا کہ ہم گاؤں کے لوگ ہیں اور گاؤں میں خرچ زیادہ نہیں ہوتا، اس لئے ہمارا گزارا اس طرح ہوجاتا ہے۔ سبحان اللہ! اور وہ گزارا کر رہے تھے۔ اور بچوں کو پڑھاتے تھے لیکن مفت پڑھاتے تھے، کوئی تنخواہ نہیں لیتے تھے، تو ایک طرف خیال میں ظفر آرہے تھے اور دوسرا لفٹیننٹ کرنل کی بیوی کی بات کہ ان کو یہ پریشانی ہے۔ حالانکہ ان کو پلاٹ بھی ملتا ہے اور facilities ہوتی ہیں، یہ ساری چیزوں کے ساتھ بھی وہ پریشان ہیں کیونکہ سادہ زندگی نہیں ہے۔ ایک لفٹیننٹ کرنل صاحب نے ایک دفع ہماری چائے کی دعوت کی، یہ ہماری کالونی میں تھے، میں گیا تو اس نے بڑے تکلفات کئے۔ میں نے کہا کرنل صاحب! (وہ پٹھان تھے تو میں نے کہا) ہمارے گھر آؤ گے تو یہ چیزیں نہیں ہوں گی، کیونکہ ہمارے ہاں یہ چیزیں نہیں ہوتیں۔ وہ کہنے لگے نہیں! یہ آپ نے نہیں کرنا، بس ہم نے کرنا ہے۔ پھر اپنے آپ کو گالی دے کر کہنے لگے کہ ان لوگوں کے لئے میں کرتا ہوں تو آپ کے لئے کیوں نہیں کروں گا؟ ہماری تو پوری زندگی تکلف ہے۔ اس لئے یہ خواہ مخواہ اپنے آپ کو تکلفات میں الجھا دیتے ہیں، پھر پریشان ہوتے ہیں۔ حالانکہ بہت آسانی کے ساتھ سادہ زندگی گزاری جاسکتی ہے۔ جتنے بھی بڑے لوگ ہیں، یقین جانئے وہ زیادہ تر سادہ ہوتے ہیں اور جتنے کم آمدنی کے لوگ ہیں وہ تکلفات میں زیادہ پڑے ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس کی وجہ کیا ہوسکتی ہے؟ یعنی جو بڑے لوگ ہوتے ہیں ان میں تکلف میں نے اتنا نہیں دیکھا۔ لیکن وہ کبھی لنڈا بازار سے لیں گے کیونکہ ویسے تو ان کے وسائل اتنے نہیں ہوتے، لیکن پینٹ شرٹ اور پتا نہیں کیا کیا چیزیں اور بوٹ پالش، ٹائی، یہ ساری چیزیں رکھیں گے۔ تو یہ کیا چیز ہے؟ یہ ایک مصنوعی زندگی گزار رہے ہیں۔ حالانکہ مصنوعی زندگی گزارنے سے کیا فائدہ؟ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو بڑے لوگ ہیں ان کو احساس کمتری نہیں ہوتا اور یہ جو کم تنخواہ والے ہوتے ہیں ان کو احساس کمتری ہوتا ہے، یہ خیال کرتے ہیں کہ بس کپڑوں کے ساتھ ہماری عزت بن جائے گی۔ حالانکہ سب لوگ جانتے ہیں کہ یہ کیا چیز ہے۔ بلکہ وہی comment کرتے ہیں کہ لنڈا سے بڑی زبردست چیز لایا ہوں، یعنی ایک دوسرے کے ساتھ بات کرتے ہیں کہ بڑی زبردست چیز لایا ہوں، بڑا اچھا دانہ ملا ہے۔ لہٰذا یہ سارا مسئلہ تکلف کا اور احساس کمتری کا ہے، اگر یہ نکل جائے تو ان شاء اللہ ساری زندگی بہت آسان ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نصیب فرمائے۔


وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ