اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
دینِ اسلام کی دو حیثیتیں
ظاہری اور باطنی
متن:
اللہ تعالیٰ نے رسول مقبول ﷺ کو انسانوں کی ہدایت کے لئے مبعوث فرمایا، اور دین کے قیام اور اس کی حفاظت کے سلسلہ میں آپ ﷺ سے نصرت و مدد کا وعدہ کیا۔ اللہ جلّ شانہ کا یہ ارشاد
﴿اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ﴾ (الحجر: 9)
ترجمہ: ’’اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں‘‘۔
اسی امر کی طرف اشارہ ہے۔ چنانچہ اللہ جلّ شانہٗ کی اس نصرت و مدد کی برکت سے ہی آپ کا دین تمام ادیان پر غالب آیا۔ اس دین کی اشاعت سے دراصل مقصود یہ تھا کہ عرب و عجم کے رہنے والوں کی اصلاح ہو اور ظلم و فساد کا پوری طرح قلع قمع کردیا جائے۔
مزید بر آں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ دینِ محمدی کی دو حیثیتیں ہیں: ایک ظاہری اور دوسری باطنی۔ جہاں تک دین کی ظاہری حیثیت کا تعلق ہے، اس کا مقصود مصلحتِ عامہ کی نگہداشت اور اس کی دیکھ بھال ہے اور اس کی صورت یہ ہے کہ وہ احکام و معاملات جو اس مصلحتِ عامہ کے لئے بطور ذرائع اور اسباب کے ہیں، ان کا قیام عمل میں لایا جائے اور ان کی اشاعت میں کوشش کی جائے اور جن چیزوں سے مصلحتِ عامہ پر زد پڑتی ہو اور جن امور کی وجہ سے اس مصلحت عامہ میں تحریف ہوتی ہو، ان کو سختی سے روکا جائے۔ یہ تو ہوئی دین کی ظاہری حیثیت۔ اب رہا اس کی باطنی حیثیت کا معاملہ۔ تو نیکی و طاعت کے کاموں سے دل پر جو اچھے اثرات مترتب ہوتے ہیں، ان کے احوال و کوائف کی تحصیل دین کی باطنی حیثیت کا مقصود اور نصب العین ہے۔
جب یہ امر واضح ہوگیا کہ دین کی ظاہری اور باطنی دو حیثیتیں ہیں، تو لا محالہ ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ رسول کریم ﷺ سے دین کی حفاظت کا جو وعدہ کیا گیا تھا، اس حفاظت کی بھی لازماً دو حیثیتیں ہوں گی۔ اس کی تفصیل یوں ہے کہ جب آپ ﷺ کا انتقال ہوا، تو ان سے حفاظتِ دین کا جو وعدہ کیا گیا تھا آپ ﷺ کی وفات کے بعد، اس وعدۂ حفاظت کی دو شکلیں پیدا ہوئیں، وہ بزرگ جن کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے شریعت کی حفاظت کی استعداد ملی تھی، وہ تو دین کی ظاہری حیثیت کے محافظ بنے، یہ فقہاء، محدثین، غازیوں اور قاریوں کی جماعت ہے۔ چنانچہ ہر زمانے میں اہل ہمت کی یہ جماعت مصروفِ عمل نظر آتی ہے، دین کی تحریف کی اگر کہیں سے بھی کوشش ہو، تو یہ لوگ اس کی تردید میں اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور تعلیم و ترغیب کے ذریعہ یہ بزرگ مسلمانوں کو علوم دین کی تحصیل کی طرف متوجہ کرتے ہیں، اور ان ہی میں سے ہر سو سال کے بعد ایک مجدد پیدا ہوتا ہے، جس کے ذریعہ دین کی تجدید ہوتی ہے۔ ہمیں یہاں چونکہ اس مسئلہ کی تفصیل مقصود نہیں، اس لئے صرف اس اشارہ پر اکتفا کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔
دین کے محافظین کا دوسرا گروہ وہ ہے، جس سے خدا تعالیٰ نے باطنِ دین کی حفاظت کی (جس کا دوسرا نام احسان ہے) استعداد عطا فرمائی۔ ہر زمانے میں اس گروہ کے بزرگ عوام الناس کے مرجع رہے ہیں۔ طاعت و نیکوکاری کے اعمال سے باطن نفس میں جو اچھے اثرات مترتب ہوتے ہیں اور دلوں کو ان سے جو لذت ملتی ہے، یہ بزرگ لوگوں کو ان امور کی دعوت دیتے ہیں۔ نیز یہ انہیں نیک اخلاق اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ عام طور پر یہ ہوتا رہا ہے کہ ہر زمانے میں اولیاء اللہ میں سے کوئی نہ کوئی ایسا بزرگ ضرور پیدا ہوتا ہے، جس کو عنایتِ الہی سے اس امر کی استعداد ملتی ہے کہ وہ باطنِ دین کے قیام اور اس کی اشاعت کی کوشش کرے۔ باطنِ دین کہ اس کا مغز اور نچوڑ احسان یعنی اللہ کی اس یقین کے ساتھ عبادت کرنا کہ گویا عبادت کرنے والا اسے سامنے دیکھ رہا ہے یا اگر اتنا نہ ہو تو اسے یہ یقین ہو کہ اللہ تعالٰی اسے دیکھ رہا ہے۔ یہ بزرگ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس صفت احسان کا مظہر بنتا ہے۔ اور باطنِ دین کی اشاعت اور اس کی حفاظت کا کام اس طرح اس بزرگ کے ہاتھ سے سر انجام پاتا ہے۔
کار زلف تست مشک افشانی اما عاشقاں
مصلحت را تہمتے برآ ہوئے چین بستہ اند
اولیاء اللہ میں جو بزرگ اس صفت احسان کا مظہر بنتا ہے، اس کی پہچان یہ ہوتی ہے کہ لوگوں میں اس کی رفعت شان کا عام چرچا ہوجاتا ہے اور خلقت اس کی طرف کھینچی چلی آتی ہے، ہر شخص اس بزرگ کی تعریف کرتا ہے۔ نیز جو اذکار اور وظائف ملت اسلامیہ میں پہلے سے موجود ہوتے ہیں، انہیں میں سے بعض ایسے اوراد اور اشغال اس بزرگ کے دل پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ الہام نازل ہوتے ہیں کہ جس قوم میں یہ بزرگ پیدا ہوتا ہے، اس قوم کے دلوں کو ان اوراد و اشغال سے فطری مناسبت ہوتی ہے۔ چنانچہ اسی وجہ سے اس بزرگ کی صحبت کی باتوں میں جذب و تاثیر کی غیر معمولی قوت پیدا ہوجاتی ہے اور اس سے ہر طرح کی کرامات ظاہر ہوتی ہیں۔ غرضیکہ یہ بزرگ کشف و اشراف کے ذریعہ لوگوں کے دلوں کا حال معلوم کر لیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی مدد و قوت سے دنیا کے عام معمولات میں تصرف کرتا ہے۔ اس کی دعائیں بارگاہ حق میں مقبول ہوتی ہیں۔ اور یہ اور اس قبیل کی اور کرامات اس کی ہمت و برکت سے معرض وجود میں آتی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مریدوں و طالبوں کی ایک کثیر جماعت اس بزرگ کے ارد گرد جمع ہوجاتی ہے اور یہ بزرگ باطن کی تہذیب اور اس کی اصلاح کے لئے اوراد و اشغال کو نئے سرے سے ترتیب دیتا ہے۔
یہاں سے اس بزرگ کے خانوادۂ طریقت کی بنیاد پڑتی ہے اور لوگ اس کے مسلک پر چلنے لگتے ہیں۔ اس خانوادے کی تاثیر و برکت کا یہ عالم ہوتا ہے کہ طالب اور مرید بہت جلد اس مسلک کے ذریعہ اپنی مراد کو پہنچ جاتے ہیں۔
اس خانوادے سے جو شخص خلوص رکھتا ہے اور اس کی تائید کرتا ہے وہ تو دنیا میں فائز و کامیاب ہوتا ہے اور جو اس خانوادے کا برا چاہے اور اس سے فریب کرے، وہ ناکام و خاسر رہتا ہے۔ عوام تو عوام خواص کے دلوں میں بھی اس خانوادے کے ماننے والوں کی ہیبت چھا جاتی ہے۔ نیز یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ ایسے اسباب پیدا ہوجاتے ہیں، اور اس کی قدرت الہام اور احالہ کے ذریعہ نظامِ کائنات کے عام معمولات میں کچھ اس طرح تصرف کرتی ہے کہ لوگ اس خانوادے کے مطیع و منقاد ہوجاتے ہیں۔ یہ صورت حال اس خانوادے کی سطوت و برکت ایک عرصہ تک رہتی ہے۔ لیکن ایک زمانہ گزرنے کے بعد جب عنایت الہی کسی دوسرے شخص کی طرف متوجہ ہوتی ہے اور اسے اپنے فیوض وبرکات کا مرکز بناتی ہے، تو یہاں سے ایک نئے خانوادے کی بنیاد پڑتی ہے۔ چنانچہ نیا خانوادہ معرض وجود میں آتا ہے۔ اس وقت پہلے خانوادے کی حالت ایسی ہوجاتی ہے کہ گویا کہ ایک جسم ہے، جس میں روح نہیں رہی۔ اور پہلے خانوادے کا مسلکِ طریقت ایسا ہوجاتا ہے کہ اس میں جذب و تاثیر کا نام تک نہیں رہتا۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک ہی وقت میں ایک سے زیادہ قطب پیدا ہوں اور اس طرح کہ ہر ملک میں ایک الگ قطب ہو۔
باقی رہا کسی خانوادے میں جذب و تاثیر کا پایا جانا؛ تو بات یہ ہے کہ اس میں اس خاص خانوادے کی ذاتی خصوصیت کا دخل نہیں ہوتا، جذب و تاثیر تو محض عنایت الہی کا نتیجہ ہے، جب تک کوئی خانوادہ عنایت الہی کا مرکز اور موضوع رہے، جذب و تاثیر اس میں رہتی ہے، لیکن جب عنایت الہی کا رخ بدل جائے تو پھر اس خانوادے سے جذب و تاثیر بھی غائب ہوجاتی ہے۔ اس کو یوں سمجھیے کہ ایک تالاب ہے، جس میں ستاروں کا عکس پڑ رہا ہے۔ آپ تالاب کے پانی کو ہزار بار بدلیے، لیکن اس سے ستاروں کے عکس پر تو کچھ اثر نہیں پڑے گا۔
دم بدم گر شود لباس بدل
مرد صاحب لباس را چہ خلل
الغرض جذب و تاثیر کے معاملہ میں اصل چیز عنایت الہی کی توجہ ہے اور خانوادے تو اپنے اپنے وقت میں صرف اس عنایت الہی کی توجہ کے مرکز اور اس کے آلہ کار بنتے ہیں۔ ایک خاص زمانہ میں ایک مخصوص خانوادہ عنایت الہی کا مظہر ہوتا ہے اور یہی وہ راز ہے جس کی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ ہر زمانے میں جو بھی قطب ہوا، خود اس کی زبان سے اور اس کے حواریوں کی زبان سے اکثر ایسی باتیں نکلیں جن سے مراد یہ تھی کہ ان کا خانوادہ سب خانوادوں سے اعلیٰ اور مقدم ہے اور اللہ سے قرب و وصل حاصل کرنے کا صرف یہی ایک مسلک اور راستہ ہے۔ اس ضمن میں ہم اوپر جو کچھ لکھ آئے ہیں اور عنایت الہی کے متعلق جو ہم ابھی بتا چکے ہیں کہ کس طرح ایک وقت میں ایک خاص خانوادہ اس کا مرکز اور مظہر بنتا ہے، اگرچہ یہ امور پیش نظر ہوں تو بآسانی یہ بات سمجھ میں آجائے گی کہ یہ بزرگ سب کے سب اپنے ان دعووں میں سچے تھے۔
ظاہر دین کی تجدید و اصلاح کے ساتھ ساتھ باطنِ دین کے تزکیہ کے لئے بھی عنایت الہی برابر انتظام فرماتی رہی ہے۔ چنانچہ جس طرح شریعت کے مجددین پیدا ہوتے رہے ہیں، اسی طرح طریقت کے بھی اب تک بہت سے خانوادے ہو چکے ہیں اور بہت سے اس وقت بھی موجود ہیں۔ اور امید ہے کہ بعد میں بھی ان کا سلسلہ برابر جاری رہے گا۔ ان سب خانوادوں کا احاطہ کرنا یہاں منظور نہیں، ان میں سے بعض خانوادے تو ایسے ہیں کہ انہوں نے پرانے خانوادوں کی جو بے نام و نشان ہو چکے تھے، از سر نو تجدید کردی۔ اور بعض ایسے ہیں کہ انہوں نے کئی ایک خانوادوں کو یکجا کرکے ایک خانوادے کی شکل دے دی اور بعض نے نئے سرے سے مستقل خانوادوں کی بنیاد رکھی، گو خرقہ اور بیعت میں وہ پہلوں سے منسلک رہے۔
اب یہ مسئلہ کہ کل خانوادے کتنے ہیں؟ اس کے بارے میں لوگوں میں اختلاف پایا جاتا ہے، بعض لوگ چودہ خانوادے بتاتے ہیں، جن میں سے سب سے مشہور زیدی، ایازی، ادہمی، حبیری، چشتی، جنیدی اور گارزد ہیں اور بعض کے نزدیک کل خانوادے بارہ ہیں، ان میں سے دس تو مقبول ہیں اور باقی دو مردود۔ ان دس میں سے مشہور میاں محاسبیہ، حقیقیہ، نوریہ اور طیفوریہ وغیرہ ہیں۔ الغرض ایک زمانہ تک تو یہی خانوادے رہے۔ اس کے بعد ایک وقت آیا کہ ان کے علاوہ دوسرے خانوادے پیدا ہوگئے۔ مثلاً: جامیہ، قادریہ، اکبریہ، سهروردیہ، کبرویہ، ویسویہ اور خانواده خواجگان- سر زمین ہند میں چشتی طریقہ کو حضرت معین الدین اجمیری نے از سر نو زندہ فرمایا اور ان سے خانوادہ معینیہ چلا اور خانوادہ خواجگان سے نقشبندی سلسلہ نکلا اور نقشبندی سلسلہ سے آگے چل کر حضرت عبید اللہ احرارؒ سے احراری خانوادہ بنا۔ اس کے بعد جوں جوں زمانہ گزرتا گیا نئے نئے خانوادے معرض وجود میں آتے گئے، جیسے شیخ عبد القدوس گنگوہی سے قدوسی سلسلہ نکلا، شیخ محمد غوث گوالیاری سے غوثیہ طریقہ چلا- خانواده باقویہ جو خواجہ باقی باللہ سے منسوب ہے اور احمدیہ خانوادہ جس کے بانی شیخ احمد سر ہندی ہیں اور خانوادہ آدمیہ جو شیخ آدم بنوری کی طرف منسوب ہے۔ اور علائیہ جس کے سلسلہ کا امیر ابوالعلا سے چلتا ہے۔ ان خانوادوں کے علاوہ اور بھی بہت سے خانوادے معرض وجود میں آئے، جن میں سے بعض تو اس وقت تک موجود ہیں اور بعض کا اب کوئی نشان نہیں ملتا۔
مجھ ضعیف پر حق سبحانہ کا یہ بڑا احسان ہے کہ اس نے مجھے ان تمام خانوادوں میں سے اکثر کے ساتھ ظاہری اعتبار سے ربط پیدا کرنے کی سعادت بخشی۔ چنانچہ اس کا ذکر میں نے اپنی کتاب ” انتباہ فی سلاسل اولیاء اللہ “ میں کیا ہے۔ نیز اس سلسلہ میں جو کچھ میں نے اس کتاب میں لکھا ہے، اگر کسی صاحب کو ان خانوادوں کے حالات کی خبر ہو تو وہ آسانی سے میری ان تحریروں سے اندازہ کرسکتا ہے کہ مجھے کن کن خانوادوں سے ارتباط ہے۔ اس ضمن میں مثال کے طور پر صرف اتنا عرض کرتا ہوں کہ مجھے سلسلہ مداریہ سے بواسطہ شیخ حسام الدین مالکپوری جو شیخ بدیع الدین مدار کے اصحاب میں سے تھے، اور جلالیہ اور گازر دینہ سلسلہ میں بواسطہ مخدوم جہانیاں اور جامیہ سلسلہ سے بواسطہ خواجہ مودود چشت، نیز ویسویہ سلسلہ سے بواسطہ خواجہ نقشبند نسبت حاصل ہے اور اکثر اوقات اس عاجز کو ان اصحاب کی ارواح سے بطریقہ باطنی برابر فیض ملتا رہا ہے۔ چنانچہ اس کا اثر ہے کہ میں نے ان میں سے ہر خانوادے کی نسبت کا اپنے وطن میں علیحدہ علیحدہ ادراک کیا۔ لیکن یہ مسائل ایسے نہیں کہ میں یہاں ضمنی طور پر ان کا ذکر کردوں، تو ان کا حق ادا ہوجائے۔ اس کے لئے تو بڑی تفصیل چاہیے۔ بہر حال میرے پیش نظر یہ اصول بھی ہے کہ جب کسی چیز کا پوری طرح احاطہ ممکن نہ ہو، تو یہ ضروری نہیں کہ اس کا بالکل ذکر ہی نہ کیا جائے۔
تشریح
حضرت نے یہاں پر دو چیزوں کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ دین اسلام کی دو حیثیتیں ہیں: ایک ظاہری اور ایک باطنی۔ ظاہر بھی بہت اہم ہے اور باطن بھی بہت اہم ہے۔ ظاہر اصل میں حفاظتی نظام ہے، یعنی اس کے ذریعے سے باطن کی حفاظت ہوتی ہے، اور باطنی مقصودی نظام ہے، یعنی اس کے ذریعے سے انسان کو اپنا مقصود حاصل ہوتا ہے۔ اس وجہ سے یہ دو حیثیتیں جو ہیں، ان کی باقاعدہ حفاظت ہوئی، یعنی جو دین محمدی کی دو حیثیتیں ہیں، ایک ظاہری اور دوسری باطنی، ان کی باقاعدہ حفاظت کے سلسلے چل پڑے۔ پس حضرت یہ فرماتے ہیں کہ جو ظاہر ہے، وہ اصل میں چونکہ انتظامات کے لئے ہے، اور دین کا جو ظاہر ہے، اس کی حفاظت کے لئے ہے، اور لوگوں کی مصلحتِ عامہ، یعنی لوگوں کو ایک دوسرے سے جو فائدہ ہوتا ہے، وہ بھی اسی ذریعے سے ہوتا ہے۔ مثلاً: جیسے ہم لوگ معاشرت اختیار کرتے ہیں، معاملات کرتے ہیں، ان سب کا جو دوسرے کے ساتھ واسطہ ہوتا ہے، تو یہ سب چیزیں جو ظاہر کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں، ان کی حفاظت کے لیے باقاعدہ پورا انتظام کیا گیا ہے۔ ان میں سے جو ظاہری چیزیں ہیں، جیسے قرآن پاک کی تلاوت ہے اور باقی جو ظاہری چیزیں ہیں، جیسے فقہا ہیں کہ وہ فقہ کی ترویج کرتے ہیں، محدثین نے احادیث شریفہ کی تدوین کی، اور غازی اپنے جہاد کے ذریعے سے دین کی بنیادوں کو مضبوط کرتے ہیں، اور قاری حضرات قرآن پاک کی تلاوت کو برقرار رکھتے ہیں، اور اس کے اندر جو کمی بیشی ہوتی ہے، وہ اس کو دور فرماتے ہیں، تو اس کے لئے باقاعدہ جماعتیں بنی ہوئی ہیں اور وہ اپنا اپنا کام اپنے اپنے طریقے سے کررہی ہیں۔ ان میں سے شریعت کے ظاہر کو برقرار رکھنے کے لئے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس کے اندر اگر کچھ تبدیلی آجاتی ہے وقت کے حالات کی وجہ سے، لوگوں کے جذبات کی وجہ سے، لوگوں کے attachments کی وجہ سے، رواجوں کی وجہ سے، تو ایسی صورت میں پھر کوئی مجدد پیدا ہوتے ہیں، اور وہ اس کی اصلاح فرماتے ہیں، اور پھر دین کو نئے سرے سے صاف کرکے پیش کرتے ہیں، جو اصل رنگ ہے، اس میں وہ پیش کرتے ہیں۔ یہ مجدد کا کام ہوتا ہے۔ جو دین کی حفاظت کا دوسرا سلسلہ ہے یعنی باطن کی، تو اصل میں باطن سے کیا چیزیں مراد ہیں؟ باطن سے مراد یہ ہے کہ ہم لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط کردیں اور وہ تب ہوسکتا ہے کہ ہم جب بھی عبادت کریں، تو اس حالت میں ہو کہ ہمیں بالکل محسوس ہو رہا ہو کہ میں اللہ کے سامنے ہوں یعنی گویا اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہوں اور اگر ایسا نہ ہو، تو کم از کم یہ بات تو ہو کہ اللہ پاک مجھے دیکھ رہے ہیں۔ ایسی صورت میں اس کیفیت تک جانے کے لئے جو موانع (رکاوٹیں) ہیں، ان موانع کو دور کرنا پڑتا ہے۔ مثلاً: موانع میں ایک تو نفس کی بات ہے، کیونکہ حدیثِ نفس اس کیفیت سے منع کرتا ہے۔ اور دوسرا وساوسِ شیطانی، دل کو اس کیفیت سے دور کرتا ہے۔ تو ایسی صورت میں شیطان کے راستے کو روکنے کے لئے دل کی حفاظت کرنی پڑتی ہے اور نفس کے شر سے بچنے کے لئے نفس کے اوپر محنت کرنی پڑتی ہے اور فہم کو درست کرنے کے لئے عقل پر محنت کرنی پڑتی ہے۔
اس طریقے کی اصل میں اس کیفیت کو حاصل کرنے کے لئے، اسے محفوظ رکھنے کے لئے، پھر اسے عام کرنے کے لئے ضرورت پڑتی ہے۔ تو ہر زمانے میں کچھ حضرات اس مقصد کے لئے پیدا ہوتے ہیں اور حالات کے مطابق، جیسے شریعت کو صحیح انداز میں رائج کرنا اور لوگوں تک پہنچانا؛ یہ ایک کام ہوتا ہے، اسی طرح حالات کے مطابق مثلاً: امریکہ میں اس کام کو کیسے کرنا ہے، رشیا میں کیسے کرنا ہے، پاکستان میں اور ہندستان میں کیسے کرنا ہے یعنی ہر جگہ کے حالات چونکہ جدا ہوتے ہیں، تو ان حالات میں ہم یہ کام کیسے کرسکتے ہیں؟ اس کے لئے ایسے حضرات موجود ہوجاتے ہیں، جو اس کام کو کرسکتے ہیں، اور ان کے ذریعے لوگوں کو ما شاء اللہ! فائدہ ہوتا ہے۔ اس میں کچھ لوگوں کو اللہ جلّ شانہٗ خاص طور پر اس کام کے لئے ذریعہ بناتے ہیں، جیسے مجدد کا بتا دیا گیا کہ اس میں کچھ لوگوں کو اس کام کے لئے خاص کردیا جاتا ہے، ان کے لئے پھر اللہ جلّ شانہٗ جماعتوں کو بھی پیدا فرماتے ہیں اور لوگوں کے قلوب کو ان کی طرف موڑ لیتے ہیں، اور لوگوں کو ان سے بہت زیادہ فائدہ ہوتا محسوس ہوتا ہے۔ لہٰذا لوگ جوق در جوق ان کے پاس آتے ہیں اور ان سے استفادہ کرتے ہیں۔ ان کے بارے میں پھر حضرت نے ارشاد فرمایا کہ چونکہ بعض حضرات تو ایسے ہوتے ہیں جو کسی خاص خانوادے کو دوبارہ Reinstate کر لیتے ہیں، جیسے خواجہ معین الدین چشتی اجمیر رحمۃ اللہ علیہ نے چشتی سلسلہ کو دوبارہ فعال کردیا، یا حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے نقشبندی سلسلہ کو دوبارہ مدون کر لیا اور اس کو ایک خاص رنگ دے دیا، یا کچھ حضرات نے ما شاء اللہ! نئے حالات کے مطابق ایک نیا سلسلہ بنا دیا، جیسے قادری سلسلہ ہے۔
اس طریقے سے جو حضرات ما شاء اللہ! صاحبِ بصیرت تھے اور ان کو اللہ پاک نے ان نعمتوں سے نوازا تھا، تو انہوں نے وقت کے حالات کے مطابق ایک خاص ترتیب سے ان چیزوں کو حاصل کرنے کے لئے کچھ نظام بنا دیے۔ اس طریقے سے کچھ سلاسل وجود میں آگئے، کچھ خانوادے وجود میں آگئے۔ ان خانوادے کی جو بات ہوتی ہے تو اس میں یہ ہوتا ہے کہ اللہ جل شانہٗ بعض دفعہ بعض خانوادوں سے کام لیتے ہیں، لیکن وقت گزرنے کے بعد وہ چیز ادھر نہیں رہتی، بلکہ کسی اور طرف اللہ کا جو فضل و عنایت ہے، وہ متوجہ ہوجاتا ہے، پھر وہاں وہ چیز ملتی ہے۔
حضرت نے یہ بات بڑی گہری فرمائی ہے کہ ضروری نہیں ہے کہ جو سلسلہ مسلسل چلا آرہا ہے، اسی میں وہ چیز موجود ہو، کیونکہ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ بعض چشمے خشک ہوجاتے ہیں۔ اور جو چشمے خشک ہوجاتے ہیں، تو اس میں تو پھر پانی نہیں ہوتا۔ ممکن ہے کہ پانی کسی اور جگہ نکل آیا ہو، تو لوگ بعض دفعہ ایک چشمے کے گرد بیٹھے ہوتے ہیں کہ یہاں سے پانی ملے گا، جبکہ وہاں پانی خشک ہوچکا ہوتا ہے اور دوسری جگہ پر وہ پانی موجود ہوچکا ہوتا ہے، تو جو خوش نصیب ہوتے ہیں، وہ وہاں پہنچ جاتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ چیزیں وجود میں آتی رہتی ہیں اور چیزیں بعض دفعہ ختم بھی ہوتی ہیں۔ تو اس صورت میں حالات کے مطابق دیکھنا چاہئے کہ کس سلسلے سے اللہ تعالیٰ کا خاص فیض (جو اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے، وہ کہاں سے) تقسیم ہو رہا ہے۔ گویا کہ رسمی اور رواجی طریقوں کے پیچھے نہیں جانا چاہئے، کیونکہ بعض سلسلوں میں صرف رسمی اور رواجی طریقے رہ جاتے ہیں، اصل چیز وہاں سے اٹھ جاتی ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی جو نظرِ فیض ہے، وہ اس سے اٹھ جاتی ہے، تو ایسی صورت میں وہاں پر صرف رسمی باتیں رہ جاتی ہیں۔ لیکن کسی جگہ پر کوئی خاص بات جو دین کی اصل بنیاد ہے، (جن چیزوں کا ذکر ہوا ہے) وہ چیز چونکہ وہاں پر وجود میں آجاتی ہے، تو ان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ اس کے لئے پھر بعض حضرات کو اللہ جل شانہٗ چن لیتے ہیں اور یہ نظام اللہ پاک اس طرح چلا دیتے ہیں کہ اس وقت تک جتنے سلسلے ہوتے ہیں، ان سب کا فیض ان صاحب تک پہنچا دیتے ہیں اور پھر اللہ پاک اس وقت کے حالات کے مطابق ان سے کام لیتے ہیں۔
اس میں ایک نکتے کی بات میں عرض کرتا ہوں، جو بہت اہم بات ہے، اس کو اچھی طرح غور سے سننا چاہئے کہ اصل بات یہ ہے کہ طریقہ مقصود نہیں ہوتا، ذریعہ مقصود نہیں ہوتا، مقصد اس کو حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اب اس میں دیکھیں! جیسے مثال کے طور پر طب ہے، ایک ایلوپیتھی ہے اور ایک ہومیوپیتھی ہے، ایک یونانی علاج یعنی حکمت ہے، اور ایک آکو پنکچر ہے۔ اب عین ممکن ہے کہ کوئی ایسا باکمال صاحب ہو، جن کی نظر ایلوپیتھی پر بھی ہو، جن کی نظر ہومیوپیتھی پر بھی ہو، حکمت پر بھی ہو، آکوپنکچر پر بھی ہو، اور اس کو یہ پتا ہو کہ کون سا علاج کون سی چیزوں میں زیادہ کار آمد ہے۔ کیونکہ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ بعض ایریاز میں بعض علاج زیادہ کار آمد ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایلوپیتھی کی سرجری بہت اچھی ہے، نظامِ انہضام میں ما شاء اللہ! حکمت بہت آگے ہے، یا اس قسم کی دوسرے چیزوں میں۔ اب ہم سرجری میں ایلوپیتھی کو دیکھ کر کہیں کہ نہیں ہم نے نظامِ انہضام میں بھی اسی ایلوپیتھی سے ہی فائدہ اٹھانا ہے، تو یہ ایک تکلف والی بات ہوگی۔ لیکن اگر کوئی باکمال ڈاکٹر آیا اور وہ کہتا ہے کہ نہیں، میں نے یہ چیز یہاں سے لینی ہے، یہ چیز یہاں سے لینی ہے، تو اس سے ایک نیا میڈیکل سسٹم ڈیوائس کرلے گا یعنی وہ نہ حکمت ہوتا ہے، نہ ایلوپیتھی ہوتا ہے، نہ ہومیو پیتھی ہوتا ہے، نہ آکوپنکچر ہوتا ہے، بلکہ ایک نیا نظام آجاتا ہے جس میں ان سب کی اپنی اپنی جگہ جو بہترین چیزیں ہیں، وہ چلا دیتے ہیں، تو اس طرح ایک نیا میڈیکل سسٹم بن گیا تو تو گویا یہ ایک نیا سلسلہ علاج کا وجود میں آگیا۔ پھر ایسے شخص سے اللہ پاک اس وقت کے حالات کے مطابق بہت زیادہ کام لے لیتے ہیں۔ اسی طریقے سے مثال کے طور پر ذکر جہری ہے، اس کے اپنے فوائد ہیں، مراقبات کے اپنے فوائد ہیں، اشغال کے اپنے فوائد ہیں، سِری کے اپنے فوائد ہیں، مگر ایک شخص ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ اس وقت جو ذہنی انتشار ہے، وہ اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ براہ راست مراقبہ نہیں شروع کیا جاسکتا، تو جو پہلے ذکرِ جہری مراقبے سے بالکل مختلف تھا اور سِری سے بالکل مختلف تھا، اور جو جہری کی طرف جاتا وہ سِری کی طرف نہیں آسکتا تھا، تو ابھی کچھ لوگوں نے ایسا کیا کہ انہوں نے جہری کو سِری کے لئے بنیاد بنا دیا یعنی جہری کو سری کے لئے اس طرح بنیاد بنا دیا جیسے پنکھے کا شور ہوتا ہے اور پنکھے کے شور کی وجہ سے انسان باقی شوروں سے کٹ جاتا ہے۔ اب دیکھیں! شور کوئی اچھی چیز تو نہیں ہے، لیکن جس شور کے ساتھ آپ عادی ہوگئے ہیں اور اس نے آپ کو باقی شوروں سے ہٹا دیا ہے، تو یہ آپ کی یکسوئی کا ذریعہ بن گیا۔ یہی بات میں عرض کرتا ہوں کہ اگر کوئی جہری ذکر کے ذریعے سے یکسوئی حاصل کرتا ہے اور اس کے ذریعے سے اس کے مراقبے کا اجرا ہوتا ہے، تو ایک نیا نظام وجود میں آگیا اور اس طریقے سے بہت فائدہ ہوسکتا ہے ایسی چیزوں سے۔
لہٰذا اصل میں بنیادی بات یہ ہے کہ وقت کے تقاضوں کے مطابق، حالات کے مطابق، کوئی ایسی چیز جو پرانے تجربے ہیں، ان سے ایک نیا solution نکال لیتے ہیں۔ تو ایسے خانوادے وجود میں آتے رہتے ہیں۔ اللہ کا شکر ہے، الحمدللہ! جیسے حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ حضرت کو الحمدللہ! تمام خانوادوں سے تعلق حاصل تھا اور براہ راست ان کو ہر ہر خانوادے سے ربط تھا، اور حضرت نے اس کا ذکر بھی فرمایا ہے، تو تحدیثِ نعمت کے طور پر میں بھی عرض کرتا ہوں کہ اللہ کا شکر، الحمدللہ! کہ اس وقت جتنے موجودہ سلاسل ہیں، ان سب کے ساتھ اللہ پاک نے ہمیں نسبت عطا فرمائی ہے، چاہے وہ سلسلے یہاں پر ہیں، چاہے وہ سلسلے یہاں پر نہیں ہیں۔ اس کے لئے اللہ پاک نے نظام بنا دیے، جیسے یہاں پر چشتی ہے، نقشبندی ہے، قادری ہے، سہروردی ہے اور کبروی بھی ہے یعنی یہ سلسلے ہندوستان اور پاکستان میں موجود ہیں۔
اب یہ بات ہے کہ الحمدللہ! اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے کیا نظام بنا دیا؟ یہ ایک عجیب بات ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ نقشبندی سلسلے کا ہمارے شیخ نے فرمایا کہ تیری خاص نسبت ہے یعنی ذاتی نسبت ہے، تو یہ تو حضرت کی طرف سے ما شاء اللہ! اس کے بارے میں بات ہوگئی۔ اور چشتی میرے شیخ کی نسبت ہے اور تربیت ہی اسی میں ہوئی ہے، لہٰذا چشتی کے ساتھ یہ مناسبت ہوگئی۔ سہروردی ہماری خاندانی نسبت ہے اور قادری حضرات کو ہمارے کاکاخیلوں کے ساتھ کوئی خصوصی محبت ہے، جس کے بارے میں ہمیں ابھی تک پتا نہیں چلا کہ وہ کیسے ہے اور کیوں ہے؟ لیکن بہرحال ہے، اس سے ہم انکار نہیں کرسکتے۔ اور کبروی نسبت ہمیں مل گئی ہے مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کی مثنوی شریف کے ذریعے سے، چونکہ وہ کبروی نسبت ہے۔ اسی طرح ما شاء اللہ! دوسری نسبتیں ہیں جو مختلف واسطوں سے الحمدللہ! ہمیں اللہ پاک نے عطا فرما دی ہیں۔ تو یہ ایک بات تھی کہ پہلے سے اللہ پاک نے نظام ایسا بنا دیا کہ میری تربیت چشتیوں کے ذریعے سے کروائی اور نسبت نقشبندی عطا فرمائی اور سہروردیوں کے خاندان میں پیدا کیا، گویا کہ یوں سمجھ لیجئے کہ اللہ جل شانہٗ نے اس کے نظام بنا دیے کہ یہ تمام سلاسل سے استفادہ کی صورتیں پیدا ہوں۔ تو الحمدللہ، اللہ کا شکر ہے، بالکل وہی چیز جیسے شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا، اسی طریقے سے الحمدللہ، اللہ پاک نے ہمارے لئے بھی یہ نظام بنا دیا کہ تمام سلاسل سے استفادہ ہو۔
دوسری بات یہ ہے کہ درمیان میں سلاسل میں جو جمود آیا ہے یعنی جمود سے مراد یہ ہے کہ ایک انسان اپنے سلسلے کے بارے میں یہ کہے کہ صرف میرا سلسلہ صحیح ہے اور باقی سلسلے کچھ بھی نہیں ہیں، یہ والی بات جمود کی طرف اشارہ کرتی ہے، یہ والی بات نہیں ہونی چاہئے، اگرچہ اپنے مریدوں کے شوق کو بڑھانے کے لئے اگر کوئی اس طرح کہہ دے، تو کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن اگر کوئی اس کو دعویٰ کے طور پر سمجھے، تو پھر ٹھیک نہیں ہے، کیونکہ باقی سلسلوں سے اگر کوئی غافل ہوجائے، تو وہ مناسب نہیں ہے۔ لہٰذا اللہ کا شکر ہے کہ یہ نعمت اللہ پاک نے ہمیں نصیب فرمائی کہ ہر سلسلے کی برکات ہمارے اوپر کھلی ہوئی ہیں، الحمدللہ۔
یعنی چشتیوں کے اپنے فیض، الحمدللہ! ہمارے اوپر کھلے کہ چشتیوں کے اندر کیا ہے اور کس طریقے سے ان کو حاصل ہوتا ہے۔ سہروردیوں کی اپنی برکات، قادریوں کی اپنی برکات، نقشبندیوں کی اپنی برکات اور کبرویوں کی اپنی برکات یعنی یہ ساری برکات جو ہیں الحمدللہ! اللہ پاک نے ہمیں دکھا دیں، گویا کہ ان حضرات کی روحانی نسبتیں اللہ پاک نے ہماری طرف متوجہ فرمائی ہیں، تو اس کے ذریعے سے، ما شاء اللہ! ایک آسانی کی کیفیت پیدا ہوگئی، اور وہ رسومات اور رواجی چیزیں جو سلسلوں کے اندر جڑیں پکڑ رہی تھیں، الحمدللہ! ہمارے سلسلے میں اس کا وجود نہیں آیا، بلکہ یوں سمجھ لیجیے کہ ہر سلسلے کی جو اصل ہے، اس کی طرف متوجہ رہے یعنی سلسلے کی جو اضافی چیزیں ہیں، اس کی طرف نہیں، بلکہ اصل چیز جو ہر سلسلے کی ہے، اس کی طرف متوجہ رہے، تو اس میں الحمدللہ! ہمارے سلسلے پر اللہ پاک نے یہ کرم فرمایا کہ چونکہ سارے سلسلوں کے ساتھ ربط ہے، اس لئے یہ بھی ہمارا طریقہ نہیں کہ ہم سارے مریدوں کا ایک طریقے سے علاج کریں، بلکہ ہر مرید کا اپنے اپنے طریقے سے علاج ہوسکتا ہے۔ اگر کسی کو قادری سلسلے کے ساتھ مناسبت ہے تو ان کی قادری سلسلے میں تربیت ہوجائے، کسی کو چشتی طریقے سے مناسبت ہے تو ان کی چشتی طریقے سے تربیت کی جائے، کسی کو سہروردی کے ساتھ مناسبت ہے تو ان کی اس طریقے سے کی جائے، کسی کو نقشبندی سے مناسبت ہے تو ان کی اس طریقے سے۔
اس سلسلے میں، الحمدللہ! اللہ کا شکر ہے کہ ہم نے ہر سلسلے کی مناسبت سے غزل بھی لکھی ہے اور اس غزل میں واقعتاً ان بزرگوں کی نسبت موجود ہے، الحمدللہ! لہٰذا جو جس غزل سے زیادہ متأثر ہوتا ہے، تو اس کے لئے ما شاء اللہ! اس سلسلے کی طرف کشش موجود ہوتی ہے۔
پھر اللہ پاک نے ہمیں جو ذکر عطا فرمایا، وہ بھی جامع ذکر عطا فرمایا۔ جامع ذکر سے مراد جس میں چاروں سلسلوں کا ذکر شامل ہے، یعنی ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ تو مشترک ہے اور چشتیوں کا خاص جو ہے، اس میں ’’اِلَّا اللّٰہ‘‘ بھی ہے اور ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ قادریوں کا ذکر ہے اور ’’حَقْ‘‘ سہروردیوں کا ہے اور اسمِ ذات ’’اَللّٰہ‘‘ نقشبندیوں کا ہے۔ لہٰذا یہ چاروں سلسلوں کا جامع ذکر اللہ پاک نے ہمیں نصیب فرما دیا اور چاروں سلسلوں کے جامع طریقے بھی اللہ تعالیٰ ہمیں نصیب فرما دیے۔
یہ تحدیث نعمت کے طور پر ہم عرض کرتے ہیں، ورنہ سلسلہ ایک بھی کافی ہوتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ سلسلہ ایک بھی کافی ہوتا ہے، یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ کسی کو چاروں سلاسل کے ساتھ مناسبت ہو یا پانچوں سلاسل کے ساتھ مناسبت ہو، بس ایک سلسلے کے ساتھ مناسبت ہونا کافی ہے اور اس کے لئے وہ کافی ہوتا ہے۔ لیکن وہ جو جمود آگیا تھا، اس جمود کو توڑنے کے لئے ان چیزوں کی ضرورت تھی اور وقت کے حالات بدلنے کی وجہ سے جو مختلف سلاسل کے اندر جو خوبیاں تھیں، اگر ان کو یکجا کیا جائے، تو اس سے ایک نیا سلسلہ گویا کہ وجود میں آجاتا ہے۔ تو یہ ما شاء اللہ! وہ نسبت تھی جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائی ہے، اللہ جلّ شانہٗ ہم سب کو اس پر قائم رکھے اور اس کی برکات پورے عالم کے اندر پھیلا دے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ