حضرات صوفیہ کا فہم سب سے بڑھا ہوا ہے:
ارشاد: حضرات صوفیہ صاحبِ تقوٰی بھی ہیں اور صاحبِ وہب بھی، اس لئے ان کا فہم دوسروں سے بڑھا ہوا ہے۔
یعنی ان کو وہبی علوم حاصل ہوجاتے ہیں۔
بینی اندر خود علوم انبیاء
بے کتاب و بے معید و استاد
(جو شخص اللّٰہ کی محبت اختیار کر لیتا ہے، اس کو تمام علومِ آسمانی بغیر کسی کتاب یا استاذ کے حاصل ہوجاتے ہیں)
حضرت فرماتے ہیں کہ اگر اس راستہ پہ چلو گے، تو اپنے اندر علومِ انبیاء کو دیکھو گے بغیر کتاب کے، بغیر مدرسہ کے، بغیر استاذ کے دیکھو گے۔ اور واقعتاً ایسا ہی ہوتا ہے، اللہ جل شانہٗ نواز دیتے ہیں۔ خود حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا جواب سنیں، کسی نے کہا کہ حضرت! آپ نے ہزار سے زیادہ کتابیں لکھی ہیں، تو آپ نے خود بہت کتابیں پڑھی ہوں گی؟ اب سوال بڑا ٹھیک ٹھاک ہے کہ اگر آپ نے ہزار سے زیادہ کتابیں لکھی ہیں، تو آپ نے خود بہت ساری کتابیں پڑھی ہوں گی، تو آپ نے فرمایا کہ نہیں، صرف تین کتابیں پڑھی ہیں۔ وہ بڑا حیران ہوگیا کہ تین کتابیں کون سی پڑھی ہیں۔ کہا کہ کون سی؟ فرمایا: حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا یعقوب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ؛ یہ تین کتابیں پڑھی ہیں۔ اب کن کا نام بتا رہے ہیں؟ کتاب کا نام بتا رہے ہیں؟ افراد کا نام بتا رہے ہیں اور افراد کو پڑھنے کا مطلب کیا ہے؟ ان کی صحبت میں بیٹھنا، ان کے سینے سے اخذ کرنا۔ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ خود فرماتے ہیں اور کیا عجیب بات فرماتے ہیں۔ وہ شخص، جس کی توحید ضرب المثل ہے (حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کی توحید ضرب المثل ہے) جو لوگ توحید کے داعی ہیں، ابھی تک ان کے پیروں کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں یا نہیں؟ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ سے علیحدہ ہوکر توحید کا دعویٰ کرسکتے ہیں؟ ہمارے اپنے بزرگوں کی بات نہیں کررہا ہوں، جو لوگ اس کا دعویٰ کرتے ہیں، وہ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے قدموں کو چھوڑ سکتے ہیں؟ نہیں چھوڑ سکتے۔ وہ کیا فرماتے ہیں؟ وہ فرماتے ہیں کہ بارہا ایسا ہوا، بلکہ یہ فرمایا کہ تین سال تک کوئی کام میں نے ایسا نہیں کیا، جس میں میں نے حاجی صاحب سے نہ پوچھا ہو۔ اب حاجی صاحب کہاں تھے؟ مکہ مکرمہ میں۔ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کہاں تھے؟ ہندوستان میں۔ اگر مکہ مکرمہ گئے بھی تو چند مہینوں کے لئے گئے تھے، بعد میں تو پھر ہندوستان میں ہی تھے۔ تو اب تین سال کا جو فرما رہے ہیں، تو اس کا مطلب کیا ہے؟ کہ تین سال ایسا ہوا کہ میں نے کوئی کام بغیر حاجی صاحب سے پوچھے نہیں کیا۔ پھر فرمایا کہ تین سال میں نے کوئی کام حضور ﷺ سے پوچھے بغیر نہیں کیا۔ پھر کچھ کہنے والے تھے پھر رک گئے۔ (کہنے والوں نے کہا کہ) حضرت! پھر آگے؟ جب بہت مجبور کیا، تو فرمایا: پھر صفتِ احسان کہ میں اللہ سے پوچھ کر کرتا تھا۔ (حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ) خود فرماتے ہیں کہ مجھے علمی شبہ آتا کسی چیز پہ، تو جیسے ہی ذہن میں آتا کہ حاجی صاحب سے پوچھ لیتا ہوں، تو مسئلہ حل ہوجاتا۔ کبھی ایسا ہوا کہ اس سے حل نہیں ہوا، میں اٹھ کھڑا ہوا، ابھی اٹھ کھڑا ہوا حاجی صاحب کے پاس جانے کے لئے، تو جیسے اٹھ کھڑا ہوا مسئلہ حل ہوگیا۔ کبھی مسئلہ زیادہ مشکل ہوا، تو میں حاجی صاحب کے پاس پہنچ گیا یعنی کبھی اگر قریب ہوتے، تو میں حاجی صاحب کے پاس پہنچ جاتا، تو جیسے میں پہنچ جاتا تھا، تو حضرت حاجی صاحب فرماتے: میاں رشید! یہ کوئی مشکل مسئلہ ہے؟ یہ کہنے کے ساتھ ہی میرا مسئلہ حل ہوجاتا۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ توکل کا مسئلہ میں نے حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا، میں وسیلے کے مسئلے پر قیاس کیا تھا، (حضرت عمر کے آخری حصہ میں چونکہ نابینا ہوگئے تھے) فرمایا: کون پوچھ رہا ہے؟ تو حاضرین نے کہا کہ حضرت! اشرف علی، فرمایا اشرف علی ہو کے پوچھ رہا ہے؟ بس یہ کہنا تھا کہ میرا وہ مسئلہ ایسا شرح صدر ہوگیا کہ پھر کبھی بھی اعتراض نہیں ہوا۔ اب دیکھیں! یہ کون سی چیز ہے؟ زبان سے سمجھایا ہے؟ زبان سے کہاں سمجھایا ہے، زبان سے سمجھاتے تو باقی لوگ بھی سن لیتے، باقی لوگوں کے اوپر یہ بات نہیں کھلی۔ تو حضرت نے فرمایا اشرف علی ہوکر یہ بات پوچھ رہا ہے؟ اب وہ کون سی چیز تھی جو حضرت کے پاس تھی، وہ دل کی کیفیت تھی اور دل کی اسی کیفیت سے فائدہ ہوجاتا ہے، کیونکہ کرنے والا اللہ ہے، انسان تو نہیں کرسکتا، اللہ کرسکتا ہے کہ آپ کے دل کی حالت میرے دل کے اوپر طاری کردے، میرے دل کی حالت آپ پہ طاری کردے، اس کے لئے کیا مشکل ہے، اگر وہ کرنا چاہے تو سب کچھ ہوسکتا ہے۔
حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ خود اپنا واقعہ بتاتے ہیں کہ میں حضرت سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس گیا، حضرت اس وقت ایک کتاب پڑھ رہے تھے، میں نے کہا ابھی سر اٹھا لیں گے، ابھی سر اٹھا لیں گے، ابھی سر اٹھا لیں گے تو میں کوئی بات کرلوں گا اور واقعتاً ہم لوگوں میں بھی یہی بات ہوتی ہے کہ سوچتے ہیں ابھی کچھ بات ہوجائے گی، تو اس طرح ہوتا ہے تو کہتے ہیں میرے دل میں آیا کاش حضرت کتاب نہ پڑھ رہے ہوتے تو میرے ساتھ بات ہوجاتی، تو کہتے ہیں کہ حضرت نے آنکھیں اوپر اٹھائیں اور فرمایا لوگ کہتے ہیں تقریر کر، جبکہ اکبر کہتا ہے تقریر نہ کر تاثیر دکھا۔ تو اللہ پاک نے حضرت کی بات کو ان کے دل پہ کھول دیا۔ اللہ جل شانہٗ کی مرضی ہے جس کے دل پہ جو بات کھولے۔ مہمند بابا جی جو ہمارے سلسلہ کے بزرگ ہیں، ان کی خدمت میں گیا، ایک سو چالیس سال کی ان کی عمر تھی، پہاڑ میں رہتے تھے اب ایک سو چالیس سال کی عمر میں پہاڑ پہ چڑھنا اترنا کوئی آسان بات ہے، تو خیر وہ حضرت سید تسنیم الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے شیخ تھے، ان کے ساتھ میں گیا تھا، حضرت نے ان کو بڑی محبت کے ساتھ گلے لگا لیا، چونکہ ظاہر ہے اپنے خلیفہ تھے اور اپنے مرید تھے تو ان کو گلے کے ساتھ لگا لیا، میں نوجوان تھا دل میں یہ خیال آیا کہ مجھے بھی گلے سے لگا لیتے (یعنی انسان کے دل میں تو آسکتا ہے) تو میری طرف گھور کے دیکھا، دل میں باتیں نہ رکھو، میں نے کہا ٹھیک ہے۔ تسنیم الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کیا بات ہے؟ میں نے کہا ہماری آپس کی بات ہے، کیونکہ اب میں کیا کہہ سکتا تھا، بس بات ختم۔ اچھا اب صبح کا وقت ہے، حضرت ایک چارپائی پہ بیٹھے ہوئے ہیں اور دوسری چارپائی پہ تسنیم الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور تیسری چارپائی پہ میں بیٹھا ہوں، میں درمیان میں بیٹھا ہوں اور حضرت نے میرے دل کو کھولنا شروع کردیا اور ایک ایک چیز کا جواب دے رہے ہیں اور تفصیل کے ساتھ کہ یہ اس طرح ہے، یہ اس طرح ہے، یہ اس طرح اور میں سن رہا ہوں کہ میرے لئے کہا جارہا ہے، تو میں تو بڑے مزے سے سن رہا ہوں تو تسنیم الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ادھر سے آواز دی کہ پیری مریدی بڑھے گی اور کہا کہ حضرت! اگر یہ بات مجھے آپ بتا رہے ہیں تو اس طرح عمل نہیں کرسکتا، فرمایا تجھے نہیں کہہ رہا، تو پھر کس کو کہہ رہے تھے؟ تین ہی تو آدمی تھے، پھر مجھے ہی کہہ رہے تھے تو ثابت ہوا کہ حضرت نے ہمارا دل کھول لیا تھا۔
اب اس سے آگے کا واقعہ بتاتا ہوں کہ تصوف سینہ بہ سینہ ہے۔ حضرت نے فرمایا میں بیٹھا ہوں، حضرت مہمند بابا جی میری طرف متوجہ ہیں، اب اگرچہ مجھے کشف نہیں ہوتا اور میں لکھ کر دے سکتا ہوں کہ مجھے کشف نہیں ہوتا، لیکن ہوا کیا کہ میں نے دیکھا میرا دل حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا حلقہ ہے اور اس کے اندر گرا ہوا ہے، میں اس سے نکلنا چاہتا ہوں، پر نہیں نکل سکتا، اور یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے میں دیکھ رہا ہوں، تو میری طبیعت پہ بڑا انقباض آیا، کیونکہ میں مہمند بابا جی کے سامنے بیٹھا ہوں اور وہ میری طرف متوجہ ہیں، لیکن میں ان کی طرف متوجہ نہیں ہوسکتا، تو میں تو بے کار ہوں، خیر تسنیم الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے نوٹ کیا کہ اس کی طبیعت پہ کچھ انقباض ہے، تو مجھ سے پوچھتے ہیں کیا بات ہے؟ کیوں انقباض ہے؟ میں نے کہا ویسے ہی۔ چونکہ اب یہ بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ میرے ساتھ یہ معاملہ ہے اور ان کا شیخ سامنے ہے۔ تو رات کو میں نے خواب دیکھا (میں حضرت کی طویل عمری سے بہت متأثر ہوگیا تھا کہ اتنے مجاہدے اور اتنی ریاضتیں کی تھیں، تو حضرت کو میں نے خواب میں دیکھا کہ) مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ بہت زیادہ عمر کے ہیں، تو جب میں جاگا تو میں نے کہا جواب مل گیا۔ پھر میں نے دوسرے بزرگ سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا تمھارے شیخ تمھارے لئے کافی ہیں، وہ تمھارے لئے سب کچھ ہیں۔ دوسرا پھر میں نے ان سے پوچھا، جو جاننے والے تھے۔ میں نے کہا کہ یہ کیا ہوا میرے ساتھ؟ فرمایا کہ اس حلقہ سے نکلے تو نہیں تھے؟ میں نے کہا: نہیں نکلا۔ فرمایا: کامیاب ہوگئے، اچھا ہوا کہ نکلے نہیں، ورنہ سب کچھ آپ کا ضائع ہوجاتا۔ اس کو کہتے ہیں ’’توحیدِ مطلب‘‘ یعنی کسی ایک کے ساتھ جمنا، جس کے ساتھ انسان ہو۔ اس کے ساتھ پھر کچھ ملتا ہے، ورنہ کبھی ادھر، کبھی ادھر، کبھی ادھر۔ نہ ادھر کے رہے، نہ ادھر کے رہے۔ یہ معاملہ پھر نہیں حل ہوتا، سینہ بہ سینہ چیز تب ملتی ہے، جب کسی ایک کے ساتھ ہو۔ ورنہ پھر اسی طریقے سے وقت پہ وقت ضائع ہورہا ہوتا ہے۔ اس کو کہتے ہیں ’’توحیدِ مطلب‘‘ اور یہ من جانب اللہ حفاظت ہوتی ہے۔ کیونکہ اللہ پاک کے فضل و کرم سے میری حفاظت ہورہی تھی، تو میرے لئے مراقبہ اللہ پاک نے خود ہی کرا دیا۔ میں کیا کرسکتا تھا! مجھے تو خود بھی پتا نہیں تھا، مجھے تو بعد میں وہ ساتھی بتا رہے ہیں، لیکن اللہ پاک نے مجھے باندھ لیا تھا، تو میں ایسے ہی باہر نہیں نکلا۔ پس میں عرض کرتا ہوں کہ اگر ہم لوگ ان چیزوں کو نہیں بھی جانتے، تو جو جاننے والے ہیں، وہ تو جانتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ عوام یعنی عام لوگ جو ہوتے ہیں، وہ ان چیزوں کو ان لوگوں کی طرف سے سمجھتے ہیں، حالانکہ وہ محض آلہ ہوتے ہیں، کرنے والا خدا ہوتا ہے۔ ہمیں الحمد للہ! سو فیصد یقین ہے، جس میں ہمیں درمیان میں کوئی اشکال نہیں ہے کہ کوئی انسان آپ کو کچھ نہیں دے سکتا، اگر اللہ نہ دینا چاہے۔ کسی اور کی کیا بات ہے، حضور ﷺ سے فرمایا:
﴿اِنَّکَ لَا تَھْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ﴾ (القصص: 56)
ترجمہ: ’’(اے پیغمبر) حقیقت یہ ہے کہ تم جس کو خود چاہو ہدایت تک نہیں پہنچا سکتے‘‘۔
یعنی جب ان سے فرمایا گیا ہے تو پھر کسی اور کی کیا بات ہے کہ وہ آپ کو ہدایت دینا چاہے۔ اگر اللہ کسی کو ہدایت دینا چاہے گا تو اس کو دے دے گا، چاہے جس ذریعے سے دینا چاہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کھڑکی میں کسی کو بٹھا دیا جائے اور طریقہ بھی بتا دیا جائے کہ یہ packets ہیں، جو جو آئیں ان کو دیتے جاؤ، اتنے packet اس کو دیں، اتنے packet اس کو دیں۔ اب وہ کھڑکی میں جو بیٹھا ہوا ہے، اس کی کھانے پہ نوکری ہے، اس کی اپنی مرضی تھوڑی ہے، تو اگر آپ اس سے منت کرلیں کہ مجھے بڑا packet دے دو، تو وہ کہے گا بڑے کہیں گے تو دے دوں گا، ورنہ نہیں۔ جیسے عزرائیل علیہ السلام سے کوئی منت کرکے کہے جی حضرت! پانچ منٹ بعد آجائیں۔ وہ مان لے گا؟ میکائیل علیہ السلام سے درخواست کریں کہ بارش تھوڑی سی زیادہ ہوجائے۔ ہوجائے گی؟ نہیں، وہ تو حکم کے غلام ہیں، جو حکم ہوگا اللہ کی طرف سے، وہی ہوگا، اور ہمارے اعمال جو جائیں گے، اس کی وجہ سے ان کو حکم ملے گا، میکائیل علیہ السلام کو جو حکم مل رہا ہے، ہمارے اعمال کی وجہ سے مل رہا ہے، جبرائیل علیہ السلام کو جو حکم مل رہا ہے، وہ ہمارے اعمال کی وجہ سے مل رہا ہے، جو اسرافیل علیہ السلام کو ملے گا، وہ اپنے لحاظ سے ہوگا، عزرائیل علیہ السلام کو ملے گا، وہ اپنے لحاظ سے ہوگا۔ تو یہ والی باتیں ہیں کہ ہمارا معاملہ اللہ کے ساتھ ہے کہ اللہ کے ساتھ ہمارا معاملہ صاف ہو تو ساری چیزیں درست ہوجائیں گی۔ لیکن مشائخ کے ہاں جب اس قسم کے کام ہوتے ہیں تو اس کو لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ مشائخ کرتے ہیں اور جو سوچتے ہیں کہ مشائخ کرتے ہیں، تو یہ شرک ہوجاتا ہے اور اگر یہ سوچ کے کہیں کہ اللہ کرتا ہے تو پھر شرک نہیں ہے، پھر کسی کے ذریعے بھی اللہ تعالیٰ کرا سکتا ہے۔ یہاں ایک حدیث شریف کا میرے خیال میں استحضار ہونا چاہئے کہ فرمایا:
’’اِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ وَاللّٰهُ یُعْطِیْ‘‘ (مشکوٰۃ، حدیث نمبر: 200)
ترجمہ: ’’میں تقسیم کرنے والا ہوں، اللہ پاک اللہ تعالیٰ عطا فرمانے والے ہیں‘‘
تو بس اتنی سی بات ہے کہ اللہ جل شانہٗ عطا فرماتے ہیں، تقسیم حضور ﷺ کے ذمہ تھی۔ اب اگر اللہ جل شانہٗ نے کسی اور کے ذمہ کوئی تقسیم لگائی ہے تو ٹھیک ہے۔ مولانا عزیر گل صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے میری ملاقات ہوئی، یہ بہت بڑے بزرگ تھے اپنے دور کے، تو حضرت سے میرا تعارف کرایا گیا میرے والد صاحب کے لحاظ سے اور شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے حوالہ سے اور حضرت دونوں کو بہت پسند فرماتے تھے، تو بہت خوش ہوئے اور مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں فرمایا وہ مجھے بزرگ سمجھتے ہیں، حالانکہ بزرگ وہ ہیں، کیونکہ وہ کام کرتے ہیں۔ پھر فرمایا مولانا صاحب کو اس لئے بٹھایا گیا ہے کہ جس کو اللہ ہدایت دینا چاہے، وہاں پر اس کے ذریعے سے اس کو ہدایت دے دے۔ اب بتاؤ! اور پھر مجھے ارشاد فرمایا کہ اب اور کسی کے پیچھے نہیں چلنا۔ تو یہ حضرت مولانا عزیر گل صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے گویا کہ ہمیں signal دے دیا۔ اس لئے میں عرض کرتا ہوں کہ بزرگوں کے ساتھ جو ہمارا تعلق ہے، وہ اس لئے نہیں کہ بزرگوں کی جیب میں کوئی ایسی چیز ہے جو ہم لے لیں گے۔ بلکہ یہ ایسی بات ہے جیسے tap سے پانی نکلتا ہے، نکلتا ہوا نظر آتا ہے tap سے۔ لیکن اس کے پیچھے پائپ نہ ہو اور پائپ کا connection ٹینک کے ساتھ نہ ہو تو پانی آئے گا پھر؟ پانی نہیں آئے گا، کیونکہ پانی جو tap میں آتا ہے، وہ پائپ کے ذریعے سے ٹینک سے آتا ہے، یوں سمجھ لیجئے کہ آپ کا جو tap ہے یہ شیخ ہے اور جو پائپ ہے یہ سلسلہ ہے اور ٹینک کیا ہے، اللہ جل شانہٗ کا خزانہ ہے، جہاں سے سب کو مل رہا ہے۔ اب ایک آدمی کہتا ہے کہ نہیں مجھے اللہ تعالیٰ سے براہ راست مل جائے۔ تو ٹھیک ہے خواہش انسان کرسکتا ہے، لیکن اللہ پاک اپنے اسباب کسی کے لئے تبدیل تو نہیں کرتا، کیونکہ سنت عادیہ ہوتی ہے اور سنت عادیہ اگر ایسے بنا لی ہے کہ پیغمبروں کے ذریعے مل رہا ہے اور کتاب کے ذریعے مل رہا ہے اور پیغمبر کے متبعین کے ذریعے مل رہا ہے تو اب اگر اللہ پاک نے یہ ذریعہ بنایا ہوا ہے تو ہم اس کو تبدیل تو نہیں کرسکتے، اللہ پاک نے جو ذریعہ بنایا ہے، اسی کو اختیار کرنا ہے۔ اسباب دو قسم کے ہوتے ہیں، جسمانی اسباب ہوتے ہیں، روحانی اسباب ہوتے ہیں، ہم لوگ ظاہری علم کو اگر حاصل کرتے ہیں تو یہ جسمانی ذریعہ ہے۔
ارشاد: حضرات صوفیہ صاحبِ تقوٰی بھی ہیں اور صاحبِ وہب بھی۔ اس لئے ان کا فہم دوسروں سے بڑھا ہوا ہے۔
فرمایا ان میں تقویٰ ہوتا ہے اور تقویٰ سے دل نورانی ہوجاتا ہے، لہٰذا یہ غلط چیزیں ذہن میں نہیں آتیں، نتیجتاً جو ذہن ہوتا ہے، وہ صحیح بات تک پہنچ جاتا ہے اور دوسرا یہ کہ اللہ پاک کا ان کے اوپر فضل بھی ہوتا ہے۔ فرمایا:
عطائی اور طبیب حاذق کا فرق:
ارشاد: طبیب حاذق کے ہاتھ سے اگر کسی کو شفا نہ ہو اور مر جائے تو اس سے قیامت میں باز پرس نہ ہوگی، کیونکہ وہ فن کو جان کر علاج کرتا ہے۔ بخلاف عطائی کے کہ اس کے ہاتھ سے کسی کو شفا ہوگی، جب بھی مواخذہ ہوگا اور کوئی مر گیا تو اچھی طرح گردن ناپی جائے گی، کیونکہ وہ فن سے واقف نہیں۔
جیسے اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ:
﴿وَأْتُوْا الْبُیُوْتَ مِنْ اَبْوَابِھَا﴾ (البقرۃ: 189)
ترجمہ: ’’اور تم گھروں میں ان کے دروازوں سے داخل ہوا کرو‘‘۔
اب اس کا مطلب یہ ہے کہ جو کام بھی آپ کریں تو سیکھ کے کریں۔ جیسے ڈاکٹر ہے، وہ انسان کی صحت اور جان کے ساتھ کھیل رہا ہے، تو ایسی صورت میں اگر اس نے سیکھا نہیں ہے اور علاج کررہا ہے تو ٹھیک بھی کررہا ہوگا پھر بھی غلط کررہا ہے، کیونکہ اصول غلط ہے اور اگر مر گیا پھر تو قاتل ہے، کیونکہ اس کو آتا نہیں ہے، طریقہ نہیں آتا، لیکن اگر صحیح ڈاکٹر ہے اور اگر وہ کوشش کرتا ہے اس کو بچانے کی اور اس کے ہاتھ سے مر گیا تو بس ٹھیک ہے، اس سے اللہ پاک نہیں پوچھیں گے، کیونکہ وہ سیکھ کے کررہا ہے۔
اہل اللہ بے حد شفیق ہوتے ہیں:
ارشاد: اہل اللہ کو مسلمانوں پر بے حد شفقت اور مصالح کی بے حد رعایت ہوتی ہے۔
یعنی جو اہل اللہ ہوتے ہیں، چونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتے ہیں، تو وہ مسلمانوں پر بے حد شفقت اختیار کرتے ہیں اور مسئلہ کی خوب رعایت کرتے ہیں، کیونکہ سب کچھ اللہ کے لئے کرتے ہیں اور جو کام اللہ کے لئے کرتا ہے تو پھر وہ کام ٹھیک کرے اور جو کسی اور کے لئے کرتا ہے تو جب تک وہ نہیں ہوگا تو کام صحیح نہیں ہوگا، لیکن جو اللہ کے لئے کرے گا تو اللہ تو ہر جگہ ہے، لہٰذا وہ درمیان میں گڑبڑ نہیں کرسکتا۔ لہٰذا جو اہل اللہ ہوتے ہیں، وہ مسلمانوں پر شفیق بھی ہوتے ہیں، کیونکہ اللہ کے لئے کرتے ہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ ہر مسئلہ رعایت کرتے ہیں۔
شیخ کے سامنے اس طرح نہ کھڑا ہو کہ اس پر سایہ پڑے:
ارشاد: شیخ کے سامنے اس طرح نہ کھڑا ہو کہ اس پر سایہ پڑے، بات یہ ہے کہ اس سے بھی الجھن ہوتی ہے، پس اس کا منشاء اذیت ہونے کی وجہ سے منع کیا گیا۔
فرمایا کہ شیخ کے دل میں کدورت نہیں آنی چاہئے، چاہے کسی بھی چیز سے آجائے۔ تو یہ بھی الجھن ہوتی ہے اور اس سے پھر کدورت آجائے گی، لہٰذا نقصان ہوگا، اس لئے کہتے ہیں کہ شیخ کے سامنے اس طرح نہیں کھڑا ہونا چاہئے کہ اس پہ سایہ پڑے۔ فرمایا
شیخ کی جائے نماز پر نماز پڑھنا بے ادبی ہے:
ارشاد: اجازت کے بعد شیخ کی جگہ یا مصلّٰی پر نماز پڑھنے اور ذکر کرنے کا مضائقہ نہیں۔ بغیر اجازت کے ایسا نہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہ دعویٰ مساوات کا ہے، اگر حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما جو حضور ﷺ کی جگہ نماز پڑھتے تھے تو اس کا منشاء محض اتباع تھا، نہ کہ دعویٰ مساوات۔ علاوہ اس کے ایک بات اور ہے کہ مبنیِ ادب عرف پر ہے اور تبدّلِ عرفیات سے عرفیات کا حکم بدل جاتا ہے۔ تو صحابہ کے زمانہ میں کسی کی جائے نماز پر نماز پڑھنا خلاف ادب نہ تھا اور اب ہے۔
مطلب یہ ہے کہ اگر شیخ اجازت دے دے تو ٹھیک ہے، پھر اس کے مصلی پہ نماز پڑھ لو، لیکن اگر اجازت نہ دے تو پھر نہیں پڑھنی چاہئے، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ برابری کا دعویٰ ہے اور شیخ کے ساتھ برابری بالکل نہیں کرنی چاہئے۔ دیکھیں! پانی ڈھلوان کی طرف بہتا ہے، مثلاً اگر ایک چیز برابر ہے تو پانی ادھر سے ادھر جائے گا اور اوپر ہوگی تو پھر تو بالکل بھی نہیں جائے گا۔ لہٰذا شیخ کو اپنے سے اونچا رکھنا تاکہ اس کا فیض آجائے اور اگر اس کے برابر سمجھے گا تو پھر فیض نہیں آئے گا، بند ہوجائے گا۔
ادب کی تحصیل کا طریقہ:
ارشاد: ادب کا مدار اس پر ہے کہ ایذا نہ ہو۔ اس کلیہ کو ملحوظ رکھو، یہ مقصود ہے، باقی سب اس کے فروع ہیں، جو کہ امورِ انتظامیہ میں سے ہیں اور وہ تبدل زمانہ سے بدلتے رہتے ہیں، جیسے انتظام اوقات کا معیار پہلے گھڑی، گھنٹہ پر نہ تھا اور اب گھڑی، گھنٹہ پر ہے یا سفر کا مدار پہلے اونٹ، بیل، گھوڑے پر تھا، اور اب ریل اور موٹر پر۔ پس مشائخ کو اپنے ذوق سے کام لینا چاہئے کہ ان کو کس بات سے ایذا ہوتی ہے، کس بات سے نہیں، یہ نہ کیا جائے کہ کتابوں سے آداب دیکھ کر عمل کرنے لگیں، کیونکہ ہر جگہ، ہر زمانہ میں امورِ ایذا بدلتے رہتے ہیں، نیز ادب میں غلو بھی نہ کرے، کیونکہ غلو سے بھی ایذا ہوتی ہے۔
عجیب عجیب باتیں ہوتی ہیں، اللہ تعالیٰ سکھاتا ہے۔ ادب کا مدار اس پر ہے کہ جس کا آپ ادب کررہے ہیں، اسے تکلیف نہ ہو، مثلاً اگر آپ ادب کررہے ہیں اور اس کے جوتے لے لئے، پھر ایسی جگہ رکھ دیں کہ آپ خود ادھر نہ ہوں اور وہ پھرتا رہے تو ادب ہوگیا؟ اس بیچارے کو تو تکلیف ہوجائے گی، اگرچہ آپ نے ادباً جوتے لے لئے، لیکن پھر اس کا انتظام بھی تو کرنا چاہئے کہ موجود رہنا چاہئے۔ میں جب دارالعلوم کراچی میں پڑھاتا تھا تو ایک طالبعلم تھا ہمارے ساتھ، اس نے اپنی ڈیوٹی لگائی تھی کہ وہ میرے جوتے اٹھا لیتا تھا اور کمال کی بات یہ تھی کہ جب میں مسجد میں اندر داخل ہوتا تھا تو اس وقت وہ میرے ساتھ نہیں ہوتے تھے، لیکن میں جہاں بھی جوتے رکھ لیتا، مگر جس وقت میں باہر جاتا تو جوتے اس کے ہاتھ میں ہوتے، آئیے حضرت تشریف لائیے۔ میں حیران تھا، میں نے کہا یا اللہ! یہ کیسے ہوتا ہے، میں پہلے اسے دیکھتا ہوں یعنی نماز سے پہلے تو یہ میرے ساتھ نہیں ہوتا، میں آگیا ہوں، میں نے جوتے رکھے، تو اسے کیسے پتا چلا کہ میں نے فلاں جگہ پہ جوتے رکھے ہیں، تو پتا نہیں وہ کہاں ہوتا تھا، لیکن نظر اس پر ہوتی تھی۔ لہٰذا اگر کوئی کرنا چاہے تو پھر ایسا کرے۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک آدمی نماز پڑھنا چاہتا ہے اور وہ آپ کے پیچھے کھڑا ہوجائے گا ادب کے لحاظ سے، اب جب آپ نماز ختم کرلیں اور جانا چاہیں گے تو block ہوجائیں گے، تو اس ادب کا کیا فائدہ؟ جس سے اسے تکلیف ہوجائے۔ تو ایسا ادب ٹھیک نہیں، بلکہ ادب کا ایک طریقہ ہوتا ہے۔ تو حضرت فرماتے ہیں کہ ادب کی بنیاد اس پر ہے کہ اس کو تکلیف نہ ہو اور حضرت نے اس کی بڑی اچھی مثال دی فرمایا کہ حضور ﷺ جب مدینہ منورہ تشریف لے جارہے تھے ہجرت کے سفر میں تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ساتھ تھے، جب مدینہ منورہ پہنچے یعنی نواح میں تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ عمر میں زیادہ لگتے تھے اور آپ کی صحت زیادہ اچھی تھی اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ عمر میں آپ ﷺ سے زیادہ لگتے تھے۔ تو اب لوگ حضور ﷺ کو ابوبکر اور ابوبکر کو حضور ﷺ سمجھ رہے تھے اور سب لوگ آکر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے کھڑے ہوتے اور سلام کرتے اور وہ اس وجہ سے کہ یہ حضرت ﷺ سے مصافحہ کریں گے تو ان کو تکلیف ہوگی، لہٰذا وہ برابر مصافحہ کیے جارہے تھے، کسی کو نہیں کہا کہ آپ ﷺ تو یہ ہیں، بس برابر حضرت ﷺ کی طرف سے مصافحہ کیے جارہے تھے، یہاں تک کہ پڑاؤ ہوگیا تو پھر اس وقت پتا چلا کہ خادم کون اور مخدوم کون ہے، فوراً حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوگئے اور آپ ﷺ پر سایہ کردیا، پھر لوگوں کو پتا چلا کہ اوہ ہو! حضور ﷺ تو یہ ہیں اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ ہیں۔ تو یہ ادب ہے۔ تو ادب ایسی چیز ہے کہ جب کسی کو محبت ہوتی ہے تو ساری چیزیں خود ہی سکھاتی ہے یعنی محبت خود تجھے آداب سکھائے گی، اس لئے جن کو محبت ہوتی ہے تو واقعی ان کو پتا چلتا ہے، جیسے میں نے ابھی مثال دی ایک طالب علم کی جو دارالعلوم کراچی میں پڑھتا رہا تھا، میں حیران ہوتا تھا کہ جس وقت میں مسجد میں داخل ہوتا تھا، اس وقت تو وہ نہیں ہوتے تھے، لیکن جس وقت میں مسجد سے نکل جاتا تو میرے جوتے اس کے ہاتھ میں، اب اس کو کیسے پتا کہ میں نے جوتے کہاں رکھے ہیں، بس پتا نہیں کہاں سے اس کو نظر آتا تھا، کیا بات تھی، واللہ اعلم، میں نے کبھی اس سے پوچھا بھی نہیں اور مناسب بھی نہیں تھا۔ بہرحال وہ اس طرح کرتے تھے۔ لہٰذا جن کو محبت ہوتی، وہ ساری چیزوں کو سیکھ لیتے ہیں۔ لیکن جن کی محبت ہوتی ہے بناوٹی تو ان کو یہ چیزیں سمجھ نہیں آتیں، وہ تو وہ کرتا ہے، جو مشہور ہوتا ہے کہ یہ ادب ہے جیسے زبردستی آپ سے جوتے چھین لیں گے، جبکہ یہ ادب تو نہیں ہیں۔ لہٰذا اصل میں ادب اس پر منحصر ہے۔ پھر حضرت نے ایک اور بات فرمائی کہ ادب عرف پر بھی ہے، لہٰذا جس جگہ کا عرف ہو اسی کے مطابق عمل کیا جائے، مثلاً ہمارے صوبہ سرحد میں بہت زیادہ القاب و آداب نہیں ہوتے۔ یہاں پر کچھ حضرات کے ساتھ میرا آنا جانا تھا، تو میں تو چونکہ پشتو والوں کے ساتھ رہا ہوں، تو ان کا یہ خیال تھا کہ یہ بے ادب ہے۔ مفتی مختار الدین شاہ صاحب تشریف لائے تو ان سے کہا کہ دیکھو! یہ اس نے اس طرح کیا ہے، یہ اس طرح کیا ہے، تو مفتی صاحب نے کہا اوہ ہو! آپ لوگ کیوں نہیں سمجھے کہ ہم پشتو والے ان چیزوں کو نہیں جانتے، پھر کہتے حضرت صوفی اقبال صاحب رحمۃ اللہ علیہ کتنے بڑے بزرگ ہیں، مگر میں ان کو صوفی صاحب کہتا ہوں، تو آپ کہیں گے یہ بے ادب ہے، نہیں، یہ تو ہر جگہ کے اپنے حالات ہوتے ہیں، ہر جگہ کے ایک جیسے حالات تو نہیں، جیسے ہندوستان میں تکلفات ہی تکلفات ہیں، کھانے میں بھی، پوچھنے میں بھی اور لکھنو میں جائیں تو پھر تو ماشاء اللہ! ہر چیز کے اندر تکلف ہی تکلف اور صوبہ سرحد میں تکلف بالکل نہیں، جو کریں گے دل سے کریں گے۔ ایک دفعہ ایک ساتھی پشاور گئے تھے ڈیوٹی پہ تو مجھے کہتے کہ پشاور میں اگر آپ نے کسی سے راستہ پوچھا تو وہ اس چیز کو اپنے لئے مسئلہ بنائے گا، وہ آپ کو جب تک بس میں نہیں بٹھائے گا اور گاڑی میں نہیں بٹھائے گا، نہیں چھوڑے گا۔ میں نے کہا اچھا ہوا آپ نے چارسدہ میں نہیں دیکھا، اگر وہاں راستہ پوچھیں گے تو چائے پلائے بغیر وہ نہیں چھوڑے گا، بس ان کو پتا چل جائے گا کہ یہ تو اجنبی ہے۔ ایک دفعہ میں اس طرح کرچکا ہوں، تو مجھے پتا چلا کہ وہاں پر اگر کسی نے راستہ پوچھا تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اجنبی ہے، اب اجنبی کو بغیر چائے کے نہیں چھوڑے گا، کیونکہ وہاں پر دل کا ادب بہت ہے، لیکن ظاہری نہیں، ظاہری تلخ لہجہ، دو ٹوک بات یعنی اس قسم کی کوئی بات نہیں۔ اور مجھے پیار آتا ہے ان چیزوں پہ اور یہ صحیح بات ہے کہ جس کو کہتے ہیں کہ انسان دل کو دیکھ کر فیصلہ کرتا ہے، اس لئے مجھے تو پیار آتا ہے، لیکن جو ان چیزوں سے عادی نہیں ہے، تو وہ اس کو بے ادبی سمجھتا ہے کہ بھئی یہ تو واقعی بے ادب ہے، حالانکہ وہ بے ادبی نہیں ہوتی، وہ وہاں کا جو عرف ہوتا ہے، اس کے مطابق چلتا ہے۔