دعا اور روحانیت کا سبق

دفتر اول حکایت نمبر 3، درس نمبر 41 (یہ درس منظوم مثنوی مورخہ 16 اپریل 2024 سے لیا گیا ہے)

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

بیان منگل کے دن حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کی مثنوی شریف کے دفتر اول، حکایت نمبر 3 سے ہوا۔ حکایت میں بادشاہ لونڈی کے علاج کے لیے طبیبوں سے مایوس ہوکر اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے اور دعا کی قبولیت کے لیے انکسار دکھاتا ہے۔ دعا کی اہمیت اور اللہ کے حکم ﴿اُدْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَکُمْ﴾ (المومن: 60) پر زور دیا گیا۔ ذاتی تجربے سے بتایا کہ دعا اور اسباب کے متوازن استعمال سے مسائل حل ہوتے ہیں۔ روحانیت اور جسمانیت کے فرق کو اجاگر کیا گیا، نفسانیت سے نجات اور اللہ کے قریب ہونے کی تلقین کی گئی۔ انگریزیت اور احساس کمتری کو ترقی میں رکاوٹ قرار دیا گیا، اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ کرنے کا مشورہ دیا گیا۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

معزز خواتین و حضرات! آج منگل ہے اور منگل کے دن ہمارے ہاں حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کی مثنوی شریف کا جو اردو منظوم ترجمہ ہے، اس کا درس ہوا کرتا ہے۔ اور اس میں آج ان شاء اللہ دفتر اول کی حکایت نمبر 3 سے شروع کیا جارہا ہے۔

دفتر اول: حکایت نمبر 3

طبیبوں کا لونڈی کے معالجہ سے عاجز آنا اور بادشاہ کو معلوم ہوجانا اور اس کا بادشاہِ حقیقی کی طرف رجوع کرنا

1

شاہ جب ان کے عجز سے آگاہ ہوا

پا برہنہ جانبِ مسجد چلا

2

جا کے مسجد میں سوئے محراب گیا

آنسو سے تر اسکے سجدہ گاہ ہوا

3

محویت سے اپنے آیا جب نکل

خوب زبان اس کی گئی زاری پہ چل

4

تیری بخشش اس کمینے پر ہے خوب

جانے مطلب میرے جو اندر ہے خوب

تشریح:

یعنی میرے اندر جو کچھ ہے، وہ تجھے پتا ہے اچھی طرح۔

5

میرا ان کا حال تو جانے سر بسر

لطف تیرا کیا اور یہ ہم سب کدھر

تشریح:

یعنی ہم نے تجھ پر بھروسہ نہیں کیا، بے شک برا کیا، مگر تیری وسیع مہربانی کے آگے اس کی کیا حقیقت ہے۔

6

اے کہ ذات حاجت پناہ تو دائمی

بارے دیگر غلطی ہم سے ہوگئی

مطلب: پہلی غلطی ہم سے یہ ہوئی تھی کہ اطبّاء پر بھروسہ کیا جو خلافِ توکُّل ہے۔ اب دوسری غلطی یہ ہوئی کہ تجھ علَّام الغیوب کو حال سنانے کی گستاخی کرنے لگے۔

7

لیک فرمایا تو جانے راز مرا

ظاہری تجھ کو سنائیں جو ہوا

مطلب: بے شک علَّام الغیوب سے اظہارِ حال کرنا غلطی ہے، مگر اے خدا! چونکہ تیرا ارشاد ہے کہ ﴿اُدْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَکُمْ﴾ (المومن: 60) یعنی "مجھ سے دُعا مانگو، میں تمہاری دُعا قبول کروں گا"۔ اس لیے میں عرض کرتا ہوں۔

تشریح:

یہ دیکھو! طریقہ طریقہ سے سمجھا رہے ہیں حضرت، یعنی ذہنوں کے اندر جو اشکالات تھے، ان کا حل بھی بتا رہے ہیں، ساتھ ہی ہدایت کا راستہ بھی دیکھا رہے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ دیکھیں! ہم سب کو معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ہماری ساری چیزوں کا پتا ہے، کوئی بھی چیز اللہ تعالیٰ سے مخفی نہیں ہے، پھر کیا مطلب ہے کہ ہم دعا کرتے ہیں الفاظ میں۔ کوئی فلاسفر آدمی سوال کرسکتا ہے۔ ایسے ہی مجھ سے ایک دفعہ سوال کیا گیا تھا، غالباً یہ PIEAS جو CNS تھا، اس میں انٹرویو میں دے رہا تھا، تو technical سوالات ختم ہوگئے، تو اس کے بعد جو General knowledge کے جو سوالات ہوتے ہیں، ان سوالوں میں سے مجھ سے ایک سوال کیا گیا کہ سورت فاتحہ کیا ہے؟ میں نے کہا: یہ دعا ہے۔ اس نے کہا: اگر اللہ پاک نے آپ کے لئے کوئی چیز مقرر کی ہے، طے ہوچکی ہے، تو پھر اس کو مانگنے کی کیا ضرورت ہے؟ وہ تو اللہ تعالیٰ کو پتا ہے، لہٰذا جو چیز ہے، بس وہ ہے، آپ کیوں مانگتے ہو؟ خدا کی شان! اس وقت میں critical condition میں تھا، ایک انٹرویو دینے والے کی لینے والے کے سامنے کیا حقیقت ہوتی ہے۔ آدمی تو ڈرتا ہے کہ بھائی! یہ تو مجھے reject کرلیں گے، اگر میں نے تھوڑی سی آگے پیچھے کی۔ لیکن اللہ پاک کا کرم ہوا، میری زبان پہ یہ بات آگئی، میں نے کہا حضرت اتنا آپ جانتے ہیں، اس سے زیادہ میں جانتا ہوں۔ وہ حیران ہوگئے کہ یہ کیسا عجیب آدم ہے، یہ کوئی جواب ہے، یعنی انٹرویو کے اندر کوئی ایسے جواب دیتا ہے۔ انہوں نے کہا: آپ کیا زیادہ جانتے ہیں؟ میں نے کہا: میں یہ جانتا ہوں کہ مجھے اللہ کا حکم ہے اور اللہ کا حکم کوئی بھی بے فائدہ نہیں ہوتا، اللہ تعالیٰ کوئی ایسا حکم نہیں دیتا جس کا کوئی فائدہ نہ ہو، لہٰذا مجھے تو چونکہ اللہ کا حکم ہے، قرآن میں ہے:

﴿اُدْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْ﴾ (المومن: 60)

ترجمہ: ’’مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا‘‘۔

لہٰذا میں تو مانگوں گا۔ آپ کی اپنا سوچ ہے، آپ جیسے کریں وہ علیحدہ بات ہے۔ اب اس کے پاس یقیناً کوئی جواب نہیں تھا۔ خیر! مجھے انہوں نے select کیا الحمد للہ۔ اچھا! وہ میرے استاد بھی بن گئے، جو انٹرویو لینے والے تھے، وہ بعد میں میرے استاد بن گئے، فزکس کے استاد بن گئے۔ ایک دن وہ سیڑھیوں پہ چڑھ رہے تھے، راستہ میں میں ان کے ساتھ تھا، مجھے کہتے ہیں: شبیر! تیرے اس جواب نے مجھے حیران کردیا تھا، جو تو نے جواب دیا تھا۔ اس دن تھوڑی سی بارش تھی، تو دیر کی جو شڑی ہوتی ہے، جس پہ بال ہوتے ہیں اور موٹی چادر ہوتی ہے، وہ میں نے اوڑھی ہوئی تھی۔ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ یہ تو کوئی دیہاتی آدمی ہے، یہ اس بات کو کیا جانتا ہوگا۔ کہتے ہیں کہ میں نے آپ سے سوال کیا، تو آپ نے تو مجھے لا جواب کردیا، میں بہت خوش ہوگیا آپ سے۔ تو یہی چیز ہے، جو حضرت نے یہاں فرمائی ہے۔ چیز بالکل یہی ہے۔ حضرت نے بھی فرمایا کہ ہم تجھے کیسے سنائیں، تجھے تو ساری چیزوں کا پتا ہے، لیکن تو نے چونکہ فرمایا ہے، تو اب ہم اس پر عمل کرتے ہیں اور ہم بھی اپنا دکھڑا سناتے ہیں، تو اس پر خوش ہوتا ہے۔ تو ایسا ہوتا ہے یعنی انسان باوجود اس کے کہ جانتا بھی ہو، لیکن اس پہ خوش ہوتا ہے جو وہ چاہتا ہے، تو اللہ جلّ شانہٗ اچھی طرح ہمیں جانتا ہے، لیکن ہماری عاجزی پر، ہمارے رونے پر، ہمارے گڑگڑانے پر اللہ پاک خوش ہوتا ہے، تو کیوں نہ ہم ایسا کام کریں جس سے اللہ پاک خوش ہوتا ہے۔ بے شک لوگ ہمارے بارے میں کیا کہیں، ہمیں کیا اس سے غرض؟

8

آگیا فریاد پہ دل سے جب وہ شاہ

بحر بخشائش میں بھی جوش آگیا

مطلب: دعا کی قبولیت کے لیے یہ شرط ہے کہ کمالِ انکسار کے ساتھ اور تہِ دل سے کی جائے۔

تشریح:

حضرت حلیمی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مجھے ایک دفعہ یہ بات فرمائی تھی کہ بعض لوگ جو گڑگڑا کے مانگتے ہیں، تو وقت کے ساتھ ساتھ ان کا وہ گڑگڑانا کمزور پڑ جاتا ہے، ذرا عادت سی پڑ جاتی ہے، تو پھر وہ اس طرح ان کو نہیں ہوتا، تو پھر اللہ تعالیٰ ان کو ایک جھٹکا لگاتے ہیں، ایسا جھٹکا لگاتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ مجھ سے غلطی ہوگئی، حالانکہ وہ غلطی نہیں ہوتی، لیکن اس کی سمجھ میں یہ ہوتا ہے کہ غلطی ہوئی ہے، پھر وہ روتا ہے، گڑگڑاتا ہے اللہ پاک کے سامنے کہ مجھ سے تو یہ غلطی ہوگئی، یہ ہوگیا وہ ہوگیا۔ تو ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے خوش ہوجاتے ہیں۔ تو یہ بات ہے کہ ہم لوگوں کو تو اللہ پاک کے سامنے رونا دھونا ہے، اللہ پاک سے مانگنا ہے، یہی ہمارا راستہ ہے۔ دیکھو! سورت فاتحہ جو ہمیں سکھائی گئی ہے، بالکل ایک ہی دعا ہے، تو دیکھو! ایک ہی دعا بار بار کیوں کروائی جارہی ہے، آخر اس میں بھی تو حکمت ہے۔ وہ دعا کیا ہے؟ اے اللہ! ہمیں سیدھا راستہ ہدایت فرما، یہ دعا ہے کہ اے اللہ! ہمیں سیدھا راستہ ہدایت فرما، راستہ ان لوگوں کا جن پر تو نے انعام کیا یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کا راستہ اور نہ کہ ان لوگوں کا راستہ جن پر تیرا غصہ ہے اور نہ ان لوگوں کا راستہ جو گمراہ ہوچکے ہیں۔ یہی دعا ہم سے بار بار کروائی جارہی ہے، بار بار کروائی جارہی ہے، بار بار کروائی جارہی ہے، یعنی چار رکعت کی نماز میں چار دفعہ، دو رکعت کی نماز میں دو دفعہ، تو اللہ پاک کو کیا پتا نہیں ہے کہ کیا مانگ رہے ہیں، لیکن یہ ہماری ضرورت ہے اور یہ ہماری اشد ضرورت ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ ہم سے بار بار منگواتے ہیں۔

9

گریہ میں بادشاہ جو خوابیدا ہوا

خواب میں ظاہر ایک اسے بوڑھا ہوا



10

حاجتیں پوری ہوئی تیری اے شاہ

ہے ہمارا پاس کوئی آئے صبح

11

سمجھو اس کو کہ حکیم حاذق ہے وہ

سچا جانو کہ امین صادق ہے وہ

12

جو علاج اس کا ہے جادو گویا ہے

قدرتِ حق کی مزاج میں جلوہ ہے

13

دیکھ کے خواب جاگ اٹھا شاہ آگاہ ہوا

جو غلام لونڈی کا تھا بادشاہ ہوا

تشریح:

ہمارے ایک ساتھی ہیں، پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہیں، نیک آدمی ہیں، اس نے مجھے یہ واقعہ سنایا، وہ لاہور میں پڑھتا تھا جب پنجاب یونیورسٹی میں۔ تو وہاں پر وہ بیمار ہوا اور بیمار بھی بڑا شدید ہوا، معدے کا problem تھا۔ کہتا ہے کہ میری کھانے کی عادتیں خراب تھیں، لاہور لاہور ہے، ظاہر ہے لاہور میں کھانے پینے کا شوق بہت زیادہ ہے۔ یہ نہیں ہوتے ٹکا ٹک والے! وہاں بہت زیادہ ہیں ٹکا ٹک والے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس طرح ٹکا ٹک والی چیزیں میں ناشتہ میں کھاتا تھا اور پورا گلاس میں برف سے بھر دیتا، پھر اس پہ میں 7up انڈیلتا، تو اتنا ٹھنڈا ہوتا، اس کے ساتھ میں وہ پیتا۔ کہتے ہیں کہ میں بہت بیمار ہوا۔ ایک دفعہ میں بہت خوار و خجل ہو کر اللہ کے سامنے رو پڑا کہ اے اللہ! اس کا کچھ حل فرما دیجئے میرے بس میں نہیں ہے۔ وہی بادشاہ والی بات کہ میرے بس میں نہیں ہے۔ اللہ پاک کی طرف سے فضل ہوا، کہتے ہیں کہ گویا مجھے بتایا گیا، (انہوں نے تو کچھ خواب سا بتایا) وہ کہتے ہیں کہ جیسے مجھے بتایا جارہا ہو کہ تم اس حکیم کے پاس کیوں نہیں جاتے؟ کوئی حکیم تھا لاہور میں۔ اس حکیم کے پاس کیوں نہیں جاتے؟ کہتے ہیں کہ مجھے اس پر اتنا یقین آگیا کہ بجائے کریدنے کے اِدھر اُدھر، میں سیدھا اس حکیم کے پاس چلا گیا۔ جانتا تھا میں اس کو، اس کو میں نے ساری روداد سنائی اپنی بیماری کی۔ کہتے ہیں کہ اس نے میری روداد سن کر کہا کہ جتنا ظلم تم اپنے معدہ پہ کرسکتے تھے وہ کرچکے ہو، اب مہربانی کر کے اس ظلم کو روکو، اب یہ نہ کرو۔ تو اس کو منع کیا اس طرح کھانے پینے سے۔ یہ برف والا جو تم پیتے ہو 7up اور یہ ساتھ ٹکا ٹک کے جو کھانے کی چیزیں کھاتے ہو، یہ بالکل چھوڑو۔ اس کو کھانے کے کچھ طریقے بتائے، کچھ دوائی دی اور کہا: دودھ پی لیا کرو۔ اس نے کہا کہ دودھ تو مجھے ہضم ہی نہیں ہوتا۔ ہوتا ہے بعض لوگوں کو نہیں ہضم ہوتی کوئی چیز، (تو دودھ) بعض لوگوں کو ہضم نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا: ٹھیک ہے کوئی بات نہیں، دودھ ضروری نہیں ہے، دودھ والی چیز بھی ہوسکتی ہے، تو دہی کھا لیا کرو، دہی میں یہ مسئلہ نہیں ہے۔ اور وہ ابھی تک دہی کھاتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ الحمد للہ وہ ٹھیک ہوگیا۔ اب دیکھو! اللہ تعالیٰ کی طرف سے مہربانی ہوگئی۔ بات تو وہی ہوئی، کیونکہ اللہ تعالیٰ اسباب استعمال کرواتا ہے اور اسباب بنائے اللہ پاک نے ہیں۔ ہمارے حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ ایک دفعہ بڑے بیمار ہوئے مدینہ منورہ میں، تو حضرت روضۂ اقدس پہ حاضر تھے۔ وہاں معاملہ ذرا direct ہوتا ہے، کیونکہ آپ ﷺ تو وہاں براہِ راست سنتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! بہت بیمار ہوں۔ تو کہتے ہیں آپ ﷺ کی طرف سے ہدایت ہوئی کہ اللہ پاک نے دوائیوں کی دکانیں کھولی ہیں ان کی طرف رجوع کرو۔ کہتے ہیں پھر مجھے دوائیوں کی قدر آئی۔ تو ہم دیکھتے تھے کہ حضرت کے مرید بھی تھے ڈاکٹر حضرات، بڑے بڑے ڈاکٹر specialist، وہ حضرت کے مرید تھے۔ تو حضرت ان کی ایسے باتوں کو مانتے جیسے (امیر کی بات مانتے ہیں۔) حضرت فرماتے بھی تھے ہمیں کہ مریض مرض میں ڈاکٹر کی بات ایسے مانے جیسے امیر کی بات مانتے ہو۔ تو حضرت ان کی بات بالکل مانتے تھے۔ گولیاں انہوں نے دی ہوتی تھیں، وہ اس طرح ہاتھ میں ڈال کے اس طرح کھا لیتے تھے۔ چونکہ طبیعت میں جولی پن تو تھا، جولی طبیعت تھی، تو ایک دفعہ کہہ دیا دیکھو! میں اتنی گولیاں روز کھاتا ہوں۔ تو حضرت کے ایک خلیفہ تھے، وہ بھی حضرت کی طرح گپ شپ والے تھے۔ انہوں نے کہا: اور پھر بھی زندہ ہوں، یعنی اتنی گولیاں روز کھاتا ہوں، پھر بھی زندہ ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ حضرت کو چونکہ حکم ہوا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے دوائیوں کی دکانیں کھولی ہیں، تو پھر اس کی قدر کی۔ اصل میں دیکھیں! یہ سارے اللہ تعالیٰ نے نظامِ اسباب بنائے ہیں۔ ہمارے گھر والے بات کرتے ہیں کہ جب بچے وغیرہ بیمار ہوجاتے ہیں، تو ان کو پھر ہم ڈاکٹر کو دکھاتے ہیں۔ ڈاکٹر وغیرہ کو بلا لیتے ہیں، ڈاکٹر کو دکھا دیتے ہیں، تو وہ کہتے ہیں کہ بس ڈاکٹر نے دیکھ لیا اب ٹھیک ہوجائیں گے۔ ڈاکٹروں کی روزی اس میں مقرر ہے، اب کیا کریں۔ اللہ پاک نے ان کی روزی لکھی ہے اس میں۔ اگر ان کے ہاں یہ لوگ ٹھیک نہ ہوں تو پھر (ان کو روزی کیسے ملے گی)۔ تو یہ بات ہے کہ ہر چیز میں اللہ کی حکمتیں ہیں۔ پتا نہیں کتنی چیزیں ہیں جو ہم عام سمجھتے ہیں، وہ پہلے سے آپس میں جڑی ہوئی ہیں۔ تو یہاں پر بھی یہ بات تھی کہ ایک حکیم کا بتایا گیا کہ جاؤ ان سے اپنے مسئلہ کو حل کرواؤ۔

مطلب: یا تو لونڈی کے غم میں بادشاہ غلاموں کی طرح مجبور اور بے بس ہو رہا تھا۔ یا اب یہ خواب دیکھ کر بادشاہوں کی طرح تمام قیودِ غم سے آزاد ہو کر گیا۔

14

وقتِ وعدہ آیا جب دن چڑھ گیا

شمس نے بھی تاروں کو اندر کردیا

تشریح:

یعنی تارے غائب ہوگئے کیونکہ سورج نکل آیا۔

15

کھڑکی میں بادشاہ کھڑا تھا منتظر

تاکہ دیکھے وہ کہ جو دیکھا تھا سِر


تشریح:

مطلب یہ ہے کہ جس کا بتایا گیا تھا وہ نظر آئے۔

16

شخص کامل دیکھا پھر پرمایہ ایک

کہ تھا آفتاب درمیانِ سایہ ایک

آفتاب مذکور کی حقیقت پر روشنی ڈالنے کے مولانا اسماعیل میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ کے یہ دو شعر بہت خوب ہیں، وہ اپنے شیخ کی مدح میں کہتے ہیں:

ذات کا آئینہ کامل بنا

یہ ہمارا عتیق تو حامل بنا

حامل و محمول میں یہاں فرق کیا

شمس ربانی کو غرب و شرق کیا

17

آرہا تھا دور سے مانندِ ہلال

نیستی ہستی میں تھے وہ جیسے خیال

مطلب: ہلال کے ساتھ تشبیہ دو وجہ سے دی ہے: ایک تو یہ کہ وہ شخص بوجہ ریاضت و مجاہدہ کے ضعیف و نحیف ہو رہا تھا، (جس کا ذکر ہورہا تھا)۔ دوسرے (یہ کہ) ہلالِ عید کی طرح اس کا انتظار تھا۔ مولانا بحر العلوم رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ یہ شعر "آفتابے درمیان سایہ" کی تقریر ہے۔ یعنی وہ شخص اپنی حقیقت اور اس کی فنا کے لحاظ سے "نیست" تھا اور بقائے حق کے ساتھ وہ "ہست" تھا۔ یعنی وہ فنا فی اللہ و بقا باللہ کے مقام کو پہنچا ہوا تھا۔

تشریح:

ویسے میں آپ سے عرض کروں کہ ہمارا جسم؛ یہ سفلی ہے اور ہماری جو روح ہے، وہ علوی ہے۔ روح کا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے، نفس کا تعلق جسم کے ساتھ ہے۔ جتنی جتنی جسمانیت غالب ہوتی جاتی ہے روحانیت سے دوری ہوتی جاتی ہے۔ جتنی جتنی جسمانیت کم ہوتی جاتی ہے روحانیت غلبہ کرتی جاتی ہے۔ جس وقت جسمانیت بالکل فنا ہوجائے، اِس کا مطلب یہ نہیں کہ جسم فنا ہوجائے، جسمانیت اور جسم دو بالکل مختلف چیزیں ہیں۔ جیسے انگریزی اور انگریزیت مختلف چیزیں ہیں۔ انگریزی میں کوئی مسئلہ نہیں، آپ بے شک سارا دن انگریزی بولیں، اس سے کیا فرق پڑتا ہے، لیکن انگریزیت ایک لمحہ کے لئے بھی مصیبت ہے، کیونکہ انگریزیت میں احساسِ کمتری ہے اور انگریزی ایک زبان ہے۔ جیسے ہندکو زبان ہے، جیسے پشتو زبان ہے، جیسے عربی زبان ہے، جیسے فارسی زبان ہے، اس طرح انگریزی بھی ایک زبان ہے، انگریزی میں کیا مسئلہ ہے۔ انگریزی میں کوئی مسئلہ نہیں، مسئلہ انگریزیت میں ہے۔ یعنی تم اپنی صلاحیتوں کو چھوڑ کر ان کے اوپر اپنے آپ کو dependent سمجھ لو، یہ انگریزیت ہے، ان کی ہر چیز کو تم اچھا کہو اور اپنی ہر چیز کے ساتھ تمھارا تعلق ختم ہوجائے، یہ انگریزیت ہے۔ انگریزوں کے دور میں ایک شخص فوج میں ملازم ہوگیا، ظاہر ہے اس میں سب انگریز ہی ہوتے تھے اُس وقت، دیسی لوگ تو افسر کم ہی ہوتے تھے۔ تو ان کا اثر تو چڑھتا تھا ظاہر ہے۔ یہ انگریز لوگ جو انگریزی بولتے ہیں، تو منہ ٹیڑھا کر کے بولتے ہیں۔ امریکہ میں ایسی بات نہیں ہے، امریکی جو انگریزی بولتے ہیں، وہ normal ہماری طرح بولتے ہیں۔ جبکہ جو انگریز انگریزی بولتے ہیں، وہ منہ ٹیڑھا کر کے بولتے ہیں۔ وہ اس طرح منہ ٹیڑھا کر کے بولتے ہیں، حالانکہ کوئی ضرورت ہی نہیں اس کی۔ وہ امریکی بھی اس پہ ہنستے ہیں۔ وہ بھی اس پہ ہنستے ہیں کہ یہ کیا کررہے ہیں، کون سی زبان بول رہے ہیں۔ تو اس نے بھی کچھ اس طرح سیکھا ہوگا اپنے افسروں سے۔ واپس چھٹی پہ آیا تھا، تو اپنے والد کو اس نے دو تین گالیاں نکالیں کہ تم مجھے سکھا رہے ہو، جاؤ ۔ یہ انگریزیت ہے۔ کیوں کہ اس میں احساسِ کمتری ہے، اس میں ان کی ہر چیز کو اچھا سمجھنا ہے اور اپنی ہر چیز کو برا سمجھنا ہے۔ احساسِ کمتری سے انسان کی ساری صلاحیتیں زندہ درگور ہوجاتی ہیں، اس کے پاس کچھ نہیں رہتا۔ ویسے ہی جیسے کوئی کسی سے مرغوب ہوجائے تو بالکل وہ بات بھی نہیں کرسکتا، تو اس طرح ان کے سامنے بالکل ہی کچھ بھی نہیں ہوتا۔ تو یہ چیز ٹھیک نہیں ہے اس چیز کو نکلنا چاہئے اور اس چیز کو ختم ہونا چاہئے۔ اس وقت بہت سارے لوگ ابھی تک غلام ہیں، پاکستان میں رہتے ہوئے، ہندوستان میں رہتے ہوئے بہت سارے لوگ ابھی تک غلام ہیں اسی انگریزیت کی وجہ سے۔ میں صاف بتاتا ہوں کہ ہماری ترقی میں انگریزیت حائل ہے۔ جو ہم لوگوں نے انگریزیت کا لبادہ اوڑھا ہے، اسی سے ہمیں سارا نقصان ہورہا ہے، آج ہم اس چیز کو چھوڑ دیں اور اپنے اصلی روپ میں آجائیں، تو سارا مسئلہ ہمارا حل ہوجائے گا۔ کیوں کہ اللہ پاک نے ہمیں بڑی صلاحیتیں دی ہیں، اس کا پتا تو ہمیں باہر ملکوں میں جا کر چلتا ہے کہ کیا بات ہے۔ مثال کے طور پر دیکھو! میں آپ کو صاف بات بتاؤں، ہم نے کون سے سکولوں میں پڑھا ہے؟ اپنے ٹاٹ والے سکولوں میں پڑھا ہے، جو اردو میڈیم کے سکول ہوتے تھے، جن میں ٹاٹ کے اوپر بیٹھتے تھے۔ Beacon House وغیرہ میں ہم نے نہیں پڑھا، ٹاٹ والے سکولوں میں پڑھا ہے، لکڑی کے desk والے سکولوں میں پڑھا ہے جب مڈل میں پہنچ گئے۔ خیر! اسلامیہ کالج میں بھی یہی ماحول تھا، کوئی اتنا زیادہ فرق نہیں تھا۔ تو یہ بات تھی اردو وغیرہ میں سارا کچھ سیکھا الحمد للہ۔ teacher بھی ہمارے ادھر کے تھے، کوئی باہر کے تو نہیں آئے تھے، لیکن جرمنی میں جا کے ہم نے دیکھا، اللہ کی مدد دیکھی کہ یہاں کی محنت سے آدھی محنت پر ہم ان سے آگے تھے، حتیٰ کہ ان کو ہمارے ساتھ حسد ہوگیا، یعنی ہمارے جو colleague تھے ان کو ہمارے ساتھ حسد ہوگیا۔ ایک کا تو کم از کم میں کہہ سکتا ہوں کہ میرے پاس آیا، Backer اس کا نام تھا۔ جرمنی میں Baker کہتے ہیں، انگریزی میں لوگ اس کو backer کہتے ہیں۔ بکر اس کا نام تھا۔ مجھے کہتا ہے: what you do with our professor۔ میں نے کہا: what do you mean۔ کہتے ہیں: he is admiring too much یعنی یہ تو آپ کی بہت زیادہ تعریف کرتا ہے۔ میں نے کہا: then ask him baker پھر اس سے پوچھو، مجھ سے کیوں پوچھتے ہو؟ میں کیا بتاؤں کہ میری تعریف کیوں کرتا ہے، مجھے کیا پتا، اس کو پتا ہوگا۔ تو اب دیکھیں! یہ کیا بات تھی کہ وہاں پر وہ اپنے لوگوں کو چھوڑ رہے ہیں، ہمارے اوپر depend کررہے ہیں۔ تو یہ کوئی بات سمجھ میں آرہی ہے یا نہیں آرہی؟ آخر وہ ان کے سکولوں میں پڑھے بڑھے ہیں، انہوں نے میٹرک کے equivalent اور ایف ایس سی کے equivalent وہ سارا ادھر کیا ہے اور ہم نے یہاں پر ٹاٹ والے سکولوں سے کی تھیں ساری چیزیں، لیکن نظر آرہا ہے کہ بھائی کیا بات ہے۔ آخر وہ کیا بات تھی؟ کم از کم میرے سامنے تو ظاہر ہوا، میں تو دوسروں کے بارے میں نہیں کہہ سکتا، کم از کم میرے بارے میں تو ظاہر ہوا کہ یہ پردہ ہے جو ہماری آنکھوں پہ پڑا ہوا ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم لوگ نالائق ہیں۔ بھائی! نالائق اس لئے کہ تم اپنے آپ کو نالائق خود بنا رہے ہو، تمھارا ذہن آزاد نہیں ہے، تمھارا ذہن بند ہوچکا ہے، تم ان کی ساری چیزوں میں گھر گئے ہو، اب تمھیں سمجھ بھی نہیں آرہی کہ تم کیا ہو۔ یہ تمھاری اپنی سوچ ہے، تم ذرا آزاد تو ہوجاؤ، پھر دیکھو کہ تم کیا ہو۔ یہی تو علامہ اقبال بیچارہ کہہ رہا تھا۔ وہ کیا کہہ رہا تھا؟ وہ تو یہی کہتے کہتے مرا ہے کہ تم آزاد نہیں ہو، اپنے آپ کو آزاد کرو، پھر دیکھو کہ کیا ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اصل آزادی ہماری ان لوگوں سے یہ ہے کہ ہم آزادانہ سوچ سکیں، ہم اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرسکیں، ہم اپنی غلطیوں کو جان سکیں، ان کی اصلاح کرسکیں، یہ ساری چیزیں ہماری اپنی ہیں۔ پھر دیکھو، اللہ تعالیٰ کی مدد کتنی آتی ہے۔ ہماری جو ذہنی غلامی ہے، وہ ہمارے لئے بہت بڑا حائل ہے، جو ہمیں ترقی نہیں کرنے دیتی۔ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا جو ہمارے اوپر احسان ہے، وہ یہی تھا کہ انہوں نے ہمارے ذہن سے احساسِ کمتری نکالا تھا، ہمارے ذہن سے احساسِ کمتری نکالا تھا کہ نہیں بھائی! اللہ نے اسے بھی پیدا کیا ہے، ہمیں بھی پیدا کیا ہوا ہے۔ ہمیں اپنی صلاحیتیں دی ہیں، ان کو اپنی صلاحیتیں دے دیں، ان کو اپنی صلاحیتوں سے کام لینے دو، ہمیں اپنی صلاحیتوں سے کام لینا چاہئے۔ یہ کون سی بات ہے کہ وہ انسان ہیں اور ہم انسان نہیں ہیں، ہمیں بھی تو اللہ نے پیدا کیا ہے اور ہمیں بہت کچھ دیا ہے۔ یہ اصل میں بنیادی بات ہے، اگر ہم لوگ اس کو سمجھیں تو یقین جانیے کہ ہماری زندگی بدل جائے۔ اب دیکھیں! ہمارے جو لوگ training کر کے ادھر جاتے ہیں، یعنی ان کے لوگوں کے مقابلہ میں ما شاء اللہ! وہ اپنی researches کرتے ہیں، سارا کچھ کرتے ہیں، اور ان کے results بڑے اچھے آتے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ اگر ہم لوگ بھی اپنے آپ کو کچھ جان لیں کہ ہم اللہ کے بندے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے بندگی میں ہی ہمارا کمال ہے، ان لوگوں کی غلامی میں ہمارا کمال نہیں ہے، تو پھر بات بڑھے گی۔

بہرحال! میں عرض کررہا تھا کہ یہ جو فنا ہے، یہ جسمانیت سے نکل کے روحانیت کی دنیا میں جانا ہے۔ جیسے جیسے آپ جسمانیت سے نکل رہے ہیں، آپ کے اوپر جسم کا اثر کم ہورہا ہے، تو روح کا اثر بڑھ رہا ہے، تو اتنا اتنا آپ اللہ کے قریب ہورہے ہیں۔ تو جس وقت آپ انتہائی اللہ کے قریب ہوں گے، تو اللہ تعالیٰ آپ کو اپنا بنا لے گا، جب اللہ تعالیٰ آپ کو اپنا بنا لیتے ہیں تو پھر اپنی طرف سے دیتا ہے، یہ بقا ہے۔ پھر اس وقت زبان تیری، بات اللہ کی۔ سوچ تیری، بات اللہ کی، جو بھی بات ہو اللہ تعالیٰ کی مدد اس میں شامل ہوتی ہے، بے شک تم جانو یا نہ جانو، لیکن اللہ کی طرف سے وہ چیز آپ کے پاس آئے گی۔ ہمارے حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے ان چیزوں کو categorize کیا ہے، مطلب اس کو سمجھانے کے لئے۔ ویسے بات تو یہی ہے جو میں نے عرض کی، اس سے زیادہ نہیں ہے، بات یہی ہے، لیکن بہرحال انہوں نے اس کو categorize کیا ہے سمجھانے کے لئے، تاکہ عام لوگ بھی سمجھ سکیں۔ انہوں نے کہا کہ بھائی! ہمیں اصلاح تو تین چیزوں کی کرنی ہے: عقل کی کرنی ہے، نفس کی کرنی ہے، قلب کی کرنی ہے، یہ ہمارا domain ہے کام کرنے کا، اس پہ محنت ہے، اس کو سیر الی اللہ کہتے ہیں۔ جب ان تینوں کی اصلاح ہوجاتی ہے اور اعتدال ان میں آجاتا ہے، تو پھر کیا ہوتا ہے؟ پھر اللہ کی طرف سے فضل کا معاملہ ہوتا ہے۔ اور وہ فضل یہ ہوتا ہے کہ دو لطائف اللہ پاک خود دیتے ہیں، جن پہ تمھاری محنت کا کوئی کام نہیں ہے۔ وہ اس کی طرف سے عطا ہوتے ہیں۔ وہ کیا ہیں؟ وہ لطیفۂ روح اور لطیفۂ سر ہیں۔ لطیفۂ روح آپ کے قلب کو ملاء اعلیٰ سے ملاتا ہے اور لطیفۂ سر آپ کی عقل کو ملاء اعلیٰ سے ملاتا ہے۔ لہٰذا ملاء اعلیٰ سے آپ کے قلب میں الہامات اتر رہے ہوں گے، اللہ کی طرف سے بات اس میں آرہی ہوگی اور تمھاری عقل کا تعلق جو ملاء اعلیٰ کے ساتھ ہے، تو وہاں سے آپ کو فراست مل رہی ہوگی۔ آپ کی سوچ اس طرح ہوگی جس طرح وہ ہونی چاہئے۔ پھر آپ کی جو سوچ ہے، وہ آپ کی اپنی نہیں ہوگی، بلکہ ادھر سے ہوگی، وہ فراست آپ کو مل جائے گی۔ اس کے لئے فرمایا کہ مومن کی فراست سے ڈرو، وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔ وہ یہی بات ہے۔ وہ اللہ کا نور یہ ہے کہ ادھر سے ملاء اعلیٰ کے ساتھ تعلق ہے، وہاں سے guidance ہے، وہاں سے سمجھ اس کو مل رہی ہے، وہ جو اس سمجھ کے حساب سے بات کررہے ہیں، وہ بات اور ہے۔ تو یہ کیا چیز ہے، ان دو لطائف کا حصول جو ہے یہ بقا والی بات ہے۔ آپ کی فنائیت ان تین لطائف میں ہے اور آپ کی بقا ان دو لطائف میں ہے، کیوں اب آپ کو اللہ تعالیٰ استعمال کررہا ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو عطا ہورہا ہے۔ نتیجتاً اللہ جلّ شانہٗ جیسے چاہتے ہیں آپ کے قلب پہ اتار لیتے ہیں اور جیسے چاہتے ہیں آپ کو سمجھا دیتے ہیں۔ وہ چیز جو کسی کی سمجھ میں نہیں آئے گی، اللہ تعالیٰ آپ کو سمجھا دے گا۔ ظاہر ہے وہ کام اس کا ہے۔ اب دیکھو! عام لوگ جن کی ان تینوں کی اصلاح نہ ہوچکی ہو، ان کو اگر کوئی اچھی بات مل جاتی ہے تو وہ اس کو اپنا کہتے ہیں کہ میں نے کیا، لیکن جن کی اصلاح ہوچکی ہوتی ہے ان تینوں کی، ان کو جب اللہ عطا کرتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ اللہ نے دیا ہے، وہ اس کو خود نہیں on کرتے، اس کو اپنی طرف سے نہیں کہتے۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیا فرما رہے ہیں مشورہ میں؟ میری بھی ایک رائے ہے، اگر ٹھیک ہے تو اللہ کی طرف سے ہے، اگر غلط ہے تو میرے نفس کی طرف سے اور شیطان کی طرف سے ہے۔ تو جو بھی اچھی بات ہوتی ہے، وہ اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سمجھتے ہیں، اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کرتے ہیں۔ یہ جو ہم لوگ research کرتے ہیں، اپنے ذہن سے جو research کرتے ہیں، اس میں ’’میں، میں‘‘ develop ہوتی ہے کہ میں ایسا، میں ایسا اور میں ایسا۔ اس میں ’’میں، میں‘‘ develop ہوتی ہے۔ جس وقت انسان اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہنا شروع کرلیتا ہے تو اس میں ’’میں، میں‘‘ ختم ہوجاتی ہے، پھر وہ اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کرتا ہے۔ اور پھر وہ ہر معاملہ میں ڈرتا ہے کیونکہ اس کو اپنے اوپر کوئی یقین نہیں ہوتا، اس کو اللہ تعالیٰ پر یقین ہوتا ہے اور وہ اپنی بات کو اللہ کی بات کے ساتھ ملانا چاہتا ہے کہ میں وہ بات کروں جو اللہ بات کرے، میں اپنی طرف سے کوئی بات نہ کروں۔ یہ اصل میں بنیادی بات ہوتی ہے۔ ہمارے جتنے بھی فقہاء کرام تھے جو محققین تھے، ان میں یہی چیز تھی۔ تو ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرماتے تھے۔ اِس وقت اِس دور میں جو لوگ research کرنے والے ہیں، ان کے اندر یہ چیز نہیں ہے، نتیجتاً اس سے پھر مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔ اختلاف نہیں، مخالفت شروع ہوجاتی ہے اور وہ چیز ٹھیک نہیں ہے۔ ’’وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ‘‘ کہتے ہیں ناں زبان سے، کیا مطلب ہے اس کا؟ (یہ کہ) اصل بات تو اللہ تعالیٰ کو پتا ہے کہ حقیقتِ حال کیا ہے، ہمیں کیا پتا، ہم تو ایک بات کرسکتے ہیں جو ہمارے دل میں اللہ پاک ڈالیں، ہم اس بات کو کرسکتے ہیں، لیکن پتا تو اللہ کو ہی ہے اصل میں، ’’وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ‘‘۔ یا اگر کسی کو بات پہنچانی ہو ’’وَمَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلَاغُ‘‘ کہ ہمارا کام صرف پہنچانا ہے، باقی نافذ کروانا ہمارا کام نہیں ہے، وہ اس کا کام ہے۔ تو مطلب یہ ہے کہ میں اپنی بات پہنچانا چاہتا ہوں، باقی یہ ہے کہ کام تو اللہ کا ہے، تو پھر اس میں مسائل نہیں ہوتے۔ لیکن اگر اس قسم کی بات۔ اب دیکھو! میں آپ کو صاف بتاؤں، یہ کون سی بات تھی کہ شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ؛ ان کی approach الگ تھی سیاست میں اور حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے ہم نواؤں کی approach الگ تھی، لیکن اس کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ اتنی محبت کرتے تھے کہ اتنی اپنے بھائیوں میں بھی محبت نہیں ہوتی۔ یعنی شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں کسی نے ایسی بات کی، جس میں گستاخی کا پہلو تھا یعنی حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی، تو حضرت نے اس کو مجلس سے نکال دیا کہ تم ولی اللہ کے بارے میں اس قسم کی بات کہتے ہو، یہ تو شرح صدر کی بات ہے، ان کا شرح صدر وہ ہے، ہمارا شرح صدر یہ ہے، تمھیں کس نے کہا ہے کہ اس کو غلط کہو۔ اب دیکھو! یہ کیا چیز ہے؟ اس طرح حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ؛ ان کا حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں، حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں، اتنا سخت اختلاف ہونے کے باوجود جب حضرت گرفتار ہوئے یعنی انگریزوں نے ان کو پکڑا اور مالٹا بھیج رہے تھے، تو حضرت اپنی خانقاہ میں اِس طرح پھر رہے تھے بیتابی کے ساتھ اور ساتھ کہتے جاتے کہ مجھے کیا پتا کہ مجھے حسین احمد مدنی صاحب کے ساتھ اتنی محبت ہے۔ لوگوں نے کہا کہ حضرت! انہوں نے تو خود اپنی گرفتاری دی ہے اپنے شیخ کی خدمت کے لئے۔ انہوں نے کہا: کیا تم مجھے تسلی دے سکتے ہو کہ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود کربلا گئے ہوئے تھے، اس کے ذریعہ سے تسلی دے سکتے ہو؟ یہ بات ہے۔ تو محبت اتنی زیادہ تھی آپس میں، لیکن اختلاف تھا، کوئی بات نہیں۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، امام سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ؛ اس طرح دوسرے فقہاء کرام ایک دستر خوان پہ بیٹھ کے کھا رہے ہیں اور آپس میں اختلاف کررہے ہیں، ایسے مزے سے اختلاف کررہے ہیں۔ یہ دور تھا اصلی، اختلاف کا حق ان کو تھا کہ انہوں نے ما شاء اللہ شرح صدر کی اہمیت کو جان کر اپنی بات کو جو ان کو شرح صدر ہوا تھا، اس کے لئے کسی کی پروا نہیں کی، لیکن محبت میں کوئی کمی نہیں، ادب میں کوئی کمی نہیں، یہی چیزیں ہوتی ہیں۔ یہ جو چیز ہے، جسمانیت کے ختم ہونے کی وجہ سے یہ چیز ملتی ہے، جب تک جسمانیت موجود ہے، یہ چیز ختم نہیں ہوسکتی، کیونکہ انسان کی نفسانیت ختم نہیں ہوتی، نفسانیت والا معاملہ الگ ہے، روحانیت والا معاملہ الگ ہے۔


دعا اور روحانیت کا سبق - درس اردو مثنوی شریف - دوسرا دور