اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
ارشاد: اعمالِ صالحہ اور ترکِ معاصی کو رزق کی وسعت میں بڑا دخل ہے۔ حق تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرٰى آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَالْأَرْضِ﴾ (الأعراف:96)
ترجمہ: ’’اور اگر یہ بستیوں والے ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرلیتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین دونوں طرف سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے‘‘۔
اسی طرح معاصی کو تنگیٔ رزق و نزولِ بلا میں بڑا دخل ہے۔ یعنی جو گناہ ہے، اس کی وجہ سے رزق تنگ ہوجاتا ہے اور بلائیں نازل ہوتی ہیں۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ جس قوم میں سود کی کثرت ہوگی، اللہ تعالیٰ اس پر قحط مسلّط کردیں گے اور جس قوم میں زنا کی کثرت ہوگی، اس پر طاعون وغیرہ ایسے امراض مسلّط ہوں گے۔ پس دنیاوی و دینی، تمدنی و سیاسی تمام مصالح کی بنیاد اور جڑ یہی ہے کہ انسان اپنے نفس کی مخالفت کا عادی بنے اور نفس کو مشقت کا عادی بنائے۔
حضرت نے اس میں تکوینی اور تشریعی نظام کا آپس میں رابطہ اور ربط کو بیان فرمایا ہے۔ رزق اور بلاؤں کا نزول اور قحط وغیرہ یہ سب تکوینی چیزیں ہیں اور ایمان اور تقویٰ یہ تشریعی چیزیں ہیں۔ تو اس آیت کریمہ میں اللہ جل شانہٗ نے تکوینی اسباب کو تشریعی اسباب کا تابع بتایا ہے یعنی جو تشریعی اسباب ہوتے ہیں اور شریعت کا جو حکم ہوتا ہے، تو تکوینی اسباب کو اس کا تابع بتایا ہے۔ ایک موٹی سی بات کہ حدیث شریف میں آتا ہے: جب تک اللہ اللہ کرنے والا کوئی ایک بھی موجود رہے گا، تو قیامت نہیں آئے گی۔ (مشکوۃ، حدیث نمبر:5516)
اب قیامت جو ہے، یہ تکوینی چیز ہے، اس کو منحصر کیا اللہ اللہ کرنے والوں کی موجودگی کے ساتھ، لہٰذا جب اللہ کے نام کی وجہ سے پوری کائنات قائم ہے، تو کیا اللہ کے نام کی نسبت سے جو اعمال ہوتے ہیں، اس سے باقی برکات وغیرہ کیا قائم نہیں ہوں گی؟ فرق صرف یہ ہے کہ لوگوں کو بعض دفعہ جو یہ نظر آتا ہے کہ جو کافر ہیں ان کو دنیا میں بڑی فتوحات حاصل ہوتی ہیں، بہت اچھی زندگی گزارتے ہیں، یا ہم لوگ بعض گناہگاروں کو دیکھتے ہیں جو بڑے اچھے اچھے عہدوں پہ ہوتے ہیں، یا بڑے لوگ ہوتے ہیں، خان ہوتے ہیں، اس سے شیطان لوگوں کو دھوکے میں ڈال دیتا ہے۔ حالانکہ دنیا کے جتنے بھی اسباب ہیں، مثلاً آنکھ ہے، تو آنکھ کی برکت یہ ہے کہ یہ صحیح چیز میں استعمال کرو، کان کی برکت یہ ہے کہ صحیح چیز کے لئے استعمال کرو۔ اگر آپ کے کان غلط چیز کے لئے استعمال ہوگئے، تو یہ آپ کو فائدہ نہیں ہوا۔ لہٰذا جن لوگوں کو ڈھیل دی جاتی ہے، تو وہ ان کے لئے برکت نہیں، بلکہ ان کے لئے وہ عذاب کا باعث ہے۔ جیسے آیات کا مفہوم ہے کہ اللہ پاک فرماتے ہیں کہ اگر اس بات کا خطرہ نہ ہوتا کہ مسلمان اپنا دین چھوڑ دیں گے تو میں کافروں کے گھروں کو سونے اور چاندی کا بنا دیتا۔ (الزخرف: 33-35)
اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے لئے دنیا میں یہی چیز ہے، البتہ جن کو اللہ پاک ڈھیل دیتے ہیں تو ان کو یہاں پر ایسی چیزیں دے دیتے ہیں، جس سے وہ اپنے آپ کو نَعُوْذُ بِاللہِ مِنْ ذَالِکَ اللہ جل شانہٗ کے قہر و غضب سے بچا ہوا سمجھتے ہیں اور اس کی وجہ سے وہ مزید گناہوں میں اپنے آپ کو پھنسا رہے ہوتے ہیں اور کافر ایمان کی طرف نہیں آرہے ہوتے۔ اگر دیکھا جائے تو دنیا کے اندر جو کافر ہیں یا جو گناہگار مسلمان ہیں، ان کو دنیا کا theme حاصل نہیں ہے اور وہ کیا ہے؟ وہ اطمینان قلب ہے۔ کیونکہ آپ دنیا کی کیا چیز حاصل کرسکتے ہیں؟ دولت سے، عزت سے، شرافت سے، ان چیزوں سے انسان کو کیا چیز مطلوب ہوتی ہے؟ سکون قلب اور اطمینان۔ یہی وجہ ہے کہ جو بڑے بڑے لوگ ہیں، جو انتہائی بلندیوں پر دنیاوی لحاظ سے پہنچ جاتے ہیں، تو وہاں ان کو ادراک ہوجاتا ہے کہ ہم میں کس چیز کی کمی ہے اور وہ کمی اطمینان قلب کی ہے، تو ان کو اس بات کا احساس ہوتا ہے، لیکن وہاں پر بھی شیطان کا دھوکہ کام کر جاتا ہے کہ ان کو یہ باور کرا دیتا ہے کہ اطمینان کو حاصل کرنے کے لئے میوزک کی طرف چلے جاؤ، اطمینان کو حاصل کرنے کے لئے باہر کی طرف چلے جاؤ، اطمینان کو حاصل کرنے کے لئے چرس پیو، اطمینان کو حاصل کرنے کے لئے شراب پیو، اس چیز کی طرف ان کو متوجہ کردیتا ہے۔ حالانکہ اس سے مزید اطمینان ختم ہو رہا ہوتا ہے، لیکن بظاہر ایسا نظر آتا ہے، جیسے ان کو اس سے شاید عارضی طور پر اطمینان حاصل ہوجائے گا۔ کیونکہ دنیا کی زندگی ایک دھوکہ ہے، تو وہ ان چیزوں سے دھوکہ کھاتے رہتے ہیں اور پھر مزید ان کو احساس ہوتا ہے کہ ہمارا اطمینان ختم ہو رہا ہے، لیکن صحیح چیز کی طرف ان کو آنے کی توفیق اللہ پاک نے نہیں دی ہوتی۔ اب دیکھیں! دنیا کی چیزیں تو دے دیں، لیکن دنیا کی اصل چیز کو لے لیا۔ اور جو اللہ والے ہوتے ہیں، ان کو بظاہر دنیا کی وہ چیز حاصل نہیں ہوتی، لیکن وہ اصل چیز لے لیتے ہیں یعنی جو اللہ والے ہوتے ہیں، ان کو وہ اطمینان حاصل ہوتا ہے کہ جس کے بارے میں کسی کا تصور بھی نہیں۔ آپ ان کو چھوڑیں کہ ان کو کیا اطمینان حاصل ہوگا، ان کی وجہ سے تو ان کے پاس بیٹھنے والوں کو اطمینان حاصل ہوجاتا ہے اور وہ لوگ جب آتے ہیں تو وہ کچھ محسوس کرتے ہیں کہ کوئی بات حاصل ہوئی ہے۔ ہمارے مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ یونیورسٹی میں تھے اور یونیورسٹی میں ہر قسم کی مخلوق ہوتی ہے، تو لوگ جب اپنے آپ کو تمام چیزوں سے پریشان کر لیتے، تو پھر لوگ ان کو بتاتے کہ مولانا صاحب کے پاس چلے جاؤ، پھر جب وہ مولانا صاحب کے پاس آتے اور مولانا صاحب کی مجلس میں بیٹھتے تو ان کے منہ سے بے ساختہ نکلتا کہ ہمیں یہاں آکر اطمینان حاصل ہوا ہے، آج بہت خوشی ہوئی ہے۔ جب مولانا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس بیٹھنے سے ان کو اتنا فائدہ ہوتا تو اگر وہ مولانا صاحب کے جو کام تھے، وہ کرنا شروع کرلیں اور اس سے آگے بڑھیں تو ان کو پھر کیا حاصل ہوگا۔ اور کیوں ایسا نہ ہو اللہ پاک فرماتے ہیں:
﴿اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىٕنُّ الْقُلُوْبُ﴾ (الرعد: 28)
ترجمہ: ’’یاد رکھو کہ صرف اللہ کا ذکر ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان ہوتا ہے‘‘۔
یعنی اطمینان کا نظام اللہ پاک نے اپنی یاد کے ساتھ رکھا ہوا ہے، اس کی وجہ کیا ہے؟ کہ جب تک انسان ground state پہ نہیں آتا، تو اس سے energy خارج ہو رہی ہوتی ہے، یعنی وہ stable condition میں نہیں آتا۔ اور جب تک انسان فانی چیز کے ساتھ لگا ہے، (دنیا فانی چیز ہے) تو اس وقت تک اس کو اطمینان نہیں حاصل ہوتا، لیکن جب اس کا تعلق باقی کے ساتھ ہوگیا تو ground state پہ آگیا، اب اس کو فطری طور پہ اطمینان حاصل ہوگیا، کیونکہ اللہ باقی ہے اور اللہ کی نسبت باقی ہے اور جو اللہ کے ساتھ لگ جائے تو گویا کہ وہ تمام باقی چیزوں سے بے نیاز ہوجائے گا اور یہی بے نیازی انسان کے سکون اور اطمینان کا باعث ہوتی ہے۔ انسان جب تک چیزوں سے بے نیاز نہیں ہوتا تب تک اس کی anxiety قائم ہے، وہ پریشان ہوگا۔ مثلاً ایک آدمی چاہتا ہے کہ مجھے یہ پوسٹ مل جائے، تو جب تک اس کو پوسٹ نہیں ملے گی، تو anxiety اس کے پاس ہے اور جب وہ مل جائے گی تو پھر نظر اگلی پوسٹ پہ لگی ہوگی۔ جیسے حدیث شریف میں بھی اس طرح آتا ہے کہ بنی آدم کو اگر ایک سونے کی وادی مل جائے تو دوسری کی تمنا کرے گا، اس لئے اس کا پیٹ تو قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے۔ (ترمذی: 2337) کیونکہ انسان کو جب یہ چیزیں ملتی ہیں تو اس سے زیادہ کی تمنا، زیادہ کی طلب ہوتی ہے، تو اطمینان کیسے ہو؟ اطمینان نہیں ہوسکتا، لیکن اطمینان اس کو ملتا ہے کہ اس کے پاس سو روپے ہوں اور وہ کہتا ہے کہ میرا خرچ پچاس ہیں، باقی پچاس کا میں نے کیا کرنا ہے؟ ایسے شخص کو وہ اطمینان حاصل ہوگا جو کروڑوں والوں کو حاصل نہیں ہوسکتا۔ اب کروڑ روپے جن کے پاس ہیں، تو اسے دو کروڑ کی طلب ہے۔ ایک دفعہ ایک بزرگ کے پاس ایک صاحب آئے اور انہوں نے کہا کہ حضرت یہ کچھ ہدیہ ہے، آپ لے لیجئے، حضرت نے وہ لے لیا تو وہ ساتھی کہنے لگے کہ حضرت آپ اس کو مستحقین میں تقسیم کروا دیں۔ فرمایا: اچھا آپ کی خواہش ہے کہ آپ کی دولت مزید بڑھ جائے؟ اس کا یہ خیال ہوا کہ شاید حضرت میرے لئے کوئی دعا کرنا چاہتے ہوں گے کہ میرا مال بڑھ جائے، اس لئے انہوں نے کہا کہ حضرت! کیوں نہیں، خواہش تو ہے، فرمایا: سب سے بڑے مستحق آپ ہی ہیں، اور واپس کردیا، اور فرمایا اگر آپ کو قلق ہے تو مجھے کیوں دیئے ہیں؟ اس کے مستحق تو آپ ہی ہیں، آپ میرے ہاتھ سے کیوں تقسیم کرا رہے ہیں۔ مطلب یہ ہوا کہ جب تک انسان کا نفس غنی نہیں ہوتا، اس وقت تک انسان چیزوں سے غنی نہیں ہوسکتا۔ ’’اَلْغِنٰی غِنَی النَّفْسِ‘‘ یعنی غنا نفس کے غنا کا نام ہے۔ جب کسی کا نفس غنی ہوگیا تو اسے طلب ہی نہیں ہوگی۔ حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ دس روپے کے عوض کتابت کے شعبے میں ملازم تھے، شاگردوں نے بارہ سو روپے کی تنخواہ ان کے لئے کسی نواب کے پاس تلاش کرلی اور حضرت کو بڑی خوشی خوشی اطلاع دی کہ حضرت! آپ کے لئے بارہ سو ماہوار پہ بندوبست کیا ہے۔ اب بارہ سو روپے اس دور کے آپ اندازہ کرلیں کہ ہمارے وقت میں ہماری salary یعنی جو ہماری تنخواہ ہے 17 گریڈ سے زیادہ تھی یعنی ہماری ابتدائی تنخواہ 1440 روپے تھی۔ یہ 1980 کی بات کررہا ہوں، 1440 ہماری تنخواہ گریڈ 17 سے اوپر کی تھی۔ حضرت نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کی اس دور میں 1200 روپے کی تنخواہ طے ہوئی، جس کا میں نے ایک دفعہ حساب کیا تو inflation کے حساب سے چھے لاکھ روپے تنخواہ اس دور میں بنتی ہے، تو انہوں نے چھے لاکھ روپے تنخواہ پہ حضرت کے لئے بندوبست کیا، مگر حضرت نے عجیب جواب دیا اور فرمایا: میری دس روپے تنخواہ ہے، پانچ روپے میرے خرچ ہوتے ہیں اور میں پانچ روپے کے لئے سوچتا ہوں کہ کہاں خرچ کروں گا؟ مگر پھر گیارہ سو پچانوے خرچ کرنے کے لئے سوچنا پڑے گا۔ تو مجھے نہیں چاہئے۔ اب بتاؤ! جو اطمینان مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کے دل کو حاصل ہے، کوئی اور حاصل کرسکتا ہے؟ کوئی حاصل نہیں کرسکتا۔ ’’اَلْغِنیٰ غِنَی النَّفْسِ‘‘۔ حضرت کی بیوی جو تھی، وہ بہت بڑے مالدار رئیس کی بیٹی تھی اور انہوں نے بڑی منت و سماجت سے ان کو دی تھی، جب شادی ہوگئی تو پہلی ہی رات میں حضرت نے فرمایا کہ دیکھو! اگر آپ میرے ساتھ رہنا چاہتی ہیں تو مجھے یہ زیور ٹھیک نہیں لگتے، انہوں نے کہا آپ کی مرضی ہے، جو آپ کرلیں۔ حضرت نے وہ زیور ان دنوں خلافت کی تحریک چل رہی تھی وہاں پر چندے میں دلوا دیئے۔ اب وہ چونکہ رئیس کی بیٹی تھی، تو باپ کو پتا چل گیا کہ یہ تو سارے چندے میں دے دیئے، تو اس نے اتنے اور زیور بنا دیئے، اگلے دن وہ بھی لے لئے اور اس کو بھی چندے میں دے دیئے، تو اخیر میں ان کو پتا چل گیا کہ ان کا ایسا ہی نظام ہوگا، لہٰذا پھر نہیں بنوایا۔ تو یہ جو حضرات ہوتے ہیں، ان کا دل بہت مطمئن رہتا ہے۔ جیسے حضور ﷺ نماز پڑھ رہے تھے اور نماز کے بعد جلدی جلدی گھر تشریف لے گئے، وہاں بہت سا مال پڑا ہوا تھا، تو سارا خرچ کردیا اور فرمایا: مجھے خطرہ ہوگیا کہ نبی کے گھر میں کیسے مال پڑا ہے۔ لہٰذا یہ حالت تھی، یہ اصل میں اطمینان قلب ہے۔ اب دیکھیں! لوگ تلاش کرتے رہتے ہیں کہ ہمیں اطمینان قلب مل جائے، مگر اطمینان قلب کیسے ہو؟ ہماری ایک ایک رگ دنیا کے ساتھ بندھی ہوئی ہے، کسی کا دل پوسٹ کے ساتھ بندھا ہوا ہے، کسی کا مال کے ساتھ بندھا ہوا ہے، کسی کا عزت کے ساتھ بندھا ہوا ہے، کسی کا اور کسی چیز کے ساتھ بندھا ہوا ہے، لہٰذا ایسے لوگوں کو اطمینان کیسے ہو؟ ایسے لوگوں کو اطمینان نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اطمینان حاصل ہوتا ہے ان چیزوں سے بے نیازی کی وجہ سے، پھر اللہ پاک اتنا دے دیتا ہے کہ ان میں غرق ہوجاؤ، پھر بھی اطمینان رہے گا، کیونکہ تمہارا دل اس کے ساتھ نہیں ہوگا، جب آپ کا دل اس کے ساتھ نہ ہو تو بے شک ایک پیسہ بھی پاس نہ ہو، مگر آپ کو اطمینان ہوگا اور اگر ساری چیزیں تمھیں دے دیں، لیکن آپ کے اندر طلب نہیں ہے، تو بے شک آپ مال کے اندر بالکل غرق ہوجائیں، پھر بھی آپ کو اطمینان حاصل ہوگا، کیونکہ آپ کا دل اس کی طرف ہے۔ حضرت خواجہ عبید اللہ احرار رحمۃ اللہ علیہ جو نقشبندی بزرگ گزرے ہیں، ان کے ساتھ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ ایک صاحب تھے جو بیعت کی نیت سے آئے اور وہاں انہوں نے دیکھا کہ حضرت کے ہاں تو بڑی رونقیں ہیں اور مال ہے، حتیٰ کہ خیمے کی جو تنابیں ہیں، وہ بھی سونے کی ہیں، تو بڑی حیرانی ہوئی کہ بھئی! یہ دنیادار شخص کے ساتھ میں کیسے بیعت کروں؟ وہیں سے روانہ ہوگئے، راستے میں تھک گئے اور سو گئے، نیند آگئی تو خواب دیکھتے ہیں کہ قیامت کا منظر ہے اور نفسا نفسی کا عالم ہے اور نیکیوں کا مسئلہ اسے پڑا ہوا ہے اور اس کو بتایا جاتا ہے کہ اتنی نیکیاں لاؤ گے تو تم جنت جاسکتے ہو، ورنہ نہیں۔ اب وہ جس سے پوچھتا تو جواب ملتا کہ نیکیوں کو کیسے دوں؟ یہ تو آج بڑا مسئلہ ہے، ہمیں خود مسئلہ ہے، آپ کو کیسے دوں؟ تو ہر ایک انکار کررہا ہے، یہ گھبرایا ہوا کھڑا ہے، اتنے میں خواجہ صاحب بمع اپنے مریدوں کے بڑی شان و شاکت کے ساتھ جنت جارہے ہیں، تو انہوں نے دیکھا کہ وہ ان کے سامنے کھڑا ہے، انہوں نے کہا کیا بات ہے؟ اس نے کہا کہ حضرت یہ بات ہے، فرمایا اچھا میری جو نیکیاں ہیں، ان سے لے لو۔ جب وہ جاگ گئے تو انہوں نے کہا یہ تو بڑی تنبیہ ہوگئی، میں غلط فیصلہ کرچکا ہوں، میں ان کے اوپر بدگمانی کرچکا ہوں، واپس چلا گیا، واپس جب حضرت نے ان کو دیکھا تو مسکرائے چونکہ حضرت کے اوپر بھی حالت کھل گئی تھی، تو مسکرائے اور انہوں نے کہا کس نیت سے آئے ہو؟ اس نے کہا بیعت کرنے، انہوں نے کہا کہ بیعت تو بعد میں کروں گا، پہلے بتاؤ پہلا مصرعہ جو آپ نے پڑھا تھا وہ کیا مصرعہ پڑھا؟ چونکہ اس نے جاتے ہوئے ایک مصرعہ پڑھا تھا کہ نہ مرد است آنکہ دنیا دوست دارد (مرد وہ نہیں ہوتا جو دنیا کو دوست رکھتا ہے) یہ مصرعہ پڑھا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس کا دوسرا مصرعہ معلوم ہے؟ اس نے کہا چھوڑیں حضرت۔ فرمایا نہیں نہیں! دوسرا مصرعہ بھی پڑھو، پھر فرمایا اس کا دوسرا مصرعہ ہے: اگر دارد برائے دوست دارد (اگر رکھتا ہے تو دوست کے لئے رکھتا ہے) پھر فرمایا بتاؤ کہاں جانا ہے؟ انہوں نے کہا کہ حضرت! فلاں جگہ پہ کام ہے، انہوں نے کہا آجاؤ چلتے ہیں، ادھر ہی سے چادر اپنے کندھے پہ لے لی اور کسی کو بتایا بھی نہیں کہ میں جارہا ہوں، جب شہر کی فصیل آگئی تو وہاں اس نے کہا کہ حضرت! میرا کشکول وہاں پر رہ گیا ہے، میں اس کو لے آتا ہوں۔ فرمایا یہ والی بات ہے کہ تجھے تو کشکول کی فکر ہوگئی ہے، اور مجھے اپنی تمام چیزوں کی فکر بھی نہیں، اب بتاؤ! دنیادار کون ہے؟ تجھے اپنے کشکول کی فکر ہوگئی کہ میرا کشکول رہ گیا ہے، میں کشکول کو لینے کے لئے جاتا ہوں اور مجھے کوئی فکر نہیں ہوئی کہ وہ مال میں کسی کے حوالے کردوں، کسی کو بتاؤں، کسی کی ذمہ داری لگاؤں۔ خیر انہوں توبہ کرلی کہ حضرت! غلطی ہوئی، میں سمجھا نہیں تھا۔ لہٰذا ایسا ہوتا ہے کہ اگر انسان ایسا غرق بھی رہے مال کے اندر، لیکن مال کے ساتھ محبت نہ ہو تو وہ دنیا دار نہیں، وہ دیندار ہے۔ حضرت ایوب علیہ السلام کا مشکلات کا دور تھا، طرح طرح کی مشکلات آئیں، طرح طرح سے آزمایا گیا، صبر کا امتحان لیا گیا، تو یہ بہت بڑے صابر ثابت ہوئے، پھر جب اللہ جل شانہٗ نے فیصلہ کرلیا کہ اب ان کے امتحان کو ختم کرنا ہے، تو بس ان کو حکم فرمایا کہ چشمے میں نہا لو، وہ چشمے میں نہائے تو ساری بیماریاں ختم ہوگئیں، پھر اللہ پاک نے سارا مال بھی ان کو لوٹا دیا اور ان کی اولاد وغیرہ بھی ان کی طرف لوٹا دی، پھر بڑے آسودہ حال ہوگئے۔ تو ایک دن ان کے گھر کے اوپر سونے کی ٹڈیوں کی بارش ہوئی، تو حضرت ایوب علیہ السلام جھولی بھر بھر کے وہ جمع کرتے اور اندر کمرے میں لے جاتے، تو اوپر سے آواز آئی ایوب! تیرا پیٹ نہیں بھرتا؟ انہوں نے کہا کہ یااللہ! تیری رحمت سے میرا پیٹ کبھی نہیں بھرے گا۔ اب دیکھیں دوسری طرف خیال چلا گیا۔ اب دیکھیں! اللہ جل شانہٗ نے حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پیدا فرمایا، حضرت علی کرم اللہ وجہہ، حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پیدا فرمایا، جن کے پاس آج کا ہے، تو شام کا نہیں تھا، پتا ہی نہیں ہے کہ ملے گا بھی یا نہیں ملے گا، ایک ایک کجھور پہ یہودی کے ہاں مزدوری کرتے ہیں، ایک ڈول ایک کجھور کے بدلے اور جب کھانے کے برابر مل گئیں، تو بس پھر رکھ دیا۔ یہودی نے کہا اور بھی نکالو میں دو کجھوریں دینے کے لئے تیار ہوں، فرمایا بس ختم ہوگیا، جتنی مجھے چاہئے تھیں، وہ مل گئیں۔ یعنی یہ حالت تھی۔ اور عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اونٹوں کا قافلہ، ایک اونٹ کہاں ہے، تو دوسرا اونٹ کہاں ہے، لیکن نہ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ دنیادار تھے، نہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ دنیادار تھے، کیونکہ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دولت اپنے لئے تھوڑی تھی، وہ اپنی طرف تھوڑا کررہے تھے، وہ تو اللہ کے راستے میں دے دیتے، یہاں تک کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اگر اس کے بعد کچھ بھی کرے، تو اس کو کوئی نقصان نہیں ہوگا، کئی جگہ آپ ﷺ سے جنت خرید چکے تھے اپنے مال کے ذریعے سے، لہٰذا اس طرح مالداری کا مسئلہ کوئی نہیں ہے۔ اصل میں مال کے ساتھ اگر دل کا تعلق ہو، پھر گڑبڑ ہے یعنی حب مال ہے تو یہ بیماری ہے، اسے نکالنا ہے، لیکن مال کا حصول بیماری نہیں ہے، ورنہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے بارے میں کیا تاویل کریں گے؟ پھر عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں کیا تاویل کریں گے؟ لہٰذا یہ بات نہیں ہے۔ کیونکہ مال تو کچھ بھی نہیں اللہ والوں کے سامنے، یہ تو ایک assignment کے طور پہ دیا گیا ہے۔ جیسے اورنگزیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ اپنے خرچ کے لئے ٹوپیاں سیتے تھے اور قرآن کی کتابت کرتے تھے اور اس سے اپنا گزر اوقات کرتے تھے، حالانکہ بادشاہ تھے یعنی بادشاہ ہوتے ہوئے گزر اوقات کس چیز سے کرتے تھے؟ ٹوپیاں سیتے تھے اور قرآن پاک کی کتابت۔ اور پھر تقویٰ اتنا تھا کہ اس کو وہاں نہیں بیچتے تھے، بلکہ دور دراز لے جا کے بیچتے کہ کسی کو پتا بھی نہیں چلتا کہ بادشاہ نے ٹوپی سی ہے یا بادشاہ کے ہاتھ کے قرآن پاک کی کتابت ہوئی ہے، تاکہ لوگوں پتا ہی نہ چلا۔ جیسے ایک دفعہ غالباً سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ بازار میں سودا کررہے تھے، چونکہ نرخ کرنا بزرگوں کا اصول ہے، تو وہ تجارت کا نرخ کررہے تھے، تو دوسرے دکاندار نے ان کو کہا کہ کیا سمجھتے ہو، آپ کو پتا ہے کہ یہ سعید بن مسیب ہیں، یہ سن کر اس نے کہا جو آپ لینا چاہتے ہیں لے لو، لیکن حضرت نے فوراً آنکھیں نیچے کیں اور چلے گئے۔ کہا حضرت! اب میں دے رہا ہوں، فرمایا اب میں نہیں خرید رہا، کیونکہ اب آپ کو پتا چل گیا ہے، تو میں اپنے اعمال کو چند درہموں کے لئے نہیں بیچنا چاہتا، اب آپ مجھے اس لئے دیں گے کہ میں سعید بن مسیب ہوں، اب آپ والی بات تو ختم ہوگئی، اب میں نہیں لینا چاہتا۔ تو ایسے ہی اورنگزیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ بھی قرآن پاک کی اپنے ہاتھ کی کتابت کو دوسری جگہ بیچتے تھے اور ٹوپیاں بھی دوسری جگہ پہ بیچتے تھے، اور بادشاہت کے لئے فرماتے یہ میری وردی ہے۔ آپ دیکھیں کہ ایک جرنیل ہو، اور وہ دل کا فقیر ہو، لیکن جب جرنیلی کرے گا تو جرنیل کی وردی تو پہنے گا یعنی دل کا فقیر ہوگا، لیکن پہنے گا جرنیل کی وردی۔ بس اسی طریقہ سے اورنگزیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ بادشاہت کرتے تھے، محل میں شاہانہ لباس پہنتے، حکم کرتے تھے، جیسے ہی گھر میں پہنچ جاتے، تو بس پھر اپنا لباس، پھر اپنے احوال، پھر اپنا کھانا اور چیزیں۔ ایسے ہی حضرت سلطان شمس الدین التمش رحمۃ اللہ علیہ جو خواجہ بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید تھے، تو خواجہ بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کا جنازہ رکھا ہوا تھا کہ حضرت نے دو شرطیں رکھی ہیں کہ میرا جنازہ وہ شخص پڑھائے جس نے کبھی بھی زنا نہ کیا ہو اور جس نے چالیس سال تہجد کی نماز نہ قضا کی ہو، لہٰذا اب جنازہ پڑا ہے، کون شخص ہے جو جنازہ پڑھائے، اب بڑا مسئلہ ہوگیا، کافی دیر جنازہ پڑا رہا، اخیر میں سلطان شمس الدین التمش روتے ہوئے باہر آگئے، کہا: جانے والے چلے گئے، پیچھے رہنے والوں کو رسوا کرگئے، یہ دونوں شرطیں مجھ میں پائی جاتی ہیں، میں جنازہ پڑھاؤں گا، تو پھر سلطان شمس الدین التمش رحمۃ اللہ علیہ نے جنازہ پڑھایا یعنی بادشاہ ہوتے ہوئے یہ دونوں شرطیں پوری تھیں کہ تہجد چالیس سال تک نہیں قضا کی اور زنا کبھی نہیں کیا تھا، حالانکہ بڑے بڑے علماء بیٹھے ہوئے تھے، بڑے بڑے لوگ موجود تھے، لیکن کسی میں دونوں شرطیں موجود نہیں تھیں، یہ گویا کہ خواجہ بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ نے بتایا کہ دیکھو! تم جسے ایسا سمجھتے تھے، وہ تو ایسے نکلے اور تم خود کیسے ہو۔ لہٰذا یہ اللہ والے ہوتے ہیں۔ لہٰذا مال بذات خود دنیا نہیں ہے، بلکہ حب مال دنیا ہے، اسی لئے یہ فرمایا: ’’حُبُّ الدُّنْيَا رَأْسُ كُلِّ خَطِيئَةٍ‘‘ (مشکوٰۃ: 5213) (دنیا کی محبت ساری خطاؤں کی جڑ ہے) یہ نہیں فرمایا ’’اَلدُّنْيَا رَأْسُ كُلِّ خَطِيئَةٍ‘‘ (دنیا خطاؤں کی جڑ ہے) بلکہ دنیا کے بارے میں فرمایا ’’اَلدُّنْیَا مَزْرِعَۃُ الْاٰخِرَۃِ‘‘ (المقاصد الحسنہ، ص: 351) (دنیا آخرت کی کھیتی ہے) لہٰذا دنیا کی محبت غلط ہے۔ دیکھیں! آسان سی بات ہے، موٹی سی بات ہے، میرے خیال میں ہر کسی کی عقل میں آسانی سے آسکتی ہے کہ میں نے کھانا ہے، اب اگر منہ سے کھانا کھاؤں گا تو صحت ہے، اور ناک سے کھاؤں گا تو پھر کیا ہے؟ تباہی ہے۔ بس یہی بات ہے کہ دنیا کو اگر ہاتھ میں رکھا تو یہ صحت ہے، اس لئے دل میں نہ رکھیں، ہاتھ میں رکھیں اور دنیا کو جس نے دل میں رکھا، تو وہ بیماری ہے، لہٰذا اس کی جگہ بدل دو کہ دنیا کو دل میں نہ رکھو، یہ ہاتھ میں ہو، پھر کوئی بات نہیں ہوتی۔ اللہ والے ہوتے ہیں، جن کے ہاتھ میں بڑی دنیا ہوتی ہے اور ان کو اللہ پاک مال کا چوکیدار بناتے ہیں۔ البتہ مال کا چوکیدار ایک ہوتا ہے اللہ پاک کے حکم کے مطابق چوکیدار بننا اور ایک ہے اپنے نفس کے مطابق چوکیدار بننا، یہ بھی ایک فرق ہے، تو بعض لوگ ہوتے ہیں جو اپنے نفس کے لئے مال کے چوکیدار ہوتے ہیں، کیسے؟ بخیل ہوتے ہیں، مال کی محبت کی وجہ سے چوکیدار ہوتے ہیں۔ جیسے ہمارے اسلام آباد کے ستارہ مارکیٹ کے مالک جو تھے، (آپ اندازہ کرلیں کہ ستارہ مارکیٹ کے مالک کتنے مالدار ہوں گے، لیکن) اف ہو! نہ اپنے اوپر خرچ کرتے تھے، نہ اپنی اولاد کے اوپر خرچ کرتے تھے اور کوئی اور خرچ کرتا تو اس کو تکلیف ہوتی تھی۔ ان کے ایک دوست نے ان کی باتیں بتائی ہیں، بہت ہی ان کے قریبی دوست ہیں، ان کے پاس آنا جانا تھا، تو کہتے اس کے بیٹے میرے پاس روتے ہوئے آتے تھے کہ آپ ابو کو بتا دیں، ہمیں یہ چیز دے دے۔ لہٰذا ایک آدمی مال کا چوکیدار ہوتا ہے اللہ کی طرف سے کہ آپ کو مال دیا ہے، آپ ان کے کاموں کے لئے استعمال کرو۔ جیسے ایک بزرگ حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کسی کے باغ میں ملازم تھے، تو باغ کے مالک نے ان سے کہا کہ ذرا میٹھے میٹھے جو انار ہیں، وہ چن لو، اب وہ جب لے آئے تو ترش نکلے، تو اس نے کہا اتنا عرصہ آپ نے میرے ساتھ کام کیا، ابھی تک آپ نے میٹھے انار کو بھی نہیں پہچانا؟ فرمایا آپ نے انار کھانے پر تو مجھے نہیں لگایا تھا، مجھے تو آپ نے انار کی حفاظت کے لئے رکھا تھا اور حفاظت میں کررہا تھا، مجھے کیا پتا کون سا میٹھا ہے، کون سا میٹھا نہیں۔
کتابوں میں لکھا ہے کہ ایک نوجوان تھے اور بڑے متقی تھے، ایک دفعہ ایسا ہوا تھا کہ بھوکے تھے اور کسی نہر کے کنارے بیٹھے ہوئے تھے، ایک سیب اس میں آرہا تھا، اس نے وہ سیب اٹھا لیا اور کھا لیا، مگر کھانے کے بعد ہوش آیا تو سوچا اوہ ہو! یہ تو پتا نہیں کس کا تھا، یہ تو میں نے پوچھا نہیں، یہ تو کسی کا مال تھا یعنی لقطہ والا مسئلہ تھا اور میں نے اس پر عمل نہیں کیا، یہ تو غلط ہوگیا، اب کیا کروں؟ اب جس طرف سے سیب آرہا تھا، اس کی سمت میں جاتے جاتے ایک سیبوں کے باغ پہ پہنچ گئے کہ وہ نہر ادھر اندر سے آرہی تھی، اس نے کہا کہ اسی باغ کا ہی سیب گرا ہوگا اس میں۔ جب اندر گئے تو اس کا مالک اندر موجود تھا۔ انہوں نے مالک کو کہا آپ کے باغ کا سیب اس نہر میں گرا تھا، میں نے وہ غلطی سے کھا لیا، آپ مجھ کو معاف کردیں یا معاوضہ لے لیں۔ اس نے کہا کہ آپ نے مجھ سے اجازت لی تھی؟ مجھ سے بیع کی تھی؟ فرمایا نہیں، انہوں کہا میری مرضی میں جس کو بیچوں، جس کو نہ بیچوں۔ فرمایا پھر معاف کردیں، کہا کہ معاف بھی نہیں کرتا۔ اب وہ رو رہے ہیں، منت سماجت کررہے ہیں کہ مجھے خدا کے لئے معاف کرو، اس نے کہا مجھے خدا نے اختیار دیا ہے، میں تو آپ کو معاف نہیں کرتا۔ وہ بہت ڈر گئے اور کہا حضرت! کسی طریقہ پہ معاف کردیں۔ تو کہا کہ ایک طریقہ پہ معاف کرسکتا ہوں، اس نے کہا کیا؟ کہا کہ میری ایک بیٹی ہے، جو آنکھوں سے اندھی ہے، زبان سے گونگی ہے، پیروں سے لنگڑی ہے، اس کے ساتھ تم شادی کرلو، اگر تو اس کے ساتھ شادی کے لئے تیار ہے، تو پھر تو میں تجھے معاف کرتا ہوں، ورنہ پھر میں آپ کو معاف نہیں کرتا۔ اب ان کے دل پہ چونکہ اتنا خوف تھا، تو انہوں نے کہا چلو ٹھیک ہے، ایسی عورت سے کون شادی کرے گا، وہ تو خدمت ہی کرے گا، لیکن بہرحال یہ ڈر گیا تھا اور تیار ہوگیا، تو شادی ہوگئی۔ اب جب ملاقات ہوگئی تو وہ عورت بڑی حسین و جمیل اور نوجوان، تو فوراً وہ پیچھے بھاگے کہ پتا نہیں کسی کی بہن ہے، میں غلط جگہ پہ آیا ہوں، اس نے آواز دی کہ آپ کیوں بھاگے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ آپ کی میرے ساتھ شادی نہیں ہوئی، میری تو ایسی لڑکی کے ساتھ شادی ہوئی ہے، جو آنکھوں سے اندھی ہے، زبان سے گونگی ہے، پیروں سے لنگڑی ہے اور آپ تو صحیح سالم ہیں، انہوں نے کہا آؤ میں آپ کو بات بتا دوں۔ پھر اس نے کہا کہ اَلْحَمْدُ للہ! میرے والد کی تربیت ہوئی ہے کہ میں نے کسی غیر مرد کو ابھی تک اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا اور اپنی زبان سے کسی غیر مرد سے بات نہیں کی اور کبھی میں گھر سے باہر نہیں نکلی، تو یہ انہوں نے استعارۃً بتایا ہے کہ آنکھوں سے اندھی ہے، زبان سے گونگی ہے اور پیروں سے لنگڑی ہے۔ انہوں نے کہا چلیں میں آپ کے والد سے پتا کرتا ہوں، گئے، ان کے والد سے ملے۔ انہوں نے کہا کہ وہاں صورتحال بالکل مختلف ہے، مجھے آپ کے جب تقویٰ کا پتا چل گیا کہ آپ اتنے متقی ہیں کہ اس کے لئے آپ اتنے چل کے آگئے ہیں، تو ضرور آپ کے اندر کوئی کمال ہے۔ تو میرے دل نے بھی کہا کہ اب میں اس کا فائدہ اٹھاؤں، تو میں اپنی بیٹی کے لئے فکرمند تو تھا ہی کہ اتنی پاکباز بیٹی تھی کہ اس کے لئے کوئی ایسا ہی پاکباز مل سکتا تھا، اس لئے میں نے آپ کو امتحان میں ڈالا، اس کے لئے میں معافی چاہتا ہوں۔ لیکن اس سے پھر پیدا ہوئے عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ، بڑے محدث ہیں، امیر المومنین فی الحدیث ان کو کہا جاتا ہے، وہ پیدا ہوئے ہیں، امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے بڑے شاگردوں میں سے تھے۔ مطلب یہ ہوا کہ دنیا کی محبت اور ہے اور دنیا کے ساتھ دل لگانا اور ہے۔
تو یہ ساری باتیں جو حضرت نے فرمائی ہیں، یہ اصل میں دنیا کے ساتھ دل لگانے والوں کے بارے میں فرمائی ہیں۔ اللہ جل شانہٗ ہم سب کو یہ حالت نصیب فرما دے کہ ہمارا تعلق یعنی جو دل کا تعلق ہے، وہ مال کے ساتھ نہ ہو، بے شک مال ہمیں مل جائے، لیکن اس کو ہم اللہ کی رضا کے لئے استعمال کریں۔
ارشاد: اگر دین کو سنبھالنا چاہتے ہو، تو ہر شخص کو اس کی ضرورت ہے کہ کسی عالم متقی کا اتباع کرے۔
متقی سے مراد یہ ہے کہ وہ آپ کے ساتھ مروت نہ کرے یعنی مفتی ہو، لیکن مروت نہ ہو، ورنہ آج کل تو بڑا مشکل کام ہے، بڑا مشکل کام ہے، بالخصوص مالدار آدمی ہو اور اس کا مقتدی ہو اور وہ مولوی صاحب سے مسئلہ پوچھے، تو کیا خیال ہے کہ کن چیزوں کی رعایت کرے گا؟ کہے گا کہ یہ تو آج کل میں ہے، ایسا ہوسکتا ہے، اس کی گنجائش ہے۔ اور یہ جو گنجائش والی بات ہے، تو گنجائش تو لوگ نکالتے جاتے ہیں، تو پھر گنجائش ہی گنجائش ہوتی ہے اور وہ آگے بڑھ کے اباحیت بن جاتی ہے۔ اباحیت اسی کو کہتے ہیں۔ پھر اباحیت والی بات آجاتی ہے۔ فرماتے ہیں:
ارشاد: اگر دین کو سنبھالنا چاہتے ہو، تو ہر شخص کو اس کی ضرورت ہے کہ کسی عالم متقی کا اتباع کرے۔ فقہ کے لئے۔
وضوح حق کا طریقہ:
ارشاد: طالبِ حق کو حق ضرور واضح ہوجاتا ہے، بشرطیکہ وہ اس کو قاعدہ سے طلب کرے، جس کے دو طریقے ہیں: ایک تدبیر کہ فکر سے کام لے۔ دوسرے دعا کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرے کہ مجھ پر حق واضح کر دیجئے۔
اللہ جلّ شانہٗ کا وعدہ ہے اور بڑا پکا وعدہ ہے، اس میں کوئی خلاف ہو نہیں سکتا۔
﴿وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا﴾ (العنکبوت: 69)
ترجمہ: ’’اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی، ہم ان کو ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچا دیں گے‘‘۔
اب دیکھیں! اس میں کوشش ہے اور کوشش دو چیزوں میں ہے اور حضرت نے وہ دو چیزیں بتا دیں۔ وہ کیا ہیں؟ ایک یہ ہے کہ اسباب کے رخ سے حق کو تلاش کرے، اسباب کا اتباع کرے۔ اسباب کیا ہیں؟ مثلاً: دیکھے کہ اس دور کے اندر اہلِ حق کون ہیں؟ تلاش کرے، تاکہ ان کی صحبت میں بیٹھ کے معلوم ہوجائے کہ حق کیا ہے اور اگر اسی میں ہی confuse ہوجائے تو ذرا تھوڑا سا اوپر چلے جائیں جہاں سے دین آیا ہے، ان کے اصولوں کے اندر غور کرلیں کہ آج کل کے دور میں حق کیا ہوسکتا ہے؟ پھر بھی اگر confuse ہوجائے تو اللہ پاک سے دعا کرے کہ اے اللہ! میرے اوپر حق کو کھول دے اور اس کے لئے بڑی اچھی مسنون دعا ہے ’’اَللَّهُمَّ أَرِنَا الْحَقَّ حَقّاً وَارْزُقْنَا اتِّبَاعَهُ، وَأَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلاً وَارْزُقْنَا اجْتِنَابَهُ‘‘ (اے اللہ! مجھے حق حق دکھا دے اور مجھے اس کی اتباع کی توفیق عطا فرما۔ اے اللہ! مجھے باطل باطل دکھا دے اور اس سے بچنے کی توفیق عطا فرما) تو یہ دعا ہر نماز کے بعد انسان اس نیت سے کرے، ان شاء اللہ! اللہ پاک ضرور حق نصیب فرما دیں گے۔ اور اس سے بھی آسان دعا جو قرآنی دعا ہے، وہ سورۃ فاتحہ میں ہم روز ہی پرھتے ہیں۔
﴿اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ﴾ (5، 6)
ترجمہ: ’’ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت عطا فرما ان لوگوں کے راستے کی جن پر تو نے انعام کیا نہ کہ ان لوگوں کے راستے کی جن پر غضب نازل ہوا ہے اور نہ ان کے راستے کی جو بھٹکے ہوئے ہیں‘‘۔(آمین)
اب یہ جو دعا ہے، یہ ہر نماز کے اندر موجود ہے، ہر رکعت کے اندر موجود ہے، بس ذرا تھوڑا سا ہم جاگ کے پڑھیں، سو کے نہ پڑھیں یعنی انسان کو بعض دفعہ پتا ہی نہیں چلتا کہ میں نے سورۃ فاتحہ پڑھی ہے، بس ایسی حالت سے پڑھ لیتے ہیں۔ لہٰذا جب اس دعا پہ آجائیں تو اس وقت انسان یہ تصور کرلے کہ میں اللہ پاک سے سب سے اہم چیز مانگ رہا ہوں۔
﴿اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ﴾ (5، 6)
یہ ہمارا تجربہ ہے کہ جس نے بھی اس دعا کے اندر کوشش کی ہے اور نماز کے اندر اللہ پاک سے اس چیز کو مانگتا رہا ہے، تو یقین جانئے! اللہ پاک ہدایت دیتے ہیں۔ اور یہ دعا ’’رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّفِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ‘‘ جب میرے پاس وقت ہوتا ہے اور میں امام نہ ہوں، تو میں جو انفرادی نماز پڑھتا ہوں، تو اس کے اندر پھر میں کئی دعائیں کرتا ہوں، صرف ایک دعا نہیں کرتا۔ اور اس میں یہ دعا بھی ضرور کرتا ہوں ’’اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ‘‘ اور نماز کے اندر ہی کرتا ہوں۔ اسی طرح ’’رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ هَدَیْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةًۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ‘‘ یہ دعا بھی کرتا ہوں اور اگر نفل نماز ہو، تو پھر اس کے اندر جو حدیث شریف کی دعائیں ہیں، وہ بھی پڑھتا ہوں، اگر نفل نماز ہو۔ اور اگر فرض نماز ہو، واجب نماز ہو تو اس میں پھر حدیث شریف کی دعائیں نہیں پڑھتا، صرف قرآنی دعائیں پڑھتا ہوں، کیونکہ اس میں گنجائش تو ہے، لیکن احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ قرآنی دعا پڑھی جائے، چوں کہ بعض علماء کرام کا اختلاف ہے، لہٰذا اختلاف سے بچنا اعلیٰ درجہ کا مستحب ہے۔ لہٰذا اس وقت اختلاف سے بچنا چاہئے۔ پس قرآنی دعا میں سب کچھ موجود ہے، اس لئے قرآنی دعا میں ہم یہ دعائیں کرتے ہیں۔ فرمایا:
تصوف میں جو چیز سینہ بسینہ ہے اس کی تعریف:
ارشاد: تصوف میں سینہ بسینہ ایک چیز ہے نسبت اور مناسبت اور مہارت، جو استاذ کے پاس رہنے ہی سے حاصل ہوتی ہے، محض کتاب پڑھ لینے یا زبانی طریقہ دریافت کر لینے سے حاصل نہیں ہوتی اور یہ وہ چیز ہے جو ہر علم میں سینہ بسینہ ہوتی ہے، حتیٰ کہ بڑھئی اور باورچی کے پیشہ میں بھی مناسبت اور مہارت ہے، جس کا نام سینہ بسینہ ہے مہارت میں ایک اور چیز ہے یعنی برکت جو مشاہدہ سے معلوم ہوگی بدون مشاہدہ کے اس کا علم نہیں ہوسکتا۔
دیکھیں! ایک چیز ہوتی علمی اور دوسری چیز ہوتی ہے عملی۔ مجھے آپ بتا دیں کہ کیلے کی مٹھاس اور گڑ کی مٹھاس؛ ان دونوں میں مجھے لفظوں میں فرق بتا دیں۔ کیلے کے مٹھاس میں اور گڑ کی مٹھاس میں کتنا فرق ہے، کیا فرق ہے؟ اگر دیکھا جائے، تو بہت فرق ہے، مگر جس نے گڑ بھی کھایا ہو کیلا بھی کوئی کھایا ہو، تو بہت ہی زیادہ فرق ہے، لیکن ذرا الفاظ میں تو بتاؤ۔ گڑ کی مٹھاس میں اور کیلے کی مٹھاس میں کیا فرق ہے؟ لطیفہ سنادو اس پر؟ کہتے ہیں کہ ایک آدمی تھا، وہ اندھا تھا، تو اندھے کو کسی نے کھیر دے دی اور اس نے کہا کہ یہ کھیر کھا لو۔ اس نے کہا: کھیر کیسی ہوتی ہے؟ اس نے کہا: سفید ہوتی ہے۔ اس نے کہا: سفید کیسا ہوتا ہے؟ اس نے کہا: جیسے بغلا ہوتا ہے۔ اس نے کہا: بغلا کیسے ہوتا ہے؟ اس نے اس طرح اس طرح ہاتھ پھیرا کہ اس طرح ہوتا ہے۔ تو اس نے کہا: ٹھیڑی کھیر ہے، یہ میں نہیں کھاتا۔ ظاہر ہے کہ الفاظ میں اگر آپ بیان کریں گے، تو کیا کریں گے؟ پھر تو یہی ہوگا۔ لیکن ان کو چکھا دیتے کہ کھیر ایسی ہوتی ہے، تو بس بات ختم۔ تو بات ختم تھی، پھر اور کیا تھی؟ اسی طریقہ سے ایمان کی حلاوت کو آپ لوگ دکھائیں، ایمان کی حلاوت دکھائیں، وہ کہتے ہیں کہ ایمان کی حلاوت محسوس ہوتی ہے، لیکن الفاظ میں کیسے بیان ہوگی۔ اسی طرح اعمال کی جو کیفیات ہوتی ہیں، توبہ کی جو کیفیات ہوتی ہیں، وہ کیسے آپ محسوس کریں گے؟ اللہ کی رضا کے ساتھ جو کیفیت بنتی ہے، وہ کیسے محسوس کریں گے؟ یہ ساری باتیں جو کیفیات ہیں، یہ انسان محسوس نہیں کرسکتا، جب تک خود کسی سے گزرا نہ ہو۔
حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ حضرت! آپ اتنے بڑے عالم ہوتے ہوئے ایک غیر عالم سے بیعت ہوئے، یہ کیا مطلب ہے؟ واقعتاً اگر حضرت نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا جائے، تو اتنے بڑے عالم تھے کہ میں نے دیوبند کے سینئر عالم سے سنا ہے، جو پچاس میں 53 نمبر لیتے تھے۔ دیوبند میں باقاعدہ ایک قانون یہ بھی تھا کہ زیادہ نمبر بھی لیتے تھے، کیوں کہ کوئی جتنا سوال مطلوب ہوتا، اس کو کر لیتا، تو پچاس کے پچاس مل جاتے۔ پھر اگر خوشخطی اس کی ہوتی، تو 51 مل جاتے۔ پھر اگر وہ عربی میں پیپر کر لیتا، تو 52 مل جاتے، تو ہر چیز کے حساب سے نمبر ہوتے۔ وہ 53 نمبر لیا کرتے تھے اور ان کو حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ بڑے تحفے کتابوں کے انعام کے طور پر ملے تھے۔ ایسے عالم سے میں نے سنا ہے، اتنے ذہین عالم تھے۔ ان سے کسی نے پوچھا کہ حضرت! آپ نے مولانا نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’آب حیات‘‘ پڑھی ہے؟ فرمایا: میں نے اپنے آپ کے اوپر معلوم کیا ہے کہ میں عالم ہوں یا نہیں ہوں؟ میں نے اس پر اپنے آپ کو check کیا ہے کہ میں عالم ہوں یا نہیں؟ کہ میں اس کو سمجھ سکتا ہوں یا نہیں سمجھ سکتا؟ اتنے بڑے عالم تھے مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ۔ ان کو علوم وہبی کا کافی ذخیرہ حاصل تھا۔ بہرحال یہ کہ حضرت نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ اتنے بڑے عالم تھے۔ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ فقیہ النفس تھے اور پتا نہیں کیا کیا اللہ پاک نے ان کو نوازا تھا۔ یہ بڑے بڑے بزرگان دین اور اللہ والے جو علماء تھے، وہ حضرت سے بیعت ہوئے۔ حیرت کی بات نہیں تھی؟ اس پر کسی نے حضرت نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھ ہی ڈالا۔ حضرت نے فرمایا: ہاں ہاں ہم عالم تھے، ہمیں چیزوں کے نام پتا تھے، ہمیں پتا تھا کہ کیلا ہوتا ہے، آم ہوتا ہے، سنگترا ہوتا ہے، یہ چیز ہوتی ہے، یہ چیز ہوتی ہے، لیکن کھائی کوئی چیز بھی نہیں تھی، کتابوں میں اس کے بارے میں پڑھا تھا بس کہ آم ایسا ہوتا ہے، سیب ایسا ہوتا ہے، فلاں ایسا ہوتا ہے، سب تفصیلیں ہمیں معلوم تھیں، لیکن کھائی کوئی چیز نہیں تھی۔ حاجی صاحب کے پاس چلے گئے، اب وہ بغیر نام کے بتائے کھلا رہے ہیں کہ یہ لے لو، یہ لے لو۔ تو اب ہمیں پتا چلتا ہے کہ اوہ! یہ تو آم ہے، یہ تو کیلا ہے، یہ تو فلاں ہے۔ اسی طریقہ سے ہمیں وہاں پتا چلا کہ اعمال کسے کہتے ہیں، اعمال کی حقیقت وہاں جا کے کھلی ہے یعنی علم ہمیں پہلے سے تھا اور حقیقت وہاں کھلی ہے۔ تو فرمایا کہ اس وجہ سے ہم ان کے پاس گئے ہیں۔ پس یہ بات ہے کہ اگر دیکھا جائے، تو یہ سینہ بہ سینہ ہے یا نہیں ہے؟ کیا حاجی صاحب کے پاس جاکر کھائے بغیر ان کو یہ چیز حاصل ہوسکتی تھی؟ اب اگر کوئی کہتا ہے کہ تصوف سینہ بہ سینہ ہے، تو آج کل لوگ اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ وہ کہتا ہے کہ تصوف سینہ بہ سینہ ہے، کیسے سینہ بہ سینہ ہے؟ یہ کیا چیز ہے؟ کتاب دیکھو کتاب، جب تک یہ نہیں ہے، آپ کچھ نہیں کرسکتے۔ بعض لوگ اس طرح کرتے ہیں۔ ہمارا سترہ میل والے مدرسہ ہے، وہ بڑا اچھا مدرسہ ہے، اس دفعہ تین پوزیشنیں اس کی آئی ہیں، میٹرک کے امتحان میں تین position holder وہ مدرسہ ہے یعنی first second third۔ میں ادھر گیا ہوں، ملنا تھا مولانا صاحب کے ساتھ جو مہتمم تھے، وہ تھے نہیں۔ پھر میں بیٹھا گپ لگا رہا تھا۔ تو کشمیر سے ایک استاذ آئے تھے، وہ اپنے کسی کام سے آئے تھے، لیکن میرے ساتھ ذرا بات چیت hello hello ہوگئی۔ اب ہم اپنے ذوق کے مطابق بات کررہے تھے، تو بات تصوف کی طرف چلی، یہ تو ہمارا پرانا مرض ہے۔ بات تصوف کی طرف چل پڑی، اب وہ بڑی دلچسپی سے تصوف کے بارے میں سن رہے ہیں۔ ایک وہاں عالم بیٹھے تھے، ان کو ہماری باتیں برداشت نہیں ہوئیں۔ انہوں نے انتہائی رعونت سے بڑے زوردار الفاظ سے کہا: اِنَّمَا یَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُاؕ (فاطر: 28)
ترجمہ: ’’‘‘۔
یعنی آپ کیا باتیں کررہے ہیں؟ یہ کیا چیز ہے؟ علم علم ہے۔ اس انداز سے ہمیں اس نے کہا کہ اس کے الفاظ کی تلخی ابھی تک مجھے یاد ہے۔ خیر! میں نے کہا کہ حضرت! اب جب آپ نے بات کر ہی دی، تو میں مجبور ہوں کہ میں بھی کچھ عرض کروں گا۔ مجھے اس پہ دو اشکالات ہیں، ذرا ان کا حل بتادیں۔ یہ جو ابھی آپ نے آیت کریمہ بتائی ہے، یہ تو مجھے بھی یاد ہے الحمد للہ! لیکن جس انداز میں آپ نے پڑھی ہے، اس پر مجھے دو اشکالات وارد ہوتے ہیں، ان کا ذرا حل بتا دیں۔ وہ کہنے لگے کہ وہ کیا ہیں؟ میں نے کہا: پہلا اشکال یہ ہے کہ آپ علم سے کیا مراد لیتے ہیں؟ اگر آپ علم سے الفاظ کا علم مراد لیتے ہیں تو پھر مجھے علماء سوء کا ترجمہ بتائیں کہ علماء سوء کا ترجمہ کیا ہے؟ حدیث شریف کا لفظ ہے، میں اپنی طرف سے تو نہیں کہہ رہا۔ آپ ﷺ سے پوچھا گیا کہ بدترین لوگ کون سے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اچھی باتیں پوچھا کرتے ہیں، پھر فرمایا: بدترین لوگ برے علماء ہیں یعنی علماء سوء ہیں، جو دین کو بیچیں گے اور دنیا کو حاصل کریں گے۔ میں نے کہا کہ آپ ﷺ نے علماء سوء فرمایا، جس میں علماء کا لفظ موجود ہے۔ علماء کن کو کہتے ہیں؟ علماء عالم کی جمع ہے اور سوء کا مطلب ہے برے لوگ، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ برے علماء ہیں۔ اب برے علماء کی اصطلاح آپ ﷺ نے فرمائی ہے، اس سے تو آپ انکار ہی نہیں کرسکتے۔ جب آپ انکار نہیں کرسکتے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ علماء ایسے بھی ہوں گے، جو باوجود علماء ہونے کے ٹھیک نہیں ہوں گے۔ اب مجھے ایک یہ اشکال وارد ہے کہ اِنَّمَا یَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُاؕ سے اگر صرف علماء ہونے سے اللہ پاک کی خشیت لازم آتی ہے، تو علماء سوء کی پھر تعریف بتا دیں۔ ایک اشکال یہ ہوا۔ پھر دوسرا میں نے کہا کہ اگر آپ علم محض جاننے کو کہتے ہیں، تو پھر میرا دوسرا اشکال ہے اور وہ یہ ہے کہ ذرا تھوڑا سا اسلام آباد میں، راولپنڈی میں survey کرلیں، کیا کوئی ایسا شخص آپ کو مل سکتا ہے مسلمانوں میں کہ جو جھوٹ کو برا نہ کہتا ہو، جو زنا کو برا نہ کہتا ہو، جو سود کو برا نہ کہتا ہو، جو ملاوٹ کو برا نہ کہتا ہو، جو قتل کو برا نہ کہتا ہو۔ کون ہے جو اس کو اچھا کہتا ہوگا؟ لیکن کتنے لوگ ہیں جو ان چیزوں سے بچے ہوئے ہیں؟ اس کا مطلب ہے کہ جانتے تو ہیں، لیکن جان کر ہی کررہے ہیں۔ لہٰذا اگر آپ محض جاننے کے لحاظ سے بات کررہے ہیں، تو پھر یہ اشکال وارد ہوتا ہے کہ ان کی اصلاح کیوں نہیں ہوئی؟ آخر وہ جان تو رہے ہیں کہ جھوٹ برا ہے۔ اب آپ مجھے بتائیں کہ علم سے آپ کو کیا پتا چلے گا؟ قرآن سے بھی یہی پتا چلے گا کہ یہ برا ہے، حدیث سے بھی یہ پتا چلے گا کہ یہ برا ہے، اس سے زیادہ کیا ہوگا؟ اس سے زیادہ تو آپ کو پتا نہیں چل سکتا، بس یہی پتا چلے گا کہ یہ برا ہے، وہ تو آپ کو پہلے سے پتا ہے۔ مجھے بتاؤ کہ پھر آپ کے اندر یہ کیوں ہے؟ اس کا مطلب ہے کہ صرف جاننا بھی کافی نہیں ہے۔ تو پھر اس کی تعریف بتا دو۔ اِنَّمَا یَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُاؕ اس کا مطلب تو بتا دو کہ کیا مطلب ہے؟ میں نے کہا کہ ہم نے اپنے بزرگوں سے جو سنا ہے، وہ یہ ہے کہ اصل میں علم خشیت والوں کے پاس ہی ہوتا ہے۔ جس کو خشیت حاصل ہوجاتی ہے، وہ عالم ہے، کیونکہ ان کو جتنا علم حاصل ہوتا ہے، اس پر عمل کی توفیق ہوتی ہے۔ گویا کہ خشیت علم کو نکھارتی ہے، خشیت ہی علم کو سنبھالتی ہے۔ جب یہ والی بات ہے، تو پھر آپ کی جو باتیں ہیں، وہ فضول ہیں۔ بلکہ ہر علم کا ایک مقتضا ہے، بلکہ اس کو ہم تھوڑا سا آگے لے جاتے ہیں، آگے اس طرح کہ ایک ہوتا ہے علم الیقین، ایک ہوتا ہے عین الیقین اور ایک ہوتا ہے حق الیقین۔ علم الیقین کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو صرف الفاظ کے درجے میں پتا چل جائے۔ عین الیقین آپ خود اس کو ہوتے ہوئے دیکھ لیں اور حق الیقین کا مطلب ہے کہ آپ کے اوپر جب خود گزر جائے تو آپ کو حق الیقین ہوجائے گا۔ جب تک آپ کے دل کا یہ حال نہیں بنا، اس وقت تک صرف علم الیقین ہے، وہ آپ سے عمل نہیں کروا سکتا، کیونکہ وہ صرف الفاظ کے لحاظ سے تو بس علم ٹھیک ہے۔ اور جب آپ نے کسی اور کو کسی چیز سے نقصان ہوتے ہوئے دیکھا تو اب آپ اس کو استعمال نہیں کریں گے، کیوں کہ اب آپ کو اس چیز کا استحضار ہوگیا۔ دیکھو! اگر آپ کو یہ پتا ہے کہ جھوٹ برا ہے، لیکن جھوٹ بولتے وقت آپ کو اس کا استحضار نہیں تو اس کا مطلب ہے کہ اصل علم آپ کو نہیں ہے، کیونکہ ابھی اس علم کے اوپر آپ کو اعتماد نہیں ہے، ابھی اس علم کے اوپر آپ کو یقین نہیں ہے۔ جیسے ایک آدمی کنویں کے اندر چھلانگ لگا رہا ہے، اس کو کہتے ہیں کہ مر جاؤ گے۔ لیکن وہ پھر بھی ادھر جاتا ہے، تو کیا اس کو پتا ہے؟ اس کو ابھی تک اس کا صحیح معنوں میں پتا نہیں چلا۔ لہٰذا جو لوگ اپنے علم پر عمل نہیں کرتے، تو ان کو ابھی تک علم کی روشنی حاصل نہیں ہوئی، صرف الفاظ حاصل ہوئے ہیں۔ یہی وہ بات ہے جو حضرت وکیع رحمۃ اللہ علیہ نے فرمائی ہے جب امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے حافظہ کی شکایت فرمائی کہ وکیع رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ معاصی سے اپنے آپ کو بچاؤ، کیونکہ علم ایک نور ہے، جو کہ عاصی کے دل کے اندر نہیں اترتا۔ یہ مشہور بات ہے اور یہ اس کے اوپر آجاتی ہے۔ جب میں نے یہ تقریر کی تو حضرت نے کچھ نہیں کہا الحمد للہ!، پھر ہماری بات چلتی رہی، لیکن اس کے بعد انہوں نے کچھ نہیں کہا۔ اصل میں بات میں عرض کرتا ہوں کہ سینہ بہ سینہ پہ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ سینہ بہ سینہ کیسے ہوتا ہے؟ خدا کے بندو! سینہ بہ سینہ کا پتا اہل سینہ کے قریب چلے جاؤ، تو پتا چل جائے گا کہ ان کے سینہ سے کیا آتا ہے؟ ان کے سینہ سے کچھ آتا ہے، تو وہ کیا چیز ہے؟ پتا چل جائے گا۔ اصل میں بات یہ ہے کہ تائید الہٰی کو آپ الفاظ میں بیان نہیں کرسکتے، یعنی کسی چیز کے ساتھ اللہ پاک اپنی تائید شامل کرتے ہیں، کسی کے ساتھ نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ تو اپنے ارادہ کا مالک ہے۔ اب ایک شخص آپ کو بتاتا ہے کہ یہ پڑھو، دوسرا بھی آپ کو بتاتا ہے کہ یہ پڑھو، لیکن ایک کے کہنے سے آپ کو فائدہ ہوتا ہے اور دوسرے کے کہنے سے آپ کو فائدہ نہیں ہوتا، تو اب یہ کیا چیز ہے؟ جس کے کہنے سے فائدہ ہوتا ہے، اس کے سینے کے اندر کچھ ہے، اس لئے الفاظ کے ساتھ اس کے سینہ سے جو چیز آرہی ہے، وہ اس کو مؤثر بنا رہی ہے اور یہ سینہ بہ سینہ ہی حاصل ہوسکتا ہے بزرگوں کی صحبت میں رہ کر۔ جیسے اشعار ہیں ؎
صحبت صالح ترا صالح کند
صحبت طالع ترا طالع کند
یک زمانہ صحبت بااولیاء
بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا
(نیکوں کی صحبت انسان کو نیک بناتی ہے اور بروں کی صحبت انسان کو برا بناتی ہے۔ اللہ کے ولی کی صحبت کے چند لمحے سو سال کی بے ریا عبادت سے بھی بہتر ہے)
آخر! مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کوئی پاگل آدمی نہیں تھے، یہ اپنے دور کے بہت بڑے مفتی تھے اور یہ مفتی سے اس طرف آئے ہوئے ہیں، یہ پہلے مفتی تھے۔ شمس تبریز رحمۃ اللہ علیہ جب ان کے پاس گئے، تو یہ مفتی تھے۔ اور ان کی جب وفات ہوئی ہے، تو فتوی دیتے ہوئے ہوئی ہے یعنی جب وفات ہوئی، تو اس وقت بھی فتویٰ دے رہے تھے۔ اب یہ مفتی کہتا ہے:
مولوی ہرگز نہ شد مولانا روم
تا غلام شمس تبریز نہ شد
(مولوی رومی اس وقت تک مولانا روم نہیں بن سکتا تھا، جب تک وہ شمس تبریزی کا غلام نہ بن گیا)
اب بتاؤ یہ مفتی کہہ رہا ہے۔ ایسے ہی مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی ’’معارف القرآن‘‘ ہے، جس کے بارے میں لوگوں سے عرض کرتا رہتا ہوں کہ ’’معارف القرآن‘‘ پڑھ لیا کرو، یہ بڑی اچھی تفسیر ہے اور اس کی کئی برکات ہیں، بہت فوائد ہیں اور اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ جب آپ اس تفسیر کو پڑھیں گے، تو چونکہ ایک مفتی نے لکھی ہے، اس لئے اس پہ جو مسائل مستنبط فرما رہے ہیں، وہ آپ کے لئے فتویٰ ہے، بے دریغ اس پہ عمل کرسکتے ہیں، کسی اور مفتی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی، اس کا ہر ہر لفظ فتویٰ ہے۔ لہٰذا آپ کو ایک ہی وقت میں تفسیر بھی مل رہی ہے اور ساتھ ساتھ فتویٰ بھی مل رہا ہے، تو کتنی اچھی بات ہے۔ میں نے کہا کہ اور بہت سارے فوائد بھی آپ کو ملیں گے، یہ بھی اس کا فائدہ ہے۔ اور مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کی جو ’’مثنوی مولانا روم‘‘ ہے، یہ وہ مثنوی ہے جس کی حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے چوبیس جلدوں میں اس کی تشریح کی ہے۔ اب حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا وقت کیسا وقت تھا؟ وہ یہاں تک احتیاط کرتے تھے کہ اگر دو دروازے ہوں تو ایک دروازے میں جوتوں کا جوڑا پڑا ہوا ہے اور دوسرے دروازے میں بھی جوتوں کا جوڑا پڑا ہوا ہے، تاکہ اگر میں اس دروازے سے نکلوں تو ادھر سے جوتے لینے کی ضرورت نہ پڑے یعنی اتنا وقت کا خیال رکھتے تھے اور جاتے تھے تو راستے میں لوگ گھڑیاں ملا لیتے تھے کہ حضرت جارہے ہیں، تو یہ وقت ہوگا۔ اتنا ضبط وقت ہے۔ اتنا ضبط وقت ہے کہ شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ ایک بار تشریف لائے ہیں اور شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ حضرت کے پاس ہیں، حضرت کے پاس بیٹھے ہوئے ہیں، تو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے تھوڑی دیر کے بعد فرمایا کہ حضرت! اگر آپ اجازت دیں، تو اس وقت میرا لکھنے کا معمول ہے، میں وہ معمول پورا کرکے آجاؤں؟ اتنا ضبطِ وقت ہے کہ اپنے استاذ سے اجازت مانگتے ہیں کہ حضرت! میں اس وقت وہ کام کرلوں؟ حضرت نے بڑی خوشی سے اجازت دی، فرمایا کہ بالکل، اس کام کو مؤخر نہ کرو۔ ایسا شخص چوبیس جلدوں کو لکھنے کا وقت ایک چیز پہ لگا رہا ہے، اب آپ خود اندازہ کرلیں کہ اس کے دل میں اس کی کیا وقعت ہوگی۔ کوئی بات تو ہے، کوئی چیز تو ہے کہ جس کی وجہ سے حضرت اس پر اتنا وقت لگا رہے ہیں۔ لہٰذا میں آپ حضرات سے عرض کرتا ہوں کہ یہ وہی سینہ بہ سینہ چیز ہے، جس کی قدر ہوتی ہے، جو لوگ دور سے پہچان لیتے ہیں۔ جو پہچاننے والے ہوتے ہیں، وہ دور سے پہچان لیتے ہیں کہ اس کے ساتھ وہ سینہ بہ سینہ چیز بھی شامل ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ؛ یہ حضرات اپنے دور میں گنے چنے چند افراد ہیں، ان پہ انگلی رکھی جاسکتی ہے۔ آپ مجھے بتا دیں کہ کیا اس دور میں اور علماء نہیں تھے؟ کتنے سارے علماء ہوں گے، بڑے بڑے علماء کے شاگرد، وہ کہاں گئے؟ ان کا نام کبھی سنا؟ نہ نام سنا ہے، نہ کام سنا ہے۔ ان کے کام بھی پردے میں چلے گئے اور نام بھی پردے میں چلے گئے، مگر یہ چند افراد ہیں، جو اتنے مشہور ہوئے کہ اب کراچی سے لے کے خیبر تک مدرسے دیکھو، تو یا اشرفی نسبت ہے یا قاسمی نسبت ہے یا رشیدی نسبت ہے یا پھر زکریا کی نسبت ہے یا مدنی ہے چند نام ہیں، جو ہر جگہ یعنی پورے ہندوستان میں بھی، پورے پاکستان میں بھی، برما میں بھی، بنگلہ دیش میں بھی حتیٰ کہ انگلینڈ میں، جنوبی افریقہ میں ہر جگہ یہی ہیں۔ کیوں ایسا ہے؟ کبھی غور کیا ہے؟ ان کو الفاظ کا علم حاصل تھا، لیکن ان کو سینہ بہ سینہ بھی کچھ چیز ملی ہوئی تھی، اس سینہ بہ سینہ کی وجہ سے ان کا علم نکھر گیا اور اس علم کی اللہ پاک کے ہاں اتنی قبولیت ہوگئی کہ اس کے لئے ایسے راستے بنے کہ اللہ جل شانہٗ نے ابھی تک ان کی ذات کو چلایا ہوا ہے۔ اب ہم کیا پڑھ رہے ہیں؟ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات پڑھ رہے ہیں۔ یہ دیکھیں! ابھی تک الحمد للہ! فائدے کا سلسلہ جاری ہے۔