مسلمان سائنسدان کیلئے دورانِ تحقیق اپنے ایمان کی حفاظت کا لائحہ عمل

سوال نمبر 1613

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

ام المومنین حضرت زینب بنتِ جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ ان کے پاس گھبراہٹ کے عالم میں تشریف لائے۔ آپ ﷺ فرما رہے تھے کہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ عرب کے لئے ہلاکت ہے اس شر سے جو قریب آچکا ہے، آج یاجوج ماجوج کی دیوار کو اس قدر کھول دیا گیا ہے۔ آپ ﷺ نے انگھوٹے کے ساتھ متصل انگلی کے ساتھ حلقہ بناتے ہوئے ارشاد فرمایا۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ کیا ہم تباہ و برباد ہو جائیں گے؟ جب کہ نیک لوگ موجود ہوں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں جبکہ خباثتیں زیادہ ہو جائیں گی۔ (صحیح بخاری، حدیث نمبر: 6716)

یہ جو فرمایا کہ عرب کے لئے ہلاکت ہے۔ اس میں عرب کو مخصوص فرمانے کی وجہ یہ تھی کہ اس زمانہ میں عرب مسلمانوں کی وجہ سے معظم تھے۔ اور شر سے مراد جو قریب آچکا، حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت ہے۔ اس شہادت کی وجہ سے مسلسل فتنے آئے۔ یہاں شر سے کیا مراد ہے؟ علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ شر سے مراد وہ ہے جس کو ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ ایک دن آپ ﷺ نے فرمایا: آج کی رات اتنے فتنے نازل ہوئے جتنے اللہ کے خزانے نازل ہوئے۔ آپ کی بعض فتوحات بہت زیادہ ہوں گی اور لوگوں کا مقابلہ ہوگا مال کے اعتبار سے اور امیر بننے میں مقابلہ کریں گے۔ اور یہ وہ دیوار ہے جو یاجوج ماجوج کے فتنے سے بچنے کے لئے بنائی گئی ہے۔ اور یہ دیواریں کئی ہیں۔ ایک کا تذکرہ قرآن میں سورۃ کہف میں آتا ہے۔ جب خباثت غالب آئے گی، اس کا مطلب علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ بیان فرماتے ہیں کہ جب خباثت زیادہ ہوگی تو پھر عمومی ہلاکت کا عذاب آئے گا۔ نیک لوگ بھی ہلاک ہوجائیں گے۔ اور اگر وہ حق کی بات لوگوں کو سمجھاتے رہے تو قیامت کے دن یہ لوگ فساق و فجار سے الگ ہو جائیں گے۔ قیامت کے دن ہر ایک اپنی نیتوں کے اعتبار سے اٹھایا جائے گا۔

جواب:

یہاں سے ایک بات کا علم ہوا کہ جب خباثت غالب ہوگی، خباثت غالب ہونے سے مراد جب کثرت سے گناہ ہونے لگیں۔ یعنی اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگر ہم کسی سواخ کو دیکھیں جس سے پانی پریشر سے آرہا ہو تو اس سوراخ کی دیواروں کا جو resistance ہے وہ پانی کو آنے سے اور مزید ٹوٹنے سے روک رہی ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ جس وقت پانی کا پریشر اتنا زیادہ بڑھ جائے کہ اس حصہ پہ آرہا ہو کہ مزید دیوار اس کو برداشت نہیں کرسکتی۔ یعنی وہ دیوار ساری ٹوٹ جاتی ہے۔ جس طرح سونامی وغیرہ میں یا جب سیلاب آتے ہیں تو اس میں پہلے جو چیز resist کرتی ہے، وہ پل وغیرہ ہوتے ہیں، لیکن جس وقت پانی بہت زیادہ ہو جائے تو پھر اس کو وہ روک نہیں سکتی، پھر بڑی بڑی چیزیں اُڑ جاتی ہیں۔ اسی طریقے سے جب تھوڑا شر ہوتا ہے تو معاشرے کے اندر جو resistance ہے وہ اس کو مزید بڑھنے نہیں دیتی، لیکن جب زیادہ شر ہو جائے تو پھر وہ بڑھ جاتا ہے اور سب چیزیں ٹوٹ جاتی ہیں۔ اسی طرح یہاں بھی یہی بات ہے کہ جب شر غالب آجائے تو ظاہری نقصان بڑھ جاتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ﴾ (الروم: 41)

ترجمہ: "لوگوں نے اپنے ہاتھوں جو کمائی کی، اس کی وجہ سے خشکی اور تری میں فساد پھیلا"۔

شرک اور گناہوں کی وجہ سے خشکی اور تری میں فساد سے جو تکلیف اور مصیبت آتی ہے وہ سب پہ غالب آجاتی ہے۔ اور جب وہ غالب آتی ہے تو سب کے اوپر آتی ہے۔ مثلاً جب زلزلہ آئے تو زلزلے میں اللہ پاک کی قدرتیں ہیں۔ جیسے ہم نے دیکھا تھا کہ جب بالاکوٹ میں زلزلہ آیا تو ایک building بچ گئی تھی۔ باقی ساری اِدھر اُدھر گری ہوئی تھیں۔ اور بچی ہوئی building ما شاء اللہ ایک ایسے صاحب کی تھی، جو اپنے اس پلازے میں کسی ایسے شخص کو دکان نہیں دیتا تھا جو داڑھی مونڈتا ہو۔ اور نہ ہی کسی ایسے شخص کو دکان دیتا جو کہ میوزک بجاتا ہو۔ یہ دو خوبیاں اس شخص میں تھیں اور وہ ایسے کرتا تھا کہ اسے پیسوں سے جو فائدہ ہوتا اس سے خیرات بھی کرتا تھا۔ یہ تین کام وہ کرتا تھا، جس وجہ سے اس کی building بچی ہوئی تھی۔ اللہ تعالیٰ نمونہ کے لئے ایسے لوگوں کو بھی بچا کے دکھا دیتے ہیں۔ لیکن بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ شر اتنا غالب ہوتا ہے کہ سب کے اوپر عذاب آجاتا ہے۔ البتہ ان میں سے وہ لوگ جو لوگوں کو سمجھاتے رہے ہیں۔ ان کو اس طرح بچایا جاتا ہے کہ آخرت میں ان سے حساب کتاب الگ ہوگا۔ ہر شخص اپنی نیت پر اٹھایا جائے گا۔ اور ان کے ساتھ وہ معاملہ کیا جائے گا جس میں وہ تھے۔ اللہ جل شانہٗ ہم سب کو حق پر قائم رکھے اور ہم باطل کے ساتھ نہ ہوں۔

وَاٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ