اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
آج کل ہمارے ہاں حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کی شہرہ آفاق کتاب ’’مثنوی مولانا روم‘‘ کا درس ہوا کرتا ہے۔ چونکہ ایک دفعہ اس کا دور مکمل ہو چکا ہے، اس لئے اب جو اردو منظوم اشعار ہیں، ان کی تشریح کی جارہی ہے۔ تشریح تو وہی پرانی ہے، تشریح میں کوئی نئی بات نہیں ہوگی، لیکن اس میں مزید ایک فائدہ یہ ہوا کہ شعر بھی چونکہ اردو میں ہے، لہٰذا شعر کا ترجمہ کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ تو فرماتے ہیں:
متن:
40
گل ہو رخصت اور گلستان ہو خراب
بوئے گل سے کیسے پائیں گے گلاب
تشریح:
یعنی گل جس میں قابلیت تھی سننے کی، سمجھنے کی، وہ تو چلا گیا، اس وجہ سے اب ایسے لوگ نہیں ہیں، جن کو ہم یہ باتیں سنا سکیں۔ اور اگر کچھ لوگ ہیں تو ایسے ہیں جیسے گلاب کی خوشبو اس میں آجائے، لیکن گلاب نہ ہو، صرف بو ہو گلاب کی، تو اس پر کیسے تسلی کرلیں؟ یعنی یہ اس وقت طالبین کی کم فہمی اور طالبین کی کم موجودگی کا گلہ اور شکوہ ہے کہ ایسے لوگ اب نہیں ہیں، جن کو میں اتنے قیمتی مضامین سنا سکوں۔ یہ مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ اپنے وقت میں کہہ رہے ہیں، تو اب کیا حال ہوگا۔ اور واقعتاً وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں کی استعداد پہ بڑا فرق پڑتا ہے۔ اور اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ پہلے وقتوں میں دین میں سادگی تھی یعنی بہت ساری چیزوں کا خلط ملط ہونا نہیں ہوا تھا، بعد میں یونانی فلسفہ بھی آگیا اور بہت ساری اور چیزیں آگئیں تو لوگوں کے ذہنوں میں وہ چیزیں بیٹھ گئیں اور جو اصل چیز ہے، اس کی طرف توجہ کم ہوتی گئی، اس وجہ سے ایسے لوگ اب نہیں ہیں، جو ان باریک اسرار کی باتوں کو سمجھ سکیں۔
متن:
41
سب کہیں معشوق، عاشق پردہ ہے
زندہ ہے معشوق و عاشق مردہ ہے
تشریح
یعنی یہ شعر پڑھ کر، سن کر لوگ بس گزر جائیں گے، پتا ہی نہیں چلے گا کہ ہم نے کیا سنا اور کیا کہا حضرت نے۔ یہ بہت ہی باریک مضمون کا شعر ہے، جس سے وحدت الوجود کا مسئلہ اور وحدت الشہود کا مسئلہ وابستہ ہے اور یہ کتنا بڑا معرکۃ الآراء مسئلہ ہے، اس پر لوگوں کی کتنی عمریں صرف ہوئی ہیں، پھر بھی حقیقت کو پانے میں کامیاب نہیں ہوئے، لہٰذا اس طرف اشارہ ہے۔
متن:
41
سب کہیں معشوق، عاشق پردہ ہے
زندہ ہے معشوق و عاشق مردہ ہے
یعنی معشوق وہ جس کے ساتھ محبت کی جائے۔ اس کا جو عاشق ہے، وہ محض حجاب ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات واجب الوجود ہے، اور اس کے مقابلہ میں جو مخلوق ہے، وہ محض ایک حجاب ہے۔ معشوق زندہ ہے حقیقت میں، اور عاشق کی کوئی حیثیت اس کے سامنے نہیں ہے۔
متن:
(تو یہ اصل میں) رازِ عشق کو، جو وحدت الوجود کا مسئلہ ہے، اسے عوام کے سامنے بیان کرنا، اوپر موجبِ فتنہ قرار دیا تھا، لیکن یہاں اس کو خواص کے لئے اس شعر میں بیان فرمایا ہے۔ (یعنی جو خواص ہیں، جو ادب کرنا جانتے ہیں، جو سمجھتے ہیں، کیونکہ) واضح ہو کہ وحدۃ الوجود کا مسئلہ وہ معرکہ خیز مسئلہ ہے، جن کی بنا پر صدیوں سے اہلِ ظواہر اور صوفیاء میں سخت اختلاف چلا آتا ہے۔ بزرگانِ سلف قدیم سے اس مسئلہ پر اشارات کرتے آئے ہیں اور صوفیاء اس مسئلے کو معرفت کی جان سمجھتے ہیں۔
طبقہ سلف کے گزر جانے اور ہجرت نبویہ سے پانچ سو برس گزر جانے کے بعد اس مسئلے میں صوفیاء کے دو گروہ بن گئے، ایک گروہ وحدت الوجود کا اور دوسرا وحدۃ الشہود کا بن گیا۔ پہلا گروہ صوفیائے سابقین کے اشارات کو حقیقت پر حمل کرتا ہے اور وہ اس بات کا قائل ہے کہ وجودِ مطلق ایک ہی ہے، جو وجوب و امکانِ قدیم و حادث، مجرد و جسمانی، مومن و کافر، طاہر و نجس وغیرہ مختلف مظاہر میں ظاہر ہے، لیکن ہر مظہر کا جدا حکم ہے اور مظاہر کے احکام میں فرق قائم کرنا ضروری ہے۔ چنانچہ مومن کے لئے نجات کا حکم ہے اور کافر کے لئے قید و قتل کا۔ اس لئے فرمایا ہے:
مذکورہ مسئلے کی تقریر بزرگانِ دین نے مختلف طریقے سے کی ہے۔ چنانچہ بحر العلومؒ اس شعر کی شرح کے ضمن میں وحدۃ الوجود کے مسئلے پر یوں روشنی ڈالتے ہیں کہ تمام موجودات عینِ معشوق ہیں، جو ذاتِ حق ہے۔
تشریح:
جیسے ہم بھی موجودات ہیں، یہ زمین موجودات، سورج موجودات، آسمان موجودات، یہ سب موجودات ہیں اور عرش موجودات ہے۔ تو فرماتے ہیں کہ موجودات عینِ معشوق ہیں جو ذاتِ حق ہے یعنی معشوق کے دم سے قائم ہیں۔
متن:
اور عاشق جو تعینات و تشخصات میں پایا جاتا ہے، وہ محض ایک پردہ ہے۔ اگر یہ پردہ اٹھ جائے تو عالم نابود ہوجائے۔ (ظاہر ہے کہ وہ ختم ہوگیا۔) اسی طرح معشوق یعنی ذاتِ حق زندہ و جاوید ہے اور عاشق مثل مردہ ہے، کیونکہ عاشق کا وجود اور اس کی حیات و ممات خدا ہی کی ایک شان ہے۔ اگر وہ اس شان کے بغیر جلوہ گر ہونا چاہے تو عالم نیست و نابود ہوجائے۔
تشریح:
یعنی ﴿كُلَّ یَوْمٍ هُوَ فِیْ شَاْنٍ﴾ (الرحمٰن: 29)
ترجمہ1: ’’وہ ہر روز کسی شان میں ہے‘‘۔
یعنی ہر وقت اس کی ایک شان ظاہر ہوتی ہے، تو یہ جو موجودات اس کے ذریعہ سے ظاہر ہو رہی ہیں، اگر اس کے بغیر اللہ تعالیٰ ظاہر ہونا چاہیں تو کائنات کدھر ہے؟ پھر تو نہیں ہے۔
متن:
مذکورہ بالا تقریر شریعت کے مزاج میں ذرا اجنبیت و بے گانگی کا رنگ رکھتی ہے، بخلاف اس کے حضرت قاضی ثناء اللہ صاحب پانی پتی قُدِّسَ سِرّہٗ کی تقریر اگرچہ اصطلاحی اخلاق سے آزاد نہیں ہے، مگر اعتراضات سے مامون ہے۔ فرماتے ہیں: وجود سے صوفیوں کی مراد مصدری معنٰی نہیں۔ (یعنی وہ جس سے چیزیں بنتی ہیں، جس کو verb کہتے ہیں) کیونکہ وہ خارج میں موجود نہیں، اور معقولاتِ ثانیہ سے، بلکہ وجود سے ما بہ الموجودیت مراد ہے۔ (یعنی جس کے ذریعہ سے موجود قائم ہے۔) اور جب اللہ تعالیٰ اپنے توابع کے وجود میں (یعنی اللہ جل شانہٗ نے جو چیزیں پیدا کی ہیں) اور خود اپنے وجود میں غیر کا محتاج نہیں، بلکہ اس کی ذات ہی اس کے وجود کی مقتضی ہے اور اس کی ذات ہی اپنے ارادے کے موافق ممکنات کے وجود کا تقاضا کرتی ہے تو وجود بمعنٰی مصدری، جو ممکن سے منتزع ہوتا ہے، (یعنی مختلف ہوتا ہے) وہ ذاتِ ممکن کا مقتضا نہیں اور نہ اس امر کا مقتضا ہے، جو اس سے منضم ہوا ہے۔
تشریح:
اصل میں یہ جو بحث چل رہی ہے، وہ یہ بات ہے کہ ہم لوگ خارج کس کو کہتے ہیں۔ ایک ہوتا ہے داخل، داخل سے مراد ہمارے ذہن کے اندر کیا ہے؟ مثال کے طور پر ذہن کے اندر اس وقت کراچی ہے یعنی کراچی کا خیال ہے، تو یہ داخل ہے اور کراچی بذات خود یہ خارج میں موجود ہے۔ دراصل یہ منطقی چیزیں ہیں، یعنی علمِ کلام والی، تو اس میں یہ اصطلاحات ہیں یعنی خارج اور داخل اور یہ تمام چیزیں ہیں۔ اس وجہ سے اللہ جل شانہٗ نے جو ارادہ فرمایا، اس سے جو چیز وجود میں آئی، وہ خارج ہے۔ دوسرا حضرت مجدد صاحب نے یہ فرمایا تھا کہ اللہ پاک اس وجود کے ساتھ موجود نہیں جس کو لوگ وجود کہتے ہیں۔ اب اس کی تشریح کافی مشکل بات ہے، جس میں حضرت نے گویا کہ بہت ہی اہم بات سمجھانا چاہی ہے کہ جس کے ذریعہ سے ہم قائم ہیں یعنی جو ہمارا وجود ہے، چونکہ موجود اس کو کہتے ہیں جس کا وجود ہو۔ لہٰذا ہم جس وجود سے موجود ہیں، وہ تو مخلوق ہے، اور مخلوق سے تو اللہ تعالیٰ قائم نہیں ہے، اللہ پاک تو مخلوق کے ذریعہ سے قائم نہیں ہے، وہ تو اس سے آزاد ہے، منتزہ ہے۔ یہ اصل میں باریک بات ہے، جو کہ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بیان فرمائی ہے۔ تو یہاں پر بھی یہی بات ہے کہ وجود بمعنیٰ مصدری، جو ممکن سے منتزہ ہوتا ہے، وہ ذات ممکن کا مقتضیٰ نہیں اور نہ ہی اس امر کا مقتضیٰ ہے، جو اس سے منتزع ہوا ہے۔
متن:
بلکہ ممکن کا ما بہ الموجودیت کیا ہے؟ اس کے وجود سے ارادۂ الہی کا تعلق ہے۔
تشریح:
یہ وہی ارادے والی بات جو میں نے تھوڑی دیر پہلے عرض کی کہ اللہ تعالیٰ نے ارادہ کیا اور وہ چیز ظاہر میں موجود ہوگئی۔ فرمایا: كُنْ فَیَكُوْنُ (یس: 82)
ترجمہ: ’’ہوجا۔ بس وہ ہوجاتی ہے‘‘۔
یعنی اس میں یہ بات ہے۔
متن:
اور یہ ارادہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت ہے۔
تشریح:
کیونکہ آٹھ صفات تو اللہ تعالیٰ کی خاص ہیں، جن میں سے ایک ارادہ بھی ہے یعنی وہ حیّ و قیوم ہے، سمع و بصر ہے، کلام ہے، ارادہ ہے اور علم بھی ہے، تو یہ اللہ تعالیٰ کی صفات جو کہ اصل صفات ہیں، ان سے باقی صفات کی تشریح ہوتی ہے۔ اور ان کو صفات ثبوتیہ بھی کہتے ہیں۔
متن:
اور یہ ارادہ اللہ کی صفات میں سے ایک صفت ہے، اس ارادہ کا تعلق خاص اللہ تعالیٰ کی ذات کا مقتضا ہے، کوئی دوسری چیز درمیان میں واسطہ نہیں ہے، پس ممکنات کا ما بہ الموجودیت ذاتِ حق کے سوا کچھ نہیں۔ (یعنی جس چیز سے جو ہماری موجودات قائم ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے۔) اب ذاتِ حق اللہ تعالیٰ کو موجود بمعنٰی ما بہ الموجودیت کہنا بالکل حق اور صواب ہے اور اس کا تمام اشیاء پر احاطہ جو قرآن سے ثابت ہے، اس کے معنی ہیں کہ اشیا کا ما بہ الموجودیت وہی اللہ تعالیٰ ہی ہے اور اس کو وجودِ مطلق لا بشرطِ الشی اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس کی ذات جس طرح اپنے وجود کی مقتضی ہے، اسی طرح اپنی تمام صفاتِ کمال مثلًا سمع، حیات، بصر، علم، قدرت، ارادت اور کلام کے وجود کی بھی مقتضی ہے، اس لئے اس کی ذات کو واجب بالذات کہتے ہیں (یعنی واجب الوجود، واجب بالذات) اور اس کی صفات کو جو اہل اسلام کے نزدیک ذات پر زائد ہیں، واجب بالغیر کہتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کی ذات واجب الوجوب ہے، واجب بالذات ہے اور اس کی صفات واجب بالغیر ہے
تشریح:
یعنی اس کی صفات خدا نہیں ہیں، لیکن خدا کے ساتھ ہیں۔ لہٰذا سمع کو تو ہم خدا نہیں کہیں گے، بس یہ صفت ہے، لیکن وہ اللہ کی صفت ہے یعنی واجب بالغیر اس کو کہتے ہیں۔
متن:
پس اللہ تعالیٰ کی ذات لا بشرطِ الشی من الصفات اور مطلق عن القیود و الاعتبارات واجب الذات ہے (یعنی یہ تمام چیزیں اللہ کے ساتھ ہیں، اللہ ان کی وجہ سے نہیں ہے۔) اور ما بہ الموجودیت اس کی صفات ہیں۔ جس کی مظہر تمام کائنات ہے۔ (رسالہ وحدۃ الوجود مؤلفہ قاضی صاحب رحمۃ اللہ علیہ)
تشریح:
یہ حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ کی بات تھی۔ اب شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے بہت خوبصورت باتیں کی ہیں۔ چونکہ وہ اور بعد میں آئے ہیں، تو بعد میں جو آتے ہیں، وہ لوگوں کے اشکالات کے مطابق پھر اس کو آسان کرتے جاتے ہیں۔ تو اس میں فارسی میں کافی لکھا ہے، پھر آگے فرماتے ہیں:
متن:
(حضرت شاہ عبد العزیز دہلوی رحمۃ اللہ علیہ قُدِّسَ سِرُّہٗ الْعَزِیْز نے وحدۃ الوجود کی بہت صاف و نمایاں تقریر فرمائی ہے۔ فتاوٰی عزیزی جلد اول صفحہ 124 میں لکھا ہے۔)
﴿سَنُرِیْهِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَ فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّ اَوَ لَمْ یَكْفِ بِرَبِّكَ اَنَّهٗ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ شَهِیْدٌ﴾ (فصلت: 53)
”عنقریب ہم ان لوگوں کو اپنی نشانیاں اطراف عالم میں دکھائیں گے۔ ان کے اپنے درمیان میں بھی۔ (ان کے نفوس میں بھی) یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ (قرآن) بر حق ہے۔ کیا یہ بات کافی نہیں کہ تمہارا پروردگار ہر چیز کا شاہد ہے۔ یاد رکھو کہ یہ لوگ تو اپنے پروردگار کے حضور میں حاضر ہونے کی طرف سے شک میں ہیں۔ سنو! خدا ہر چیز پر حاوی ہے۔“
و نیز آیۃ: ﴿ھُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاھِرُ وَالْبَاطِنُ﴾ (الحدید: 3)
"وہی شروع سے ہے اور وہی آخر تک رہے گا اور وہ ظاہر ہے اور پوشیدہ ہے۔"
(اب حضرت فرماتے ہیں:) وحدت الوجود کے قائلین میں بڑے بڑے صلحاء و عارفین اور اکابر صوفیاء شامل ہیں۔ چنانچہ سلسلہ قادریہ میں شیخ اکبر محی الدین ابن العربی، شیخ صدر الدین قونوی، شیخ عبد الکریم، شیخ عبد الرزاق جہانوی، شیخ امان پانی پتی اور کبرویہ میں سے حضرت مولانا روم، حضرت شمس الدین تبریز اور سہروردیہ میں سے شیخ فرید الدین عطار اور چشتیہ میں سے سید محمد گیسو دراز۔ سید جعفر مکی، (بلکہ چشتیہ میں جو حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے والد صاحب وہ بھی وحدت الوجود کے قائل تھے اور شیخ عبد القدوس گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ بھی وحدت الوجود کے قائل تھے۔) اور نقشبندیہ میں حضرت خواجہ عبید اللہ احرار اور مولانا جامی، ملا عبدالغفور لاری، خواجہ باقی باللہ کابلی، شیخ عبد الرزاق کاشی، شمس الدین غفاری، سعید الدین فرغانی اور علمائے مدینہ منورہ سے حضرت شیخ ابراہیم کردی، مشائخ مکہ معظمّہ سے شیخ حسام الدین علی متقی، علمائے ہند میں سے شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیھم اجمعین اس کے قائل ہیں۔ حضرت غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت خواجہ بزرگ رحمۃ اللہ علیہ اور خواجہ قطب الدین رحمۃ اللہ علیہ کے کلام میں اس کے اشارات موجود ہیں اور خواجہ فرید الدین شکر گنج رحمۃ اللہ علیہ سے تواتراً منقول ہے کہ وہ اپنے مریدوں کو وحدۃ الوجود کی تلقین کرتے تھے۔ (کذا فی فتاوٰی عزیزی) (باقاعدہ کتاب پڑھتے پڑھاتے تھے، فصوص الحکم پڑھاتے تھے۔ چنانچہ حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کا جو مشہور واقعہ تھا، اس وقت حضرت فصوص الحکم ہی پڑھا رہے تھے۔) اوپر بیان کیا گیا تھا کہ ہجرت سے پانچ صدی بعد صوفیاء کے دو گروہ ہوگئے۔ ایک گروہ وحدۃ الوجود کا قائل ہے اور اس مسئلے کی تقریرات اوپر درج ہو چکیں۔ دوسرا گروہ صوفیائے سلف کے ان اشارات کی تاویل کرتا ہے اور اس کو سُکر و استغراق پر محمول کرتا ہے۔ ان حضرات کو وحدۃ الوجود کی واقعیت سے انکار ہے اور فرماتے ہیں کہ سالک کو بعض اوقات وحدۃ الوجود کا احساس ہوتا ہے، لیکن نفس الامر میں وہ واقع نہیں، جیسے کہ سورج کی روشنی میں تمام ستارے بے نور ہوجاتے ہیں اور نظر نہیں آتے، حالانکہ نفس الامر میں وہ موجود و منور ہوتے ہیں، لیکن دن کے وقت نورِ آفتاب کے غلبہ سے ان کا نور مضمحل ہوجاتا ہے۔ پس یہ وحدت جس کو وحدۃ الوجود کہا جاتا ہے، دراصل وحدۃ الشہود ہے۔
شیخ علاؤ الدولہ سمنانی اور بہت سے دیگر حضرات متقدمین میں سے اور حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی قُدِّسَ سِرُّہٗ اور ان کے بعد متأخرین میں سے وحدۃ الشہود کے قائل ہیں۔
شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’بوستان‘‘ کے تصفح سے پتا چل جاتا ہے کہ وہ بھی وحدۃ الشہود کے قائل ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ عارف لوگوں کے نزدیک خدا کے سوا کوئی چیز موجود نہیں۔ لیکن اہلِ قیاس اس بات کو قابل اعتراض سمجھتے ہیں۔ ان لوگوں کے جواب میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ خداوند تعالیٰ کی ہستی اس قدر عظیم الشان اور ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے کہ اس کے آگے کوہ و دریا، ارض و فلک، انس و ملک کی ہستی کا نام لینا بھی سوءِ ادب ہے، لیکن یہ لطیف احساس اہلِ صورت کو کہاں حاصل ہے، یہ خاص اہلِ معنٰی کا حصہ ہے۔
شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ کوئی دیہاتی رئیس کسی بادشاہ کے خیمہ و خرگاہ کے پاس سے گزرا، اس کا بیٹا اس کے ساتھ تھا، رئیس نے جب فوج کی پُر ہیبت نمائش، چمکتی تلواریں، سر بفلک شاہی خیمے اور سپاہ کا زرق برق لباس دیکھا تو اس کے بدن پر لرزہ طاری ہوگیا، بیٹا بولا ابا جان! آپ بھی تو رئیس و سردار ہیں، کیا وجہ ہے کہ آپ دہشت سے مرے جاتے ہیں؟ باپ نے جواب دیا، میں اپنے گاؤں ہی میں سردار ہوں، یہاں میری کوئی حقیقت نہیں۔
اس مقام پر صاحبِ ’’کلیدِ مثنوی‘‘ نے شاید شیخ سعدی کی مذکورہ حکایت کا مطلب لے کر ہی وحدۃ الوجود کے مسئلے کو وحدۃ الشہود کی شکل میں مستحیل کرکے دکھایا ہے۔ چنانچہ کتاب مذکور میں لکھا ہے کہ "جملہ معشوق ست" ہم معنٰی "ہمہ اوست" کا ہے۔ جو گویا وحدۃ الوجود کا دعویٰ ہے۔ خلاصہ اس دعویٰ کا یہ ہے کہ ممکنات تو صرف موجودِ ظاہری ہیں اور حقیقت میں کوئی موجودِ حقیقی یعنی بموصوف بکمال ہستی نہیں ہے بجز ذاتِ حق کے۔ جس طرح کوئی حاکم کسی داد خواہ سے کہے تم نے پولیس میں رپٹ لکھوائی؟ وہ عرض کرے جناب آپ ہی پولیس ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ حاکم اور پولیس میں کوئی فرق نہیں، بلکہ حاکم کا صاحبِ اختیار ہونا مراد ہے۔ اسی طرح "ہمہ اوست" میں ”ہمہ“ اور ”او“ کا اتحاد مقصود نہیں، بلکہ مقصد یہ ہے کہ ”ہمہ“ کی ہستی قابلِ اعتبار نہیں ہے، صرف ”او“ کی ہستی قابلِ شمار ہے۔ (یعنی جب اللہ کے سامنے کوئی ہو تو وہ کچھ بھی نہیں، اس کی اپنی حقیقت موجود ہے، لیکن اللہ کے سامنے اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے) ہستی تو باقی موجودات کی بھی ہے، مگر ان کی ہستی ہستیِٔ کامل کے سامنے محض ایک ظاہری ہستی ہے حقیقی اور کامل نہیں۔ دوسرا مصرعہ اسی مضمون کی تفسیر ہے۔ تشریح اس کی یہ ہے کہ ہر صفت کے دو درجے ہوتے ہیں، ایک کامل اور دوسرا ناقص۔ اور یہ قاعدہ ہے کہ ناقص کو ہمیشہ کامل کے سامنے کالعدم سمجھا جاتا ہے، مثلًا کوئی ادنیٰ درجہ کا حاکم کرسیٔ اجلاس پر بیٹھا ہوا اپنی شانِ حکومت دکھاتا ہے، اتنے میں بادشاہِ وقت اتفاق سے بر سرِ اجلاس جا پہنچا تو حاکم مذکور کا نشۂ غرور ہرن ہوجاتا ہے، رعبِ سلطانی سے بے حس و حرکت ہوکر رہ جاتا ہے، گو اس وقت اس کا منصب و عہدہ معدوم نہیں ہوا، مگر کالعدم ضرور ہے۔ اسی طرح ممکنات گو موجود ہیں، مگر وجودِ حق کے رو برو ان کا وجود نہایت ناقص اور ضعیف و حقیر ہے، گو ان کے وجود کو معدوم نہیں کہہ سکتے، مگر تقریبًا معدوم کے برابر ہے۔ اس کو ”ادعائے“ وحدۃ الوجود کہا جاتا ہے۔ شیخ نے تصریح کردی کہ ہست تو سب ہیں، مگر ان کی ہستی ہستیِٔ حق کے سامنے ہستی کہلانے کے قابل ہی نہیں۔ مولانا نے اس مصرعہ میں تمثیلًا فرمایا ہے کہ حضرتِ حق کو مثل زندہ کے سمجھو اور ممکن کو مثل مردہ کے۔ گو نعشِ مردہ بھی کسی درجہ کا وجود رکھتی ہے، مگر زندہ کے سامنے اس کی ہستی قابلِ اعتبار نہیں، کیونکہ مردے کی ہستی ناقص ہے اور زندے کی کامل، اور یہی حاصل وحدۃ الشہود کا ہے، جس کا معنٰی ہے ہستیِ متعدد کا مشاہدہ میں ایک نظر آنا۔
تشریح:
یعنی جدھر دیکھتا ہوں ادھر تو ہی تو ہے، واقعتاً ہر چیز میں اس کی حکمت جاری و ساری ہے، کوئی اپنی طرف سے کچھ بھی نہیں ہے۔ اب ذرا ایک بات عرض کرتا ہوں کہ وحدت الوجود اگر سائنسدان کو ہوجائے تو سائنسدان باکمال ہوجائے، کیونکہ سائنسدان کا مسئلہ یہی ہے کہ وہ ایک نہیں سمجھ پاتا یعنی کہ سب چیزوں کے کرنے والا ایک ہے، بلکہ وہ ہر چیز کو علیحدہ علیحدہ دیکھ رہا ہے، electricity کو علیحدہ دیکھ رہا ہے، magnetism کو علیحدہ دیکھ رہا ہے، فلاں کو علیحدہ دیکھ رہا ہے، اب کچھ unification کی ideas آگئی ہیں، جس سے کہتے ہیں کہ یہ بھی اس طرح ہے، یہ بھی اس طرح ہے اور سارا کچھ اس طرح ہو رہا ہے۔ لیکن بہرحال وہ علیحدہ علیحدہ سب چیزوں کو جانتا ہے، اس کی research میں جو چیز آتی ہے، بس وہی اس کے لئے سب کچھ ہوتا ہے، اس وجہ سے ایک والی بات کہ ایک ہی سب جگہوں پہ ہے، یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی۔ لہٰذا سائنسدان اگر عاشق ہوجائے یعنی وحدت الوجود سمجھ لے تو بس اس کے بعد وہ کامل ہوجائے گا۔
﴿اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّهَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ الَّذِیْنَ یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِیٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰى جُنُوْبِهِمْ وَیَتَفَكَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِۚ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًاۚ سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾ (آل عمران: 190-191)
ترجمہ: ’’بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات دن کے بارے بارے آنے جانے میں ان عقل والوں کے لئے بڑی نشانیاں ہیں۔ جو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے ہوئے (ہر حال میں) اللہ کو یاد کرتے ہیں، اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق پر غور کرتے ہیں، (اور انہیں دیکھ کر بول اٹھتے ہیں کہ) اے ہمارے پروردگار! آپ نے یہ سب کچھ بے مقصد پیدا نہیں کیا۔ آپ (ایسے فضول کام سے) پاک ہیں، پس ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لیجیے‘‘۔
تو کائنات کی تخلیق میں غور و فکر کرنے والے کون ہیں؟ لہٰذا اگر وہ ذاکر بن جائے تو اس کا کام بن جائے، پھر اس کے سینے سے آواز اٹھے گی: ﴿رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًاۚ﴾ اے رب! تو نے ان تمام چیزوں کو بے فائدہ نہیں پیدا کیا۔ کیوںکہ وہ ہر چیز کو دیکھے گا کہ اس کے اندر اللہ پاک کی قدرت کا ظہور ہے، اس کا سینہ خود ہی پکار اٹھے گا: ﴿رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًاۚ﴾ پھر ﴿سُبْحٰنَكَ﴾ کہ تو ان تمام چیزوں سے پاک ہے۔ تو یہاں پر وحدت الشہود والی بات آجائے گی۔ ﴿سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾ پس ہمیں عذاب جہنم سے نجات عطا فرما۔ اب یہاں سے ایک بہت اہم بات آرہی ہے، جیسے میں نے ابتدائی طور پہ یہ عرض کیا کہ بہت اہم بات آنے والی ہے جو کہ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کی ہے۔ سبحان اللہ! اللہ پاک حضرت کے درجات بلند فرمائے، بہت ہی فکرمند اور بہت ہی ذہین فطین اور باکمال شخصیحتوں میں سے ہیں۔ شاہ عبدالعزیز ان کا بیٹا ہے، اسی لئے تو وہ یہ بات کررہے ہیں۔
متن:
حضرت شاہ عبد العزیز دہلوی ان دونوں مسئلوں کے متعلق فرماتے ہیں کہ تحقیق یہ ہے کہ وحدۃ وجودی مرتبۂ ذات اور صرافتِ اطلاق میں حق متعین ہے اور توحیدِ شہودی جو غیریت کو ظاہر کرتی ہے، تعینات کے مراتب میں واجب القبول ہے، پس یہ دونوں امر فی الواقع صحیح ہیں۔ (یہ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی باتیں ہیں یعنی حضرت کے پورے مضمون کا اس میں گویا کہ نچوڑ بیان کیا گیا۔) حکمتِ الٰہی مقتضی ہوئی کہ (یہ اہم بات ہے) اُمتِ محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلٰوۃ والتحیۃ کی نشو و نما سے کمال کے آغاز میں علومِ توحید القاء کئے جائیں، تاکہ لوگ اللہ تعالیٰ کے قرب و معیت کے معنی سے متلذّذ ہوکر زہد و مجاہدہ میں مشغول ہوجائیں۔
تشریح:
سبحان اللہ! بہت بڑی حقیقت اللہ تعالیٰ نے اس وقت دل پہ اتاری کہ یہ جو فرما رہے ہیں: زہد و مجاہدہ، یعنی پہلے زہد و مجاہدہ زیادہ تھا، جتنے متقدمین ہیں، ان کا مجاہدہ عجیب و غریب ہے۔ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کا، اسی طرح دوسرے حضرات کا، ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ کا، یہ بہت زیادہ مجاہدے کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ عاشق تھے، اس وجہ سے ان کو یہ جو چیز ملی یہ عشق کی وجہ سے ملی، کیونکہ عشق ان کو پہلے سے حاصل تھا وحدت الوجود کے لحاظ سے۔ (یہ بہت اہم بات آرہی ہے) یعنی وحدت الوجود کی وجہ سے ان کو عشق پہلے سے حاصل تھا، تو زہد و مجاہدہ میں سلوک طے ہوجاتا، تو ان کی ابتدا ہی سلوک سے ہوتی تھی۔ تو اس وقت جتنے سلسلے چل رہے تھے، ان کی ابتدا کس چیز سے ہوتی تھی؟ سلوک سے۔ کیونکہ وہ متلذذ تھے وحدت الوجود سے۔ جیسے میں نے کل حضرت عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کا کلام سنایا تھا، اب وہ کیا چیز ہے؟ وہ یہی بات ہے کہ عاشق ہونے کی وجہ سے ان کو جذب کسبی کی ضرورت نہیں تھی، لہٰذا وہ direct سلوک پہ آتے تھے۔ جب وہ لوگ کم ہوگئے تو حضرت بہاؤ الدین نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ پاک سے رو رو کے طریقہ مانگا کہ اب کیا کیا جائے؟ تو جذب کسبی کا طریقہ اس وقت حضرت کو القاء ہوا۔ اب بھی یقین کیجئے کہ جو بھی نقشبندی حضرات جذب کسبی کے مدارج طے کرتے ہیں، لیکن وہ صحیح معنوں میں عاشق نہ ہوئے ہوں، تو وہ مجذوب متمکن بن جاتے ہیں، کیونکہ وہ اپنے عاشق ہوتے ہیں۔ چنانچہ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو شخص حضور ﷺ کی محبت کا دعویٰ کرے اور اس کے ذریعہ سے اللہ کی محبت تک نہ پہنچے تو وہ اپنا عاشق ہے، وہ حضور کا عاشق نہیں ہے۔ اور اسی طریقہ سے جو جذب کسبی حاصل کرکے ’’اَنَا وَلَا غَیْرِیْ‘‘ کا دعویٰ کرلے تو وہ اپنا عاشق ہے یا کس چیز کا عاشق ہے؟ یعنی اپنی ہی شروع کرلے کہ میں فلاں تو میں فلاں۔ خدا کے بندو! کہاں تو، کہاں اللہ! تیری حیثیت ہی کیا ہے؟ تو حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ (اللہ تعالیٰ حضرت کے درجات بلند فرمائے) حضرت نے بڑی عجیب بات فرمائی ہے اور چلتے چلتے بات کی ہے کہ حضرت مجدد صاحب نے غیریت والی بات کی ہے جو کہ ضروری تھی، لیکن اتنی بھی زیادہ نہیں ہونی چاہئے تھی، کیونکہ اس سے یہ مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ کیونکہ جو وحدت الوجود کا جوش و خروش ہے، وہ تو پھر نہیں ہے۔ لہٰذا انسان تو کمزور ہے، ان چیزوں سے مجبور ہے، اس لئے اس سے پھر مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ اسی وجہ سے چشتیہ سلسلہ میں اگر آپ دیکھیں تو ان میں فدائیت ہے، چونکہ ان میں عشق کا پودا لگا ہوا ہے، لہٰذا ان میں فدائیت ہے۔ اور اگر کوئی حضرت مجدد صاحب کے بالکل عین طریقہ پہ رہے، تو پھر نقشبندی سلسلہ میں بہت کچھ ہے، لیکن اگر اس سے آگے پیچھے ہوگیا یعنی جذب کسبی سے انکار کر لیا اور اپنے آپ کو محبوب سمجھ لیا تو بس اپنا عاشق ہوگیا۔ اور یہ بڑا مسئلہ ہے۔ بس اللہ معاف فرمائے۔
دیکھیں! میں آپ کو ایک بات بتاؤں کہ مسئلہ بگڑا کہاں سے ہے؟ مسئلہ بگڑا یہاں سے ہے کہ جذب کسبی بضرورت ہے، مطلوب نہیں ہے ویسے، بس بضرورت ہے یعنی ایک چیز کو حاصل کرنے کے لئے جذب کسبی کو حاصل کرنا پڑا۔ اب یہ بات ہے کہ جذب کسبی سے مجذوب بن جاتا ہے یعنی جس کو جذب حاصل ہوجائے اس کو مجذوب کہتے ہیں۔ تو حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ چونکہ محبوبین میں سے تھے، (بہت سارے اولیاء محبوبین میں ہوتے ہیں) اور اس وقت چونکہ حضرت کی بہت مخالفت تھی، اگرچہ اس وقت ہم تو بڑی عزت سے یاد کرتے ہیں، کیونکہ ہمارے تو بڑے ہیں، لیکن اس وقت بڑی مخالفت تھی، حتیٰ کہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ابتدا میں ان کے ساتھ اختلاف کیا تھا۔ تو اُس وقت چونکہ مخالفت تھی، تو مخالفت کی وجہ سے اپنے آپ کو حق پر ظاہر کرنے کے لئے اپنی محبوبیت والی صفات ظاہر کرلیں۔ اب لوگ سمجھے کہ یہ ہماری بھی صفات ہیں، لہٰذا ہر نقشبندی محبوب ہے۔ اے خدا کے بندو! کیا بات کررہے ہو؟ مجذوب مجذوب ہوتا ہے، محبوب محبوب ہوتا ہے، محبوب اور مجذوب یہ ایک مصدر سے نہیں بنے، ایک کا مصدر حُب ہے اور دوسرے کا مصدر جذب ہے، تو دونوں ایک نہیں ہیں، ہاں! دونوں ایک ہوسکتے ہیں بعض لوگوں کے لئے کہ وہ مجذوب بھی ہوں، محبوب بھی ہوں، یہ ہوسکتا ہے، لیکن ہر مجذوب محبوب نہیں ہے، اور ہر محبوب مجذوب ضرور ہوتا ہے۔ یعنی یہ subset ہے کہ ہر محبوب مجذوب ضرور ہوتا ہے، لیکن ہر مجذوب محبوب نہیں ہوتا۔ اور اس پر میرے ساتھ بڑی بحثیں ہوئی ہیں، یہ میں خواہ مخواہ مفروضے کی بات نہیں کررہا ہوں، بلکہ میرے ساتھ اس پر بحثیں ہوئی ہیں، مجھے کہا گیا ہے کہ تم کیسے کہتے ہو کہ یہ کسبی ہے؟ شیخ کسی دل پر ہاتھ رکھتا ہے اور وہ شوں کرکے چل پڑتا ہے، تو یہ کسبی ہوگیا؟ مجھے باقاعدہ یہ کہا گیا، میرے پاس سارے خطوط لکھے ہوئے ہیں۔ لہٰذا اب اپنے آپ کو زبردستی محبوب سمجھنے کی وہ کوشش کرتے ہیں۔ خدا کے بندے! شوں کرکے چلنا یہ بھی تو اسباب میں داخل ہے یعنی ایک شیخ کا کرنا اور ایک اللہ تعالیٰ کا کرنا دونوں میں فرق ہے، محبوب تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے، یہ تو ذریعہ کی بات ہے۔ اس کی وجہ سے ہم محبوب تھوڑے بن گئے اور یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک سلسلہ ایسا ہے کہ جس میں جو بھی داخل ہوگا وہ محبوب بن گیا۔ خدا کے بندو! محبوب ہر سلسلہ میں ہوتے ہیں، لیکن سارے نہیں ہوتے۔ مثال کے طور پر میں عرض کرتا ہوں کہ قادری سلسلہ میں خود شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ تو خیر محبوب تھے، لیکن اور سلسلوں میں سے سلطان باھو رحمۃ اللہ علیہ مشہور ہیں، اسی طرح سے ہمارے سہروردی سلسلہ میں ہمارے کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ، اسی طرح بہت سارے سلاسل میں ہیں، نقشبندی سلسلہ میں ہمارے مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ ہیں، تو یہ محبوبین میں سے ہیں۔ حضرت نے جس کو محمدی مشرب فرمایا ہے، جس پر بہت تفصیل سے حضرت نے بیان کیا ہے۔ تو اب ہر ایک محمدی مشرب تھوڑا ہوتا ہے۔ بہرحال اس قسم کی باتوں سے لوگ نتیجتاً اپنے عاشق ہوگئے اور کسی اور کی بات سننے کے لئے ہرگز تیار نہیں ہیں، بلکہ جو ان کے سامنے یہ باتیں کرتے ہیں، تو کہتے ہیں کہ تم تو فلاں ہو، یعنی آپ کو تو record سے ہی نکال لیا کہ تم تو فلاں ہو، تم یہ باتیں کیسے کرسکتے ہو؟ بھائی! اگر محبوب ہوگا تو سارے سلسلے والے آپ کو محبوب مانیں گے، اس میں پابندی تو نہیں کہ صرف نقشبندی سلسلے والے آپ کو محبوب مانیں، باقی آپ کو نہ مانیں، اگر کوئی محبوب ہے تو سب کے نزدیک محبوب ہوگا اور اگر محبوب نہیں ہے تو نقشبندی سلسلے کے نزدیک بھی محبوب نہیں ہوگا۔ تو اس کا اس کے ساتھ تو کوئی تعلق نہیں کہ جو اس سلسلہ میں داخل ہوگئے تو بس وہ محبوب بن گئے۔ پھر حضرت نے زبردست جو بات کی ہے، وہ یہ کی ہے کہ محبوب اگر محب کے راستہ پہ چلے گا تو اس کے لئے کوئی نقصان نہیں، بلکہ اس کے لئے فائدہ ہے، لیکن محب اگر محبوب کے راستے پہ چلے گا تو اس کو کچھ بھی نہیں ملے گا۔ اب اگر نقشبندی سلسلہ کے لوگ سارے اپنے آپ کو محبوب سمجھ لیں تو ان میں سے کچھ تو ہوں گے، چلو وہ تو بچ گئے، لیکن جو نہیں ہیں اور وہ اپنے آپ کو محبوب سمجھ رہے ہیں، تو ان کو پھر کیا ملے گا؟ لہٰذا یہ خطرناک بات ہے یا نہیں ہے؟ تو اس سے اچھا نہیں کہ ہم سب اپنے آپ کو محب سمجھیں، اگر نہیں بھی ہیں، مثلاً محبوب بھی ہیں، پھر بھی اگر اپنے آپ کو محب سمجھیں تو اس میں فائدہ ہی ہے۔ جیسے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے پاس ایک شخص آیا اور کہتا کہ تو خدا کو مانتا ہے؟ حضرت نے کہا بالکل۔ اس نے کہا میں تو نہیں مانتا۔ حضرت نے کہا کہ دیکھو! آخرت کو مانتے ہو؟ پھر حضرت نے کہا کہ اگر آخرت نہیں ہے اور میں بھی مر گیا، تو بھی مر گیا، تو کوئی فرق نہیں ہے، مجھ سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہوگا کہ تو نے کیوں مانا تھا اور تجھے کوئی دینے والا نہیں ہوگا کہ تو نے نہیں مانا تھا، اس میں تو ہم برابر ہیں، لیکن اگر آخرت ہے، تو میں تو بچ گیا، لیکن تو کیا کرے گا؟ لہٰذا تو اس محفوظ راستہ پہ کیوں نہیں آتا۔ اس وجہ سے محب کا راستہ کیا ہے؟ یہ سب کے لئے محفوظ راستہ ہے۔ اور یقین جانیے کہ جو محبوب ہوتے ہیں، وہ اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتے۔ اور لوگ کہتے ہیں کہ محبوب کے لئے مجاہدہ نہیں ہے، جبکہ وہ سب سے زیادہ مجاہدہ کرتے ہیں۔ کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے احوال ذرا دیکھیں تو پتا چلے گا کہ کیسے مجاہدات کیے ہیں، کیوںکہ جو اللہ کے عاشق ہوتے ہیں، وہ اپنی ہستی فنا کر چکے ہوتے ہیں۔
متن:
جب یہ معرفت معراجِ کمال کو پہنچ گئی تو رفتہ رفتہ کج فہم لوگ عارفوں کے کلمات سے ملحدانہ معانی لینے لگے اور انہوں نے اس باریک معرفت کو تعطیلِ شرائع اور ابطالِ تکلیفات کا وسیلہ بنانا چاہا۔ چنانچہ شیخ محبّ اللہ الٰہ آبادی کا مذہب جو بظاہر وادیِ الحاد میں گام فرسا تھا زور و شور سے اطرافِ زمین میں پھیلنے لگا، یہاں تک کہ عنایتِ الہیہ حضرت شیخ احمد سرہندی کو بروئے کار لانے کی مقتضی ہوئی اور اس نے اپنے علوم عالیہ ان پر القاء کئے، جن کی اشاعت نے بطور تعدیلِ الحاد بالبارد والرطب بالیابس اپنا کام کیا حتٰی کہ لوگوں کے خیالاتِ زائغہ میں اعتدال آگیا اور حق و باطل میں امتیاز پیدا ہوگیا اور مجدّدیت کے معنٰی کا مصداق یہی ہے۔ انتہٰی۔
حضرت شاہ عبد العزیز دہلوی قُدِّسَ سِرُّہٗ کے فتاویٰ کی جلد اوّل نمبر 54 میں لکھا ہے۔ وحدۃ الوجود کے قائل کو کافر کہنا، اس کے پیچھے نماز نہ پڑھنا، اس سے مناکحت نہ کرنا، اس کا ذبیحہ نہ کھانا ہرگز روا نہیں، بلکہ اس کو مسلمان سمجھے اور اس کے ساتھ ابتداء بالسلام، جواب عطسہ، عیادتِ مریض، شہودِ جنازہ لازم ہے، لیکن وحدۃ الوجود کا اعتقاد عقائدِ اسلام کی ضروریات میں داخل نہیں۔ اگر کوئی اس کا معتقد نہ ہو اور اس کو نہ سمجھے، اس کے اسلام میں کوئی نقصان نہیں، لیکن جو بزرگانِ دین اس کے معتقد ہیں ان کے حق میں کلماتِ نازیبا کہنے سے پرہیز لازم ہے اور عوام الناس کو واجب ہے کہ اس مسئلہ میں اثباتًا و نفیًا کوئی بات منہ سے نہ نکالیں اور اس کے بارے میں بحث نہ کریں کہ فساد عقیدہ کا اندیشہ ہے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)
نوٹ! تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔